1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کلیات اقبال رحمۃ اللہ

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏20 جولائی 2011۔

  1. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    جوابِ شکوہ

    دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
    پر نہیں، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
    قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے
    خاک سے اٹھتی ہے، گردوں پہ گزر رکھتی ہے
    عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا
    آسماں چیر گیا نالۂ بیباک مرا
    پیر گردوں نے کہا سن کے، کہیں ہے کوئی
    بولے سیارے، سر عرشِ بریں ہے کوئی
    چاند کہتا تھا، نہیں! اہل زمیں ہے کوئی
    کہکشاں کہتی تھی، پوشیدہ یہیں ہے کوئی
    کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
    مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا
    تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا
    عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا!
    تا سر عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا!
    آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا!
    غافل آداب سے سکانِ زمیں کیسے ہیں
    شوخ و گستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں!
    اس قدر شوخ کہ اﷲ سے بھی برہم ہے
    تھا جو مسجودِ ملائک، یہ وہی آدم ہے!
    عالم کیف ہے، دانائے رموزِ کم ہے
    ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے
    ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
    بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو
    آئی آواز، غم انگیز ہے افسانہ ترا
    اشک بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا
    آسماں گیر ہوا نعرئہ مستانہ ترا
    کس قدر شوخ زباں ہے دلِ دیوانہ ترا
    شکر شکوے کو کیا حسن ادا سے تو نے
    ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے
    ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں
    راہ دکھلائیں کسے، رہرو منزل ہی نہیں
    تربیت عام تو ہے، جوہر قابل ہی نہیں
    جس سے تعمیر ہو آدم کی، یہ وہ گل ہی نہیں
    کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
    ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
    ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگر ہیں
    امتی باعث رسوائیِ پیغمبر ہیں
    بت شکن اٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں
    تھا براہیم پدر اور پسر آزر ہیں
    بادہ آشام نئے، بادہ نیا، خم بھی نئے
    حرمِ کعبہ نیا، بت بھی نئے، تم بھی نئے
    وہ بھی دن تھے کہ یہی مایۂ رعنائی تھا
    نازشِ موسم گل لالۂ صحرائی تھا
    جو مسلمان تھا، اﷲ کا سودائی تھا
    کبھی محبوب تمھارا یہی ہرجائی تھا
    کسی یکجائی سے اب عہد غلامی کر لو
    ملت احمد مرسل کو مقامی کر لو!
    کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
    ہم سے کب پیار ہے! ہاں نیند تمھیں پیاری ہے
    طبع آزاد پہ قید رمضاں بھاری ہے
    تمھی کہہ دو، یہی آئین وفاداری ہے؟
    قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
    جذبِ باہم جو نہیں، محفل انجم بھی نہیں
    جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن، تم ہو
    نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن، تم ہو
    بجلیاں جس میں ہوں آسودہ، وہ خرمن تم ہو
    بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو
    ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے
    کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے
    صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے؟
    نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے؟
    میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟
    میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے؟
    تھے تو آبا وہ تمھارے ہی، مگر تم کیا ہو
    ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو!
    کیا کہا! بہر مسلماں ہے فقط وعدئہ حور
    شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
    عدل ہے فاطر ہستی کا ازل سے دستور
    مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور
    تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں
    جلوئہ طور تو موجود ہے، موسیٰ ہی نہیں
    منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
    ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
    حرمِ پاک بھی، اﷲ بھی، قرآن بھی ایک
    کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
    فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
    کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
    کون ہے تارکِ آئین رسولِ مختار؟
    مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
    کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟
    ہوگئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بےزار؟
    قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں
    کچھ بھی پیغامِ محمد کا تمھیں پاس نہیں
    جاکے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا، تو غریب
    زحمت روزہ جو کرتے ہیں گوارا، تو غریب
    نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا، تو غریب
    پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمھارا، تو غریب
    امرا نشہ دولت میں ہیں غافل ہم سے
    زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے
    واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
    برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
    رہ گئی رسم اذاں، روحِ بلالی نہ رہی
    فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی
    مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
    یعنی وہ صاحب اوصافِ حجازی نہ رہے
    شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
    ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!
    وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
    یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
    یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
    تم سبھی کچھ ہو، بتاﺅ تو مسلمان بھی ہو!
    دمِ تقریر تھی مسلم کی صداقت بیباک
    عدل اس کا تھا قوی، لوثِ مراعات سے پاک
    شجر فطرتِ مسلم تھا حیا سے نم ناک
    تھا شجاعت میں وہ اک ہستی فوق الادراک
    خود گدازی نم کیفیت صہبایش بود
    خالی از خویش شدن صورتِ مینایش بود
    ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا
    اس کے آئینۂ ہستی میں عمل جوہر تھا
    جو بھروسا تھا اسے قوتِ بازو پر تھا
    ہے تمھیں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا
    باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
    پھر پسر قابل میراثِ پدر کیونکر ہو!
    ہر کوئی مست مے ذوقِ تن آسانی ہے
    تم مسلماں ہو! یہ اندازِ مسلمانی ہے!
    حیدری فقر ہے نے دولت عثمانی ہے
    تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟
    وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
    اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
    تم ہو آپس میں غضب ناک، وہ آپس میں رحیم
    تم خطاکار و خطابیں، وہ خطا پوش و کریم
    چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریا پہ مقیم
    پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم
    تخت فغفور بھی ان کا تھا، سریر کے بھی
    یونہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟
    خودکشی شیوہ تمھارا، وہ غیور و خود دار
    تم اخوت سے گریزاں، وہ اخوت پہ نثار
    تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
    تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بہ کنار
    اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت اُن کی
    نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت اُن کی
    مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے
    بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے
    شوقِ پرواز میں مہجورِ نشیمن بھی ہوئے
    بے عمل تھے ہی جواں، دین سے بدظن بھی ہوئے
    ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا
    لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا
    قیس زحمت کشِ تنہائیِ صحرا نہ رہے
    شہر کی کھائے ہوا، بادیہ پیما نہ رہے!
    وہ تو دیوانہ ہے، بستی میں رہے یا نہ رہے
    یہ ضروری ہے حجابِ رخِ لیلا نہ رہے!
    گلۂ جور نہ ہو، شکوئہ بیداد نہ ہو
    عشق آزاد ہے، کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو!
    عہد نو برق ہے، آتش زنِ ہر خرمن ہے
    ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے
    اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہے
    ملت ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے
    دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی
    کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
    خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
    گل بر انداز ہے خونِ شہدا کی لالی
    رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے
    یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے
    امتیں گلشن ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں
    اور محرومِ ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں
    سینکڑوں نخل ہیں، کاہیدہ بھی، بالیدہ بھی ہیں
    سینکڑوں بطن چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں
    نخل اسلام نمونہ ہے برومندی کا
    پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا
    پاک ہے گردِ وطن سے سر داماں تیرا
    تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا
    قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا
    غیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا
    نخل شمع استی و درشعلہ دود ریشۂ تو
    عاقبت سوز بود سایۂ اندیشۂ تو
    تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
    نشہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
    ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
    پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
    کشتی حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
    عصر نو رات ہے، دھندلا سا ستارا تو ہے
    ہے جو ہنگامہ بپا یورشِ بلغاری کا
    غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا
    تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا
    امتحاں ہے ترے ایثار کا، خودداری کا
    کیوں ہراساں ہے صہیل فرسِ اعدا سے
    نورِ حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے
    چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
    ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری
    زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری
    کوکبِ قسمت امکاں ہے خلافت تیری
    وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
    نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے
    مثل بو قید ہے غنچے میں، پریشاں ہوجا
    رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہوجا
    ہے تنک مایہ تو ذرّے سے بیاباں ہوجا
    نغمہ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہوجا!
    قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
    دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے
    ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
    چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
    یہ نہ ساقی ہو تو پھرمے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
    بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو
    خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
    نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
    دشت میں، دامن کہسار میں، میدان میں ہے
    بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے
    چین کے شہر، مراقش کے بیابان میں ہے
    اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے
    چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
    رفعت شانِ ’رَفَع نَالَکَ ذِکرَک‘ دیکھے
    مردمِ چشم زمیں یعنی وہ کالی دنیا
    وہ تمھارے شہدا پالنے والی دنیا
    گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنیا
    عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا
    تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
    غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح
    عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری
    مرے درویش! خلافت ہے جہاں گیر تری
    ماسوی اﷲ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
    تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
    کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
    یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

     
  2. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    ساقی

    نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
    مزا تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی
    جو بادہ کش تھے پرانے، وہ اٹھتے جاتے ہیں
    کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی!
    کٹی ہے رات تو ہنگامہ گستری میں تری
    سحر قریب ہے، اﷲ کا نام لے ساقی!
     
  3. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    تعلیم اور اس کے نتائج
    ( تضمین بر شعر ملا عرشی)


    خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
    لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
    ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
    کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
    گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما
    لے کے آئی ہے مگر تیشۂ فرہاد بھی ساتھ
    ”تخم دیگر بکف آریم و بکاریم ز نو
    کانچہ کشتیم ز خجلت نتواں کرد درو“
     
  4. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    قربِ سلطان

    تمیز حاکم و محکوم مٹ نہیں سکتی
    مجال کیا کہ گداگر ہو شاہ کا ہمدوش
    جہاں میں خواجہ پرستی ہے بندگی کا کمال
    رضائے خواجہ طلب کن قباے رنگیں پوش
    مگر غرض جو حصولِ رضائے حاکم ہو
    خطاب ملتا ہے منصب پرست و قوم فروش
    پرانے طرزِ عمل میں ہزار مشکل ہے
    نئے اصول سے خالی ہے فکر کی آغوش
    مزا تو یہ ہے کہ یوں زیر آسماں رہیے
    ”ہزار گونہ سخن در دہان و لب خاموش“
    یہی اصول ہے سرمایۂ سکونِ حیات
    ”گداے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش“
    مگر خروش پہ مائل ہے تو، تو بسم اﷲ
    ”بگیر بادئہ صافی، ببانگِ چنگ بنوش“
    شریکِ بزمِ امیر و وزیر و سلطاں ہو
    لڑا کے توڑ دے سنگِ ہوس سے شیشۂ ہوش
    پیامِ مرشد شیراز بھی مگر سن لے
    کہ ہے یہ سر نہاں خانۂ ضمیر سروش
    ”محل نورِ تجلی ست راے انور شاہ
    چو قربِ او طلبی درصفاے نیت کوش“
     
  5. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    شا عر

    جوئے سرود آفریں آتی ہے کوہسار سے
    پی کے شرابِ لالہ گوں میکدئہ بہار سے
    مست مۓ خرام کا سن تو ذرا پیام تو
    زندہ وہی ہے کام کچھ جس کو نہیں قرار سے
    پھرتی ہے وادیوں میں کیا دختر خوش خرامِ ابر
    کرتی ہے عشق بازیاں سبزئہ مرغزار سے
    جامِ شراب کوہ کے خم کدے سے اڑاتی ہے
    پست و بلند کرکے طے کھیتوں کو جا پلاتی ہے
    شاعر دل نواز بھی بات اگر کہے کھری
    ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرعِ زندگی ہری
    شانِ خلیل ہوتی ہے اس کے کلام سے عیاں
    کرتی ہے اس کی قوم جب اپنا شعار آزری
    اہل زمیں کو نسخہ زندگی دوام ہے
    خونِ جگر سے تربیت پاتی ہے جو سخنوری
    گلشن دہر میں اگر جوئے مۓ سخن نہ ہو
    پھول نہ ہو، کلی نہ ہو، سبزہ نہ ہو، چمن نہ ہو
     
  6. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    نو ید صبح
    1912ء

    آتی ہے مشرق سے جب ہنگامہ در دامن سحر
    منزلِ ہستی سے کر جاتی ہے خاموشی سفر
    محفل قدرت کا آخر ٹوٹ جاتا ہے سکوت
    دیتی ہے ہر چیز اپنی زندگانی کا ثبوت
    چہچہاتے ہیں پرندے پا کے پیغامِ حیات
    باندھتے ہیں پھول بھی گلشن میں احرامِ حیات
    مسلم خوابیدہ اٹھ، ہنگامہ آرا تو بھی ہو
    وہ چمک اٹھا افق، گرمِ تقاضا تو بھی ہو
    وسعت عالم میں رہ پیما ہو مثل آفتاب
    دامن گردوں سے ناپیدا ہوں یہ داغِ سحاب
    کھینچ کر خنجر کرن کا، پھر ہو سرگرمِ ستیز
    پھر سکھا تارےکی باطل کو آدابِ گریز
    تو سراپا نور ہے، خوشتر ہے عریانی تجھے
    اور عریاں ہو کے لازم ہے خود افشانی تجھے
    ہاں، نمایاں ہو کے برقِ دیدئہ خفاش ہو
    اے دلِ کون ومکاں کے رازِ مضمر! فاش ہو
     
  7. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    دعا

    یارب! دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
    جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے
    پھر وادیِ فاراں کے ہر ذرّے کو چمکا دے
    پھر شوقِ تماشا دے، پھر ذوقِ تقاضا دے
    محرومِ تماشا کو پھر دیدئہ بینا دے
    دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دِکھلا دے
    بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
    اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے
    پیدا دلِ ویراں میں پھر شورشِ محشر کر
    اس محمل خالی کو پھر شاہد لیلا دے
    اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشاں کو
    وہ داغِ محبت دے جو چاند کو شرما دے
    رفعت میں مقاصد کو ہمدوشِ ثریا کر
    خودداریِ ساحل دے، آزادیِ دریا دے
    بے لوث محبت ہو، بے باک صداقت ہو
    سینوں میں اُجالا کر، دل صورتِ مینا دے
    احساس عنایت کر آثارِ مصیبت کا
    امروز کی شورش میں اندیشۂ فردا دے
    میں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا
    تاثیر کا سائل ہوں، محتاج کو، داتا دے!

     
  8. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    عید پر شعر لکھنے کی فرمائش کے جواب میں

    یہ شالامار میں اک برگِ زرد کہتا تھا
    گیا وہ موسم گل جس کا رازدار ہوں میں
    نہ پائمال کریں مجھ کو زائرانِ چمن
    انھی کی شاخِ نشیمن کی یادگار ہوں میں
    ذرا سے پتے نے بےتاب کر دیا دل کو
    چمن میں آکے سراپا غم بہار ہوں میں
    خزاں میں مجھ کو رلاتی ہے یادِ فصل بہار
    خوشی ہو عید کی کیونکر کہ سوگوار ہوں میں
    اجاڑ ہو گئے عہد کہن کے مےخانے
    گزشتہ بادہ پرستوں کی یادگار ہوں میں
    پیامِ عیش و مسرت ہمیں سناتا ہے
    ہلالِ عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے
     
  9. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    فاطمہ بنت عبداﷲ
    عرب لڑکی جو طرابلس کی جنگ میں غازیوں کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوئی
    1912ء


    فاطمہ! تو آبروئے امت مرحوم ہے
    ذرّہ ذرّہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے
    یہ سعادت، حورِ صحرائی! تری قسمت میں تھی
    غازیانِ دیں کی سقائی تری قسمت میں تھی
    یہ جہاد اﷲ کے رستے میں بے تیغ و سپر
    ہے جسارت آفریں شوقِ شہادت کس قدر
    یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی
    ایسی چنگاری بھی یارب، اپنی خاکستر میں تھی!
    اپنے صحرا میں بہت آہُو ابھی پوشیدہ ہیں
    بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں!
    فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تیرے غم میں ہے
    نغمۂ عشرت بھی اپنے نالۂ ماتم میں ہے
    رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگیز ہے
    ذرّہ ذرّہ زندگی کے سوز سے لبریز ہے
    ہے کوئی ہنگامہ تیری تربت خاموش میں
    پل رہی ہے ایک قومِ تازہ اس آغوش میں
    بے خبر ہوں گرچہ اُن کی وسعت مقصد سے میں
    آفرینش دیکھتا ہوں اُن کی اس مرقد سے میں
    تازہ انجم کا فضائے آسماں میں ہے ظہور
    دیدئہ انساں سے نامحرم ہے جن کی موجِ نور
    جو ابھی ابھرے ہیں ظلمت خانۂ ایام سے
    جن کی ضو ناآشنا ہے قید صبح و شام سے
    جن کی تابانی میں اندازِ کہن بھی، نو بھی ہے
    اور تیرے کوکب تقدیر کا پرتو بھی ہے

     
  10. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    شبنم اور ستارے

    اک رات یہ کہنے لگے شبنم سے ستارے
    ہر صبح نئے تجھ کو میسر ہیں نظارے
    کیا جانیے، تو کتنے جہاں دیکھ چکی ہے
    جو بن کے مٹے، ان کے نشاں دیکھ چکی ہے
    زہرہ نے سنی ہے یہ خبر ایک ملک سے
    انسانوں کی بستی ہے بہت دور فلک سے
    کَہ ہم سے بھی اس کشورِ دلکش کا فسانہ
    گاتا ہے قمر جس کی محبت کا ترانہ
    اے تارو نہ پوچھو چمنستانِ جہاں کی
    گلشن نہیں، اک بستی ہے وہ آہ و فغاں کی
    آتی ہے صبا واں سے پلٹ جانے کی خاطر
    بیچاری کلی کھلتی ہے مرجھانے کی خاطر
    کیا تم سے کہوں کیا چمن افروز کلی ہے
    ننھا سا کوئی شُعلۂ بے سوز کلی ہے
    گل نالۂ بلبل کی صدا سن نہیں سکتا
    دامن سے مرے موتیوں کو چن نہیں سکتا
    ہیں مرغِ نواریز گرفتار، غضب ہے
    اگتی ہےں تہِ سایۂ گل خار، غضب ہے
    رہتی ہے سدا نرگسِ بیمار کی تر آنکھ
    دل طالب نظارہ ہے، محرومِ نظر آنکھ
    دل سوختۂ گرمی فریاد ہے شمشاد
    زندانی ہے اور نام کو آزاد ہے شمشاد
    تارے شررِ آہ ہیں انساں کی زباں میں
    میں گریۂ گردوں ہوں گلستاں کی زباں میں
    نادانی ہے یہ گردِ زمیں طوف قمر کا
    سمجھا ہے کہ درماں ہے وہاں داغ جگر کا
    بنیاد ہے کاشانۂ عالم کی ہوا پر
    فریاد کی تصویر ہے قرطاسِ فضا پر

     
  11. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    محاصرۂ ادرنہ

    یورپ میں جس گھڑی حق و باطل کی چھڑ گئی
    حق خنجر آزمائی پہ مجبور ہو گیا
    گردِ صلیب، گردِ قمر حلقہ زن ہوئی
    شکری حصارِ درنہ میں محصور ہو گیا
    مسلم سپاہیوں کے ذخیرے ہوئے تمام
    روئے امید آنکھ سے مستور ہو گیا
    آخر امیر عسکر ترکی کے حکم سے
    ’آئین جنگ، شہر کا دستور ہوگیا
    ہر شے ہوئی ذخیرئہ لشکر میں منتقل
    شاہیں گدائے دانۂ عصفور ہو گیا
    لیکن فقیہ شہر نے جس دم سنی یہ بات
    گرما کے مثل صاعقۂ طور ہو گیا
    ’ذمی کا مال لشکر مسلم پہ ہے حرام‘
    فتویٰ تمام شہر میں مشہور ہو گیا
    چھوتی نہ تھی یہود و نصاریٰ کا مال فوج
    مسلم، خدا کے حکم سے مجبور ہوگیا
     
  12. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    غلام قادر رہیلہ


    رہیلہ کس قدر ظالم، جفا جو، کینہ پرور تھا
    نکالیں شاہ تیموری کی آنکھیں نوک خنجر سے
    دیا اہل حرم کو رقص کا فرماں ستم گر نے
    یہ انداز ستم کچھ کم نہ تھا آثار محشر سے
    بھلا تعمیل اس فرمان غیرت کش کی ممکن تھی!
    شہنشاہی حرم کی نازنینان سمن بر سے
    بنایا آہ! سامان طرب بیدرد نے ان کو
    نہاں تھا حسن جن کا چشم مہر و ماہ و اختر سے
    لرزتے تھے دل نازک، قدم مجبور جنبش تھے
    رواں دریائے خوں ، شہزادیوں کے دیدۂ تر سے
    یونہی کچھ دیر تک محو نظر آنکھیں رہیں اس کی
    کیا گھبرا کے پھر آزاد سر کو بار مغفر سے
    کمر سے ، اٹھ کے تیغ جاں ستاں ، آتش فشاں کھولی
    سبق آموز تابانی ہوں انجم جس کے جوہر سے
    رکھا خنجر کو آگے اور پھر کچھ سوچ کر لیٹا
    تقاضا کر رہی تھی نیند گویا چشم احمر سے
    بجھائے خواب کے پانی نے اخگر اس کی آنکھوں کے
    نظر شرما گئی ظالم کی درد انگیز منظر سے
    پھر اٹھا اور تیموری حرم سے یوں لگا کہنے
    شکایت چاہیے تم کو نہ کچھ اپنے مقدر سے
    مرا مسند پہ سو جانا بناوٹ تھی، تکلف تھا
    کہ غفلت دور سے شان صف آرایان لشکر سے
    یہ مقصد تھا مرا اس سے ، کوئی تیمور کی بیٹی
    مجھے غافل سمجھ کر مار ڈالے میرے خنجر سے
    مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
    حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے
     
  13. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    ایک مکالمہ


    اک مرغ سرا نے یہ کہا مرغ ہوا سے
    پردار اگر تو ہے تو کیا میں نہیں پردار!
    گر تو ہے ہوا گیر تو ہوں میں بھی ہوا گیر
    آزاد اگر تو ہے ، نہیں میں بھی گرفتار
    پرواز ، خصوصیت ہر صاحب پر ہے
    کیوں رہتے ہیں مرغان ہوا مائل پندار؟
    مجروح حمیت جو ہوئی مرغ ہوا کی
    یوں کہنے لگا سن کے یہ گفتار دل آزار
    کچھ شک نہیں پرواز میں آزاد ہے تو بھی
    حد ہے تری پرواز کی لیکن سر دیوار
    واقف نہیں تو ہمت مرغان ہوا سے
    تو خاک نشیمن ، انھیں گردوں سے سروکار
    تو مرغ سرائی ، خورش از خاک بجوئی
    ما در صدد دانہ بہ انجم زدہ منقار
     
  14. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    میں اور تو

    مذاق دید سے ناآشنا نظر ہے مری
    تری نگاہ ہے فطرت کی راز داں، پھر کیا
    رہین شکوۂ ایام ہے زبان مری
    تری مراد پہ ہے دور آسماں، پھر کیا
    رکھا مجھے چمن آوارہ مثل موج نسیم
    عطا فلک نے کیا تجھ کو آشیاں، پھر کیا
    فزوں ہے سود سے سرمایۂ حیات ترا
    مرے نصیب میں ہے کاوش زیاں، پھر کیا
    ہوا میں تیرتے پھرتے ہیں تیرے طیارے
    مرا جہاز ہے محروم بادباں، پھر کیا
    قوی شدیم چہ شد، ناتواں شدیم چہ شد
    چنیں شدیم چہ شد یا چناں شدیم چہ شد
    بہیچ گونہ دریں گلستاں قرارے نیست
    توگر بہار شدی، ما خزاں شدیم، چہ ش
     
  15. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    تضمین بر شعر ابوطالب کلیم


    خوب ہے تجھ کو شعار صاحب ثیرب کا پاس
    کہہ رہی ہے زندگی تیری کہ تو مسلم نہیں
    جس سے تیرے حلقۂ خاتم میں گردوں تھا اسیر
    اے سلیماں! تیری غفلت نے گنوایا وہ نگیں
    وہ نشان سجدہ جو روشن تھا کوکب کی طرح
    ہوگئی ہے اس سے اب ناآشنا تیری جبیں
    دیکھ تو اپنا عمل، تجھ کو نظر آتی ہے کیا
    وہ صداقت جس کی بے باکی تھی حیرت آفریں
    تیرے آبا کی نگہ بجلی تھی جس کے واسطے
    ہے وہی باطل ترے کاشانۂ دل میں مکیں
    غافل! اپنے آشیاں کو آ کے پھر آباد کر
    نغمہ زن ہے طور معنی پر کلیم نکتہ بیں
    ''سرکشی باہر کہ کردی رام او باید شدن،
    شعلہ ساں از ہر کجا برخاستی ، آنجانشیں،،
     
  16. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    شبلی و حالی


    مسلم سے ایک روز یہ اقبال نے کہا
    دیوان جزو و کل میں ہے تیرا وجود فرد
    تیرے سرود رفتہ کے نغمے علوم نو
    تہذیب تیرے قافلہ ہائے کہن کی گرد
    پتھر ہے اس کے واسطے موج نسیم بھی
    نازک بہت ہے آئنۂ آبروئے مرد
    مردان کار، ڈھونڈ کے اسباب حادثات
    کرتے ہیں چارۂ ستم چرخ لاجورد
    پوچھ ان سے جو چمن کے ہیں دیرینہ رازدار
    کیونکر ہوئی خزاں ترے گلشن سے ہم نبرد
    مسلم مرے کلام سے بے تاب ہوگیا
    غماز ہوگئی غم پنہاں کی آہ سرد
    کہنے لگا کہ دیکھ تو کیفیت خزاں
    اوراق ہو گئے شجر زندگی کے زرد
    خاموش ہو گئے چمنستاں کے رازدار
    سرمایۂ گداز تھی جن کی نوائے درد
    شبلی کو رو رہے تھے ابھی اہل گلستاں
    حالی بھی ہوگیا سوئے فردوس رہ نورد
    ''اکنوں کرا دماغ کہ پرسد زباغباں
    بلبل چہ گفت و گل چہ شنید و صبا چہ کرد''
     
  17. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    ارتقا


    ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
    چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
    حیات شعلہ مزاج و غیور و شور انگیز
    سرشت اس کی ہے مشکل کشی، جفا طلبی
    سکوت شام سے تا نغمۂ سحر گاہی
    ہزار مرحلہ ہائے فعان نیم شبی
    کشا کش زم و گرما، تپ و تراش و خراش
    ز خاک تیرہ دروں تا بہ شیشۂ حلبی
    مقام بست و شکت و فشار و سوز و کشید
    میان قطرۂ نیسان و آتش عنبی
    اسی کشاکش پیہم سے زندہ ہیں اقوام
    یہی ہے راز تب و تاب ملت عربی
    ''مغاں کہ دانۂ انگور آب می سازند
    ستارہ می شکنند، آفتاب می سازند''
     
  18. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    صدیق


    اک دن رسول پاک نے اصحاب سے کہا
    دیں مال راہ حق میں جو ہوں تم میں مالدار
    ارشاد سن کے فرط طرب سے عمر اٹھے
    اس روز ان کے پاس تھے درہم کئی ہزار
    دل میں یہ کہہ رہے تھے کہ صدیق سے ضرور
    بڑھ کر رکھے گا آج قدم میرا راہوار
    لائے غرضکہ مال رسول امیں کے پاس
    ایثار کی ہے دست نگر ابتدائے کار
    پوچھا حضور سرور عالم نے ، اے عمر!
    اے وہ کہ جوش حق سے ترے دل کو ہے قرار
    رکھا ہے کچھ عیال کی خاطر بھی تو نے کیا؟
    مسلم ہے اپنے خویش و اقارب کا حق گزار
    کی عرض نصف مال ہے فرزند و زن کا حق
    باقی جو ہے وہ ملت بیضا پہ ہے نثار
    اتنے میں وہ رفیق نبوت بھی آگیا
    جس سے بنائے عشق و محبت ہے استوار
    لے آیا اپنے ساتھ وہ مرد وفا سرشت
    ہر چیز ، جس سے چشم جہاں میں ہو اعتبار
    ملک یمین و درہم و دینار و رخت و جنس
    اسپ قمر سم و شتر و قاطر و حمار
    بولے حضور، چاہیے فکر عیال بھی
    کہنے لگا وہ عشق و محبت کا راز دار
    اے تجھ سے دیدۂ مہ و انجم فروغ گیر!
    اے تیری ذات باعث تکوین روزگار!
    پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
    صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس
     
  19. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    تہذیب حاضر

    تضمین بر شعر فیضی


    حرارت ہے بلاکی بادۂ تہذیب حاضر میں
    بھڑک اٹھا بھبوکا بن کے مسلم کا تن خاکی
    کیا ذرے کو جگنو دے کے تاب مستعار اس نے
    کوئی دیکھے تو شوخی آفتاب جلوہ فرما کی
    نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبیعت نے
    یہ رعنائی ، یہ بیداری ، یہ آزادی ، یہ بے باکی
    تغیر آگیا ایسا تدبر میں، تخیل میں
    ہنسی سمجھی گئی گلشن میں غنچوں کی جگر چاکی
    کیا گم تازہ پروازوں نے اپنا آشیاں لیکن
    مناظر دلکشا دکھلا گئی ساحر کی چالاکی
    حیات تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا
    رقابت ، خودفروشی ، ناشکیبائی ، ہوسناکی
    فروغ شمع نو سے بزم مسلم جگمگا اٹھی
    مگر کہتی ہے پروانوں سے میری کہنہ ادراکی
    ''تو اے پروانہ ! ایں گرمی ز شمع محفلے داری
    چو من در آتش خود سوز اگر سوز دلے داری''
     
  20. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    والدہ مرحومہ کی یاد میں

    ذرہ ذرہ دہر کا زندانی تقدیر ہے
    پردۂ مجبوری و بے چارگی تدبیر ہے
    آسماں مجبور ہے، شمس و قمر مجبور ہیں
    انجم سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں
    ہے شکت انجام غنچے کا سبو گلزار میں
    سبزہ و گل بھی ہیں مجبور نمو گلزار میں
    نغمۂ بلبل ہو یا آواز خاموش ضمیر
    ہے اسی زنجیر عالم گیر میں ہر شے اسیر
    آنکھ پر ہوتا ہے جب یہ سر مجبوری عیاں
    خشک ہو جاتا ہے دل میں اشک کا سیل رواں
    قلب انسانی میں رقص عیش و غم رہتا نہیں
    نغمہ رہ جاتا ہے ، لطف زیروبم رہتا نہیں
    علم و حکمت رہزن سامان اشک و آہ ہے
    یعنی اک الماس کا ٹکڑا دل آگاہ ہے
    گرچہ میرے باغ میں شبنم کی شادابی نہیں
    آنکھ میری مایہ دار اشک عنابی نہیں
    جانتا ہوں آہ ، میں آلام انسانی کا راز
    ہے نوائے شکوہ سے خالی مری فطرت کا ساز
    میرے لب پر قصۂ نیرنگی دوراں نہیں
    دل مرا حیراں نہیں، خنداں نہیں، گریاں نہیں
    پر تری تصویر قاصد گریۂ پیہم کی ہے
    آہ! یہ تردید میری حکمت محکم کی ہے
    گریۂ سرشار سے بنیاد جاں پائندہ ہے
    درد کے عرفاں سے عقل سنگدل شرمندہ ہے
    موج دود آہ سے آئینہ ہے روشن مرا
    گنج آب آورد سے معمور ہے دامن مرا
    حیرتی ہوں میں تری تصویر کے اعجاز کا
    رخ بدل ڈالا ہے جس نے وقت کی پرواز کا
    رفتہ و حاضر کو گویا پا بپا اس نے کیا
    عہد طفلی سے مجھے پھر آشنا اس نے کیا
    جب ترے دامن میں پلتی تھی وہ جان ناتواں
    بات سے اچھی طرح محرم نہ تھی جس کی زباں
    اور اب چرچے ہیں جس کی شوخی گفتار کے
    بے بہا موتی ہیں جس کی چشم گوہربار کے
    علم کی سنجیدہ گفتاری، بڑھاپے کا شعور
    دنیوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور
    زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم
    صحبت مادر میں طفل سادہ رہ جاتے ہیں ہم
    بے تکلف خندہ زن ہیں، فکر سے آزاد ہیں
    پھر اسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں
    کس کو اب ہوگا وطن میں آہ! میرا انتظار
    کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار
    خاک مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آؤں گا
    اب دعائے نیم شب میں کس کو یاد میں آؤں گا!
    تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
    گھر مرے اجداد کا سرمایۂ عزت ہوا
    دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات
    تھی سراپا دیں و دنیا کا سبق تیری حیات
    عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
    میں تری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی
    وہ جواں، قامت میں ہے جو صورت سرو بلند
    تیری خدمت سے ہوا جو مجھ سے بڑھ کر بہرہ مند
    کاروبار زندگانی میں وہ ہم پہلو مرا
    وہ محبت میں تری تصویر، وہ بازو مرا
    تجھ کو مثل طفلک بے دست و پا روتا ہے وہ
    صبر سے ناآشنا صبح و مسا روتا ہے وہ
    تخم جس کا تو ہماری کشت جاں میں بو گئی
    شرکت غم سے وہ الفت اور محکم ہوگئی
    آہ! یہ دنیا ، یہ ماتم خانۂ برنا و پیر
    آدمی ہے کس طلسم دوش و فردا میں اسیر!
    کتنی مشکل زندگی ہے، کس قدر آساں ہے موت
    گلشن ہستی میں مانند نسیم ارزاں ہے موت
    زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں
    کیسی کیسی دختران مادر ایام ہیں!
    کلبۂ افلاس میں، دولت کے کاشانے میں موت
    دشت و در میں، شہر میں، گلشن میں، ویرانے میں موت
    موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں
    ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں
    نے مجال شکوہ ہے، نے طاقت گفتار ہے
    زندگانی کیا ہے ، اک طوق گلو افشار ہے!
    قافلے میں غیر فریاد درا کچھ بھی نہیں
    اک متاع دیدۂ تر کے سوا کچھ بھی نہیں
    ختم ہو جائے گا لیکن امتحاں کا دور بھی
    ہیں پس نہ پردۂ گردوں ابھی اور بھی
    سینہ چاک اس گلستاں میں لالہ و گل ہیں تو کیا
    نالہ و فریاد پر مجبور بلبل ہیں تو کیا
    جھاڑیاں، جن کے قفس میں قید ہے آہ خزاں
    سبز کر دے گی انھیں باد بہار جاوداں
    خفتہ خاک پے سپر میں ہے شرار اپنا تو کیا
    عارضی محمل ہے یہ مشت غبار اپنا تو کیا
    زندگی کی آگ کا انجام خاکستر نہیں
    ٹوٹنا جس کا مقدر ہو یہ وہ گوہر نہیں
    زندگی محبوب ایسی دیدۂ قدرت میں ہے
    ذوق حفظ زندگی ہر چیز کی فطرت میں ہے
    موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقش حیات
    عام یوں اس کو نہ کر دیتا نظام کائنات
    ہے اگر ارزاں تو یہ سمجھو اجل کچھ بھی نہیں
    جس طرح سونے سے جینے میں خلل کچھ بھی نہیں
    آہ غافل! موت کا راز نہاں کچھ اور ہے
    نقش کی ناپائداری سے عیاں کچھ اور ہے
    جنت نظارہ ہے نقش ہوا بالائے آب
    موج مضطر توڑ کر تعمیر کرتی ہے حباب
    موج کے دامن میں پھر اس کو چھپا دیتی ہے یہ
    کتنی بیدردی سے نقش اپنا مٹا دیتی ہے یہ
    پھر نہ کر سکتی حباب اپنا اگر پیدا ہوا
    توڑنے میں اس کے یوں ہوتی نہ بے پروا ہوا
    اس روش کا کیا اثر ہے ہیئت تعمیر پر
    یہ تو حجت ہے ہوا کی قوت تعمیر پر
    فطرت ہستی شہید آرزو رہتی نہ ہو
    خوب تر پیکر کی اس کو جستجو رہتی نہ ہو
    آہ سیماب پریشاں ، انجم گردوں فروز
    شوخ یہ چنگاریاں ، ممنون شب ہے جن کا سوز
    عقل جس سے سر بہ زانو ہے وہ مدت ان کی ہے
    سرگزشت نوع انساں ایک ساعت ان کی ہے
    پھر یہ انساں، آں سوئے افلاک ہے جس کی نظر
    قدسیوں سے بھی مقاصد میں ہے جو پاکیزہ تر
    جو مثال شمع روشن محفل قدرت میں ہے
    آسماں اک نقطہ جس کی وسعت فطرت میں ہے
    جس کی نادانی صداقت کے لیے بیتاب ہے
    جس کا ناخن ساز ہستی کے لیے مضراب ہے
    شعلہ یہ کمتر ہے گردوں کے شراروں سے بھی کیا
    کم بہا ہے آفتاب اپنا ستاروں سے بھی کیا
    تخم گل کی آنکھ زیر خاک بھی بے خواب ہے
    کس قدر نشوونما کے واسطے بے تاب ہے
    زندگی کا شعلہ اس دانے میں جو مستور ہے
    خود نمائی ، خودفزائی کے لیے مجبور ہے
    سردی مرقد سے بھی افسردہ ہو سکتا نہیں
    خاک میں دب کر بھی اپنا سوز کھو سکتا نہیں
    پھول بن کر اپنی تربت سے نکل آتا ہے یہ
    موت سے گویا قبائے زندگی پاتا ہے یہ
    ہے لحد اس قوت آشفتہ کی شیرازہ بند
    ڈالتی ہے گردن گردوں میں جو اپنی کمند
    موت، تجدید مذاق زندگی کا نام ہے
    خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
    خوگر پرواز کو پرواز میں ڈر کچھ نہیں
    موت اس گلشن میں جز سنجیدن پر کچھ نہیں
    کہتے ہیں اہل جہاں درد اجل ہے لا دوا
    زخم فرقت وقت کے مرہم سے پاتا ہے شفا
    دل مگر ، غم مرنے والوں کا جہاں آباد ہے
    حلقۂ زنجیر صبح و شام سے آزاد ہے
    وقت کے افسوں سے تھمتا نالۂ ماتم نہیں
    وقت زخم تیغ فرقت کا کوئی مرہم نہیں
    سر پہ آجاتی ہے جب کوئی مصیبت ناگہاں
    اشک پیہم دیدۂ انساں سے ہوتے ہیں رواں
    ربط ہو جاتا ہے دل کو نالہ و فریاد سے
    خون دل بہتا ہے آنکھوں کی سرشک آباد سے
    آدمی تاب شکیبائی سے گو محروم ہے
    اس کی فطرت میں یہ اک احساس نامعلوم ہے
    ق
    جوہر انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں
    آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے ،فنا ہوتا نہیں
    رخت ہستی خاک، غم کی شعلہ افشانی سے ہے
    سرد یہ آگ اس لطیف احساس کے پانی سے ہے
    آہ، یہ ضبط فغاں غفلت کی خاموشی نہیں
    آگہی ہے یہ دل آسائی، فراموشی نہیں
    پردۂ مشرق سے جس دم جلوہ گر ہوتی ہے صبح
    داغ شب کا دامن آفاق سے دھوتی ہے صبح
    لالۂ افسردہ کو آتش قبا کرتی ہے یہ
    بے زباں طائر کو سرمست نوا کرتی ہے یہ
    سینۂ بلبل کے زنداں سے سرود آزاد ہے
    سینکڑوں نغموں سے باد صج دم آباد ہے
    خفتگان لالہ زار و کوہسار و رودباد
    ہوتے ہیں آخر عروس زندگی سے ہمکنار
    یہ اگر آئین ہستی ہے کہ ہو ہر شام صبح
    مرقد انساں کی شب کا کیوں نہ ہو انجام صبح
    دام سیمین تخیل ہے مرا آفاق گیر
    کر لیا ہے جس سے تیری یاد کو میں نے اسیر
    یاد سے تیری دل درد آشنا معمور ہے
    جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمور ہے
    وہ فرائض کا تسلسل نام ہے جس کا حیات
    جلوہ گاہیں اس کی ہیں لاکھوں جہاں بے ثبات
    مختلف ہر منزل ہستی کی رسم و راہ ہے
    آخرت بھی زندگی کی ایک جولاں گاہ ہے
    ہے وہاں بے حاصلی کشت اجل کے واسطے
    ساز گار آب و ہوا تخم عمل کے واسطے
    نور فطرت ظلمت پیکر کا زندانی نہیں
    تنگ ایسا حلقۂ افکار انسانی نہیں
    زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
    خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
    مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
    نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
    آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
    سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
     
  21. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    شعاع آفتاب


    صبح جب میری نگہ سودائی نظارہ تھی
    آسماں پر اک شعاع آفتاب آوارہ تھی
    میں نے پوچھا اس کرن سے ''اے سراپا اضطراب!
    تیری جان ناشکیبا میں ہے کیسا اضطراب
    تو کوئی چھوٹی سی بجلی ہے کہ جس کو آسماں
    کر رہا ہے خرمن اقوام کی خاطر جواں
    یہ تڑپ ہے یا ازل سے تیری خو ہے، کیا ہے یہ
    رقص ہے، آوارگی ہے، جستجو ہے، کیا ہے یہ''؟
    ''خفتہ ہنگامے ہیں میری ہستی خاموش میں
    پرورش پائی ہے میں نے صبح کی آغوش میں
    مضطرب ہر دم مری تقدیر رکھتی ہے مجھے
    جستجو میں لذت تنویر رکھتی ہے مجھے
    برق آتش خو نہیں، فطرت میں گو ناری ہوں میں
    مہر عالم تاب کا پیغام بیداری ہوں میں
    سرمہ بن کر چشم انساں میں سما جاؤں گی میں
    رات نے جو کچھ چھپا رکھا تھا، دکھلاؤں گی میں
    تیرے مستوں میں کوئی جویائے ہشیاری بھی ہے
    سونے والوں میں کسی کو ذوق بیداری بھی ہے؟
     
  22. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    عرفی


    محل ایسا کیا تعمیر عرفی کے تخیل نے
    تصدق جس پہ حیرت خانۂ سینا و فارابی
    فضائے عشق پر تحریر کی اس نے نوا ایسی
    میسر جس سے ہیں آنکھوں کو اب تک اشک عنابی
    مرے دل نے یہ اک دن اس کی تربت سے شکایت کی
    نہیں ہنگامۂ عالم میں اب سامان بیتابی
    مزاج اہل عالم میں تغیر آگیا ایسا
    کہ رخصت ہوگئی دنیا سے کیفیت وہ سیمابی
    فغان نیم شب شاعر کی بار گوش ہوتی ہے
    نہ ہو جب چشم محفل آشنائے لطف بے خوابی
    کسی کا شعلۂ فریاد ہو ظلمت ربا کیونکر
    گراں ہے شب پرستوں پر سحر کی آسماں تابی
    صدا تربت سے آئی ''شکوۂ اہل جہاں کم گو
    نوارا تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی
    حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی''
     
  23. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    ایک خط کے جواب میں


    ہوس بھی ہو تو نہیں مجھ میں ہمت تگ و تاز
    حصول جاہ ہے وابستۂ مذاق تلاش
    ہزار شکر، طبیعت ہے ریزہ کار مری
    ہزار شکر، نہیں ہے دماغ فتنہ تراش
    مرے سخن سے دلوں کی ہیں کھیتیاں سرسبز
    جہاں میں ہوں میں مثال سحاب دریا پاش
    یہ عقدہ ہائے سیاست تجھے مبارک ہوں
    کہ فیض عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش
    ہوائے بزم سلاطیں دلیل مردہ دلی
    کیا ہے حافظ رنگیں نوا نے راز یہ فاش
    ''گرت ہوا ست کہ با خضر ہم نشیں باشی
    نہاں ز چشم سکندر چو آب حیواں باش''
     
  24. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    نانک

    قوم نے پیغام گو تم کی ذرا پروا نہ کی
    قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی
    آہ! بد قسمت رہے آواز حق سے بے خبر
    غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر
    آشکار اس نے کیا جو زندگی کا راز تھا
    ہند کو لیکن خیالی فلسفے پر ناز تھا
    شمع حق سے جو منور ہو یہ وہ محفل نہ تھی
    بارش رحمت ہوئی لیکن زمیں قابل نہ تھی
    آہ! شودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے
    درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے
    برہمن سرشار ہے اب تک مۂ پندار میں
    شمع گو تم جل رہی ہے محفل اغیار میں
    بت کدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا
    نور ابراہیم سے آزر کا گھر روشن ہوا
    پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
    ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے
     
  25. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    کفر و اسلام

    تضمین بر شعر میررضی دانش

    ایک دن اقبال نے پوچھا کلیم طور سے
    اے کہ تیرے نقش پا سے وادی سینا چمن
    آتش نمرود ہے اب تک جہاں میں شعلہ ریز
    ہوگیا آنکھوں سے پنہاں کیوں ترا سوز کہن
    تھا جواب صاحب سینا کہ مسلم ہے اگر
    چھوڑ کر غائب کو تو حاضر کا شیدائی نہ بن
    ذوق حاضر ہے تو پھر لازم ہے ایمان خلیل
    ورنہ خاکستر ہے تیری زندگی کا پیرہن
    ہے اگر دیوانۂ غائب تو کچھ پروا نہ کر
    منتظر رہ وادی فاراں میں ہو کر خیمہ زن
    عارضی ہے شان حاضر ، سطوت غائب مدام
    اس صداقت کو محبت سے ہے ربط جان و تن
    شعلۂ نمرود ہے روشن زمانے میں تو کیا
    ''شمع خود رامی گدازد درمیان انجمن
    نور ما چوں آتش سنگ از نظر پنہاں خوش است''
     
  26. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    بلال

    لکھا ہے ایک مغربی حق شناس نے
    اہل قلم میں جس کا بہت احترام تھا
    جولاں گہ سکندر رومی تھا ایشیا
    گردوں سے بھی بلند تر اس کا مقام تھا
    تاریخ کہہ رہی ہے کہ رومی کے سامنے
    دعوی کیا جو پورس و دارا نے، خام تھا
    دنیا کے اس شہنشہ انجم سپاہ کو
    حیرت سے دیکھتا فلک نیل فام تھا
    آج ایشیا میں اس کو کوئی جانتا نہیں
    تاریخ دان بھی اسے پہچانتا نہیں
    لیکن بلال، وہ حبشی زادۂ حقیر
    فطرت تھی جس کی نور نبوت سے مستنیر
    جس کا امیں ازل سے ہوا سینۂ بلال
    محکوم اس صدا کے ہیں شاہنشہ و فقیر
    ہوتا ہے جس سے اسود و احمر میں اختلاط
    کرتی ہے جو غریب کو ہم پہلوئے امیر
    ہے تازہ آج تک وہ نوائے جگر گداز
    صدیوں سے سن رہا ہے جسے گوش چرخ پیر
    اقبال! کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے
    رومی فنا ہوا ، حبشی کو دوام ہے
     
  27. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    مسلمان اور تعلیم جدید
    تضمین بر شعر ملک قمی

    مرشد کی یہ تعلیم تھی اے مسلم شوریدہ سر
    لازم ہے رہرو کے لیے دنیا میں سامان سفر
    بدلی زمانے کی ہوا ، ایسا تغیر آگیا
    تھے جو گراں قمیت کبھی، اب ہیں متاع کس مخر
    وہ شعلۂ روشن ترا ظلمت گریزاں جس سے تھی
    گھٹ کر ہوا مثل شرر تارے سے بھی کم نور تر
    شیدائی غائب نہ رہ، دیوانۂ موجود ہو
    غالب ہے اب اقوام پر معبود حاضر کا اثر
    ممکن نہیں اس باغ میں کوشش ہو بار آور تری
    فرسودہ ہے پھندا ترا، زیرک ہے مرغ تیز پر
    اس دور میں تعلیم ہے امراض ملت کی دوا
    ہے خون فاسد کے لیے تعلیم مثل نیشتر
    رہبر کے ایما سے ہوا تعلیم کا سودا مجھے
    واجب ہے صحرا گرد پر تعمیل فرمان خضر
    لیکن نگاہ نکتہ بیں دیکھے زبوں بختی مری
    ''رفتم کہ خار از پا کشم ،محمل نہاں شد از نظر
    یک لحظ غافل گشتم و صد سالہ را ہم دور شد''
     
  28. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    پھولوں کی شہز ادی

    کلی سے کہہ رہی تھی ایک دن شبنم گلستاں میں
    رہی میں ایک مدت غنچہ ہائے باغ رضواں میں
    تمھارے گلستاں کی کیفیت سرشار ہے ایسی
    نگہ فردوس در دامن ہے میری چشم حیراں میں
    سنا ہے کوئی شہزادی ہے حاکم اس گلستاں کی
    کہ جس کے نقش پا سے پھول ہوں پیدا بیاباں میں
    کبھی ساتھ اپنے اس کے آستاں تک مجھ کو تو لے چل
    چھپا کر اپنے دامن میں برنگ موج بو لے چل
    کلی بولی، سریر آرا ہماری ہے وہ شہزادی
    درخشاں جس کی ٹھوکر سے ہوں پتھر بھی نگیں بن کر
    مگر فطرت تری افتندہ اور بیگم کی شان اونچی
    نہیں ممکن کہ تو پہنچے ہماری ہم نشیں بن کر
    پہنچ سکتی ہے تو لیکن ہماری شاہزادی تک
    کسی دکھ درد کے مارے کا اشک آتشیں بن کر
    نظر اس کی پیام عید ہے اہل محرم کو
    بنا دیتی ہے گوہر غم زدوں کے اشک پیہم کو
     
  29. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    تضمین بر شعر صائب

    کہاں اقبال تو نے آ بنایا آشیاں اپنا
    نوا اس باغ میں بلبل کو ہے سامان رسوائی
    شرارے وادی ایمن کے تو بوتا تو ہے لیکن
    نہیں ممکن کہ پھوٹے اس زمیں سے تخم سینائی
    کلی زور نفس سے بھی وہاں گل ہو نہیں سکتی
    جہاں ہر شے ہو محروم تقاضائے خود افزائی
    قیامت ہے کہ فطرت سو گئی اہل گلستاں کی
    نہ ہے بیدار دل پیری، نہ ہمت خواہ برنائی
    دل آگاہ جب خوابیدہ ہو جاتے ہیں سینوں میں
    نو اگر کے لیے زہراب ہوتی ہے شکر خائی
    نہیں ضبط نوا ممکن تو اڑ جا اس گلستاں سے
    کہ اس محفل سے خوشتر ہے کسی صحرا کی تنہائی
    ''ہماں بہتر کہ لیلی در بیاباں جلوہ گر باشد
    ندارد تنگناے شہر تاب حسن صحرائی''
     
  30. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    فردوس میں ایک مکالمہ

    ہاتف نے کہا مجھ سے کہ فردوس میں اک روز
    حالی سے مخاطب ہوئے یوں سعدی شیراز
    اے آنکہ ز نور گہر نظم فلک تاب
    دامن بہ چراغ مہ اختر زدہ ای باز!
    کچھ کیفیت مسلم ہندی تو بیاں کر
    واماندۂ منزل ہے کہ مصروف تگ و تاز
    مذہب کی حرارت بھی ہے کچھ اس کی رگوں میں؟
    تھی جس کی فلک سوز کبھی گرمی آواز
    باتوں سے ہوا شیخ کی حالی متاثر
    رو رو کے لگا کہنے کہ ''اے صاحب اعجاز
    جب پیر فلک نے ورق ایام کا الٹا
    آئی یہ صدا ، پاؤگے تعلیم سے اعزاز
    آیا ہے مگر اس سے عقیدوں میں تزلزل
    دنیا تو ملی، طائر دیں کر گیا پرواز
    دیں ہو تو مقاصد میں بھی پیدا ہو بلندی
    فطرت ہے جوانوں کی زمیں گیر زمیں تاز
    مذہب سے ہم آہنگی افراد ہے باقی
    دیں زخمہ ہے ، جمعیت ملت ہے اگر ساز
    بنیاد لرز جائے جو دیوار چمن کی
    ظاہر ہے کہ انجام گلستاں کا ہے آغاز
    پانی نہ ملا زمزم ملت سے جو اس کو
    پیدا ہیں نئی پود میں الحاد کے انداز
    یہ ذکر حضور شہ یثرب میں نہ کرنا
    سمجھیں نہ کہیں ہند کے مسلم مجھے غماز
    خرما نتواں یافت ازاں خار کہ کشتیم
    دیبا نتواں بافت ازاں پشم کہ رشتیم''
    (سعدی)
     

اس صفحے کو مشتہر کریں