1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یہ ہم ہیں‌ اور یہ ہماری ترجیحات طے ہورہی ہیں‌ ...نجف زاہرا تقوی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏22 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    یہ ہم ہیں‌ اور یہ ہماری ترجیحات طے ہورہی ہیں‌ ...نجف زاہرا تقوی

    ہم ’’اہم‘‘چیزوں کے اصول طے کیوں نہیں کر لیتے تا کہ معیاری اور غیر معیاری کا فرق معلوم ہو سکےکبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم ’’سونامی‘‘ کے دور میں جی رہے ہیں جس میں ہر دوسرے روز چند دنوں کیلئے ایک نیا طوفان اٹھتا ہے اور پھراپنی تباہ کاریاں دکھا کر جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ یہ طوفان سوشل میڈیا کے سمندر میں اُٹھتا ہے۔کسی کا ایک جملہ،کوئی ویڈیو یا کسی کی ذاتی زندگی کا کوئی معاملہ ہو بس اسے سوشل میڈیا کی چنگاری پکڑتی ہے اور پھر آگ یوں پھیلتی ہے کہ جنگل کی آگ کی مثال بھی پھیکی لگنے لگتی ہے۔

    کسی بچے سے پوچھا جائے کہ ابھی حال ہی میں اس چنگاری نے کس کو اپنی لپیٹ میں لیا تو اس کے منہ سے یقینا پہلا جملہ نکلے گا ’’پاری ہو رئی ہے‘‘یعنی(پارٹی ہو رہی ہے) ہوا کچھ یوں کہ اسلام آباد کی ایک لڑکی نے دوستوں کے ساتھ تفریح کے دوران محض موج مستی کی خاطر ایک ویڈیو بنائی جس میں وہ لہجے کو خطر ناک حد تک انگریزی بناتے ہوئے کہہ رہی ہیں کہ یہ ہماری کار ہے،یہ ہم ہیں اور یہ ہماری ’’ پاری ‘‘ (پارٹی) ہو رہی ہے۔اب خدا جانے اس عجیب و غریب انگریزی لہجے میں ایسی کیا خوبی تھی کہ اس پر گانے بھی بن گئے،لڑکی کو ’’سٹار‘‘ بھی بنا دیا گیا،ٹی وی شوز میںبھی بطور مہمان بُلایا جانے لگا اور وقت کی کمی کارونا رونے والی عوام نے اپنا ہر کام چھوڑ کر سوشل میڈیا پر اس سے متعلق لطیفوں کی بھر ماربھی کر دی ۔چند دن یہی ماحول رہا اور پھر عوام کو یاد آیا کہ ’’علی سد پارہ‘‘کا اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا سو انہیں خراجِ عقیدت بھی پیش کرنا ہے۔

    ہمیں اس بات سے کوئی سرو کار نہیں کہ عوام کس چیز سے لطف اندوزہو رہی ہے ۔کس خبر کو اہمیت دے رہی ہے اور کسے نظر انداز کر رہی ہے۔افسوس ہے تو بس اتنا کہ ہم شاید جانتے ہی نہیں کہ ہماری پسند ،نا پسند کیا ہے یا ہمیں اپنے انتخاب پر ہی اعتماد نہیں ہے۔ایک روز ہم کسی بے مقصد اور بے معنی سی چیز کے بارے میں بات کر کر کے اسے ’’ٹرینڈ‘‘ بنا دیتے ہیں اور پھر جیسے ہوش آتی ہے تو سوچنے لگتے ہیں کہ یہ ہم نے کیا کر دیا۔جس بات کو ایک روز سراہا جا تا ہے دوسرے د ن اسی پر تنقید شروع ہو جاتی ہے۔

    یہ ترجیحات کون طے کر رہا ہے کہ کس بات کو اہمیت دینی ہے اور کسے نہیں؟یقینا ہم خود۔ہمارا حال ان لوگوں جیسا ہی ہے جو دوسروں کی زندگی سے متعلق ہر بات کرنے اور ڈھیروں برائیاں کرنے کے بعد کہہ دیتے ہیں ’’چلو جی چھڈو سانوں کی‘‘۔ہم ’’اہم‘‘ چیزوں کے اصول طے کیوں نہیں کر لیتے تا کہ معیاری اور غیر معیاری کا فرق تومعلوم ہو سکے۔

    اس کا فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ دو لوگ آپس میں بات کر رہے ہوں تو ایسے وقت میں سامنے والی کی بات سننا اہم ہے یا موبائل پر دور بیٹھے کسی شخص کو جواب دینا ۔ہمیں اندازہ بھی نہیں کہ یہ کس قدر بد تہذیبی کی علامت ہے لیکن اخلاقیات کا یہ اصول تیزی سے ہمارے بیچ ختم ہوتا جا رہا ہے۔آج کوئی آپ سے بات کرنے آئے اور آپ فون پر مصروف ہوں تو احتراماً انتظار کرتا ہے کہ پہلے فون سے فارغ ہو لیں پھر اپنی بات کریں گے۔

    تنقید برائے تنقید اور برائے اصلاح کا فرق بھی ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔کوئی کیا پہن رہا ہے،کس انداز میں بات کر رہا ہے، کہاں گھومنے جا رہا ہے یا کیا پسند ،نا پسند کر رہا ہے یہ فیصلہ ہر انسان خود اپنی زندگی میں کر سکتا ہے۔کسی دانشور نے شاید آج کے دور کے لیے ہی زندگی کا نچوڑ ایک جملے میں سمیٹ کر کہا تھا کہ’’کوئی پوچھے تو بتا دو‘‘۔کسی کی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ ضرور سوچ لیں کہ آپ سے پوچھا گیا ہے یا نہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں تو ہر دوسرا شخص ’’مشورہ مفت ہے‘‘ کا بورڈ اٹھائے نظر آتاہے۔خدارا لوگوں کو ان کی زندگی جینے دیں ۔آپ کسی کے بارے میں اچھا نہیں بول سکتے تو برا بولنے سے بھی باز رہیں،یا کم از کم اتنا فرق ضرور سمجھ لیں کہ تنقید کی بھی جائے تو وہ بہتر ی کے لیے ہونہ کہ کسی کا دل دکھانے یا اس کا اعتماد گھٹانے کے لیے۔

    ان سب سے بڑھ کر ہمیں اپنی زندگیوں میں سوشل میڈیا استعمال کرنے کے اصول مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔دیکھا جائے تو اپنوں سے رابطے ،کاروبار کرنے،پیسہ کمانے ، اپنا پیغام دنیا تک پہنچانے اور انسانیت کا ساتھ دینے کے لیے ہمیں بہترین ذریعہ مہیا کیا گیا ہے۔اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس کا استعمال کس انداز میں کر رہے ہیں۔گالم گلوچ کرنے،کسی کی عزت اچھالنے یا مثبت بات دوسروں تک پہنچانے اور ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے۔ہماری ترجیحات جہاں لوگوں کی زندگی برباد کر سکتی ہے وہیں اگر ان کا صحیح تعین کر لیا جائے تو یقین جانیں آپ کا چھوٹا سا عمل نئے ٹیلنٹ کو آگے آنے کا موقع دے گا۔لوگ کھل کر اپنا ہنر دکھا سکیں گے۔اس بات پر ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ ہمارے لوگ ذہانت میں دُنیا بھر سے آگے نکلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔بے مقصد لطیفوں کی ہی مثال لے لیں تو یہ لوگوں کی حاضر دماغی کا منہ بولتا ثبوت ہیں،لیکن ساتھ ہی ہمیں اس بات کا بھی یقین ہے کہ بہت سے با ہنر لوگ محض دوسروں کی تنقید اور بد نامی کے خوف سے اپنا آپ ظاہر نہیں کر پاتے۔معیاری ہنر کو ترجیح دیں، مثبت بات کو آگے بڑھائیں ،اپنی ترجیحات خود طے کریں تا کہ دُنیا نہ صرف یہ جان پائے کہ ہماری پسند میں بھی معیار ہے بلکہ ہمیں آگے بڑھنے کا موقع ملے۔ آج زندگی میں اچھے برے کی تمیز نہ سیکھ پائے تو یہ خدشہ بھی موجود رہتا ہے کہ کہیں اپنی پہچان ہی نہ کھو دیں۔



     

اس صفحے کو مشتہر کریں