1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یہ محبت کا جو انبار پڑا ہے مجھ میں

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زیرک, ‏16 جنوری 2018۔

  1. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    یہ محبت کا جو انبار پڑا ہے مجھ میں
    اس لیے ہے کہ مرا یار پڑا ہے مجھ میں
    چھینٹ اک اُڑ کے مری آنکھ میں آئی تو کھلا
    ایک دریا ابھی تہہ دار پڑا ہے مجھ میں
    میری پیشانی پہ اس بل کی جگہ ہے ہی نہیں
    صبر کے ساتھ جو ہموار پڑا ہے مجھ میں
    ہر تعلق کو محبت سے نبھا لیتا ہے
    دل ہے یا کوئی اداکار پڑا ہے مجھ میں
    میرا دامن بھی کوئی دستِ ہوس کھینچتا ہے
    ایک میرا بھی خریدار پڑا ہے مجھ میں
    کس نے آباد کیا ہے مری ویرانی کو
    عشق نے؟ عشق تو بیمار پڑا ہے مجھ میں
    میرے اکسانے پہ میں نے مجھے برباد کیا
    میں نہیں، میرا گنہگار پڑا ہے مجھ میں
    مشورہ لینے کی نوبت ہی نہیں آ پاتی
    ایک سے ایک سمجھدار پڑا ہے مجھ میں
    اے برابر سے گزرتے ہوئے دکھ، تھم تو سہی
    تجھ پہ رونے کو عزادار پڑا ہے مجھ میں
    میرا ہونا ، میرے ہونے کی گواہی تو نہیں
    میرے آگے مرا انکار پڑا ہے مجھ میں
    بھوک ایسی ہے کہ میں خود کو بھی کھا سکتا ہوں
    کیسا یہ قحط لگاتار پڑا ہے مجھ میں
    انجم سلیمی​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں