1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فتنہ دہشت گردی و فتنہ خوارج ۔۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں

Discussion in 'تعلیماتِ قرآن و حدیث' started by نعیم, Dec 23, 2014.

  1. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    خارجیت کیا ہے

    خارجیت دراصل منتشرالخیالی اور منتشرالعملی کا ابلیسی فتنہ ہے جس کی کوکھ سے جہالت، درندگی، وحشت و دہشتگردی جنم لیتی ہے۔یہ تاریخ اسلام میں یہ فتنہ ابتدائی زمانے میں ہی پیدا ہوگیاتھا جس نے پہلا منظم حملہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کی مقدس جماعت پر کیا اور (نعوذباللہ) امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو کافر قرار دیتے ہوئے انکے قتل کا فتویٰ جاری کردیا۔ یہ ایک انتہا تھی ۔ قانونِ فطرت کے تحت اس کا رد عمل دوسرے بڑے فتنہ روافض کی صورت میں سامنے آیا جو کہ ایک دوسری انتہا تھی۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اعتقادی، فکری، کلامی فسادات رونما ہونے میں یہی دو فتنے (خوارج و روافض) کارفرما رہے ۔البتہ فتنہ خوارج سے آگہی و پہچان قرآن و سنت میں واضح کروا دی گئی ہے ۔آئمہ تاریخ کی تحقیقات کے مطابق خوارج کے تقریبا بیس مختلف فرقے ہیں لیکن احادیث مبارکہ کی روشنی میں انکے دو گروہ نمایاں ہیں۔ پہلا نجدیہ دوسرا حروریہ۔

    البتہ تاریخ اسلام میں اہل حق طبقہ ہمیشہ اعتدال، سنت نبویﷺ، صبر،قربانی، باہمی رواداری اور جمعیت کا دامن تھامے نظر آتا ہے ۔جسے عام اصطلاح یں ’’اہلسنت والجماعت‘‘کہا جاتا ہے۔

    فتنہ خوارج (قرآن حکیم کی روشنی میں)

    قرآن حکیم کا بغور جائزہ لیا جائے تو کئی مقامات پر خوارج کی علامات و بدعات ، فتنہ پرور روش ، سازشی کاروائیوں اور مسلح بغاوت کے بارے میں واضح ارشادات ملتے ہیں۔
    فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاء تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ۔ (آل عمران۔۷)

    ترجمہ : وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس (قرآن) میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں۔۔۔ الالخ
    امام ابن ابی حاتم اس آیت کے تحت فرماتے ہیں : عن ابی امامہ ، عن رسول اللہ :drood: انھم الخوارج
    حضرت ابوامامہ رض راوی ہیں کہ آیت مذکورہ (فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ جن کے دلوں میں کجی ٹیڑھ ہے) کیتفسیر میں رسول کریم ﷺ نے فرمایا :’’ ان سے مراد خوارج ہے ‘‘
    حوالہ: امام ابن ابی حاتم رازی۔ تفسیر القرآن العظیم ۲۔۵۹۴
    حافظ ابن کثیر نے بھی اس آیت کی تفسیر میں جو حدیث بیان کی ۔ اس میں فرمان رسولﷺ کے مطابق اہل زیغ سے مراد ’’خوارج ‘‘ ہیں۔
    حوالہ : ابن کثیر ۔ تفسیر القرآن العظیم ۔ ۱: ۳۴۷
    امام خازن نے اس آیت کی تفسیر میں ابوامامہ رض سے دیگر احادیث بھی نقل کرتے ہیں، اور امام حسن بصری رض اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے بھی اہل زیغ سے مراد فرمان رسول ﷺ کے مطابق ’’خوارج ‘‘ ہی بیان کرتے ہیں۔
    حوالہ : خازن : لباب التاویل۔ ۱: ۲۱۷
    امام سیوطی رح نے بھی اہل زیغ سے مراد ’’خوارج ‘‘ لیے ہیں
    حوالہ: سیوطی ۔ الدرالمنثور، ۲: ۱۴۸

    خوارج رُو سیاہ اور مرتد

    يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ (آل عمران ۔۱۰۶)

    ترجمہ: جس دن کئی چہرے سفید ہوں گے اور کئی سیاہ، تو جن کے چہرے سیاہ ہوں گے (ان سے کہا جائے گا) کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا؟ تو جو کفر تم کرتے رہے تھے سو اس کے عذاب کا مزہ چکھ لو ۔
    امام ابن ابی حاتم ، حافظ ابن کثیر، امام سیوطی وغیرھم نے سیاہ چہرے والوں اور ایمان کے بعد کفر کرنے والے (مرتدین) سے مراد فرمانِ رسول کے مطابق ’’خوارج ‘‘ لیا ہے۔
    حوالہ جات : ابن ابی حاتم ۔ تفسیر القرآن العظیم ۔ ۲: ۵۹۴
    ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم ، ۱: ۳۴۷
    سیوطی ۔ الدرالمنثور، ۲: ۱۴۸

    خوارج فتنہ پرور اور لعنت کے مستحق ہیں

    وَيُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ أُوْلَئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ (الرعد: ۲۵)
    ترجمہ: اور زمین میں فساد انگیزی کرتے ہیں، انہی لوگوں کے لیے لعنت ہے اوران کے لیے برا ٹھکانہ ہے۔
    ا مام قرطبی تفسیر میں بیان کرتے ہیں
    وقال سعد بن ابی وقاص : واللہ الذی لاالہ الا ھو، انھم الحروریہ : حضرت سعد بن ابی وقاص رض فرماتے ہیں: اس ذات کی قسم جسکے سوا کوئی معبود نہیں۔ فساد انگیزی کرنے والوں سے مراد الحروریہ (خوارج) ہیں۔
    حوالہ : قرطبی ، الجامع الاحکام القرن ، ۹: ۳۱۴
    امام ابو حفص الحنبلی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
    قال: اما بالدعاء الی غیر دین اللہ، اما بالظم کما فی النفوس والاموال وتخریب البلاد
    اللہ تعالی نے فرمایا: زمین میں فساد انگیزی ایسے کہ یا تو اللہ کے دین کے علاوہ کسی اور طرف جبراََ دعوت دینے، یا لوگوں کی جان و مال پر ظلم سے اور ملک میں تخریب کاری سے۔
    حوالہ : ابو حفص الحنبلی، الباب فی علوم الکتاب ، ۹: ۴۲۵
    امام رازی نے بھی ’’ التفسیر الکبیر (۹: ۱۷۶) میں یہی معنی بیان کیا ہے۔

    خوارج واجب القتل ہیں
    إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنيَا وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (المائدہ، ۳۳)
    ’’بے شک جو لوگ اللہ اور اسکے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں (یعنی مسلمانوں میں خونریزی، رہزنی و ڈاکہ زنی وغیرہ سے )فساد انگیزی کرتے ہیں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا پھانسی چڑھا دیے جائیں یا انکے ہاتھ اور پاوں کاٹ دیے جائیں یا وطن کی زمین سے دور ملک بدر یا قید کردیے جائیں۔ یہ (سزا تو) ان کے لیے دنیا میں ہے۔ اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے۔‘‘
    امام طبری اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رض سے نقل کرتے ہیں۔
    ’’جس نے مسلم آبادی پر ہتھیار اٹھائے اور راستے کو اپنی دہشت گردی کے ذریعے غیر محفوظ بنایا اور اس پر کنٹرول حاصل کرکے لوگوں کا پرامن طور پر گذرنا دشوار بنا دیا تو مسلمان حاکم کو اختیار ہے چاہے تو ایسے فساد انگیزوں کو قتل کرے، چاہے پھانسی دے یا چاہے تو حسبِ قانون ہاتھ پاوں کاٹ کرکوئی اذیت ناک سزا دے ۔‘‘
    حوالہ : طبری ۔ جامع البیان فی تفسیر القرآن، ۶: ۲۱۴
    حافظ ابن کثیر نے لکھا کہ سعید بن مسیب، مجاہد، عطا، حسن بصری ، ابراھیم النخفی اور ضحاک نے بھی اسی معنی کو روایت کیا۔
    حوالہ : ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم ، ۲: ۵۱
    امام سیوطی نے بھی یہی معنی لیا ہے ۔ حوالہ ۔ الدرالمنثور۔ ۳: ۶۸
    امام قرطبی کے مطابق یہ آیت حضور اکرم ﷺ کے زمانہ مبارک میں ایسے گروہ کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے مدینہ کے باہر دہشتگردی کا ارتکاب کیا، قتل اور املاک لوٹے جس پر انہیں عبرت ناک سزا دی گئی۔
    حوالہ : قرطبی ۔ الجامع الاحکام القرآن ۔ ۶: ۱۴۸
    ۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔
     
    ملک بلال likes this.
  2. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    فتنہ خوارج کا آغاز عہد رسالت مآب ﷺ میں گستاخی رسول ﷺ سے ہوا

    بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں ذوالخویصرہ تمیمی نامی گستاخ شخص کی گستاخی دراصل اس بدترین فتنے کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔
    عَنْ أبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : بَيْنَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقْسِمُ ذَاتَ يَوْمٍ قِسْمًا فَقَالَ ذُوالْخُوَيْصَرَةِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ : يَا رَسُولَ اﷲِ، اعْدِلْ، قَالَ : وَيْلَکَ مَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أعْدِلْ؟ فَقَالَ عُمَرُ : ائْذَنْ لِي فَلْأضْرِبْ عُنُقَهُ، قَالَ : لَا، إِنَّ لَهُ أصْحَابًا يَحْقِرُ أحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَ صِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّيْنِ کَمُرُوْقِ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ يَنْظُرُ إِلَی نَصْلِهِ فَلاَ يُوجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ يَنْظُرُ إِلَی رِصَافِهِ فَلاَ يُوجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ يَنْظُرُ إِلَی نَضِيِّهِ فَلاَ يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ يَنْظُرُ إِلَی قُذَذِهِ فَلاَ يُوجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَ الدَّمَ يَخْرُجُونَ عَلَی حِيْنَ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ آيَتُهُمْ رَجُلٌ إِحْدَی يَدَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ المَرْأةِ أوْ مِثْلُ البَضْعَةِ تَدَرْدَرُ. قَالَ أبُو سَعِيْدٍ : أشْهَدُ لَسَمِعْتُهُ مِنَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، وَ أشْهَدُ أنِّي کُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ حِيْنَ قَاتَلَهُمْ فَالْتُمِسَ فِي الْقَتْلَی فَأتِيَ بِهِ عَلَی النَّعْتِ الَّذِي نَعْتَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
    ترجمہ:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مالِ (غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے تو ذوالخویصرہ نامی شخص جو کہ بنی تمیم سے تھا، نے کہا : یا رسول اللہ! انصاف کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، اگر میں انصاف نہ کروں تو اور کون انصاف کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : مجھے اجازت دیں کہ اس کی گردن اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، کیونکہ اس کے ساتھی بھی ہیں کہ تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانو گے۔ وہ دین سے اس طرح نکلے ہوئے ہوں گے جیسے شکار سے تیر نکل جاتا ہے، پھر اس کے پیکان پر کچھ نظر نہیں آتا، اس کے پٹھے پر بھی کچھ نظر نہیں آتا، اس کی لکڑی پر بھی کچھ نظر نہیں آتا اور نہ اس کے پروں پر کچھ نظر آتا ہے، وہ گوبر اور خون کو بھی چھوڑ کر نکل جاتا ہے۔ وہ لوگوں میں فرقہ بندی کے وقت (اسے ہوا دینے کے لئے) نکلیں گے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی کا ہاتھ عورت کے پستان یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہلتا ہو گا۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث پاک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے اور میں (یہ بھی) گواہی دیتا ہے کہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا جب ان لوگوں سے جنگ کی گئی، اس شخص کو مقتولین میں تلاش کیا گیا تو اس وصف کا ایک آدمی مل گیا جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا تھا۔
    حوالہ جات
    البخاري في الصحيح، باب : ماجاء في قول الرجل ويلک، 5 / 2281، الرقم : 5811،
    مسلم في الصحيح، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 744، الرقم : 1064،
    النسائي في السنن الکبري، 5 / 159، الرقم : 8560.8561، 6 / 355، الرقم : 11220،
    أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 65، الرقم : 11639

    حافظ ابن حجر عسقلانی (الاصابہ فی تمیز الصحابہ ۲: ۴۹) میں لکھتے ہیں کہ اسی ذوالخویصرہ تمیمی کا ہم خیال گروہ ہی بعد میں خوارج کی صورت میں ظاہر ہوا
    امام بدرالدین العینی نے عمدۃ القاری ۔۱۵: ۶۲ میں یہی مفہوم بیان کیا۔
    بعد ازاں عہد عثمانی میں خوارج زیادہ کھل کر سامنے آئے اور عہد علوی میں باقاعدہ خوارج کی تحریک کا آغاز ہوگیا۔
    تاریخ کا مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ خوارج ذہنیت کے علمبرداروں کے پیش نظر دین کے نام پر مسلم ریاست کو عدم استحکام کا شکار کرنا اور اسکی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا مقصود ہوتا ہے، یہ گروہ حکومت وقت کے خلاف مسلح بغاوت کے نام پر دہشت گردانہ کاروائیاں کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک جنگ صفین جاری تھی ، خوارج مسلمانوں کے درمیان جنگ جاری رکھوانے کے لیے لشکر علوی میں پیش پیش تھے۔ جونہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خون خرابے سے بچنے کے لیے تحکیم یعنی ثالثی (Arbitration) کا راستہ اپنایا تو خوارج پرامن مصالحت کے عمل کو رد کرتے ہوئے سیدنا علی رض کے لشکر سے نکل کر انہی کو معاذ اللہ ’’کافر‘‘ کہنے لگے اور واضح طور پر باغی دہشت گرد گروہ تیار کرکے نام نہاد جہاد کے نام پر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور امت مسلمہ کے خلاف برسر پیکار ہوگئے۔
    اپنی منظم بغاوت میں انہوں نے یہ نعرہ لگایا ’’ لا حکم الا للہ ‘‘ ۔۔ اللہ کے سوا کسی کا حکم (قبول) نہیں۔
    خوارج کا یہ نعرہ سیدنا علی نے سنا تو فرمایا : ’’کلمۃ حق ارید بہا باطل‘‘ بات تو حق ہے لیکن اسکا اطلاق و مقصود باطل ہے ۔ (مسلم الصحیح۔ ۲: ۷۴۹، رقم : ۱۰۶۶)
    ایک خارجی لیڈر یزید بن عاصم محاربی نے اسلامی ریاست سے خروج کرتے ہوئے یہ خطبہ پڑھا
    ’’تمام حمداللہ تعالی کے لیے ہے جس سے ہم مستغنی نہیں۔ یا اللہ ! ہم پناہ مانگتے ہیں کہ ہم دین کے معاملے میں کوئی کمزوری یا خوشامد سے کام لیں کیونکہ اس میں ذلت ہے جو اللہ کے غضب کا باعث ہے۔ اے علی ! کیا تم ہمیں قتل سے ڈراتے ہو؟ آگاہ رہو ! اللہ کی قسم ! عنقریب ہم (خوارج) تمھیں (سیدنا علی اور مسلمانوں کو) تلواروں کی دھار سے ماریں گے تب تم جان لوگے کہ ہم میں سے کون مستحق عذاب ہے‘‘
    حوالہ: ابن اثیر ۔ الکامل فی التاریخ ۔ ۳: ۳۱۳
    جب سب سرکردہ خوارج شریح ابن اوفی عبسی کے گھر جمع ہوئے تو اس مجلس میں ابن وہب نامی خارجی نے کہا:
    ’’اب تم ہمارے ساتھ کسی ایسے شہر کی طرف کوچ کرو جہاں ہم سب جمع ہوکر اللہ تعالی کا حکم جاری کریں کیونکہ اہل حق اب تمہی لوگ ہو۔‘‘
    حوالہ : ابن اثیر ۔ الکامل فی التاریخ ۔ ۳: ۳۱۴
    ان تاریخی حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ خوارج خود کو حق و توحید کا علمبردار جب کہ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو (معاذ اللہ ) شرک و بدعت کا نمائندہ سمجھ کر باطل سمجھ رہے تھے۔بزعم خویش انہوں نے مسلم ریاست کو بدعتیوں کا شہر سمجھ کر چھوڑ کر جنگلوں، صحراوں اور پہاڑوں میں جا کر گھات لگا لی جہاں وہ اپنے مخالفین مسلمانوں کو پکڑ کر ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ۔ انہیں لوٹتے اور قتل کردیتے۔ بعد ازاں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کا لشکر لے کر خوارج کی ریشہ دوانیوں اور اسلام دشمن کاروائیوں کے جواب میں انکے خلاف عسکری کاروائی کی اور انہیں شکست فاش دے کر انکا خاتمہ کیا۔
    حوالہ جات : صحیح مسلم ۔ باب التحریض علی قتل ا لخوارج ۔ ۲: ۷۴۸، رقم ۔ ۱۰۶۶
    السنن ابوداود۔ باب فی قتال الخوارج ۔ ۴: ۲۴۴، رقم ۔ ۴۷۶۸
    خوارج کے متعصبانہ و ظالمانہ فکر و کردار کو واضح کرتے ہوئے علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں
    ’’خوارج وہ لوگ تھے جن کی صفت حضور نبی اکرم ﷺ نے یہ بیان کی تھی کہ وہ ’’اہل اسلام سے لڑیں گے اور بت پرستوں سے صلح رکھیں گے‘‘ انہوں نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور ان کا ساتھ دینے والے (صحابہ کرام) کی تکفیر کی اور حضرت علی رض کے خون کو مباح قرار دیتے ہوئے انہیں شہید کیا۔ حضرت علی رض کا قاتل عبدالرحمن ملجم المرادی خارجیوں میں سے تھا۔ مزید یہ اور اسکے دیگر خوارج ساتھی بہت عبادت گذار تھے لیکن حقیقت میں وہ حکمت دین سے نابلد تھے کیوں کہ انہوں نے سنت اور جماعت کو چھوڑ دیا۔ انکے عقیدے کے مطابق انسان مومن ہوگا یا کافر۔ انکے نزدیک مومن وہ ہے جو تمام واجبات پر بھی عمل کرے اور تمام محرمات کو ترک کرے جو ایسا نہ کرے وہ کافر اور دائمی جہنمی ہے۔ پھر انہوں نے ہر اس مسلمان کی تکفیر کرنا شروع کردی جس نے ان باتوں کی مخالفت کی ۔انہوں نے کہا کہ حضرت عثمان و حضرت علی اور انکی طرح دیگر لوگوں نے اللہ تعالی کے نازل کردہ احکام کے خلاف حکومت کی ہے اور وہ ظلم کا ارتکاب کرتے رہے پس یہ سارے (عظیم صحابہ و خلفائے راشدین) کافر ہوگئے (نعوذ باللہ )‘‘
    حوالہ : ابن تیمیہ ۔ مجموع فتاویٰ ۔ ۷: ۴۸۱

    خوارج ، حضرت عثمان غنی رض اور حضرت علی رض کو کافر نہ کہنے والوں کو ذبح کرتے تھے

    امام طبری، امام ابن الاثیر اور حافظ ابن کثیر روایت کرتے ہیں :
    ’’پس خوارج نے حضرت عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ کو چت لٹا کر ذبح کردیا۔ آپ کا خون پانی میں بہہ گیا تو وہ آپ کی زوجہ کی طرف بڑھے۔ ان محترمہ نے کہا کہ میں عورت ہوں۔ کیا تم میرے معاملے میں اللہ سے نہیں ڈرتے۔(لیکن خوارج پر کوئی اثر نہ ہوا) انہوں نے انکا پیٹ چاک کرڈالا اور (ان شہیدوں سے ہمدردی کرنے والی) قبیلہ طے کی تین مزید خواتین کو بھی قتل کر ڈالا۔‘‘
    حوالہ : ابن الاثیر۔ الکامل فی التاریخ ۔ ۳: ۲۱۹
    طبری ۔تاریخ الامم والملوک ، ۳: ۱۱۹
    ابن کثیر ، البدایہ والنہایہ ، ۷: ۲۸۸

    ۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔
     
  3. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    احادیث کی روشنی میں دہشت گرد (خارجیوں) کی علامات
    1. أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ. ’’وہ کم سن لڑکے ہوں گے۔‘‘
    (بخاری، الصحيح، کتاب ، 6 : 2539، رقم : 6531۔۔مسلم، الصحيح، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 746، رقم : 1066)
    .2. سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ. ’’دماغی طور پر ناپختہ ہوں گے۔‘‘
    3. کَثُّ اللِّحْيَةِ. ’’ گھنی ڈاڑھی رکھیں گے۔‘‘
    4. مُشَمَّرُ الْإِزَارِ. ’’بہت اونچا تہ بند باندھنے والے ہوں گے۔‘‘
    5. يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ. ’’یہ خارجی لوگ (حرمین شریفین سے) مشرق کی جانب سے نکلیں گے۔‘‘
    6. لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتّٰی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ.۔۔ ’’یہ ہمیشہ نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا۔‘‘
    7. لَا يُجَاوِزُ إِيْمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ. ’’ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔‘‘
    8. يَتَعَمَّقُوْنَ وَيَتَشَدَّدُوْنَ فِی الْعِبَادَةِ. ’’وہ عبادت اور دین میں بہت متشدد اور انتہاء پسند ہوں گے۔‘
    ( عبد الرزاق، المصنف، 10 : 155، رقم : 18673)
    9. يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ. (بخاری)
    ’’تم میں سے ہر ایک ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانے گا اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانے گا۔‘‘
    10. لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ. ’’نماز ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی۔‘‘ (مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066)
    11. يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَيْسَ قِرائَتُکُمْ إِلَی قِرَاءَ تِهِمْ بِشَيءٍ.
    ’’وہ قرآن مجید کی ایسے تلاوت کریں گے کہ ان کی تلاوتِ قرآن کے سامنے تمہیں اپنی تلاوت کی کوئی حیثیت دکھائی نہ دے گی۔‘‘
    12. يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ. ’’ان کی تلاوت ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی۔‘‘
    13. يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُوْنَ أَنَّهُ لَهُمْ، وَهُوَ عَلَيْهِمْ. ’’وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ اس کے احکام ان کے حق میں ہیں لیکن درحقیقت وہ قرآن ان کے خلاف حجت ہوگا۔‘‘
    14. يَدْعُونَ إِلَی کِتَابِ اﷲِ وَلَيْسُوا مِنْهُ فِي شَيْئٍ. (ابوداود باب فی قتل الخوارج)
    ’’وہ لوگوں کو کتاب اﷲ کی طرف بلائیں گے لیکن قرآن کے ساتھ ان کا تعلق کوئی نہیں ہوگا۔‘‘
    15. يَقُوْلُوْنَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ. ’’وہ (بظاہر) بڑی اچھی باتیں کریں گے۔‘‘ (بخاری)
    16. يَقُوْلُوْنَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ قَوْلًا. ’’ان کے نعرے (slogans) اور ظاہری باتیں دوسرے لوگوں سے اچھی ہوں گی اور متاثر کرنے والی ہوں گی۔‘‘ (طبرانی)
    17. يُسِيْئُوْنَ الْفِعْلَ. ’’مگر وہ کردار کے لحاظ سے بڑے ظالم، خونخوار اور گھناؤنے لوگ ہوں گے۔‘‘ (أبوداود، السنن، کتاب السنة، باب في قتال الخوارج، 4 : 243، رقم : 4765)
    18. هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. ’’وہ تمام مخلوق سے بدترین لوگ ہوں گے۔‘‘ (مسلم)
    19. يَطْعَنُوْنَ عَلٰی أُمَرَائِهِمْ وَيَشْهَدُوْنَ عَلَيْهِمْ بِالضَّلَالَةِ. ’’وہ حکومت وقت یا حکمرانوں کے خلاف خوب طعنہ زنی کریں گے اور ان پر گمراہی و ضلالت کا فتويٰ لگائیں گے۔‘‘
    هيثمي، مجمع الزوائد، 6 : 228، وقال : رجاله رجال الصحيح.
    20. يَخْرُجُوْنَ عَلٰی حِيْنِ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ. ’’وہ اس وقت منظرِ عام پر آئیں گے جب لوگوں میں تفرقہ اور اختلاف پیدا ہو جائے گا۔‘‘ (متفق علیہ)
    21. يَقْتُلُوْنَ أَهْلَ الإِسْلَامِ وَيَدْعُوْنَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ. ’’وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔‘‘ (متفق علیہ)
    22. يَسْفِکُوْنَ الدَّمَ الْحَرَامَ. ’’وہ ناحق خون بہائیں گے۔‘‘ (مسلم)
    23. يَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ وَيَسْفِکُوْنَ الدِّمَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ مِنَ اﷲِ وَيَسْتَحِلُّوْنَ أَهْلَ الذِّمَّةِ. (من کلام عائشة رضي اﷲ عنها)
    ’’وہ راہزن ہوں گے، ناحق خون بہائیں گے جس کا اﷲ تعاليٰ نے حکم نہیں دیا اور غیر مسلم اقلیتوں کے قتل کو حلال سمجھیں گے۔‘‘ (یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے۔)
    (حاکم، المستدرک، 2 : 166، رقم : 2657 )
    24. يُؤْمِنُونَ بِمُحْکَمِهِ وَيَهْلِکُونَ عِنْد مُتَشَابِهه. (قول ابن عباس رضی الله عنه).
    ’’وہ قرآن کی محکم آیات پر ایمان لائیں گے جبکہ اس کی متشابہات کے سبب سے ہلاک ہوں گے۔‘‘ (قولِ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ) (امام طبری۔عسقلانی)
    25. يَقُوْلُوْنَ الْحَقَّ بِأَلْسِنَتِهِمْ لَا يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ. (قول علي رضی الله عنه) ’’وہ زبانی کلامی حق بات کہیں گے، مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی۔‘‘ (قولِ علی رضی اللہ عنہ) (مسلم)
    26. ينْطَلِقُوْنَ إِلَی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْکُفَّارِ فَيَجْعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ. (من قول ابن عمر رضی الله عنه) (بخاری)
    ’وہ کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق مسلمانوں پر کریں گے۔ اس طرح وہ دوسرے مسلمانوں کو گمراہ، کافر اور مشرک قرار دیں گے تاکہ ان کا ناجائز قتل کر سکیں۔‘‘ (قولِ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے مستفاد)
    27. يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ. ’’وہ دین سے یوں خارج ہو چکے ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘
    28. اَلْأَجْرُ الْعَظِيْمُ لِمَنْ قَتَلَهُمْ. ’’ان کے قتل کرنے والے کو اجرِ عظیم ملے گا۔‘‘ مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066
    29. ’’وہ شخص بہترین مقتول (شہید) ہوگا جسے وہ قتل کر دیں گے۔‘‘ (ترمذی)
    30۔ کلاب النار ۔۔ جہنم کے کتے (السنن ابن ماجہ۔ باب فی الذکر الخوارج ۔ ۱: ۶۲، رقم۔۱۷۶

    موجودہ دور کے دہشت گرد خوارج ہی ہیں

    متعدد احادیث مبارکہ میں فرامین رسول ﷺ نقل ہیں کہ خوارج دہشت گردوں کے گروہ امت مسلمہ کے اندر یکے بعد دیگرے نکلتے رہیں گے۔ حتی کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ جا کر ملے گا۔
    حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا
    یخرج قوم من قبل المشر یقروون القرآن ، لایجاوز تراقیم کلما قطع قرن نشا قرن، حتی یخرج فی بقیتھم الدجال ،
    ’’مشرق کی طرف سے کئی لوگ نکلیں گے۔وہ قرآن پڑھیں گے مگر قرآن انکے حلق سے نیچے نہ اترے گا، جب ایک شیطانی سینگ یعنی دہشت گرد گروہ کو کاٹ دیا جائے گا تو دوسرا نکلے گا، یعنی گروہ در گروہ پیدا ہوتے رہیں گے۔ حتی کہ ان کے آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا۔ ‘‘
    حوالہ جات: احمد بن حنبل المسند۔ ۲، ۲۰۹، رقم ۶۹۵۲
    طبرانی المعجم الاوسط۔ ۷: ۴۱، رقم ۶۷۹۱
    امام حاکم المستدرک ۔ ۴: ۵۵۶، رقم ۸۵۵۸

    خلاصہ کلام

    خوارج دہشت گردوں کی صفات و علامات کو واضح کرنے والی مذکورہ بالا بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عصر حاضر کے دہشتگرد ہی خوارج ہیں۔ ہمارا دینی و ملی فریضہ بنتا ہے کہ ہم قرآن و حدیث، آثار صحابہ اور اقوال آئمہ کی روشنی میں انسانیت دشمن ان خونخوار بھیڑیوں کے گھناونے چہروں کو پہچانیں اور معاشرے کے سامنے انہیں بے نقاب کریں۔
    حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی امت کو قیامت تک ہر دور میں خوارج کے ظاہر ہوتے رہنے اور منظم و مسلح گروہوں کی شکل میں نکلتے رہنے کی پیغمبرانہ پیشین گوئی کے طور پر خبریں دے دی تھی تاکہ ہر زمانے کے مسلمان انہیں پہچان سکیں ۔ اور جب انکا خروج (اظہار) ہو تو سادہ لوح مسلمان ان کی شکلوں، نعروںslogansاور شریعت کے نفاذ کے مطالبوں ، انکی ظاہر عبادتیں دیکھ کر دھوکہ میں نہ آ جائیں بلکہ اسلامی ریاست پر بھی حضور نبی اکرم ﷺ نے ذمہ داری عائد فرما دی کہ انکی ہر طرح سے بیخ کنی کی جائے۔ جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ریاستی سطح پر اسلامی فوج کے ذریعے انکا قلع قمع کیا تھا تاکہ خلق خدا ان دہشت گردوں کے شر سے محفوظ ہو جائے۔

    تلخیص از ۔۔ فتنہ خوارج ۔ قرآن و حدیث و تاریخ اسلامی کی روشنی میں
    مصنف ۔شیخ الاسلام ڈاکٹرطاہرالقادری
     
  4. پاکستانی55
    Offline

    پاکستانی55 ناظم Staff Member

    Joined:
    Jul 6, 2012
    Messages:
    98,397
    Likes Received:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ
     
    نعیم likes this.
  5. ملک بلال
    Offline

    ملک بلال منتظم اعلیٰ Staff Member

    Joined:
    May 12, 2010
    Messages:
    22,418
    Likes Received:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ نعیم بھائی
    عصری تقاضوں کے مطابق خوارج کے بارے میں سب کو علمی طور پر پتا ہونا چاہیے۔ اور ڈاکٹر صاحب کی کتاب کا بہترین خلاصہ پیش کیا آپ نے۔
    اللہ کریم آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ اور ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کے علم ، عمل اور صحت میں برکت عطا فرمائے۔
    آمین
     
    نعیم and پاکستانی55 like this.

Share This Page