1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یاس یگانہ چنگیزی کو غالب شکنی پر بہت شہرت ملی ۔۔۔ عبدالحفیظ ظفر

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏7 اپریل 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    یاس یگانہ چنگیزی کو غالب شکنی پر بہت شہرت ملی ۔۔۔ عبدالحفیظ ظفر

    اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یاس یگانہ چنگیزی کو مرزا اسداللہ غالب پر کڑی تنقید کرنے کی وجہ سے خاصی شہرت ملی لیکن وہ شاعر بھی بہت عمدہ تھے۔ ان کی غزلوں میں جو سادگی‘ سلاست اور مضمون آفرینی ہے وہ بہت کم شعرا ء کے ہاں ملتی ہے۔ بعض نقادوں کی رائے میں جدید شاعری کے آغاز سے پہلے جس شاعر نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یگانہ چنگیزی تھے۔ جدید اردو شاعری کی بنیاد بھی ایک طرح سے انہوں نے رکھی جب انہوں نے غزل کے موضوعات تبدیل کیے۔ کنہیا لال کپور بھی غالب شکن تھے لیکن انہوںنے نثر کے ذریعے اپنی بھراس نکالی۔ انہوں نے غالب کے ان اشعار کو بھی نہیں بخشا جہاں غالب نے نکتہ آفرینی اور فلسفے سے کام لیا۔ بہرحال یہ ان کی رائے ہے اور اس سے اختلاف کرنے کا حق بھی سب کو ہے۔
    45 شعری مجموعوں کے خالق یاس یگانہ چنگیزی 1884ء کو عظیم آباد( پٹنہ) بھارت میں پیدا ہوئے اصل نام مرزا واجد حسین تھا۔ بعد میں وہ لکھنو میں آباد ہو گئے اور یگانہ لکھنوی کے نام سے لکھنے لگے۔ دراصل یاس یگانہ چنگیزی کے آبائو اجداد ایران سے ہندوستان آئے تھے اورمغل فوج میں شامل ہو گئے تھے۔ انہوں نے پہلے یاس تخلص رکھا اور پھر یگانہ۔ یگانہ کا مطلب ہے جسکا کوئی مقابلہ نہیں یعنی (Matchless) شروع سے ہی وہ باغیانہ روش رکھتے تھے اور اختراع پسند (Innovator) بھی تھے۔ ان کے ہم عصر شاد عظیم آبادی نے ان کے مزاج کو سمجھا اور ان کی صلاحیتوںکو نکھارا۔ یگانہ کلکتہ چلے گئے اور وہیں شادی کی لیکن پھر انہوںنے لکھنو میں ہی نیا گھر ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا کیونکہ کلکتہ میں وہ غیر مطمئن تھے یہاں انہیں مناسب ماحول نہ ملا۔ وہ اناپرست تھے اور اصولوں پر سمجھوتہ بھی نہیں کرتے تھے اس لئے وہاںکے شعرا ء سے ذہنی مطابقت پیدا نہ کر سکے۔ اپنی شخصیت اور مزاج کے عین مطابق یاس یگانہ چنگیزی کا شعری لہجہ بھی براہ راست ہوتا تھا۔بڑے بے باک تھے اور کئی معاملات کے حوالے سے جارحانہ رویہ رکھتے تھے۔ ان کے مشہور شعری مجموعوں میں ''نشتر یاس‘ ترانہ‘ آیات وجدانی اور گنجینہ‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے بہت زیادہ لکھا آخر 45 شعری مجموعے ایسے ہی وجود میں نہیں آگئے۔
    یاس یگانہ اپنے نام کے ساتھ چنگیزی اس لئے لگاتے تھے کیونکہ وہ اپنے آپ کو مغل سمجھتے تھے۔ بہرحال یہ ان کا دعویٰ تھا۔ بعض نقاد از راہ مذاق کہتے تھے کہ یاس یگانہ کے شعری لہجوں میں بعض اوقات بڑی ''جارحیت‘‘ ملتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی رگوں میں چنگیزی خون دوڑ رہا تھا۔
    یاس یگانہ چنگیزی کے بہت سے اشعار متاثر کن ہیں لیکن کئی اشعار ایسے بھی ہیں جو تاثریت سے خالی ہیں لیکن چونکہ انہوں نے لکھا بہت ہے اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سارا کام تو اعلیٰ درجے کا نہیں تھا۔ سادگی اور سلاست ان کی شاعری کے بنیادی اوصاف ہیں اور پھر اس کیساتھ ساتھ انہوں نے اردو غزل میں موضوعات کے نئے امکانات تلاش کیے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ان کی شاعری کا کینوس خاصا وسیع ہے۔ ان کے ان گنت شعر فکری توانائی سے معمور ہیں۔ ذرا یہ شعر ملاحظہ کریں۔
    انقلاب دہر نے آنکھوں کو اندھاکر دیا
    آخر اب نظارہ فصل خزاں کیوں کر کریں
    کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ یگانہ صاحب آتش زیرپا ہیں۔ ایک الائو ہے جو ان کے سینے میں جل رہا ہے اور وہ اپنے فکر کی آتش میں سارے جہاںکو جلانے کے آرزومند ہیں۔ وہ خودکہتے ہیں۔
    کلام یاس سے دنیا کو ایک آگ لگی
    یہ کون حضرت آتش کا ہم زباں نکلا
    غالب کا شعر ہے
    واعظ نہ خود پیو نہ کسی کو پلا سکو
    کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی
    یاس یگانہ چنگیزی کی اس حوالے سے مضمون آفرینی ملاحظہ کیجئے۔
    واعظ کی آنکھیں کھل گئیںپیتے ہی ساقیا
    یہ جام مے تھا یا کوئی دریائے نور تھا
    دیکھا جائے تو اس شعر میں بھی بغاوت کی بو آتی ہے لیکن ایسے خیالات و احساسات تو ان کی فطرت کا حصہ تھے ان کے ایک شعر پر تو بہت تنقید کی گئی لیکن یہ خاکسار یہ سمجھتا ہے کہ دراصل یگانہ کی فکر کو غلط سمجھا گیا وگرنہ انہوں نے وہ نہیں کہا جو کچھ لوگوں نے اخذکر لیا۔ پہلے یہ شعر پیش خدمت ہے۔
    سب ترے سوا کافر‘ آخر اس کا مطلب کیا؟
    سر پھرا دے انساں کا‘ آخر ایسا مذہب کیا؟
    یہ شعر مذہب کے خلاف نہیں بلکہ مذہبی انتہا پسندی اور تعصب کے خلاف ہے اور اس خاکسار کویہ کہنے میں کوئی تامل نہیںکہ یگانہ صاحب نے یہ شعر جل کے کہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ شعر پڑھ کر اشفاق احمد کا شہرہ آفاق افسانہ ''گڈریا‘‘ یاد نہیں آتا؟ اس افسانے کا بنیادی موضوع بھی مذہبی تعصب ہی تھا۔ بہرکیف اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ شاعر معروضی صداقتوں سے اغماض نہیں برت سکتا۔ انیس ناگی مرحوم کہا کرتے تھے جو ادب پارہ عصری صداقتوں سے تہی ہو اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہئے۔ یاس یگانہ چنگیزی ایک حساس آدمی تھے اور حساس آدمی اپنی بے کسی اور بے بسی پر کڑھتا رہتا ہے پھر ایک وقت آتاہے کہ اس کے الفاظ احتجاج کا روپ اختیار کر لیتے ہیں۔ یگانہ صاحب کے ہاں بھی کبھی کبھی ایسی صورتحال ملتی ہے۔ ان کی شاعری کے کچھ اور رنگ ملاحظہ کیجئے۔
    قفس نصیبوں کو تڑپا گئی ہوائے بہار
    چھری سی دل پہ چلی جب چلی ہوائے بہار
    اور پھر ان کا یہ مشہور شعر کتنی بڑی فطری حقیقت کو آشکار کرتا ہے۔
    خودی کا نشہ چڑھا‘ آپ میں رہا نہ گیا
    خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
    اور اس شعر میں انہوںنے فطرت کا سبق پڑھایا ہے۔
    دکھایا گور سکندر نے بڑھ کے آئینہ
    جو سر اٹھا کے کوئی زیر آسماں نکلا
    اور اس شعر کی اثر انگیزی کا کیا کہنا
    وطن کو چھوڑ کر جس سرزمیں کو میں نے عزت دی
    وہی اب خون کی پیاسی ہوئی ہے کربلا ہو کر
    سیاسی اور معاشرتی حوالے سے ان کے دور میں جو شکست و ریخت ہوئی‘ یہ شعر مکمل طور پر اس صورتحال کا محاکمہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
    زمانہ پھر گیا چلنے لگی ہوا الٹی
    چمن کو آگ لگا کر جو باغباں نکلا
    کبھی کبھی اپنی کم نصیبی پر وہ ماتم کناں ہوتے ہیں‘ یہ شعر دیکھیں
    آیا نہ کوئی خواب میں بھی ملک عدم سے
    افسوس کہ اتنی بھی کشش دل نہیں رکھتا
    اور اس شعر میں ان کی قوت متخیلہ پر رشک کرنے کو جی چاہتا ہے۔
    دل جلا کر وادی غربت کو روشن کر چلے
    خوب سوجھی جلوۂ شام غریباں دیکھ کر
    قوت متخیلہ کے حوالے سے ان کا یہ شعر بھی دادوتحسین کے قابل ہے۔
    مزا نہ پوچھئے واللہ دل دکھانے کا
    کہاں کا خوف خدا ٹھان لی تو کر گزرے
    ذیل میں یاس یگانہ چنگیزی کے کچھ اور اشعار پیش کیے جا رہے ہیں جن میں ان کے افکار مکمل شعری طرز احساس کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔
    فکر انجام نہ آغاز کا کچھ ہوش رہا
    چار دن تک تو جوانی کا عجب جوش رہا
    ٹھہر ٹھہر دل وحشی بہار آنے دے
    ابھی سے بہر خدا اتنا بے قرار نہ ہو
    وائے حسرت کہ تعلق نہ ہوا دل کو کہیں
    نہ تو کعبے کا ہوا میں نہ صنم خانے کا
    مجھے اے ناخدا آخر کسی کو منہ دکھانا ہے
    بہانہ کر کے تنہا پار اتر جانا نہیں آتا
    ہنس کے کہتا ہے کہ گھر اپنا قفس کو سمجھو
    سبق الٹا میرا صیاد پڑھاتا ہے مجھے
    کوئی اتنا بھی نہیں آپ سے غیبت ہی کرے
    کانٹے پڑتے ہیں زباں میں میرے افسانے سے
    کیوں نہ سینے سے لگی رہتی امانت تیری
    داغ دل کیوں نہ ہمیں جان سے پیارا ہوتا
    دوا میں اور دعا میں تو اب اثر معلوم
    بس اک امید اثر ضبط ناگوار میں ہے
    یاس یگانہ چنگیزی 1956 ء کو لکھنو میں وفات پا گئے، ان کی شاعری انہیں زندہ رکھے گی۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں