1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

… سوچتے ہیں کیا لکھیں

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از محبوب خان, ‏18 مارچ 2011۔

  1. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    اسے جانا ہی تھا کہ ابھی پاکستان کے پاسبانوں کے پیکر خاکی میں جاں پیدا ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ احتیاج کی زنجیروں میں جکڑے اور حمیت کو جنس بازار بنا دینے والے معاشروں میں یہی کچھ ہوا کرتا ہے۔ نہ ہمارے ہاں صاحبان استغاثہ میں دم خم، نہ ہمارے ارباب اختیار و اقتدار کے لہو میں کوئی تمازت، نہ ہمارے قانون کے دست و بازو میں کوئی سکت، نہ ہمارے نظام انصاف کے جسم وجاں میں وہ توانائی، نہ ہمارے عوام کے سروں میں کٹ مرنے کا جنوں اور نہ خون کا دعویٰ کرنے والے مدعیوں کے دل اتنے غنی کہ وہ کروڑوں کی پیشکش کو نوک پا پہ رکھتے ہوئے خون کے بدلے خون کا تقاضا کریں۔ ایسے میں وہی کچھ ہونا تھا جو ہوا۔
    کوئی ہفتہ بھر قبل میں نے امریکی سی۔آئی۔اے اور پاکستانی آئی۔ایس۔آئی کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کا ذکر کیا تھا۔ بلاشبہ آئی۔ایس۔آئی کا نقطہ نظر بڑی حد تک درست تھا جو اپنی حدوں سے بہت آگے جاکر امریکہ کی بھڑکائی ہوئی جنگ میں نہایت اہم کردار ادا کررہی ہے لیکن اس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر، امریکی مفادات کی محافظ بن کے رہ جائے۔ ریمنڈ ڈیوس کے واقعے کے بعد یہ راز بھی کھلا کہ بہت سے امریکی اہلکار، دراصل سی۔آئی۔اے کے ایجنٹ ہیں جو پاکستان میں اپنے اہداف و مقاصد کے لئے سرگرم ہیں۔ آئی۔ایس۔آئی نے بجاطور پر سی۔آئی۔اے کو آڑے ہاتھوں لیا اور باہمی تعاون کے نئے اصول وضع کرنے کے لئے کہا۔ اس ضمن میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کی امریکی عسکری قیادت سے بھی اہم ملاقاتیں ہوئیں۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ مرکزی موضوع بن گیا۔ پاکستانی فوج، اپنے قومی مفادات کی نگہبانی کے لئے، پاکستان بھر میں امریکی ایجنٹوں کی سرگرمیوں کو محدود کرنا چاہتی تھی، سی۔آئی۔اے کی رعونت کی کلغی جھکانا چاہتی تھی، نام نہاد وار آن ٹیرر کے حوالے سے کھیل کے نئے ضابطے تراشنا چاہتی تھی اور دباؤمیں آئے ہوئے امریکیوں سے بہت سی ایسی رعایتیں کشید کرنا چاہتی تھی جو عام حالات میں ممکن نہ تھیں۔ امریکہ ایک دلدل میں پھنس چکا تھا۔ اسے ہر قیمت پر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی مطلوب تھی۔ اس کا یہ واویلا بے کار گیا تھا کہ ڈیوس کو سفارتی استثنا حاصل ہے۔ مقدمہ بن چکا تھا اور معاملہ عدالت کے سامنے آچکا تھا۔ واحد صورت یہی رہ گئی تھی کہ پاکستان کے شرعی قانون کے مطابق دو مقتولین کے ورثاء دیت قبول کرتے ہوئے ریمنڈ کو معاف کردیں۔ پاکستان کی سیاسی صورت حال اور فیصلہ سازی کے عمل سے آگاہ امریکیوں کو بخوبی معلوم تھا کہ جب تک فوج نہیں چاہے گی، کوٹ لکھپت جیل کا پھاٹک نہیں کھل سکے گا۔ سو دونوں ممالک کی فوجی قیادتوں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان تین ہفتوں پہ محیط مذاکرات کے درمیان وہ کچھ طے پاگیا جس کا عملی اظہار 16/مارچ کی سہ پہر کو ہوا۔
    اسی تناظر میں، میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ فوج اور آئی۔آیس۔آئی۔ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے قضیے میں ملوث نہ ہوں لیکن شاید یہ ممکن نہ تھا۔ اب معتبر امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی ہے کہ تین ہفتوں پر محیط مذاکرات کے نتیجے میں تمام معاملات اپنی جزئیات سمیت طے پا گئے تھے۔ ورثاء کل غائب نہیں ہوئے۔ اخباری رپورٹس بتا رہی ہیں کہ وہ سارے یا ان کے اہم نمائندے اسلام آباد لائے جاچکے تھے جہاں معاملات طے پا رہے تھے۔ یہاں باقاعدہ لین دین ہوتا رہا۔ ایک مقتول کی والدہ نے اصرار کیا کہ وہ پانچ کروڑ سے کم نہیں لے گی۔ معاملہ صدر زرداری تک گیا اور انہوں نے منظوری دے دی۔ ہفتہ بھر قبل تمام گوشوارے مرتب ہوچکے تھے کہ کس کو کیا ملنا ہے۔ دو چار دنوں میں واضح ہوجائے گا کہ فوری طور پر پاسپورٹس کہاں تیار ہوئے اور ویزے کیوں کر لگے۔ وہیں طے پایا کہ اب منظور بٹ نہیں، راجہ محمد ارشاد ورثاء کے وکیل ہوں گے۔ وکالت نامہ بھی وہیں تیار ہوا۔ مدعیوں کے دستخط وہیں ثبت کرالئے گئے۔ دیت کی رقوم کی ادائیگی بھی وہیں ہوئی۔ وصول شدہ رقوم کی رسیدیں بھی وہیں تیار ہوئیں۔ یہ ساری ادائیگی وفاقی حکومت کی طرف سے پاکستانی کرنسی میں ہوئی۔ خوں بہا ادا ہوگیا۔ لیکن یہ راز نہ کھلے گا کہ اور کس کس نے، کس کس شکل میں اپنے اپنے حصے کا ”خون بہا“ وصول کیا۔
    معاملے کا ایک پہلو یہ ہے کہ ورثاء نے وہ حق استعمال کیا جو اللہ تعالٰے اور پاکستان کے قانون نے انہیں دیا تھا۔ قرائن بتاتے ہیں کہ انہیں قائل اور مائل کرنے کی کوششیں ضرور ہوئیں، لیکن جبر یا زور زبردستی کی کوئی شہادت نہیں ملتی۔ امریکی ویزوں اور کروڑوں روپے جن کے خواب و خیال میں بھی نہ آئے ہوں ان کے لئے ایسی ترغیب ہی سب سے بڑا جبر ہوتا ہے۔ ایک دو نہیں، یہ انیس لواحقین کا معاملہ تھا۔ سب کے سب عدالت میں آئے۔ جج نے ان کے اجتماعی بیان سے صرف نظر کرتے ہوئے سب کو باہر بھیج دیا۔ پھر ایک ایک کو کمرہ عدالت میں بلایا گیا۔ ایک ایک سے پوچھا گیا۔ ورثاء کی معافی کے بعد استغاثہ کے پر بھی کٹ جاتے ہیں اور رہائی کے سوا عدالت کے آپشنز بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ سو اس حد تک معاملہ قانون کے مطابق حل ہوگیا باقی سب کہانیاں ہیں۔
    یہ بھی کہا جارہا ہے اور کسی حد تک درست کہا جارہا ہے کہ پہلی بار امریکی موقف کو شکست ہوئی۔ ریمنڈ کو سفارتی استثنٰی نہ مل سکا، پہلی بار کسی امریکی کو جیل جانا پڑا، پہلی بار اس پر مقدمہ چلا اور پہلی بار اس پر فرد جرم عائد ہوئی، پہلی بار امریکیوں کو اپنے مقام رعونت سے نیچے اتر کر بات کرنا پڑی۔ بلاشبہ یہ سب کچھ ہوا لیکن ڈیوس کی رہائی کیلئے ہمارے سارے ارباب اختیار نے، جو روش اختیار کی اور امریکیوں کا راستہ آسان کرنے کیلئے جس غلامانہ اطاعت کا مظاہرہ کیا اس نے ہر پاکستانی کو دل گرفتہ کردیا ہے۔ عدالتی فیصلے کے ساتھ ہی جس سرعت سے ڈیوس کو نکالا اور امریکی قونصل خانے پہنچایا گیا وہ بھی برسوں یاد رہے گا۔
    فوج۔ آئی۔ایس آئی، وفاقی حکومت، حکومت پنجاب، غرض اختیار اور اقتدار سے تعلق رکھنے والے ہر کل پرزے نے اپنا متعینہ کردار ادا کیا۔ بہت سے معاملہ شناس، عدلیہ کو بھی اس صف میں شامل کررہے ہیں۔ اس میں ہمارے دوست ممالک کا بھی نہایت ہی موثر عمل دخل ہے، یہ ایک پیکیج ڈیل تھی ایک نہایت ہی سوچا سمجھا منظم آپریشن تھا۔ پچھلے تین چار ہفتوں کے دوران ہمارے مختلف بڑوں اور اہم اہلکاروں کی ملاقاتوں کا گوشوارہ مرتب کیا جائے تو سب کچھ واضح ہوجائے گا۔ گزشتہ دنوں شہباز شریف نے تجویز پیش کی تھی کہ دہشت گردی اور امن و امان کے سنگین مسائل سے نکلنے کے لئے ایک قومی حکمت عملی وضع کی جائے جس میں عدلیہ اور فوج سے بھی مشاورت کی جائے۔ اس تجویز پر ایک طوفان کھڑا ہوگیا تھا۔ شہباز کی پیٹھ ان تازیانوں سے لہو لہان کردی گئی تھی کہ اس نے جمہوریت کی شان میں گستاخی کی ہے۔ آج ان سورماؤں سے یہ چھوٹا سا سوال ضرور پوچھنا چاہتا ہوں کہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں کیا ہوا! کہاں گئی وہ شیر دل جمہوریت جو فوج سے ہم کلام ہونے کو بھی اپنی عصمت و عفت کے منافی خیال کرتی تھی؟ کیا ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں وہ سب شریک مشاورت نہ تھے؟ اور اگر تھے تو قومی مفادات کے باقی معاملات پر وہ کیوں بات نہیں کرسکتے؟
    آنے والے دنوں میں کئی اور راز آشکارا ہوں گے۔ حکومت سے باہر بیٹھے، حکومت کے خواب دیکھنے والے سورما، شہدائے لاہور کے لہو کو اپنی سیاست کا غازہ بنائیں گے، نئے فتنوں کی آگ بھڑکے گی۔ لیکن جب کل یہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھیں گے تو وہی آشوب ان کے پاؤں کی زنجیر بن جائے گا۔ اگر ہم نے بھیک مانگ کر روٹی کھانی ہے اور قرض کی مئے پینی ہے تو کہاں کی آزادی، کون سا قتل، کیسا دعویٰ اور کون سا خوں بہا؟
    دل بوجھل ہے اور آنکھ نم۔ نہ سارا ماجرا لکھا جاسکتا ہے نہ قلم سے وفا ممکن ہے۔ آئیے! افتخار عارف کی اس نظم پر اکتفا کرتے ہیں جس کا عنوان ہے ”خوں بہا”
    اپنے شہسواروں کو
    قتل کرنے والوں سے
    خوں بہا طلب کرنا
    وارثوں پہ واجب تھا
    قاتلوں پہ واجب تھا
    خوں بہا ادا کرنا
    واجبات کی تکمیل
    منصفوں پہ واجب تھی
    (منصفوں کی نگرانی
    قدسیوں پہ واجب تھی)
    وقت کی عدالت میں
    ایک سمت مسند تھی
    ایک سمت خنجر تھا
    تاج زر نگار اک سمت
    ایک سمت لشکر تھا
    اک طرف مقدر تھا
    طائفے پکار اٹھے
    ”تاج و تخت زندہ باد!
    ساز و رخت زندہ باد“
    خلق ہم سے کہتی ہے، سارا ماجرا لکھیں
    کس نے کس طرح پایا، اپنا خوں بہا لکھیں
    چشم نم سے شرمندہ،
    ہم قلم سے شرمندہ، سوچتے ہیں کیا لکھیں!

    بشکریہ روزنامہ جنگ
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: … سوچتے ہیں کیا لکھیں

    اگر جذباتیت کو ایک طرف رکھا جائے تو کسی حد تک مثبت تبدیلی کے آثار سامنے آرہے ہیں۔ شاید ابھی کچھ تازیانے ہمیں جگانے کو درکار ہیں لیکن بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ

    نہیں مایوس اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
    ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی​
     
  3. مونا
    آف لائن

    مونا ممبر

    شمولیت:
    ‏4 جولائی 2010
    پیغامات:
    115
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    جواب: … سوچتے ہیں کیا لکھیں

    بہت اعلٰی ۔۔۔۔۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں