1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

’گوشت تو بھایا امیروں کے لیے ہے‘

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از پاکستانی55, ‏1 دسمبر 2014۔

  1. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    لچھماں میگھواڑ کے مطابق ان کا بچہ جب پیدا ہوا بالکل کمزور تھا، کیونکہ وہ خود جو کمزور تھیں
    -----------------------------------------------------------------
    دوپہر کے تین بجے ہیں، دو کچے کمروں پر مشتمل گھر کے آنگن میں ایک خاتون کپڑے دھونے میں مصروف ہے، جسمانی خدو خال دور سے ہی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ خاتون حاملہ ہے۔
    راموں میگھواڑ کی زچگی کسی بھی وقت متوقع ہے، گھر، شوہر اور ڈیڑھ سالہ بچے کے علاوہ آنے والے مہمان کا خیال بھی ان ہی کو رکھنا ہے۔
    شہروں میں لیڈی ڈاکٹر حاملہ خواتین کو بھرپور غذا کے مشورے دیتی ہیں، لیکن صحرائے تھر میں آٹھ ماہ کی اس حاملہ عورت کو اپنے اور آنے والے بچے کے لیے کون سی غذا دستیاب ہے۔
    وہ کہتی ہیں کہ قحط میں کیا بنائیں، بارشوں کے بعد کھیتی کرتے تھے تو اناج اور سبزی مل جاتی تھی اب تو صرف سوکھی روٹی اور سرخ مرچ کی چٹنی بناکر کھاتے ہیں اور یہ روٹی بھی صبح اور رات کو دستیاب ہے دوپہر کو وہ کھانے نہیں کھاتے۔
    ان کے مطابق غربت اور بیماری میں مویشی بیچنے پڑے، اب دودھ دھی کہاں سے آئے۔
    راموں میگھواڑ کا شوہر دھرموں کی اگر مزدوری لگ جائے تو شہر سے سب سے کم قیمت ملنے والی سبزی خرید لاتا ہے اور ایسے مواقع ہفتے میں صرف دو ایک بار ہی آتے ہیں۔
    جب میں نے راموں سے پوچھا کہ کیا گوشت نہیں کھاتے تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’وہ تو بھایا امیروں کے لیے ہے۔‘
    [​IMG]
    18 بستروں اور او پی ڈی پر مشتمل اس سینٹر میں سارا دن کمزور اور لاغر بچوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے
    -----------------------------------------------------------------

     
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    قحط زدہ اس خطے میں حکومت کی جانب سے حاملہ عورتوں اور نومولود بچوں کو طاقت سے بھرپور غذا یعنی ’نیوٹریشن سپلیمنٹ‘ فراہم کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے لیکن مٹھی سے 13 کلومیٹر دور ہوتھیر نامی گاؤں کے زچہ و بچہ دونوں ہی اس مدد سے محروم ہیں۔
    22 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے صحرائے تھر میں 15 لاکھ لوگ آباد ہیں جن میں سے تقریباً 45 فیصد عورتیں ہیں، جن کے لیے بھی صرف 22 لیڈی ڈاکٹرز ہیں جو مٹھی جیسے شہروں کے ہسپتالوں تک محدود ہیں۔
    تھر میں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کا رجحان عام ہے۔ ہوتھیر گاؤں کی رہائشی لچھماں کے چوتھے بچے کی پیدائش بھی دو ماہ قبل گھر میں ہی ہوئی ہے۔ لچھماں کے شوہر کو اپنے بچوں کے علاوہ بھائی کے یتیم بچوں کی کفالت بھی کرنی ہے۔
    سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ تھر میں اکثر زچگیاں گھروں میں ہوتی ہیں جس کے باعث بچوں کی شرح اموات زیادہ ہے۔
    لچھماں بتاتی ہیں کہ ان کے پاس پیسے ہوتے تو شہر کے ہپستال جاتے، گاؤں سے شہر تک کا یک طرفہ کرایہ 1500 روپے بنتا ہے وہاں ہپستال میں دواؤں اور ٹیسٹ وغیرہ کا خرچہ الگ وہ یہ کہاں برداشت کرسکتے ہیں۔
    لچھماں میگھواڑ کے مطابق ان کا بچہ جب پیدا ہوا بالکل کمزور تھا، کیونکہ وہ خود جو کمزور تھیں۔’ماں کو کچھ کھانے کو ملے گا تو وہ بچے کو دودھ پلا سکے گی، ہم تو روٹی بھی کالی چائے کے ساتھ کھاتے ہیں۔‘


    [​IMG]
    تھر کے دس ہزار بچوں میں غذائی قلت کی علامات پائی گئیں
    -------------------------------------
    پی پی ایچ آئی نامی غیر سرکاری ادارے نے پچھلے دنوں تھر کی تین تحصیلوں میں پانچ سال سے کم عمر 17 ہزار بچوں کی سکریننگ کی، جن میں سے دس ہزار بچوں میں غذائی قلت کی علامات پائی گئیں۔
    2011 کے قومی نیوٹریشن سروے میں بھی تھر میں غذائی قلت کی نشاندہی کی گئی تھی، جس کے بعد مٹھی ضلعی ہپستال میں یونیسف نیوٹریشن سیٹر قائم کیا گیا۔
    18 بستروں اور او پی ڈی پر مشتمل اس سینٹر میں سارا دن کمزور اور لاغر بچوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے جبکہ حکام رواں سال اس سینٹر میں آٹھ بچوں کی غذائی قلت کے باعث موت کی تصدیق کرتے ہیں۔
    مقامی اور بین الاقوامی ادارے اور عدلیہ بھی تھر میں قحط سالی کے بعد غذائی قلت اور انتظامی غفلت کی نشاندہی کر چکے ہیں، لیکن صوبائی حکومت اسے اپنے خلاف سازش قرار دیتی ہے۔
    صوبائی وزیر جام مہتاب ہلاکتوں کو مقامی کلچر سے جوڑتے ہیں۔ بقول ان کے بچے غذا نہیں کھاتے۔ ان کے کم وزن ہونے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک خاندانی منصوبہ بندی کا نہ ہونا بھی ہے۔
    ’تھر میں ایک خاتون کم عمری میں کئی بچے پیدا کرتی ہے اور اس میں کوئی وقفہ نہیں ہوتا۔ شہر میں جس عمر میں لڑکی کے لیے یہ سوچا جاتا ہے کہ اس کی شادی کرائی جائے اس وقت تک اس کی ہم عمر تھر میں کئی بچے سنبھال رہی ہوتی ہے۔‘
    جام مہتاب ڈہر کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بچوں کی اتنی ہی ہلاکتیں دیگر صوبوں میں بھی ہو رہی ہیں لیکن وہ مقامی صحافیوں کے ایجنڈے پر نہیں۔
    صوبائی حکومت کی جانب سے تھر میں فی خاندان 50 کلوگرام گندم کی تقسیم کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق اس تقسیم کے چار راؤنڈ ہوچکے ہیں لیکن کئی دیہاتوں کے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ کسی گاؤں میں لوگوں کو دو تو کسی تو تین بار گندم ملی ہے۔
    شاید یہ ہی وجہ کہ تھر کہ پر امن اور ٹھنڈے مزاج کے لوگ اب مٹھی پریس کلب کے باہر جمع ہو کر گندم کی غیر منصفانہ تقسیم پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔
    http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/12/141201_thar_people_malnutrition_zs
     

اس صفحے کو مشتہر کریں