1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

’غیر حقیقی تاریخ مسلط کی جا رہی ہے

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏28 اپریل 2012۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    ’غیر حقیقی تاریخ مسلط کی جا رہی ہے

    معروف سیاستداں اور دانشور ڈاکٹر مبشر حسن نے کہا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے سینکڑوں سال ہندوستان پر حکمرانی کی تھی اس لیے وہ چاہتے تھے کہ ان کا حکمراں مسلمان ہو اور قائد اعظم نے یہ بات جان لی تھی اس لیے انہوں نے کانگریس سے ایسے مطالبات کیے جو کانگریس تسلیم ہی نہیں کر سکتی تھی۔ انہوں نے اس سلسلے میں دو قومی نظریے اور مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم کرنے کے مطالبے کیے اور یہ وہ زمانہ تھا جب نیشن سٹیٹس بن رہی تھیں۔
    ڈاکٹر مبشر جمعہ کو کراچی آرٹس کونسل میں زاہد چوہدری مرحوم اور ان کے رفیق حسن جعفر زیدی کی کتاب پاکستان کیسے بنا؟ کی تقریبِ اجرا سے خطاب کرہے تھے۔

    اس تقریب سے ڈاکٹر جعفر، غازی صلاح الدین، نذیر لغاری، زاہدہ حنا، ڈاکٹر معصومہ حسن اور خود حسن جعفر زیدی نے خطاب کیا۔ تقریب کی نظامت شکیل حیدر جعفری نے کی۔
    بی بی سی کے نامہ نگار انور سِن رائے کے مطابق ڈاکٹر مبشر کا کہنا تھا کہ قائد اعظم کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں ہے کہ وہ یونائٹڈ ہندوستان چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ شیخ مجیب الرحمٰن نے بھی یہی راستہ اپنایا اور ایسے مطالبات کیے جو مانے ہی نہیں جا سکتے تھے اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ تاریخ لیڈروں کےہاتھ میں نہیں ہوتی لیڈر تاریخ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ جہاں تک اس کتاب کا تعلق ہے تو یہ اس بارے میں ہے کہ پاکستان کیسے بنا، اس بارے میں نہیں ہے کہ پاکستان کیوں بنا۔

    تاریخ لیڈروں کےہاتھ میں نہیں ہوتی لیڈر تاریخ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں: مبشر حسن
    ان سے قبل کتاب کے مصنف حسن جعفر زیدی نے کہا اس پر بات ہو چکی ہے کہ تاریخ حکمرانوں کی ضرورتوں کے مطابق لکھی جاتی ہے۔ اسی بات میں اس سوال کا جواب ہے کہ پاکستان کیوں بنا؟ کی 1979 میں ضرورت کیا تھی 1989 میں کیا تھی اور آج کیا ہے۔
    انہوں نے کہا اسٹیبلشمنٹ نےشروع ہی سے جغرافیائی سرحدوں کی بجائے نظریاتی سرحدوں کی بات شروع کر دی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ کتاب کے حوالے سے انہیں ایک ذمہ دار شخص نے کہا کہ اب تو یہ بات ہو رہی ہے کہ پاکستان ٹوٹنے سے کیسے بچے گا اور آپ اب تک یہ بات کر رہے ہیں کہ پاکستان کیسے بنا۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل بات یہی ہے کہ اگر آج بھی اعتراف کر لیا جائے کہ پاکستان کیسے بنا تھا یہ پاکستا بچ سکتا ہے۔
    ان سے پہلے ڈاکٹر معصومہ حسن نے کہا جب تک تمام مواد سامنے نہیں آجاتا پوری صورتِ حال واضح نہیں ہوتی اور اصل تاریخ کے لیے درکار تمام مواد کو سامنے آنے میں کم از کم سو سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے، جہاں تک اس کتاب کا تعلق ہے تو اس میں ٹرانسفر آف پاور کی بارہ جلدوں پر انحصار کیا گیا ہے۔ تاہم اس دستاویز کے تمام حوالوں سے استفادہ نہیں کیا گیا، ہو سکتا ہے کہ انہیں اس تک رسائی نہ ملی ہو۔اس کے باوجود یہ کتاب ان تمام بڑے سیاسی دھاروں کا احاطہ کرتی ہے جو پاکستان کے قیام کا سبب بنے۔
    ان کا کہنا تھا کہ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اردو میں ہے اور یہ بہت بڑی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ تاریخ پر جو بھی ذرا بہتر کتابیں لکھی جاتی ہیں وہ انگریزی میں ہوتی ہیں اور پاکستان کی اکثریت انگریزی پڑھ نہیں سکتی۔ انہوں نے کہا وہ حسن جعفر زیدی سے کہیں کہ اگر ہو سکے تو عوام کی تاریخ بھی لکھیں۔

    ’پاکستان نے ایسے مورخ پیدا نہیں کیے جن کی عالمی سطح پر کوئی شناخت ہو‘
    کتاب پر بات کرتے ہوئے سینئر صحافی اور دانشور نذیر لغاری نے کہا کہ ریاستی مقتدرہ نے جو تاریخ مسلط کرنے کو کوشش کی اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم آدھا ملک گنوا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا یہ دو حصے جو بارہ جلدوں پر مشتمل اس کتاب کا حصہ ہیں جو اس علاقےکے لوگوں کی تاریخ کا محض پیش لفظ ہے۔ اصل تاریخ کا لکھا جانا ابھی باقی ہے۔
    ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلی بار اس کتاب سے جانا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں داخل ہونے کا دروازہ کہاں ہے۔
    ڈاکٹر جعفر کتاب پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ایسے مورخ پیدا نہیں کیے جن کی عالمی سطح پر کوئی شناخت ہو، تاریخ کے جو بھی لوگ تھوڑے بہت جانے جاتے ہیں انہوں نے ملک سے باہر رہ کر کام کیا ہے۔ پاکستان میں سٹیٹ نے جب سے نصاب کو اپنے کنٹرول میں کیا ہے تاریخ سے لوگوں کی دلچسپی ختم ہو گئی ہے۔ اب ملک میں تاریخ کا مضمون تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ سندھ میں صورتحال یہ ہے کہ تارخ کا مضمون بمشکل پانچ چھ کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
    انہوں نے کہا کہ اس کتاب کے تھیسس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کتاب کا تناظر وہ دو قومی نظریہ نہیں جو عام طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ دراصل اقتصادی تضاد تھا جس نے پاکستان کے قیام کی شکل اختیار کی۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں