1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

’’اوکٹوپس کے ساتھ رقص‘‘ ْ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر : صہیب مرغوب

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏30 ستمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ’’اوکٹوپس کے ساتھ رقص‘‘ ْ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر : صہیب مرغوب
    Dancing With Octopus.jpg
    جرم وسزا کی دنیا کی حیرت انگیز مگر سچی کہانی

    کتاب لکھنے سے پہلے وہ جیل میں اپنے مجرم چارلس گڈون سے ملی اور کہا، ’’تم نے مجھے بتایا کہ دنیا میں بھیڑیے بھی رہتے ہیں مگر ان بھیڑیوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت بھی تم نے ہی پیدا کی تھی‘‘
    یہ 22نومبر 1978ء کی سردصبح کا واقعہ ہے ۔ ’’اوماہا‘‘ (نبراسکا ) میں 14برس کی بھولی بھالی لڑکی ڈیبورا ہارڈنگس یخ موسم میں سکول کی جانب رواں تھی، سب کچھ کہر میں ڈھکا ہو اتھا۔ وہ پڑھائی کی شوقین تھی ۔ علم و ہنر کے زیور سے آراستہ ہو کر معاشرے کے لئے کچھ کرنے کی خواہش مند۔ اسے کیا معلوم تھا کہ انتظامیہ نے سرد موسم کی شدت کے پیش نظر سکول بند کر دیئے تھے۔وہ سکول پہنچی لیکن دروازے پر بھاری تالا منہ چڑ ارہا تھا، الٹے پائوں واپس آئی۔ابھی گھر سے دور گرجا گھر کی پارکنگ میں تھی کہ کوئی پیچھا کرتا دکھائی دیا، اس سے پہلے کہ وہ ہوشیار ہوتی، نقاب پوش حملہ آور نے اس کا سر بوری نما چیز سے ڈھانپ دیا، اور خنجر کی نوک پر گھیٹتے ہوئے ایک وین میں پھینک دیا، چند ہی منٹوں میں وہ ایک ویران فون بوتھ میں تھی۔ جہاں مجرم چارلس گڈون نے بچی کے ساتھ زیادتی کی۔پھر گھر فون ملانے کو کہا۔

    ’’فون کرو ، 10 ہزار ڈالر تاوان منگوائو ورنہ جان نہیں بچے گی، یہ تمہارا آخری دن ہو گا‘‘۔ حملہ آور کا لہجہ ذرا تلخ تھا۔ 14برس کی لڑکی نے گھر فون ملایا۔دوسرے طرف سے ماں بولی۔۔۔ ’’سب جھوٹ ہے ،بیٹی فراڈ کررہی ہے، ہم تاوان نہیں دیں گے‘‘۔

    لڑکی نے ایک ترکیب لڑائی۔ بولی، ’’تاوان آ رہا ہے، تم فلاں جگہ پہنچا جائو‘‘۔حملہ آور تاوان لینے چلا گیا، لیکن جانے سے پہلے لڑکی کا گرم کوٹ بھی اتار لیا،تاکہ سردی سے اکڑ کر مر جائے۔ وہ تاوان لے کر بھی لڑکی کو زندہ واپس کرنے کے موڈ میں نہ تھا۔واپس کر دیتا تو پول کھل جاتا۔وہ جانتا تھاکہ موسم کی شدت میں بچی زیادہ دیر تک نہیں زندہ رہ سکے گی۔ لیکن بچی نے جسم کو چیرتی، ہڈیوں میں چبھتی ہوئی ٹھنڈک کا مقابلہ کیا۔اس روح کو جمانے والی سردی میں بھی اس نے ہوش و حواس قائم رکھے،وہ سائنس کی طالبہ تھی،دیوار سے سر کو رگڑ رگڑبوری نما چیز کو کاٹ ڈالا۔یوں اپنی ہمت سے زندہ گھر لوٹی۔

    گھرمیں نیا فسادبپا تھا۔ماں کے نزدیک وہ جھوٹی تھی، ’’یہ سب ڈرامہ ہے، اسے کسی نے اغواء کیا نہ ہی ٹیلی فون بوتھ میں لے کر گیا۔ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی نہ کسی نے تاوان مانگا ۔ یہ رام کہانی میں نہیں مانتی‘‘ ۔ننھی بچی کو اغواء اور زیادتی سے زیادہ دکھ ماں کے تلخ جملوں نے پہنچایا، اسے جتنا چھلنی مجرم نے کیا ،اس سے کہیں زیادہ زخم ماں نے دیئے۔اغواء کا خوف گھریلو جھگڑوں میں دب گیا۔

    ماں نے ایسا کیوں کیا ؟ بچی آج تک نہیں جان سکی۔ماں کو اس وقت اعتبار آیا جب ڈی این اے رپورٹ نے بچی کی باتوں کی تصدیق کی، مجرم چارلس گڈون پکڑا گیا، جرم بھی ثابت ہو گیااور اسے 25 سال کے لئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا۔ اس اذیت ناک وقت میں باپ اس کے ساتھ کھڑا تھا۔ان کی مدد سے ہی وہ ہیجانی کیفیت سے نکل پائی۔

    وہ یہ بھی نہیں بھول سکی کہ کس طرح اس کی ماں اپنے بچوں اور اپنے شوہر کی بے عزتی کیا کرتی تھی، ان کامذاق اڑاتی تھی،ان کی ہمت کو توڑ دیتی تھی۔ ماں نے کتاب لکھنے سے پہلے اپنی بیٹی ڈیبورا کے شوہر سے بھی یہی کہا ’’ پتہ نہیں کیوں یہ جھوٹ بول رہی ہے، اغواء کی باتیں من گھڑت ہیں‘‘۔ پھر اسے یہ بھی یاد آیاکہ جب وہ چھ سال کی تھی تو ماں نے اسے گیراج میں بند کر دیا تھا،تب بھی اس نے اپنی دو بہنوں کے ساتھ کئی گھنٹے گیراج کی سردی میں گزارے تھے۔

    یہ 14 سالہ لڑکی اب شادی عورت ہے ، بچوں کی ماں ہے اور اس نے اپنی بپتا ،کرائم سٹوری کی صورت میں صفحہ قرطاس پہ اتاری ہے۔کتاب کاعنوان ہے ’’ ڈانسنگ ود دی آکٹوپس،ایک کرائم سٹوری‘‘۔وہ لکھتی ہے کہ ’’کتاب لکھنے کا خیال دل میں آتے ہی میں نے جیل میں اپنے مجرم سے ملنا چاہا۔میں نے اسے ہیجانی کیفیت میں تو دیکھا تھا ،ایک بار ہوش و حواس میں بھی دیکھنا چاہتی تھی۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ تمہاری وجہ سے ہی مجھے بھیڑیوں کو پہچاننے میں مدد ملی ہے،تم نے ہی مجھے بتایا کہ دنیا میں کتنے برے لوگ بھی رہتے ہیں،مگر ان تمام بھیڑیوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت بھی تم نے ہی پیدا کی تھی‘‘ ۔

    ڈیبورا ہارڈنگس کی یہ کتاب عزم و ہمت کی داستان ہے ،کہ وہ کس طرح ا یک جانب اپنی ماں کے تلخ جملوں کو سہتی رہی ، گھر میں تماشا برداشت کرتی رہی ،اور دوسری طرف بکھری ہوئی شخصیت کو سمیٹتی رہی۔ اس نے سب کو ایک سبق دیا ہے کہ ظلم کا شکار ہر عورت شکست مان کر مر جانے کی بجائے خود کو سنبھالتے ہوئے نئی زندگی شروع کر سکتی ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں