1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کلیات اقبال رحمۃ اللہ

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏20 جولائی 2011۔

  1. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    دل

    قصۂ دار و رسن بازیِ طفلانۂ دل
    التجائے ’اَرِنی‘ سرخی افسانۂ دل
    یا رب اس ساغر لبریز کی مے کیا ہو گی
    جادہ ملک بقا ہے خط پیمانۂ دل
    ابر رحمت تھا کہ تھی عشق کی بجلی یا رب!
    جل گئی مزرعِ ہستی تو اُگا دانۂ دل
    حسن کا گنج گراں مایہ تجھے مل جاتا
    تو نے فرہاد! نہ کھودا کبھی ویرانۂ دل!
    عرش کا ہے کبھی کعبے کا ہے دھوکا اس پر
    کس کی منزل ہے الٰہی! مرا کاشانۂ دل
    اس کو اپنا ہے جنوں اور مجھے سودا اپنا
    دل کسی اور کا دیوانہ، میں دیوانۂ دل
    تو سمجھتا نہیں اے زاہد ناداں اس کو
    رشک صد سجدہ ہے اک لغزش مستانۂ دل
    خاک کے ڈھیر کو اِکسیر بنا دیتی ہے
    وہ اثر رکھتی ہے خاکستر پروانۂ دل
    عشق کے دام میں پھنس کر یہ رِہا ہوتا ہے
    برق گرتی ہے تو یہ نخل ہرا ہوتا ہے
     
  2. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    مو ج دریا

    مضطرب رکھتا ہے میرا دلِ بے تاب مجھے
    عین ہستی ہے تڑپ صورتِ سیماب مجھے
    موج ہے نام مرا، بحر ہے پایاب مجھے
    ہو نہ زنجیر کبھی حلقۂ گرداب مجھے
    آب میں مثل ہوا جاتا ہے توسن میرا
    خار ماہی سے نہ اٹکا کبھی دامن میرا
    میں اچھلتی ہوں کبھی جذبِ مہ کامل سے
    جوش میں سر کو پٹکتی ہوں کبھی ساحل سے
    ہوں وہ رہرو کہ محبت ہے مجھے منزل سے
    کیوں تڑپتی ہوں، یہ پوچھے کوئی میرے دل سے
    زحمت تنگی دریا سے گریزاں ہوں میں
    وسعت بحر کی فرقت میں پریشاں ہوں میں

     
  3. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    رخصت اے بزمِ جہاں !
    ( ماخوذ از ایمرسن)


    رخصت اے بزمِ جہاں! سوئے وطن جاتا ہوں میں
    آہ! اس آباد ویرانے میں گھبراتا ہوں میں
    بسکہ میں افسردہ دل ہوں، درخورِ محفل نہیں
    تو مرے قابل نہیں ہے، میں ترے قابل نہیں
    قید ہے، دربارِ سلطان و شبستان وزیر
    توڑ کر نکلے گا زنجیر طلائی کا اسیر
    گو بڑی لذت تری ہنگامہ آرائی میں ہے
    اجنبیت سی مگر تیری شناسائی میں ہے
    مدتوں تیرے خود آراؤں سے ہم صحبت رہا
    مدتوں بے تاب موج بحر کی صورت رہا
    مدتوں بیٹھا ترے ہنگامۂ عشرت میں میں
    روشنی کی جستجو کرتا رہا ظلمت میں میں
    مدتوں ڈھونڈا کیا نظارئہ گل، خار میں
    آہ، وہ یوسف نہ ہاتھ آیا ترے بازار میں
    چشم حیراں ڈھونڈتی اب اور نظارے کو ہے
    آرزو ساحل کی مجھ طوفان کے مارے کو ہے
    چھوڑ کر مانند بو تیرا چمن جاتا ہوں میں
    رخصت اے بزمِ جہاں! سوئے وطن جاتا ہوں میں
    گھر بنایا ہے سکوتِ دامن کہسار میں
    آہ! یہ لذت کہاں موسیقی گفتار میں
    ہم نشین نرگس شہلا، رفیق گل ہوں میں
    ہے چمن میرا وطن، ہمسایۂ بلبل ہوں میں
    شام کو آواز چشموں کی سلاتی ہے مجھے
    صبح فرشِ سبز سے کوئل جگاتی ہے مجھے
    بزمِ ہستی میں ہے سب کو محفل آرائی پسند
    ہے دلِ شاعر کو لیکن کنج تنہائی پسند
    ہے جنوں مجھ کو کہ گھبراتا ہوں آبادی میں میں
    ڈھونڈتا پھرتا ہوں کس کو کوہ کی وادی میں میں؟
    شوق کس کا سبزہ زاروں میں پھراتا ہے مجھے؟
    اور چشموں کے کناروں پر سلاتا ہے مجھے؟
    طعنہ زن ہے تو کہ شیدا کنج عزلت کا ہوں میں
    دیکھ اے غافل! پیامی بزمِ قدرت کا ہوں میں
    ہم وطن شمشاد کا، قمری کا میں ہم راز ہوں
    اس چمن کی خامشی میں گوش بر آواز ہوں
    کچھ جو سنتا ہوں تو اوروں کو سنانے کے لیے
    دیکھتا ہوں کچھ تو اوروں کو دکھانے کے لیے
    عاشق عزلت ہے دل، نازاں ہوں اپنے گھر پہ میں
    خندہ زن ہوں مسند دارا و اسکندر پہ میں
    لیٹنا زیر شجر رکھتا ہے جادو کا اثر
    شام کے تارے پہ جب پڑتی ہو رہ رہ کر نظر
    علم کے حیرت کدے میں ہے کہاں اس کی نمود!
    گل کی پتی میں نظر آتا ہے راز ہست و بود
     
  4. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    طفل شیر خوار

    میں نے چاقو تجھ سے چھینا ہے تو چلاتا ہے تو
    مہرباں ہوں میں، مجھے نا مہرباں سمجھا ہے تو
    پھر پڑا روئے گا اے نووارد اقلیم غم
    چبھ نہ جائے دیکھنا! باریک ہے نوک قلم
    آہ! کیوں دُکھ دینے والی شے سے تجھ کو پیار ہے
    کھیل اس کاغذ کے ٹکڑے سے، یہ بے آزار ہے
    گیند ہے تیری کہاں، چینی کی بلی ہے کد ھر؟
    وہ ذرا سا جانور ٹوٹا ہوا ہے جس کا سر
    تیرا آئینہ تھا آزادِ غبارِ آرزو
    آنکھ کھلتے ہی چمک اٹھا شرارِ آرزو
    ہاتھ کی جنبش میں، طرزِ دید میں پوشیدہ ہے
    تیری صورت آرزو بھی تیری نوزائیدہ ہے
    زندگانی ہے تری آزادِ قید امتیاز
    تیری آنکھوں پر ہویدا ہے مگر قدرت کا راز
    جب کسی شے پر بگڑ کر مجھ سے، چلاتا ہے تو
    کیا تماشا ہے ردی کاغذ سے من جاتا ہے تو
    آہ! اس عادت میں ہم آہنگ ہوں میں بھی ترا
    تو تلون آشنا، میں بھی تلون آشنا
    عارضی لذت کا شیدائی ہوں، چلاتا ہوں میں
    جلد آ جاتا ہے غصہ، جلد من جاتا ہوں میں
    میری آنکھوں کو لبھا لیتا ہے حسن ظاہری
    کم نہیں کچھ تیری نادانی سے نادانی مری
    تیری صورت گاہ گریاں گاہ خنداں میں بھی ہوں
    دیکھنے کو نوجواں ہوں، طفل ناداں میں بھی ہوں
     
  5. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    تصویر درد

    نہیں منّت کش تاب شنیدن داستاں میری
    خموشی گفتگو ہے، بے زبانی ہے زباں میری
    یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
    یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
    اٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گل نے
    چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
    اڑالی قمریوں نے، طوطیوں نے، عندلیبوں نے
    چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری
    ٹپک اے شمع آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے
    سراپا درد ہوں، حسرت بھری ہے داستاں میری
    الٰہی! پھر مزا کیا ہے یہاں دنیا میں رہنے کا
    حیات جاوداں میری، نہ مرگ ناگہاں میری!
    مرا رونا نہیں، رونا ہے یہ سارے گلستاں کا
    وہ گل ہوں میں، خزاں ہر گل کی ہے گویا خزاں میری
    ”دریں حسرت سرا عمریست افسون جرس دارم
    ز فیض دل تپیدنہا خروش بے نفس دارم“

    ریاض دہر میں نا آشنائے بزمِ عشرت ہوں
    خوشی روتی ہے جس کو، میں وہ محرومِ مسرت ہوں
    مری بگڑی ہوئی تقدیر کو روتی ہے گویائی
    میں حرفِ زیر لب، شرمندۂ گوش سماعت ہوں
    پریشاں ہوں میں مشت خاک، لیکن کچھ نہیں کھلتا
    سکندر ہوں کہ آئینہ ہوں یا گرد کدورت ہوں
    یہ سب کچھ ہے مگر ہستی مری مقصد ہے قدرت کا
    سراپا نور ہو جس کی حقیقت، میں وہ ظلمت ہوں
    خزینہ ہوں، چھپایا مجھ کو مشت خاک صحرا نے
    کسی کو کیا خبر ہے میں کہاں ہوں کس کی دولت ہوں!
    نظر میری نہیں ممنون سیر عرصۂ ہستی
    میں وہ چھوٹی سی دنیا ہوں کہ آپ اپنی ولایت ہوں
    نہ صہباہوں نہ ساقی ہوں، نہ مستی ہوں نہ پیمانہ
    میں اس مےخانۂ ہستی میں ہر شے کی حقیقت ہوں
    مجھے راز دو عالم دل کا آئینہ دکھاتا ہے
    وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے

    عطا ایسا بیاں مجھ کو ہوا رنگیں بیانوں میں
    کہ بامِ عرش کے طائر ہیں میرے ہم زبانوں میں
    اثر یہ بھی ہے اک میرے جنون فتنہ ساماں کا
    مرا آ ئینۂ دل ہے قضا کے رازدانوں میں
    رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں! مجھ کو
    کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں
    دیا رونا مجھے ایسا کہ سب کچھ دے دیا گویا
    لکھا کلک ازل نے مجھ کو تیرے نوحہ خوانوں میں
    نشان برگ گل تک بھی نہ چھوڑ اس باغ میں گُلچیں!
    تری قسمت سے رزم آرائیاں ہیں باغبانوں میں
    چھپاکر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے
    عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
    سن اے غافل صدا میری، یہ ایسی چیز ہے جس کو
    وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں
    وطن کی فکر کر ناداں! مصیبت آنے والی ہے
    تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
    ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے
    دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں
    یہ خاموشی کہاں تک؟ لذت فریاد پیدا کر
    زمیں پر تو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں
    نہ سمجھو گے تو مِٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو!
    تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
    یہی آئین قدرت ہے، یہی اسلوب فطرت ہے
    جو ہے راہ عمل میں گام زن، محبوبِ فطرت ہے

    ہویدا آج اپنے زخم پنہاں کر کے چھوڑوں گا
    لہو رو رو کے محفل کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا
    جلانا ہے مجھے ہر شمع دل کو سوزِ پنہاں سے
    تری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑوں گا
    مگر غنچوں کی صورت ہوں دل درد آشنا پیدا
    چمن میں مشت خاک اپنی پریشاں کر کے چھوڑوں گا
    پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو
    جو مشکل ہے، تو اس مشکل کو آساں کر کے چھوڑوں گا
    مجھے اے ہم نشیں رہنے دے شغل سینہ کاوی میں
    کہ میں داغ محبت کو نمایاں کر کے چھوڑوں گا
    دکھا دوں گا جہاں کو جو مر ی آنکھوں نے دیکھا ہے
    تجھے بھی صورتِ آئینہ حیراں کر کے چھوڑوں گا
    جو ہے پردوں میں پنہاں، چشم بینا دیکھ لیتی ہے
    زمانے کی طبیعت کا تقاضا دیکھ لیتی ہے

    کیا رفعت کی لذت سے نہ دل کو آشنا تو نے
    گزاری عمر پستی میں مثال نقش پا تو نے
    رہا دل بستۂ محفل، مگر اپنی نگاہوں کو
    کیا بیرون محفل سے نہ حیرت آشنا تو نی
    فدا کرتا رہا دل کو حسینوں کی اداؤں پر
    مگر دیکھی نہ اس آئینے میں اپنی ادا تو نے
    تعصب چھوڑ ناداں! دہر کے آئینہ خانے میں
    یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے برا تو نے
    سراپا نالۂ بیدادِ سوزِ زندگی ہو جا
    سپند آسا گرہ میں باندھ رکھی ہے صدا تو نے
    صفاے دل کو کیا آرائش رنگ تعلق سے
    کف آئینہ پر باندھی ہے او ناداں حنا تو نے
    زمیں کیا، آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے
    غضب ہے سطر قرآں کو چلیپا کر دیا تو نے!
    زباں سے گر کیا توحید کا دعویٰ تو کیا حاصل!
    بنایا ہے بت پندار کو اپنا خدا تو نے
    کنویں میں تو نے یوسف کو جو دیکھا بھی تو کیا دیکھا
    ارے غافل! جو مطلق تھا مقید کر دیا تو نے
    ہوس بالائے منبر ہے تجھے رنگیں بیانی کی
    نصیحت بھی تری صورت ہے اک افسانہ خوانی کی

    دکھا وہ حسن عالم سوز اپنی چشم پرنم کو
    جو تڑپاتا ہے پروانے کو، رلواتا ہے شبنم کو
    نرا نظارہ ہی اے بوالہوس مقصد نہیں اس کا
    بنایا ہے کسی نے کچھ سمجھ کر چشم آدم کو
    اگر دیکھا بھی اُس نے سارے عالم کو تو کیا دیکھا
    نظر آئی نہ کچھ اپنی حقیقت جام سے جم کو
    شجر ہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمر اس کا
    یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو
    نہ اٹھا جذبۂ خورشید سے اک برگ گل تک بھی
    یہ رفعت کی تمنّا ہے کہ لے اُڑتی ہے شبنم کو
    پھرا کرتے نہیں مجروح الفت فکر درماں میں
    یہ زخمی آپ کر لیتے ہیں پیدا اپنے مرہم کو
    محبت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے
    ذرا سے بیج سے پیدا ریاض طور ہوتا ہے

    دوا ہر دکھ کی ہے مجروح تیغ آرزو رہنا
    علاج زخم ہے آزاد احسان رفو رہنا
    شراب بے خودی سے تا فلک پرواز ہے میری
    شکست رنگ سے سیکھا ہے میں نے بن کے بو رہنا
    تھمے کیا دیدئہ گریاں وطن کی نوحہ خوانی میں
    عبادت چشم شاعر کی ہے ہر دم باوضو رہنا
    بنائیں کیا سمجھ کر شاخ گل پر آشیاں اپنا
    چمن میں آہ! کیا رہنا جو ہو بے آبرو رہنا
    جو تو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبت میں
    غلامی ہے اسیر امتیاز ماوتو رہنا
    یہ استغنا ہے، پانی میں نگوں رکھتا ہے ساغر کو
    تجھے بھی چاہیے مثل حباب آبجو رہنا
    نہ رہ اپنوں سے بے پروا، اسی میں خیر ہے تیری
    اگر منظور ہے دنیا میں او بیگانہ خو! رہنا
    شراب روح پرور ہے محبت نوعِ انساں کی
    سکھایا اس نے مجھ کو مست بے جام و سبو رہنا
    محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے
    کیا ہے اپنے بخت خفتہ کو بیدار قوموں نے

    بیابانِ محبت دشت غربت بھی، وطن بھی ہے
    یہ ویرانہ قفس بھی، آشیانہ بھی، چمن بھی ہے
    محبت ہی وہ منزل ہے کہ منزل بھی ہے، صحرا بھی
    جرس بھی، کارواں بھی، راہبر بھی، راہزن بھی ہے
    مرض کہتے ہیں سب اس کو، یہ ہے لیکن مرض ایسا
    چھپا جس میں علاج گردش چرخ کہن بھی ہے
    جلانا دل کا ہے گویا سراپا نور ہو جانا
    یہ پروانہ جو سوزاں ہو تو شمع انجمن بھی ہے
    وہی اک حسن ہے، لیکن نظر آتا ہے ہر شے میں
    یہ شیریں بھی ہے گویا، بیستوں بھی، کوہکن بھی ہے
    اجاڑا ہے تمیز ملت و آئیں نے قوموں کو
    مرے اہل وطن کے دل مےں کچھ فکر وطن بھی ہے؟
    سکوت آموز طول داستان درد ہے ورنہ
    زباں بھی ہے ہمارے منہ میں اور تاب سخن بھی ہے
    ”نمیگردید کوتہ رشتہ معنی رہا کردم
    حکایت بود بے پایاں، بخاموشی ادا کردم“

     
  6. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    نا لہ فراق
    ( آرنلڈ کی یاد میں )


    جا بسا مغرب میں آخر اے مکاں تیرا مکیں
    آہ! مشرق کی پسند آئی نہ اس کو سر زمیں
    آ گیا آج اس صداقت کا مرے دل کو یقیں
    ظلمت شب سے ضیائے روز فرقت کم نہیں
    ”تا ز آغوش وداعش داغ حیرت چیدہ است
    ہمچو شمع کشتہ در چشمم نگہ خوابیدہ است“
    کشتہ ٔعزلت ہوں، آبادی میں گھبراتا ہوں میں
    شہر سے سودا کی شدّت میں نکل جاتا ہوں میں
    یاد ایامِ سلف سے دل کو تڑپاتا ہوں میں
    بہر تسکیں تیری جانب دوڑتا آتا ہوں میں
    آنکھ گو مانوس ہے تیرے در و دیوار سے
    اجنبیت ہے مگر پیدا مری رفتار سے
    ذرّہ میرے دل کا خورشید آشنا ہونے کو تھا
    آئینہ ٹوٹا ہوا عالم نما ہونے کو تھا
    نخل میری آرزوﺅں کا ہرا ہونے کو تھا
    آہ! کیا جانے کوئی میں کیا سے کیا ہونے کو تھا
    ابر رحمت دامن از گلزار من برچید و رفت
    اندکے بر غنچہ ہائے آرزو بارےد و رفت
    تو کہاں ہے اے کلیم ذروئہ سینائے علم
    تھی تری موج نفس باد نشاط افزائے علم
    اب کہاں وہ شوق رہ پیمائی صحرائے علم
    تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم
    ”شور لیلیٰ کو کہ باز آرایش سودا کند
    خاک مجنوں را غبار خاطر صحرا کند“
    کھول دے گا دشت وحشت عقدئہ تقدیر کو
    توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو
    دیکھتا ہے دیدئہ حیراں تری تصویر کو
    کیا تسلی ہو مگر گرویدۂ تقریر کو
    ”تاب گویائی نہیں رکھتا دہن تصویر کا
    خامشی کہتے ہیں جس کو، ہے سخن تصویر کا“

     
  7. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    چاند

    میرے ویرانے سے کوسوں دور ہے تیرا وطن
    ہے مگر دریائے دل تیری کشش سے موجزن
    قصد کس محفل کا ہے؟ آتا ہے کس محفل سے تو؟
    زرد رو شاید ہوا رنج رہ منزل سے تو
    آفرنیش میں سراپا نور تو، ظلمت ہوں میں
    اس سیہ روزی پہ لیکن تیرا ہم قسمت ہوں میں
    آہ، میں جلتا ہوں سوز اشتیاق دید سے
    تو سراپا سوز داغ منّت خورشید سے
    ایک حلقے پر اگر قائم تری رفتار ہے
    میری گردش بھی مثال گردش پرکار ہے
    زندگی کی رہ میں سرگرداں ہے تو، حیراں ہوں میں
    تو فروزاں محفل ہستی میں ہے، سوزاں ہوں میں
    میں رہ منزل میں ہوں، تو بھی رہ منزل میں ہی
    تیری محفل میں جو خاموشی ہے ، میرے دل میں ہے
    تو طلب خو ہے تو میرا بھی یہی دستور ہے
    چاندنی ہے نور تیرا، عشق میرا نور ہے
    انجمن ہے ایک میری بھی جہاں رہتا ہوں میں
    بزم میں اپنی اگر یکتا ہے تو، تنہا ہوں میں
    مہر کا پرتو ترے حق میں ہے پیغامِ اجل
    محو کر دیتا ہے مجھ کو جلوئہ حسن ازل
    پھر بھی اے ماہ مبیں! میں اور ہوں تو اور ہے
    درد جس پہلو میں اُٹھتا ہو، وہ پہلو اور ہے
    گرچہ میں ظلمت سراپا ہوں، سراپا نور تو
    سینکڑوں منزل ہے ذوق آگہی سے دور تو
    جو مری ہستی کا مقصد ہے، مجھے معلوم ہے
    یہ چمک وہ ہے، جبیں جس سے تری محروم ہے

     
  8. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    بلالؓ

    چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا
    حبش سے تجھ کو اٹھا کر حجاز میں لایا
    ہوئی اسی سے ترے غم کدے کی آبادی
    تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی
    وہ آستاں نہ چھٹا تجھ سے ایک دم کے لیے
    کسی کے شوق میں تو نے مزے ستم کے لیے
    جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں
    ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں
    نظر تھی صورتِ سلماںؓ اداشناس تری
    شرابِ دید سے بڑھتی تھی اور پیاس تری
    تجھے نظارے کا مثلِ کلیمؑ سودا تھا
    اویسؓ طاقت دیدار کو ترستا تھا
    مدینہ تیری نگاہوں کا نور تھا گویا
    ترے لیے تو یہ صحرا ہی طور تھا گویا
    تری نظر کو رہی دید میں بھی حسرت دید
    خنک دلی کہ تپےد و دمی نیاسائید
    گری وہ برق تری جان ناشکیبا پر
    کہ خندہ زن تری ظلمت تھی دست موسیٰ پر
    تپش ز شعلہ گر فتند و بر دلِ تو زدند
    چہ برق جلوہ بخاشاک حاصل تو زدند!
    ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری
    کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری
    اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
    نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
    خوشا وہ وقت کہ یثرب مقام تھا اس کا
    خوشا وہ دور کہ دیدار عام تھا اس کا
     
  9. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    سر گزشت آدم

    سنے کوئی مری غربت کی داستاں مجھ سے
    بھلایا قصۂ پیمانِ اوّلیں میں نے
    لگی نہ میری طبیعت ریاض جنت میں
    پیا شعور کا جب جامِ آتشیں میں نے
    رہی حقیقت عالم کی جستجو مجھ کو
    دکھایا اوجِ خیالِ فلک نشیں میں نے
    ملا مزاج تغیر پسند کچھ ایسا
    کیا قرار نہ زیر فلک کہیں میں نے
    نکالا کعبے سے پتھر کی مورتوں کو کبھی
    کبھی بتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے
    کبھی میں ذوقِ تکلم میں طور پر پہنچا
    چھپایا نور ازل زیر آستیں میں نے
    کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا
    کیا فلک کو سفر، چھوڑ کر زمیں میں نے
    کبھی میں غارِ حرا میں چھپا رہا برسوں
    دیا جہاں کو کبھی جامِ آخریں میں نے
    سنایا ہند میں آ کر سرودِ ربانی
    پسند کی کبھی یوناں کی سر زمیں میں نے
    دیارِ ہند نے جس دم مری صدا نہ سنی
    بسایا خطۂ جاپان و ملک چیں میں نے
    بنایا ذرّوں کی ترکیب سے کبھی عالم
    خلاف معنی تعلیم اہل دیں میں نے
    لہو سے لال کیا سینکڑوں زمینوں کو
    جہاں میں چھیڑ کے پیکارِ عقل و دیں میں نے
    سمجھ میں آئی حقیقت نہ جب ستاروں کی
    اسی خیال میں راتیں گزار دیں میں نے
    ڈرا سکِیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں
    سکھایا مسئلہ گردشِ زمیں میں نے
    کشش کا راز ہویدا کیا زمانے پر
    لگا کے آئنۂ عقل دوربیں میں نے
    کیا اسیر شعاعوں کو، برق مضطر کو
    بنادی غیرت جنت یہ سر زمیں میں نے
    مگر خبر نہ ملی آہ! رازِ ہستی کی
    کیا خرد سے جہاں کو تہ نگیں میں نے
    ہوئی جو چشم مظاہرپرست وا آخر
    تو پایا خانۂ دل میں اُسے مکیں میں نے
     
  10. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    ترانہ ہندی

    سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
    ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا
    غربت میں ہوں اگر ہم، رہتا ہے دل وطن میں
    سمجھو وہیں ہمیں بھی، دل ہو جہاں ہمارا
    پربت وہ سب سے اونچا، ہمسایہ آسماں کا
    وہ سنتری ہمارا، وہ پاسباں ہمارا
    گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں
    گلشن ہے جن کے دم سے رشکِ جناں ہمارا
    اے آبِ رود گنگا! وہ دن ہیں یاد تجھ کو؟
    اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا
    مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
    ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا
    یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
    اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
    کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
    صدیوں رہا ہے دشمن دورِ زماں ہمارا
    اقبال! کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں
    معلوم کیا کسی کو دردِ نہاں ہمارا
     
  11. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ

    جگنو

    جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں
    یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں
    آیا ہے آسماں سے اُڑ کر کوئی ستارہ
    یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں
    یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا
    غربت میں آ کے چمکا، گمنام تھا وطن میں
    تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا
    ذرّہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں
    حسن قدیم کی یہ پوشیدہ اک جھلک تھی
    لے آئی جس کو قدرت خلوت سے انجمن میں
    چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی
    نکلا کبھی گہن سے، آیا کبھی گہن میں
    پروانہ اک پتنگا، جگنو بھی اک پتنگا
    وہ روشنی کا طالب، یہ روشنی سراپا
    ہر چیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی
    پروانے کو تپش دی، جگنو کو روشنی دی
    رنگیں نوا بنایا مرغانِ بے زباں کو
    گل کو زبان دے کر تعلیم خامشی دی
    نظارئہ شفق کی خوبی زوال میں تھی
    چمکا کے اس پری کو تھوڑی سی زندگی دی
    رنگیں کیا سحر کو، بانکی دلھن کی صورت
    پہنا کے لال جوڑا شبنم کی آرسی دی
    سایہ دیا شجر کو، پرواز دی ہوا کو
    پانی کو دی روانی، موجوں کو بے کلی دی
    یہ امتیاز لیکن اک بات ہے ہماری
    جگنو کا دن وہی ہے جو رات ہے ہماری

    حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
    انساں میں وہ سخن ہے، غنچے میں وہ چٹک ہے
    یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا
    واں چاندنی ہے جو کچھ، یاں درد کی کسک ہے
    انداز گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ
    نغمہ ہے بوئے بلبل، بو پھول کی چہک ہے
    کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی
    جگنو میں جو چمک ہے، وہ پھول میں مہک ہے
    یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو
    ہر شے میں جبکہ پنہاں خاموشی ازل ہو
     
  12. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    صبح کا ستارہ


    لطف ہمسایگی شمس و قمر کو چھوڑوں
    اور اس خدمت پیغام سحر کو چھوڑوں
    میرے حق میں تو نہیں تاروں کی بستی اچھی
    اس بلندی سے زمیں والوں کی پستی اچھی
    آسماں کیا ، عدم آباد وطن ہے میرا
    صبح کا دامن صد چاک کفن ہے میرا
    میری قسمت میں ہے ہر روز کا مرنا جینا
    ساقی موت کے ہاتھوں سے صبوحی پینا
    نہ یہ خدمت، نہ یہ عزت، نہ یہ رفعت اچھی
    اس گھڑی بھر کے چمکنے سے تو ظلمت اچھی
    میری قدرت میں جو ہوتا، تو نہ اختر بنتا
    قعر دریا میں چمکتا ہوا گوہر بنتا
    واں بھی موجوں کی کشاکش سے جو دل گھبراتا
    چھوڑ کر بحر کہیں زیب گلو ہو جاتا
    ہے چمکنے میں مزا حسن کا زیور بن کر
    زینت تاج سر بانوئے قیصر بن کر
    ایک پتھر کے جو ٹکڑے کا نصیبا جاگا
    خاتم دست سلیماں کا نگیں بن کے رہا
    ایسی چنروں کا مگر دہر میں ہے کام شکست
    ہے گہر ہائے گراں مایہ کا انجام شکست
    زندگی وہ ہے کہ جو ہو نہ شناسائے اجل
    کیا وہ جینا ہے کہ ہو جس میں تقاضائے اجل
    ہے یہ انجام اگر زینت عالم ہو کر
    کیوں نہ گر جاؤ ں کسی پھول پہ شبنم ہو کر!
    کسی پیشانی کے افشاں کے ستاروں میں رہوں
    کس مظلوم کی آہوں کے شراروں میں رہوں
    اشک بن کر سرمژگاں سے اٹک جاؤں میں
    کیوں نہ اس بیوی کی آنکھوں سے ٹپک جاؤں میں
    ق
    جس کا شوہر ہو رواں، ہو کے زرہ میں مستور
    سوئے میدان وغا ، حبِّ وطن سے مجبور
    یاس و امید کا نظارہ جو دکھلاتی ہو
    جس کی خاموشی سے تقریر بھی شرماتی ہو
    جس کو شوہر کی رضا تاب شکیبائی دے
    اور نگاہوں کو حیا طاقت گویائی دے
    زرد ، رخصت کی گھڑی ، عارض گلگوں ہو جائے
    کشش حسن غم ہجر سے افزوں ہو جائے
    لاکھ وہ ضبط کرے پر میں ٹپک ہی جاؤں
    ساغر دیدۂ پرنم سے چھلک ہی جاؤں
    خاک میں مل کے حیات ابدی پا جاؤں
    عشق کا سوز زمانے کو دکھاتا جاؤں
     
  13. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    ہندوستانی بچوں کا قومی گیت

    چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا
    نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
    تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا
    جس نے حجازیوں سے دشت عرب چھڑایا
    میرا وطن وہی ہے ، میرا وطن وہی ہے
    یونانیوں کو جس نے حیران کر دیا تھا
    سارے جہاں کو جس نے علم و ہنر دیا تھا
    مٹی کو جس کی حق نے زر کا اثر دیا تھا
    ترکوں کا جس نے دامن ہیروں سے بھر دیا تھا
    میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
    ٹوٹے تھے جو ستارے فارس کے آسماں سے
    پھر تاب دے کے جس نے چمکائے کہکشاں سے
    وحدت کی لے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے
    میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
    میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
    بندے کلیم جس کے ، پربت جہاں کے سینا
    نوح نبی کا آ کر ٹھہرا جہاں سفینا
    رفعت ہے جس زمیں کی بام فلک کا زینا
    جنت کی زندگی ہے جس کی فضا میں جینا
    میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
     
  14. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    نیا شوالا


    سچ کہہ دوں اے برہمن! گر تو برا نہ مانے
    تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے
    اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا
    جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے
    تنگ آ کے میں نے آخر دیر و حرم کو چھوڑا
    واعظ کا وعظ چھوڑا، چھوڑے ترے فسانے
    پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
    خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
    آ ، غیریت کے پردے اک بار پھر اٹھا دیں
    بچھڑوں کو پھر ملا دیں نقش دوئی مٹا دیں
    سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی
    آ ، اک نیا شوالا اس دیس میں بنا دیں
    دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ
    دامان آسماں سے اس کا کلس ملا دیں
    ہر صبح اٹھ کے گائیں منتر وہ مٹیھے مٹیھے
    سارے پجاریوں کو مے پیت کی پلا دیں
    شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
    دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
     
  15. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    داغ


    عظمت غالب ہے اک مدت سے پیوند زمیں
    مہدی مجروح ہے شہر خموشاں کا مکیں
    توڑ ڈالی موت نے غربت میں مینائے امیر
    چشم محفل میں ہے اب تک کیف صہبائے امیر
    آج لیکن ہمنوا! سارا چمن ماتم میں ہے
    شمع روشن بجھ گئی، بزم سخن ماتم میں ہے
    بلبل دلی نے باندھا اس چمن میں آشیاں
    ہم نوا ہیں سب عنادل باغ ہستی کے جہاں
    چل بسا داغ آہ! میت اس کی زیب دوش ہے
    آخری شاعر جہان آباد کا خاموش ہے
    اب کہاں وہ بانکپن، وہ شوخئ طرز بیاں
    آگ تھی کافور پیری میں جوانی کی نہاں
    تھی زبان داغ پر جو آرزو ہر دل میں ہے
    لیلی معنی وہاں بے پردہ، یاں محمل میں ہے
    اب صبا سے کون پوچھے گا سکوت گل کا راز
    کون سمجھے گا چمن میں نالۂ بلبل کا راز
    تھی حقیقت سے نہ غفلت فکر کی پرواز میں
    آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں
    اور دکھلائیں گے مضموں کی ہمیں باریکیاں
    اپنے فکر نکتہ آرا کی فلک پیمائیاں
    تلخی دوراں کے نقشے کھینچ کر رلوائیں گے
    یا تخیل کی نئی دنیا ہمیں دکھلائیں گے
    اس چمن میں ہوں گے پیدا بلبل شیراز بھی
    سینکڑوں ساحر بھی ہوں گے، صاحب اعجاز بھی
    اٹھیں گے آزر ہزاروں شعر کے بت خانے سے
    مے پلائیں گے نئے ساقی نئے پیمانے سے
    لکھی جائیں گی کتاب دل کی تفسیریں بہت
    ہوں گی اے خواب جوانی! تیری تعبیریں بہت
    ہوبہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون ؟
    اٹھ گیا ناوک فگن، مارے گا دل پر تیر کون ؟
    اشک کے دانے زمین شعر میں بوتا ہوں میں
    تو بھی رو اے خاک دلی! داغ کو روتا ہوں میں
    اے جہان آباد، اے سرمایۂ بزم سخن
    ہوگیا پھر آج پامال خزاں تیرا چمن
    وہ گل رنگیں ترا رخصت مثال بو ہوا
    آہ! خالی داغ سے کاشانۂ اردو ہوا
    تھی نہ شاید کچھ کشش ایسی وطن کی خاک میں
    وہ مہ کامل ہوا پنہاں دکن کی خاک میں
    اٹھ گئے ساقی جو تھے، میخانہ خالی رہ گیا
    یادگار بزم دہلی ایک حالی رہ گیا
    آرزو کو خون رلواتی ہے بیداد اجل
    مارتا ہے تیر تاریکی میں صیاد اجل
    کھل نہیں سکتی شکایت کے لیے لیکن زباں
    ہے خزاں کا رنگ بھی وجہ قیام گلستاں
    ایک ہی قانون عالم گیر کے ہیں سب اثر
    بوۓ گل کا باغ سے، گلچیں کا دنیا سے سفر
     
  16. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    ابر

    اٹھی پھر آج وہ پورب سے کالی کالی گھٹا
    سیاہ پوش ہوا پھر پہاڑ سربن کا
    نہاں ہوا جو رخ مہر زیر دامن ابر
    ہوائے سرد بھی آئی سوار توسن ابر
    گرج کا شور نہیں ہے ، خموش ہے یہ گھٹا
    عجیب مے کدۂ بے خروش ہے یہ گھٹا
    چمن میں حکم نشاط مدام لائی ہے
    قبائے گل میں گہر ٹانکنے کو آئی ہے
    جو پھول مہر کی گرمی سے سو چلے تھے ، اٹھے
    زمیں کی گود میں جو پڑ کے سو رہے تھے ، اٹھے
    ہوا کے زور سے ابھرا، بڑھا، اڑا بادل
    اٹھی وہ اور گھٹا، لو! برس پڑا بادل
    عجیب خیمہ ہے کہسار کے نہالوں کا
    یہیں قیام ہو وادی میں پھرنے والوں کا
     
  17. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    ایک پرندہ اور جگنو

    سر شام ایک مرغ نغمہ پیرا
    کسی ٹہنی پہ بیٹھا گا رہا تھا
    چمکتی چیز اک دیکھی زمیں پر
    اڑا طائر اسے جگنو سمجھ کر
    کہا جگنو نے او مرغ نواریز!
    نہ کر بے کس پہ منقار ہوس تیز
    تجھے جس نے چہک ، گل کو مہک دی
    اسی اللہ نے مجھ کو چمک دی
    لباس نور میں مستور ہوں میں
    پتنگوں کے جہاں کا طور ہوں میں
    چہک تیری بہشت گوش اگر ہے
    چمک میری بھی فردوس نظر ہے
    پروں کو میرے قدرت نے ضیا دی
    تجھے اس نے صدائے دل ربا دی
    تری منقار کو گانا سکھایا
    مجھے گلزار کی مشعل بنایا
    چمک بخشی مجھے، آواز تجھ کو
    دیا ہے سوز مجھ کو، ساز تجھ کو
    مخالف ساز کا ہوتا نہیں سوز
    جہاں میں ساز کا ہے ہم نشیں سوز
    قیام بزم ہستی ہے انھی سے
    ظہور اوج و پستی ہے انھی سے
    ہم آہنگی سے ہے محفل جہاں کی
    اسی سے ہے بہار اس بوستاں کی
     
  18. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    بچّہ اور شمع

    کیسی حیرانی ہے یہ اے طفلک پروانہ خو!
    شمع کے شعلوں کو گھڑیوں دیکھتا رہتا ہے تو
    یہ مری آغوش میں بیٹھے ہوئے جنبش ہے کیا
    روشنی سے کیا بغل گیری ہے تیرا مدعا؟
    اس نظارے سے ترا ننھا سا دل حیران ہے
    یہ کسی دیکھی ہوئی شے کی مگر پہچان ہے
    شمع اک شعلہ ہے لیکن تو سراپا نور ہے
    آہ! اس محفل میں یہ عریاں ہے تو مستور ہے
    دست قدرت نے اسے کیا جانے کیوں عریاں کیا!
    تجھ کو خاک تیرہ کے فانوس میں پنہاں کیا
    نور تیرا چھپ گیا زیر نقاب آگہی
    ہے غبار دیدۂ بینا حجاب آگہی
    زندگانی جس کو کہتے ہیں فراموشی ہے یہ
    خواب ہے، غفلت ہے، سرمستی ہے، بے ہوشی ہے یہ
    محفل قدرت ہے اک دریائے بے پایان حسن
    آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرے میں ہے طوفان حسن
    حسن ، کوہستاں کی ہیبت ناک خاموشی میں ہے
    مہر کی ضوگستری، شب کی سیہ پوشی میں ہے
    آسمان صبح کی آئینہ پوشی میں ہے یہ
    شام کی ظلمت، شفق کی گل فرو شی میں ہے یہ
    عظمت دیرینہ کے مٹتے ہوئے آثار میں
    طفلک ناآشنا کی کوشش گفتار میں
    ساکنان صحن گلشن کی ہم آوازی میں ہے
    ننھے ننھے طائروں کی آشیاں سازی میں ہے
    چشمۂ کہسار میں ، دریا کی آزادی میں حسن
    شہر میں، صحرا میں، ویرانے میں، آبادی میں حسن
    روح کو لیکن کسی گم گشتہ شے کی ہے ہوس
    ورنہ اس صحرا میں کیوں نالاں ہے یہ مثل جرس!
    حسن کے اس عام جلوے میں بھی یہ بے تاب ہے
    زندگی اس کی مثال ماہی بے آب ہے
     
  19. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    کنار راوی


    سکوت شام میں محو سرود ہے راوی
    نہ پوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت مرے دل کی
    پیام سجدے کا یہ زیر و بم ہوا مجھ کو
    جہاں تمام سواد حرم ہوا مجھ کو
    سر کنارۂ آب رواں کھڑا ہوں میں
    خبر نہیں مجھے لیکن کہاں کھڑا ہوں میں
    شراب سرخ سے رنگیں ہوا ہے دامن شام
    لیے ہے پیر فلک دست رعشہ دار میں جام
    عدم کو قافلۂ روز تیز گام چلا
    شفق نہیں ہے ، یہ سورج کے پھول ہیں گویا
    کھڑے ہیں دور وہ عظمت فزائے تنہائی
    منار خواب گہ شہسوار چغتائی
    فسانۂ ستم انقلاب ہے یہ محل
    کوئی زمان سلف کی کتاب ہے یہ محل
    مقام کیا ہے سرود خموش ہے گویا
    شجر ، یہ انجمن بے خروش ہے گویا
    رواں ہے سینۂ دریا پہ اک سفینۂ تیز
    ہوا ہے موج سے ملاح جس کا گرم ستیز
    سبک روی میں ہے مثل نگاہ یہ کشتی
    نکل کے حلقۂ حد نظر سے دور گئی
    جہاز زندگی آدمی رواں ہے یونہی
    ابد کے بحر میں پیدا یونہی ، نہاں ہے یونہی
    شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا
    نظر سے چھپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا
     
  20. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    التجائے مسافر

    (بہ درگاہ حضرت محبوب ا لہی، دہلی)


    فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا
    بڑی جناب تری، فیض عام ہے تیرا
    ستارے عشق کے تیری کشش سے ہیں قائم
    نظام مہر کی صورت نظام ہے تیرا
    تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی
    مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا
    نہاں ہے تیری محبت میں رنگ محبوبی
    بڑی ہے شان، بڑا احترام ہے تیرا
    اگر سیاہ دلم، داغ لالہ زار تو ام
    و گر کشادہ جبینم، گل بہار تو ام
    چمن کو چھوڑ کے نکلا ہوں مثل نکہت گل
    ہوا ہے صبر کا منظور امتحاں مجھ کو
    چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے
    شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو
    نظر ہے ابر کرم پر ، درخت صحرا ہوں
    کیا خدا نے نہ محتاج باغباں مجھ کو
    فلک نشیں صفت مہر ہوں زمانے میں
    تری دعا سے عطا ہو وہ نردباں مجھ کو
    مقام ہم سفروں سے ہوا اس قدر آگے
    کہ سمجھے منزل مقصود کارواں مجھ کو
    مری زبان قلم سے کسی کا دل نہ دکھے
    کسی سے شکوہ نہ ہو زیر آسماں مجھ کو
    دلوں کو چاک کرے مثل شانہ جس کا اثر
    تری جناب سے ایسی ملے فغاں مجھ کو
    بنایا تھا جسے چن چن کے خار و خس میں نے
    چمن میں پھر نظر آئے وہ آشیاں مجھ کو
    پھر آ رکھوں قدم مادر و پدر پہ جبیں
    کیا جنھوں نے محبت کا رازداں مجھ کو
    وہ شمع بارگہ خاندان مرتضوی
    رہے گا مثل حرم جس کا آستاں مجھ کو
    نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی
    بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو
    دعا یہ کر کہ خداوند آسمان و زمیں
    کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجھ کو
    وہ میرا یوسف ثانی وہ شمع محفل عشق
    ہوئی ہے جس کی اخوت قرار جاں مجھ کو
    جلا کے جس کی محبت نے دفتر من و تو
    ہوائے عیش میں پالا، کیا جواں مجھ کو
    ریاض دہر میں مانند گل رہے خنداں
    کہ ہے عزیز تر از جاں وہ جان جاں مجھ کو
    شگفتہ ہو کے کلی دل کی پھول ہو جائے!
    یہ التجائے مسافر قبول ہو جائے!
     
  21. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    غزل

    گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
    ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
    آیا ہے تو جہاں میں مثال شرار دیکھ
    دم دے نہ جائے ہستی ناپائدار دیکھ
    مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
    تو میرا شوق دیکھ، مرا انتظار دیکھ
    کھولی ہیں ذوق دید نے آنکھیں تری اگر
    ہر رہ گزر میں نقش کف پائے یار دیکھ
     
  22. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    غزل

    نہ آتے ، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
    مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
    تمھارے پیامی نے سب راز کھولا
    خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
    بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
    تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی!
    تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
    مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی
    کھنچے خود بخود جانب طور موسی
    کشش تیری اے شوق دیدار کیا تھی!
    کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا
    فسوں تھا کوئی ، تیری گفتار کیا تھی

     
  23. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    غزل


    عجب واعظ کی دینداری ہے یا رب
    عداوت ہے اسے سارے جہاں سے
    کوئی اب تک نہ یہ سمجھا کہ انساں
    کہاں جاتا ہے، آتا ہے کہاں سے
    وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے
    چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے
    ہم اپنی درد مندی کا فسانہ
    سنا کرتے ہیں اپنے رازداں سے
    بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں
    لرز جاتا ہے آواز اذاں سے

     
  24. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    غزل


    لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے
    بجلیاں بے تاب ہوں جن کو جلانے کے لیے
    وائے ناکامی ، فلک نے تاک کر توڑا اسے
    میں نے جس ڈالی کو تاڑا آشیانے کے لیے
    آنکھ مل جاتی ہے ہفتاد و دو ملت سے تری
    ایک پیمانہ ترا سارے زمانے کے لیے
    دل میں کوئی اس طرح کی آرزو پیدا کروں
    لوٹ جائے آسماں میرے مٹانے کے لیے
    جمع کر خرمن تو پہلے دانہ دانہ چن کے تو
    آ ہی نکلے گی کوئی بجلی جلانے کے لیے
    پاس تھا ناکامی صیاد کا اے ہم صفیر
    ورنہ میں ، اور اڑ کے آتا ایک دانے کے لیے!
    اس چمن میں مرغ دل گائے نہ آزادی کا گیت
    آہ یہ گلشن نہیں ایسے ترانے کے لیے


     
  25. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    غزل

    کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا
    اور اسیر حلقۂ دام ہوا کیونکر ہوا
    جائے حیرت ہے برا سارے زمانے کا ہوں میں
    مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیونکر ہوا
    کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طور پر
    کیا خبر ہے تجھ کو اے دل فیصلا کیونکر ہوا
    ہے طلب بے مدعا ہونے کی بھی اک مدعا
    مرغ دل دام تمنا سے رہا کیونکر ہوا
    دیکھنے والے یہاں بھی دیکھ لیتے ہیں تجھے
    پھر یہ وعدہ حشر کا صبر آزما کیونکر ہوا
    حسن کامل ہی نہ ہو اس بے حجابی کا سبب
    وہ جو تھا پردوں میں پنہاں ، خود نما کیونکر ہوا
    موت کا نسخہ ابھی باقی ہے اے درد فراق!
    چارہ گر دیوانہ ہے ، میں لا دوا کیونکر ہوا
    تو نے دیکھا ہے کبھی اے دیدۂ عبرت کہ گل
    ہو کے پیدا خاک سے رنگیں قبا کیونکر ہوا
    پرسش اعمال سے مقصد تھا رسوائی مری
    ورنہ ظاہر تھا سبھی کچھ ، کیا ہوا ، کیونکر ہوا
    میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی
    کیا بتاؤں ان کا میرا سامنا کیونکر ہوا

     
  26. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    غزل

    انوکھی وضع ہے ، سارے زمانے سے نرالے ہیں
    یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں
    علاج درد میں بھی درد کی لذت پہ مرتا ہوں
    جو تھے چھالوں میں کانٹے ، نوک سوزن سے نکالے ہیں
    پھلا پھولا رہے یا رب! چمن میری امیدوں کا
    جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
    رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی
    نرالا عشق ہے میرا ، نرالے میرے نالے ہیں
    نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی
    نشیمن سینکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں
    نہیں بیگانگی اچھی رفیق راہ منزل سے
    ٹھہر جا اے شرر ، ہم بھی تو آخر مٹنے والے ہیں
    امید حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو
    یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے ، بھولے بھالے ہیں
    مرے اشعار اے اقبال کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو
    مرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں

     
  27. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    غزل


    ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
    ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
    منصور کو ہوا لب گویا پیام موت
    اب کیا کسی کے عشق کا دعوی کرے کوئی
    ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
    ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
    میں انتہائے عشق ہوں ، تو انتہائے حسن
    دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی
    عذر آفرین جرم محبت ہے حسن دوست
    محشر میں عذر تازہ نہ پیدا کرے کوئی
    چھپتی نہیں ہے یہ نگہ شوق ہم نشیں!
    پھر اور کس طرح انھیں دیکھا کر ے کوئی
    اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم
    طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی
    نظارے کو یہ جنبش مژگاں بھی بار ہے
    نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی
    کھل جائیں ، کیا مزے ہیں تمنائے شوق میں
    دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی


     
  28. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    غزل


    جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
    وہ نکلے میرے ظلمت خانۂ دل کے مکینوں میں
    حقیقت اپنی آنکھوں پر نمایاں جب ہوئی اپنی
    مکاں نکلا ہمارے خانۂ دل کے مکینوں میں
    اگر کچھ آشنا ہوتا مذاق جبہہ سائی سے
    تو سنگ آستانِ کعبہ جا ملتا جبینوں میں
    کبھی اپنا بھی نظارہ کیا ہے تو نے اے مجنوں
    کہ لیلی کی طرح تو خود بھی ہے محمل نشینوں میں
    مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں
    مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
    مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے
    کہ جن کو ڈوبنا ہو ، ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں
    چھپایا حسن کو اپنے کلیم اللہ سے جس نے
    وہی ناز آفریں ہے جلوہ پیرا نازنینوں میں
    جلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کی
    الہی! کیا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں
    تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی
    نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
    نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ، ارادت ہو تو دیکھ ان کو
    ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
    ترستی ہے نگاہ نا رسا جس کے نظارے کو
    وہ رونق انجمن کی ہے انھی خلوت گزینوں میں
    کسی ایسے شرر سے پھونک اپنے خرمن دل کو
    کہ خورشید قیامت بھی ہو تیرے خوشہ چینوں میں
    محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا
    یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں
    سراپا حسن بن جاتا ہے جس کے حسن کا عاشق
    بھلا اے دل حسیں ایسا بھی ہے کوئی حسینوں میں
    پھڑک اٹھا کوئی تیری ادائے 'ما عرفنا' پر
    ترا رتبہ رہا بڑھ چڑھ کے سب ناز آفرینوں میں
    نمایاں ہو کے دکھلا دے کبھی ان کو جمال اپنا
    بہت مدت سے چرچے ہیں ترے باریک بینوں میں
    خموش اے دل! ، بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا
    ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
    برا سمجھوں انھیں مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا
    کہ میں خود بھی تو ہوں اقبال اپنے نکتہ چینوں میں

     
  29. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    غزل

    ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
    مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
    ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابی
    کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
    یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
    کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
    ذرا سا تو دل ہوں ، مگر شوخ اتنا
    وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
    کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
    چراغ سحر ہوں ، بجھا چاہتا ہوں
    بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
    بڑا بے ادب ہوں ، سزا چاہتا ہوں

     
  30. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    غزل


    کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے
    نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے
    بٹھا کے عرش پہ رکھا ہے تو نے اے واعظ!
    خدا وہ کیا ہے جو بندوں سے احتراز کرے
    مری نگاہ میں وہ رند ہی نہیں ساقی
    جو ہوشیاری و مستی میں امتیاز کرے
    مدام گوش بہ دل رہ ، یہ ساز ہے ایسا
    جو ہو شکستہ تو پیدا نوائے راز کرے
    کوئی یہ پوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے
    جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے
    سخن میں سوز ، الہی کہاں سے آتا ہے
    یہ چیز وہ ہے کہ پتھر کو بھی گداز کرے
    تمیز لالہ و گل سے ہے نالۂ بلبل
    جہاں میں وانہ کوئی چشم امتیاز کرے
    غرور زہد نے سکھلا دیا ہے واعظ کو
    کہ بندگان خدا پر زباں دراز کرے
    ہوا ہو ایسی کہ ہندوستاں سے اے اقبال
    اڑا کے مجھ کو غبار رہ حجاز کرے


     

اس صفحے کو مشتہر کریں