1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

’ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا‘ احمد فراز جو آج ہم میں نہیں ۔۔

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از حنا شیخ, ‏30 اگست 2016۔

  1. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    ایک طرف ترقی پسندی اور تبدیلی کی زبردست وکالت کرنے والے اور دوسری طرف اپنی بھرپور مزاحمتی اور رومانوی شاعری کے لیے منفرد مقام رکھنے والے نامور پاکستانی شاعر احمد فرازکم ہی شاعروں کو اُن کی زندگی میں اپنے مداحوں کی جانب سے اتنی محبت اور پذیرائی ملتی ہے، جتنی کہ احمد فراز کے حصے میں آئی۔ اسی طرح احمد فراز کا شمار اُن شعراء میں بھی ہوتا ہے، جن کے کلام کو زیادہ سے زیادہ گلوکاروں نے اپنی آواز سے سجایا ہے۔
    احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا۔ اُن کا تعلق کوہاٹ کے پشتو بولنے والے ایک پٹھان گھرانے سے تھا، جہاں اُنہوں نے چودہ جنوری 1931ء کو جنم لیا۔ اُن کے والد بھی اپنے علاقے کے ایک مانے ہوئے شاعر تھے۔ فارسی اور اردو کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد احمد فراز پشاور یونیورسٹی میں یہی مضامین پڑھاتے بھی رہے۔
    ان کا پہلا مجموعہء کلام ’تنہا تنہا‘ اُس وقت شائع ہوا تھا، جب وہ ابھی گریجویشن کر رہے تھے۔ اپنی عملی زندگی کے آغاز پر وہ اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے ریڈیو پاکستان سے بھی وابستہ رہے۔ پھر برسوں تک اکادمی ادبیات اور نیشنل بک فاؤنڈیشن کی طرح کے قومی اداروں کے ڈائریکٹر بھی رہے۔
    فوجی حکمران ضیاء الحق کے دور میں احمد فراز کو پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ قریبی تعلق کی بناء پر زیرِ عتاب بھی رہنا پڑا۔ اُس دور میں فراز نے جلا وطنی اختیار کی اور تین سال تک کا عرصہ برطانیہ، کینیڈا اور دیگر یورپی ممالک میں گزارا۔ اُن کی بہترین انقلابی شاعری بھی، جس میں مشہورِ زمانہ نظم ’محاصرہ‘ بھی شامل ہے، اُسی دور میں تخلیق ہوئی۔ ایک عوامی اجتماع میں یہ نظم پڑھنے کی پاداش میں اُنہیں گرفتار بھی کیا گیا۔وہ عمر بھر پاک بھارت دوستی کی بھرپور وکالت کرتے رہے۔ وہ چاہتے تھے کہ دونوں ملک اپنے بے پناہ وسائل اسلحے کے انبار جمع کرنے پر صرف کرنے کی بجائے اپنے عوام کی فلاح پر خرچ کریں۔ اس حوالے سے اپنے انتقال سے کچھ عرصہ قبل ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئےاُن کا کہنا تھا:’’دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے کلچر سب سے زیادہ مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ اِدھر کے رائٹرز، اُدھر کے رائٹرز، اِدھر کے سنگیت کار، اُدھر کے سنگیت کار۔ اسی طرح کھیلوں اور دیگر شعبوں کے لوگ بھی یہ چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک میں دوستی بڑھے، امن ہو اور آنا جانا شروع ہو۔‘‘احمد فراز کو اُن کی ادبی خدمات کے بدلے میں بے شمار قومی اعزازات سے نوازا گیا، جن میں ’ہلال امتیاز‘ بھی شامل ہے تاہم سابق فوجی حکمران جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اُنہوں نے بعد ازاں یہ ایوارڈ واپس کر دیا تھا۔ تب اُنہوں نے کہا تھا:’’اگر مَیں اپنے اردگرد پیش آنے والے افسوس ناک واقعات پر خاموش رہا تو میرا ضمیر مجھے معاف نہیں کرے گا۔ مَیں کم از کم یہ ضرور کر سکتا ہوں کہ آمریت کو یہ بتاؤں کہ اُن متفکر عوام کی نظروں میں اُس کا کیا مقام ہے، جن کے بنیادی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔ اسی لیے مَیں ’ہلال امتیاز‘ واپس کر رہا ہوں اور اس حکومت کے ساتھ کسی بھی طرح کی وابستگی سے انکار کرتا ہوں۔‘1997ء میں پاکستان کے قیام کی پچاس سالہ تقریبات کے موقع پر احمد فراز دیگر شعرا اور ادباء کے ساتھ جرمن دارالحکومت برلن بھی آئے، جہاں اُنہوں نے اپنا کلام سنا کر خوب داد سمیٹی۔ اس موقع پر اُنہوں نے اپنی غزل ’رنجش ہی سہی، دل ہی دکھانے کے لیے آ‘ بھی سنائی، جس کے ساتھ اس غزل کا جرمن ترجمہ بھی پیش کیا گیا تھا۔
    اپنی زندگی کے آخری برسوں میں وہ مسلسل مشرف حکومت کی پالیسیوں کو ہدفِ تنقید بناتے رہے اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لیے وکلاء کی جانب سے شروع کی گئی تحریک کی بھی زبردست حمایت کرتے رہے۔
    احمد فراز کے ایک درجن سے زیادہ مجموعہ ہائے کلام میں ’تنہا تنہا‘ کے ساتھ ساتھ ’درد آشوب‘، ’شب خون‘، ’میرے خواب ریزہ ریزہ‘، ’بے آواز گلی کوچوں میں‘، ’پس انداز موسم‘، ’جاناں جاناں‘ اور ’سب آوازیں میری ہیں‘ بھی شامل ہیں۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں