1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

۔90فیصد بچے نظر کی کمزوری کا شکار کیوں؟۔۔۔۔۔۔ نجف زہرا تقوی

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏8 دسمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    90فیصد بچے نظر کی کمزوری کا شکار کیوں؟۔۔۔۔۔۔ نجف زہرا تقوی

    بچوں کا 2گھنٹے سے زیادہ ٹی وی دیکھنا بینائی کے لیے خطر ناک ہے

    کینیڈا میں کی جانیوالی ایک نئی تحقیق کے مطابق 2 سے4 سال کی عمر کے جو بچے ہفتے میں زیادہ وقت ٹیلی ویژن کے سامنے گزارتے ہیں ان کی 10سال کی عمر میں کمر کی موٹائی زیادہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے
    بائیو میڈ سینٹرل جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق ٹیلی ویژن کے سامنے ہفتے میں 1گھنٹہ زیادہ بیٹھنے سے کمر کی موٹائی میں نصف ملی میٹر تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس تحقیق کے دوران 1314 بچوں کو ٹی وی دیکھنے کی عادت کا مشاہدہ کیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو روزانہ 2گھنٹے سے زائد ٹی وی نہیں دیکھنا چاہئے۔ ان بچوں میں سے نصف کے والدین کے مطابق ان کے بچے اس عمر میں ہر ہفتے اوسطاً 18 گھنٹے ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں۔ محققین کے مطابق 4سال کی عمر میں ہفتے میں 18 گھنٹے ٹیلی ویژن دیکھنے والے بچوں کی کمر 10 سال کی عمر میں 7.6 ملی میٹر زیادہ موٹی ہو سکتی ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ شروع میں ان بچوں کی ہفتے میں ٹی وی دیکھنے کی اوسط 8.8 گھنٹے تھی اور 2 سال کے بعد 4 سال 6 ماہ کی عمر میں یہ اوسط بڑھ کر 14.8 گھنٹے ہو گئی۔ اس تحقیق کے دوران بچوں کے لانگ جمپ لگانے کے ٹیسٹ بھی کئے گئے تاکہ انکے پٹھوں کی صحت اور ایتھلیٹک صلاحیتوں کا جائزہ لیا جا سکے۔ اس جائزے سے معلوم ہوا کہ روزانہ1 گھنٹہ اضافی ٹی وی دیکھنے سے بچے کی چھلانگ لگانے کی حد میں 0.36 فیصد کمی ہو سکتی ہے۔ کینیڈا کی یونیورسٹی آف مونٹریال کی پروفیسر اور اس تحقیق میں شریک ڈاکٹر لینڈا پگانی کے مطابق’’ ایک تنبیہہ ہے کہ یہ عوامل بچوں کو موٹاپے کی جانب لے جا سکتے ہیں۔ اس میں بنیادی بات یہ ہے کہ تجویز کردہ حد سے زیادہ ٹی وی دیکھنا صحت کے لئے اچھا نہیں ہے۔‘‘
    ایک طبی جائزے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اہم ایشیائی شہروں کے سکولوں سے فارغ ہونے والے 90 فیصد طلباء کی دور کی نظر کمزور ہوتی ہے۔ بصارت کی اس خرابی کو Myopia کہتے ہیں اور حالیہ برسوں میں یہ مسئلہ بہت سنگین صورت اختیار کر گیا ہے جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ چین، جاپان اور جنوبی کوریا کے طلباء سکول کی تعلیم کے دوران حد سے زیادہ محنت کرتے ہیں اور انہیں باہر دھوپ میں کھیلنے کودنے کا بہت کم موقع ملتا ہے۔ طبی جریدہ ’’لانسٹ‘‘ کو اس ریسرچ سے متعلق سائنس دانوں نے بتایا کہ ایسے 5 میں سے 1 طالب علم کی بصارت شدید متاثر ہو سکتی ہے اور وہ نابینا پن کا بھی شکار ہو سکتا ہے۔ برطانیہ میں ’’مایوپیا‘‘ کی اوسط شرح 20 سے 30 فیصد کے درمیان ہے۔ آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کینبرا کے پروفیسر ایان مورگن جنہوں نے اس جائزے کی قیادت کی تھی نے کہا ہے کہ کچھ عرصہ قبل جنوب مشرقی ایشیاء کے لوگوں میں بھی اس بصری خرابی کی شرح 20 سے 30 فیصد ہی تھی لیکن گذشتہ2 نسلوں میں یہ شرح بڑھ کر 80 اور 90 فیصد کے درمیان جا پہنچی ہے۔ آنکھوں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آپ کو 6.6 فٹ کے فاصلے سے چیزیں اگر دھندلی نظر آئیں تو یہ ’’مایوپیا‘‘ کی علامت ہوتی ہے۔ اکثر اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ نوجوانی کے دنوں میں آنکھ کا ڈیلا لمبا ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں کی گئی تحقیق کے مطابق اس کے بہت سے اسباب ہوتے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔ کتاب کا کیڑا ہونا یعنی بہت زیادہ پڑھائی میں مصروف رہنا، کتاب کو بہت قریب رکھ کر پڑھنا، کم روشنی میں پڑھنا اور باہر سورج کی روشنی میں بہت کم وقت گزارنا وغیرہ۔

    کم عمری میں ایک سے زیادہ دفعہ سی ٹی اسکین کرانے سے دماغ کے کینسر کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ برطانوی یونیورسٹی کے ماہرین کی ٹیم1لاکھ 80 ہزار مریضوں پر کی گئی تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ سی ٹی اسکین کے فوائد عموماً خطرے کا امکان بڑھا دیتے ہیں۔ اپنی نوعیت کی اس پہلی تحقیق میں سائنسدانوں نے 21 سال سے کم عمر کے افراد کو سٹڈی کا حصہ بنایا۔ تحقیق کرنے والے ڈاکٹر مارک پیئرس کے مطابق کم عمری میں سی ٹی اسکین کرانے سے لیکیمیا اور دماغ کے کینسر کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی اسکین صرف اس صورت میں کرانا چاہئے جب اس کی اشد ضرورت ہو۔

    خواتین کی نظر کیوں کمزور ہوتی ہے؟

    یہ بات عام مشاہدے میں آتی ہے کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں شائع شدہ مواد بہت قریب رکھ کر پڑھتی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں بہت پہلے پڑھنے والے چشموں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ریسرچرز نے اپنی تحقیق میں یہ جاناکہ قریب کی چیزوں پر فوکس جمانے کی صلاحیت مردوں اور خواتین میں اگرچہ یکساں ہوتی ہے لیکن خواتین کو مردوں کے مقابلے میں قریب اور دور کی چیزوں کو دیکھنے کے لئے ’’ہائی فوکل‘‘ چشموں کی ضرورت مردوں سے پہلے اس لئے محسوس ہوتی ہے کہ ان کے بازو نسبتاً چھوٹے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں چیزیں قریب تر رکھنی پڑتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ کتابیں یا رسائل وغیرہ اپنی آنکھوں سے بہت قریب کرکے پڑھتی ہے تو ان کی نظر عمر بڑھنے کے ساتھ تیزی سے دھندلانے لگتی ہے۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ’’انوسٹی گیٹیو اور پتھالموجی اینڈ ویژل سائنس جرنل‘‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا ہے کہ خواتین کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ وہ پڑھنے والا مواد اپنی آنکھوں سے قریب تر رکھ کر پڑھیں اس لئے کہ ان کے بازو چھوٹے ہوتے ہیں اور وہ مردوں کی طرح انہیں دور رکھ کر نہیں پڑھ سکتیں۔ عمر کے ساتھ قریب کی نظر کی کمزوری (Presbyopia) پر تحقیق کرنے والے ریسرچرز نے کہا ہے کہ قریب کی نظر اس وجہ سے کمزور ہوتی ہے کہ آنکھ کے عدسے سخت ہو جاتے ہیں اور قریب کی چیزوں پر بصارت کو مرکوز کرنا دشوار ہو جاتا ہے جس سے چیزیں دھندلی نظر آتی ہیں اور اس خرابی کو دور کرنے کے لئے پڑھنے والے نظر کے چشموں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریسرچرز نے کہا ہے کہ ہماری تحقیق سے شدت سے اس بات کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ خاص طور پر ترقی پذیر ملکوں کی خواتین میں Presbyopia کی درستگی کے پروگرام کا آغاز کیا جائے کیونکہ وہاں کی خواتین دیگر عوارض کی طرح اس مسئلے کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیتیں اور علاج میں تاخیر کرتی ہیں۔


     

اس صفحے کو مشتہر کریں