1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

20 مارچ 1973 کی ڈائری کا صفحہ اور انقلاب

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏15 اپریل 2014۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,154
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ۔
    معلومات کی کمی کے باعث عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ وہ محض ایک "مولانا" ہیں جو پہلے کچھ عرصہ سیاست میں ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد اب اچانک سیاسی موقع دیکھ کر انقلاب کا نعرہ لگا کر میدان میں کود پڑے ہیں۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
    ڈاکٹر طاہرالقادری ایک کثیر الجہتی multi-dimentional شخصیت ہیں۔ وہ اللہ پاک کی توفیق سے بیک وقت ایک مفکر، ایک استاد، ایک مصنف، ایک مقرر، ایک محقق، ایک عالمِ دین، ایک صوفی، ایک معیشت دان، ایک محدث، ایک مفسر، ایک سیاستدان، ایک منتظم اور ایک مصلح ہیں۔
    مفکر ایسا کہ لاکھوں لوگوں کو دین اسلام کی امن پسند انقلابی تعلیمات سے روشناس کروایا۔
    استاد ایسا کہ ہزاروں قانون دان اور درجنوں پی ایچ ڈی ڈاکٹرز انکے شاگردوں میں ہیں۔
    مصنف ایسا کہ 1000 ایک ہزار سے زائد اردو ۔انگریزی اور عربی کتب کے مصنف ۔ جن میں سے تقریبا 500 کے قریب شائع ہوچکی ہیں۔
    مقرر ایسا کہ اردو، انگریزی ، عربی زبانی میں یکساں روانی کے ساتھ 6000 ۔۔ چھ ہزار سے زائد موضوعات پر خطابات کرچکے ہیں۔
    محقق ایسا کہ تالیفِ احادیث اور جرح و تعدیل ِ حدیث میں اردو زبان میں وہ کام کردکھایا جو پچھلی 3 صدیوں سے نہ ہوا تھا۔ اور جسکی تحقیقی تصانیف (دہشت گردی کے خلاف فتوی اور منہاج السوی وغیرہ ) جامعہ الازھرمصر، جامعہ المستنصریہ عراق اور امریکہ سمیت کئی یونیورسٹیزمیں شاملِ نصاب ہیں ۔
    عالمِ دین ایسا کہ عرب و عجم کی دنیا جس کی بات کو ایک " سند " کا درجہ دیتی ہے اور اپنے پرائے سبھی تسلیم کرنے پر مجبور۔
    صوفی ایسا کہ اللہ و رسول ص کی محبت میں ایک شعر سن لے تو آنکھیں نم ہوجائیں اور دنیا سے بےرغبتی ایسی کہ اپنی 32 سالہ دینی خدمت کے عوض کبھی ایک روپیہ کا جائز فائدہ بھی نہ لیا۔
    معیشت دان ایسا کہ 1994 میں سود سے پاک اسلامی بنکاری نظام پیش کیا جسے آج تک چیلنج نہیں کیا جاسکا۔اور اسلامی معاشیات پر جس کی کتابیں ملائشیا کے ڈاکٹر محاضیر محمد خود اپنے ملک کی معاشی پالیسیوں کی رہنمائی کے لیے اپنی لائبریری میں رکھتے ہوں۔
    سیاستدان ایسا بااصول کہ 2004 میں پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں محض اصولوں کی وجہ سے پہلا استعفی دیا۔ پاکستانی عوام کی درست سمت میں سیاسی رہنمائی کرکے ایسا بہترین فریضہ سرانجام دیا کہ عمران خان، ایم کیو ایم، جنرل مشرف سمیت درجنوں صحافی و دانشواران کہنے پر مجبور ہوگئے کہ "ڈاکٹر طاہرالقادر ی ٹھیک کہتے ہیں"
    منتظم ایسا کہ تن تنہا محض 30 سال میں دنیا بھر کے 90 ممالک میں تنظیمی نیٹ ورک، 40 ممالک میں اسلامی سنٹرز، لائبریریاں ، پاکستان بھر میں 630 سے زائد سکولز، یونیورسٹی ، بیسیوں ایمبولینس ، طبی امدادی کیمپ اور دنیا بھر میں دکھی انسانیت کی فلاح و بہبود کا ایسا خود کار نظام بنا ڈالا کہ پورا نظام خود بخود کامیابی سے چل رہا ہے۔
    مصلح ایسا کہ ان سب کاوشوں کا مقصد اپنے کسی ذاتی مفاد کی بجائے "اصلاحِ احوالِ امتِ مسلمہ " ہے۔
    اور بحمداللہ ان سب سے بڑھ کر وہ اللہ کریم کے عاجز بندے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے غلام ہیں جو نہ صرف خود محبتِ رسول ص کی دولت سے سرشار ہیں بلکہ دنیا میں لاکھوں دلوں میں بھی اس نور ِ محبت کے چراغ جلا چکے ہیں۔
    اب آئیے ڈاکٹرطاہرالقادری کی ذاتی ڈائری کا یہ ورق دیکھتے ہیں جو کہ 20 مارچ 1973 کا ہے جب وہ شاید پنجاب یونیورسٹی میں ماسٹرز کررہے تھے۔
    یہ لکھائی خود ڈاکٹر طاہرالقادری کی ہے۔ تحریر کے الفاظ دیکھیے کہ ان کی انقلابی فکر کس قدر واضح تھی ۔ ڈاکٹرطاہرالقادری بتدریج انقلاب کی منزل کی طرف قدم بقدم بڑھ رہے ہیں۔


    diary.jpg

    اور ڈائری کے الفاظ کے نیچے دیکھیے۔ صرف "پاکستان میں انقلاب" انکی آخری منزل نہیں بلکہ پاکستان کو انقلاب یافتہ اور ترقی کی راہ پر ڈال چکنے کے بعد انکی منزل پوری امتِ مسلمہ کو متحد کرکے ایک " اسلامی بلاک یا اسلامک کامن ویلتھ" کی طرز پر ایک یونین بنانا شامل ہے۔
    ڈاکٹرطاہرالقادری کے کینڈا شفٹ ہونے میں دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ چونکہ وہ محض سیاستدان نہیں۔ بلکہ ایک مصلح، ایک محقق اور ایک محدث و مصنف بھی ہیں۔ سو اللہ تعالی نے انہیں علم و حکمت کا جو خذانہ عطا کیا ہے وہ چاہتے تھے کہ اپنی اس زندگی کے اندر اندر اسے کتابی شکل میں مستقبل کی نسلوں کے لیے منتقل کرجاؤں یہ کام پاکستان میں 1991 سے لے کر 2004 تک پوری کوشش کے باوجود ممکن نہ ہوسکا۔ کیونکہ پاکستان میں تنظیمی مصروفیات، ملاقاتیں، تقریریں۔ جلسے جلوس اور میڈیا وغیرہ اس غیر معمولی یکسوئی کی راہ میں رکاوٹ تھے جو ایسے تحقیقی کام کے لیے درکار ہوتی ہے۔ سو ایک خبر کے مطابق انہوں نے پہلے سعودی حکومت کو چند سال کے لیے مستقل رہائش کی اجازت کی درخواست دی تاکہ وہ مدینہ طیبہ وغیرہ میں رہ کر یہ ریسرچ ورک مکمل کرسکیں مگر انہیں بوجوہ ویزہ یا اجازت نہ دی گئی ۔ پھر اسی ریسرچ سکالر ز کیٹگری میں امیگریشن لے کر وہ کینڈا منتقل ہوگئے جس کی آئینِ پاکستان اجازت دیتا ہے۔
    بحمداللہ تعالی وہ 30 ہزار سے زائد احادیث پر کم و بیش 18 ضخیم جلدیں تیار کرچکنے اور دنیا بھر میں اسلام کا پیغام امن عام کرنے کے ساتھ ساتھ اب پاکستان کی عوام کو عزت و وقار اور خوشحالی کی زندگی کے لیے جدوجہد کے لیے مستعد ہوچکے ہیں۔ جس میں وہ اکیلے نہیں بلکہ پاکستان کے طول وعرض کے چپے چپے سے انکے لاکھوں جانثار ورکر اور کروڑوں محب وطن عوام انکے ساتھ ہیں۔
    کروڑوں محب وطن عوام کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ انقلاب کی منزل صرف گھروں میں بیٹھ کر ڈاکٹر طاہرالقادری یا کسی نیک بندے کو دعائیں دینے سے حاصل ہوجائے گی۔ حالانکہ یہ قانونِ قدرت نہیں ہے۔ روٹی سامنے بھی رکھی ہو تو محض دعا سے منہ میں نہیں جاتی بلکہ ہاتھ سے توڑ کر نوالہ منہ میں ڈالنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ہر منزل کے حصول کے لیے عملی طور پر کچھ نہ کچھ تگ و دو لازم ہے۔ پچھلے لانگ مارچ میں بھی قوم نے گھروں میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر دعائیں تو بہت دیں لیکن عملی طور پر سڑکوں پر نکلنے والوں میں بھاری اکثریت ڈاکٹرطاہرالقادری کے جانثار کارکنان کی تھی ۔ اگر اس وقت بھی چند لاکھ پاکستانی عملا سڑکوں پر نکل آتے تو نقشہ کچھ اور ہوتا۔
    لیکن اب کی بار ڈاکٹر طاہرالقادری کے ورکر پاکستان میں ڈور ٹو ڈور مہم کے ذریعے لاکھوں لوگ مزید تیار کررہے ہیں جو انقلابی تحریک کے مرحلے پر انکے ہمراہ شانہ بشانہ سڑکوں پر کھڑے نظر آئیں گے۔ ا س لیے اللہ پاک کی بارگاہ سے امید واثق ہے کہ اگر عوام اس گلے سڑے بدبودار نظامِ سیاست سے نجات چاہتے ہوئے عملی طور پر باہر نکل آتے ہیں تو چند دنوں کے اندر اندر ایک پرامن انقلاب کا دروازہ کھل سکتا ہے۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں