1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کلیات اقبال رحمۃ اللہ

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏20 جولائی 2011۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    مذہب

    تضمین بر شعر میرزا بیدل

    تعلیم پیر فلسفۂ مغربی ہے یہ
    ناداں ہیں جن کو ہستی غائب کی ہے تلاش
    پیکر اگر نظر سے نہ ہو آشنا تو کیا
    ہے شیخ بھی مثال برہمن صنم تراش
    محسوس پر بنا ہے علوم جدید کی
    اس دور میں ہے شیشہ عقائد کا پاش پاش
    مذہب ہے جس کا نام، وہ ہے اک جنون خام
    ہے جس سے آدمی کے تخیل کو انتعاش
    کہتا مگر ہے فلسفۂ زندگی کچھ اور
    مجھ پر کیا یہ مرشد کامل نے راز فاش
    ''با ہر کمال اند کے آشفتگی خوش است
    ہر چند عقل کل شدہ ای بے جنوں مباش''
     
  2. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    جنگ یر موک کا ایک واقعہ


    صف بستہ تھے عرب کے جوانان تیغ بند
    تھی منتظر حنا کی عروس زمین شام
    اک نوجوان صورت سیماب مضطرب
    آ کر ہوا امیر عساکر سے ہم کلام
    اے بوعبیدہ رخصت پیکار دے مجھے
    لبریز ہو گیا مرے صبر و سکوں کو جام
    بے تاب ہو رہا ہوں فراق رسول میں
    اک دم کی زندگی بھی محبت میں ہے حرام
    جاتا ہوں میں حضور رسالت پناہ میں
    لے جاؤں گا خوشی سے اگر ہو کوئی پیام
    یہ ذوق و شوق دیکھ کے پرنم ہوئی وہ آنکھ
    جس کی نگاہ تھی صفت تیغ بے نیام
    بولا امیر فوج کہ ''وہ نوجواں ہے تو
    پیروں پہ تیرے عشق کا واجب ہے احترام
    پوری کرے خدائے محمد تری مراد
    کتنا بلند تیری محبت کا ہے مقام!
    پہنچے جو بارگاہ رسول امیں میں تو
    کرنا یہ عرض میری طرف سے پس از سلام
    ہم پہ کرم کیا ہے خدائے غیور نے
    پورے ہوئے جو وعدے کیے تھے حضور نے'
     
  3. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    مذ ہب

    اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
    خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
    ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
    قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
    دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
    اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
     
  4. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    پیوستہ رہ شجر سے ، امید بہار رکھ

    ڈالی گئی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹ
    ممکن نہیں ہری ہو سحاب بہار سے
    ہے لازوال عہد خزاں اس کے واسطے
    کچھ واسطہ نہیں ہے اسے برگ و بار سے
    ہے تیرے گلستاں میں بھی فصل خزاں کا دور
    خالی ہے جیب گل زر کامل عیار سے
    جو نغمہ زن تھے خلوت اوراق میں طیور
    رخصت ہوئے ترے شجر سایہ دار سے
    شاخ بریدہ سے سبق اندوز ہو کہ تو
    ناآشنا ہے قاعدۂ روزگار سے
    ملت کے ساتھ رابطۂ استوار رکھ
    پیوستہ رہ شجر سے ، امید بہار رکھ!
     
  5. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    شب معراج

    اختر شام کی آتی ہے فلک سے آواز
    سجدہ کرتی ہے سحر جس کو، وہ ہے آج کی رات
    رہ یک گام ہے ہمت کے لیے عرش بریں
    کہہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات
     
  6. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    پھول

    تجھے کیوں فکر ہے اے گل دل صد چاک بلبل کی
    تو اپنے پیرہن کے چاک تو پہلے رفو کر لے
    تمنا آبرو کی ہو اگر گلزار ہستی میں
    تو کانٹوں میں الجھ کر زندگی کرنے کی خو کرلے
    صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پا بہ گل بھی ہے
    انھی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے
    تنک بخشی کو استغنا سے پیغام خجالت دے
    نہ رہ منت کش شبنم نگوں جام وسبو کر لے
    نہیں یہ شان خودداری ، چمن سے توڑ کر تجھ کو
    کوئی دستار میں رکھ لے ، کوئی زیب گلو کر لے
    چمن میں غنچۂ گل سے یہ کہہ کر اڑ گئی شبنم
    مذاق جور گلچیں ہو تو پیدا رنگ و بو کر لے
    اگر منظور ہو تجھ کو خزاں ناآشنا رہنا
    جہان رنگ و بو سے، پہلے قطع آرزو کر لے
    اسی میں دیکھ ، مضمر ہے کمال زندگی تیرا
    جو تجھ کو زینت دامن کوئی آئینہ رو کر لے
     
  7. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    شیکسپیر

    شفق صبح کو دریا کا خرام آئینہ
    نغمۂ شام کو خاموشی شام آئینہ
    برگ گل آئنۂ عارض زبیائے بہار
    شاہد مے کے لیے حجلۂ جام آئینہ
    حسن آئنۂ حق اور دل آئنۂ حسن
    دل انساں کو ترا حسن کلام آئینہ
    ہے ترے فکر فلک رس سے کمال ہستی
    کیا تری فطرت روشن تھی مآل ہستی
    تجھ کو جب دیدۂ دیدار طلب نے ڈھونڈا
    تاب خورشید میں خورشید کو پنہاں دیکھا
    چشم عالم سے تو ہستی رہی مستور تری
    اور عالم کو تری آنکھ نے عریاں دیکھا
    حفظ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
    رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا
     
  8. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    میں اور تو

    نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا
    میں ہلاک جادوئے سامری، تو قتیل شیوۂ آزری
    میں نوائے سوختہ در گلو ، تو پریدہ رنگ، رمیدہ بو
    میں حکایت غم آرزو ، تو حدیث ماتم دلبری
    مرا عیش غم ،مرا شہد سم ، مری بود ہم نفس عدم
    ترا دل حرم، گرو عجم ترا دیں خریدہ کافری
    دم زندگی رم زندگی، غم زندگی سم زندگی
    غم رم نہ کر، سم غم نہ کھا کہ یہی ہے شان قلندری
    تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فقر و غنا نہ کر
    کہ جہاں میں نان شعیر پر ہے مدار قوت حیدری
    کوئی ایسی طرز طواف تو مجھے اے چراغ حرم بتا!
    کہ ترے پتنگ کو پھر عطا ہو وہی سرشت سمندری
    گلۂ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہل حرم سے ہے
    کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی 'ہری ہری'
    نہ ستیزہ گاہ جہاں نئی نہ حریف پنجہ فگن نئے
    وہی فطرت اسد اللہی وہی مرحبی، وہی عنتری
    کرم اے شہ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظر کرم
    وہ گدا کہ تو نے عطا کیا ہے جنھیں دماغ سکندری
     
  9. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    اسیری

    ہے اسیری اعتبار افزا جو ہو فطرت بلند
    قطرۂ نیساں ہے زندان صدف سے ارجمند
    مشک اذفر چیز کیا ہے ، اک لہو کی بوند ہے
    مشک بن جاتی ہے ہو کر نافۂ آہو میں بند
    ہر کسی کی تربیت کرتی نہیں قدرت، مگر
    کم ہیں وہ طائر کہ ہیں دام وقفس سے بہرہ مند
    ''شہپر زاغ و زغن در بند قید و صید نیست
    ایں سعادت قسمت شہباز و شاہیں کردہ اند''
     
  10. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    دریوزۂ خلافت

    اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے، جائے
    تو احکام حق سے نہ کر بے وفائی
    نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا
    خلافت کی کرنے لگا تو گدائی
    خریدیں نہ جس کو ہم اپنے لہو سے
    مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشائی
    ''مرا از شکستن چناں عار ناید
    کہ از دیگراں خواستن مومیائی''
     
  11. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    ہمایوں

    (مسٹر جسٹسں شاہ دین مرحوم )


    اے ہمایوں! زندگی تیری سراپا سوز تھی
    تیری چنگاری چراغ انجمن افروز تھی
    گرچہ تھا تیرا تن خاکی نزار و دردمند
    تھی ستارے کی طرح روشن تری طبع بلند
    کس قدر بے باک دل اس ناتواں پیکر میں تھا
    شعل ء گردوں نورد اک مشت خاکستر میں تھا
    موت کی لیکن دل دانا کو کچھ پروا نہیں
    شب کی خاموشی میں جز ہنگامۂ فردا نہیں
    موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی
    ہے یہ شام زندگی، صبح دوام زندگی
     
  12. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    خضر راہ

    شاعر


    ساحل دریا پہ میں اک رات تھا محو نظر
    گوشۂ دل میں چھپائے اک جہان اضطراب
    شب سکوت افزا، ہوا آسودہ، دریا نرم سیر
    تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب
    جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شیر خوار
    موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب
    رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر
    انجم کم ضو گرفتار طلسم ماہتاب
    دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیک جہاں پیما خضر
    جس کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب
    کہہ رہا ہے مجھ سے، اے جویائے اسرار ازل!
    چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب
    دل میں یہ سن کر بپا ہنگامۂ محشر ہوا
    میں شہید جستجو تھا، یوں سخن گستر ہوا
    اے تری چشم جہاں بیں پر وہ طوفاں آشکار
    جن کے ہنگامے ابھی دریا میں سوتے ہیں خموش
    'کشتی مسکین، و 'جان پاک' و 'دیوار یتیم،
    علم موسی بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش
    چھوڑ کر آبادیاں رہتا ہے تو صحرا نورد
    زندگی تیری ہے بے روز و شب و فردا دوش
    زندگی کا راز کیا ہے، سلطنت کیا چیز ہے
    اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش
    ہو رہا ہے ایشیا کا خرقۂ دیرینہ چاک
    نوجواں اقوام نو دولت کے ہیں پیرایہ پوش
    گرچہ اسکندر رہا محروم آب زندگی
    فطرت اسکندری اب تک ہے گرم ناؤنوش
    بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفی
    خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش
    آگ ہے، اولاد ابراہیم ہے، نمرود ہے
    کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے!

    جواب خضر

    صحرا نوردی

    کیوں تعجب ہے مری صحرا نوردی پر تجھے
    یہ تگا پوئے دمادم زندگی کی ہے دلیل
    اے رہین خانہ تو نے وہ سماں دیکھا نہیں
    گونجتی ہے جب فضائے دشت میں بانگ رحیل
    ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام
    وہ حضر بے برگ و ساماں، وہ سفر بے سنگ و میل
    وہ نمود اختر سیماب پا ہنگام صبح
    یا نمایاں بام گردوں سے جبین جبرئیل
    وہ سکوت شام صحرا میں غروب آفتاب
    جس سے روشن تر ہوئی چشم جہاں بین خلیل
    اور وہ پانی کے چشمے پر مقام کارواں
    اہل ایماں جس طرح جنت میں گرد سلسبیل
    تازہ ویرانے کی سودائے محبت کو تلاش
    اور آبادی میں تو زنجیری کشت و نخیل
    پختہ تر ہے گردش پہیم سے جام زندگی
    ہے یہی اے بے خبر راز دوام زندگی


    زندگی

    برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی
    ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
    تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
    جاوداں پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی
    اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
    سر آدم ہے، ضمیر کن فکاں ہے زندگی
    زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ
    جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی
    بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
    اور آزادی میں بحر بے کراں ہے زندگی
    آشکارا ہے یہ اپنی قوت تسخیر سے
    گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی
    قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب
    اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی
    خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار تو
    پختہ ہو جائے تو ہے شمشیر بے زنہار تو
    ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
    پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
    پھونک ڈالے یہ زمین و آسمان مستعار
    اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
    زندگی کی قوت پنہاں کو کر دے آشکار
    تا یہ چنگاری فروغ جاوداں پیدا کرے
    خاک مشرق پر چمک جائے مثال آفتاب
    تا بدخشاں پھر وہی لعل گراں پیدا کرے
    سوئے گردوں نالۂ شب گیر کا بھیجے سفیر
    رات کے تارں میں اپنے رازداں پیدا کرے
    یہ گھڑی محشر کی ہے ، تو عرصۂ محشر میں ہے
    پیش کر غافل ، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

     
  13. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    سرمایہ و محنت

    بندۂ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے
    خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیام کائنات
    اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر
    شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
    دست دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی
    اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
    ساحر الموط نے تجھ کو دیا برگ حشیش
    اور تو اے بے خبر سمجھا اسے شاخ نبات
    نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
    خواجگی نے خوب چن چن کے بنائے مسکرات
    کٹ مرا ناداں خیالی دیوتاؤں کے لیے
    سکرکی لذت میں تو لٹوا گیا نقد حیات
    مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
    انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
    اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی اندازہے
    مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
    ہمت عالی تو دریا بھی نہیں کرتی قبول
    غنچہ ساں غافل ترے دامن میں شبنم کب تلک
    نغمۂ بیداری جمہور ہے سامان عیش
    قصۂ خواب آور اسکندر و جم کب تلک
    آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا
    آسمان! ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک
    توڑ ڈالیں فطرت انساں نے زنجیریں تمام
    دوری جنت سے روتی چشم آدم کب تلک
    باغبان چارہ فرما سے یہ کہتی ہے بہار
    زخم گل کے واسطے تدبیر مرہم کب تلک
    کرمک ناداں! طواف شمع سے آزاد ہو
    اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو
     
  14. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    دنیائے اسلام


    کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں
    مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز
    لے گئے تثلیث کے فرزند میراث خلیل
    خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز
    ہوگئی رسوا زمانے میں کلاہ لالہ رنگ
    جو سراپا ناز تھے، ہیں آج مجبور نیاز
    لے رہا ہے مے فروشان فرنگستاں سے پارس
    وہ مۂ سرکش حرارت جس کی ہے مینا گداز
    حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
    ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز
    ہوگیا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو
    مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز
    گفت رومی ''ہر بناے کہنہ کآباداں کنند''
    می ندانی ''اول آں بنیاد را ویراں کنند''
    ''ملک ہاتھوں سے گیا ملت کی آنکھیں کھل گئیں''
    حق ترا چشمے عطا کردست غافل در نگر
    مومیائی کی گدائی سے تو بہتر ہے شکست
    مور بے پر! حاجتے پیش سلیمانے مبر
    ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات
    ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر
    پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصار دیں میں ہو
    ملک و دولت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر
    ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
    نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
    جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں ، مٹ جائے گا
    ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر
    نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہوگئی
    اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر
    تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استور
    لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
    اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش
    اے گرفتار ابوبکر و علی ہشیار باش
    عشق کو فریاد لازم تھی سو وہ بھی ہو چکی
    اب ذرا دل تھام کر فریاد کی تاثیر دیکھ
    تو نے دیکھا سطوت رفتار دریا کا عروج
    موج مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ
    عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے
    اے مسلماں آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ
    اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامان وجود
    مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہان پیر، دیکھ
    کھول کر آنکھیں مرے آئینۂ گفتار میں
    آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
    آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردوں کے پاس
    سامنے تقدیر کے رسوائی تدبیر دیکھ
    مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار
    ہر زماں پیش نظر، 'لایخلف المیعاد' دار
     
  15. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    طلوع اسلام

    دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
    افق سے آفتاب ابھرا ،گیا دور گراں خوابی
    عروق مردۂ مشرق میں خون زندگی دوڑا
    سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی
    مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے
    تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
    عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے
    شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابی
    اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل!
    ''نوا را تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی''
    تڑپ صحن چمن میں، آشیاں میں ، شاخساروں میں
    جدا پارے سے ہو سکتی نہیں تقدیر سیمابی
    وہ چشم پاک بیں کیوں زینت برگستواں دیکھے
    نظر آتی ہے جس کو مرد غازی کی جگر تابی
    ضمیر لالہ میں روشن چراغ آرزو کر دے
    چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے
    سرشک چشم مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا
    خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا
    کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
    یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
    ربود آں ترک شیرازی دل تبریز و کابل را
    صبا کرتی ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پیدا
    اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
    کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
    جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی
    جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
    ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
    بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
    نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
    کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا
    ترے سینے میں ہے پوشیدہ راز زندگی کہہ دے
    مسلماں سے حدیث سوز و ساز زندگی کہہ دے
    خدائے لم یزل کا دست قدرت تو، زباں تو ہے
    یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
    پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
    ستارے جس کی گرد راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے
    مکاں فانی ، مکیں آنی، ازل تیرا، ابد تیرا
    خدا کا آخری پیغام ہے تو، جاوداں تو ہے
    حنا بند عروس لالہ ہے خون جگر تیرا
    تری نسبت براہیمی ہے، معمار جہاں تو ہے
    تری فطرت امیں ہے ممکنات زندگانی کی
    جہاں کے جوہر مضمر کا گویا امتحاں تو ہے
    جہان آب و گل سے عالم جاوید کی خاطر
    نبوت ساتھ جس کو لے گئی وہ ارمغاں تو ہے
    یہ نکتہ سرگزشت ملت بیضا سے ہے پیدا
    کہ اقوام زمین ایشیا کا پاسباں تو ہے
    سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا
    لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
    یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی
    اخوت کی جہاں گیری، محبت کی فراوانی
    بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
    نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی
    میان شاخساراں صحبت مرغ چمن کب تک!
    ترے بازو میں ہے پرواز شاہین قہستانی
    گمان آباد ہستی میں یقیں مرد مسلماں کا
    بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی
    مٹایا قیصر و کسری کے استبداد کو جس نے
    وہ کیا تھا، زور حیدر، فقر بوذر، صدق سلمانی
    ہوئے احرار ملت جادہ پیما کس تجمل سے
    تماشائی شگاف در سے ہیں صدیوں کے زندانی
    ثبات زندگی ایمان محکم سے ہے دنیا میں
    کہ المانی سے بھی پائندہ تر نکلا ہے تورانی
    جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
    تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا
    غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
    جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
    کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
    نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
    ولایت ، پادشاہی ، علم اشیا کی جہاں گیری
    یہ سب کیا ہیں، فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں
    براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
    ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
    تمیز بندہ و آقا فساد آدمیت ہے
    حذر اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تغریریں
    حقیقت ایک ہے ہر شے کی، خاکی ہو کہ نوری ہو
    لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں
    یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
    جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
    چہ باید مرد را طبع بلندے ، مشرب نابے
    دل گرمے ، نگاہ پاک بینے ، جان بیتابے
    عقابی شان سے جھپٹے تھے جو ، بے بال و پر نکلے
    ستارے شام کے خون شفق میں ڈوب کر نکلے
    ہوئے مدفون دریا زیر دریا تیرنے والے
    طمانچے موج کے کھاتے تھے ، جو ، بن کر گہر نکلے
    غبار رہ گزر ہیں، کیمیا پر ناز تھا جن کو
    جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو، اکسیر گر نکلے
    ہمارا نرم رو قاصد پیام زندگی لایا
    خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے
    حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے
    جوانان تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے
    زمیں سے نوریان آسماں پرواز کہتے تھے
    یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے
    جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
    ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے
    یقیں افراد کا سرمایۂ تعمیر ملت ہے
    یہی قوت ہے جو صورت گر تقدیر ملت ہے
    تو راز کن فکاں ہے، اپنی انکھوں پر عیاں ہو جا
    خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا
    ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
    اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا
    یہ ہندی، وہ خراسانی، یہ افغانی، وہ تورانی
    تو اے شرمندۂ ساحل! اچھل کر بے کراں ہو جا
    غبار آلودۂ رنگ ونسب ہیں بال و پر تیرے
    تو اے مرغ حرم! اڑنے سے پہلے پرفشاں ہو جا
    خودی میں ڈوب جا غافل! یہ سر زندگانی ہے
    نکل کر حلقۂ شام و سحر سے جاوداں ہو جا
    مصاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر
    شبستان محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا
    گزر جا بن کے سیل تند رو کوہ و بیاباں سے
    گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا
    ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
    نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی
    ابھی تک آدمی صید زبون شہریاری ہے
    قیامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے
    نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
    یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
    وہ حکمت ناز تھا جس پر خرو مندان مغرب کو
    ہوس کے پنچۂ خونیں میں تیغ کارزاری ہے
    تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
    جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے
    عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی
    یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
    خروش آموز بلبل ہو ، گرہ غنچے کی وا کر دے
    کہ تو اس گلستاں کے واسطے باد بہاری ہے
    پھر اٹھی ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی
    زمیں جولاں گہ اطلس قبایان تتاری ہے
    بیا پیدا خریدارست جان ناتوانے را
    ''پس از مدت گذار افتاد بر ما کاروانے را''
    بیا ساقی نواے مرغ زار از شاخسار آمد
    بہار آمد نگار آمد نگار آمد قرار آمد
    کشید ابر بہاری خیمہ اندر وادی و صحرا
    صداے آبشاراں از فراز کوہسار آمد
    سرت گردم تو ہم قانون پیشیں سازدہ ساقی
    کہ خیل نغمہ پردازاں قطار اندر قطار آمد
    کنار از زاہداں برگیروبے باکانہ ساغر کش
    پس از مدت ازیں شاخ کہن بانگ ہزار آمد
    بہ مشتاقاں حدیث خواجہ بدر و حنین آور
    تصرف ہاے پنہانش بچشمم آشکار آمد
    دگر شاخ خلیل از خون ما نم ناک می گرد
    بیازار محبت نقد ما کامل عیار آمد
    سر خاک شہیدے برگہاے لالہ می پاشم
    کہ خونش با نہال ملت ما سازگار آمد
    ''بیا تا گل بیفشانیم و مے در ساغر اندازیم
    فلک را سقف بشگافیم و طرح دیگر اندازیم''

     
  16. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    غزل


    اے باد صبا! کملی والے سے جا کہیو پیغام مرا
    قبضے سے امت بیچاری کے دیں بھی گیا، دنیا بھی گئی
    یہ موج پریشاں خاطر کو پیغام لب ساحل نے دیا
    ہے دور وصال بحر بھی، تو دریا میں گھبرا بھی گئی!
    عزت ہے محبت کی قائم اے قیس! حجاب محمل سے
    محمل جو گیا عزت بھی گئی، غیرت بھی گئی لیلا بھی گئی
    کی ترک تگ و دو قطرے نے تو آبروئے گوہر بھی ملی
    آوارگی فطرت بھی گئی اور کشمکش دریا بھی گئی
    نکلی تو لب اقبال سے ہے، کیا جانیے کس کی ہے یہ صدا
    پیغام سکوں پہنچا بھی گئی ، دل محفل کا تڑپا بھی گئی
     
  17. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    غزل


    یہ سرود قمری و بلبل فریب گوش ہے
    باطن ہنگامہ آباد چمن خاموش ہے
    تیرے پیمانوں کا ہے یہ اے مۓ مغرب اثر
    خندہ زن ساقی ہے، ساری انجمن بے ہوش ہے
    دہر کے غم خانے میں تیرا پتا ملتا نہیں
    جرم تھا کیا آفرینش بھی کہ تو روپوش ہے
    آہ! دنیا دل سمجھتی ہے جسے، وہ دل نہیں
    پہلوئے انساں میں اک ہنگامۂ خاموش ہے
    زندگی کی رہ میں چل، لیکن ذرا بچ بچ کے چل
    یہ سمجھ لے کوئی مینا خانہ بار دوش ہے
    جس کے دم سے دلی و لاہور ہم پہلو ہوئے
    آہ، اے اقبال وہ بلبل بھی اب خاموش ہے

     
  18. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    غزل


    نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
    اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
    پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
    عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
    بے خطر کود پڑا آتش نمردو میں عشق
    عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
    عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گام عمل
    عقل سمجھی ہی نہیں معنی پیغام ابھی
    شیوۂ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی
    تو ہے زناری بت خانۂ ایام ابھی
    عذر پرہیز پہ کہتا ہے بگڑ کر ساقی
    ہے ترے دل میں وہی کاوش انجام ابھی
    سعی پیہم ہے ترازوئے کم و کیف حیات
    تیری میزاں ہے شمار سحر و شام ابھی
    ابر نیساں! یہ تنک بخشی شبنم کب تک
    مرے کہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی
    بادہ گردان عجم وہ ، عربی میری شراب
    مرے ساغر سے جھجکتے ہیں مے آشام ابھی
    خبر اقبال کی لائی ہے گلستاں سے نسیم
    نو گرفتار پھڑکتا ہے تہ دام ابھی

     
  19. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    غزل



    پردہ چہرے سے اٹھا ، انجمن آرائی کر
    چشم مہر و مہ و انجم کو تماشائی کر
    تو جو بجلی ہے تو یہ چشمک پنہاں کب تک
    بے حجابانہ مرے دل سے شناسائی کر
    نفس گرم کی تاثیر ہے اعجاز حیات
    تیرے سینے میں اگر ہے تو مسیحائی کر
    کب تلک طور پہ دریوزہ گری مثل کلیم
    اپنی ہستی سے عیاں شعلۂ سینائی کر
    ہو تری خاک کے ہر ذرے سے تعمیر حرم
    دل کو بیگانۂ انداز کلیسائی کر
    اس گلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھا
    ناز بھی کر تو بہ اندازۂ رعنائی کر
    پہلے خوددار تو مانند سکندر ہو لے
    پھر جہاں میں ہوس شوکت دارائی کر
    مل ہی جائے گی کبھی منزل لیلی اقبال!
    کوئی دن اور ابھی بادیہ پیمائی کر


     
  20. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    غزل



    پھر باد بہار آئی ، اقبال غزل خواں ہو
    غنچہ ہے اگر گل ہو ، گل ہے تو گلستاں ہو
    تو خاک کی مٹھی ہے ، اجزا کی حرارت سے
    برہم ہو، پریشاں ہو ، وسعت میں بیاباں ہو
    تو جنس محبت ہے ، قیمت ہے گراں تیری
    کم مایہ ہیں سوداگر ، اس دیس میں ارزاں ہو
    کیوں ساز کے پردے میں مستور ہو لے تیری
    تو نغمۂ رنگیں ہے ، ہر گوش پہ عریاں ہو
    اے رہرو فرزانہ! رستے میں اگر تیرے
    گلشن ہے تو شبنم ہو، صحرا ہے تو طوفاں ہو
    ساماں کی محبت میں مضمر ہے تن آسانی
    مقصد ہے اگر منزل ، غارت گر ساماں ہو


     
  21. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    غزل


    کبھی اے حقیقت منتظر نظر لباس مجاز میں
    کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
    طرب آشنائے خروش ہو، تو نوا ہے محرم گوش ہو
    وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردۂ ساز میں
    تو بچابچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
    کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں
    دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثرکہن
    نہ تری حکایت سوز میں، نہ مری حدیث گداز میں
    نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی
    مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں
    نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں،نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
    نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
    جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
    ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں


     
  22. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    غزل



    تہ دام بھی غزل آشنا رہے طائران چمن تو کیا
    جو فغاں دلوں میں تڑپ رہی تھی، نوائے زیر لبی رہی
    ترا جلوہ کچھ بھی تسلی دل ناصبور نہ کر سکا
    وہی گریۂ سحری رہا ، وہی آہ نیم شبی رہی
    نہ خدا رہا نہ صنم رہے ، نہ رقیب دیر حرم رہے
    نہ رہی کہیں اسد اللہی، نہ کہیں ابولہبی رہی
    مرا ساز اگرچہ ستم رسیدۂ زخمہ ہائے عجم رہا
    وہ شہید ذوق وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی


     
  23. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    غزل



    گرچہ تو زندانیِ اسباب ہے
    قلب کو لیکن ذرا آزاد رکھ
    عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
    عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
    اے مسلماں! ہر گھڑی پیش نظر
    آیۂ 'لا یخلف المیعاد' رکھ
    یہ 'لسان العصر' کا پیغام ہے
    ''ان وعد اللہ حق'' یاد رکھ


     
  24. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    ظر یفا نہ


    مشرق میں اصول دین بن جاتے ہیں
    مغرب میں مگر مشین بن جاتے ہیں
    رہتا نہیں ایک بھی ہمارے پلے
    واں ایک کے تین تین بن جاتے ہیں


     
  25. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    ظر یفا نہ


    لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
    ڈھونڈلی قوم نے فلاح کی راہ
    روش مغربی ہے مدنظر
    وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
    یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
    پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ


     
  26. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    ظر یفا نہ


    شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں
    مفت میں کالج کے لڑکے ان سے بدظن ہو گئے
    وعظ میں فرما دیا کل آپ نے یہ صاف صاف
    ''پروہ آخر کس سے ہو جب مرد ہی زن ہو گئے''

    <o>

    یہ کوئی دن کی بات ہے اے مرد ہوش مند!
    یہ کوئی دن کی بات ہے اے مرد ہوش مند!
    غیرت نہ تجھ میں ہو گی، نہ زن اوٹ چاہے گی
    آتا ہے اب وہ دور کہ اولاد کے عوض
    کونسل کی ممبری کے لیے ووٹ چاہے گی

     
  27. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    ظر یفا نہ


    تعلیم مغربی ہے بہت جرأت آفریں
    پہلا سبق ہے، بیٹھ کے کالج میں مار ڈینگ
    بستے ہیں ہند میں جو خریدار ہی فقط
    آغا بھی لے کے آتے ہیں اپنے وطن سے ہینگ
    میرا یہ حال، لوٹ کی ٹو چاٹتا ہوں میں
    ان کا یہ حکم، دیکھ! مرے فرش پر نہ رینگ
    کہنے لگے کہ اونٹ ہے بھدا سا جانور
    اچھی ہے گائے، رکھتی ہے کیا نوک دار سینگ


     
  28. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    ظر یفا نہ


    کچھ غم نہیں جو حضرت واعظ ہیں تنگ دست
    تہذیب نو کے سامنے سر اپنا خم کریں
    رد جہاد میں تو بہت کچھ لکھا گیا
    تردید حج میں کوئی رسالہ رقم کریں


     
  29. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    ظر یفا نہ


    تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ!
    دفع مرض کے واسطے پل پیش کیجیے
    تھے وہ بھی دن کہ خدمت استاد کے عوض
    دل چاہتا تھا ہدیۂ دل پیش کیجیے
    بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق
    کہتا ہے ماسٹر سے کہ ''بل پیش کیجیے!''



     
  30. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    ظر یفا نہ



    انتہا بھی اس کی ہے؟ آخر خریدیں کب تلک
    چھتریاں، رومال، مفلر، پیرہن جاپان سے
    اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی
    آئیں گے غسال کابل سے ،کفن جاپان سے


     

اس صفحے کو مشتہر کریں