ہوائے درد چلی اور اُس کی یاد آئی لو پھر سے شام ڈھلی اور اُس کی یاد آئی زرا سے ہونٹ ہلے تھے کہ اشک بہ نکلے پھر ایک چپ سی لگی اور اُس کی یاد آئی کسے کے پاؤں کی آہٹ سے دل دھڑکنے لگا کسی کی زلف کھلی اور اُس کی یاد آئی کسی کی باتوں کی بارش میں ہم بھی بھیگ گئے اور یوں بھیگنے سے پھر اُس کی یاد آئی