1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

4زبانیں سیکھنے اور 3 تہذیبیں رکھنے والوں کا دیس

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از ایم اے رضا, ‏17 فروری 2013۔

  1. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ میں برقی اور مطبوعہ صحافتی طبقہ کے ہمراہ شرکت کرنے کے بعد اگرچہ میرے فینز اور طلبہ اور وابستگان ڈاکٹر صاحب سے متعلقہ تمام سوالات کے جوابات کے منتظر رہتے ہیں اور مجھے اکثر استفسار کرتے رہتے ہیں ایسا ہی کچھ معاملہ پندرہ فروری کو پیش آیا طبعیت کی ناسازی کے باعث میں نے گھر جانا مناسب سمجھا اور گھر پہنچتے ہی ایک چھوٹی سی کارنر میٹنگ میرے انتظار میں تھی اور سوال پھر وہی تھے مگر دہری شھریت والے سوال کے ساتھ سپریم کورٹ کا فیصلہ جس نے بے شمار لوگوں کی دل آزاری کی تھی بھی شامل تھا۔باقی سوال سیاست اور مستقبل سے متعلقہ تھے جن کا جواب کہیں نہ کہیں دستیاب ہوتا ہے مگر ان سے مخاطب ہونے کے بعد میں نے دہری شھریت کو موضوع نہیں بنایا بلکہ انکو ایک اور الجھن سے روشناس کروایا تاکہ حقائق سے پردہ اٹھ سکے تو ۔۔۔۔۔ہم بات کرتےہیں پہلے زبان پے ہمارے ملک پاکستان میًں بسنے والے مسلمانوں اور اقلیتوں کوخواہ وہ مسیح پاکستانی ہوں یا دیگر انہیں ایک مقامی زبان سیکھنی پڑتی ہے جیسے ہم نے پنجابی سیکھ رکھی ہے چاہے آپ اسے مادری زبان کہہ لیں پھر ہم سکول جاتے ہیں تو ہمیں دوسری زبان اردو سیکھنی پڑتی ہے ہماری قومی زبان ہے اس لئے ساتھ میں ہم مسلمان ہیں اس لئے تیسری زبان عربی سیکھنی پڑتی ہے ورنہ ہمارا اسلام -ایمان-اور-احسان نامکمل ہے پھر ہمیں انگلش یا انگریزی سیکھنی پڑتی ہے کیونکہ یہ ہماری دفتری زبان ہے اور ہمارا آئین پاکستان اس زبان میں رقم ہے جسکا اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے اور اس لئے بھی کہ تمام بڑے علوم اسی زبان میں پڑھائے جاتے ہیں تو یوں ہر پاکستانی مسلمان کو 4 اور پاکستانی مسیحی یا دیگر اقلیتی کو 3 زبانیں سیکھنی پڑتی ہیں ہر صورت اس کے بغیر آپکا پاکستان میں گزارا مشکل ہے آگے چلیے پاکستان جس خطے میں حاصل کیا گیا یہ خطہ برصغیر کہلاتا ہے جس پر یونانی،عربی اور عبرانی،بدھا اور آریا،گندھارا اور انگریز تہذیب کے شدید ترین اثرات موجود ہیں جس کے اندر یہاں کی مقامی تہذیب پنپتی آ رہی اور آج تک کسی کو اعتراض ہوا کہ ہماری اصل شناخت کیا ہے؟ ہم ہیں کون،ہماری اصلیت کیا ہے؟ ،حقیقت کیا ہے؟ ،ہماری اصل ثقافت ہے؟ کیا،لٹریچر کیا ہے ۔جب ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنا تو درکنار کوئی ان سوالوں کو زیر بحث ہی نہیں لاتا تو کیا وجہ ہے کہ وہ شخص جسکی زندگی کے کم وبیش پچاس سال ہم میں گز رتے ہیں اور وہ شخص 3 یا 4 سال پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کرتا ہے پوری دنیا میں اور دھشت گردی میًں ہمارے ملک پر لگنے والے دوسرے نمبر کے ٹھپے کی مذمت کرتے ہوئے اسے کلئیر کروانے کی کوشش کرتا ہے تو ہم اس پر غیر ملکی ہونے کا ٹھپہ لگاتے ہیں اور جب اسلام اور یونانی تہذیب،اسلام اور امن،اسلام اور دھشت گردی،اسلام اور نشاط ثانیہ،اسلام اور اقتصادیات،اسلام اور تعلیم، اسلام اور فلسفہ،اسلام اور لٹریچر،اسلام اور تہذیبی تضادات،اسلام اور تصوف و احسان جیسے موضوعات ہمیں پیش آتے ہیں یا یہ موضوعات اسلام سے متعارض ہوتے ہیں تو ہم ڈاکٹر طاہر القادری کے پاس بھاگتے چلے آتے ہیں اور انہیں کی کتابوں اور لیکچرز سے ان سوالوں کے جوابات تلاش کرتے ہیں کیونکہ باقیوں کو یا تو فتوے کھا گئے یا انہوں نے مفتی کا لیبل لگا کر اور مولانا کے لیبل تلے چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹنا مناسب سمجھا الا ماشا اللہ علم اور ریسرچ جو کہ اسلام کی میراث ہے اسکی کمی باعمل ہونے کے ٹھپے لگانے لگے کہ جاہل رہو مگر باعمل؟؟؟ تو پھر
    دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
    آخر اس درد کی دوا کیا ہے
    ہم ہیں مشتاق اور وہ بے زار
    یا الہی یہ ماجرا کیا ہے
    میں بھی منہ میں زبان رکھتاہوں
    کاش پوچھو تو سہی مدعا کیا ہے۔۔(غالب)
    اور میں نے آخر میں جوسوال پر سوال میں نے اُُن پیارے مہمانوں سے عرض کیے وہی آپ سے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ہی صحیح نہیں پہچان پا رہے کہ حقیقت آشکار ہوئی تو ہماری آنکھیں چندھیا رہی ہیں ہم اپنے باپ پر یا رشتے میں کسی بڑے پر کوئی الزام بھی برداشت نہیں کرتے تو کیوں ہم ڈاکٹر طاہر القادری پر ترچھی نظر اٹھا رہے ہیں صرف اس لئے کہ پوری دنیا میں جو پاکستانی بھی ڈاکٹر طاہر القادری کا فالوور ہو جاتا ہے وہ اچھے پاکستان کے بارے میں سوچنے لگتا ہے حضرت قائد اعظم کے پاکستان کی تکمیل کی آس لگا لیتا ہے صرف اس لئے؟؟؟؟اور اسکے چاہنے والے سیلاب کے دنوں میں بیرون ممالک میں اپنی قیمتی نوکریوں کو دائو پر لگا کر پاکستانی بھائیوں کی مدد کو آ جاتے ہیں صرف اس لئے ہم کب سیاسی اور سماجی طور پر بالغ ہوں گےاور ہوش کے ناخن لیں گےکہ
    میں نےمٹی کے خدائوں سے بغاوت کی ہے
    میں ہوں سقر اط مجھے ز ہر پلا یا جائے
    انکے حملوں کا قرینہ ہی جد ا ہے اب کے
    کیسے بستی کو لٹیر وں سے بچا یا جائے (رضا)
     
    ناصر إقبال نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں