1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کلیات اقبال رحمۃ اللہ

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏20 جولائی 2011۔

  1. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    عقل گو آستاں سے دور نہیں
    اس کی تقدیر میں حضور نہیں
    دل بینا بھی کر خدا سے طلب
    آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
    علم میں بھی سرور ہے لیکن
    یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں
    کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں
    ایک بھی صاحب سرور نہیں
    اک جنوں ہے کہ باشعور بھی ہے
    اک جنوں ہے کہ باشعور نہیں
    ناصبوری ہے زندگی دل کی
    آہ وہ دل کہ ناصبور نہیں
    بے حضوری ہے تیری موت کا راز
    زندہ ہو تو تو بے حضور نہیں
    ہر گہر نے صدف کو توڑ دیا
    تو ہی آمادہ ظہور نہیں
    ’اَرِنی‘ میں بھی کَہ رہا ہوں، مگر
    یہ حدیث کلیمؑ و طور نہیں

     
  2. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
    تو آبجو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں
    طلسم گنبد گردوں کو توڑ سکتے ہیں
    زجاج کی یہ عمارت ہے، سنگ خارہ نہیں
    خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں
    مگر یہ حوصلۂ مرد ہیچ کارہ نہیں
    ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے
    کہ خاکِ زندہ ہے تو، تابع ستارہ نہیں
    یہیں بہشت بھی ہے، حور و جبرئیل بھی ہے
    تری نگہ میں ابھی شوخی نظارہ نہیں
    مرے جنوں نے زمانے کو خوب پہچانا
    وہ پیرہن مجھے بخشا کہ پارہ پارہ نہیں
    غضب ہے، عین کرم میں بخیل ہے فطرت
    کہ لعل ناب میں آتش تو ہے، شرارہ نہیں

     
  3. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی
    کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی
    تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے
    جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو روسیاہی
    نہ دیا نشان منزل مجھے اے حکیم تو نے
    مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے، تو نہ رہ نشیں نہ راہی
    مرے حلقۂ سخن میں ابھی زیر تربیت ہیں
    وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسم کجکلاہی
    یہ معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو تو کر
    کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی
    تو ہما کا ہے شکاری، ابھی ابتدا ہے تیری
    نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان مرغ و ماہی
    تو عرب ہو یا عجم ہو، ترا ’لَا اِلٰہ اِلاَّ‘
    لغت غریب، جب تک ترا دل نہ دے گواہی

     
  4. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    تری نگاہ فرومایہ، ہاتھ ہے کوتاہ
    ترا گنہ کہ نخیل بلند کا ہے گناہ
    گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
    کہاں سے آئے صدا ’لاَ اِلہ اِلاَّ اﷲ‘
    خودی میں گم ہے خدائی، تلاش کر غافل!
    یہی ہے تیرے لیے اب صلاح کار کی راہ
    حدیث دل کسی درویش بے گلیم سے پوچھ
    خدا کرے تجھے تیرے مقام سے آگاہ
    برہنہ سر ہے تو عزم بلند پیدا کر
    یہاں فقط سر شاہیں کے واسطے ہے کلاہ
    نہ ہے ستارے کی گردش، نہ بازی افلاک
    خودی کی موت ہے تیرا زوال نعمت و جاہ
    اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
    نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ!

     
  5. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
    ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
    ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
    حیات ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہیں
    گراں بہا ہے تو حفظ خودی سے ہے ورنہ
    گہر میں آب گہر کے سوا کچھ اور نہیں
    رگوں میں گردش خوں ہے اگر تو کیا حاصل
    حیات سوز جگر کے سوا کچھ اور نہیں
    عروس لالہ! مناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب
    کہ میں نسیم سحر کے سوا کچھ اور نہیں
    جسے کساد سمجھتے ہیں تاجران فرنگ
    وہ شے متاع ہنر کے سوا کچھ اور نہیں
    بڑا کریم ہے اقبال بے نوا لیکن
    عطائے شعلہ شرر کے سوا کچھ اور نہیں

     
  6. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے
    خراج کی جو گدا ہو، وہ قیصری کیا ہے!
    بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
    مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے!
    فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں
    خبر نہیں روش بندہ پروری کیا ہے
    فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
    نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
    اسی خطا سے عتاب ملوک ہے مجھ پر
    کہ جانتا ہوں مآل سکندری کیا ہے
    کسے نہیں ہے تمنائے سروری، لیکن
    خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے!
    خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
    وگرنہ شعر مرا کیا ہے، شاعری کیا ہے!
     
  7. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
    جہاں ہے تیرے لیے، تو نہیں جہاں کے لیے
    یہ عقل و دل ہیں شرر شعلہ محبت کے
    وہ خار و خس کے لیے ہے، یہ نیستاں کے لیے
    مقامِ پرورش آہ و نالہ ہے یہ چمن
    نہ سیر گل کے لیے ہے نہ آشیاں کے لیے
    رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک
    ترا سفینہ کہ ہے بحر بے کراں کے لیے!
    نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
    ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے
    نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پرسوز
    یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
    ذرا سی بات تھی، اندیشہ عجم نے اسے
    بڑھا دیا ہے فقط زیب داستاں کے لیے
    مرے گلو میں ہے اک نغمہ جبرئیل آشوب
    سنبھال کر جسے رکھا ہے لامکاں کے لیے
     
  8. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    تو اے اسیر مکاں! لامکاں سے دور نہیں
    وہ جلوہ گاہ ترے خاک داں سے دور نہیں
    وہ مرغزار کہ بیم خزاں نہیں جس میں
    غمیں نہ ہو کہ ترے آشیاں سے دور نہیں
    یہ ہے خلاصۂ علم قلندری کہ حیات
    خدنگ جستہ ہے لیکن کماں سے دور نہیں
    فضا تری مہ و پرویں سے ہے ذرا آگے
    قدم اٹھا، یہ مقام آسماں سے دور نہیں
    کہے نہ راہ نما سے کہ چھوڑ دے مجھ کو
    یہ بات راہرو نکتہ داں سے دور نہیں

     
  9. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل
    (یورپ میں لکھے گئے)



    خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
    سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ
    نہ بادہ ہے، نہ صراحی، نہ دور پیمانہ
    فقط نگاہ سے رنگیں ہے بزم جانانہ
    مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
    کہ میں ہوں محرم راز درون میخانہ
    کلی کو دیکھ کہ ہے تشنہ نسیِم سحر
    اسی میں ہے مرے دل کا تمام افسانہ
    کوئی بتائے مجھے یہ غیاب ہے کہ حضور
    سب آشنا ہیں یہاں، ایک میں ہوں بیگانہ
    فرنگ میں کوئی دن اور بھی ٹھہر جاؤں
    مرے جنوں کو سنبھالے اگر یہ ویرانہ
    مقام عقل سے آساں گزر گیا اقبال
    مقام شوق میں کھویا گیا وہ فرزانہ

     
  10. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
    کرتے ہیں خطاب آخر، اٹھتے ہیں حجاب آخر
    احوال محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا
    سوز و تب و تاب اوّل، سوزو تب و تاب آخر
    میں تجھ کو بتاتا ہوں، تقدیر امم کیا ہے
    شمشیر و سناں اوّل، طاؤس و رباب آخر
    میخانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں
    لاتے ہیں سرور اوّل، دیتے ہیں شراب آخر
    کیا دبدبۂ نادر، کیا شوکت تیموری
    ہو جاتے ہیں سب دفتر غرق مے ناب آخر
    خلوت کی گھڑی گزری، جلوت کی گھڑی آئی
    چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوش سحاب آخر
    تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا
    کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر
     
  11. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    ہر شے مسافر، ہر چیز راہی
    کیا چاند تارے، کیا مرغ و ماہی
    تو مرد میداں، تو میر لشکر
    نوری حضوری تیرے سپاہی
    کچھ قدر اپنی تو نے نہ جانی
    یہ بے سوادی، یہ کم نگاہی!
    دنیائے دوں کی کب تک غلامی
    یا راہبی کر یا پادشاہی
    پیر حرم کو دیکھا ہے میں نے
    کردار بے سوز، گفتار واہی
     
  12. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    ہر چیز ہے محو خود نمائی
    ہر ذرّہ شہید کبریائی
    بے ذوق نمود زندگی، موت
    تعمیر خودی میں ہے خدائی
    رائی زور خودی سے پربت
    پربت ضعف خودی سے رائی
    تارے آوارہ و کم آمیز
    تقدیر وجود ہے جدائی
    یہ پچھلے پہر کا زرد رو چاند
    بے راز و نیاز آشنائی
    تیری قندیل ہے ترا دل
    تو آپ ہے اپنی روشنائی
    اک تو ہے کہ حق ہے اس جہاں میں
    باقی ہے نمود سیمیائی
    ہیں عقدہ کشا یہ خار صحرا
    کم کر گلہ برہنہ پائی
     
  13. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ!
    ٹوٹا ہے ایشیا میں سحر فرنگیانہ
    تعمیر آشیاں سے میں نے یہ راز پایا
    اہل نوا کے حق میں بجلی ہے آشیانہ
    یہ بندگی خدائی، وہ بندگی گدائی
    یا بندۂ خدا بن یا بندۂ زمانہ!
    غافل نہ ہو خودی سے، کر اپنی پاسبانی
    شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ
    اے لَا اِلٰہ کے وارث! باقی نہیں ہے تجھ میں
    گفتار دلبرانہ، کردار قاہرانہ
    تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
    کھویا گیا ہے تیرا جذب قلندرانہ
    راز حرم سے شاید اقبال باخبر ہے
    ہیں اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ
     
  14. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    خردمندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
    کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں، میری انتہا کیا ہے
    خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
    خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
    مقام گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گرہوں
    یہی سوز نفس ہے، اور میری کیمیا کیا ہے!
    نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اُس میں
    نہ پوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشم سرمہ سا کیا ہے
    اگر ہوتا وہ مجذوب٭ فرنگی اس زمانے میں
    تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے
    نوائے صبح گاہی نے جگر خوں کر دیا میرا
    خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے، وہ خطا کیا ہے!

    ٭جرمنی کا مشہور فلسفی نطشہ
     
  15. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
    کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
    عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
    کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحرگاہی
    نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ!
    کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی
    اے طائر لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی
    جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
    دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اَولیٰ
    ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللّٰہی
    آئین جوانمرداں، حق گوئی و بے باکی
    اﷲ کے شیروں کو آتی نہیں رُوباہی
     
  16. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    مجھے آہ و فغان نیم شب کا پھر پیام آیا
    تھم اے رہرو کہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا
    ذرا تقدیر کی گہرائیوں میں ڈوب جا تو بھی
    کہ اس جنگاہ سے میں بن کے تیغ بے نیام آیا
    یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محراب مسجد پر
    یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا
    چل، اے میری غریبی کا تماشا دیکھنے والے
    وہ محفل اُٹھ گئی جس دم تو مجھ تک دور جام آیا
    دیا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا
    یہ اک مرد تن آساں تھا، تن آسانوں کے کام آیا
    اسی اقبال کی میں جستجو کرتا رہا برسوں
    بڑی مدت کے بعد آخر وہ شاہیں زیر دام آیا
     
  17. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی
    کہ میری زندگی کیا ہے، یہی طغیان مشتاقی
    مجھے فطرت نوا پر پے بہ پے مجبور کرتی ہے
    ابھی محفل میں ہے شاید کوئی درد آشنا باقی
    وہ آتش آج بھی تیرا نشیمن پھونک سکتی ہے
    طلب صادق نہ ہو تیری تو پھر کیا شکوئہ ساقی!
    نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے
    کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی براقی
    دلوں میں ولولے آفاق گیری کے نہیں اٹھتے
    نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو انداز آفاقی
    خزاں میں بھی کب آسکتا تھا میں صیاد کی زد میں
    مری غماز تھی شاخ نشیمن کی کم اوراقی
    الٹ جائیں گی تدبیریں، بدل جائیں گی تقدیریں
    حقیقت ہے، نہیں میرے تخیل کی یہ خلّاقی

     
  18. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    فطرت کو خرد کے روبرو کر
    تسخیر مقام رنگ و بو کر
    تو اپنی خودی کو کھو چکا ہے
    کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر
    تاروں کی فضا ہے بیکرانہ
    تو بھی یہ مقام آرزو کر
    عریاں ہیں ترے چمن کی حوریں
    چاک گل و لالہ کو رفو کر
    بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
    جو اس سے نہ ہو سکا، وہ تو کر!
     
  19. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    یہ پیران کلیسا و حرم، اے وائے مجبوری!
    صلہ ان کی کدو کاوش کا ہے سینوں کی بے نوری
    یقیں پیدا کر اے ناداں! یقیں سے ہاتھ آتی ہے
    وہ درویشی، کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری
    کبھی حیرت، کبھی مستی، کبھی آہ سحرگاہی
    بدلتا ہے ہزاروں رنگ میرا درد مہجوری
    حد ادراک سے باہر ہیں باتیں عشق و مستی کی
    سمجھ میں اس قدر آیا کہ دل کی موت ہے، دوری
    وہ اپنے حسن کی مستی سے ہیں مجبور پیدائی
    مری آنکھوں کی بینائی میں ہیں اسباب مستوری
    کوئی تقدیر کی منطق سمجھ سکتا نہیں ورنہ
    نہ تھے ترکان عثمانی سے کم ترکان تیموری
    فقیران حرم کے ہاتھ اقبال آگیا کیونکر
    میسر میرو سلطاں کو نہیں شاہین کافوری
     
  20. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم
    گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوب کلیم
    عقل عیار ہے، سو بھیس بنا لیتی ہے
    عشق بے چارہ نہ ملا ہے نہ زاہد نہ حکیم!
    عیش منزل ہے غریبان محبت پہ حرام
    سب مسافر ہیں، بظاہر نظر آتے ہیں مقیم
    ہے گراں سیر غم راحلہ و زاد سے تو
    کوہ و دریا سے گزر سکتے ہیں مانند نسیم
    مرد درویش کا سرمایہ ہے آزادی و مرگ
    ہے کسی اور کی خاطر یہ نصاب زر و سیم
     
  21. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
    ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
    تہی، زندگی سے نہیں یہ فضائیں
    یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں
    قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
    چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
    اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
    مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں
    تو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا
    ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
    اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
    کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
    گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
    یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں
     
  22. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل
    (فرانس میں لکھے گئے)


    ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام
    وائے تمنائے خام، وائے تمنائے خام!
    پیر حرم نے کہا سن کے مری روئداد
    پختہ ہے تیری فغاں، اب نہ اسے دل میں تھام
    تھا اَرِنی گو کلیم، میں اَرِنی گو نہیں
    اس کو تقاضا روا، مجھ پہ تقاضا حرام
    گرچہ ہے افشائے راز، اہل نظر کی فغاں
    ہو نہیں سکتا کبھی شیوۂ رندانہ عام
    حلقۂ صوفی میں ذکر، بے نم و بے سوز و ساز
    میں بھی رہا تشنہ کام، تو بھی رہا تشنہ کام
    عشق تری انتہا، عشق مری انتہا
    تو بھی ابھی ناتمام، میں بھی ابھی ناتمام
    آہ کہ کھویا گیا تجھ سے فقیری کا راز
    ورنہ ہے مال فقیر سلطنت روم و شام
     
  23. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل
    اگر ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل
    عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
    کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل
    فریب خوردۂ منزل ہے کارواں ورنہ
    زیادہ راحت منزل سے ہے نشاط رحیل
    نظر نہیں تو مرے حلقۂ سخن میں نہ بیٹھ
    کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثال تیغ اصیل
    مجھے وہ درس فرنگ آج یاد آتے ہیں
    کہاں حضور کی لذت، کہاں حجاب دلیل!
    اندھیری شب ہے، جدا اپنے قافلے سے ہے تو
    ترے لیے ہے مرا شعلۂ نوا، قندیل
    غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
    نہایت اس کی حسینؓ، ابتدا ہے اسمٰعیلؑ
     
  24. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے؟
    خانقاہوں میں کہیں لذت اسرار بھی ہے؟
    منزل راہرواں دور بھی، دشوار بھی ہے
    کوئی اس قافلے میں قافلہ سالار بھی ہے؟
    بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکۂ دین و وطن
    اس زمانے میں کوئی حیدرؓ کرار بھی ہے؟
    علم کی حد سے پرے، بندہ مومن کے لیے
    لذت شوق بھی ہے، نعمت دیدار بھی ہے
    پیر میخانہ یہ کہتا ہے کہ ایوان فرنگ
    سست بنیاد بھی ہے، آئنہ دیوار بھی ہے!
     
  25. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے
    عکس اس کا مرے آئینۂ ادراک میں ہے
    نہ ستارے میں ہے، نے گردش افلاک میں ہے
    تیری تقدیر مرے نالۂ بے باک میں ہے
    یا مری آہ میں کوئی شرر زندہ نہیں
    یا ذرا نم ابھی تیرے خس و خاشاک میں ہے
    کیا عجب مےری نوا ہائے سحر گاہی سے
    زندہ ہو جائے وہ آتش کہ تری خاک میں ہے
    توڑ ڈالے گی یہی خاک طلسم شب و روز
    گرچہ الجھی ہوئی تقدیر کے پیچاک میں ہے
     
  26. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    رہا نہ حلقۂ صوفی میں سوز مشتاقی
    فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی
    خراب کوشک سلطان و خانقاہ فقیر
    فغاں کہ تخت و مصلیٰ کمال زرّاقی
    کرے گی داور محشر کو شرمسار اک روز
    کتاب صوفی و ملا کی سادہ اوراقی
    نہ چینی و عربی وہ، نہ رومی و شامی
    سما سکا نہ دوعالم میں مرد آفاقی
    مئے شبانہ کی مستی تو ہو چکی، لیکن
    کھٹک رہا ہے دلوں میں کرشمۂ ساقی
    چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
    کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کار تریاقی
    عزیز تر ہے متاع امیر و سلطاں سے
    وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز و براقی
     
  27. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک
    اگرچہ مغربیوں کا جنوں بھی تھا چالاک
    مئے یقیں سے ضمیر حیات ہے پرسوز
    نصیب مدرسہ یا رب یہ آب آتش ناک
    عروج آدم خاکی کے منتظر ہیں تمام
    یہ کہکشاں، یہ ستارے، یہ نیلگوں افلاک
    یہی زمانۂ حاضر کی کائنات ہے کیا
    دماغ روشن و دل تیرہ و نگہ بے باک
    تو بے بصر ہو تو یہ مانع نگاہ بھی ہے
    وگرنہ آگ ہے مومن، جہاں خس و خاشاک
    زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ
    کسے خبر کہ جنُوں بھی ہے صاحب ادراک
    جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی
    میرے کلام پہ حجت ہے نکتۂ لولاک
     
  28. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہر یک دانہ
    یک رنگی و آزادی اے ہمت مردانہ!
    یا سنجر و طغرل کا آئین جہاں گیری
    یا مرد قلندر کے انداز ملوکانہ!
    یا حیرت فارابی یا تاب و تب رومی
    یا فکر حکیمانہ یا جذب کلیمانہ!
    یا عقل کی روباہی یا عشق یدُاللّٰہی
    یا حیلہ افرنگی یا حملہ ترکانہ!
    یا شرع مسلمانی یا دیر کی دربانی
    یا نعرۂ مستانہ، کعبہ ہو کہ بت خانہ!
    میری میں فقیری میں، شاہی میں غلامی میں
    کچھ کام نہیں بنتا بے جرأت رندانہ
     
  29. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    نہ تخت و تاج میں، نے لشکر و سپاہ میں ہے
    جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے
    صنم کدہ ہے جہاں اور مرد حق ہے خلیل
    یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لااِلٰہ میں ہے
    وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا
    یہ سنگ و خشت نہیں، جو تری نگاہ میں ہے
    مہ و ستارہ سے آگے مقام ہے جس کا
    وہ مشت خاک ابھی آوارگان راہ میں ہے
    خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے
    فرنگ رہ گزر سیل بے پناہ میں ہے
    تلاش اس کی فضاؤں میں کر نصیب اپنا
    جہان تازہ مری آہ صبح گاہ میں ہے
    مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادۂ ناب
    نہ مدرسے میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے
     
  30. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    غزل

    فطرت نے نہ بخشا مجھے اندیشۂ چالاک
    رکھتی ہے مگر طاقت پرواز مری خاک
    وہ خاک کہ ہے جس کا جنوں صیقل ادراک
    وہ خاک کہ جبریل کی ہے جس سے قبا چاک
    وہ خاک کہ پروائے نشیمن نہیں رکھتی
    چنتی نہیں پہنائے چمن سے خس و خاشاک
    اس خاک کو اﷲ نے بخشے ہیں وہ آنسو
    کرتی ہے چمک جن کی ستاروں کو عرق ناک
     

اس صفحے کو مشتہر کریں