1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یوم اقبال۔۔۔او راقبال کا پیغام

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از پاکستانی55, ‏9 نومبر 2014۔

  1. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    آج پوری قوم یوم اقبال منا رہی ہے۔ ملک بھر میں شاعر مشرق علامہ اقبال کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے تقریبات منعقد ہو رہی ہیں۔ اقبال کی شاعری آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ قوموں کی بدلتی تقدیروں کے بارے میں اقبال نے فرمایا ہے کہ

    نشان یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
    کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
    کمال صدق ومروت ہے زندگی ان کی
    معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تفسیریں
    قلندرانہ ادائیں سکندرانہ جلال
    یہ امتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں
    خودی سے مرد خود آگاہ کا جمال و جلال
    کہ یہ کتاب ہے باقی تمام تفسیریں
    شکوہ عید کا منکر نہیں ہوں میں لیکن
    قبول حق ہیں فقط مرد حر کی تکبیریں
    حکیم میری نواؤں کا راز کیا جانے
    ورائے عقل ہیں اہل جنوں کی تدبیریں
    یقیناًاقبال نے درست کہا ہے کہ زندہ قوموں کی نشانی یہی ہے کہ اس کی تقدیر صبح شام بدلتی ہے۔ اسی لئے تو مسلمانوں کی وہ عالیشان سلطنت جس کے آگے پوری دنیا سرنگوں تھی ختم ہو گئی اور وہ تخت برطانیہ جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا آج اس قدر محدود ہو گئی ہے کہ اس میں سورج مشکل سے طلوع ہو تا ہے۔
    اس لئے قومیں اپنی محنت سے عروج بھی حاصل کرتی ہیں اور پھر جب محنت چھوڑ دیتی ہیں تو زوال بھی انہی کا مقدر بن جاتا ہے۔ کسی قوم کے لئے نہ تو اس کا عروج مستقل ہے اور نہ ہی اس کا زوال مستقل۔ جب بھی کوئی قوم اپنا مقدر بدلنے کے لئے تیار ہو جائے تو بقول اقبال کے وہ صبح شام اپنی تقدیر بدل سکتی ہے۔
    کیا میاں نواز شریف کا دورہ چین پاکستان کی تقدیر بدل سکے گا یا عمران خان کے دھرنے کا نیا اعلان ملک کی تقدیر بدلے گا۔ کیا وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈارکے آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات ملک کی تقدیر بدل دیں گے؟۔ کون بدلے گا اس ملک کی تقدیر ،یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہر پاکستانی تلاش کر رہا ہے۔ بابائے سوشلزم مرحوم شیخ رشید ( یہ پنڈی والے شیخ رشید نہیں ) سے جب پوچھا کہ آپ انقلاب کی بات کرتے رہے لیکن سوشلزم کا انقلاب نہیں آیا تو انہوں نے سوال کرنے والے سے پوچھا کہ کیا تمہارے گھر میں روٹی پک رہی ہے ؟، تو سوال کرنے والے نے جواب دیاکہ جی اللہ کا شکر ہے تو بابائے سوشلزم نے جواب دیا کہ بس انقلاب بھی اسی لئے نہیں آرہا۔ علامہ اقبال کے پیغام میں اس قدر سچائی ہے کہ آج ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی یہ کلام حسب حال ہے۔جیسے کہ یہ اشعار
    ہنسی آتی ہے مجھے حسرت انسان پر
    گناہ کرتا ہے خود لعنت بھیجتا ہے شیطان پر
    اسی طرح یہ اشعار آج بھی ہر دل کی آواز ہیں ۔ اقبال نے ہر عمر کے لوگوں کے لئے پیغام دیا ہے۔ اقبال کا پیغام کسی ایک نسل رنگ یا عمر کے لوگوں کے لئے نہیں ہے۔ اس میں انقلابی شاعری بھی ہے اور ایسے سادہ اشعار بھی ہیں
    ترے عشق کی انتہاء چاہتا ہوں
    مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
    بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
    بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
    اقبال کے نزدیک ایک ایک فرد کی محنت کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے ناگزیر ہے۔ اسی لئے تو انہوں نے کہا ہے کہ
    افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
    ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
    آج پاکستان میں نیا پاکستان بنانے کی بات ہو رہی ہے۔ ہر لیڈر خود کو قوم کا قائد مانے بیٹھا ہے لیکن اقبال نے قیادت کی خصوصیات جس قدر خوبصورتی سے بیان کی ہیں کیا آج کی ہماری قیادت اس پر پورا اترتی ہے؟۔
    تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
    حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
    ہے وہی ترے زمانے کا امام برحق
    جو تجھے حاضرو موجود سے بیزار کرے
    موت کے آئینہ میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست
    زندگی ترے لئے اور بھی دشوار کرے
    اقبال نے سو سال قبل یہ اشعار کہے لیکن لگتا ہے کہ آج کہے گئے ہیں۔ یہ سوچ کر دل افسردہ ہے کہ ہم نے سو سال میں بھی خودد کو تبدیل نہیں کیا اور ایک صدی مزید ضائع کر دی۔ افسوس در افسوس
    گونگی ہوگئی آج کچھ زبان کہتے کہتے
    ہچکچا گیا خودد کو مسلماں کہتے کہتے
    یہ بات نہیں کہ مجھ کو اس پر یقین نہیں
    بس ڈر گیا خود کو صاحب ایماں کہتے کہتے
    توفیق نہ ہوئی مجھ کو ایک وقت کی نماز
    اور چپ ہوا موذن آذان کہتے کہتے
    کسی کافر نے جو پوچھا ہے کونسا مہینہ
    شرم سے پانی ہاتھ سے گر گیا رمضان کہتے کہتے
    یہ سن کر چپ سادھ لی اقبال اس نے
    یوں لگا جیسے رک گیا وہ مجھے حیوان کہتے کہتے
    http://dailypakistan.com.pk/columns/09-Nov-2014/161092
     
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    شاعر مشرق علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے، ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔
    انہوں نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی اور مشن ہائی اسکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔
    شعر و شاعری کا شوق بھی آپ کو یہیں پیدا ہوا اور اس شوق کو فروغ دینے میں آپ کے ابتدائی استاد مولوی میر حسن کا بڑا دخل تھا۔
    لاہور کے بازار حکیماں کے ایک مشاعرے میں انہی دنوں اقبال نے ایک غزل پڑھی جس کا ایک شعر یہ تھا۔
    [​IMG]
    اس شعر کا سننا تھا کہ محفل مشاعرہ میں موجود افراد پھڑک اٹھے اور مرزا ارشد گورگانی نے اسی وقت پیشن گوئی کی کہ اقبال مستقبل کے عظیم شعراء میں سے ہوگا۔
    انہی دنوں انہوں نے غزل کے ساتھ ساتھ نظم پر بھی توجہ دی، ایک ادبی مجلس میں انہوں نے اپنی اولین نظم ”ہمالہ“ سنائی تو اسے بہت پسند کیا گیا اور ان کی شہرت پھیلنا شروع ہوگئی۔
     
  3. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    اس زمانے میں انہوں نے بچوں کے لئے بھی بہت سی نظمیں لکھی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ مکالماتی بیان مثلا مکڑا اور مکھی، پہاڑ اور گلہری، گائے اور بکری کو بھی نہایت خوبصورت پیرائے میں تخیل کا جز بنا دیا۔ کبھی بچے کی دعا کہہ گئے، جو ہر اسکول کے بچے کی زبان پر ہے۔
    [​IMG]
    لاہور اورینٹل کالج میں 1893 سے لے کر 1897 تک سرایڈون آرنلڈ کے زیرسایہ تعلیم حاصل کرنے کے دوران اقبال نے پہلی مرتبہ جدید فکر کا مطالعہ کیا تھا۔ 1899 میں یہاں سے ایم ۔ اے فلسفہ کیا، ساتھ ہی عربی شاعری پڑھانا شروع کی اور معاشرتی و معاشی مسائل پر قلم اٹھایا۔
    یونیورسٹی آف کیمبرج سے لاء کرنے کے لئے اقبال نے 1905 میں ہندوستان چھوڑا لیکن یہ فلسفہ ہی تھا جس نے ان کی سوچ پر غلبہ کر لیا ۔ٹرینٹی کالج میں ہیگل اور کانٹ کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ یورپی فلسفہ کے بنیادی رجحانات سے واقف ہوگئے۔ فلسفہ میں دلچسپی نے انہیں1907 میں ہائیڈ لبرگ اور میونح پہنچایا جہاں نطشے نے ان پر گہرے اثرات مرتب کئے، خود ان کے الفاظ میں:
    [​IMG]
    یہی وہ دور ہے جب ان کا زاویۂ نگاہ تبدیل ہوا اور ان کی شاعری میں پیغامیہ رنگ دیکھنے میں آتا ہے۔ مغربی تہذیب بیزاری کا اظہار واشگاف الفاظ میں کرتے ہیں۔
    [​IMG]
     
  4. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    مغربی معاشرے پر کچھ ایسے بھی روشنی ڈالی۔
    [​IMG]
    اقبال نے وہیں ایران میں روحانی ترقی کے موضوع پر ایک مقالہ لکھ کر فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ایک برس بعد 1908 میں انہیں انگلستان میں لنکن اِن کے مقام پر بار میں آنے کی دعوت دی گئی۔ اس برس وہ وکیل اور فلسفی بن کر ہندوستان واپس آئے، واپسی کے بعد جلد ہی وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ پڑھانے لگے تاہم انہیں ہندوستانیوں کے احساسِ غلامی کا احساس بہت زیادہ تھا۔
    [​IMG]
    اس کے علاوہ انہوں نے برطانوی راج کے محکوم ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار کو عیاں کرنے میں گہری دلچسپی لی، یورپ روانگی سے قبل اقبال ایک آزاد خیال قوم پرست اور انڈین نیشنل کانگریس کے ہمدرد تھے تاہم 1911 میں تنسیخ تقسیم بنگال ہوگئی۔ پھر ان کا رجحان شاعری میں ہندوستان کے ساتھ مسلمانوں کی طرف بہت نمایاں نظر آتا ہے، جیسے ان کا یہ ترانہ ملاحظہ فرمائیں۔
    [​IMG]
    اب وہ اپنے نکتۂ نظر میں مسلمانوں کی علیحدگی پسندی اور آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت کرنیوالے علیحدگی پسند بن گئے تھے، 1922 میں انہیں سر کے خطاب سے نوازا گیا تاہم اسی دور میں علامہ اقبال کا شکوہ مسلمانوں کے دل کی پکار ثابت ہوا۔
     
  5. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    شکوہ لکھنے پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے جواب شکوہ لکھ کر تمام نقادوں، معترضین کو لاجواب کر دیا کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔
    [​IMG]
    چار سال بعد، 1926 میں اقبال پنجاب مجلس قانون ساز میں منتحب ہوئے اور آل انڈیا مسلم لیگ سے نزدیک تر ہو گئے۔ انہوں نے آزادی کے بعد ہندو حکومت کو تسلیم کرنے کی بجائے ایک علیحدہ مسلمان وطن کے لئے زیادہ سے زیادہ حمایت کا اظہار کیا، صرف قوم کو نیند سے اٹھانے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے لئے دعائیہ الفاظ کا سہارا بھی لیا۔
     
  6. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    در حقیقت شمال مغربی ہندوستان میں مسلم اکثریت والے علاقوں پر مشتمل ایک علیحدہ مسلمان وطن بنانے کا تصور سب سے پہلے اقبال نے ہی 1930 میں پیش کیا تھا۔ لیکن پھر بھی وہ سب سے پہلے ایک فکری قوت تھے اور مسلمان ثقافتی زندگی میں ان کا مقام اسی حوالے سے ہے کیونکہ وہ ملت اسلامیہ میں ایک نئی امید پیدا کرنا چاہتے تھے۔
    [​IMG]
    دینیات تصوف مشرقی و مغربی فلسفہ اور انسانیت کے مقدر کو سمجھنے اور اس کی وضاحت کرنے کے لئے فارسی اردو شاعری کے رمزیہ اور نازک انداز کو استعمال کرنے میں اقبال کو اپنے ہم عصر مسلمان فلسفیوں میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ وسعت میں آر پار جانے میں یہ اقبال کی اہلیت ہے جو فلسفہ کو سماجی ثقافتی مسائل سے جدا کرتی ہے اور جس نے انہیں ایک فلسفی اور ثقافتی ہیرو بنایا۔
     
  7. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    لیکن پاکستان کی آزادی سے پہلے ہی 21 اپریل 1938 کو علامہ اقبال انتقال کر گئے تھے تاہم ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پر قوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔
    شاعر مشرق علامہ اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی، علامہ صاحب بہت بڑی بات انتہائی آسانی سے کہہ جاتے تھے۔
    [​IMG]
    یہی وجہ ہے کہ کلامِ اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے اور مسلمانانِ عالم اسے بڑی عقیدت کے ساتھ زیرِ مطالعہ رکھتے اور ان کے فلسفے کو سمجھتے ہیں، علامہ اقبال انسانی خودی کے قائل تھے جب ہی وہ کئی جگہ کہتے ہیں۔
     
  8. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    خودی ہی وہ عنصر ہے جو انسانوں کو اسرار شہنشاہی سکھاتی ہے، علامہ اقبال کہتے ہیں۔
    [​IMG]
    اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا، ان کی کئی کتابوں کے انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں اور اس دور میں مسلم امہ میں موجود مایوسی کے باوجود وہ روشن مستقبل کی توقعات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے تھے۔
    [​IMG]
    http://www.dawnnews.tv/news/1012056
     

اس صفحے کو مشتہر کریں