1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یار کہتا ہے تجلئ لقا تھی میں نہ تھا

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏8 جنوری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    یار کہتا ہے تجلئ لقا تھی میں نہ تھا
    طور سینا پر وہی جلوہ نما تھی میں نہ تھا

    گنبد افلاک پر جس کا ہوا اکثر گزر
    وہ دل بیمار غم کی اک دعا تھی میں نہ تھا

    ہر طرف تھی عالم امکاں میں جو پھیلی ہوئی
    میرے اسرار حقیقت کی ضیا تھی میں نہ تھا

    مثل بوئے گل ترے کوچہ میں تھا جس کا گزر
    اے صنم وہ میری جان مبتلا تھی میں نہ تھا

    بوستاں میں طالب دیدار تھی جو آپ کی
    وہ گل نرگس کی چشم با ضیا تھی میں نہ تھا

    بعد مردن قبر میں مجھ کو سلا کر یہ کہا
    درد تھا بیتابیاں تھیں اور قضا تھی میں نہ تھا

    اک جھلک دکھلا کے اپنی کس ادا سے کہہ گیا
    جس کو دیکھا وہ بھی شان کبریا تھی میں نہ تھا

    جس نے چوما وقت پامالی قدوم ناز کو
    خون دل با شوخئ رنگ حنا تھی میں نہ تھا

    درگزر کر آئنے سے آپ نے موڑا ہے منہ
    اس میں میری حسرت حیرت فزا تھی میں نہ تھا

    زاری و شیون ہماری کب سنی ہیں آپ نے
    بوستاں میں بلبل نغمہ سرا تھی میں نہ تھا

    اڑ کے جو پہنچی صبا کے ساتھ گلیوں میں تری
    مشت خاک کشتۂ تیغ ادا تھی میں نہ تھا

    دیکھ کر ان کو جو میں فرط مسرت سے مرا
    وہ لگے کہنے کہ یہ اس کی قضا تھی میں نہ تھا

    تھا میں تصویر خیالی ہستئ موہوم میں
    وہ بھی شان عشق شاہ دو سرا تھی میں نہ تھا

    اے جمیلہؔ بوستان عشق میں وقت سحر
    نکہت گل سی جو پہنچی وہ صبا تھی میں نہ تھا
    جمیلہ خدا بخش​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں