1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کلیات اقبال رحمۃ اللہ

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏20 جولائی 2011۔

  1. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
    مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد
    یہ مدرسہ، یہ جواں، یہ سرور و رعنائی
    انہی کے دم سے ہے میخانہ فرنگ آباد
    نہ فلسفی سے، نہ ملا سے ہے غرض مجھ کو
    یہ دل کی موت، وہ اندیشہ و نظر کا فساد
    فقیہ شہر کی تحقیر! کیا مجال مری
    مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد
    خرید سکتے ہیں دنیا میں عشرتِ پرویز
    خدا کی دین ہے سرمایۂ غم فرہاد
    کیے ہیں فاش رموز قلندری میں نے
    کہ فکر مدرسہ و خانقاہ ہو آزاد
    رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
    عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد
     
  2. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    کی حق سے فرشتوں نے اقبال کی غمازی
    گستاخ ہے، کرتا ہے فطرت کی حنا بندی
    خاکی ہے مگر اس کے انداز ہیں افلاکی
    رومی ہے نہ شامی ہے، کاشی نہ سمرقندی
    سکھلائی فرشتوں کو آدم کی تڑپ اس نے
    آدم کو سکھاتا ہے آداب خداوندی!
     
  3. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    نے مہرہ باقی، نے مہرہ بازی
    جیتا ہے رومی، ہارا ہے رازی
    روشن ہے جام جمشید اب تک
    شاہی نہیں ہے بے شیشہ بازی
    دل ہے مسلماں میرا نہ تیرا
    تو بھی نمازی، میں بھی نمازی!
    میں جانتا ہوں انجام اُس کا
    جس معرکے میں ملا ہوں غازی
    ترکی بھی شیریں، تازی بھی شیریں
    حرفِ محبت ترکی نہ تازی
    آزر کا پیشہ خارا تراشی
    کار خلیلاں خارا گدازی
    تو زندگی ہے، پائندگی ہے
    باقی ہے جو کچھ، سب خاک بازی
     
  4. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    گرم فغاں ہے جرس، اٹھ کہ گیا قافلہ
    وائے وہ رہرو کہ ہے منتظر راحلہ!
    تیری طبیعت ہے اور، تیرا زمانہ ہے اور
    تیرے موافق نہیں خانقہی سلسلہ
    دل ہو غلامِ خرد یا کہ امامِ خرد
    سالک رہ، ہوشیار! سخت ہے یہ مرحلہ
    اس کی خودی ہے ابھی شام و سحر میں اسیر
    گردش دوراں کا ہے جس کی زباں پر گلہ
    تیرے نفس سے ہوئی آتش گل تیز تر
    مرغ چمن! ہے یہی تیری نوا کا صلہ
     
  5. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    مری نوا سے ہوئے زندہ عارف و عامی
    دیا ہے میں نے انھیں ذوق آتش آشامی
    حرم کے پاس کوئی اعجمی ہے زمزمہ سنج
    کہ تار تار ہوئے جامہ ہائے احرامی
    حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
    بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
    مجھے یہ ڈر ہے مقامر ہیں پختہ کار بہت
    نہ رنگ لائے کہیں تیرے ہاتھ کی خامی
    عجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں
    شکوہ سنجر و فقر جنیدؒ و بسطامیؒ
    قبائے علم و ہنر لطف خاص ہے، ورنہ
    تری نگاہ میں تھی میری ناخوش اندامی!
     
  6. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    ہر اک مقام سے آگے گزر گیا مہ نو
    کمال کس کو میسر ہوا ہے بے تگ و دو
    نفس کے زور سے وہ غنچہ وا ہوا بھی تو کیا
    جسے نصیب نہیں آفتاب کا پرتو
    نگاہ پاک ہے تیری تو پاک ہے دل بھی
    کہ دل کو حق نے کیا ہے نگاہ کا پیرو
    پنپ سکا نہ خیاباں میں لالۂ دل سوز
    کہ ساز گار نہیں یہ جہان گندم و جو
    رہے نہ ایبک و غوری کے معرکے باقی
    ہمیشہ تازہ و شیریں ہے نغمہ خسرو
     
  7. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    کھو نہ جا اس سحروشام میں اے صاحب ہوش!
    اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش
    کس کو معلوم ہے ہنگامۂ فردا کا مقام
    مسجد و مکتب و مےخانہ ہیں مدت سے خموش
    میں نے پایا ہے اسے اشک سحر گاہی میں
    جس در ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش
    نئی تہذیب تکلف کے سوا کچھ بھی نہیں
    چہرہ روشن ہو تو کیا حاجت گلگونہ فروش!
    صاحبِ ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے
    گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش
     
  8. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    تھا جہاں مدرسہ ٔشیری و شاہنشاہی
    آج ان خانقہوں میں ہے فقط روباہی
    نظر آئی نہ مجھے قافلہ سالاروں میں
    وہ شبانی کہ ہے تمہید کلیم اللّٰہی
    لذت نغمہ کہاں مرغ خوش الحاں کے لیے
    آہ، اس باغ میں کرتا ہے نفس کوتاہی
    ایک سرمستی و حیرت ہے سراپا تاریک
    ایک سرمستی و حیرت ہے تمام آگاہی
    صفت برق چمکتا ہے مرا فکر بلند
    کہ بھٹکتے نہ پھریں ظلمت شب میں راہی
     
  9. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    ہے یاد مجھے نکتۂ سلمان خوش آہنگ
    دنیا نہیں مردان جفاکش کے لیے تنگ
    چیتے کا جگر چاہیے، شاہیں کا تجسّس
    جی سکتے ہیں بے روشنی دانش و فرہنگ
    کر بلبل و طاؤس کی تقلید سے توبہ
    بلبل فقط آواز ہے، طاؤس فقط رنگ!
     
  10. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ
    فقر ہے میروں کا میر، فقر ہے شاہوں کا شاہ
    علم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد
    فقر کا مقصود ہے عفت قلب و نگاہ
    علم فقیہ و حکیم، فقر مسیح و کلیم
    علم ہے جویائے راہ، فقر ہے دانائے راہ
    فقر مقامِ نظر، علم مقام خبر
    فقر میں مستی ثواب، علم میں مستی گناہ
    علم کا ’موجود‘ اور، فقر کا ’موجود‘ اور
    اَشھَدُ اَن لَّا اِلٰہ‘ اَشھَدُ اَن لاَّ اِلٰہ!
    چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تیغ خودی
    ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کار سپاہ
    دل اگر اس خاک میں زندہ و بیدار ہو
    تیری نگہ توڑ دے آئنۂ مہروماہ
     
  11. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    کمال جوش جنوں میں رہا میں گرم طواف
    خدا کا شکر، سلامت رہا حرم کا غلاف
    یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے
    کہ یک زباں ہیں فقیہان شہر میرے خلاف
    تڑپ رہا ہے فلاطوں میان غیب و حضور
    ازل سے اہل خرد کا مقام ہے اعراف
    ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
    گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف
    سرور و سوز میں ناپائدار ہے، ورنہ
    مے فرنگ کا تہ جرعہ بھی نہیں ناصاف
     
  12. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    شعور و ہوش و خرد کا معاملہ ہے عجیب
    مقام شوق میں ہیں سب دل و نظر کے رقیب
    میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہو گا
    مسائل نظری میں الجھ گیا ہے خطیب
    اگرچہ میرے نشیمن کا کر رہا ہے طواف
    مری نوا میں نہیں طائر چمن کا نصیب
    سنا ہے میں نے سخن رس ہے ترک عثمانی
    سنائے کون اسے اقبال کا یہ شعر غریب
    سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہم جوار اپنا
    ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب!
     
  13. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    قطعہ

    انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
    شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
    یا وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل
    یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات
    وہ مذہب مردان خود آگاہ و خدا مست
    یہ مذہب ملا و جمادات و نباتات
     
  14. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    رباعیات


    ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے
    بتا، کیا تو مرا ساقی نہیں ہے
    سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
    بخیلی ہے یہ رزّاقی نہیں ہے
    ٭
    دلوں کو مرکز مہر و وفا کر
    حریم کبریا سے آشنا کر
    جسے نان جویں بخشی ہے تو نے
    اُسے بازوئے حیدؓر بھی عطا کر
    ٭
    رہ و رسم حرم نا محرمانہ
    کلیسا کی ادا سوداگرانہ
    تبرک ہے مرا پیراہن چاک
    نہیں اہل جنوں کا یہ زمانہ
    ٭
    ظلام بحر میں کھو کر سنبھل جا
    تڑپ جا، پیچ کھا کھا کر بدل جا
    نہیں ساحل تری قسمت میں اے موج
    ابھر کر جس طرف چاہے نکل جا!
    ٭
    مکانی ہوں کہ آزاد مکاں ہوں
    جہاں بیں ہوں کہ خود سارا جہاں ہوں
    وہ اپنی لامکانی میں رہیں مست
    مجھے اتنا بتا دیں میں کہاں ہوں!
     
  15. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    رباعیات

    خودی کی خلوتوں میں گم رہا میں
    خدا کے سامنے گویا نہ تھا میں
    نہ دیکھا آنکھ اٹھا کر جلوۂ دوست
    قیامت میں تماشا بن گیا میں!
    ٭
    پریشاں کاروبار آشنائی
    پریشاں تر مری رنگیں نوائی!
    کبھی میں ڈھونڈتا ہوں لذت وصل
    خوش آتا ہے کبھی سوز جدائی!
    ٭
    یقیں، مثل خلیل آتش نشینی
    یقیں، اﷲ مستی، خود گزینی
    سن، اے تہذیب حاضر کے گرفتار
    غلامی سے بتر ہے بے یقینی
     
  16. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    رباعیات

    عرب کے سوز میں ساز عجم ہے
    حرم کا راز توحید امم ہے
    تہی وحدت سے ہے اندیشہ غرب
    کہ تہذیب فرنگی بے حرم ہے
    ٭
    کوئی دیکھے تو میری نے نوازی
    نفس ہندی، مقام نغمہ تازی
    نگہ آلودۂ انداز افرنگ
    طبیعت غزنوی، قسمت ایازی!
    ٭
    ہر اک ذرّے میں ہے شاید مکیں دل
    اسی جلوت میں ہے خلوت نشیں دل
    اسیر دوش و فردا ہے و لیکن
    غلام گردش دوراں نہیں دل
    ٭
    ترا اندیشہ افلاکی نہیں ہے
    تری پرواز لولاکی نہیں ہے
    یہ مانا اصل شاہینی ہے تیری
    تری آنکھوں میں بے باکی نہیں ہے
     
  17. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    رباعیات

    نہ مومن ہے نہ مومن کی امیری
    رہا صوفی، گئی روشن ضمیری
    خدا سے پھر وہی قلب و نظر مانگ
    نہیں ممکن امیری بے فقیری
    ٭
    خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
    خودی کی خلوتوں میں کبریائی
    زمین و آسمان و کرسی و عرش
    خودی کی زد میں ہے ساری خدائی!
    ٭
    نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو میں
    خرد کھوئی گئی ہے چار سو میں
    نہ چھوڑ اے دل فغان صبح گاہی
    اماں شاید ملے، ’اﷲ ھُو‘ میں!
    ٭
    جمال عشق و مستی نے نوازی
    جلال عشق و مستی بے نیازی
    کمال عشق و مستی ظرف حیدرؓ
    زوال عشق و مستی حرف رازی
    ٭
    وہ میرا رونق محفل کہاں ہے
    مری بجلی، مرا حاصل کہاں ہے
    مقام اس کا ہے دل کی خلوتوں میں
    خدا جانے مقام دل کہاں ہے!
     
  18. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    رباعیات

    سوار ناقہ و محمل نہیں میں
    نشان جادہ ہوں، منزل نہیں میں
    مری تقدیر ہے خاشاک سوزی
    فقط بجلی ہوں میں، حاصل نہیں میں
    ٭
    ترے سینے میں دم ہے، دل نہیں ہے
    ترا دم گرمی محفل نہیں ہے
    گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
    چراغ راہ ہے، منزل نہیں ہے
    ٭
    ترا جوہر ہے نوری، پاک ہے تو
    فروغ دیدئہ افلاک ہے تو
    ترے صید زبوں افرشتہ و حور
    کہ شاہین شہ لولاک ہے تو!
     
  19. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    رباعیات

    محبت کا جنوں باقی نہیں ہے
    مسلمانوں میں خوں باقی نہیں ہے
    صفیں کج، دل پریشاں، سجدہ بے ذوق
    کہ جذب اندروں باقی نہیں ہے
    ٭
    خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا
    مقام رنگ و بو کا راز پا جا
    برنگ بحر ساحل آشنا رہ
    کف ساحل سے دامن کھینچتا جا
    ٭
    چمن میں رخت گل شبنم سے تر ہے
    سمن ہے، سبزہ ہے، باد سحر ہے
    مگر ہنگامہ ہو سکتا نہیں گرم
    یہاں کا لالہ بے سوز جگر ہے
    ٭
    خرد سے راہرو روشن بصر ہے
    خرد کیا ہے، چراغ رہ گزر ہے
    درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
    چراغ رہ گزر کو کیا خبر ہے!
     
  20. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    رباعیات

    جوانوں کو مری آہ سحر دے
    پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
    خدایا! آرزو میری یہی ہے
    مرا نور بصیرت عام کر دے
    ٭
    تری دنیا جہان مرغ و ماہی
    مری دنیا فغان صبح گاہی
    تری دنیا میں میں محکوم و مجبور
    مری دنیا میں تیری پادشاہی!
    ٭
    کرم تیرا کہ بے جوہر نہیں میں
    غلام طغرل و سنجر نہیں میں
    جہاں بینی مری فطرت ہے لیکن
    کسی جمشید کا ساغر نہیں میں
    ٭
    وہی اصل مکان و لامکاں ہے
    مکاں کیا شے ہے، انداز بیاں ہے
    خضر کیونکر بتائے، کیا بتائے
    اگر ماہی کہے دریا کہاں ہے
     
  21. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    رباعیات

    کبھی آوارہ و بے خانماں عشق
    کبھی شاہ شہاں نوشیرواں عشق
    کبھی میداں میں آتا ہے زرہ پوش
    کبھی عریان و بے تیغ و سناں عشق!
    ٭
    کبھی تنہائی کوہ و دمن عشق
    کبھی سوز و سرور و انجمن عشق
    کبھی سرمایہ ٔمحراب و منبر
    کبھی مولا علیؓ خیبر شکن عشق!
    ٭
    عطا اسلاف کا جذب دروں کر
    شریک زمرئہ ’لَا یحزَنُوں‘ کر
    خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں
    مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر!
     
  22. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    رباعیات

    یہ نکتہ میں نے سیکھا بوالحسن سے
    کہ جاں مرتی نہیں مرگ بدن سے
    چمک سورج میں کیا باقی رہے گی
    اگر بیزار ہو اپنی کرن سے!
    ٭
    خرد واقف نہیں ہے نیک و بد سے
    بڑھی جاتی ہے ظالم اپنی حد سے
    خدا جانے مجھے کیا ہو گیا ہے
    خرد بیزار دل سے، دل خرد سے!
    ٭
    خدائی اہتمام خشک و تر ہے
    خداوندا! خدائی درد سر ہے
    ولیکن بندگی، استغفراﷲ!
    یہ درد سر نہیں، درد جگر ہے
     
  23. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    رباعیات

    یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا
    کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا
    نہ خود بیں، نے خدا بیں نے جہاں بیں
    یہی شہکار ہے تیرے ہنر کا!
    ٭
    دم عارف نسیم صبح دم ہے
    اسی سے ریشۂ معنی میں نم ہے
    اگر کوئی شعیب آئے میسر
    شبانی سے کلیمی دو قدم ہے
    ٭
    رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
    وہ دل، وہ آرزو باقی نہیں ہے
    نماز و روزہ و قربانی و حج
    یہ سب باقی ہیں، تو باقی نہیں ہے
     
  24. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    رباعیات

    کھلے جاتے ہیں اسرار نہانی
    گیا دور حدیث ’لن ترانی‘
    ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار
    وہی مہدی، وہی آخر زمانی!
    ٭
    زمانے کی یہ گردش جاودانہ
    حقیقت ایک تو، باقی فسانہ
    کسی نے دوش دیکھا ہے نہ فردا
    فقط امروز ہے تیرا زمانہ
    ٭
    حکیمی، نامسلمانی خودی کی
    کلیمی، رمز پنہانی خودی کی
    تجھے گر فقر و شاہی کا بتا دوں
    غریبی میں نگہبانی خودی کی!
    ٭
    ترا تن روح سے ناآشنا ہے
    عجب کیا! آہ تیری نارسا ہے
    تن بے روح سے بیزار ہے حق
    خدائے زندہ، زندوں کا خدا ہے
     
  25. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    قطعہ

    اقبال نے کل اہل خیاباں کو سنایا
    یہ شعر نشاط آور و پر سوز و طرب ناک
    میں صورت گل دست صبا کا نہیں محتاج
    کرتا ہے مرا جوش جنوں میری قبا چاک
     
  26. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    منظومات


    دُعا

    (مسجد قرطبہ میں لکھی گئی)

    ہے یہی میری نماز ، ہے یہی میرا وضو
    میری نواؤں میں ہے میرے جگر کا لہو
    صحبت اہل صفا ، نور و حضور و سرور
    سر خوش و پرسوز ہے لالہ لب آبجو
    راہ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق
    ساتھ مرے رہ گئی ایک مری آرزو
    میرا نشیمن نہیں درگہ میر و وزیر
    میرا نشیمن بھی تو ، شاخ نشیمن بھی تو
    تجھ سے گریباں مرا مطلع صبح نشور
    تجھ سے مرے سینے میں آتش 'اللہ ھو'
    تجھ سے مری زندگی سوز و تب و درد و داغ
    تو ہی مری آرزو ، تو ہی مری جستجو
    پاس اگر تو نہیں ، شہر ہے ویراں تمام
    تو ہے تو آباد ہیں اجڑے ہوئے کاخ و کو
    پھر وہ شراب کہن مجھ کو عطا کہ میں
    ڈھونڈ رہا ہوں اسے توڑ کے جام و سبو
    چشم کرم ساقیا! دیر سے ہیں منتظر
    جلوتیوں کے سبو ، خلوتیوں کے کدو
    تیری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلہ
    اپنے لیے لامکاں ، میرے لیے چار سو!
    فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا
    حرف تمنا ، جسے کہہ نہ سکیں رو برو

     
  27. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    مسجد قرطبہ

    (ہسپانیہ کی سرزمین ، بالخصوص قرطبہ میں لکھی گئی)


    سلسلۂ روز و شب ، نقش گر حادثات
    سلسلۂ روز و شب ، اصل حیات و ممات
    سلسلۂ روز و شب ، تار حریر دو رنگ
    جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
    سلسلۂ روز و شب ، ساز ازل کی فغاں
    جس سے دکھاتی ہے ذات زیروبم ممکنات
    تجھ کو پرکھتا ہے یہ ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ
    سلسلۂ روز و شب ، صیرفی کائنات
    تو ہو اگر کم عیار ، میں ہوں اگر کم عیار
    موت ہے تیری برات ، موت ہے میری برات
    تیرے شب وروز کی اور حقیقت ہے کیا
    ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات
    آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
    کار جہاں بے ثبات ، کار جہاں بے ثبات!
    اول و آخر فنا ، باطن و ظاہر فنا
    نقش کہن ہو کہ نو ، منزل آخر فنا
    ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام
    جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام
    مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
    عشق ہے اصل حیات ، موت ہے اس پر حرام
    تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو
    عشق خود اک سیل ہے ، سیل کو لیتاہے تھام
    عشق کی تقویم میں عصررواں کے سوا
    اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
    عشق دم جبرئیل ، عشق دل مصطفی
    عشق خدا کا رسول ، عشق خدا کا کلام
    عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک
    عشق ہے صہبائے خام ، عشق ہے کاس الکرام
    عشق فقیہ حرم ، عشق امیر جنود
    عشق ہے ابن السبیل ، اس کے ہزاروں مقام
    عشق کے مضراب سے نغمۂ تار حیات
    عشق سے نور حیات ، عشق سے نار حیات
    اے حرم قرطبہ! عشق سے تیرا وجود
    عشق سراپا دوام ، جس میں نہیں رفت و بود
    رنگ ہو یا خشت و سنگ ، چنگ ہو یا حرف و صوت
    معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود
    قطرۂ خون جگر ، سل کو بناتا ہے دل
    خون جگر سے صدا سوز و سرور و سرود
    تیری فضا دل فروز ، میری نوا سینہ سوز
    تجھ سے دلوں کا حضور ، مجھ سے دلوں کی کشود
    عرش معلّیٰ سے کم سینۂ آدم نہیں
    گرچہ کف خاک کی حد ہے سپہر کبود
    پیکر نوری کو ہے سجدہ میسر تو کیا
    اس کو میسر نہیں سوز و گداز سجود
    کافر ہندی ہوں میں ، دیکھ مرا ذوق و شوق
    دل میں صلوۃ و درود ، لب پہ صلوۃ و درود
    شوق مری لے میں ہے ، شوق مری نے میں ہے
    نغمۂ 'اللہ ھو' میرے رگ و پے میں ہے
    تیرا جلال و جمال ، مرد خدا کی دلیل
    وہ بھی جلیل و جمیل ، تو بھی جلیل و جمیل
    تیری بنا پائدار ، تیرے ستوں بے شمار
    شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل
    تیرے در و بام پر وادی ایمن کا نور
    تیرا منار بلند جلوہ گہ جبرئیل
    مٹ نہیں سکتا کبھی مرد مسلماں کہ ہے
    اس کی اذانوں سے فاش سر کلیم و خلیل
    اس کی زمیں بے حدود ، اس کا افق بے ثغور
    اس کے سمندر کی موج ، دجلہ و دنیوب و نیل
    اس کے زمانے عجیب ، اس کے فسانے غریب
    عہد کہن کو دیا اس نے پیام رحیل
    ساقئ ارباب ذوق ، فارس میدان شوق
    بادہ ہے اس کا رحیق ، تیغ ہے اس کی اصیل
    مرد سپاہی ہے وہ اس کی زرہ 'لا الہ'
    سایۂ شمشیر میں اس کا پنہ 'لا الہ'
    تجھ سے ہوا آشکار بندۂ مومن کا راز
    اس کے دنوں کی تپش ، اس کی شبوں کا گداز
    اس کا مقام بلند ، اس کا خیال عظیم
    اس کا سرور اس کا شوق ، اس کا نیاز اس کا ناز
    ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
    غالب و کار آفریں ، کارکشا ، کارساز
    خاکی و نوری نہاد ، بندۂ مولا صفات
    ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
    اس کی امیدیں قلیل ، اس کے مقاصد جلیل
    اس کی ادا دل فریب ، اس کی نگہ دل نواز
    نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو
    رزم ہو یا بزم ہو ، پاک دل و پاک باز
    نقطۂ پرکار حق ، مرد خدا کا یقیں
    اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز
    عقل کی منزل ہے وہ ، عشق کا حاصل ہے وہ
    حلقۂ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ
    کعبۂ ارباب فن! سطوت دین مبیں
    تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں
    ہے تہ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر
    قلب مسلماں میں ہے ، اور نہیں ہے کہیں
    آہ وہ مردان حق! وہ عربی شہسوار
    حامل ' خلق عظیم' ، صاحب صدق و یقیں
    جن کی حکومت سے ہے فاش یہ رمز غریب
    سلطنت اہل دل فقر ہے ، شاہی نہیں
    جن کی نگاہوں نے کی تربیت شرق و غرب
    ظلمت یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں
    جن کے لہو کے طفیل آج بھی ہیں اندلسی
    خوش دل و گرم اختلاط ، سادہ و روشن جبیں
    آج بھی اس دیس میں عام ہے چشم غزال
    اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں
    بوئے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے
    رنگ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے
    دیدۂ انجم میں ہے تیری زمیں ، آسماں
    آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
    کون سی وادی میں ہے ، کون سی منزل میں ہے
    عشق بلا خیز کا قافلۂ سخت جاں!
    دیکھ چکا المنی ، شورش اصلاح دیں
    جس نے نہ چھوڑے کہیں نقش کہن کے نشاں
    حرف غلط بن گئی عصمت پیر کنشت
    اور ہوئی فکر کی کشتی نازک رواں
    چشم فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب
    جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں
    ملت رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر
    لذت تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں
    روح مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب
    راز خدائی ہے یہ ، کہہ نہیں سکتی زباں
    دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا
    گنبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا!
    وادی کہسار میں غرق شفق ہے سحاب
    لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب
    سادہ و پرسوز ہے دختر دہقاں کا گیت
    کشتی دل کے لیے سیل ہے عہد شباب
    آب روان کبیر! تیرے کنارے کوئی
    دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
    عالم نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
    میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
    پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے
    لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب
    جس میں نہ ہو انقلاب ، موت ہے وہ زندگی
    روح امم کی حیات کشمکش انقلاب
    صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
    کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
    نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
    نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر

     
  28. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    قید خانے میں معتمدکی فریاد

    معتمد اشبیلیہ کا بادشاہ اور عربی شاعر تھا -ہسپانیہ کے ایک حکمران نے اس کو شکست دے کر قید میں ڈال دیا تھا - معتمد کی نظمیں انگریزی میں ترجمہ ہوکر '' وزڈم آف دی ایسٹ سیریز'' میں شائع ہو چکی ہیں

    اک فغان بے شرر سینے میں باقی رہ گئی
    سوز بھی رخصت ہوا ، جاتی رہی تاثیر بھی
    مرد حر زنداں میں ہے بے نیزہ و شمشیر آج
    میں پشیماں ہوں ، پشیماں ہے مری تدبیر بھی
    خود بخود زنجیر کی جانب کھنچا جاتا ہے دل
    تھی اسی فولاد سے شاید مری شمشیر بھی
    جو مری تیغ دو دم تھی ، اب مری زنجیر ہے
    شوخ و بے پروا ہے کتنا خالق تقدیر بھی


     
  29. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    عبد الرحمن اول کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت

    یہ اشعار جو عبد الرحمن اول کی تصنیف سے ہیں ، 'تاریخ المقری' میں درج ہیں مندرجہ ذیل اردو نظم ان کا آزاد ترجمہ ہے ( درخت مذکور مدینۃ الزہرا میں بویا گیا تھا


    میری آنکھوں کا نور ہے تو
    میرے دل کا سرور ہے تو
    اپنی وادی سے دور ہوں میں
    میرے لیے نخل طور ہے تو
    مغرب کی ہوا نے تجھ کو پالا
    صحرائے عرب کی حور ہے تو
    پردیس میں ناصبور ہوں میں
    پردیس میں ناصبور ہے تو
    غربت کی ہوا میں بارور ہو
    ساقی تیرا نم سحر ہو
    عالم کا عجیب ہے نظارہ
    دامان نگہ ہے پارہ پارہ
    ہمت کو شناوری مبارک!
    پیدا نہیں بحر کا کنارہ
    ہے سوز دروں سے زندگانی
    اٹھتا نہیں خاک سے شرارہ
    صبح غربت میں اور چمکا
    ٹوٹا ہوا شام کا ستارہ
    مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے
    مومن کا مقام ہر کہیں ہے


     
  30. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    ہسپانیہ

    ہسپانیہ کی سرزمین پر ، وآپس آنے سے پہلے لکھے گئے اشعارا


    ہسپانیہ تو خون مسلماں کا امیں ہے
    مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں
    پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
    خاموش اذانیں ہیں تری باد سحر میں
    روشن تھیں ستاروں کی طرح ان کی سنانیں
    خیمے تھے کبھی جن کے ترے کوہ و کمر میں
    پھر تیرے حسینوں کو ضرورت ہے حنا کی؟
    باقی ہے ابھی رنگ مرے خون جگر میں!
    کیونکر خس و خاشاک سے دب جائے مسلماں
    مانا ، وہ تب و تاب نہیں اس کے شرر میں
    غرناطہ بھی دیکھا مری آنکھوں نے و لیکن
    تسکین مسافر نہ سفر میں نہ حضر میں
    دیکھا بھی دکھایا بھی ، سنایا بھی سنا بھی
    ہے دل کی تسلی نہ نظر میں ، نہ خبر میں

     

اس صفحے کو مشتہر کریں