1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کلیات اقبال رحمۃ اللہ

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏20 جولائی 2011۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    غزل


    یوں تو اے بزم جہاں! دلکش تھے ہنگامے ترے
    اک ذرا افسردگی تیرے تماشاؤں میں تھی
    پا گئی آسودگی کوئے محبت میں وہ خاک
    مدتوں آوارہ جو حکمت کے صحراؤں میں تھی
    کس قدر اے مے! تجھے رسم حجاب آئی پسند
    پردہ انگور سے نکلی تو میناؤں میں تھی
    حسن کی تاثیر پر غالب نہ آ سکتا تھا علم
    اتنی نادانی جہاں کے سارے داناؤں میں تھی
    میں نے اے اقبال یورپ میں اسے ڈھونڈا عبث
    بات جو ہندوستاں کے ماہ سیماؤں میں تھی

     
  2. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    غزل


    مثال پرتو مے ، طوف جام کرتے ہیں
    یہی نماز ادا صبح و شام کرتے ہیں
    خصوصیت نہیں کچھ اس میں اے کلیم تری
    شجر حجر بھی خدا سے کلام کرتے ہیں
    نیا جہاں کوئی اے شمع ڈھونڈیے کہ یہاں
    ستم کش تپش ناتمام کرتے ہیں
    بھلی ہے ہم نفسو اس چمن میں خاموشی
    کہ خوشنواؤں کو پابند دام کرتے ہیں
    غرض نشاط ہے شغل شراب سے جن کی
    حلال چیز کو گویا حرام کرتے ہیں
    بھلا نبھے گی تری ہم سے کیونکر اے واعظ!
    کہ ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہیں
    الہی سحر ہے پیران خرقہ پوش میں کیا!
    کہ اک نظر سے جوانوں کو رام کرتے ہیں
    میں ان کی محفل عشرت سے کانپ جاتا ہوں
    جو گھر کو پھونک کے دنیا میں نام کرتے ہیں
    ہرے رہو وطن مازنی کے میدانو!
    جہاز پر سے تمھیں ہم سلام کرتے ہیں
    جو بے نماز کبھی پڑھتے ہیں نماز اقبال
    بلا کے دیر سے مجھ کو امام کرتے ہیں

     
  3. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    مارچ 1907ء

    زمانہ آیا ہے بے حجابی کا ، عام دیدار یار ہو گا
    سکوت تھا پردہ دار جس کا ، وہ راز اب آشکار ہوگا
    گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
    بنے گا سارا جہان مے خانہ ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا
    کبھی جو آوارۂ جنوں تھے ، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
    برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خارزار ہو گا
    سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
    جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا ، پھر استوار ہو گا
    نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
    سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے ، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
    کیا مرا تذکرہ جوساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
    تو پیر میخانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے ، خوار ہو گا
    دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
    کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ، وہ اب زر کم عیار ہو گا
    تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
    جوشاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ، ناپائدار ہو گا
    سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا
    ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہو گا
    چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
    یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہو گا
    جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
    یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا
    کہا جوقمری سے میں نے اک دن ، یہاں کے آزاد پا بہ گل ہیں
    توغنچے کہنے لگے ، ہمارے چمن کا یہ رازدار ہو گا
    خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں ، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
    میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
    یہ رسم بزم فنا ہے اے دل! گناہ ہے جنبش نظر بھی
    رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہو گا
    میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
    شررفشاں ہوگی آہ میری ، نفس مرا شعلہ بار ہو گا
    نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا
    تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہو گا
    نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانا ابھی وہی کیفیت ہے اس کی
    کہیں سر رہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہو گا



     
  4. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    الحمد اللہ بانگ درا کا دوسرا حصہ بھی مکمل ہو گیا ہے ، اور اب ہم تیسرا حصہ جو کہ 1908 کے بعد لکھا گیا ، شروع کرنے جا رہے ہیں ۔ امید ہے اپ ہماری اس کاوش کو یونہی سراہتے رہینگے ۔
     
  5. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    حصہ سوم سے 1908— —

    بلاد اسلامیہ


    سرزمیں دلی کی مسجود دل غم دیدہ ہے
    ذرے ذرے میں لہو اسلاف کا خوابیدہ ہے
    پاک اس اجڑے گلستاں کی نہ ہو کیونکر زمیں
    خانقاہ عظمت اسلام ہے یہ سرزمیں
    سوتے ہیں اس خاک میں خیر الامم کے تاجدار
    نظم عالم کا رہا جن کی حکومت پر مدار
    دل کو تڑپاتی ہے اب تک گرمی محفل کی یاد
    جل چکا حاصل مگر محفوظ ہے حاصل کی یاد
    ہے زیارت گاہ مسلم گو جہان آباد بھی
    اس کرامت کا مگر حق دار ہے بغداد بھی
    یہ چمن وہ ہے کہ تھا جس کے لیے سامان ناز
    لالۂ صحرا جسے کہتے ہیں تہذیب حجاز
    خاک اس بستی کی ہو کیونکر نہ ہمدوش ارم
    جس نے دیکھے جانشینان پیمبر کے قدم
    جس کے غنچے تھے چمن ساماں ، وہ گلشن ہے یہی
    کاپنتا تھا جن سے روما ، ان کا مدفن ہے یہی
    ہے زمین قرطبہ بھی دیدۂ مسلم کا نور
    ظلمت مغرب میں جو روشن تھی مثل شمع طور
    بجھ کے بزم ملت بیضا پریشاں کر گئی
    اور دیا تہذیب حاضر کا فروزاں کر گئی
    قبر اس تہذیب کی یہ سر زمین پاک ہے
    جس سے تاک گلشن یورپ کی رگ نم ناک ہے
    خطۂ قسطنطنیہ یعنی قیصر کا دیار
    مہدی امت کی سطوت کا نشان پائدار
    صورت خاک حرم یہ سر زمیں بھی پاک ہے
    آستان مسند آرائے شہ لولاک ہے
    نکہت گل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا
    تربت ایوب انصاری سے آتی ہے صدا
    اے مسلماں! ملت اسلام کا دل ہے یہ شہر
    سینکڑوں صدیوں کی کشت و خوں کا حاصل ہے یہ شہر
    وہ زمیں ہے تو مگر اے خواب گاہ مصطفی
    دید ہے کعبے کو تیری حج اکبر سے سوا
    خاتم ہستی میں تو تاباں ہے مانند نگیں
    اپنی عظمت کی ولادت گاہ تھی تیری زمیں
    تجھ میں راحت اس شہنشاہ معظم کو ملی
    جس کے دامن میں اماں اقوام عالم کو ملی
    نام لیوا جس کے شاہنشاہ عالم کے ہوئے
    جانشیں قیصر کے ، وارث مسند جم کے ہوئے
    ہے اگر قومیت اسلام پابند مقام
    ہند ہی بنیاد ہے اس کی ، نہ فارس ہے ، نہ شام
    آہ یثرب! دیس ہے مسلم کا تو ، ماوا ہے تو
    نقطۂ جاذب تاثر کی شعاعوں کا ہے تو
    جب تلک باقی ہے تو دنیا میں ، باقی ہم بھی ہیں
    صبح ہے تو اس چمن میں گوہر شبنم بھی ہیں
     
  6. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    ستارہ


    قمر کا خوف کہ ہے خطرۂ سحر تجھ کو
    مآل حسن کی کیا مل گئی خبر تجھ کو؟
    متاع نور کے لٹ جانے کا ہے ڈر تجھ کو
    ہے کیا ہراس فنا صورت شرر تجھ کو؟
    زمیں سے دور دیا آسماں نے گھر تجھ کو
    مثال ماہ اڑھائی قبائے زر تجھ کو
    غضب ہے پھر تری ننھی سی جان ڈرتی ہے!
    تمام رات تری کانپتے گزرتی ہے
    چمکنے والے مسافر! عجب یہ بستی ہے
    جو اوج ایک کا ہے ، دوسرے کی پستی ہے
    اجل ہے لاکھوں ستاروں کی اک ولادت مہر
    فنا کی نیند مے زندگی کی مستی ہے
    وداع غنچہ میں ہے راز آفرینش گل
    عدم ، عدم ہے کہ آئینہ دار ہستی ہے!
    سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
    ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
     
  7. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    دوستارے


    آئے جو قراں میں دو ستارے
    کہنے لگا ایک ، دوسرے سے
    یہ وصل مدام ہو تو کیا خوب
    انجام خرام ہو تو کیا خوب
    تھوڑا سا جو مہرباں فلک ہو
    ہم دونوں کی ایک ہی چمک ہو
    لیکن یہ وصال کی تمنا
    پیغام فراق تھی سراپا
    گردش تاروں کا ہے مقدر
    ہر ایک کی راہ ہے مقرر
    ہے خواب ثبات آشنائی
    آئین جہاں کا ہے جدائی
     
  8. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    گورستان شاہی


    آسماں ، بادل کا پہنے خرقۂ دیرینہ ہے
    کچھ مکدر سا جبین ماہ کا آئینہ ہے
    چاندنی پھیکی ہے اس نظارۂ خاموش میں
    صبح صادق سو رہی ہے رات کی آغوش میں
    کس قدر اشجار کی حیرت فزا ہے خامشی
    بربط قدرت کی دھیمی سی نوا ہے خامشی
    باطن ہر ذرۂ عالم سراپا درد ہے
    اور خاموشی لب ہستی پہ آہ سرد ہے
    آہ! جولاں گاہ عالم گیر یعنی وہ حصار
    دوش پر اپنے اٹھائے سیکڑوں صدیوں کا بار
    زندگی سے تھا کبھی معمور ، اب سنسان ہے
    یہ خموشی اس کے ہنگاموں کا گورستاں ہے
    اپنے سکان کہن کی خاک کا دلدادہ ہے
    کوہ کے سر پر مثال پاسباں استادہ ہے
    ابر کے روزن سے وہ بالائے بام آسماں
    ناظر عالم ہے نجم سبز فام آسماں
    خاک بازی وسعت دنیا کا ہے منظر اسے
    داستاں ناکامی انساں کی ہے ازبر اسے
    ہے ازل سے یہ مسافر سوئے منزل جا رہا
    آسماں سے انقلابوں کا تماشا دیکھتا
    گو سکوں ممکن نہیں عالم میں اختر کے لیے
    فاتحہ خوانی کو یہ ٹھہرا ہے دم بھر کے لیے
    رنگ و آب زندگی سے گل بدامن ہے زمیں
    سینکڑوں خوں گشتہ تہذیبوں کا مدفن ہے زمیں
    خواب گہ شاہوں کی ہے یہ منزل حسرت فزا
    دیدۂ عبرت! خراج اشک گلگوں کر ادا
    ہے تو گورستاں مگر یہ خاک گردوں پایہ ہے
    آہ! اک برگشتہ قسمت قوم کا سرمایہ ہے
    مقبروں کی شان حیرت آفریں ہے اس قدر
    جنبش مژگاں سے ہے چشم تماشا کو حذر
    کیفیت ایسی ہے ناکامی کی اس تصویر میں
    جو اتر سکتی نہیں آئینۂ تحریر میں
    سوتے ہیں خاموش ، آبادی کے ہنگاموں سے دور
    مضطرب رکھتی تھی جن کو آرزوئے ناصبور
    قبر کی ظلمت میں ہے ان آفتابوں کی چمک
    جن کے دروازوں پہ رہتا تھا جبیں گستر فلک
    کیا یہی ہے ان شہنشاہوں کی عظمت کا مآل
    جن کی تدبیر جہاں بانی سے ڈرتا تھا زوال
    رعب فغفوری ہو دنیا میں کہ شان قیصری
    ٹل نہیں سکتی غنیم موت کی یورش کبھی
    بادشاہوں کی بھی کشت عمر کا حاصل ہے گور
    جادۂ عظمت کی گویا آخری منزل ہے گور
    شورش بزم طرب کیا ، عود کی تقریر کیا
    درد مندان جہاں کا نالۂ شب گیر کیا
    عرصۂ پیکار میں ہنگامۂ شمشیر کیا
    خون کو گرمانے والا نعرۂ تکبیر کیا
    اب کوئی آواز سوتوں کو جگا سکتی نہیں
    سینۂ ویراں میں جان رفتہ آ سکتی نہیں
    روح ، مشت خاک میں زحمت کش بیداد ہے
    کوچہ گرد نے ہوا جس دم نفس ، فریاد ہے
    زندگی انساں کی ہے مانند مرغ خوش نوا
    شاخ پر بیٹھا ، کوئی دم چہچایا ، اڑ گیا
    آہ! کیا آئے ریاض دہر میں ہم ، کیا گئے!
    زندگی کی شاخ سے پھوٹے ، کھلے ، مرجھا گئے
    موت ہر شاہ و گدا کے خواب کی تعبیر ہے
    اس ستم گر کا ستم انصاف کی تصویر ہے
    سلسلہ ہستی کا ہے اک بحر نا پیدا کنار
    اور اس دریائے بے پایاں کے موجیں ہیں مزار
    اے ہوس! خوں رو کہ ہے یہ زندگی بے اعتبار
    یہ شرارے کا تبسم ، یہ خس آتش سوار
    چاند ، جو صورت گر ہستی کا اک اعجاز ہے
    پہنے سیمابی قبا محو خرام ناز ہے
    چرخ بے انجم کی دہشت ناک وسعت میں مگر
    بے کسی اس کی کوئی دیکھے ذرا وقت سحر
    اک ذرا سا ابر کا ٹکڑا ہے ، جو مہتاب تھا
    آخری آنسو ٹپک جانے میں ہو جس کی فنا
    زندگی اقوام کی بھی ہے یونہی بے اعتبار
    رنگ ہائے رفتہ کی تصویر ہے ان کی بہار
    اس زیاں خانے میں کوئی ملت گردوں وقار
    رہ نہیں سکتی ابد تک بار دوش روزگار
    اس قدر قوموں کی بربادی سے ہے خوگر جہاں
    دیکھتا بے اعتنائی سے ہے یہ منظر جہاں
    ایک صورت پر نہیں رہتا کسی شے کو قرار
    ذوق جدت سے ہے ترکیب مزاج روزگار
    ہے نگین دہر کی زینت ہمیشہ نام نو
    مادر گیتی رہی آبستن اقوام نو
    ہے ہزاروں قافلوں سے آشنا یہ رہ گزر
    چشم کوہ نور نے دیکھے ہیں کتنے تاجور
    مصر و بابل مٹ گئے باقی نشاں تک بھی نہیں
    دفتر ہستی میں ان کی داستاں تک بھی نہیں
    آ دبایا مہر ایراں کو اجل کی شام نے
    عظمت یونان و روما لوٹ لی ایام نے
    آہ! مسلم بھی زمانے سے یونہی رخصت ہوا
    آسماں سے ابر آذاری اٹھا ، برسا ، گیا
    ہے رگ گل صبح کے اشکوں سے موتی کی لڑی
    کوئی سورج کی کرن شبنم میں ہے الجھی ہوئی
    سینۂ دریا شعاعوں کے لیے گہوارہ ہے
    کس قدر پیارا لب جو مہر کا نظارہ ہے
    محو زینت ہے صنوبر ، جوئبار آئینہ ہے
    غنچۂ گل کے لیے باد بہار آئینہ ہے
    نعرہ زن رہتی ہے کوئل باغ کے کاشانے میں
    چشم انساں سے نہاں ، پتوں کے عزلت خانے میں
    اور بلبل ، مطرب رنگیں نوائے گلستاں
    جس کے دم سے زندہ ہے گویا ہوائے گلستاں
    عشق کے ہنگاموں کی اڑتی ہوئی تصویر ہے
    خامۂ قدرت کی کیسی شوخ یہ تحریر ہے
    باغ میں خاموش جلسے گلستاں زادوں کے ہیں
    وادی کہسار میں نعرے شباں زادوں کے ہیں
    زندگی سے یہ پرانا خاک داں معمور ہے
    موت میں بھی زندگانی کی تڑپ مستور ہے
    پتیاں پھولوں کی گرتی ہیں خزاں میں اس طرح
    دست طفل خفتہ سے رنگیں کھلونے جس طرح
    اس نشاط آباد میں گو عیش بے اندازہ ہے
    ایک غم ، یعنی غم ملت ہمیشہ تازہ ہے
    دل ہمارے یاد عہد رفتہ سے خالی نہیں
    اپنے شاہوں کو یہ امت بھولنے والی نہیں
    اشک باری کے بہانے ہیں یہ اجڑے بام و در
    گریۂ پیہم سے بینا ہے ہماری چشم تر
    دہر کو دیتے ہیں موتی دیدۂ گریاں کے ہم
    آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم
    ہیں ابھی صد ہا گہر اس ابر کی آغوش میں
    برق ابھی باقی ہے اس کے سینۂ خاموش میں
    وادی گل ، خاک صحرا کو بنا سکتا ہے یہ
    خواب سے امید دہقاں کو جگا سکتا ہے یہ
    ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور
    ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور
     
  9. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    نمود صبح


    ہو رہی ہے زیر دامان افق سے آشکار
    صبح یعنی دختر دوشیزۂ لیل و نہار
    پا چکا فرصت درود فصل انجم سے سپہر
    کشت خاور میں ہوا ہے آفتاب آئینہ کار
    آسماں نے آمد خورشید کی پا کر خبر
    محمل پرواز شب باندھا سر دوش غبار
    شعلۂ خورشید گویا حاصل اس کھیتی کا ہے
    بوئے تھے دہقان گردوں نے جو تاروں کے شرار
    ہے رواں نجم سحر ، جیسے عبادت خانے سے
    سب سے پیچھے جائے کوئی عابد شب زندہ دار
    کیا سماں ہے جس طرح آہستہ آہستہ کوئی
    کھینچتا ہو میان کی ظلمت سے تیغ آب دار
    مطلع خورشید میں مضمر ہے یوں مضمون صبح
    جیسے خلوت گاہ مینا میں شراب خوش گوار
    ہے تہ دامان باد اختلاط انگیز صبح
    شورش ناقوس ، آواز اذاں سے ہمکنار
    جاگے کوئل کی اذاں سے طائران نغمہ سنج
    ہے ترنم ریز قانون سحر کا تار تار
     
  10. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    تضمین بر شعر انیسی شاملو


    ہمیشہ صورت باد سحر آوارہ رہتا ہوں
    محبت میں ہے منزل سے بھی خوشتر جادہ پیمائی
    دل بے تاب جا پہنچا دیار پیر سنجر میں
    میسر ہے جہاں درمان درد نا شکیبائی
    ابھی نا آشنائے لب تھا حرف آرزو میرا
    زباں ہونے کو تھی منت پذیر تاب گویائی
    یہ مرقد سے صدا آئی ، حرم کے رہنے والوں کو
    شکایت تجھ سے ہے اے تارک آئین آبائی!
    ترا اے قیس کیونکر ہوگیا سوز دروں ٹھنڈا
    کہ لیلی میں تو ہیں اب تک وہی انداز لیلائی
    نہ تخم 'لا الہ' تیری زمین شور سے پھوٹا
    زمانے بھر میں رسوا ہے تری فطرت کی نازائی
    تجھے معلوم ہے غافل کہ تیری زندگی کیا ہے
    کنشتی ساز، معمور نوا ہائے کلیسائی
    ہوئی ہے تربیت آغوش بیت اللہ میں تیری
    دل شوریدہ ہے لیکن صنم خانے کا سودائی
    ''وفا آموختی از ما، بکار دیگراں کر دی
    ربودی گوہرے از ما نثار دیگراں کر دی''
     
  11. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    پھول کا تحفہ عطا ہونے پر


    وہ مست ناز جو گلشن میں جا نکلتی ہے
    کلی کلی کی زباں سے دعا نکلتی ہے
    ''الہی! پھولوں میں وہ انتخاب مجھ کو کرے
    کلی سے رشک گل آفتاب مجھ کو کرے''
    تجھے وہ شاخ سے توڑیں! زہے نصیب ترے
    تڑپتے رہ گئے گلزار میں رقیب ترے
    اٹھا کے صدمۂ فرقت وصال تک پہنچا
    تری حیات کا جوہر کمال تک پہنچا
    مرا کنول کہ تصدق ہیں جس پہ اہل نظر
    مرے شباب کے گلشن کو ناز ہے جس پر
    کبھی یہ پھول ہم آغوش مدعا نہ ہوا
    کسی کے دامن رنگیں سے آشنا نہ ہوا
    شگفتہ کر نہ سکے گی کبھی بہار اسے
    فسردہ رکھتا ہے گلچیں کا انتظار اسے
     
  12. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    ترانۂ ملی


    چین و عرب ہمارا ، ہندوستاں ہمارا
    مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
    توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
    آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
    دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
    ہم اس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا
    تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
    خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
    مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
    تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا
    باطل سے دنبے والے اے آسماں نہیں ہم
    سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
    اے گلستان اندلس! وہ دن ہیں یاد تجھ کو
    تھا تیری ڈالیوں پر جب آشیاں ہمارا
    اے موج دجلہ! تو بھی پہچانتی ہے ہم کو
    اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا
    اے ارض پاک! تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم
    ہے خوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا
    سالار کارواں ہے میر حجاز اپنا
    اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا
    اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا
    ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
     
  13. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    وطنیت

    (یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے)


    اس دور میں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور
    ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور
    مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
    تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
    ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
    جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے
    یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے
    غارت گر کاشانۂ دین نبوی ہے
    بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
    اسلام ترا دیس ہے ، تو مصطفوی ہے
    نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
    اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے !
    ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
    رہ بحر میں آزاد وطن صورت ماہی
    ہے ترک وطن سنت محبوب الہی
    دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی
    گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
    ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
    اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
    تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے
    خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
    کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
    اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
    قومیت اسلام کے جڑ کٹتی ہے اس سے
     
  14. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    ایک حاجی مدینے کے راستے میں


    قافلہ لوٹا گیا صحرا میں اور منزل ہے دور
    اس بیاباں یعنی بحر خشک کا ساحل ہے دور
    ہم سفر میرے شکار دشنۂ رہزن ہوئے
    بچ گئے جو ، ہو کے بے دل سوئے بیت اللہ پھرے
    اس بخاری نوجواں نے کس خوشی سے جان دی !
    موت کے زہراب میں پائی ہے اس نے زندگی
    خنجر رہزن اسے گویا ہلال عید تھا
    'ہائے یثرب' دل میں ، لب پر نعرۂ توحید تھا
    خوف کہتا ہے کہ یثرب کی طرف تنہا نہ چل
    شوق کہتا ہے کہ تو مسلم ہے ، بے باکانہ چل
    بے زیارت سوئے بیت اللہ پھر جاؤں گا کیا
    عاشقوں کو روز محشر منہ نہ دکھلاؤں گا کیا
    خوف جاں رکھتا نہیں کچھ دشت پیمائے حجاز
    ہجرت مدفون یثرب میں یہی مخفی ہے راز
    گو سلامت محمل شامی کی ہمراہی میں ہے
    عشق کی لذت مگر خطروں کے جاں کاہی میں ہے
    آہ! یہ عقل زیاں اندیش کیا چالاک ہے
    اور تاثر آدمی کا کس قدر بے باک ہے
     
  15. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    قطعہ

    کل ایک شوریدہ خواب گاہ نبی پہ رو رو کے کہہ رہا تھا
    کہ مصر و ہندوستاں کے مسلم بنائے ملت مٹا رہے ہیں
    یہ زائران حریم مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے
    ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں
    غضب ہیں یہ 'مرشدان خود بیں خدا تری قوم کو بچائے!
    بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں
    سنے گا اقبال کون ان کو ، یہ انجمن ہی بدل گئی ہے
    نئے زمانے میں آپ ہم کو پرانی باتیں سنا رہے ہیں !
     
  16. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    یہ نظم علامہ رحمۃ اللہ کی مشہور ترین نظم ہے ، اور کمال کی نظم ہے ، پڑھئے اور سر دھنئیے

    شکوہ


    کیوں زیاں کار بنوں ، سود فراموش رہوں
    فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں
    نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
    ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
    جرأت آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو
    شکوہ اللہ سے ، خاکم بدہن ، ہے مجھ کو
    ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
    قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
    ساز خاموش ہیں ، فریاد سے معمور ہیں ہم
    نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم
    اے خدا! شکوۂ ارباب وفا بھی سن لے
    خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھی سن لے
    تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قدیم
    پھول تھا زیب چمن پر نہ پریشاں تھی شمیم
    شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عمیم
    بوئے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم
    ہم کو جمعیت خاطر یہ پریشانی تھی
    ورنہ امت ترے محبوب کی دیوانی تھی؟
    ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
    کہیں مسجود تھے پتھر ، کہیں معبود شجر
    خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر
    مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر
    تجھ کو معلوم ہے ، لیتا تھا کوئی نام ترا؟
    قوت بازوئے مسلم نے کیا کام ترا
    بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی، تورانی بھی
    اہل چیں چین میں ، ایران میں ساسانی بھی
    اسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی
    اسی دنیا میں یہودی بھی تھے ، نصرانی بھی
    پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے
    بات جو بگڑی ہوئی تھی ، وہ بنائی کس نے
    تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں
    خشکیوں میں کبھی لڑتے ، کبھی دریاؤں میں
    دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
    کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
    شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی
    کلمہ جب پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی
    ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کے مصیبت کے لیے
    اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے
    تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے
    سربکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے؟
    قوم اپنی جو زر و مال جہاں پر مرتی
    بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی!
    ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
    پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
    تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
    تیغ کیا چیز ہے ، ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
    نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
    زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے
    تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا در خیبر کس نے
    شہر قیصر کا جو تھا ، اس کو کیا سر کس نے
    توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے
    کاٹ کر رکھ دیے کفار کے لشکر کس نے
    کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدۂ ایراں کو؟
    کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو؟
    کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئی
    اور تیرے لیے زحمت کش پیکار ہوئی
    کس کی شمشیر جہاں گیر ، جہاں دار ہوئی
    کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی
    کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
    منہ کے بل گر کے 'ھو اللہ احد' کہتے تھے
    آ گیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز
    قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز
    ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
    نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
    بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
    تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
    محفل کون و مکاں میں سحر و شام پھرے
    مے توحید کو لے کر صفت جام پھرے
    کوہ میں ، دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے
    اور معلوم ہے تجھ کو ، کبھی ناکام پھرے!
    دشت تو دشت ہیں ، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
    بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
    صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے
    نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے
    تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
    تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے
    پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
    ہم وفادار نہیں ، تو بھی تو دلدار نہیں!
    امتیں اور بھی ہیں ، ان میں گنہ گار بھی ہیں
    عجز والے بھی ہیں ، مست مۓ پندار بھی ہیں
    ان میں کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہیں، ہشیار بھی ہیں
    سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں
    رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
    برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
    بت صنم خانوں میں کہتے ہیں ، مسلمان گئے
    ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
    منزل دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے
    اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے
    خندہ زن کفر ہے ، احساس تجھے ہے کہ نہیں
    اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں
    یہ شکایت نہیں ، ہیں ان کے خزانے معمور
    نہیں محفل میں جنھیں بات بھی کرنے کا شعور
    قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور
    اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدۂ حور
    اب وہ الطاف نہیں ، ہم پہ عنایات نہیں
    بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں
    کیوں مسلمانوں میں ہے دولت دنیا نایاب
    تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب
    تو جو چاہے تو اٹھے سینۂ صحرا سے حباب
    رہرو دشت ہو سیلی زدۂ موج سراب
    طعن اغیار ہے ، رسوائی ہے ، ناداری ہے
    کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے؟
    بنی اغیار کی اب چاہنے والی دنیا
    رہ گئی اپنے لیے ایک خیالی دنیا
    ہم تو رخصت ہوئے ، اوروں نے سنبھالی دنیا
    پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا
    ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے
    کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے ، جام رہے!
    تیری محفل بھی گئی ، چاہنے والے بھی گئے
    شب کے آہیں بھی گئیں ، صبح کے نالے بھی گئے
    دل تجھے دے بھی گئے ، اپنا صلا لے بھی گئے
    آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے
    آئے عشاق ، گئے وعدۂ فردا لے کر
    اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
    درد لیلی بھی وہی ، قیس کا پہلو بھی وہی
    نجد کے دشت و جبل میں رم آہو بھی وہی
    عشق کا دل بھی وہی ، حسن کا جادو بھی وہی
    امت احمد مرسل بھی وہی ، تو بھی وہی
    پھر یہ آزردگی غیر سبب کیا معنی
    اپنے شیداؤں پہ یہ چشم غضب کیا معنی
    تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربی کو چھوڑا؟
    بت گری پیشہ کیا ، بت شکنی کو چھوڑا؟
    عشق کو ، عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟
    رسم سلمان و اویس قرنی کو چھوڑا؟
    آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
    زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں
    عشق کی خیر وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی
    جادہ پیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی
    مضطرب دل صفت قبلہ نما بھی نہ سہی
    اور پابندی آئین وفا بھی نہ سہی
    کبھی ہم سے ، کبھی غیروں سے شناسائی ہے
    بات کہنے کی نہیں ، تو بھی تو ہرجائی ہے !
    سر فاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے
    اک اشارے میں ہزاروں کے لیے دل تو نے
    آتش اندوز کیا عشق کا حاصل تو نے
    پھونک دی گرمی رخسار سے محفل تو نے
    آج کیوں سینے ہمارے شرر آباد نہیں
    ہم وہی سوختہ ساماں ہیں ، تجھے یاد نہیں؟
    وادی نجد میں وہ شور سلاسل نہ رہا
    قیس دیوانۂ نظارۂ محمل نہ رہا
    حوصلے وہ نہ رہے ، ہم نہ رہے ، دل نہ رہا
    گھر یہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا
    اے خوش آں روز کہ آئی و بصد ناز آئی
    بے حجابانہ سوئے محفل ما باز آئی
    بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جو بیٹھے
    سنتے ہیں جام بکف نغمۂ کو کو بیٹھے
    دور ہنگامۂ گلزار سے یک سو بیٹھے
    تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر 'ھو' بیٹھے
    اپنے پروانوں کو پھر ذوق خود افروزی دے
    برق دیرینہ کو فرمان جگر سوزی دے
    قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز
    لے اڑا بلبل بے پر کو مذاق پرواز
    مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز
    تو ذرا چھیڑ تو دے، تشنۂ مضراب ہے ساز
    نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے
    طور مضطر ہے اسی آگ میں جلنے کے لیے
    مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے
    مور بے مایہ کو ہمدوش سلیماں کر دے
    جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کر دے
    ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے
    جوئے خوں می چکد از حسرت دیرینۂ ما
    می تپد نالہ بہ نشتر کدۂ سینۂ ما
    بوئے گل لے گئی بیرون چمن راز چمن
    کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غماز چمن !
    عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن
    اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرواز چمن
    ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک
    اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
    قمریاں شاخ صنوبر سے گریزاں بھی ہوئیں
    پتّیاں پھول کی جھڑ جھڑ کے پریشاں بھی ہوئیں
    وہ پرانی روشیں باغ کی ویراں بھی ہوئیں
    ڈالیاں پیرہن برگ سے عریاں بھی ہوئیں
    قید موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی
    کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی!
    لطف مرنے میں ہے باقی ، نہ مزا جینے میں
    کچھ مزا ہے تو یہی خون جگر پینے میں
    کتنے بے تاب ہیں جوہر مرے آئینے میں
    کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں
    اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
    داغ جو سینے میں رکھتے ہوں ، وہ لالے ہی نہیں
    چاک اس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں
    جاگنے والے اسی بانگ درا سے دل ہوں
    یعنی پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں
    پھر اسی بادۂ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں
    عجمی خم ہے تو کیا ، مے تو حجازی ہے مری
    نغمہ ہندی ہے تو کیا ، لے تو حجازی ہے مری!
     
  17. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    چاند


    اے چاند! حسن تیرا فطرت کی آبرو ہے
    طوف حریم خاکی تیری قدیم خو ہے
    یہ داغ سا جو تیرے سینے میں ہے نمایاں
    عاشق ہے تو کسی کا، یہ داغ آرزو ہے؟
    میں مضطرب زمیں پر، بے تاب تو فلک پر
    تجھ کو بھی جستجو ہے ، مجھ کو بھی جستجو ہے
    انساں ہے شمع جس کی ، محفل وہی ہے تیری؟
    میں جس طرف رواں ہوں ، منزل وہی ہے تیری؟
    تو ڈھونڈتا ہے جس کو تاروں کی خامشی میں
    پوشیدہ ہے وہ شاید غوغائے زندگی میں
    استادہ سرو میں ہے ، سبزے میں سو رہا ہے
    بلبل میں نغمہ زن ہے ، خاموش ہے کلی میں
    آ ! میں تجھے دکھاؤں رخسار روشن اس کا
    نہروں کے آئنے میں شبنم کی آرسی میں
    صحرا و دشت و در میں ، کہسار میں وہی ہے
    انساں کے دل میں ، تیرے رخسار میں وہی ہے
     
  18. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    رات اور شاعر

    (1)


    رات


    کیوں میری چاندنی میں پھرتا ہے تو پریشاں
    خاموش صورت گل ، مانند بو پریشاں
    تاروں کے موتیوں کا شاید ہے جوہری تو
    مچھلی ہے کوئی میرے دریائے نور کی تو
    یا تو مری جبیں کا تارا گرا ہوا ہے
    رفعت کو چھوڑ کر جو بستی میں جا بسا ہے
    خاموش ہو گیا ہے تار رباب ہستی
    ہے میرے آئنے میں تصویر خواب ہستی
    دریا کی تہ میں چشم گرادب سو گئی ہے
    ساحل سے لگ کے موج بے تاب سو گئی ہے
    بستی زمیں کی کیسی ہنگامہ آفریں ہے
    یوں سو گئی ہے جیسے آباد ہی نہیں ہے
    شاعر کا دل ہے لیکن ناآشنا سکوں سے
    آزاد رہ گیا تو کیونکر مرے فسوں سے؟

    (2)

    شاعر

    میں ترے چاند کی کھیتی میں گہر بوتا ہوں
    چھپ کے انسانوں سے مانند سحر روتا ہوں
    دن کی شورش میں نکلتے ہوئے گھبراتے ہیں
    عزلت شب میں مرے اشک ٹپک جاتے ہیں
    مجھ میں فریاد جو پنہاں ہے ، سناؤں کس کو
    تپش شوق کا نظارہ دکھاؤں کس کو
    برق ایمن مرے سینے پہ پڑی روتی ہے
    دیکھنے والی ہے جو آنکھ ، کہاں سوتی ہے!
    صفت شمع لحد مردہ ہے محفل میری
    آہ، اے رات! بڑی دور ہے منزل میری
    عہد حاضر کی ہوا راس نہیں ہے اس کو
    اپنے نقصان کا احساس نہیں ہے اس کا
    ضبط پیغام محبت سے جو گھبراتا ہوں
    تیرے تابندہ ستاروں کو سنا جاتا ہوں
     
  19. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    بزم انجم


    سورج نے جاتے جاتے شام سیہ قبا کو
    طشت افق سے لے کر لالے کے پھول مارے
    پہنا دیا شفق نے سونے کا سارا زیور
    قدرت نے اپنے گہنے چاندی کے سب اتارے
    محمل میں خامشی کے لیلائے ظلمت آئی
    چمکے عروس شب کے موتی وہ پیارے پیارے
    وہ دور رہنے والے ہنگامۂ جہاں سے
    کہتا ہے جن کو انساں اپنی زباں میں 'تارے'
    محو فلک فروزی تھی انجمن فلک کی
    عرش بریں سے آئی آواز اک ملک کی
    اے شب کے پاسانو، اے آسماں کے تارو!
    تابندہ قوم ساری گردوں نشیں تمھاری
    چھیڑو سرود ایسا ، جاگ اٹھیں سونے والے
    رہبر ہے قافلوں کی تاب جبیں تمھاری
    آئینے قسمتوں کے تم کو یہ جانتے ہیں
    شاید سنیں صدائیں اہل زمیں تمھاری
    رخصت ہوئی خموشی تاروں بھری فضا سے
    وسعت تھی آسماں کی معمور اس نوا سے
    ''حسن ازل ہے پیدا تاروں کی دلبری میں
    جس طرح عکس گل ہو شبنم کے آرسی میں
    آئین نو سے ڈرنا ، طرز کہن پہ اڑنا
    منزل یہی کھٹن ہے قوموں کی زندگی میں
    یہ کاروان ہستی ہے تیز گام ایسا
    قومیں کچل گئی ہیں جس کی رواروی میں
    آنکھوں سے ہیں ہماری غائب ہزاروں انجم
    داخل ہیں وہ بھی لیکن اپنی برادری میں
    اک عمر میں نہ سمجھے اس کو زمین والے
    جو بات پا گئے ہم تھوڑی سی زندگی میں
    ہیں جذب باہمی سے قائم نظام سارے
    پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں
     
  20. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    سیر فلک


    تھا تخیل جو ہم سفر میرا
    آسماں پر ہوا گزر میرا
    اڑتا جاتا تھا اور نہ تھا کوئی
    جاننے والا چرخ پر میرا
    تارے حیرت سے دیکھتے تھے مجھے
    راز سر بستہ تھا سفر میرا
    حلقۂ صبح و شام سے نکلا
    اس پرانے نظام سے نکلا
    کیا سناؤں تمھیں ارم کیا ہے
    خاتم آرزوئے دیدہ و گوش
    شاخ طوبی! پہ نغمہ ریز طیور
    بے حجابانہ حور جلوہ فروش
    ساقیان جمیل جام بدست
    پینے والوں میں شور نوشانوش
    دور جنت سے آنکھ نے دیکھا
    ایک تاریک خانہ سرد و خموش
    طالع قیس و گیسوئے لیلی
    اس کی تاریکیوں سے دوش بدوش
    خنک ایسا کہ جس سے شرما کر
    کرۂ زمہریر ہو روپوش
    میں نے پوچھی جو کیفیت اس کی
    حیرت انگیز تھا جواب سروش
    یہ مقام خنک جہنم ہے
    نار سے ، نور سے تہی آغوش
    شعلے ہوتے ہیں مستعار اس کے
    جن سے لرزاں ہیں مرد عبرت کوش
    اہل دنیا یہاں جو آتے ہیں
    اپنے انگار ساتھ لاتے ہیں
     
  21. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    نصیحت



    میں نے اقبال سے از راہ نصیحت یہ کہا
    عامل روزہ ہے تو اور نہ پابند نماز
    تو بھی ہے شیوۂ ارباب ریا میں کامل
    دل میں لندن کی ہوس ، لب پہ ترے ذکر حجاز
    جھوٹ بھی مصلحت آمیز ترا ہوتا ہے
    تیرا انداز تملق بھی سراپا اعجاز
    ختم تقریر تری مدحت سرکار پہ ہے
    فکر روشن ہے ترا موجد آئین نیاز
    در حکام بھی ہے تجھ کو مقام محمود
    پالسی بھی تری پیچیدہ تر از زلف ایاز
    اور لوگوں کی طرح تو بھی چھپا سکتا ہے
    پردۂ خدمت دیں میں ہوس جاہ کا راز
    نظر آجاتا ہے مسجد میں بھی تو عید کے دن
    اثر وعظ سے ہوتی ہے طبیعت بھی گداز
    دست پرورد ترے ملک کے اخبار بھی ہیں
    چھیڑنا فرض ہے جن پر تری تشہیر کا ساز
    اس پہ طرہ ہے کہ تو شعر بھی کہہ سکتا ہے
    تیری مینائے سخن میں ہے شراب شیراز
    جتنے اوصاف ہیں لیڈر کے ، وہ ہیں تجھ میں سبھی
    تجھ کو لازم ہے کہ ہو اٹھ کے شریک تگ و تاز
    غم صیاد نہیں ، اور پر و بال بھی ہیں
    پھر سبب کیا ہے ، نہیں تجھ کو دماغ پرواز
    ''عاقبت منزل ما وادی خاموشان است
    حالیا غلغلہ در گنبد افلاک انداز''



     
  22. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    رام


    لبریز ہے شراب حقیقت سے جام ہند
    سب فلسفی ہیں خطۂ مغرب کے رام ہند
    یہ ہندیوں کے فکر فلک رس کا ہے اثر
    رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بام ہند
    اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں ملک سرشت
    مشہور جن کے دم سے ہے دنیا میں نام ہند
    ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
    اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند
    اعجاز اس چراغ ہدایت کا ہے یہی
    روشن تر از سحر ہے زمانے میں شام ہند
    تلوار کا دھنی تھا ، شجاعت میں فرد تھا
    پاکیزگی میں ، جوش محبت میں فرد تھا
     
  23. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    موٹر


    کیسی پتے کی بات جگندر نے کل کہی
    موٹر ہے ذوالفقار علی خان کا کیا خموش
    ہنگامہ آفریں نہیں اس کا خرام ناز
    مانند برق تیز ، مثال ہوا خموش
    میں نے کہا ، نہیں ہے یہ موٹر پہ منحصر
    ہے جادۂ حیات میں ہر تیزپا خموش
    ہے پا شکستہ شیوۂ فریاد سے جرس
    نکہت کا کارواں ہے مثال صبا خموش
    مینا مدام شورش قلقل سے پا بہ گل
    لیکن مزاج جام خرام آشنا خموش
    شاعر کے فکر کو پر پرواز خامشی
    سرمایہ دار گرمی آواز خامشی!
     
  24. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    انسان


    منظر چمنستاں کے زیبا ہوں کہ نازیبا
    محروم عمل نرگس مجبور تماشا ہے
    رفتار کی لذت کا احساس نہیں اس کو
    فطرت ہی صنوبر کی محروم تمنا ہے
    تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں
    انسان کی ہر قوت سرگرم تقاضا ہے
    اس ذرے کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم
    یہ ذرہ نہیں ، شاید سمٹا ہوا صحرا ہے
    چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستاں کی
    یہ ہستی دانا ہے ، بینا ہے ، توانا ہے
     
  25. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    خطاب بہ جوانان اسلام


    کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
    وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
    تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
    کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سر دارا
    تمدن آفریں خلاق آئین جہاں داری
    وہ صحرائے عرب یعنی شتربانوں کا گہوارا
    سماں 'الفقر فخری' کا رہا شان امارت میں
    ''بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روے زیبا را''
    گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
    کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
    غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
    جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا
    اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
    مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا
    تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
    کہ تو گفتار وہ کردار ، تو ثابت وہ سیارا
    گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
    ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
    حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
    نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا
    مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آبا کی
    جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
    ''غنی! روز سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن
    کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را
     
  26. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    غرۂ شوال یا ہلال عید


    غرۂ شوال! اے نور نگاہ روزہ دار
    آ کہ تھے تیرے لیے مسلم سراپا انتظار
    تیری پیشانی پہ تحریر پیام عید ہے
    شام تیری کیا ہے ، صبح عیش کی تمید ہے
    سرگزشت ملت بیضا کا تو آئینہ ہے
    اے مہ نو! ہم کو تجھ سے الفت دیرینہ ہے
    جس علم کے سائے میں تیغ آزما ہوتے تھے ہم
    دشمنوں کے خون سے رنگیں قبا ہوتے تھے ہم
    تیری قسمت میں ہم آغوشی اسی رایت کی ہے
    حسن روز افزوں سے تیرے آبرو ملت کی ہے
    آشنا پرور ہے قوم اپنی ، وفا آئیں ترا
    ہے محبت خیز یہ پیراہن سیمیں ترا
    اوج گردوں سے ذرا دنیا کی بستی دیکھ لے
    اپنی رفعت سے ہمارے گھر کی پستی دیکھ لے !
    قافلے دیکھ اور ان کی برق رفتاری بھی دیکھ
    رہر و درماندہ کی منزل سے بیزاری بھی دیکھ
    دیکھ کر تجھ کو افق پر ہم لٹاتے تھے گہر
    اے تہی ساغر! ہماری آج ناداری بھی دیکھ
    فرقہ آرائی کی زنجیروں میں ہیں مسلم اسیر
    اپنی آزادی بھی دیکھ ، ان کی گرفتاری بھی دیکھ
    دیکھ مسجد میں شکست رشتۂ تسبیح شیخ
    بت کدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ
    کافروں کی مسلم آئینی کا بھی نظارہ کر
    اور اپنے مسلموں کی مسلم آزاری بھی دیکھ
    بارش سنگ حوادث کا تماشائی بھی ہو
    امت مرحوم کی آئینہ دیواری بھی دیکھ
    ہاں ، تملق پیشگی دیکھ آبرو والوں کی تو
    اور جو بے آبرو تھے ، ان کی خود داری بھی دیکھ
    جس کو ہم نے آشنا لطف تکلم سے کیا
    اس حریف بے زباں کی گرم گفتاری بھی دیکھ
    ساز عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں میں سن
    اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ
    چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
    سادگی مسلم کی دیکھ ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ
    صورت آئینہ سب کچھ دیکھ اور خاموش رہ
    شورش امروز میں محو سرود دوش رہ
     
  27. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    شمع اور شاعر

    (فروری 1912ء)
    شاعر



    دوش می گفتم بہ شمع منزل ویران خویش
    گیسوے تو از پر پروانہ دارد شانہ اے
    درجہاں مثل چراغ لالۂ صحراستم
    نے نصیب محفلے نے قسمت کاشانہ اے
    مدتے مانند تو من ہم نفس می سوختم
    در طواف شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ اے
    می تپد صد جلوہ در جان امل فرسودمن
    بر نمی خیزد ازیں محفل دل دیوانہ اے
    از کجا ایں آتش عالم فروز اندوختی
    کرمک بے مایہ را سوز کلیم آموختی

    شمع

    مجھ کو جو موج نفس دیتی ہے پیغام اجل
    لب اسی موج نفس سے ہے نوا پیرا ترا
    میں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت میں سوز
    تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا
    گریہ ساماں میں کہ میرے دل میں ہے طوفان اشک
    شبنم افشاں تو کہ بزم گل میں ہو چرچا ترا
    گل بہ دامن ہے مری شب کے لہو سے میری صبح
    ہے ترے امروز سے نا آشنا فردا ترا
    یوں تو روشن ہے مگر سوز دروں رکھتا نہیں
    شعلہ ہے مثل چراغ لالۂ صحرا ترا
    سوچ تو دل میں ، لقب ساقی کا ہے زیبا تجھے؟
    انجمن پیاسی ہے اور پیمانہ بے صہبا ترا!
    اور ہے تیرا شعار ، آئین ملت اور ہے
    زشت روئی سے تری آئینہ ہے رسوا ترا
    کعبہ پہلو میں ہے اور سودائی بت خانہ ہے
    کس قدر شوریدہ سر ہے شوق بے پروا ترا
    قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں
    تنگ ہے صحرا ترا ، محمل ہے بے لیلا ترا
    اے در تابندہ ، اے پروردۂ آغوش موج!
    لذت طوفاں سے ہے نا آشنا دریا ترا
    اب نوا پیرا ہے کیا ، گلشن ہوا برہم ترا
    بے محل تیرا ترنم ، نغمہ بے موسم ترا
    تھا جنھیں ذوق تماشا ، وہ تو رخصت ہو گئے
    لے کے اب تو وعدۂ دیدار عام آیا تو کیا
    انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اٹھ گئے
    ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا
    آہ ، جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو چکی
    پھول کو باد بہاری کا پیام آیا تو کیا
    آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
    صبحدم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا
    بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصود ہر پروانہ تھا
    اب کوئی سودائی سوز تمام آیا تو کیا
    پھول بے پروا ہیں ، تو گرم نوا ہو یا نہ ہو
    کارواں بے حس ہے ، آواز درا ہو یا نہ ہو
    شمع محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا
    تیرے پروانے بھی اس لذت سے بیگانے رہے
    رشتۂ الفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تو
    پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے رہے
    شوق بے پروا گیا ، فکر فلک پیما گیا
    تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے
    وہ جگر سوزی نہیں ، وہ شعلہ آشامی نہیں
    فائدہ پھر کیا جو گرد شمع پروانے رہے
    خیر ، تو ساقی سہی لیکن پلائے گا کسے
    اب نہ وہ مے کش رہے باقی نہ مے خانے رہے
    رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے
    کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے
    آج ہیں خاموش وہ دشت جنوں پرور جہاں
    رقص میں لیلی رہی ، لیلی کے دیوانے رہے
    وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا
    کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
    جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی
    شہر ان کے مٹ گئے آبادیاں بن ہو گئیں
    سطوت توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی
    وہ نمازیں ہند میں نذر برہمن ہو گئیں
    دہر میں عیش دوام آئیں کی پابندی سے ہے
    موج کو آزادیاں سامان شیون ہو گئیں
    خود تجلی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی
    وہ نگاہیں نا امید نور ایمن ہوگئیں
    اڑتی پھرتی تھیں ہزاروں بلبلیں گلزار میں
    دل میں کیا آئی کہ پابند نشیمن ہو گئیں
    وسعت گردوں میں تھی ان کی تڑپ نظارہ سوز
    بجلیاں آسودۂ دامان خرمن ہوگئیں
    دیدۂ خونبار ہو منت کش گلزار کیوں
    اشک پیہم سے نگاہیں گل بہ دامن ہو گئیں
    شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی
    ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی
    مژدہ اے پیمانہ بردار خمستان حجاز!
    بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش
    نقد خودداری بہائے بادۂ اغیار تھی
    پھر دکاں تیری ہے لبریز صدائے ناؤ نوش
    ٹوٹنے کو ہے طلسم ماہ سیمایان ہند
    پھر سلیمی کی نظر دیتی ہے پیغام خروش
    پھر یہ غوغا ہے کہ لاساقی شراب خانہ ساز
    دل کے ہنگامے مۓ مغرب نے کر ڈالے خموش
    نغمہ پیرا ہو کہ یہ ہنگام خاموشی نہیں
    ہے سحر کا آسماں خورشید سے مینا بدوش
    در غم دیگر بسوز و دیگراں را ہم بسوز
    گفتمت روشن حدیثے گر توانی دار گوش
    کہہ گئے ہیں شاعری جزو یست از پیغمبری
    ہاں سنا دے محفل ملت کو پیغام سروش
    آنکھ کو بیدار کر دے وعدۂ دیدار سے
    زندہ کر دے دل کو سوز جوہر گفتار سے
    رہزن ہمت ہوا ذوق تن آسانی ترا
    بحر تھا صحرا میں تو ، گلشن میں مثل جو ہوا
    اپنی اصلیت پہ قائم تھا تو جمعیت بھی تھی
    چھوڑ کر گل کو پریشاں کاروان بو ہوا
    زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرار حیات
    یہ کبھی گوہر ، کبھی شبنم ، کبھی آنسو ہوا
    پھر کہیں سے اس کو پیدا کر ، بڑی دولت ہے یہ
    زندگی کیسی جو دل بیگانۂ پہلو ہوا
    فرد قائم ربط ملت سے ہے ، تنہا کچھ نہیں
    موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
    پردۂ دل میں محبت کو ابھی مستور رکھ
    آبر باقی تری ملت کی جمیعت ہے تھی
    جب یہ جمعیّت گئی ، دنیا میں رسوا تو ہوا
    یعنی اپنی مے کو رسوا صورت مینا نہ کر
    خیمہ زن ہو وادی سینا میں مانند کلیم
    شعلۂ تحقیق کو غارت گر کاشانہ کر
    شمع کو بھی ہو ذرا معلوم انجام ستم
    صرف تعمیر سحر خاکستر پروانہ کر
    تو اگر خود دار ہے ، منت کش ساقی نہ ہو
    عین دریا میں حباب آسا نگوں پیمانہ کر
    کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہیں
    ہے جنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر
    خاک میں تجھ کو مقدر نے ملایا ہے اگر
    تو عصا افتاد سے پیدا مثال دانہ کر
    ہاں ، اسی شاخ کہن پر پھر بنا لے آشیاں
    اہل گلشن کو شہید نغمۂ مستانہ کر
    اس چمن میں پیرو بلبل ہو یا تلمیذ گل
    یا سراپا نالہ بن جا یا نوا پیدا نہ کر
    کیوں چمن میں بے صدا مثل رم شبنم ہے تو
    لب کشا ہو جا ، سرود بربط عالم ہے تو
    آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
    دانہ تو ، کھیتی بھی تو ، باراں بھی تو ، حاصل بھی تو
    آہ ، کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
    راہ تو ، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو ، منزل بھی تو
    کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا
    ناخدا تو ، بحر تو ، کشتی بھی تو ، ساحل بھی تو
    دیکھ آ کر کوچۂ چاک گریباں میں کبھی
    قیس تو، لیلی بھی تو ، صحرا بھی تو، محمل بھی تو
    وائے نادانی کہ تو محتاج ساقی ہو گیا
    مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو
    شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو
    خوف باطل کیا کہ ہے غارت گر باطل بھی تو
    بے خبر! تو جوہر آئینۂ ایام ہے
    تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
    اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
    قطرہ ہے ، لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ہے
    کیوں گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے تو
    دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکت طوفاں بھی ہے
    سینہ ہے تیرا امیں اس کے پیام ناز کا
    جو نظام دہر میں پیدا بھی ہے ، پنہاں بھی ہے
    ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ
    تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے
    اب تلک شاہد ہے جس پر کوہ فاراں کا سکوت
    اے تغافل پیشہ! تجھ کو یاد وہ پیماں بھی ہے ؟
    تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
    ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے
    دل کی کیفیت ہے پیدا پردۂ تقریر میں
    کسوت مینا میں مے مستور بھی ، عریاں بھی ہے
    پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے
    اورمیری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے
    راز اس آتش نوائی کا مرے سینے میں دیکھ
    جلوۂ تقدیر میرے دل کے آئینے میں دیکھ!
    آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
    اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
    اس قدر ہوگی ترنم آفریں باد بہار
    نکہت خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی
    آملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
    بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی
    شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز
    اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی
    دیکھ لو گے سطوت رفتار دریا کا مآل
    موج مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی
    پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود
    پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی
    نالۂ صیاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور
    خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی
    آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے ، لب پہ آ سکتا نہیں
    محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
    شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے
    یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے
     
  28. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    مسلم
    (جون1912ء)


    ہر نفس اقبال تیرا آہ میں مستور ہے
    سینۂ سوزاں ترا فریاد سے معمور ہے
    نغمۂ امید تیری بربط دل میں نہیں
    ہم سمجھتے ہیں یہ لیلی تیرے محمل میں نہیں
    گوش آواز سرود رفتہ کا جویا ترا
    اور دل ہنگامۂ حاضر سے بے پروا ترا
    قصۂ گل ہم نوایان چمن سنتے نہیں
    اہل محفل تیرا پیغام کہن سنتے نہیں
    اے درائے کاروان خفتہ پا! خاموش رہ
    ہے بہت یاس آفریں تیری صدا خاموش رہ
    زندہ پھر وہ محفل دیرینہ ہو سکتی نہیں
    شمع سے روشن شب دوشینہ ہوسکتی نہیں
    ہم نشیں! مسلم ہوں میں، توحید کا حامل ہوں میں
    اس صداقت پر ازل سے شاہد عادل ہوں میں
    نبض موجودات میں پیدا حرارت اس سے ہے
    اور مسلم کے تخیل میں جسارت اس سے ہے
    حق نے عالم اس صداقت کے لیے پیدا کیا
    اور مجھے اس کی حفاظت کے لیے پیدا کیا
    دہر میں غارت گر باطل پرستی میں ہوا
    حق تو یہ ہے حافظ ناموس ہستی میں ہوا
    میری ہستی پیرہن عریانی عالم کی ہے
    میرے مٹ جانے سے رسوائی بنی آدم کی ہے
    قسمت عالم کا مسلم کوکب تابندہ ہے
    جس کی تابانی سے افسون سحر شرمندہ ہے
    آشکارا ہیں مری آنکھوں پہ اسرار حیات
    کہہ نہیں سکتے مجھے نومید پیکار حیات
    کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے
    ہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر پر مجھے
    یاس کے عنصر سے ہے آزاد میرا روزگار
    فتح کامل کی خبر دتیا ہے جوش کارزار
    ہاں یہ سچ ہے چشم بر عہد کہن رہتا ہوں میں
    اہل محفل سے پرانی داستاں کہتا ہوں میں
    یاد عہد رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے
    میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے
    سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو میں
    دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں
     
  29. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    حضور رسالت مآب میں


    گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامۂ زمانہ ہوا
    جہاں سے باندھ کے رخت سفر روانہ ہوا
    قیود شام وسحر میں بسر تو کی لیکن
    نظام کہنۂ عالم سے آشنا نہ ہوا
    فرشتے بزم رسالت میں لے گئے مجھ کو
    حضور آیۂ رحمت میں لے گئے مجھ کو
    کہا حضور نے ، اے عندلیب باغ حجاز!
    کلی کلی ہے تری گرمئ نوا سے گداز
    ہمیشہ سرخوش جام ولا ہے دل تیرا
    فتادگی ہے تری غیرت سجود نیاز
    اڑا جو پستی دنیا سے تو سوئے گردوں
    سکھائی تجھ کو ملائک نے رفعت پرواز
    نکل کے باغ جہاں سے برنگ بو آیا
    ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا؟
    ''حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملتی
    تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی
    ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں
    وفا کی جس میں ہو بو' وہ کلی نہیں ملتی
    مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں
    جو چیز اس میں ہے' جنت میں بھی نہیں ملتی
    جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں
    طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں''
     
  30. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    شفاخانۂ حجاز


    اک پیشوائے قوم نے اقبال سے کہا
    کھلنے کو جدہ میں ہے شفاخانۂ حجاز
    ہوتا ہے تیری خاک کا ہر ذرہ بے قرار
    سنتا ہے تو کسی سے جو افسانۂ حجاز
    دست جنوں کو اپنے بڑھا جیب کی طرف
    مشہور تو جہاں میں ہے دیوانۂ حجاز
    دارالشفا حوالی لبطحا میں چاہیے
    نبض مریض پنجۂ عیسی میں چاہیے
    میں نے کہا کہ موت کے پردے میں ہے حیات
    پوشیدہ جس طرح ہو حقیقت مجاز میں
    تلخابۂ اجل میں جو عاشق کو مل گیا
    پایا نہ خضر نے مے عمر دراز میں
    اوروں کو دیں حضور! یہ پیغام زندگی
    میں موت ڈھونڈتا ہوں زمین حجاز میں
    آئے ہیں آپ لے کے شفا کا پیام کیا
    رکھتے ہیں اہل درد مسیحا سے کام کیا!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں