1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یہاں لٹتا ہوا مزدور دیکھا تحریر : سید علی شاہ نقوی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏8 ستمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    یہاں لٹتا ہوا مزدور دیکھا تحریر : سید علی شاہ نقوی
    upload_2019-9-8_3-18-4.jpeg
    آئے روز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے جہاں دیگر طبقات کو متاثر کیا ہے وہاں غریب لوگ بالخصوص مزدور انتہائی متاثر ہوا ہے۔ پیٹ کا دوزخ بھرنے کیلئے یہ کن مشکل مراحل سے گزرتاہے یہ دیکھ کر دل کانپ اٹھتا ہے۔ بے روزگاری تیزی سے بڑھنے اور ملازمتوں کا فقدان اور سفارش نہ ہونے کی وجہ سے گریجویٹ نوجوان بھی بعض اوقات مزدوری کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔

    کبھی اسے عارضی طور پر کسی معمولی سی جگہ پر پڑھائی لکھائی کا کام مل جاتا ہے تو کبھی کسی کو ٹیوشن پڑھانے کا، مگر اخراجات پورے نہیں ہوتے تب اسے مزدوری کی طرف بھی آنا پڑتا ہے۔ ہمارے نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’محنت کار اللہ کا دوست ہے‘‘ بلاشبہ یہ کام بہت سخت ہے تاہم اس کا اجر بہت رکھا گیا ہے۔ یہ رزق حلال اور عین عبادت ہے۔

    شہروں میں مختلف مقامات پر مزدوروںکے اڈے بنے ہوئے ہیںجہاں وہ صبح سویرے ہی رزق کیلئے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ کوئی مکان تعمیرکرنے والا ہوتا ہے تو کوئی مرمت کا کام کرنے والا، کوئی تگاری اٹھانے والا ہوتا ہے تو رنگ و روغن کا کام کرنے والا، کام تو سبھی مشکل میں مگر جو سخت کام مکان کی تعمیرکاہے اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ مختلف شہروں میں بنائے گئے اڈے پر جب کوئی مزدور کو لینے کیلئے جاتا ہے تو بے روزگاری اور مجبوریوں کا یہ عالم ہے کہ کئی مزدور اس شخص کی طرف بھاگ آتے ہیں کہ مجھے لے جاؤ، مجھے لے جاؤ۔ اور تو اور اکثراوقات یہ لوگ آپس میں اس لئے دست و گریبان ہو جاتے ہیں کہ مزدوری کیلئے اسے جانا ہے، ملتان ایک قدیمی شہر ہے اس کے مشہور چوراہوں گلگشت کالونی بلال مسجد چوک، دہلی گیٹ چوک، چوک کمہارننوالہ اور چوک شاہ عباس کے اڈے بہت مشہور ہیں جہاں دن نکلتے ہی مزدوروں کی بڑی تعداد حصول رزق کے لئے آپہنچتی ہے۔ اسی طرح ڈیرہ غازی خان میں پاکستان چوک کراچی میں ریگل چوک، شیر شاہ، ایمپریس مارکیٹ اور سہراب گوٹھ، لاہور میں داتا دربار چوک، شاہدرہ لوگ، پرانی انار کلی و دیگر مقامات پر مزدوری کے اڈے ہیں ۔ اسی طرح فیصل آباد میں گھنٹہ گھر چوک، ڈی گراؤنڈ وغیرہ۔ مظفر گڑھ میں قنوان چوک، راولپنڈی میں راجہ بازار اور پیرودھائی، اسلام آباد میں فیض آباد کے مقامات پر مزدوروں کے اڈے موجود ہیں ۔ اسی طرح ملک بھر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں اس طرح کے اڈے قائم ہیں۔

    پاکستان کے بہت سے شہر ایسے ہیں جہاں شدید گرمی پڑتی ہے اور درجہ حرارت 45 سے بھی تجاوز کر جاتا ہے ایسے شہروں میں مزدوری کرنا انتہائی دشوار ہونے کے ساتھ ساتھ جان لیوا بھی ہے۔ مکان کی تعمیر کے دوران مستری اور مزدور صبح سے شام تک تیز دھوپ میں کام کرتے ہیں جس سے نہ صرف ان کی رنگت کالی پڑ جاتی ہے بلکہ مختلف بیماریوں کا شکار بھی ہو جاتے ہیں جس سے ان کی جان جانے کو بھی اندیشہ ہوتا ہے مزدور جب سر پر ریت، سیمنٹ یا ملبہ اٹھائے سیڑھیاں چڑھتا اور اترتا ہے تو یہ منظر بھی بہت کھٹن اور کتنی جانوں کا ضیاع ہو چکا ہے۔ بے شمار مزدور گرنے کی وجہ سے مستقل طور پر معذوربھی ہو چکے ہیں ا ور نہ جانے کتنے مزدور منوں مٹی تلے جاسوئے ہیں۔ گویا کہ یہ کام انتہائی سخت ہے مگر یہ روزِ اوّل سے ہی چلا آرہا ہے یہ کام بھی اگرکوئی کرنے والا نہ ہو تو نظام زندگی کا چلنا بھی ناگزیر ہے۔ رب کریم نے نظام ہی ایسا بنایا ہے کہ ہر شعبے میں متحرک لوگوں، مزدوروں، آفیسروں اور خواتین و بچوں کی ضرورت ہے۔ جنہیں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے زندگی کا سرکل تب ہی رواں دواں رہ سکتا ہے۔ مزدوری کے دوران یہ بھی دیکھنے کو آیا کہ کئی جانیں کرنٹ لگے سے ضائع ہو چکی ہیں کیونکہ جب کوئی عمارت تعمیر ہو رہی ہوتی ہے یا کسی بلڈنگ پر رنگ و روغن ہو رہا ہوتا ہے تو پانی کا استعمال لازم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے کرنٹ لگنے کے واقعات رونما ہو جاتے ہیں۔ چائلڈ لیبر بھی ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ہے ہمارے ملک میں یہ شرح بہت بڑھ چکی ہے۔ حکومتی سطح پر اور نجی ادارے اس کی حوصلہ شکنی کے لئے کردار ادا کر رہے ہیں مگر اس کے باوجود بھی اس پر قابو پانا مشکل تر ہو چکا ہے۔ آپ کسی بھی بازار سے گزریں تو آپ کو کم عمر لڑکے جن کی پڑھنے کی عمر ہوتی ہے وہ آپ کو کام کرتے نظر آئیں گے۔ چائے کے ہوٹلوں اور کھانے پینے والے درمیانے درجے کے ہوٹلوں میں بچوں کی بڑی تعداد کام کرتے دکھائی د یتی ہے۔ یہ بچے کیوں کام کرتے ہیں؟ اس کی بڑی وجہ غربت ہے والدین مجبور ہو کر بچوں کو کام پر لگادیتے ہیں کسی عورت کا خاوند مر چکا ہوتا ہے یا پھر وہ بیمار ہوتا ہے۔ یا گھر کے دیگر لوگوں کا روزگار مستقل نہیں ہوتا ، ہوا کی روزی ہوتی ہے کام مل گیا تو ٹھیک ورنہ گھر واپسی، اڈوں پر موجود مزدوروں کو کئی کئی دن کام نہیں ملتا، جس کی وجہ سے وہ شدید مالی بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وطن عزیز میں بعض واقعات ایسے بھی ہوچکے ہیں کہ غربت سے تنگ آکر بچوں کا گلہ دبا دیا گیا یا پھر انہیں فرورخت کر دیاگیا۔ اسی طرح کئی لوگ اپنے بچوں کو بھوکا دیکھ کر دلبرداشتہ ہوتے ہوئے خود کو موت کے حوالے کر چکے ہیں۔ ایسے دلخراش واقعات ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ غریب لوگوں کی مجبوریاں سمجھنے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ صاحب ِ ثروت لوگ زندگی کے مزے لے رہے ہیں گرمیوں میں ٹھنڈے کمرے اور سردیوں میں گرم ماحول نے ان کی سوچوں کو اسلام سے دور کردیا ہے انہیں معلوم ہی نہیں کہ ان کے مال میں سے غریب کا بھی حصہ ہے۔ بہت کم امیر ایسے ہیں جو کہ غریبوں اور ضرورت مندوں کا خیال رکھتے ہیں اگر سبھی صاحب ثروت اپنا کردار صحیح طرح سے ادا کریں تو غریبوں کی مشکلات میں کافی حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔ جو امیر لوگ اپنے مال میں سے غریب کی مدد نہیں کرتے وہ یقیناً غلطی پر ہیں اور اسلام کی نفی کر رہے ہیں۔ حکومت نے غریبوں کی مدد کیلئے جو ادارے قائم کئے ہیں وہ بھی کرپشن کا شکار ہیں اور ان کا ضابطہ یعنی پراسس ایسا دشوار ہے کہ جسے عبور کرنا غریب کیلئے پل صراط سے گزرنا ہے، صحیح لوگوں تک زکوٰۃ اور امداد پہنچانا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا مزدور آج خود کشی کرنے اور بچے فروخت کرنے یا انہیں اپنے ہی ہاتھوں قتل کرنے پر مجبور ہو چکا ہے جو نہ صرف ہم سب کیلئے بلکہ صاحب ِ ثروت لوگوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔

    زمانے کا عجب دستور دیکھا
    یہاں لٹتا ہوا مزدور دیکھا​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں