1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یہ میرا وطن ہے

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏4 اگست 2011۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم

    ہر بار کی طرح اس بار بھی ماہ اگست آ چکا ہے ، یقینا آپ سب بھی ماہ اگست کے ساتھ ماہ صیام کی برکتوں اور رحمتوں سے بھی فیضیاب ہو رہے ہونگے ۔
    اگست کے آتے ہی کچھ عجیب سی سرشاری رگ و پے میں دوڑنے لگتی ہے ، اور ہمیں اسی سر شاری کو رقم کرنا ہے ، آئیے وطن سے محبت کو الفاظ کو روپ دیں اور اپنے الفاظ میں اپنے وطن سے اپنی محبت کو ایک چھوٹے سے مضمون میں ڈھالیں ۔
    آپ یہاں 25 اگست تک اپنے مضامین ارسال کر سکتے ہیں اس کے بعد آپ سب کے سامنے رائے شماری کا آپشن رکھا جائے گا آپ لوگ اپنے ووٹس کے زریعے بہتر اور زیادہ بہتر مضمون کا انتخاب کرینگے جو کہ 11 اگست سے 14 اگست تک ہو گی جس کے بعد 31 اگست کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا ۔ یاد رہے یہ مقابلہ بہتر اور زیادہ بہتر کے درمیان ہے ۔
    انتظامیہ میں شامل دوست بھی اپنے مضامین بھیج سکتے ہیں مگر وہ اس مقابلے کا حصہ نہیں ہونگے b]
     
  2. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یہ میرا وطن ہے

    لائق تحسین سلسلہ شروع کرنے پر آپ کو مبارک آصف بھائی
    احباب سے التماس ہے کہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیں
     
  3. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یہ میرا وطن ہے

    ہم مضامین کا انتظار فرما رہے ہیں ۔ اور ضروری نہیں کہ کوئی شاہکار مضمون ہی ہو ، جو دل چاہے لکھیں ، محبت کی کوئی حد نہیں ہوتی ۔
     
  4. زینب
    آف لائن

    زینب ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جولائی 2011
    پیغامات:
    273
    موصول پسندیدگیاں:
    12
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یہ میرا وطن ہے

    [​IMG]
     
  5. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یہ میرا وطن ہے

    گزارش ہے کہ اس لڑی میں عید الوطنی یعنی یوم پاکستان کے حوالے سے اپنے مضامین ارسال کیئے جائیں ، یہ مقابلے کی لڑی ہے اس لیے مجبورا مجھے ایسے تمام تبصرے اور مراسلے حذف کرنے پڑینگے کہ جو لڑی کے مقصد کو فوت کر رہے ہیں ۔
     
  6. سارا
    آف لائن

    سارا ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2011
    پیغامات:
    13,707
    موصول پسندیدگیاں:
    176
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یہ میرا وطن ہے

    وہ خون کہو کس مطلب کا
    جس میں ابال کا نام نہیں.
    وہ خون کہو کس مطلب کا
    آ سکے ملک کے کام نہیں.

    وہ خون کہو کس مطلب کا
    جس میں زندگی ، نہ رواني ہے!
    جو پروش ہوکر بہتا ہے ،
    وہ خون نہیں ، پانی ہے ! اس دن لوگوں نے صحیح -- صحیح خون کی قیمت پہچانی تھی. جس دن سبھاش نے برما میں مگي ان سے كرباني تھی. بولے ، "آزادی کی خاطر قربانی تمہیں کرنا ہوگا. تم بہت جی چکے جگ میں ، لیکن آگے مرنا ہوگا. آزادی کے چرے میں جو ، جيمال چڑھائی جائے گی. وہ سنو ، تمہارے شيشو کے پھولوں سے گوتھي جائے گی. آزادی کا سنگرام کہیں پیسے پر کھیلا جاتا ہے؟ یہ شيش کٹوانے کا سودا ننگے سر تکلیفیں اٹھائی جاتی ہے " یوں کہتے -- کہتے مقرر کی آنکھوں میں خون اتر آیا! مکھ خون -- حروف ہو دمک اٹھا دمكي ان ركتم جسمانی! اجان -- باه اونچی کرکے ، وہ بولے ، "خون مجھے دینا. اس کے بدلے بھارت کی آزادی تم مجھ سے لینا. " ہو گئی تقریب میں اتھل -- پتھل ، سینے میں دل نہ سماتے تھے. سر انكلاب کے نارو کے کوسوں تک چھائے جاتے تھے. "ہم دیں گے -- دیں گے خون" کا لفظ بس یہی سنائی دیتے تھے. ترکیب میں جانے کو نوجوان کھڑے تیار دکھائی دیتے تھے. بولے سبھاش ، "اس طرح نہیں ، باتوں سے مطلب سرتا ہے. لو ، یہ کاغذ ، ہے کون یہاں آکر دستخط کرتا ہے؟ اس کو بھرنےوالے عوامی کو سب کچھ -- ایثار كانا ہے. اپنا تن -- من -- رقم -- عوامی -- زندگی ماں کو قربان کرنا ہے. پر یہ عام خط نہیں ، آزادی کا پروانہ ہے. ​​اس پر تم کو اپنے تن کا کچھ روشن خون گرانی ہے! وہ آگے آئے جس کے تن میں خون بھارتی بہتا ہو. وہ آگے آئے جو اپنے آپ کو ہندوستانی کہتا ہو! وہ آگے آئے ، جو اس پر خونی دستخط کرتا ہو! میں کفن بڑھاتا ہوں ، آئے جو اس کو هسكر لیتا ہو! " ساری عوام ہنکار اٹھی -- ہم آتے ہیں ، ہم آتے ہیں! ماں کے قدموں میں یہ لو ، ہم اپنا خون چڈھاتے ہیں! جرات سے بڑھے يبك اس دن ، دیکھا ، بڑھتے ہی آتے تھے ! چاقو -- چھری كٹاريو سے ، وہ اپنا خون گراتے تھے! پھر اس خون کی سیاہی میں ، وہ اپنی قلم ڈباتے تھے! آزادی کے پروانے پر دستخط کرتے جاتے تھے! اس دن تاروں نے دیکھا تھا ہندوستانی یقین نیا. جب لككھا مہا رويرو نے خوں سے اپنا تاریخ نیا. -- جناب گوپال داس ویاس جی
     
  7. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یہ میرا وطن ہے

    پاکستان ۔ پربت سے سمندر تک


    تاحد نگاہ سفیدی ہی سفیدی ہے۔ یوں گماں ہوتا ہے کہ کسی محنتی رنگساز نے پورے ماحول پر چونا پھیر دیا ہو۔یہ چمکتا سفید رنگ یہاں پڑی برف کا ہے۔ جون کے مہینے میں اتنی برف اور ٹھنڈ اور برفیلی ہوائیں۔ یہ قدرت کا ڈیپ فریزر ہے اور یہاں پورا سال ایسی ہی برف موجود رہتی ہے۔ فلک بوس پہاڑیاں اور دل دھلا دینے والی کھائیاں۔ موسم اتنا شدید کہ یہاں سے قریب ترین انسانی بستی ۶ گھنٹے پیدل مسافت پر ہے۔برف، گلیشیر، برفانی دراڑیں، برفانی تودے یہاں کی سوغات ہیں۔اتنے سخت موسم اور حالات میں بھی دنیا کے نایاب جانور یہاں موجود ہیں۔ مارخور، برفانی چیتا اور برفانی لومڑی برفیلے پہاڑوں اور کھائیوں میں بسیرا جمائے ہوئے ہیں۔
    اور پھر برف میں کمی آنا شروع ہوتی ہے۔ جو نشیب پہلے گلیشیر نظر آتے تھے اب نالوں کی شکل اختیار کرتے ہیں اور یہی نالے دریاوں کا طفلی وجود ہے۔ برف پوش پہاڑوں کی سنگلاخ چٹانیں نظر آتی ہیں اور پانی رواں دکھائی دیتا ہے۔درخت، پودے نظر نہیں آتے مگر گھاس اور سبزہ شدید موسم کا مقابلہ کر رہا ہے اور جہاں برف ہٹی گھاس نے اپنا فرض نبھانا شروع کردیا۔
    اور پھر پہاڑ درختوں سے مزین ہونے لگے مگر یوں کہ جیسے فراک پہنے ہوں۔ایک متوازی لکیر جس سے اوپر کسی درخت کا نشان بھی نہیں اور اس سے نیچے درخت موجود ہیں۔اس کو خطِ اشجار(tree line) کہتے ہیں۔
    اب درختوں کے بیچ پتھر کے بنے گھر نظر آتے ہیں۔ پھلدار درخت شدید سردی برداشت کر چکنے کے بعد اب دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ہری ہری باریک کونپلیں عندیہ دے رہی ہیں کہ سردی کا زور ٹوٹ چکا ہے اور بہار کی آمد آمد ہے۔گھروں میں بسنے والے محنت کش کدالیں لیےاور ہل جوتے زمین کا سینہ چیر رہے ہیں۔
    برف پوش چوٹیاں اب پس منظر میں نظر آ رہی ہیں اور ہر طرف پھول کھلے ہیں۔ یہ کسی باغ یا پارک میں لگے پھول نہیں بلکہ تا حد نگاہ پہاڑوں، وادیوں اور چٹانوں پر اگ آنے والے پھول ہیں۔نیلے نیلے، اودے اودے ، پیلے پیلے پھول گویا بہار کا استقبال ہیں۔یہاں درختوں کی کونپلیں پتوں میں بدل چکی ہیں۔پھلدار درخت پھولوں سے لد گئے ہیں اور گندم کے کھیتوں میں بیج ڈالے جا رہے ہیں۔
    صاف شفاف پانی کی جھیلیں آئینے کی طرح جگمگا رہی ہیں۔ مچھلیوں کے شکاری اپنے جال اور کانٹے ڈالے منظر کا حصہ ہیں۔جھیل سے خارج ہونے والا پانی ایک نالے کی شکل میں آگے بڑھ رہا ہے اور نشیب و فراز طے کر کے دریا میں جا گرتا ہے۔دریا کاپانی بھی شفاف ہے اور ایک بل کھاتی سفید لکیر کی طرح نظر آ رہا ہے۔ کہیں یہ بپھرے ہوئے وحشی کی طرح جلال میں نظر آتا ہے تو کہیں آہوِ خوش خرام دکھائی دیتا ہے اور کہیں محسوس ہو تا ہے کہ یہ محو خواب ہے۔

    ۔۔۔جاری ہے۔۔۔
    مکمل مضمون کے لیے اس لڑی پر جائیں۔
    http://www.oururdu.com/forums/showthread.php?p=422658#post422658
     
  8. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یہ میرا وطن ہے

    اگر مطلوبہ تعداد میں مضامین نہیں آئے تو شاید اسکی وجہ وقت کی کمی ہو۔ لہذا اگر انتظامیہ مناسب خیال کرے تو اس مقابلے کی تاریخ میں توسیع کردی جائے۔
     
  9. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یہ میرا وطن ہے


    السلام علیکم
    وقت کی کمی کے سبب بہت سے دوستوں کو اپنے مضامین ارسال کرنے میں پریشانی ہو رہی تھی اس لیے مقابلے کی تاریخ بڑھا دی گئی ہے ۔ آپ سب کے تعاون کا طلبگار ۔
    آصف احمد بھٹی
     
  10. زینب
    آف لائن

    زینب ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جولائی 2011
    پیغامات:
    273
    موصول پسندیدگیاں:
    12
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یہ میرا وطن ہے

    اک خواب میرے آباواجداد نے دیکھا تھا اک خواب میں نے دیکھا ہے



    14 اگست 1947 تاریخ کا وہ روشن ترین دن ہے جب میرے آباواجداد کی قربانیاں رنگ لائیں اور ان کے خواب کو تعبیر ملی یہ خواب انہوں نے میرے لیے دیکھا تھا ایک آزاد اور خود مختاراسلامی ملک کا خواب ۔ یہاں میں آزادی سے اپنی زندگی کو اسلامی نظریات کے مطابق بسر کر سکوں ۔ آج 6 دہائیوں بعد ان کا خواب کچھ یوں شرمندہ ِ تعبیرہے کہ
    اگر میں خود کو مکمل طور پہ اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہوں تو روشن خیال طبقہ مجھ پہ انتہاء پسند کا لیبل لگا دیتا ہے ۔
    اگر دنیا اور دین کو جدید دور کے مطابق لے کے چلنےکی کوشش کروں تو مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو تکلیف ہو جاتی ہے۔
    اگر میلادِ مصطفیﷺ کا جشن مناوں اور کسی ولی کا سہارا تلاش کروں تو مجھے مشرک قرار دے دیا جاتا ہے ۔
    اگر غمِ حسینؑ میں دو آنسو بہا دوں تو مجھے کافرکہا جاتا ہے ۔
    اور اگر صحابہ ؒ سے اظہارِ عقیدت کر دوں تو دشمنِ اہلیبیت بن جاتا ہوں ۔
    ہاں مجھے اتنی مذہبی آزادی ضرور ہے کہ میں جسے دل چاہے کافر اور مشرک کہہ سکتا ہوں اور جسے دل چاہے مردِ مومن بنا دوں اتنی مذہبی آزادی کا تو میرے ابااجدادنے سوچا تک بھی نہ ہو گا ۔

    میرے آباواجداد نے میرے لیے غیروں سے آزادی کا خواب دیکھا تھا مگر انہوں نےیہ نہیں بتایا کہ انہوں نے مجھے یہ آزادی برطانیہ سے دلوائی ہے کہ یہود و نصاریٰ سے، اگر مجھے برطانیہ سے آزادی دلوائی تھی پھر تو میں بہت آزاد ہوں اور اگر یہود و نصاریٰ سے تو یہ ان کی خوش فہمی ہی تھی ،آج 6 دہائیوں بعد برطانیہ ہم پہ براہ ِ راست قابص نہیں ہے مگر امریکہ اور imf کی شکل میں یہود و نصاریٰ جو چاہتے ہیں ہم سے منوا لیتے ہیں اور اپنے چیلوں کے ذریعے میرے ملک پہ حکومت بھی کر رہے ہیں ۔

    میرے آباواجداد نے مجھے آزادی لے کے دی تھی کہ میرے جان و مال محفوظ رہیں اور آج 6 دہائیوں کے بعد میرے جان و مال یوں محفوظ ہیں کہ صبح گھر سے نکلتے وقت گھروالوں کو آخری بار الوداع کہہ کے آتا ہوں کیا پتا اب کی بار اگر میں دہشت گردوں اور قاتلوں کا نشانہ بننے سے بچ گیا تو کہیں محافظوں کی گولیوں کا شکار نہ بن جاوں ۔

    میرے آباواجداد اپنی الگ پہچان چاہتے تھے تو آج دہشت گردی اور کرپشن کے میدان میں پاکستان کی خوب پہچان بن رہی ہے ۔پچھلی 6 دہائیوں میں جہاں اس ملک کو دو لخت کر دیا گیا تو وہیں کبھی مارشل لاء آیا تو کبھی ملااِزم ،کبھی روشن خیال اور آج کل مفامت کی سیاست کا دور ہے ۔اقتدار کی باریا ں لگائے بیٹھے ( پہلے تواڈی باری تے پھر ساڈی باری ) سیاہ ست دان ملک کو کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں اوپر سے اوپر لے کے جانے کی جی جان سے کوشش کر رہے ہیں اور اگر یہ کوششیں اسی طرح ہوتی رہیں تو ایک ،دو دہائیوں بعد ہم سب سے آگے ہوں گے ۔

    میرے آباواجداد نے جس خواب کی تعبیرکے لیے بےتحاشا قربانیاں دی تھیں آج 6 دہائیوں بعد اس خواب کی تعبیر ان کی روحوں کو بھی بے شک تڑپاتی ہو گی ۔اس لیے اب کےمیں ایک خواب دیکھ رہا ہوں خود مختار، کرپشن سے پاک ، عوام کے پاکستان کا خواب ،
    جہاں نفرت، فرقہ واریت ، کرپشن اور طبقاتی تفریق نہ ہو۔
    جہاں بے انصافی ، حق تلفی نہ ہو اور سچ بولنے پہ زبانیں نہ کاٹی جاتی ہوں ۔
    جہاں پیار ہو، امن ہو، مساوات ہو ا،ماں بہنوں کی اور بزرگوں کی عزت ہو،
    جہاں پولیس بلکہ ہر سرکاری ادارے کی پہچان عوام کی خدمت ہو۔
    جہاں والدین کو غربت کی وجہ سے اپنی اولادوں کو نہ مارنا پڑے۔
    میرے آباواجداد خوش قسمت تھے کہ انہوں نے پاکستان بنانے کا جو خواب دیکھا اس کی تعبیر کے لیے ان کو بے لوس اور مخلص لیڈربھی مل گے تھے اور سچے کارکن بھی مگر مجھے اپنے اردگرد کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آرہا جو میرے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکے اور ہم عوام کے پاس بھی ملک کے لیے سوچنے کی کہاں فرصت ہے سارا دن محنت کے بعد دو وقت کی روٹی مل جاتی ہے کافی ہے ۔ویسے بھی خواب دیکھنے میں کیا ہے جو مرضی خواب دیکھو اب ہر خواب شرمندہ ِ تعبیر تھوڑے ہی ہوتے ہیں ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں