1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ویلنٹائن ، بارش کا پہلا قطرہ

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از سمیعہ412, ‏14 فروری 2010۔

  1. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ویلنٹائن ، بارش کا پہلا قطرہ

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    جزاک اللہ خیرا ، راجہ بھائی ، ان شاء اللہ ابھی عباس بھائی کے لیے جواب میں اس کا ذکر ہو گا ، و السلام علیکم۔
     
  2. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ویلنٹائن ، بارش کا پہلا قطرہ

    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    بھائی عباس حسینی صاحب ،
    سمیعہ بہن نے شادی سے پہلے ایک مختصر ملاقات کو """ صرف دیکھنے """ کی قید کے ساتھ ذکر کیا ہے ، یعنی یہ ملاقات صرف اس ایک سبب کی وجہ سے جائز ہے ،
    اصل اجازت صرف دیکھنے حد تک ہے اور اس کی دلیل جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی روایت کردہ یہ حدیث مبارک ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( إذا خَطَبَ أحدكم المَرأَةَ فَإِن استَطَاعَ أَن يَنظُرَ إلى ما يَدعُوهُ إلى نِكَاحِهَا فَليَفعَل ::: اگر تُم لوگوں میں سے کوئی کسی عورت کا رشتہ طلب کرے اور اگر کر سکے تو یہ کرے کہ جس چیز نے اسے اس عورت کا رشتہ طلب کرنے پر مائل کیا ہے اس چیز کو دیکھ لے ))))) جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ """ فَخَطَبتُ جَارِيَةً فَكُنتُ أَتَخَبَّأُ لها حتى رأيت منها ما دَعَانِي إلى نِكَاحِهَا وَتَزَوُّجِهَا فَتَزَوَّجتُهَا ::: میں نے ایک لڑکی کا رشتہ طلب کیا تو میں چھپ کر اسے دیکھنے کی کوشش کرتا تھا یہاں تک کہ میں نے اس میں سے وہ دیکھ لیا جس نے مجھے اس سے نکاح کی طرف مائل کیا تھا ، پس میں نے اس سے شادی کر لی """ سنن ابن ماجہ /حدیث2082 /کتاب النکاح /باب19،
    اس صحیح حدیث مبارک میں ہمیں کچھ اور سبق بھی ملتے ہیں لیکن اپنے موضوع تک محدود رہتے ہوئے کہتا ہوں کہ یہ حدیث مبارک کسی عورت سے نکاح کرنے کے ارادے کی صورت میں اس کا رشتہ طلب کرنےکے بعد اسے دیکھنے کی عام اجازت کی دلیل ہے ، اس موضوع پر ایسی صحیح حدیث بھی ملتی ہے جو اس طرح دیکھنے کو کسی سبب سے متعلق کرتی ہے ، بہر حال صرف دیکھنے کی اجازت میسر ہے ، و للہ الحمد ،
    لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس اجازت پر اس طرح عمل کرنا جائز نہیں جس طرح لوگ کرتے ہیں ، دیکھیے صحابی رضی اللہ عنہ کا عمل کہ انہوں نے اس لڑکی کو چھپ کر دیکھا نہ کہ براہ راست اس کے سامنے جا پہنچے ، اور نہ ہی اہل خاندان کی موجودگی میں اس سے ملاقات کی ،
    دوسری جس حدیث کا میں نے ذکر کیا ہے اس کی بنا پر کچھ فقہاء نے اہل خاندان کی موجودگی لڑکی لڑکے کو ایک دوسرے کو دیکھنے اور ایک دوسرے سےبات چیت کرنے یا ایک دوسرے کی بات چیت سننے کے جواز کا ذکر کیا ہے ، اور وہ حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ کی روایت ہے کہ """ ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس تھا کہ ایک شخص آیا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو خبر دی کہ اُس نے نکاح کیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( أَنَظَرتَ إِلَيهَا ؟ ::: کیا تُم نے اسے دیکھا ہے ؟ ))))) اُس نے کہا """ جی نہیں """ تو اِرشاد فرمایا ((((فَاذهَب فَانظُر إِلَيهَا فإن في أَعيُنِ الأَنصَارِ شيئاً ::: اچھا تو پھر جاؤ اور جا کر اسے دیکھو کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ (گڑبڑ ) ہوتی ہے ))))) صحیح مُسلم /حدیث1424 /کتاب النکاح/باب24 ، ( اس روایت میں نکاح کرنے سے مراد رشتہ طلب کرنا ہے جیسا کہ صحیح ابن حبان /حدیث 4041 ، اور ، سنن النسائی /کتاب النکاح /باب 23 کی آخری روایت میں یہ صراحت موجود ہے )
    یہاں تک بات ہوئی نکاح سے پہلے یا اپنے گھر لانے سےپہلے دیکھنے کے مسئلے کے بارے میں ،
    عباس بھائی ، اب اس کے بعد آپ کے سوال میں موجود دوسرے معاملے کی طرف آتے ہیں اور وہ ہے شادی سے پہلے ایک دوسرے سے ملاقات :::
    ::::::: شادی سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے ملاقات قطعاضروری نہیں ، اگر ملاقات کی کوئی ضرورت ہو ، کوئی سبب ہو ، تو دیگر شرعی احکام کی پابندی میں ہو گی ، یعنی خاندان کے دوسرے بزرگ لوگوں کی موجودگی میں ، تنہائی میں نہیں ، کیونکہ کسی غیر محرم مَرد اور عورت کی تنہائی میں ملاقات کی کوئی اجازت میسر نہیں ،
    اس کی ایک دلیل تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا وہ فرمان مبارک ہے جسے سمیعہ بہن نے کسی """ سرکارءِ بغداد """ کے قول کے طور پر ذکر کیا ہے ، غالباً ان کی مراد شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہُ اللہ ہوں گے ، جبکہ یہ قول """ رحمتءِ دو جہاں """ کا ہے جو کہ خلیفہ ثانی بلا فصل امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ ُ کی روایت کردہ ایک حدیث مبارک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ((((( لاَ يَخلُوَنَّ أحدكم بِامرَأَةٍ فإن الشَّيطَانَ ثَالِثُهُمَا ::: تُم سے کوئی بھی ہر گِز کسی عورت کے ساتھ تنہا نہ ہو کیونکہ بے شک شیطان ان دونوں کا تیسرا ہوتا ہے ))))) المُستدرک الحاکم / حدیث387 اور 390 / کتاب العِلم ، سنن الترمذی / حدیث 2165/ کتاب / باب ، مُسند احمد / مُسند عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ُ کی حدیث 33 ، الارواء الغلیل /حدیث 1813 کے ضمن میں امام الالبانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ،
    اور دوسری حدیث مبارک جو آل رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ایک فرد ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( لَا يَخلُوَنَّ رَجُلٌ بِامرَأَةٍ ولا تُسَافِرَنَّ امرَأَةٌ إلا وَمَعَهَا مَحرَمٌ ::: کوئی مَرد ہر گِز کسی عورت کے ساتھ تنہا نہ ہو اور نہ ہی کبھی کوئی عورت اپنے محرم کے بغیر سفر کرے ))))) ایک صحابی رضی اللہ عنہ ُ کھڑے ہوئے اور عرض کیا """ يا رَسُولَ اللَّهِ اكتُتِبتُ في غَزوَةِ كَذَا وَكَذَا وَخَرَجَت امرَأَتِي حَاجَّةً ::: اے اللہ کے رسول میں نے فلاں فلاں غزوہ میں شمولیت کے لیے اپنا نام لکھا رکھا ہے اور میری بیوی حج کے لیے روانہ ہو چکی ہے """ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( اِذهَب فَحُجَّ مَع امرَأَتِكَ ::: جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو ))))) صحیح البخُاری / حدیث 2844 / کتاب الجھادِ و السِیر / باب 38 ،
    حسینی بھائی اِن مذکورہ بالا دو احادیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام بڑی وضاحت سے موجود ہیں ، کہ کسی نا محرم مرد اور عورت کو تنہائی اختیار کرنے کی اجازت نہیں ، رشتے اور شادیاں اس وقت بھی ہوتے تھے اور اس وقت لوگ ہم سے کہیں زیادہ ایمان اور تقویٰ والے تھے ، اس کے باوجود اس کی اجازت نہیں دی گئی ، ان شاء اللہ اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ان احکامات کی روشنی میں آپ کو اپنے سوال کا جواب سمجھ میں آجائے گا ،
    حسینی بھائی ، مذکورہ بالا احادیث کو ذہن میں رکھیے ، اس کے ساتھ ساتھ اب آپ کے منقولہ بالا دوسرے سوال کا جواب پیش کرتا ہوں ، کہ ،
    اسلام میں غیر محرم مَرد و عورت کی آپ میں کسی ضرورت کے بغیر گفتگو کرنا جائز نہیں ، اور اس کی دلیل اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ فرمان ہے ((((( ،،،،، وَإِذَا سَأَلتُمُوهُنَّ مَتَاعاً فَاسأَلُوهُنَّ مِن وَرَاء حِجَابٍ ذَلِكُم أَطهَرُ لِقُلُوبِكُم وَقُلُوبِهِنَّ ،،،،، ::: اور جب تُم اُن سے کسی سامان کا سوال کرو تو ان سے پردے کے پیچھے سے سوال کرو ایسا کرنا تُم لوگوں کے اور ان کے دِلوں کے لیے زیادہ پاکیزگی والا کام ہے))))) سورت الأحزاب/ آیت53 ،
    حسینی بھائی یہ حکم صحابہ اور ایمان والوں کی ماؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بیگمات کے لیے نازل ہوا ، اور یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کے تقوے کا امتحان خود اللہ نے لیا اور انہیں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی رفاقت کے لیے چُنا ،
    اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بیگمات کو صحابہ رضی اللہ عنہم اور سب ایمان والوں کی مائیں قرار دیا ، جب ان لوگوں کے لیے یہ حکم ہے کہ کسی ضرورت کی صورت میں وہ اپنی اِن ماؤں سے پردے کی آڑ میں رہ کر بات کریں اس طرح اُن سب کے دل پاکیزہ رہیں گے ، تو کسی اور کے لیے کسی رعایت کے لیے ہمیں اللہ ہی کی طرف سے یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے کوئی اور واضح حکم درکار ہے جو کہیں میسر نہیں ،

    پس کسی ضرورت کے بغیر نا محرم مَرد اور عورت کا بات کرنا جائز نہیں ، اور ضرورت کی حالت میں بھی پردے کی آڑ میں بات کی جائے گی ، نہ کرنے کی صورت میں گناہ بھی ہو گا اور دوسرا نقصان یہ کہ دل کی پاکیزگی بھی رخصت ہو گی جس کا نتیجہ ہم اور آپ سب ہی جانتے ہیں ، اللہ ہر مسلمان کو ہر شر سے محفوظ رکھے ،
    مزید یہ کہ عورتوں کو کسی نامحرم سے بات کرنے کا اسلوب بھی سکھایا گیا ، صحابہ اور امہات المومنین رضی اللہ عنہم اجمعین کو یہ حکم دینے سے پہلے امہات المومنین رضی اللہ عنہن کو یہ حکم دیا گیا کہ ((((( يَا نِسَاء النَّبِيِّ لَستُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء إِنِ اتَّقَيتُنَّ فَلَا تَخضَعنَ بِالقَولِ فَيَطمَعَ الَّذِي فِي قَلبِهِ مَرَضٌ وَقُلنَ قَولاً مَّعرُوفاً ::: اے نبی کی بیویو ، تُم کوئی سی بھی عورت نہیں ہو (لہذا )اگر تُم تقویٰ اختیار کرو تو تمہیں چاہیے کہ تُم بات کرتے ہوئے اپنی آواز کو نیچا مت کرو تا کہ جس کے دِل میں کوئی بیماری ہو وہ (کوئی بُرائی ) لالچ نہ کر ے اور صاف کھری بات کرو ))))) سورت الأحزاب / آیت 36 ،
    لہذا حسینی بھائی ، اللہ کے ان فرامین مبارکہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ان فرامین مبارکہ کے مطابق کسی غیر محرم کی طرف بلا شرعی عذر کے دیکھنا بھی جائز نہیں اور بلا ضرورت اور بغیر پردے کی آڑ کے بات کرنا بھی جائز نہیں ، اور اگر بات کرنا ہی پڑے تو عورتوں کے لیے حکم ہے کہ وہ صاف سیدھی بات کریں اورسخت آواز اور لہجے میں بات کریں ۔
    میں اپنی بات کو یہاں روکتا ہوں ، ان شاء اللہ یہ معلومات آپ کے سوالات کے جوابات میں کافی ہوں گی ، مزید کوئی اشکال ہو تو ضرور سامنے لایے ، اللہ ہمیں ایک دوسرے کے لیے خیر کا سبب بنائے ،و السلام علیکم۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں