1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

[you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏16 مارچ 2011۔

  1. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    اچھا ہی ہوا پاکستان میچ ہار گیا۔
    اگر جیت جاتا تو ہوائی فائرنگ پتہ نہیں کتنے گھروں کے چراغ گل کردیتی۔ کسی گھر کا کمانے والا جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ منچلے نوجوان جشن منانے کے لئے سڑکوں پر نکل آتے تیز رفتار گاڑیاں چلاتے موٹر سائیکلوں سے سلنسر نکال لیتے پھر کسی نہ کسی کی جان جاتی۔

    رات کو ہی میں اپنے دوست کے ساتھ دفتر سے نکلا اور ایک رکشے میں بیٹھ گئے۔ دوران سفر ہی ہم میچ پر گفتگو کررہے تھے کہ رکشے والا پاکستانی ٹیم کو کوسنے لگا کہ انہوں نے بری کارکردگی دکھائی ہے لگتا ہے کہ یہ بک گئے ہیں۔ پھر بولا کہ میں نے پاکستان کی جیت پر بیس ہزار کا جوا کھیلا تھا اور میں اللہ تعالٰی سے دعائیں کی کہ یااللہ پاکستان کو میچ جتا دے۔ سبحان اللہ! جوا کھیل کر ناجائز کام کیا اور پھر اللہ تعالٰٰی سے دعا بھی کی کہ اسے جوا جتوادے۔

    اس ملک کے کروڑوں لوگوں نے پاکستانی ٹیم کے لئے دعا کی لیکن اللہ تعالٰی جو کرتا ہے ٹھیک ہی کرتا ہے۔
     
  2. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    پاکستانی ریاست کا المیہ
    1۔ منافقت: پاکستان میں منافقت عام ہے۔ ایک شخص ایک ہاتھ سے رشوت لے رہا ہوتا ہے تو منہ سے کرپشن کا رونا رو رہا ہوتا ہے۔ ہر شخص حکومت کو برا بھلا کہتا ہے لیکن اپنے گریبان میں نہیں جھانکتا۔
    2۔ تعلیم: ہم تعلیم سائنس اور ٹیکنالوجی سے دور ہیں۔ ہمارا تعلیمی بجٹ کل آمدن کا دو فیصد ہے جس میں سے کچھ کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے تو کچھ نااہلی کی نذر ہوجاتا ہے۔ بھارت کل آمدن کا 4 فیصد خرچ کرتا ہے۔ طبقاتی تعلیمی نظام عوام کو مختلف طبقوں میں تقسیم کررہا ہے۔

    3۔ ناانصافی اور لاقانونیت: ملک میں ناانصافی اور لاقانونیت کانظام ہے۔ اسی سے لوگوں کے‌حقوق سلب ہورہے ہیں۔کرپشن عام ہورہی ہے۔ لوگوں کو انصاف نہیں ملتا۔ پولیس کی بدمعاشی عروج پر ہے۔ سیاستدان اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔

    4۔ وراثتی سیاست: ملک میں سیاسی جماعتیں وراثتی ہیں۔ ن لیگ شریف برادران، پیپلزپارٹی بھٹوخاندان، ق لیگ چوہدری برادران، اے این پی ولی خاندان کی ملکیت ہے۔ جاگیردار، صنعت کار یا ایسے لوگ جو پیسہ رکھتے ہیں وہی الیکشن لڑسکتے ہیں۔ کوئی جماعت اپنی پارٹی میں اختلاف رائے پسند نہیں کرتی۔ کوئی مذہب کے نام پر سیاست کرتا ہے تو کوئی بھٹو خاندان کے نام پر۔

    5۔نااہلی: موجودہ سیاستدان مکمل طور نااہل ہیں۔ کوئی وزیر اپنا کام صحیح طریقے سے نہیں کرتا، سیاستدان، سرکاری افسران کرپشن کا شکار ہیں۔ رشوت ستانی، اقرباء پروری کا بازار گرم ہے۔ایک حکومت کوئی اچھا منصوبہ شروع کرتی ہے تو دوسری حکومت اسے ختم کردیتی ہے۔

    6۔ ناشکری: من حیث القوم ہم ناشکرے ہیں، کوئی شخص اپنے حالات سے خوش نہیں ہے۔تقوی نام کی کوئی چیز نہیں رہی۔ ناشکری کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ہم موجودہ وسائل کو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرتے اللہ تعالٰی نے ہمیں معدنیات، بہترین زرعی نظام سے نوازا ہے لیکن ہم اسے سیاست کی نذرر کردیتے ہیں جیسے کالاباغ‌ڈیم، گوادر وغیرہ


    7۔ مذہب سے دوری: مذہب سے دوری بھی ہمارا المیہ ہے۔ اسلام صرف عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جس میں سچ بولنا، غریبوں کی مدد کرنا، غیب چغلی سے پرہیز، ایمانداری وغیرہ۔ ہمارے ہاں مولوی صاحبان جمعہ کے خطبہ میں‌ ان پر بات کرنا گوارا نہیں کرتے، یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت پر تو بات کرتے ہیں لیکن لوگوں کو ترغیب نہیں دیتے کہ سچ بولو، ایمانداری سے اپنا کام کرو۔

    8۔اخلاقی زوال: قوم پر کوئی زوال معاشی زوال سے نہیں آتا بلکہ اخلاقی زوال ہی قوموں کو تباہ کردیتا ہے ہم پر اخلاقی زوال کی تازہ مثالیں یہ ہیں۔
    - وسائل کا بے دریغ استعمال ہے ہم لوگ کھانا کھاتے ہیں تو پلیٹ میں بہت سا چھوڑ دیتے ہیں، پانی کو ہمارے ہاں گھروں میں بے دریغ ضائع کیا جاتا ہے
    - سڑکوں پر گند‌ڈالتے ہیں ہمارے ہاں اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک شخص جس نے منہ میں پان ڈالا ہوتا ہے وہ اپنی پچکاریوں سے سڑکوں کو لال کرتا جاتا ہے۔ احساس ذمہ داری کا عنصر ہم سے ختم ہوگیا ہے۔
    - نمودونمائش بھی اخلاقی زوال کا اہم عنصر ہے، جہیز کی نمائش، دولت کی نمائش، کپڑوں کی نمائش جو ایک طرف فضول خرچی ہے تو دوسری طرف کم حیثیت والوں میں احساس کمتری پیداکرتی ہے۔

    - اخلاقی زوال کا ایک اہم عنصر یہ بھی ہے کہ ہم دوسروں کی پراپرٹی کا احترام نہیں کرتے دوران احتجاج موٹرسائیکلیں، کاریں بسیں جلادی جاتی ہیں، دکانوں اور گھروں کے شیشے توڑدئیے جاتے ہیں، احتجاج کی آڑ میں لوٹ مار کی جاتی ہے

    - اخلاقی زوال کا اہم عنصر یہ بھی ہے کہ ہم الیکشن میں غلط لوگوں کو منتخب کرتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہم رکن اسمبلی کی دولت، امارت سے مرعوب ہوجاتے ہیں، میں نے اپنے علاقے میں 2008 کے الیکشن میں دیکھا کہ لوگوں نے قیمے والے نان اور 1500 روپے کے بدلے ووٹ بیچے۔

    حاصل تحریر: مجھے اس ساری گفتگو سے یہ نتیجہ ملا ہے کہ قومیں تعلیم کی کمی، قحط سالی، معاشی انحطاط، نااہل لیڈرشپ سے تباہ نہیں ہوتیں بلکہ اخلاقی زوال سے تباہ ہوتی ہیں۔ کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے بنیادی شرط اخلاقیات ہے اس کے بغیر کوئی قوم اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔

    اگر ہم علامہ اقبال کی جواب شکوہ پڑھیں توہمیں ہر سوال کا جواب مل جائے گا۔ اس نظم نے ہمارے زوال کی مکمل داستان بیان کردی ہے۔
     
  3. انسان
    آف لائن

    انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جولائی 2009
    پیغامات:
    98
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    اس سوال کا جواب آسان نہیں ہے میرے دوست
    کیونکہ

    براہیمی نظر پیدا بڑی مشکل سے ہوتی ہے
    ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    السلام علیکم راشد بھائی ۔ آپ کے دردِ دل سے معمور تحریریں ہمیشہ میرے لیے قابل قدر رہی ہیں اور میں ان سے بہت کچھ سیکھتا ہوں۔ جزاک اللہ خیرا۔

    لیکن علامہ اقبال رح نے صرف "بیماری کی تشخیص" ہی تو نہیں کی تھی نا۔ بلکہ حکیم امت کا لقب انہیں اسی لیے ملا ہے کہ انہوں نے اس بیماری کا علاج بھی تجویز کیا تھا۔
    کیا ہی بہتر ہو کہ آپ اپنے وسیع مطالعے کی روشنی میں اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت نکال کر اس زاویے سے بھی ہمیں روشناس فرمائیں۔ شاید کہ ہم جیسے لوگ اپنا مقدر تبدیل کرنے کی کسی فکر سے ہمکنار ہوسکیں۔
     
  5. انسان
    آف لائن

    انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جولائی 2009
    پیغامات:
    98
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    ؏علاج اسکا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی
    اقبال؀
     
  6. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    ہمارا یہی تو المیہ ہے کہ ہم بیماری کو سمجھتے ہی نہیں۔ہمارے ہاں آج کے دورمیں عطائی قسم کے دانشور، ادیب اور سیاستدان ہیں جو اپنی اپنی تشخیص بتاتے ہیں۔ ٹی وی پر بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں۔ جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ ہمارا مسئلہ کیا ہے تو کوئی تعلیم کو ہمارا بنیادی مسئلہ کہتا ہے تو کوئی آبادی کو، کوئی کرپٹ سیاستدانوں کو مسئلہ کہتا ہے تو کوئی جاگیرداروں کو، مسئلے کی جڑ تک کوئی نہیں پہنچنا چاہتا۔ ہمیں علامہ اقبال صرف 9 نومبر کو یاد آتا ہے۔ اس دن دانشور، ادیب، سیاستدان ایوان اقبال میں جمع ہوتے ہیں تقریریں کرتے ہیں اور گھر چلے جاتے ہیں اور دوسرے دن علامہ اقبال کو بھول جاتے ہیں۔ علامہ اقبال کے ایک ایک شعر پر کتاب لکھی جاسکتی ہے۔

    میرے لئے ایک صحافی اوریا مقبول جان کی یہ بات حیران کن تھی کہ ایران کے نصاب میں علامہ اقبال کا کلام شامل ہے اور ایرانی انقلاب میں علامہ اقبال کے کلام کا کلیدی کردار تھا۔ اس کے علاوہ آذر بائیجان، ازبکستان، تاجکستان میں بھی علامہ اقبال کا کلام نصاب کا حصہ ہے۔ لیکن پاکستان میں علامہ اقبال کا کلام صرف بک شیلف تک محدود ہے۔
     
  7. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    شکوہ میں نے علامہ اقبال نے مسلمانوں کی زبوں حالی کا ذکر کردیا لیکن جواب شکوہ میں یہ بتادیا کہ کیوں ہم زبوں حالی کا شکار ہوئے۔

    ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
    راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں
    کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
    ڈُھونڈنے والوں کو دُنیا بھی نئی دیتے ہیں

    یعنی اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ میں تو دینے کے لئے بیٹھا ہوں لیکن تم میں سے کوئی لینے والا نہیں۔ تمہیں کیسے راستہ دکھایا جائے جب تمہاری کوئی منزل نہیں۔ تم ایک کنفیوژڈ قوم ہو، بھیڑ چال کا شکار ہو۔ اگر کوئی شخص اہل ہو تو ہم اسے ترقی، قدومنزلت دیتے ہیں۔ تم نے دیکھا نہیں کہ یورپ، امریکہ چاند پر پہنچ گیا، مریخ کو تسخیر کررہا ہے صرف اس لئے کہ انہوں نے کوشش کی

    کِس قدر تُم پہ گراں صُبح کی بیداری ہے !
    ہم سے کب پیار ہے ؟ ہاں نیند تُمہیں پیاری ہے

    تمہیں مجھ سے کب پیار ہے ہاں نیند تمہیں پیاری ہے، جب موذن کہتا ہے کہ الصلوۃ خیرمن النوم یعنی نماز نیند سے بہتر ہے تو تم اس وقت سو رہے ہوتے ہو۔ یعنی تم نے میری عبادت پر اپنی نیند کو ترجیح دی ہوئی ہے۔

    قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
    جذبِ باہم جو نہیں ، محفلِ انجم بھی نہیں

    قوم مذہب سے بنتی ہے مذہب نہیں تو تہمارا کوئی وجود نہیں۔ اپنے مذہب کو مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالو۔ آج کل سیکولرازم کا نعرہ عام ہے کہ ریاست کو مذہب سے علیحدہ کردو تو ترقی کرو گے بدقسمتی سے مسلم ممالک میں سیکولرازم کوئی نظریہ نہیں بلکہ فیشن بن چکا ہے۔ لوگ سیکولر کہلوانا باعث فخر سمجھتے ہیں

    فرقہ بندی ہے کہیں ، اور کہیں ذاتیں ہیں !
    کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟

    یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
    تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ مسلمان بھی ہو!

    تم لوگ مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے ہو کوئی تم میں پنجابی ہے، کوئی بلوچی ہے، کوئی پٹھان ہے تو کوئی سندھی ہے تو کوئی تم میں شیعہ ہے سنی ہے یا دیوبندی تم لوگ گروہ در گروہ بٹے ہوئے ہو۔ کوئی اپنے آپ کو راجپوت کہلوانا باعث فخر سمجھتا ہے تو کوئی آرائیں یا کشمیری۔ اب تم لوگ ہی فیصلہ کرو جب تم لوگوں میں اتفاق نہیں، گروہ بندی ہے تو کیسے ترقی کرو گے؟ تم ایک ہی وقت میں کئی گروہوں میں تقسیم ہو ایک طرف تو تم راجپوت ہو، دوسری طرف پنجابی ہو تیسری طرف بریلوی ہو

    وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
    یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

    تم وضع قطع میں تو عیسائیوں کے نقش قدم پر ہو۔ ان سے متاثر ہوکر ان کی مشابہت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہو۔ عورتوں نے مردوں جیسی شکل وساخت بنالی ہے اور مردوں نے عورتوں جیسی
    اور تمہارا تہذیب و تمدن ہندوؤں جیسا ہے ان کی ساری شادی کی رسوم، ان کی ثقافت تم نے اختیار کرلی۔ یہودی بھی شرمندہ ہیں تمہارا رہن سہن دیکھ کر

    وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
    اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

    تمہارے آباؤ اجداد اس لئے معزز تھے کہ وہ سچے مسلمان تھے، لیکن تم اس لیے ذلیل ہورہے ہو کہ تم نے قرآن پاک کو چھوڑ دیا میں نے جو راستہ بتایا اس کو چھوڑ دیا اور اغیار کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر اپنی منزل پانا چاہتے ہو۔



    علامہ اقبال نے مسلمانوں کی زبوں حالی کا حل چند اشعار میں ہی بتادیا ہے

    سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
    لیا جاے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

    یعنی اگر سچے اور ایماندار ہو، انصاف پسند ہو، بہادر اور نڈر ہو۔ کسی آئی ایم ایف اور امریکہ کے دباؤ میں‌آنیوالے نہیں تو ہی تم بلند مرتبہ حاصل کرنے کے حقدار ہو

    کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
    یہ جہاں چیز ہے کیا لوح قلم تیرے ہیں

    یعنی اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلو گے تو تم نہ صرف دنیا پر غلبہ پا سکتے ہو بلکہ تمہاری ہاں یا ناں میں ہی دنیا کے فیصلے ہوں گے۔

    مذکورہ دونوں اشعارکی مثالیں ہمیں خلفائے راشدین کے دور میں ملتی ہیں کہ انہوں نے عدل وانصاف، سچائی، ایمانداری، بہادری سے حکومت کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان نہ صرف خوشحال ہوگئے بلکہ عرب و عجم میں مسلمان غلبہ حاصل کرگئے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں تو مسلمان اس قدر خوشحال ہوگئے کہ کوئی زکوۃ لینے والا نہیں تھا اس وقت یورپ کا منظر وہی تھا جو آج پاکستان، افریقی ممالک کا تھا کہ غربت عام تھی اور زکوۃ اور دیگر امداد وہاں بھیجی جاتی تھی۔ اس وقت کا ورلڈ بینک، آئی ایم ایف مسلمانوں کے پاس تھا لیکن آج کے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی طرح کسی کا استحصال نہیں کرتا تھا۔
    حضرت عمر بن عبدالعزیز کا صرف ایک فقرہ دنیا بھر کے حکمرانوں کی تربیت ہے کہ دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی مرجائے تو میں‌اس کا جواب دہ ہوں۔

    یہ فقرہ سوشلزم، گڈ گورننس، معاشی ترقی کے سارے اصول بتادیتا ہے۔

    ایک اور شعر میں علامہ اقبال نے فرمایا
    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

    اس شعر سے یہ بات اخذ ہے کہ ہم اپنی حالت نہیں بدلنا چاہتے جس حال میں ہیں اس میں مست ہیں۔ کل بھی بے ایمانوں کو منتخب کرتے تھے آج بھی کرتے ہیں۔


    علامہ اقبال کی تعلیمات کو مزید سمجھنے کے لئے اس لنک سے ویڈیوز ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں
    http://www.archive.org/details/Brasstacks-IqbalKaPakistan
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    بہت خوب راشد بھائی ۔
    میں اس لڑی میں‌جس قسم کی تحاریر کا منتظر تھا ۔ آپ کی تحریر میں وہ جھلک نظر آتی ہے۔
    یعنی جب تک ہم خود اپنا اور اپنے معاشرے کا مقدر بدلنے کے لیے اس غلیظ ، ظالمانہ اور حشیانہ نظام سے چھٹکارا پانے کا فیصلہ نہیں کریں گے اس وقت تک کبھی حالات سنور نہیں سکتے۔
     
  9. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    بہت شکریہ نعیم بھائی
    ہم صرف حکمرانوں کو بدلنے کی تلقین کرتے ہیں لیکن پہلے ہمیں‌خود بدلنا ہوگا۔ اگر ڈرون حملے رکوانے ہیں تو اوبامہ کو نہیں ہمارے حکمرانوں کو بدلنا ہوگا۔ اگر مہنگائی، بدامنی، دہشت گردی، بیروزگاری سے نجات پانی ہے تو عوام کو بدلنا ہوگا۔ عوام کو بدلنے کے لئے اچھے دانشوروں کی ضرورت ہے اس کے لئے ہمیں‌علامہ اقبال، ڈاکٹر اشفاق احمد، حبیب جالب، فیض احمد فیض جیسے لوگوں کی ضرورت ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو عوام کا ذہن تبدیل کرسکتے ہیں۔

    ہمارے موجودہ دانشور بہکی بہکی باتیں کرنے، کنفیوژن پھیلانے، شراب پی کر ٹی وی چینلز پر گالیاں دینے والے (حسن نثار نے چند دن قبل اے آر وائی نیوز پر آکر ایک سیاستدان کو گالیاں نکالی تھیں) ہیں.
    ایک اچھی بات سو لوگوں کو بتائی ہے اور اس میں سے ایک شخص اس پر عمل کرلے تو بھی مقصد پورا ہوجاتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی شخص کی بات کا اثر لاکھوں لوگ لے لیں۔ اس لئے فکری گفتگو کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔اس ملک کی تقدیر کبھی ن لیگ، ق لیگ، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، ایم کیوایم، جماعت اسلامی نہیں بدلے گی بلکہ اسے عوام بدلیں گے۔

    اتنی ساری مایوسی کے باوجود ہمارے ملک میں ایک ایسا طبقہ بھی پیدا ہورہا ہے جو ملکی حالات کے بارے میں ہروقت فکر کرتا ہے۔ اس طبقے کے لوگ ہماری اردو اور دیگر فورمز پر بھی موجود ہیں۔ ہماری یونیورسٹیوں، کالجوں میں بھی موجود ہیں۔ اگر اس طبقے کو کسی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرلیا جائے تو بھی تبدیلی‌آسکتی ہے۔

    جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سیاست پربات کرنا سردرد ہے یا سیاست سے پرہیز کریں تو ان سے گزارش ہے کہ سیاست پر بات بری چیز نہیں ہے، سیاست بری چیز تب بنتی ہے جب یکطرفہ باتیں کی جائیں۔ مثلا کوئی کہے کہ بھٹو یا عمران خان بہت اچھا ہے اور دوسرا اختلاف کرے اور دونوں اپنی اپنی باتوں پر مصر رہیں۔ سیاست پر بات کرنے کیلئے شرط ہے کہ مسائل اور اس کے حل پر بات کی جائے ناکہ شخصیتوں پر۔ اختلاف رائے کو برداشت کیا جائے۔
     
  10. محمداقبال فانی
    آف لائن

    محمداقبال فانی ممبر

    شمولیت:
    ‏20 اپریل 2011
    پیغامات:
    64
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    پھرا کرتے نہیں مجروحِ الفت فکرِ درماں میں
    یہ زخمی آپ کرلیتے ہیں پیدااپنی مرہم کو
     
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    السلام علیکم۔
    انقلاباتِ کائنات بشمول انقلاب مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بغور مطالعہ اس بات پر شہادت دیتا دکھائی دیتا ہے کہ معاشرے کی اجتماعی فلاح و بہبود ، معاشرتی عدل و انصاف ، معاشی حقوق کی بازیابی اور تہذیب و تمدن کی ترقی و ترویج کے لیے قوتِ نافذہ جب تک اہل، دیانتدار اور مخلص افراد یا طبقے یا جماعت کے ہاتھ میں نہ آئے اس وقت تک ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت تبدیلی ناممکن ہے۔
    تاریخ ِ انقلابات یہ گواہی بھی دیتی ہے کہ حق و انصاف پر مبنی نظام کو جب بھی نافذ یا اسٹیلش کرنے کی بات کی جائے گی ۔ نظامِ باطل یعنی غیر منصفانہ نظام کے علمبردار اور حامی محسوس و غیر محسوس یا اعلانیہ و غیر اعلانیہ ہر طریقے سے "اہل حق اور اہل انصاف" کی راہ روکنے کی کوشش کریں گے۔ کبھی ان کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جائے گا ۔ کبھی کردار کشی، کبھی فتویٰ جات ، کبھی قاتلانہ حملے تو کبھی دیگر حربے ۔۔ لیکن حق کی مخالفت میں باطل ہمیشہ سراٹھاتا ہے۔ قرآنی فلسفہء انقلاب سمیت دنیا کا ہر فلسفہء انقلاب اس بات کی تائید کرتا نظر آتا ہے۔
    لہذا ۔۔۔ حق و انصاف کی جدوجہد کرنے والوں کو سب سے پہلے تو باطل نظام سے نفرت اور اس کو ٹھکرانے کا عزم و شعور ہونا لازم ہے۔ کیونکہ جب تک جدوجہد کرنے والوں کو یہ ذہنی واضحیت ۔۔ Conceptual Clarity۔۔ نہیں ہوگی وہ ہمیشہ متذبذب رہیں گے اور متذبذب لوگ کبھی باطلانہ نظام سے ٹکرانے کی جرات نہیں کرسکتے۔
    دوسرے ۔۔ اہل حق و دیانت کو باطلانہ و ظالمانہ نظام سے نفرت ہو اور وہ اس کو تبدیل کرکے اسکی جگہ عدل و انصاف اور معاشی و معاشرتی ترقی و فلاح کا نظام لانے کے لیے پر عزم ہوں۔
    پھر قوت نافذہ کے حصول کے لیے بھی مختلف راستے ہیں جس میں جنگ و جدل ا ور قتل و غارت گری پر مبنی راہ بھی ہے جو براہ راست "تصادم" کا ہوتا ہے۔
    یا پھر پر امن راستہ بھی ہوتا ہے جس میں اگر عوام کی بھاری اکثریت آپ کا ساتھ دینے پر تیار ہوجائے تو بنا خون بہائے بھی قوت نافذہ اہل حق کے پاس آسکتی ہے۔ ۔۔۔ فتحِ مکہ ۔۔ اسکی سب سے بڑی مثال ہے۔
    یا پھر ۔۔ معاشرتی و سیاسی حالات کے تناظر میں کوئی اور موزوں راستہ ۔

    موجودہ پاکستان کے حالات کے تناظر میں جہاں‌۔۔ نام نہاد جمہوریت ۔۔ اور ظالمانہ و بہیمانہ نظامِ انتخابات ۔۔ موجود ہے وہاں پورا سیٹ اپ تبدیل کرنا بہت مشکل ہے۔۔ اور بالخصوص کہ جب عوام کے اندر اس ظالمانہ نظام سے نفرت کا مادہ بھی مطلوبہ مقدار میں دستیاب نہ ہو ۔
    اس لیے ضروری ہے کہ سچے اور مخلص لوگ سب سے پہلے اس باطل نظامِ انتخاب اور باطل نظام سیاست کو تبدیل کرنے کے لیے اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر حسبِ استطاعت تبدیلی کا احساس و شعور پیدا کریں ۔ اس نظام ِ باطل کی جگہ نظامِ حق و انصاف لانے کے لیے عوام کو تیار کریں۔ جب کسی متبادل منصافانہ نظام انتخاب کے ذریعے قوت نافذہ تک اہل حق و اہل دیانت اور باصلاحیت و مخلص لوگ پہنچ گئے تو اس دن سے وطن و ملت کی تقدیر سنورنے کا عمل شروع ہوجائے گا۔
     
  12. انسان
    آف لائن

    انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جولائی 2009
    پیغامات:
    98
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    السلام علیکم۔
    آپ نے یہ تو درست فرمایاکہ " انقلاباتِ کائنات بشمول انقلاب مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بغور مطالعہ اس بات پر شہادت دیتا دکھائی دیتا ہے کہ معاشرے کی اجتماعی فلاح و بہبود ، معاشرتی عدل و انصاف ، معاشی حقوق کی بازیابی اور تہذیب و تمدن کی ترقی و ترویج کے لیے قوتِ نافذہ جب تک اہل، دیانتدار اور مخلص افراد یا طبقے یا جماعت کے ہاتھ میں نہ آئے اس وقت تک ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت تبدیلی ناممکن ہے۔
    تاریخ انقلابات یہ گواہی بھی دیتی ہے کہ حق و انصاف پر مبنی نظام کو جب بھی نافذ یا اسٹیبلش کرنے کی بات کی جائے گی ۔ نظامِ باطل یعنی غیر منصفانہ نظام کے علمبردار اور حامی محسوس و غیر محسوس یا اعلانیہ و غیر اعلانیہ ہر طریقے سے "اہل حق اور اہل انصاف" کی راہ روکنے کی کوشش کریں گے۔ کبھی ان کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جائے گا ۔ کبھی کردار کشی، کبھی فتویٰ جات ، کبھی قاتلانہ حملے تو کبھی دیگر حربے ۔۔ لیکن حق کی مخالفت میں باطل ہمیشہ سراٹھاتا ہے۔ قرآنی فلسفہء انقلاب سمیت دنیا کا ہر فلسفہء انقلاب اس بات کی تائید کرتا نظر آتا ہے۔ لہذا ۔۔۔ حق و انصاف کی جدوجہد کرنے والوں کو سب سے پہلے تو باطل نظام سے نفرت اور اس کو ٹھکرانے کا عزم و شعور ہونا لازم ہے۔ کیونکہ جب تک جدوجہد کرنے والوں کو یہ ذہنی واضحیت نہیں ہوگی اکثریت ہمیشہ متذبذب رہے گی اور اکثر لوگ کبھی باطلانہ نظام سے ٹکرانے کی جرات نہیں کرسکتے"۔
    دوسرے ۔۔" اہل حق و دیانت کو باطلانہ و ظالمانہ نظام سے نفرت ہو اور وہ اس کو تبدیل کرکے اسکی جگہ عدل و انصاف اور معاشی و معاشرتی ترقی و فلاح کا نظام لانے کے لیے پر عزم ہوں"۔

    مگر قوت نافذہ کے حصول کے لیے 6 مراحل ہیں

    1 اس انقلابی نظریے کو پھلانا
    2اہل حق و دیانت کی ایک جماعت منظم کرنا
    3 ان کی تربیت
    4 صبر کا دور
    5 چیلینج کرنا
    6 آخری مرحلہ ہے جس میں براست "تصادم" ہوتا ہے۔
    آج کی مہذب دنیا نے ھمیں کچھ پر امن راستے بھی دئیے ہیں جس میں اگر عوام کی بھاری خاموش اکثریت آپ کا ساتھ دینے پر تیار تو ہوجائے تو اہل حق کی جماعت اپنا خون بہائے تب قوت نافذہ اہل حق کے پاس آسکتی ہے۔
    آج کے دور میں معاشرتی و سیاسی حالات کے تناظر میں ایک اور راستہ ہمیں ملا ہے کہ وہ جماعت پر امن احتجاجی تحریک چلائے ۔خود قانون ہاتھ میں نہ لے مگر سامنے سے پولیس یا فوج گولی چلاتی ہے تو جاوب میں گولی نہ چلائے۔(جیسا کہ دنیا کہ مختتگ ملکوں میں ہوا مثلاَ ایران، جورجیا وغیرہ)

    موجودہ پاکستان کے حالات کے تناظر میں جہاں‌۔۔ نام نہاد جمہوریت ۔۔ اور ظالمانہ و بہیمانہ نظامِ انتخابات ۔۔ موجود ہے وہاں پورا سیٹ اپ تبدیل کرنا ناممکن نہیں ہے۔۔
    اس لیے ضروری ہے کہ سچے اور مخلص لوگ سب سے پہلے اس باطل نظامِ کو تبدیل کرنے کے لیے اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر حسبِ استطاعت تبدیلی کا احساس و شعور پیدا کریں ۔ اس نظام ِ باطل کی جگہ نظامِ حق و انصاف لانے کے لیے عوام کو تیار کریں۔ جب بھی پہلے 5 مراحل پورےہو جائیں وہ جماعت اتنی پکی اور مظبوط ہو جائے اور وہ وہ فیصلہ کرے کہ کے اب موقع ہے اپنے جگر آزمانے کا تو سڑکوں ہر آحتجاج کرتے ہوئے کہے کہ اب یہ غلط نظام ہم نہیں چلنے دیں گے طاہے تم ہم پر گولیاں چلائو ،ہم تو یہں کھڑے ہیں۔
     
  13. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    بہت شکریہ انسان بھائی ۔ ہم دونوں تھوڑے بہت الفاظ کے ردوبدل کے ساتھ ایک ہی نظریے پر متفق نظر آتے ہیں۔ الحمدللہ
     
  14. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    یوں تو ہم سب ہی ایک مثبت تبدیلی کے خواہاں ہیں مگر اہم بات یہ ہے کہ ہر عمل کی تان فرد پر ہی آ کر رکتی ہے۔اقبال نے کہا تھا:
    افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
    ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
    مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ:
    قطرہ جس وقت محو دریا ہو
    اس کو دریا نظر نہیں‌آتا

    حکمرانوں کو کوسنے، سڑکوں پر نکلنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ فرد کو سدھارا جائے۔ اور یہ کام اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے۔اطہر خان جیدی کا ایک طنزیہ شعر ہے:
    وطن سے رشوت اور سفارش کو ختم کرنا ہے
    مگر ذرا میرے بھانجے کا خیال رکھنا

    کہنے کی بات یہ ہے کہ کسی دوسرے پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں‌دیکھیں۔اگر آپ کو اپنا آپ ان اصولوں اور قوائد کے مطابق نظر آتا ہے جو آپ دوسروں میں چاہتے ہیں تو کسی کو ٹوکیں۔خود کو تبدیل لیے بغیر "امر بالمعروف" پر عمل بھی منافقت ہے۔
     
  15. محمداقبال فانی
    آف لائن

    محمداقبال فانی ممبر

    شمولیت:
    ‏20 اپریل 2011
    پیغامات:
    64
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    معاشروں میں تبدیلی کا آغاز افراد سے ہوتا ہے۔افراد سنور جائیں تومعاشرے فلاحی بن جاتے ہیں۔افراد کابگاڑمعاشرتی بگاڑکوجنم دیتاہے۔سقراط نے کہاتھا کہ"انسان ہی ہر شے کامعیار ہے" اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرکوئی تہذیبی نقشہ اورکوئی عمرانی تصور انسان کی ضروریات کوپورا نہیں کرتا اورمضمراتِ ارتقاء کواجاگر نہیں کرتا یا کوئی دین یافلسفہ انسان کے فکری،جذباتی اور عملی پہلوؤں کے لیے تسکین اور ارتقاء کا تسلی بخش سامان مہیا نہیں کرتا بلکہ عقل کو مفلوج کرتاہے تووہ انسان کی شخصیت کوتعمیر بھی نہیں کرسکتا بلکہ اس کواور مفلوج کرتاہے۔
    اس لیے اگر ہمیں اس مخمصے سے نکلنا ہے تو پہلے افرادِمعاشرہ کی شخصیت کی تعمیر کرنی ہے۔تعمیرشخصیت ہی دراصل تعمیرِمعاشرہ ہے۔اورجب تک فرداورمعاشرے میں پیداشدہ تفریق ختم نہیں کی جاتی اس وقت تک ہم بے عملی کے اس مخمصے سے نہیں نکل سکتے۔بے عملی اور معاشرتی کلی بگاڑ کاخاتمہ تعمیرمیں مضمر ہے۔اچھامعاشرہ اچھے افراد کی تخلیق وپرورش کرتاہے، اور اچھے افراد عمدہ معاشرہ معرضِ وجود میں لاتے ہیں۔دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں،اور دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔
    ایک فرد معاشرے کی راہنمائی کرتاہے،معاشرے کو نئے افکاروتصورات سے مالامال کرتا ہے، اور اپنی فکری واجتہادی کاوشوں سے تہذیب و تمدن کے مختلف گوشوں کو چمکاتا اور سنوارتاہے اور اپنی سیرت وکردار سے معاشرے میں نظم وتوازن پیداکرتا ہے۔
    ایک معاشرہ فرد کو زندگی کی بندھی ٹکی روایات دیتا ہے،تصورات وعقائد دیتا ہے،اقتدار بخشتا ہے، تہذیب وتمدن کے مقررہ سانچے اور اسلوب مہیاکرتاہے۔ ایک اچھا معاشرہ فرد کو اظہارِذات اور تکمیل وارتقاءِ ذات کے تمام مواقع عطاکرتاہے۔
    جس کے نتیجہ میں فرد اورمعاشرے میں موجود تضادات رفع ہوجاتے ہیں، جب تک فرد اور معاشرے میں موجود موانعات وتضادات کا کما حقہ ازالہ نہیں کیاجاتا اس وقت تک بے عملی، کوتاہ بینی،غفلت،سست روی،عیش پرستی اور دین ودانش میں پیداہونے والی تفریق کو ختم نہیں کیاجاسکتا۔
    تعمیرِشخصیت ومعاشرہ کے لیے ان موانعات وتضادات کورفع کرناضروری ہے۔اور اس کے چار ذرائع ممکن ہیں۔
    1۔ حواس (محسوسات)
    2۔ عقل(معقولات)
    3۔ وجدان
    4۔ وحی(قرآن)
    انسان کی تمام ظاہری وباطنی قوتیں(1تا3) اس کی شخصیت کی صحیح تعمیر کرنے سے قاصر ہیں۔پیچھے صرف قرآن ہی راہ جاتا ہے جو تعمیرِشخصیت کا حقیقی ذریعہ ہے۔کیونکہ اس سے حاصل ہونے والا علم ان اشیاء سے متعلق ہوتا ہے جو عام طور پر ظاہری حواس سے مخفی ہیں۔اس سے حاصل ہونے والا علم عام ذرائع سے مختلف ہوتا ہے۔ اس میں نہ ادراکِ حسی ہوتا ہے اور نہ استدلالِ منطقی۔ ایک ناقابلِ بیان پیرائے میں نبی کی ذات حقائق سے ہم کنار ہوجاتی ہے۔
    الہامی علوم ومعارف اشراقی علوم کی طرح بے معنی اور معاشرتی زندگی سے بے تعلق نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ زندگی کی ہدایت اور شرح کے لیے ہوتے ہیں۔اور اس لحاظ سے عملی نظامِ حیات کی بنیاد ہوتے ہیں۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ انسان کوظاہروباطن کی وحدت عطاکرتے ہیں۔ کیونکہ الہامی علوم کا اولین تعلق انسان سے ہے،
    اس کی روز مرہ زندگی ہے ہے۔
    اس کے ذہن وفکر سے ہے۔
    اس کی روحانی کیفیت سے ہے۔
    اور اس کے تعلقات سے ہے۔
    اس لیے دین کے تعمیری پہلو ایسے ہونے چاہییں کہ
    جن سے انسان فائدہ اٹھائے
    جن سے ذہن کو تغذیہ حاصل ہو
    جن سے انسان کا باطن چمکے
    جن سے انسان میں آفاقیت آئے
    جن سے اس کی "انا" نفس وذات کی حد بندیوں کوتوڑکرلامتناہی فضا کی وسعتوں میں تگ وتاز کرسکے۔
    جن کی بدولت ایک ہمہ رنگ ،انسان دوست،صالح اور ترقی پذیر معاشرہ وجود میں آسکے۔
    خلاصہ:
    اس مخمصے کاجواب چاہیے تو فرداور معاشرے میں تضاد کو دورکردیاجائے۔تضادات رفع کرنے کے لیے تعمیرِ شخصیت ضروری ہے، بیداری شعور لازم ہے، بیداری شعور کے لیے رشتہ قرآن ،اوراخذِہدایت کے لیے م"منھاج القرآن"لازم ہے۔
     
  16. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    محمد اقبال فانی بھائی ۔
    موضوع پر اپنا اظہارِ خیال فرمانے اور اپنے افکار سے ہمیں روشناس کرانے کے لیے شکریہ
    جزاک اللہ خیرا
     
  17. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    ماشاء اللہ بہت معلوماتی دسکشن ہے۔
     
  18. انسان
    آف لائن

    انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جولائی 2009
    پیغامات:
    98
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    منھج کی جمع ہے منھاج۔ ۔ ۔ ۔طریقہ جمع ہو گی طریقے
    منھاج القرآن ایک مبھم اصطلاح ہے۔
    جیسے منھاج النسخہ ہائے وفا وغیرہ
    منھج کسی شخص کا ہوتا ہے جیسے منھجِ محمدی،
    یا کسی عمل یا کسی حثیت کا ہوتا ہے جیسے منھج نبوی ،
    یا کسی مقصد تک پہنچنے کا ہوتا ہے جیسے منھج انقلاب نبوی
    صلی اللہ علیہ وسلم
     
  19. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    امام ابن جذلہ کی مشہور تصنیف۔۔۔ منہاج البیان فیما یستعملہ الانسان

    امام بیضاوی ۔۔ تصنیف۔۔ منہاج الوصول

    امام ابن تیمیہ۔۔ منہاج السنہ

    حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری ۔۔۔ منہاج الدین (فی المناقب الاصحاب الصفہ)

    اگر "منہاج " مبہم اصطلاح ہے تو یہ سارے آئمہ کرام ۔۔اپن تصانیف کے لیے یہی مبہم اصطلاح ہی استعمال کرتے رہے ہیں۔
     
  20. انسان
    آف لائن

    انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جولائی 2009
    پیغامات:
    98
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    میں" منھاج القرآن " کی اصطلاح کی بات کر رہا ہوں۔

    جیسے منھاج الکتاب

    ایک کتاب کا طریقہ کا کیا مطلب ہوگا؟

    کہ اس کتاب کے طریقے کیاہیں؟ کیا مطلب ہوا؟
     
  21. محمداقبال فانی
    آف لائن

    محمداقبال فانی ممبر

    شمولیت:
    ‏20 اپریل 2011
    پیغامات:
    64
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے کہ
    {إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا}[الإسراء : 9]
    قرآن مجید جوہدایت عطافرماتا ہے وہی سب سے قوی اور سیدھی ہدایت ہے، اسی ہدایت کی واضح راہ کو "منھاج القرآن" کہتے ہیں۔
    دوسرے مقام پرارشاد فرمایا
    ذالک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین
    پھر ارشاد فرمایا
    {وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ}[المائدة : 48]
    میرا سوال یہ کہ جب ہر ایک کے لیے ایک سیدھا راستہ متعین ہے، توکیا وہ سیدھاراستہ قرآن کاہے؟ یاقرآن کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے متعین ہونے والا راستہ سیدھا ہے؟
    اگر قرآن ہی ذریعہ ہدایت ہے اور اسی کا راستہ سیدھا ہے تو پھر اسی کے راستے کو ہی "منھاج القرآن" کہاجائے گا۔
    آپ کو ایک انتہائی مصدقہ اور واضح بات میں شک پیداکرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ حالانکہ اس میں تو"لاریب فیہ" کسی شک کی گنجائش ہی نہیں۔ایک التباس پیداکرکے آپ ثابت کیاکرناچاہتے ہیں؟ کہ معاذاللہ قرآن کا کوئی واضح منھاج ہی نہیں ہے؟
     
  22. انسان
    آف لائن

    انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جولائی 2009
    پیغامات:
    98
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    پہلے تو منھاج جمع ہے یعنی طریقے آپ اس کو واحد لکھ رہے ہیں اور ترجمہ بھی غلط کر رہے ہیں کہ " راستہ" جو کہ غلط ہے۔

    تو ترجمہ ہوا "قرآن کے طریقے"
    اب اس کا کیا مطلب ہوا؟

    قرآن کو "کیا" کرنا ہے اور "اس " کرنے کے طریقے کتنے اور کیوں ہیں؟
     
  23. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    السلام علیکم ۔
    میں محترم انسان بھائی سے درخواست کروں گا کہ منہاج القرآن کے معنی و مفہوم کے موضوع پر کوئی اور لڑی بنا کر اس میں‌جا کر اظہارِ خیال کرتے پھریں
    یہاں پر جاری موضوع کو خلط ملط نہ کریں۔
    اور براہ کرم ۔۔۔۔ آئندہ بھی اس امر کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔
    بہت شکریہ ۔
     
  24. انسان
    آف لائن

    انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جولائی 2009
    پیغامات:
    98
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    okوما علینا الا لبلاغ المبین۔ونحن علیٰ ذالک من الشاھدین والشاکرین۔

    سُبحٰنک اللھم وبحمدک نشھد ان لا الٰہ الؔاؔ انت نستغفرک ونتوب الیک۔
     
  25. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    نعیم بھائی آپ نے جو موزوں شروع کی ھے تو اس پر اگر باتکریں تو پوری زندگی کم پڑ جائے گی۔
    اللہ ھر انسان کو آزماتا ھے اوراس کو آخرت میں کامیابی کے موقعے بھی دیتا ھے کیوں اللہ فرماتاھے کہ میں ستر ماؤں سے زیادہ مہربان اور اپنے بندوں سے محبت کرنے والا ھوں۔۔خیر غیر مسلم کے لئے تو صرف یہی دنیا ہی ھے اور ان کو دولت عطا کی تاکہ ھمارا امتحان لے سکے کہ ھم کس قدر اپنے ایمان پر پختہ ھے اور فرماتا ھے کہ ان کی دولت کی وجہ سے دل میں ملال نہ رکھنا کیوں کےانکے لیے صرف یہ دنیا ھے اور مسلمان کے لئے جنت ھے۔۔اب آپکا سوال کہ مسلمان کیوں ایسا کر رھا ھے
    جب مسلمان بار بار اللہ کی نافرمانی کرتا ھے تو الہ اِس کےدل پر ایک مہر ،،stamp،،لگا دیتا ھےاور اس کے لئےاِسی دنیا کو خوبصورت بنا دیتا ھے تاکہ وہ اپنے بندے سے حساب کتاب کریں اور ھر کسی کو اس کے کئے کا صلہ مل سکے۔
    دنا میں دولت کے پیچھے دوڑنا عقلمندی نہیں بلکہ ایک بڑے عذاب کو دعوت دینا ھے۔۔ایک ڈاکٹر نے کہا کہ،،مجھے نہ گناہ کے کاموں سے فرق پڑتا اور نہ دین کے کاموں سے ،،،،بس یہی دل مرجانے کی کیفیت ھے۔۔۔
    یعنی اس آدمی نے بس دنیا کو ھی کافی سمجھا اور آخرت کو بھول گیا۔الہ کہتا ھے کہ جب میرابندہ دنیا کو دین پر ترجیح دیتا ھے تو میں اس بندےکو دنیا میں ھی الجھا دیتا ھوں۔۔
    اور آخری بات جو آپ کے سارے مسئلے کو حل کر دے گی وہ یہ کہ،،،انسان کی گناھوں کی فہرست حد سے بڑھ جائے تو میں ان پر ظالم بادشاہ کو مسلط کر دیتا ھوں اور قیامت کی اِک نشانی یہ بھی ھے کہ آخری زمانے میں جاہل اور بےوقوف انسان حکومت کریں گے۔۔۔
    حالانکہ ان میں مسلمان بھی ھو نگے۔۔
    تو اس سے ثابت ھا کہ دولت مسلمان اور غیر مسلم دونوں کے لئے ھے اور اسکا حساب کتاب بھی ھوگا۔۔
    الہ فرماتا ھے کہ جب میں اپنے بندے کو آزماتا ھوں تو ان کو دولت یعنی دنیا عطا کرتا ھوں
    والسلام
     
  26. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    شکریہ زین بھائی ۔ آپ نے کافی اچھی باتیں بتا کر میرے علم میں اضافہ کیا۔
    اسکا مطلب یہ ہے کہ ہم مسلمان جو تقریبا سوا یا ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں ۔۔ ہمارے اکثر و بیشتر حکمران (چند ایک ممالک کو چھوڑ کر) باقی سارے کے سارے ہی دنیوی ہوس پرستی میں مبتلا کر شیطان کی راہ پر چل رہے ہیں ؟
    اور اگر میں درست سمجھا ہوں ۔۔تو پھر ہم سوا ارب مسلمان کے ایمان کا عالم کیا ہے جو ایسے ہی حکمرانوں کو اپنے سروں پر مسلط رکھے ہوئے ہیں۔ انکی آمرانہ غلامی کے نیچے پسے جا رہے ہیں ؟
    کیا یہ ہمارے ایمان کی کمزوری ہے؟
    بزدلی ہے؟
    جہالت و بےشعور ی ہے؟
    غلامانہ سوچ ہے ؟
    یا کوئی اور وجہ ہے؟

    آپ نے یہ بھی کہا کہ دولت مسلم و غیر مسلم دونوں ہی کے لیے ہے۔ دونوں‌کا حساب ہوگا۔
    بےشک آپ کی بات سو فیصد درست ہے۔
    لیکن یہی تو میرا مخمصہ اور الجھن ہے۔ کہ پھر اس دولت کو حریص کتوں‌کی طرح جمع کرنے والوں کی فہرست میں زیادہ نام مسلمانوں‌کے ہی کیوں‌دکھائی دیتے ہیں۔ امریکہ یورپ سمیت آپ انکے حکمرانوں ، وزراء ، ہائی آفیشلز بیوروکریٹس ، چیف جسٹس اور بنکرز وغیرہ کے ریکارڈز اٹھا کر دیکھ لیں ۔۔۔ بے شک وہ بھی دولت جمع کرتے ہیں ۔ لیکن زیادہ سے زیادہ اتنی کہ جس سے اپنی ریٹائرمنٹ کی زندگی آسانی سے گذار لیں۔۔۔
    لیکن یہی تجزیہ جب اسلامی دنیا کے سیاستدانوں ، حکمرانوں ، وزیروں‌مشیروں، بنکرز اور بیوروکریٹس وغیرہ کا کریں تو انسان حیران پریشان رہ جاتا ہے کہ اتنی اتنی دولت اکٹھی کر لیتے ہیں جو شاید آئندہ پانچ سات نسلوں کے لیے بھی کافی ہو ۔ لیکن حرص ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی اور ھل من مزید کے تحت قبر کے دہانے تک دولت ہی جمع کرتے رہتے ہیں۔

    جبکہ غیر مسلم تو قیامت پر بھی شاید یقین نہیں‌رکھتے۔ اور نہ ہی اخروی حساب و کتاب کا ڈر رکھتے ہیں۔
    ہم مسلمان دن رات آخرت کے حساب و کتاب کی تقریریں بھی کرتے اور سنتے رہتے ہیں ۔ لیکن حرص و ہوسِ دنیا کی بات آجائے تو ہم سے بڑا دنیا کا پجاری ہی کوئی نہیں ۔

    یہ سب کیا ہے؟ :takar:
    یہ سب کیوں ہے؟ :takar:
     
  27. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    پہلے تو ہم ذہنی طور پر غلام تھے لیکن اب ذہنی طور پر بزدل ہوچکے ہیں۔
    اس کی ایک مثال آج کل نظر آتی ہے۔ بہت سے تجزیہ کار یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر ہم نے امریکہ کو آنکھیں دکھائیں تو امریکہ ہماری امداد روک لے گا اور ہم معاشی طور پر تباہ ہوجائیں گے۔ کوئی امریکہ کے خلاف بات کرے تو اسے طالبان کا ایجنٹ یا غیرت لابی کا نمائندہ قراردیدیا جاتا ہے۔ غیرت ہمارے ہاں گالی بن چکی ہے۔ ایسے لوگوں کو کہاجاتا ہے کہ اس کی فوجی طاقت، معاشی طاقت آپ سے زیادہ ہے تم اس کا مقابلہ نہیں کرسکو گے۔

    دوسری بات یہ ہے کہ مذہب اسلام کو ہمارے ہاں گالی بنایا جارہا ہے۔ مذہبی شخص کو ہمارے ہاں انتہاپسند یا دہشت گرد قراردیا جارہا ہے۔ مقصد لوگوں کو مذہب سے دور کرنا ہے۔

    ہماری کرکٹ ٹیم ہمارے پورے ملک کی صورتحال کی صحیح نمائندگی کرتا ہے۔
    محمد یوسف، سعید انور جب مذہب کی طرف راغب ہوئے تو اپنا کیرئیر ختم کرابیٹھے۔ چند کرکٹ کے کرتا دھرتاؤں نے کہا کہ یہ لوگ یا نمازیں پڑھ لیں یا کرکٹ کھیل لیں۔

    ہماری ٹیم جب کسی مضبوط ٹیم کے خلاف کھیلتی ہے تو میچ سے پہلے ہی ذہنی طور پرہارجاتی ہے اور اس ہار کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ٹیم 100سے نیچے ہی آؤٹ‌ہوجاتی ہے۔ اس طرح ہم بھی ذہنی طور پر امریکہ سے شکست کھاچکے ہیں۔

    جس طرح ہمارے کھلاڑی اپنی جگہ پکی کرنے کے لئے اننگ کھیلتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے ایم این اے اپنے نمبر بنانے کے لئے کوئی سڑک بنوادیتے ہیں۔ جس طرح ہمارے کھلاڑی میچ فکسنگ میں ملوث رہے ہیں اسی طرح ہمارے سیاستدان کرپٹ ہیں۔
     
  28. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    امید ہے کہ سب احباب خیریت سے ہونگے۔۔

    منہاج کا کیا مطلب ہے، دیکھئیے آفیشل ڈکشنری :
    http://oud.crulp.org/oud/ViewWord.aspx?refid=70161

    ایک جاری گفتگو میں دخل اندازی کرنے پر اس لڑی کے تمام شرکاء سے معذرت۔

    خوش رہیں‌
     
  29. محمداقبال فانی
    آف لائن

    محمداقبال فانی ممبر

    شمولیت:
    ‏20 اپریل 2011
    پیغامات:
    64
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    "نوید" بھائی بہت اچھی شیئرنگ ہے۔ مگر جن صاحب کو بات کی سمجھ ہی نہیں آرہی ان کو کون بتائے کہ "کواسفید نہیں ہوتا"
     
  30. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: [you] کیا آپ اس مخمصے کا حل بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‌ہے ؟؟؟

    راشد بھائی ۔ سید بھائی ۔ واصف بھائی ۔ محمد اقبال فانی اور دیگر دوستوں کی آراء کی روشنی میں کیا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خاکم بدہن

    ہم دنیا کی بدترین ، بےشعور اور بداخلاق قوم بن چکے ہیں ؟؟؟؟
     

اس صفحے کو مشتہر کریں