1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یہ سنگ ریزوں سے کر لیتے ہیں گوہر پیدا ۔۔۔ تحریر : نجف زہرا تقوی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏18 اگست 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    یہ سنگ ریزوں سے کر لیتے ہیں گوہر پیدا ۔۔۔ تحریر : نجف زہرا تقوی
    Sung.jpg
    دنیا کے ٹاپ فیشن ڈیزائنرکا کہنا ہے کہ ’’حقیقی شائستگی کا راز عمدہ تربیت ہے۔ بیش قیمت ملبوسات، حیران کن زیبائشی اشیاء اور خیرہ کْن حسن کی بھی عمدہ تربیت کے مقابل کوئی حیثیت نہیں‘‘۔

    اُستاد کا لفظ سُنتے ہی ہمارے ذہن میں کسی ایسے شخص کا خاکہ بننے لگتا ہے جو نہ صرف اپنے کام کا ماہر ہو بلکہ ہر سیکھنے کی چاہ رکھنے والے کو بھی گوہر بنا دے۔اُستاد کا مقام و مرتبہ کیا ہے اور اس کی اہمیت پر کیوں بار بار زور دیا گیا ہے، اس حوالے سے ہمیں کراچی کی مریم صدیقی کی جانب سے تحریر موصول ہوئی جو قارئین کی نذر ہے۔

    استاد یا معلم ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جس کا علم وسیع ہو اور وہ مضامین پر عبور رکھتا ہو، جو علم کے حصول کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہے۔ مطالعہ سے شغف اور مسلسل تحقیق کا ذوق رکھتا ہو۔ جو اپنے علم کو کامیابی سے اور سہل انداز میں اپنے تلامذہ میں منتقل کرنا جانتا ہو۔ استاد کو ایسی زرخیز زمین سے تعبیر کیاگیا ہے جو خود بھی سیراب ہوتی ہے اور دوسروں کو بھی سیراب کرتی ہے۔علم ایسا خزانہ ہے جو تقسیم کرنے سے دوگنا ہوجاتا ہے۔ اساتذہ جب طلبہ میں علم کا وسیع خزانہ منتقل کرتے ہیں تو اس خزانے میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اساتذہ کا مقام ہر مذہب، دور اور معاشرے میں بلند رہا ہے۔ مشرق ہو یا مغرب ہر معاشرے میں اساتذہ کو عزت دی جاتی ہے۔ والدین کے بعد سب سے بلند درجہ اساتذہ کا ہی ہے کیونکہ والدین اگر بچوں کی نگہداشت و جسمانی نشوونما کرتے ہیں، ان کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں، ان کی احسن انداز میں پرورش کرکے انھیں پیروں پر کھڑا کرتے ہیں تو اساتذہ بچے کی روحانی تربیت کرتے ہیں اور ان کی روح کو علم سے سیراب کرتے ہیں۔ اساتذہ اپنے طلبہ کی شخصیت کی تشکیل کرتے ہیں۔ ان کے کردار میں نمایاں تبدیلیاں لاتے ہیں۔ان کی ذہنی و جذباتی تربیت کا سبب بنتے ہیں۔

    بچوں کی تعلیم و تربیت کا آغاز ان کی پیدائش کے ساتھ ہی ہوجاتا ہے اسی لیے ماں کی گود کو پہلی درس گاہ کہا جاتا ہے۔ تعلیم اور تربیت یہ وہ دو چیزیں ہیں جو انسانی روح کی غذا ہیں۔بچہ جب دنیا میں آکر اپنی آنکھیں کھولتا ہے، جب اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے اسی لمحے سے اس کی تربیت کا آغاز ہوجاتا ہے۔ بچہ اپنے ماحول کا اثر بہت جلدی قبول کرلیتا ہے۔ اپنے ارد گرد جو وہ سنتا ہے، دیکھتا ہے اسے اپنا لیتا ہے۔ وہ عمر کے اس دور میں صحیح اور غلط میں امتیاز کرنا نہیں جانتا، وہ تو سیکھنے کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہے۔ جو دیکھتا ہے سنتا ہے وہ اس کے ذہن میں محفوظ ہوتا رہتا ہے۔ ایک بچے کا دماغ کورا کاغذ ہوتا ہے۔ ابتدائی عمر سے لے کر شعور آنے تک یہ والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اسے اچھا ماحول فراہم کریں، کیونکہ وہ جس ماحول میں جیسے لوگوں کے درمیان رہے گا جو انھیں کرتا دیکھے گا، وہی اس کورے کاغذ پر تحریر ہوجائے گا۔ اب جو نقش ہوگا وہ تاعمر محفوظ رہے گا۔ بتدریج یہ ذمہ داری چند سال بعد اساتذہ کے کندھوں پر آجاتی ہے۔

    تعلیم و تربیت کو اکثریت ایک ہی اصطلاح شمار کرتی ہے۔ تعلیم اور تربیت دو منفرد چیزیں ہیں۔ تعلیم وہ ہے جو انسان کتابوں میں پڑھتا ہے، کاپیوں میں لکھتا ہے۔ ذہن میں محفوظ رکھ کر، معلومات کا وسیع خزانہ جمع کرکے امتحان دے کر ڈگری لے لیتا ہے۔ جب کہ تربیت وہ ہے جو انسان عمل اور رد عمل کو دیکھ کر، سن کر اور سمجھ کر سیکھتا ہے ۔ ہم بچے سے کہتے ہیں جھوٹ نہیں بولنا لیکن خود ہماری دن بھر کی گفتگو ساٹھ فیصد چھوٹے بڑے جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ بچے نے ہماری بات سنی اسے یاد نہیں رہی، عمل دیکھا اور ذہن نے اسے محفوظ کرلیا۔ بچے نے وہ سیکھا جو ہم نے اپنے عمل سے اسے سکھایا۔ ہم نے اپنے بچے کی ہر غلطی کے بعد اگر اسے جھڑکا تو وہ اسی رد عمل کو اپنے ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ کرلے گا اور بوقت ضرورت کچھ اسی طرح کا رد عمل دکھائے گا لیکن اگر ہم اسے غلطی کے بعد سہارا دے کر اور اس کی ہمت بڑھا کر اسے پورے قد کے ساتھ کھڑا کریں گے تو وہ بھی آئندہ ہر گرنے والے کو اٹھانے کیلئے ہاتھ بڑھائے گا۔ ان کی بہترین تربیت کرنے کے لئے ہمیں ان کے لیے رول ماڈل بننا ہوگا۔

    بحیثیت والدین ہم اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کیلئے تگ و دو کرتے ہیں۔ ان کی پیدائش کے ساتھ ہی ہم ان کے ڈاکٹر ، انجینئر ، بزنس مین بننے کے خواب دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ ان کے لیے بہترین اسکول کا انتخاب کرتے ہیں۔ اعلیٰ معیار تعلیم فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ بھاری فیسیں ادا کر کے، دن رات محنت کرکے ہم اپنے بچے کو پڑھاتے ہیں۔ ہمارے بچے بہترین اساتذہ کی زیر نگرانی تعلیمی مراحل طے کرتے ہیں۔ ہم اپنا سکون، اپنی خواہشات پس پشت ڈال کر بچے کی تعلیم کے لیے فکر مند رہتے ہیں لیکن کیا ہم اپنے بچوں کی تربیت پر بھی اسی قدر توجہ دیتے ہیں؟ کیا ہم انھیں تعلیم یافتہ دیکھنے کے ساتھ ساتھ انھیں تہذیب یافتہ دیکھنے کے آرزومند بھی ہیں؟

    بچوں کی تربیت میں والدین کے ساتھ اساتذہ کا بھی بے حد اہم کردار ہے ۔ اگر والدین بچے کی ظاہری شخصیت کو سنوارتے ہیں تو اساتذہ ان کے باطن کو نکھارتے ہیں۔ کیا آج کے اساتذہ تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ طلبہ کی تربیت ان خطوط پر کر رہے ہیں جو بحیثیت استاد ان کی ذمہ داری ہے؟ایک استاد اپنے طلبہ کیلئے رول ماڈل ہوتا ہے۔ طلبہ استاد کے لیکچر سے زیادہ اس کے عمل کا اثر قبول کرتے ہیں۔ ایک بہترین استاد وہی ہوتا ہے جو اپنے طلبہ میں جن اوصاف کو وہ دیکھنا چاہتا ہے انھیں اپنی ذات کا حصہ بنالے۔ اگر اساتذہ خوش اخلاقی، صلہ رحمی، صبر و تحمل کا پیکر ہوں تو ان کے تلامذہ میں بالخصوص یہ عادات پائی جائیں گی اور یہی تربیت کی عمدہ مثال ہے۔

    اساتذہ کو اس قدر نرم دل ہونا چاہیے کہ طلبہ ان سے باآسانی بنا کسی ہچکچاہٹ کے کسی بھی علمی و ذاتی موضوع پر گفتگو کرسکیں اوران کی ذات کو اتنا ہی سخت گیر بھی ہونا چاہیے کہ طلبہ کے لیے اساتذہ کے ساتھ کسی بھی قسم کی نازیبا گفتگو یا بے ادبی کا تصور بھی محال ہو۔ ماں جیسے اپنے ہر بچے کی نفسیات سے واقف ہوتی ہے بالکل اسی طرح ایک استاد بھی اپنے ہر طالب علم کی نفسیات سے واقفیت رکھتا ہے۔ استاد اس باغبان کی طرح ہوتے ہیں جو اپنے باغ کے ہر پھول اور ہر پودے کے بارے میں آگاہی رکھتا ہے اورہر پودے کی نگہداشت اس کی نفسیات کے مطابق کرتا ہے۔تبھی تو شاعر نے کیا خوب کہا ہے،

    یہ ہنر بخشا گیا ہے خداوندان مکتب کو
    کہ سنگ ریزوں سے کرلیتے ہیں گوہر پیدا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں