1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

1906 سے 1948: طلوعِ پاکستان

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏13 ستمبر 2019۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    23 مارچ 1940: سچائی کی تحریک
    [​IMG]
    قائد اعظم منٹو پارک میں خطاب کرتے ہوئے، اس موقع پر نواب شاہنواز خان ممدوت اور اے کے فضل حق بھی نظر آرہے ہیں—فوٹو: نیشنل آرکائیو اسلام آباد


    قائد اعظم محمد علی جناح نے 22 مارچ 1940 کو لاہور کے منٹو پارک میں عوام کے جم غفیر سے خطاب کیا، مسلم لیگ کے اس تین روزہ کنونشن میں ’قرارداد پاکستان‘ متفقہ طور پر منظور کی گئی۔

    اوپر دی گئی تصویر میں قائد اعظم کے خطاب کے دوران سب سے پہلے کھڑے ہوئے چیئرمین پنجاب ریسیپشن کمیٹی نواب شاہنواز خان ممدوت اور جھنڈے کے قریب کھڑے ہوئے بنگال کے وزیر اعلیٰ اور شیر بنگال عبدالکسیم (اے کے) فضل حق، جن کا ساتھ اس قرارداد میں اہم ثابت ہوا۔

    [​IMG]
    سرظفراللہ خان، مولانا ظفر علی خان، مولانا عبدالغفور ہزاروی، حاجی عبداللہ ہارون اور قاضی عیسیٰ—فوٹو: سیفیلڈ آرکائیو/ڈان وائٹ اسٹار


    اس تصویر کے بائیں جانب پہلے نمبر پر موجود سر ظفراللہ خان نے ’قرارداد پاکستان‘ کا اصل ڈرافٹ تیار کیا تھا، ڈرافٹ پر مسئلہ اُس وقت پیدا ہوا جب انہوں نے اسے وائسرائے لارڈ لنلتھگو کی خدمت میں یادگار کے طور پر پیش کیا، مگر دوسری جانب لاہور کی ورکنگ کمیٹی نے اس میں ترامیم کردیں۔

    تصویر کے بائیں جانب دوسرے نمبر پر ہندوستان کی شمال مغربی ریاست پنجاب کے مولانا ظفر علی خان ہیں، جنہوں نے اس قرارداد کی حمایت کی۔

    اس کے بعد نارتھ ویسٹ فرنٹیئر پروونس (این ڈبلیو ایف پی) سابقہ صوبہ سرحد اور حالیہ خیبرپختونخوا کے مولانا عبدالغفور ہزاروی، اس کے بعد سندھ کے حاجی عبداللہ ہارون اور آخر میں بلوچستان کے قاضی عیسیٰ ہیں۔

    [​IMG]
    نوابزادہ لیاقت علی خان قرارداد لاہور کا جائزہ لیتے ہوئے—فوٹو:لاہور میوزیم


    قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کی یہ بات کہ قرارداد لاہور کو مسلم لیگ اتر پردیش کے رہنما اور قانون ساز چوہدری خلیق الزماں نے پیش کیا، آگ کو ہوا دینے کے برابر ہے، کیوں کہ انہوں نے دوسرے شخص کی حیثیت سے قرارداد کو پیش کیا۔

    اس قرار داد کو جلسے میں متفقہ طور پر منظور کرنے کے بعد اعلان کیا گیا کہ’ کوئی بھی قانونی منصوبہ اُس وقت تک قابل قبول اور قابل عمل نہیں ہوگا، جب تک مسلمانوں کو جغرافیائی اور جمہوری طریقے سے اکثریت والے علاقے نہیں دیئے جاتے، جن کی علاقائی تشکیل ناگزیر بن چکی ہے‘۔

    اب پاکستان کی تشکیل سچائی اور جدوجہد کی تحریک بن چکی تھی۔
     
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سندھ 1938: یادگار کامیابی کے بعد آرام
    [​IMG]
    قائد اعظم اور میاں ممتاز دولتانہ حاجی عبداللہ ہارون کے ساتھ سیفیلڈ ہاؤس میں گفتگو کرتے ہوئے—


    حاجی عبداللہ ہارون مسلم لیگ کی کراچی میں ہونے والی ایک کانفرنس میں تھکاوٹ کے بعد گھر میں آرام کر رہے تھے، اس دوران قائد اعظم محمد علی جناح اور میاں ممتاز دولتانہ ان سے سندھ میں پہلی آل انڈیا مسلم لیگ حکومت کی بحالی سے متعلق تبادلہ خیال کرنے پہنچے، جو عبداللہ ہارون کی سربراہی میں بننا تھی۔

    قائد اعظم کو ہندو-مسلم سفیر کی حیثیت بھی حاصل تھی، وہ لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کے 4 سال گزارنے کے بعد 1934 میں وطن لوٹے اور مسلم لیگ کے صدر کے طور پر فرائض انجام دیے۔

    قائد اعظم کے وطن واپسی کے پہلے تین سال کے دوران ہی انہوں نے مستقبل کے پاکستان کے علاقوں کے حوالے سے ذہن بنالیا تھا (اگرچہ ان کے ذہن میں پاکستان سے متعلق ناقابل اعتماد خیال تھا)۔

    خصوصی طور پر وہ سندھ میں یونین طرز کے اتحاد کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے، جو برطانوی سرکار کی مداخلت کی وجہ سے ہوا تھا، پھر اس کو شیخ عبدالمجید کی ایک قرارداد سے ختم کردیا گیا، یہ قرارداد کراچی کانفرنس نے منظور کی، اس کانفرنس میں یہ بھی کہا گیا کہ مسلم لیگ ایک مکمل آزاد اور خودمختار مسلم ریاست کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

    قائد اعظم کی آزاد مسلم ریاست کی جدوجہد کے لیے یہ موقع پہلا اہم قدم ثابت ہوا۔

    محض 4 سال بعد حاجی عبداللہ ہارون 1942 میں چل بسے، ان کی وفات پر قائد اعظم نے کہا’ ہندوستانی مسلمان اور خاص طور پر سندھ کے لوگ ایک ایسے لیڈر سے محروم ہوگئے، جو ان کے لیے سچائی اور نیک نیتی سے کوشاں تھا‘۔

    محمد علی جناح نے مزید کہا کہ 'میں نے ایک دوست، ایک ساتھی کھودیا، ان کی وفات سے بہت بڑا نقصان ہوا ہے'۔

    نوابزادہ لیاقت علی خان نے ان کی وفات پر کہا کہ’ وہ مسلم لیگ کا ستون تھے، مخلص لیڈرز میں سے ایک تھے، وہ ایک محب وطن پاکستانی تھے، ان کی وفات سے ہندوستانی مسلمانوں اور خصوصی طور پر سندھ کے عوام کو نقصان پہنچے گا‘۔
     
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    لندن1931: ایک خودساختہ جلاوطنی
    [​IMG]
    محمد علی جناح اپنی بہن فاطمہ اور بیٹی دینا کے ہمراہ — تصویر : بشکریہ نیشنل آرکائیو اسلام آباد


    لندن میں گول میز کانفرنسیں بے نتیجہ ختم ہو گئیں، اس دوران محمد علی جناح لندن میں ہی رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں جہاں پرائیوی کونسل (برطانیہ اور دولتِ مشترکہ کی اعلیٰ ترین عدلیہ) کے وکیل کے طور پر ان کی زبردست پریکٹس قائم ہے، ان کے چیمبر کنگز بینچ واک پر قائم ہیں۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت انڈین نیشنل کانگرس کی صورت میں ہندو مسلم اتحاد کے پلیٹ فارم کی ناکامی پر غور کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔ بالآخر 1934 میں وہ ہندوستان واپس لوٹ کر آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ وہاں سے وہ بطور قائدِ اعظم، ان اقدامات کا ایک سلسلہ شروع کرتے ہیں کہ جو صرف 13 سال کی ریکارڈ مدت میں پاکستان کے قیام پر منتج ہوں گے۔

    [​IMG]
    رتی جناح—تصویر : بشکریہ نیشنل آرکائیو اسلام آباد


    رتی جناح پارسی معزز سر ڈنشا پیٹٹ کی صاحبزادی ہیں۔ خاندان کی بھرپور مخالفت کے باوجود وہ 13 سال کی عمر میں قائدِ اعظم سے شادی کرلیتی ہیں۔ یہ جوڑا بمبئی میں ساؤتھ کورٹ مینشن میں رہتا ہے۔ رتی اور محمد علی جناح گلیمر سے بھرپور جوڑا ہیں۔ رتی ریشمی لباس میں بے انتہا خوبصورت دکھائی دیتی ہیں۔ ان کا ہیئر اسٹائل مخصوص ہے جس کی سجاوٹ وہ تازہ پھولوں یا پھر ہیرے، روبی اور زمرد جڑے ہیڈ بینڈز سے کرتی ہیں۔

    یہ جوڑا اپنی شادی کے ابتدائی سالوں میں خوش رہتا ہے، مگر 1922 کے وسط تک محمد علی جناح کی بڑھتی ہوئی سیاسی سرگرمیوں، کام کے طویل اوقات کار اور سفر کی کثرت کی وجہ سے رتی تنہائی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ جناح 20 فروری 1929 کو دہلی میں ہوتے ہیں جب انہیں فون پر بتایا جاتا ہے کہ رتی شدید بیمار ہیں۔

    ایک قریبی دوست کے مطابق قائد اعظم کہتے ہیں: "تم جانتے ہو کس کا فون تھا؟ میرے سسر کا۔ ہماری شادی کے بعد آج پہلی بار ہم نے بات کی ہے"۔

    جو بات محمد علی جناح نہیں جانتے، وہ یہ کہ رتی وفات پا چکی ہیں۔ ان کی آخری رسومات 22 فروری 1929 کو بمبئی کے مسلم قبرستان میں ادا کی جاتی ہیں۔

    رتی کے قریبی دوست کانجی دوارکداس کے مطابق "جنازہ ایک تکلیف دہ حد تک سست رو رسم تھی۔ جناح پانچ گھنٹے تک خاموش بیٹھے رہے"۔ پھر جب رتی کو قبر میں اتارا گیا، تو قائد اعظم مٹی کی پہلی مٹھی ڈالتے ہیں۔ پھر اچانک وہ جذبات پر قابو کھو بیٹھتے ہیں اور بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے ہیں۔ ایک اور قریبی دوست ایم سی چھاگلہ کے مطابق، "ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ یہ واحد وقت تھا جب میں نے جناح کو بشری کمزوری کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا" ۔

    [​IMG]
    محمد علی جناح اور دینا لندن کے علاقے ہیمپسٹیڈ کے ویسٹ ہیتھ روڈ پر واقع اپنے گھر کے باغ میں اپنے ڈوبرمین اور اسکاٹش ٹیریئر کتوں کے ساتھ—تصویر : بشکریہ نیشنل آرکائیو اسلام آباد
     
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    1931: خلافت تحریک کی آگ بجھ گئی
    [​IMG]
    تصویر : بشکریہ محمد علی جوہر فیملی، ڈان/وائٹ اسٹار آرکائیوز


    مولانا محمد علی جوہر (اوپر بائیں جانب) 1919 میں اپنے ترکی کے دورے کے دوران ترک لباس میں ملبوس ہیں۔ ترکی میں انڈین مسلم میڈیکل مشن کے سربراہ ڈاکٹر انصاری ان کے بائیں جانب کھڑے ہیں۔

    خلافت تحریک (1922-1919) کے دوران ریاست رام پور سے تعلق رکھنے والے علی برادران کو خلافت تحریک میں مرکزی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے، اس کٹھالی کی طرح جس میں ایک علیحدہ جنوبی ایشیا کی مسلم شناخت جنم لیتی ہے۔

    مولانا محمد علی جوہر اپنا پہلا نقش پہلی جنگِ عظیم کے اختتام پر اُس وقت چھوڑتے ہیں جب اتحادی افواج سلطنتِ عثمانیہ پر معاہدہ سیوریز کے تحت قبضہ کر لیتی ہیں، ترک قوم پرست اس معاہدے کو مسترد کر دیتے ہیں جبکہ مصطفیٰ کمال اتاترک کی زیرِ سربراہی گرینڈ نیشنل اسمبلی برسرِ اقتدار سلطان محمود چہارم کی حکمرانی کی مذمت کرتے ہیں۔

    جب یہ واقعات وقوع پذیر ہو رہے ہوتے ہیں تو مولانا محمد علی جوہر اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی ہندوستان میں ایک تحریک کا آغاز کر دیتے ہیں تاکہ مسلمانوں میں سیاسی اتحاد بیدار کیا جائے اور برطانیہ پر سلطنتِ عثمانیہ کی حفاظت کے لیے دباؤ ڈالا جائے، یہ تحریک آگے چل کر خلافت تحریک کی بنیاد بنتی ہے، مگر انڈین نیشنل کانگریس سے اتحاد اور سول نافرمانی کی ملک گیر اور پرامن تحریک کے باوجود خلافت تحریک کمزور پڑ جاتی ہے کیوں کہ ہندوستانی مسلمان کانگریس، خلافت تحریک اور مسلم لیگ کے درمیان کام کرنے کے دوران تقسیم ہیں، اختتام 1924 کو ہوتا ہے جب اتاترک خلافت کا خاتمہ کر دیتے ہیں، علی برادران مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لیتے ہیں اور پھر تحریکِ پاکستان میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    خلافت تحریک جنوبی ایشیاء میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کی جانب ایک اہم قدم ہے۔

    [​IMG]
    تصویر : بشکریہ لاہور میوزیم آرکائیوز


    مولانا شوکت علی (نیچے انتہائی دائیں جانب) جنوری 1931 میں مسجدِ اقصیٰ، یروشلم میں اپنے بھائی کی قبر پر کھڑے ہیں، مولانا محمد علی جوہر کی بار بار قید اور شدید ذیابیطس نے ان کی صحت پر نہایت برے اثرات مرتب کیے تھے، لندن میں جنوری 1931 میں گول میز کانفرنس میں شرکت کے دوران وہ انتقال کر گئے، حکومتِ برطانیہ کے لیے ان کے آخری الفاظ یہ ہیں: "اگر ایک غیر ملک آزاد ہے، تو میں وہاں مرنا پسند کروں گا، اگر آپ ہمیں ہندوستان میں آزادی نہیں دیتے تو آپ کو مجھے یہاں ایک قبر دینی ہوگی"۔
     
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    الہ آباد 1930: یادگار خطاب
    [​IMG]
    فوٹو ڈان : وائٹ اسٹار آرکائیوز


    سر محمد اقبال نے 30 دسمبر 1930 کو الہ آباد میں ہونے والے مسلم لیگ کے سیشن میں شرکت کی، جہاں انہوں نے تاریخی الہ آباد خطاب کیا۔

    گاڑی میں ان کے دائیں جانب بیٹھے حاجی عبداللہ ہارون ہیں، ان کی گاڑی کے ساتھ کھڑے نوجوان یوسف ہارون ہیں، گاڑی کے بائیں جانب شروع میں کھڑے ہوئے شاعر حفیظ جالندھری ہیں، جنہوں نے بعد ازاں 18 برس بعد پاکستان کا قومی ترانہ لکھا۔

    سر محمد اقبال کا خطاب ہندوستان میں موجود مسلم اکثریتی ریاستوں کی تقسیم کے بجائے ان کی آزادی کا اظہار کرتا ہے۔

    انہوں نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ برصغیر کا امن مسلمانوں کو آزاد ریاستوں کے تحت ایک وفاقی طرز کی ریاست دینے میں ہے اور ایسا ہی نظام ہندو اکثریت والی ریاستوں کے لیے بھی ہو۔

    [​IMG]
    —فوٹو: اقبال اکیڈمی


    محمد اقبال نے مسلم اکثریت والی شمال مغربی ہندوستانی ریاستوں کی بھی آزادی کی وضاحت کی، وہ ہی پہلے سیاستدان ہیں، جنہوں نے دو قومی نظریہ دیا، جس میں انہوں نے کہا کہ ’مسلمان ایک مختلف قوم ہیں، اس لیے انہیں الگ خود مختار اور ہندوستان کے دیگر مذاہب سے الگ ملک دینا ہی ان کا حق ہے۔

    سر محمد اقبال تاریخی مسجد قرطبہ بھی گئے، جہاں انہوں نے نماز ادا کی، یہ مسجد 1236 میں عیسائی حکمران کارڈوبا کے دور اقتدار میں مسجد سے رومن کیتھولک چرچ میں تبدیل ہوگئی۔

    8 بندوں پر مشتمل ان کی شاہکار نظم 'مسجدِ قرطبہ' اس مسجد میں گزارے گئے وقت سے متاثر ہو کر لکھی گئی۔

    دیدۂ انجم میں ہے تیری زمیں آسماں
    آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
     
  6. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تقسیم کی جانب: آزادی کا قافلہ
    [​IMG]


    اس تصویر میں 1906 سے 1948 تک کے واقعات زیر غور ہیں جو ایک ایسا چونکا دینے والا وقت ہے جب آزادی کی تحریکیں سامنے آئیں جنہوں نے ایک علیحدہ مسلم ریاست کی تشکیل کا مقصد حاصل کر لیا۔

    درج ذیل تصویر جو کہ اس مدت کے اختتامی دور میں لی گئی اس میں 1906 میں قائم ہونے والی آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام، مسلمانوں کی شناخت کے لیے بڑھتی ہوئی جدوجہد، قائد اعظم کا ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بطور تنہا ترجمان سامنے آنا، پاکستان کی تخلیق کو راستے سے ہٹانے والے حربوں کے ساتھ مذاکرات کرنا، مسلمانوں کی آزادی کا حصول، پاکستان کو مضبوط بنانے کا عزم اور ان کی عظمت کے نچوڑ کے ساتھ ختم ہونے والی یادوں کو روشن کرتی ہے جو آج پاکستان کے وجود کا سبب ہے۔
     
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ڈھاکا سے آغاز 1906: آل انڈیا مسلم لیگ کی تشکیل
    [​IMG]
    تصویر ڈان/وائٹ اسٹار آرکائیوز


    نواب وقار الملک ریاست حیدرآباد کی ایک ممتاز سیاسی شخصیت تھے، انہوں نے ہی ڈھاکا میں ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے سب سے پہلے اجلاس کا افتتاح کیا۔

    [​IMG]
    تصویر : ڈان / وائٹ اسٹار آرکائیوز


    ڈھاکا کے نواب سلیم اللہ جو ایک قابل عزت تعلیم دان، قانون ساز اور تقسیم بنگال کی تحریک میں سب سے متحرک رہنے والی شخصیت تھے، ڈھاکا میں منعقدہ آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اس اجلاس کی میزبانی کرتے ہیں جو آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد کا باعث بنتا ہے۔

    [​IMG]
    تصویر ڈان/وائٹ اسٹار آرکائیوز


    سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم (سب سے اوپر والی صف میں بائیں جانب تیسرے نمبر پر)، جو دنیا بھر میں پھیلی اسماعیلی کمیونٹی کے روحانی سربراہ ہیں، انھوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام میں تشکیلی کردار ادا کیا، انھوں نے 1907 سے لے کر 1913 تک آل انڈیا مسلم لیگ کے بطور پہلے صدر اپنی خدمات سر انجام دیں بعد ازاں انھوں نے لیگ آف نیشنز کی صدارت کا عہدہ بھی سنبھالا۔

    [​IMG]
    تصویر ڈان/وائٹ اسٹار آرکائیوز


    [​IMG]
    تصویر ڈان/وائٹ اسٹار آرکائیوز


    آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی ممبران 30 دسمبر 1906 کو شاہ باغ کی بارہ دری کے مقام پر موجود ہیں، آل انڈیا مسلم لیگ علی گڑھ کے سر سید احمد خان کے وژن سے ظہور پذیر ہوئی جبکہ آگے چل کر 1947 میں تشکیل پاکستان کا باعث بنی۔
     
  8. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اس قوم کو شمشير کي حاجت نہيں رہتي

    ہو جس کے جوانوں کي خودي صورت فولاد

    ناچيز جہان مہ و پرويں ترے آگے

    وہ عالم مجبور ہے ، تو عالم آزاد

    موجوں کي تپش کيا ہے ، فقط ذوق طلب ہے

    پنہاں جو صدف ميں ہے ، وہ دولت ہے خدا داد

    شاہيں کبھي پرواز سے تھک کر نہيں گرتا

    پر دم ہے اگر تو تو نہيں خطرہ افتاد
     

اس صفحے کو مشتہر کریں