1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

Suffer نامہ

'قہقہے، ہنسی اور مسکراہٹیں' میں موضوعات آغاز کردہ از ملک بلال, ‏25 اپریل 2012۔

  1. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    Suffer نامہ

    گاڑیوں کا چھوٹنا تو آپ سنتے آئے ہوں گے۔ لیکن اس کام کے ماہر کے شاید اکثر دوست ناواقف ہوں گے۔ حالانکہ ھارون بھائی اور ان کے سیاسی حلیف احمد بھائی نے میرے نام کو چار چاند لگانے میں کوئی کسر روا نہیں رکھی، پھر بھی "قصہِ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم"۔ چلیں ہم اپنی بیاض میں سے ایک واقعہ آپ کے گوش گزار کرتا ہوں۔
    بھلے دنوں کی بات ہے، یا شاید لوگوں کے بھلے دنوں اور میرے برے دنوں کی بات ہے۔ کسی نامعلوم نوعیت کے کام کے سلسلہ میں جھنگ جانا ہوا۔ گوجرانوالہ سے جھنگ تک پہنچنا ایک الگ داستان ہے اس کو کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔ بات شروع کرتے ہیں جھنگ سے واپس اپنے گھر ملک وال پہنچنے کے لیے سفر کی شروعات کی۔
    تو عزیزانِ من!
    عزیز سے یاد آیا عزیز میاں قوال کیا خوب فن کار تھے۔ ایسے ایسے شعر نکال کر لاتے کہ دل پر ہاتھ رکھے ہی بنتی۔ ان کی گائی ہوئی ایک غزل میں ٹکڑا لگا شعر گنگناتے ہوئے میں جھنگ کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچنے کے لیے رکشے میں سوار ہوا۔ گاڑی کا وقت رات 9 بجے کا تھا۔ اور 8:30 ہو چکے تھے۔ ایوب چوک پہنچے تو ٹریفک بری طرح سے جام تھی:takar: اور اور گاڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ ناقابل بیان انداز میں پیوست تھیں اور ان کے مالکان ایک دوسرے کے شجرہ نسب کو خراب کرنے میں مشغول تھے:no:۔ سو ہم نے بھی فکرمندانہ انداز میں ٹریفک کے نظام پر جارحانہ تبصرہ براڈکاسٹ کرنا شروع کر دیا جو رکشے میں لگے ٹیپ پر اللہ دتہ لونے والا کی گلوکاری کے ساتھ عجیب ری مکس پیش کر رہا تھا جیسے۔
    یار ایک تو یہ ٹریفک " اوہدرے بہوں ودے ایں، کوئی دسو آ سجن دا حال" بے حال کر دیتے ہیں کبھی نہیں سدھر سکتی یہ عوام "پچھاں اپنے دیس نوں ہٹ آ، مینوں آ کے لے جا نال ، اوہدرے بہوں۔۔۔!!!!"
    اس کے پہلے کہ تبصرہ چھوڑ کر میں بھی گلوکاری شروع کرتا ٹریفک نے کچھ کھسکنا شروع کیا اور دل کو کچھ ڈھارس بندھی۔ گھڑی پر نظر پڑی تو رہے سہے اوسان جاتے رہے۔ 9 بج چکے تھے اور ابھی میں ابھی اسٹیشن سے دور تھا۔ لیکن ریلوے والوں کی سابقہ کارکردگی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دل میں خیال نے جگہ بنائی کہ ریلوے والے آج بھی اپنی روایت کو شاندار طریقے سے قائم رکھتے ہوئے گاڑی کچھ نہ کچھ لیٹ کر دیں گے۔ لیکن "حسرت ہے ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گئے!دھر سے رکشہ ریلوے اسٹیشن کی حدود میں داخل ہوا اور ادھر سے ریل گاڑی نے ریلوے اسٹیشن کی حد پھلانگی۔
    سو رکشے نے نیچے اترنے کا تکلف نہیں کیا اور ڈرائیور کو ایک شانِ بےنیازی سے نیا سٹاپ بتایا اور رکشہ ادھر موڑنے کا حکم صادر فرمایا۔ جس پر ڈرائیور نے غلط انداز نظروں سے مجھے دیکھا۔جس پر ساحر لدھیانوی یاد آ گئے۔ "نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے، چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں" لیکن میں نے پہلے فقرے پر زور رکھتے ہوئے ڈرائیور سے اجبنی بننے کا ارادہ سفر مکمل ہونے تک ملتوی کر دیا۔ نئی منزل تھی اپنے کزن کا آفس، جس نے بار بار رکنے کا بولا تھا لیکن میں نے دل میں ٹھانی ہوئی تھی کہ آج ہر صورت میں گھر پہنچنا ہے۔
    جب رکشہ اپنی نئی منزل مقصود پر پہنچا اور میں کرایہ ادا کر کے رکشے سے نیچے اترا توکزن سامنے ہی براجمان تھا۔ اور مجھے دیکھتے ہی ہنسنا شروع کر دیاجیسے کہہ رہا ہو "ہُن آرا م ای؟" خیر میں نے شرمندگی کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے بہانہ بنایا کہ گاڑی میں رش بہت تھا اور مابدولت آرام دہ سفر کے عادی ہیں اس لیے واپس آ گئے۔ اب لیٹ نائٹ روانگی ہو گی۔
    اس سے پہلے کہ واپڈا والے اپنے ہونے کا احساس دلاتے ہوئے 32 کو اپنے میکے بھیجیں۔ یہاں تک کی داستان ارسال کرتے ہوئے باقی حصہ اگلی قسط ، (اگر 32نے کرم فرمائی کی تو ، ورنہ اگلی اقساط) پر چھوڑتے ہوئے اجازت کا طلبگار ہوں :khudahafiz:۔

    سفر جاری ہے۔۔۔!!!
     
    Last edited: ‏12 جنوری 2015
    زنیرہ عقیل, عمر خیام, نایاب اور مزید ایک رکن نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    واہ بلال بھائی ۔ سفر (چاہے اردو ہو یا انگریزی) کی شروعات تو بہت اچھی ہے۔ مزہ آیا :p_banana:۔ امید ہے قیام بر کزن کی روداد اور واپسی تا ملکوال کی روداد اس سے بھی زیادہ لطف انگیز ہوگی ۔ :n_Congratulations:
    32 وفا کرے نہ کرے آپ اپنی داستان ضرور مکمل کیجئے گا۔ کہیں یہ داستان بھی اُسی کی طرح :122:
     
  3. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    اف اللہ ہم تو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے
     
  4. محمدداؤدالرحمن علی
    آف لائن

    محمدداؤدالرحمن علی سپیکر

    شمولیت:
    ‏29 فروری 2012
    پیغامات:
    16,600
    موصول پسندیدگیاں:
    1,534
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    بلال بھائ
    آپ کی سفر کی رواداد
    سن کر بڑا مزا آیا
    اس کو جاری رکھیں
    مجھے آپ کی اگلی
    قسط کا شدت سے انتظار رہے گا
    آپ کا بھت بھت شکریہ
    اللہ آپ کو جزائے خیرعطافرمائے آمین
     
  5. ابو تیمور
    آف لائن

    ابو تیمور ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2012
    پیغامات:
    61,873
    موصول پسندیدگیاں:
    6,599
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    اچھا تو آپ جناب ہیں جن کی گاڑیاں اکثر چھوٹ جایا کرتی ہیں:n_Congratulations:
     
  6. ہادیہ
    آف لائن

    ہادیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2011
    پیغامات:
    17,730
    موصول پسندیدگیاں:
    136
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    واہ بلال بھائی
    سچ میں‌لطف آگیا ،بہت خوب اندازِ بیاں ہے آپ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:dilphool:
    خوش رہیں‌
     
  7. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    جواب: Suffer نامہ

    ابھی ٹایم نہیں بلال بھای پھر پڑوں گا ابھی ایک کپ چاے کا تو پینے دو
     
  8. احمد کھوکھر
    آف لائن

    احمد کھوکھر ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اگست 2008
    پیغامات:
    61,332
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    واہ بہت خوب تو آپ نے بھی ہمت کر لی اب جلدی سے اگلی پھر اس سے اگلی قسط پوسٹ کرتے جائیں
    آپ کے لکھنے کا انداز بہت اچھا ہے
     
  9. سانا
    آف لائن

    سانا ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏4 فروری 2011
    پیغامات:
    49,685
    موصول پسندیدگیاں:
    317
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    بہت خود بلال بھائی جلدی اگلی قسط لکھنا ایسا نہ ہو کے یہ سفر ادھورا ہی رہے جائے۔ آپ کی اُس بات کی طرح:139:
     
  10. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    زبردست بلال جی۔۔۔خوب اندازِ بیاں ہے ہلکا پھلکا اور دلچسپ۔۔
    پہلی قسط تو دھماکے دار تھی ۔۔اگلی قسط کب آرہی ہے [​IMG]
     
  11. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    جواب: Suffer نامہ

    آج شام کو اس کو پڑھ کر ہوسکتا ہے میں ہی اگلی قسط لگادوں دل تو نہیں لیکن کوشش کروں گا
     
  12. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    بلال بھائی سب سے پہلے تو شکر گزار ہوں کہ ربط بصورت پیغام ارسال کیا جس کی وجہ سے سہولت ہوئی اور ہم براہ راست آپ کے اس خاص سفر نامے تک پہنچنے میں‌کامیاب ہوگئے۔۔۔۔۔۔اب کے جب پڑھنے کی جسارت کرڈالی تو ایسے لگا کہ کسی ریفرنس لائبریری میں انجانے میں چلے آئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔کہ عام قاری تو ہیں مگر محقق نہیں ہیں۔۔۔۔۔کہ یہ کام ویسے بھی مشکل ہی ہوتا ہے۔۔۔۔۔مگر آپ نے اپنے صرف رکشہ میں بیٹھے بیٹھے اس قدر حوالے دیے ہیں دوسرے مضامین کے کہ ہم بھی ان علمی سپیڈ بریکروں کی ضد میں اپنے آپ کو سمجھنے لگے بلکہ کئی بار تو تصور ہی تصور میں لگا کہ شاید ابھی کمپیوٹر کے سکرین سے نگاہیں ہٹائیں گے تو آپ اور آپ کار رکشہ۔۔۔۔۔اور ریلوے سٹیشن ہمیں جانکھتے ہوئے نظر آئیں گے۔۔۔۔۔مگر کیا کریں کہ آپ لفظوں کے موتی پرو رہے تھے اور ہم موتیوں کے اس مالا کو پڑھتے ہوئے اس قدر تصور میں گم ہوگئے کہ بس باقی چیزیں بصورت لفظ اور آپ کا سراپا بصورت شفق ہمارے تصوراتی آسمان میں جھلمل کرنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔اب کے چندیائے ہوئے جب دیکھنے کی سعی کی تو خبر ملی کی آپ نے بجلی پر تمام کرتے ہوئے مزید کی خوشخبری اور انتظار کے راہوں میں ہمیں پھر سے بے منزل رواں‌کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔پڑھنے کے معاملے میں تو ہم ویسے بھی بے منزلے ہیں کہ جہاں‌کہیں کوئی چھاں نظر آجاتی ہے۔۔۔۔وہیں سستانے لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔اب کے آپ نے ہمیں اپنی طرف بلایا اور پھر بلا کے کہا کہ چلو میاں ہمیں تو بجلی صاحبہ سے ویر ہے۔۔۔۔۔سو آپ اس وقت آئیے جب پھر سے بہار آئیں اور برکھا برسے۔۔۔۔۔۔۔چھاں آئے یا گھنگھور گھٹا برسیں جب صورت قیام بن جائے ۔۔۔۔۔۔ اس وقت تک شہ راہ مطالعے پر کسی اور منزل کی طرف چلنا شروع کرو۔۔۔۔۔سو سفر جاری ہے۔۔۔۔۔اور اگلی منزل کا انتظار ہے۔۔۔۔۔شاید آپ ہی ہمت کریں اور مفاہمت کرتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں اگلی قسط کی صورت میں زیر بار مطالعہ اور شامل حال کریں۔۔۔۔کہ آپ کی مہربانیوں سے ہم فیضاب یافتہ ہیں سو پھر امید ہے۔۔۔۔۔۔کہ امید پر دنیا قائم ہے۔۔۔۔۔۔داد قبول ہو کہ پڑھنے کا لطف آگیا۔ اور ویسے بھی جب آپ جیسے صاحب مطالعہ کسی قبلہ کی طرف رخ کریں تو لفظ ایسے ہی ہونگے جو بیان کرنے کی جسارت کرسکتے ہیں۔ سو بہت خوب۔
     
  13. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    بھئی سچی بات تو یہ ہے کہ ہم اس ۔۔ Suffer نامہ۔۔ پہ کوئی تبصرہ کرنے سے گُریزاں ہیں ۔۔
    کیوں ؟
    نہیں جی یہ بتلانے والی بات نہیں ۔ مؤصوف کہیں پھر نہ گھبرا جائیں
    کیوں کہ مجھے اچھی طرح یاد پڑتا ہے کہ کہیں پہ میں نے جنابِ والا کی شاعری پہ طبع آزما ئی پہ کچھ تبصرہ کرنے کی جسارت کی تھی
    اُس کے بعد ۔۔۔ مجھ سے قسم اُٹھوا لیں جو مؤصوف کی شاعری پڑہنے کو ملی ہو
    ارشاد ہوا تھا کہ جی آپ تو نقص نکالتے ہیں
    اب آپ ہی بتائیں ہم کس منہ سے یا کی بورڈ سے یہاں کچھ رقم کریں؟
    اس لیے !
    جناب تحریر بُہت اچھی ہے
    اور پھر یہ کہوں گا کہ میری طرف سے بے فکر ہو کر لکھتے جاؤ۔

    اور ہاں
    محبوب خان جی نے بھی سہاگے میں ہی سونا ڈال دیا ہے
    اب سہاگہ کس کا اور سونا کس کا یہ سمجھنا میرا کام نہیں ۔
    کیوں کہ میرے استادِ محترم کہتے تھے کہ یار تو اکثر محاوروں کو الٹ کر دیتے ہو
    اور میں کہتا تھا سائیں جی میرے محاورے پہ بھی تو غؤر فرمائیں نا
    باقی Suffer نامہ کا انتظار رہے گا
    والسلام
     
  14. زینب
    آف لائن

    زینب ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جولائی 2011
    پیغامات:
    273
    موصول پسندیدگیاں:
    12
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    اسلام و و علیکم ۔۔کہانی تو مزے کی ہے ۔۔۔ انسان پوچھے جب نکلنا ہی لیٹ ہے تو لیٹ ہی پہنچے گے نا اب گاڑی تو انتظار کرنے سے رہی
     
  15. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    بلال بھائی ہمیشہ دیر کردیتے ہیں۔۔۔۔۔کوئی بات کرنی ہو۔۔۔یا کوئی وعدہ نبھانا ہو۔۔۔۔۔۔۔یہ سب کیوں اور کیسے کرتے ہیں۔۔۔۔کیوں کا تو نہیں معلوم ۔۔۔۔۔۔۔مگر ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ کیسے کے لیے بہت ہی زبردست دلیلوں کے دفتر حاضر خدمت کرتے ہیں اور پھر ان کی مدد سے کارپٹ بمباری کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ حاصل کرتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔
     
  16. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    جواب: Suffer نامہ

    بہت خوب



    ۔
     
  17. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    ہاہا
    واہ ملک بلال جی
    خوب لکھا بہت دلچسپ و زبردست
    اگلی قسط کا انتظار ہے جلدی کیجیئے بتی نہ چلی جائے
     
  18. زینب
    آف لائن

    زینب ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جولائی 2011
    پیغامات:
    273
    موصول پسندیدگیاں:
    12
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    محبوب خان جی لگتا یہ بلال صاحب کی پرانی عادت ہے گاڑیا ں چھوڑنا اور سوے رہنا کسی اور اٹیشن پر پہنچنا اور آنکھ کھلنا:n_great:
     
  19. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    واہ بلال چاچو ! واہ ، ایسے سفرناک قسم کے سفر کی داستانیں تو آپ کے بابت فرعون کے وقتوں سے ہی مشہور ہیں ۔
     
  20. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    پرانی عادت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس طرح تو یہ لفظ کسی اور کے استعمال کے قابل نہیں رہے گا۔۔۔۔۔۔اجی کہیے کہ "وہ بس ایسے ہی ہیں" تاکہ کسی لفظ کو مخصوص کرکے اس کے بعد کے استعمال کو جاری رکھا جاسکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوئے رہنا تو ایک ایسی کیفیت ہے کہ جس سے بلال بھائی بہت ہی کم اور مشکل سے چھٹکارہ پاتے ہیں۔۔۔۔۔مگر یہ بات بھی خوب ہے کہ جب جاگتے ہیں تو "سونے" کے قریب بھی نہیں جاتے ۔۔۔۔چاہے دن گزریں ہزار۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب دیکھیں کہ رکشہ پر بیٹھ کر اور اتر کر جو لکھا وہ ایک قسط ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو شکر کریں کہ یہ نہیں بتایا کہ رکشہ پر بیٹھے کس طرح ہیں۔۔۔۔ممکن ہے اس میں ہی کئی اقساط لکھ ڈالتے۔۔۔۔۔۔۔۔ویسے اس لڑی کو زندہ کرنے کے لیے ضروری تھا ۔۔۔۔کہ واصف بھائی اوکاڑہ جاتے اور بلال بھائی رکشہ پر بیٹھ ریل پکڑنے کی ضد کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔۔۔۔کہ "دن میں جگنو پکڑنے کی ضد کریں"۔۔۔۔۔۔یہ اس عہد کے بچوں کی معصومانہ ضد ہے۔
     
  21. معصومہ
    آف لائن

    معصومہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏2 نومبر 2011
    پیغامات:
    15,314
    موصول پسندیدگیاں:
    167
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    واہ بہت خوب۔۔۔۔۔۔۔۔
    کیا بات ہے بہت زبردست لکھا ہے آپ نے۔۔۔۔۔۔۔
    اگلی قسط کا شدت سے انتظار رہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:thnk:
     
  22. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    روداد کے پہلے حصے پر ہونے والے خوبصورت تبصرہ جات پر تبصرہ کرنے کو کسی اور نشست پر چھوڑتے ہوئے فی الحال میں آگے بڑھتا ہوں۔
    تو جناب کہاں تک پہنچے تھے ہم؟:thnk:
    ہاں یاد آیا :139:ابھی پہنچے ہی نہیں تھے راستے میں تھے۔ اب پروگرام یہ طے پایا کہ جھنگ سے واحد گاڑی جو ملک وال جاتی تھی گزر چکی ہے اس لیے اب براستہ سرگودھا ملک وال پہنچا جائے۔ سرگودھا جانے کے لیے بائی روڈ آسانی سے بس وغیرہ مل جاتی ہے۔ پہلے جھنگ سے سرگودھا کے سفر کے دورانیہ کے بارے میں معلومات لیں تو پتا چلا کہ 2 گھنٹے کا سفر ہے۔ پھر سرگودھا ریلوے انکوائری سے ملک وال کی پہلی ٹرین کا ٹائم پتا کیا تو پتا چلا 6:30 بجے نکلے گی۔ اس حساب سے سوچا کہ اگر یہاں سے3 تک نکلا جائے تو باآسانی پہلی گاڑی پکڑ سکتا ہوں۔اب 3 بجے تک کزن کے ساتھ گپیں لگائیں کھانا کھایا اور دیگر امور سے فراغت حاصل کی۔ 2:30 بجے بس سٹاپ پہنچے کزن نے ایک بڑی بس پر بٹھایا اور کھسک لیا۔ 3 بجے بس روانہ ہوئی:n_drive:۔ میرے لیے سفر کسی نشہ آور دوا سے زیادہ اثر رکھتا ہے۔ اس لیے میں نے احتیاطا کنڈیکٹر کو بول دیا کہ سرگودھا ریلوے اسٹیشن پر مجھے اٹھا دینا اگر میں سو گیا تو۔ حالانکہ اگر کی ضرورت نہیں تھی اس بات کا مجھے حق الیقین تھا اور اور آپ دوستوں کے علم الیقین میں یہ بات آ چکی ہے اور کچھ دوستوں کے عین الیقین میں بھی۔ خیر آمدم برسرِ مطلب! ادھر سے گاڑی روانہ ہوئی اور ادھر سے میں نیند نگر کے سفر پر روانہ ہو گیا۔ ایسا لگا کہ ہلکا سا جھونکا ہی آیا ہے نیند کا کہ کنڈیکٹر نے اٹھا دیا"باؤ جی ! اسٹیشن آ گیا۔" میں ہڑبڑا کر اٹھا اور کہنے ہی لگا تھا کہ "آ گیا ہے تو بٹھا کر چائے پانی پوچھو" لیکن اس سے پہلے کے میرے خیالات الفاظ کا روپ دھارتے میرا شعور بیدار ہو چکا تھا اور مجھے اندازہ ہوا کہ میں اپنے آفس میں نہیں ایک بس میں بیٹھا ہوں اور دوسری بات اسٹیشن نام کے کسی صاحب سے میری شناسائی نہیں ہے۔ میں ہونقوں کی طرح کنڈیکٹر کے منہ کی طرف دیکھنے لگا ۔ بس رکی ہوئی تھی اس سے پہلے کہ وہ مجھے کندھوں پر سوار کر کے بس سے اتارتا میں نے اسے تکلیف دینا مناسب نہ سمجھی اور بس سے نیچے اتر گیا۔
    ہلکی ہلکی روشنی پھیل چکی تھی۔ میں خراماں خراماں "اجنبی شہر کے اجنبی راستے میری تنہائی پر مسکراتے رہے" گنگناتے ہوئے ریلوے اسٹیشن کی طرف چل پڑا:113:۔ ساتھ ایک اور صاحب بھی اترے تھے وہ بھی میرے ساتھ ہو لیے۔ جن کا تعارف اتنا ہی کافی ہے کہ "وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی" اسٹیشن پر پہنچا تو ٹکٹ گھر کی راہ لی۔ اور کھڑکی پر حاضری دی۔ اور اندر سلاخوں کے پیچھے تقریبا قید کلرک سے ملک وال کا ٹکٹ طلب کیا۔ تو پتا چلا کہ گاڑی روانہ ہو چکی ہے۔ میرا دماغ گھوم گیا:208:۔ کہ 3 بجے نکلے 2 گھنٹے کا سفر تھا 6:30 بجے گاڑی کا وقت ہے۔ اس حساب سے اس وقت زیادہ سے زیادہ 4:30 ہونے چاہیے۔ کلرک نے بتایا کہ جناب 6:45 ہو چکے ہیں۔ میں پریشان!!!! یا خدا یہ کیا معاملہ ہے:doh:۔ وہ تو بھلا ہو ان صاحب کا جو میرے ساتھ گاڑی سے اترے تھے انہوں نے بتایا کہ "آپ تو پوری گدھا منڈی فروخت کر کے سوئے رہے اور راسے میں2گھنٹےسے زیادہ گاڑی خراب رہی جس کی وجہ سے کافی لیٹ ہو گیا۔" مجھے اس ہم سفر سے ہم نوائی نہ ہونے کا دکھ ہوا۔:rona:
    میں نے دل ہی دل میں ڈرائیور کو غائبانہ طور پر بے نقط سنانا شروع کر دیں:horse:، خیر سامنے بھی ہوتا تو دل میں ہی سناتا کیوں کہ ڈرائیور حدود اربعہ میں ھارون بھائی کی ڈائمنشن کا تھا اور منہ پر بے نقط سنانے سے اسے برا محسوس ہو سکتا تھا۔ جس کا نتیجہ میرے حق میں شاید نامناسب ہی نکلتا;)۔ خیر! اب پچھتائے کیا ہوت!
    رخ انور دوبارہ کھڑکی کی طرف موڑا اور کلرک سے ملک وال جانے والی اگلی ٹرین کا پوچھا ۔ جواب ملا 8:15 بجے جائے گی۔ میں نے سوچا ابھی ڈیڑھ گھنٹہ ہے۔ کیا کیا جائے۔ لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ پھر ذہن میں آیا کہ تھوڑا ریلیکس کروں اپنے آپ کو پھر سوچتا ہوں۔ اور خود کر ریلیکس کرنےکے لیے کھڑکی کے سامنے پڑے ہوئے بنچ کو اپنا تختہ مشق بنایا اور بیگ سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا تاکہ سکون سے سوچ سکوں کہ اگلا لائحہ عمل کیا اختیار کیا جائے۔ اس سوچ کے عمل کے دوران میں سوچ تو نا سکا البتہ "سوچ" کا "چ" ہضم کرتے ہوئے "سو" گیا۔ خواب میں کیا دیکھا کہ میری گاڑی نکل چکی ہے میں ایک دفعہ پھر ہڑبڑانے کے عمل میں مشغول ہو کر نیند سے بیدار ہوا اورٹام اینڈ جیری کی طرح بنچ کےارد گرد بھاگنا شروع کر دیا:eek:۔پھر سوچا کہ اگر میں ٹام ہوں تو میرے آگے جیری کیوں نہیں بھاگ رہا اور اور جیری ہوں تو پیچھے ٹام کیوں نہیں ہے۔ پھر بڑی مشکل سے اپنی اس اینٹی کلاک وائز محوری گردش سے باہر نکالا:84: اور تیر کی طرح کھڑکی پر پہنچا۔ وہی صاحب اور وہی سلاخیں موجود تھیں۔لیکن کھڑکی بند تھی۔ اندر موجود قیدی شاید گنگنا رہا ہو گا "بجھا جو روزنِ زنداں تو دل یہ سمجھا ہے ، کہ اب سحر تیرے رخ پر بکھر گئی ہو گی" میں نے قیدی کو طلوع سحر کی خبر سنانے کے لیے کھڑکی کھٹکھٹائی ۔ کھڑکی کھلی تو اسی قیدی نما کلرک چہرہ نمودار ہوا۔ اس نے روزن ِ زنداں سے میری طرف سوالیہ انداز میں دیکھا۔ میں نے فورا پیسے آگے رکھے اور ملک وال کا ٹکٹ طلب کیا تو ان صاحب نے ناگواری سے ارشاد فرمایا کہ "گاڑی کا وقت 8:15 بتایا تھا آپ کو اور اس وقت 8:30۰ ہو چکے ہیں۔ گاڑی تو روانہ ہو چکی ہے۔":rona: مجھے اس وقت سب سے پہلی بات یہ ذہن میں آئی کہ میری زندگی کا واحد خواب جو میرے بیدار ہوے سے پہلے ہی تعبیر کی شکل اختیار کر چکا وہ یہی خواب تھا جو میں نے کچھ دیر پہلے دیکھا کہ "گاڑی نکل گئی ہے اور میں اسٹیشن پر ہی موجود ہوں" خدا پوچھے اس نیند سے جس نے سسی کو پنوں سے جدا کیا اور مجھے میری گاڑی سے:rona:۔میں نے کلرک سے پھر ملک وال جانے والی اگلی گاڑی کا وقت پوچھا۔ تو الٹا اس نے سوال داغ دیا کہ آپ نے گاڑی پر جانا ہے یا ریلوے لائن پار کرنی ہے:133:۔ میں یہ بات آپ لوگوں کو نہیں بتاؤں گا کہ اس وقت مجھے بڑی شرمندگی محسوس ہوئی:121:۔ کلرک نے شاید یہ بات بنا بولے ہی محسوس کر لی مزید کچھ عزت افزائی کیے بغیر اگلی گاڑی کا وقت بتایا جوکہ 10 بجے تھا۔ اب میں کسی قسم کا رسک لینے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ سو میں نے غصے سے بنچ کی طرف دیکھا جو مجھے اس وقت پہلی رات اجڑ جانے والی سیج کی طرح لگ رہا تھا۔دماغ کے کسی گوشے میں عابدہ پروین کی دلسوز آواز گونجی۔ "لگی والیاں نُوں نیند نئیں آندی، تیری کیویں اکھ لگ گئی؟" اب اگلی سوچ جو ذہن میں آئی وہ یہ تھی کہ قسمت میں جو لکھ دیا گیا ہے اس پر شاکر ہوتے ہوئے کچھ پیٹ پوجا کی جائے۔ کیوں کہ گاڑی جانے میں ابھی ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا اور وقت بھی گزارنا تھا اس وقت ناشتہ کرنا دونوں مسائل کا حل نظر آیا یعنی پیٹ پوجا بھی ہو جائے گی اور وقت بھی گزر جائے گا۔ سو! فوجوں نے منہ اسٹیشن سے باہر موجود ہوٹلوں کی طرف موڑ لیا۔

    سفر تو ابھی جاری ہے۔۔۔۔۔۔!!!
     
    عمر خیام، نایاب اور سعدیہ نے اسے پسند کیا ہے۔
  23. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    جواب: Suffer نامہ

    بہت خوب جناب اچھی ٹاپ ہے یہاں
     
  24. احمد کھوکھر
    آف لائن

    احمد کھوکھر ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اگست 2008
    پیغامات:
    61,332
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    اچھا تو یہ وہی والا سفر نامہ ہے :139:
     
  25. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    جواب: Suffer نامہ

    جی احمد بھایی
     
  26. احمد کھوکھر
    آف لائن

    احمد کھوکھر ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اگست 2008
    پیغامات:
    61,332
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    آپ سے تو کچھ نہیں پوچھا
     
  27. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    دُہائی خُدا کی ابھی ایک قسط میں زمانہء فرعون کی خبر دے دی۔۔:p_aaa:
    یعنی کہ
    ابتدائے سفر ہے سوتا ہے کیا ؟
    آگے آگے دیکھیے روتا ہے کیا !
     
  28. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    بلال جی مزا تو تب ہے کہ یہ سفر
    گھر پہنچنے کے بعد واپس گوجرانوالہ پہنچنے تک جاری رہے تو
    کیوں کہ:139::p_banana:
     
  29. ہادیہ
    آف لائن

    ہادیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2011
    پیغامات:
    17,730
    موصول پسندیدگیاں:
    136
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    واہ بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ایک ایک جملہ مزاح سے بھرپور تھا، بلکہ مجھے ایسے لگا جیسے میں ڈاکٹر یونس بٹ کی کوئی تحریر پڑ رہی ہوں اور ساتھ ساتھ زور زور سے ہنس بھی رہی تھی۔
    اگلی قسط کا انتظار رہے گا بھائی۔
    خؤش رہیں‌
     
  30. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Suffer نامہ

    :n_great:
    :143: الکرم جی آپکے اس بیان سے لگتا ہے کہ اپ بھی اس Suffer نامے کہ چشم دید گواہوں میں سے ہیں کسی مقام پہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں