1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہولوکاسٹ حقیقت یا افسانہ

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از نورمحمد, ‏8 اپریل 2011۔

  1. نورمحمد
    آف لائن

    نورمحمد ممبر

    شمولیت:
    ‏22 مارچ 2011
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    ملک کا جھنڈا:
    ہولوکاسٹ حقیقت یا افسانہ



    6 ناٹک کے چند سین
    نیور مبرگ کے ناٹک میں اسوالڈپہل کا چہرہ نمایاں‌ نظر آتا ہے۔ پہل 1934 تک جرمن بحریہ میں افسر رہا پھر ہملر کی درخواست پر اسے ایس ایس میں منتقل کردیا گیا۔ یہاں‌اس نے گیارہ برس تک اقتصادی اور انتظامی دفترکی سربراہی کے فرائض انجام دیے۔ 1941 کے بعد کنسنٹریشن کیمپوں کے پیداواری شعبے کی نگرانی اسی دفتر کے ذمے تھی۔ پہل بڑا حساس اور ذہین تھا۔ عدالت میں انتہائی افسردہ اوردل شکستہ نظر آتا۔ سینٹر میکارتھی نے اس کی اس کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ پہل پر سخت مظالم ڈھائےگئے جن کی تاب نہ لاکر اس نے چند کاغذات پر دستخط کردیے۔ انہی میں اس کا یہ بیان بھی تھا کہ 1944 کی گرمیوں میں اس نے آسخوٹز کیمپ میں گیس چیمبر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ نام نہاد عدالت کے سامنے اس نے اپنے اس بیان کی تردید کردی۔ مگر ناٹک رچانے والوں کو اس کی کیا پرواہ تھی۔ پہل کا دوست ڈاکٹر الفریڈسائیڈل ایک ممتاز وکیل تھا۔ اس نے عدالت میں دلائل سے ثابت کیا کہ پہل بے گناہ ہے اس پر یہودیوں کی نسل کشی کا الزام محض فراڈ ہے استغاثہ پہل کے خلاف زرا بھی سچی شہادت پیش نہ کرسکا لیکن عدالت نے پھر بھی اسے مجرم قرار دیا۔ صفائی کا ایک اور گواہ ایس ایس کا لیفٹیننٹ کرنل کرٹ شمد کلیوناؤ تھا اس نے18 اگست 1940 کو ایک حلفیہ بیان عدالت میں پیش کیا جس میں کہا تھا کہ کنسنٹریشن کیمپوں میں بے ضابطگیوں کی شکایت پیدا ہوئی۔ تو رائخ نے تحقیقات کے لیےکونرڈ مورگن کو جج مقرر کیا۔ پہل نے اس کے ساتھ پورا تعاون کیا۔ اور جب ایک کیمپ کمانڈنٹ پر قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کے الزام میں مقدمہ چلا تو پہل نے اسے سزائے موت دینے کی زبردست حمایت کی۔ قارئین یہ سن کر حیران ہونگے کہ نیورمبرک کے سوانگ سے متعلق جو دستاویزات شائع کی گئی ہیں ان میں کہیں اس بیان کا ذکر تک نہیں‌آتا۔
    یہی حشر متعدد جرمن افسروں کی شہادتوں اور حلفیہ بیانات کا ہوا۔
    یہی نہیں‌بلکہ جرمن افسروں پر دباؤ ڈالا گیا اور دھمکیاں دی گئیں۔ چنانچہ وہ اپنے سابق افسروں کےخلاف گواہی دینے پر آمادہ ہوگئے۔ ایس ایس کا جنرل ایرخ وان ڈیم بخزیلیوسکی اس کی بہترین مثال ہے 1944 میں وارسا میں روس کے پولستانی حامیوں نے بغاوت کی تو جنرل ایرخ نے اسے کچلا تھا۔ اسے دھمکایا گیا کہ ہمارے ساتھ تعاون کرو تمھیں اس بغاوت کو کچلنے کے جرم میں‌پھانسی دے دی جائے گی۔ جنرل اپنی چمڑی بچانے کےلیے ان کے ہاتھوں‌کھیلنے کے لیے مجبور ہو گیا۔ اسی کی گواہی پر ہملر کے خلاف مقدمہ چلا۔ گوئرنگ نے برسر عدالت جنرل ایرخ کو جھوٹا قراردیا۔
    نیورمبرگ میں جنرل ایرخ نے جوبیانات دیے ، یہودی مصنفین نے خوب نمک مرچ لگا کر اور حاشیہ آرائی کرکے انہیں‌اپنی کتابوں میں چھاپا۔ لیکن اپریل 1959 میں‌اس نے ان کی اس ساری داستان سرائی پر پانی پھیر دیا۔ مغربی جرمنی کی ایک عدالت میں اس نے اپنے سابقہ بیانات کی کھلے الفاظ میں تردید کی اور کہا کہ وہ بیانات اس نے اپنی جان بچانے کے لیے دیے تھے۔ اور ان میں زرہ بھر صداقت نہ تھی۔ جرمن عدالت نے خوب اچھی طرح چھان بین کرکے جنرل ایرخ کی یہ تردید قبول کرلی۔ یہودی اور یہود نواز مصنفین کی دیانتداری ملاحظہ فرمائیے۔ 1959 کے بعد ہملر پر جتنی کتابیں لکھی گئیں ان میں کہیں‌اس بات کا ذکر تک نہیں کہ جنرل ایرخ اپنے بیان سے پھر چکا ہے یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ نیورمبرگ کے مقدمات میں جرمن رہنماؤں نے اپنے خلاف اتحادیوں‌کے عائد کردہ الزامات تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا۔ وہ اسے مذاق اور پروپیگنڈے کی افسانہ طرازی قرار دیتے رہے۔
    (the sword in the seales, 1953′ p145) ایک نکتے پر ہرمن گوئرنگ نے بڑے طنزیہ انداز میں کہا: یہ بات اس نے پہلی بار سنی ہے، اچھا یہ سب کچھ یہاں‌نیورمبرگ میں ہوا تھا؟
    (shirer, p -114) چارلس بیورلی نے اپنی کتاب hermann goering میں ثابت کیا کہ نیورمبرگ میں اس پر عائد کردہ الزامات کے ثبوت میں رتی بھر شہادت بھی پیش نہیں‌کی جاسکی۔

    لاکھوں‌یہودیوں کا صفایا کرنے کے پروپیگنڈے میں آسخوٹز کے کنسنٹریشن کیمپ کو مرکزی مقام حاصل ہے یہ کیمپ کراکاؤ (پولینڈ) کے نزدیک تھا۔ یاران سرپل نے اس کیمپ کے متعلق بڑی خوفناک داستانیں‌مشہور کررکھی ہیں۔ وہ بڑے زور وشور سے کہتے ہیں کہ گیس چیمبر اور موت کی بھٹیاں اسی کیمپ میں تھیں اسے اتفاق کہیئے یا بدقسمتی وہ کیمپ جن کی لرزہ خیز کہانیاں دنیا بھر میں پھیلا دی گئی ہیں روس کے مقبوضہ علاقوں میں‌تھے جنگ کے فورا بعد کوئی شخص ان کیمپوں کو نہ دیکھ سکا کہ پتہ چلتا ان الزامات میں کہاں تک صداقت ہے جن لوگوں نے کیمپ دیکھنا چاہے انہیں‌روسیوں نے اجازت نہ دی اور اجازت دی بھی تو دس سال بعد۔ یہ عرصہ اتنا طویل تھا کہ روسی اپنی مرضی کے مطابق کیمپوں میں ردوبدل کرکے لوگوں کو بتا سکتے تھے۔ کہ جرمنوں پر لاکھوں‌لوگوں کے قتل عام کا الزام غلط نہیں‌تھا، بالکل صحیح تھا دیکھیئے کتنے بڑے بڑے گیس چیمبر اور کتنی ہولناک موت کی بھٹیاں ہیں۔ جن لوگوں‌کا خیال ہے کہ روسی دینا کو اتنا بڑا دھوکا نہیں‌دے سکتے۔ انہیں‌وہ یادگاریں نظر میں‌رکھنی چاہئیں جو روس میں مختلف مقامات پر خود روسیوں نے بنائی ہیں۔ یہاں‌اسٹالن کی خفیہ پولیس نے ہزاروں روسیوں کو قتل کیا تھا لیکن اب دینا کو بتایا جارہا ہے کہ لوگ دوسری عالمی جنگ میں جرمن فوجوں‌نے موت کے گھاٹ اتارے تھے۔
    آسخوٹز دراصل ایک صنعتی کنسنڑیشن کیمپ تھا یہاں کیمیاوی ربڑ اور کوئلے کے کارخانے تھے جو آئی جی فاربن انڈسٹری نےلگائے تھے اور جن میں قیدی کام کرتے تھے کیمپ میں ایک زرعی ریسرچ اسٹیشن بھی تھا جس کے ساتھ بہت سی لیبارٹریاں اور نرسریاں تھیں مویشی پالنے کا ایک بہت بڑا فارم تھا مزید براں کرپس کے کارخانے تھے جن میں ہتھیار تیار ہوتے ان کیمپوں میںزیادہ تر کارخانے ملک کے بڑے بڑے صنعتی اداروں نے بنائے تھے۔ ان کے علاوہ ایس ایس کی اپنی فیکڑیاں تھیں ہملر نے مارچ 1941 اس کیمپ کا جو دورہ کیا اس کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ کارخانے کس طرح کام کررہے ہیں اور کتنی صلاحیت کار کے حامل ہیں۔ اس دورے میں فاربن انڈسٹری کے اعلٰی عہدیدار بھی اس کے ساتھ تھے۔اس نے کیمپ کے دوسرے مسائل و معاملات میں کسی قسم کی دلچسپی نہیں‌لی۔ صرف یہ حکم دیا کہ کیمپ میں‌توسیع کر ایک لاکھ قیدی فاربن انڈسٹری کو مہیا کیے جائیں۔
    یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ صرف اسی ایک کیمپ میں تیس لاکھ یہودیوں کا صفایا کیا گیا بعض مصنفین تو چالیس لاکھ بتاتے ہیں سوویت حکومت نے “ تحقیقات“ کے بعد اعلان کیا کہ یہاں چالیس لاکھ یہودی قتل کیے گئے۔ ریٹ لنگر اعتراف کرتا ہے کہ آسخوٹز اور دوسرے مشرقی کیمپوں کے متعلق جو معلومات بھی دنیا کو حاصل ہوئیں، سب مشرقی یورپ میں قائم ہونے والی کمیونسٹ حکومتوں‌نے فراہم کیں۔ یا اس سلسلےمیں جو شہادتیں ملتی ہیں وہ پولینڈ کے سنٹرل جیوش کمیشن نے جنگ کے بعد لی تھیں
    the final solution p.631 دوسرے الفاظ میں‌ کوئی غیر جانبدار زریعہ ان معلومات اور شہادتوں‌کی تصدیق نہیں‌کرتا۔ پھر اس سارے سوانگ میں ایک بھی زندہ اور قابل اعتبار چشم دید گواہ پیش نہیں‌کیا گیا۔ بنڈکٹ کاٹسکی جس نے سات سال کنسنڑیشن کیمپوں‌میں گزارے اور تین سال صرف آسخوٹز میں رہا اپنی کتاب tufel and verdemmte میں لکھتا ہے کہ آسخوٹز میں‌35 لاکھ یہودی قتل کیے گئے بظاہر گواہ چشم دید شہادت دے رہا ہے مگر اس کی شہادت کی حقیقت خود اس کے اپنے دوسرے بیانات کی روشنی میں ازخود آشکارا ہو جاتی ہے وہ اپنی اسی کتاب میں تسلیم کرتا ہے کہ اس نےکبھی کوئی گیس چیمبر نہیں‌دیکھا وہ کہتا ہے : میں‌بڑے بڑے کنسنٹریشن کیمپوں‌میں رہا لیکن سچی بات ہے کہ مجھے کہیں‌بھی اور کسی بھی زمانے میں نہ کوئی گیس چیمبر نظر آیا نہ موت کی بھٹیاں۔ ( ص 272-273) کاٹسکی نے اپنے سارے زمانہ قید میں صرف دوآدمیوں کو موت کی سزا پاتے دیکھا اور یہ دوقیدی کون تھے ؟ پولستانی ۔ انہوں نے اپنے دو یہودیوں ساتھیوں کو مارڈالا تھا۔
    کاٹسکی یہ بھی مانتا ہے کہ کنسنٹریشن کیمپ درحقیقت صنعتی کیمپ تھے اور جنگ کے آخری ایام تک ان کی یہ نوعیت برقرار رہی۔

    کہتے ہیں آسخوٹز میں‌ یہودیوں کا قتل عام مارچ 1942 سے اکتوبر 1944 کے درمیانی عرصے میں ہوا۔ اور مقتولین کی تعداد بھی ساٹھ لاکھ کا نصف تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مہینے 94 ہزار آدمی مسلسل 32 ماہ تک موت کے گھاٹ اترتے رہے۔ دوسرے الفاظ‌ میں تقریبا 3350 آدمی مسلسل روزانہ دن رات قتل کیے گئے۔ یہ مضحکہ خیز بات اپنی تردید آپ کرتی ہے لیکن ریٹ لنگر صاحب کی بوالعجمی ملاحظہ فرمائیے وہ کہتے ہیں روزانہ کم ازکم چھ ہزار یہودیوں کو ٹھکانے لگایا جاتا رہا۔ اب زرا حساب کیجئے ۔ اکتوبر 1944 تک گویا 50 لاکھ سے زائد یہودیوں کا صفایا ہو گیا۔ اولگا لینگائل تو افسانہ طرازی میں سب سے بازی لے گئی وہ اپنی کتاب1959 the chimmeys, london میں دعویٰ کرتی ہے کہ وہ آسخوٹز کیمپ میں ‌قید رہی اور وہاں روزانہ ہرگھنٹے 720 یہودیوں کی لاشیں آگ کے حوالے کی جاتی رہیں۔ اسی طرح چوبیس گھنٹوں کی شفٹ میں 18280 یہودی جلا دیے جاتے۔ اسی پر بس نہیں ان کے علاوہ روزانہ آٹھ ہزار آدمی “موت کے گڑھوں“ میں بھی نذر آتش کیے جاتے۔ اس طرح 25 ہزارسے زائد یہودی ہرروز ٹھکانے لگتے رہے (ص 80-81)۔
    ایک بار پھر ضرب تقسیم کیجئے۔ اولگا کا بیان اگر درست مان لیا جائے تو جرمنوں نے ہر سال 85 لاکھ یہودیوں کا صفایا کیا۔ اور یوں مارچ 1942 سے اکتوبر 1944 تک دوکروڑ دس لاکھ یہودیوں کا نام ونشان مٹا ڈالا۔ جی ہاں دوکروڑ دس لاکھ یہودی۔ یعنی دنیا بھر کی یہودی آبادی سے بھی 60 لاکھ زیادہ۔ کیا اب بھی آپ جرمنوں کے “ قسائی پن“ پر یقین نہیں ‌کریں گے۔
    سبھی یہودی مصنفین دعویٰ کرتے ہیں کہ کئی لاکھ یہودی آسخوٹز کیمپ میں مرگئے مگر ریٹ لنگر اعتراف کرتا ہے کہ کیمپ کے رجسٹروں‌میں جنوری 1940 سے فروری 1945 تک صرف 363،000 قیدیوں‌کا اندراج ہوا۔ the s.s alibi of a nation ۔ اور یہ لوگ سب کے سب یقینا یہودی نہ تھے۔ اس واضح حقیقت سے آنکھیں‌چرانے کے لیے کہا جاتا ہے کہ بہت سے قیدیوں کے نام سرے سے درج ہی نہیں‌کیے گئے۔ تھوڑی دیر کےلیے ہم مان لیتے ہیں کہ جتنے قیدیوں کے نام رجسٹروں میں درج کیے گیے۔ اتنے ہی قیدی کسی اندراج کے بغیر اس کیمپ میں مقیم تھے۔ کیمپ میں قیدیوں کی کل تعداد سات لاکھ پچاس ہزار تھی۔ خود سوچیئے کہاں قتل ہونے والے تیس چالیس لاکھ یہودی اور کہاں کیمپ کی کل آبادی ساڑھے سات لاکھ۔ پھر یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ جنگ کے دوران میں‌قیدیوں کی خاصی بڑی تعداد یا تو رہا کردی گئی یا اسےدوسرے کیمپوں میں منتقل کردیا گیا۔
    جنوری 1945 میں روسی افواج کی پیش قدمی سے کچھ مدت سے پہلے یہاں سے باقی 80 ہزار قیدی نکال کر مغربی علاقوں میں بھیجے گئے۔
    اعداد و شمار کے اس فراڈ کا اندازہ کرنےکےلیے ایک اور مثال کافی رہے گی۔ شائرر لکھتا ہے کہ 1944 کی گرمیوں میں‌کم ازکم تین لاکھ ہنگروی یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ (ص 1156)
    گویا ہنگری کی پوری کی پوری یہودی آبادی کا صفایا ہو گیا(کل یہودی آبادی 380،000 تھی)،۔۔۔۔ لیکن بوڈاپسٹ کے اعدادوشمار کے مرکزی دفتر کے مطابق 1945 میں‌ہنگری میں دولاکھ ساٹھ ہزار یہودی رہائش رکھتے تھے۔ (یہودیوں کی جائنٹ ڈسٹری بیوشن کمیٹی بھی اسی کے لگ بھگ تعداد ۔۔۔ دولاکھ بیس ہزار ۔۔۔ بتاتی ہے) دوسرے الفاظ میں ہنگری یہودیوں کی آبادی صرف ایک لاکھ بیس ہزار کم ہوئی۔ ان میں سے 35 ہزار روس میں قید تھے۔ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ جرمن لیبر بٹالین میں‌کام کرتے رہے تھے۔ باقی ساٹھ ہزار یہودی رہ جاتے ہیں۔ ان کےمتعلق بھی ایم ای ناٹینی کہتاہے کہ وہ جنگ کے بعد جلاوطنی کی زندگی چھوڑ کر واپس ہنگری چلے گئے۔ ریٹ لنگر تو ان واپس آنے والے یہودیوں کی تعداد 60 ہزار سے کہیں‌زیادہ بتاتا ہے

    آخر کار آسخوٹز کے متعلق حقائق دنیا کے سامنے آنے لگے ہیں حال ہی میں جرمن زبان میں ایک کتاب (the muschwitz legends) شائع ہوئی ہے کتاب کا مصنف ڈائیز کرسٹوفرسن ہے اور ناشرڈاکٹرمنفرڈروئیڈر نامی جرمن وکیل۔ دیباچہ ڈاکٹر منفرڈ ہی نے لکھا ہے۔ کرسٹوفرسن نے اس کتاب میں آسخوٹز کے آنکھوں‌دیکھے حالات بیان کیے ہیں۔ اسے بونا ورک پلانٹ لیبارٹری میں ربڑ کی پیداوار کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا گیاتھا۔ کتاب چھپنے کے کچھ عرصےبعد مئی 1973 میں نازیوں‌کے مشہور شکاری سائمن وائزنتھال نے فرنکفرٹ چیمبرز آف لائرز سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے رکن ڈاکٹرمنفرڈروئیڈر کا نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر محاسبہ کرے جو اس کتاب کا ناشر بھی ہے اور دیباچہ نگار بھی۔ جولائی میں ڈاکٹر کے خلاف کاروائی شروع ہوئی تو جرمن پریس میں شور مچ گیا اخبارات نے سخت نکتہ چینی کی اور پوچھا سائمن وائزنتھال کو کوتوال کس نے بنایا ہے۔
    کرسٹوفرسن کا بیان انتہائی اہم دستاویز ہے اور اس کے آئینے میں یہودی پروپیگنڈے پر مبنی داستانوں کی حقیقت دیکھی جاسکتی ہے۔ اس نے 1944 کا سارا سال آسخوٹز میں‌گزارا اور اس عرصے میں برکناؤ سمیت مختلف کیمپوں کا دورہ کیا۔ برکناؤ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ یہودی یہاں‌قتل کیے گئے۔ کرسٹوفرسن اسے صریح جھوٹ قرار دیتا ہے۔ وہ لکھتا ہے “ میں‌جنوری 1944 سے دسمبر 1944 تک آسخوٹز میں رہا۔ جنگ کے بعد جب میں نےسناکہ ایس ایس نے آسخوٹز میں‌یہودیوں کا قتل عام کیا تو میں حیرت زدہ ہو کر رہ گیا۔ گواہوں کی شہادتوں، اخبارات کی خبروں اور ریڈیو کی نشریات کے باوجود مجھے آج تک یقین نہیں‌آتا کہ جرمن ایسے گھناونے فعل کے مرتکب ہوئے تھے۔ میں یہ بات بار بار اور کئی مقامات پر کہہ چکا ہوں مگر کوئی نتیجہ برامد نہیں ہوا۔ یہودیوں کے پروپیگنڈے کا وہی عالم ہے۔ بہرحال یہ پروپیگنڈا جو کچھ بھی کہے جولوگ ان کیمپوں میں رہ چکے ہیں انہیں اس پر زرا یقین نہیں آئے گا۔ (ص 16) کرسٹوفرسن نے آسخوٹز میں قیدیوں کے شب وروز خاصی تفصیل سے بیان کیے ہیں اس روداد کو ان صفحات میں پیش کرنا ممکن نہیں لیکن اس نے جو کچھ لکھا ہے وہ اس ہولناک پروپیگنڈے سے بالکل مختلف ہے (ص 22-27) یہودیوں کے “صفائے“ کی مبینہ داستانوں کی تردید کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے۔ “آسخوٹز میں‌میں‌جتنی مدت رہا گیس چیمبروں میں یہودیوں کو مارنے کا ایک واقعہ بھی میری نظر سے نہیں‌گزرا۔ کہا جاتا ہے کہ کیمپوں کی فضا میں جلنے والے گوشت کی چراند ہر وقت رچی بسی رہتی تھی۔ یہ سفید جھوٹ ہے سب سے بڑے کیمپ آسخوٹز نمبر 1 کے نواح میں فولاد کا ایک کارخانہ تھا۔ جس سے اٹھنے والی پگھلے ہوئے لوہے کی بو یقینا خوشگوار نہ ہوسکتی تھی (ص 33-34)۔ ریٹ لنگر بھی تسلیم کرتا ہے کہ آسخوٹز نمبر 3 میں پانچ لوہا ڈھالنے کی بھٹیاں اور پانچ کوئلے کی کانیں تھیں۔ بوناورک کی فیکٹریاں ان کے علاوہ تھیں(ص 452)۔ ریٹ لنگر یہ بھی مانتا ہے کہ آسخوٹز میں دولاکھ افراد رہتے تھے۔ اور اتنی بڑی آبادی کے شہر میں لوگ مرتے بھی ہیں۔ اور ان کی لاشیں ٹھکانے لگانے کے لیے چتا کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ یہاں بھی ایک بھٹی تھی۔ اس میں صرف قیدیوں ہی کی لاشوں کا کریاکرم نہیں‌ہوتا تھا دوسرے مردے بھی جلائے جاتے تھے۔ کرسٹوفرسن کے افسر اعلٰی اوبرسٹرمبن فیوہرر کی بیوی مری تو اس کی لاش بھی اسی بھٹی میں جلائی گئی۔ (ص 33) کرسٹوفرسن کہتا ہے :‌آسخوٹز میں کوئی رازنہ تھے۔ ستمبر 1944 میں‌بین الاقوامی ریڈ کراس کا ایک کمیشن کیمپ کا معائنہ کرنے آیا۔ انہوں‌نے برکناؤ کیمپ (آسخوٹز نمبر1) میں‌خاص طور پر بڑی دلچسپی لی۔ اگرچہ رسکاؤ(بوناورک سیکشن) کے کیمپ بھی اچھی طرح دیکھے(ص35) کرسٹوفرسن مزید لکھتا ہے: آسخوٹز میں‌لوگ اپنے رشتہ داروں سے وقتا فوقتا ملنے آیا کرتے۔ مثلا مئی میں‌خود میری بیوی مجھ سے ملنے آئی۔ ایسے مہمانوں‌کی وقت بے وقت آمدورفت ظاہر کرتی ہے کہ یہ کیمپ خفیہ نہیں‌کھلے تھے۔ اگر آسخوٹز میں واقعی یہودیوں‌کا صفایا ہورہا ہوتا توپھر یہ غیر متعلق لوگوں کو آنے کی اجازت بالکل نہ ہوتی۔(ص 27) جنگ کےبعد کرسٹوفرسن نے یہودیوں اور کمیونسٹوں کی گھڑی ہوئی جو داستانیں‌سنیں ان میں ایک داستان یہ بھی تھی کہ آسخوٹز نمبر1 کے نواح میں بڑی چمنیوں‌والی ایک عمارت ہے ۔ کرسٹوفرسن لکھتا ہے :‌ممکن ہے مردے جلانے کی بھٹی اسی جگہ ہو لیکن یہ حقیقت ریکارڈ پر لانا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں جب دسمبر 1944 میں‌کیمپ سے رخصت ہوا تو اس وقت تک ایسی کوئی عمارت میرے دیکھنے میں نہیں‌آئی تھی۔(ص 37) آپ پوچھیں‌گے کہ کیا یہ پراسرارعمارت آج بھی کھڑی ہے؟
    نہیں ‌۔ ریٹ لنگر لکھتا ہے کہ اسے اکتوبر کے مہینے میں سارے کیمپ کے سامنے گرا کر آگ لگا دی گئی (ریٹ لنگر ص 457) یہ بھی وہی مثالی صورت حال ہے جب بھی کسی دعوے کی حق میں ٹھوس ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے یہودی اس سے مجرموں‌ کی طرح کترانے کی کوشش کرتے ہیں۔
    کہتے ہیں‌عمارت گرادی گئی تھی : دستاویز ضائع ہو چکی ہے احکام زبانی دیے گئے وغیرہ وغیرہ۔ لطف یہ ہے کہ جو لوگ آسخوٹز جاتے ہیں انہیں‌آج بھی ایک چھوٹی سے بھٹی دکھا کر کہا جاتا ہے جرمنوں‌ نے یہاں لاکھوں آدمی قتل کردیے تھے۔ روسی اپنے دعوے کو برحق ثابت کرنے کےلیے فی ماہریں کی رپورٹ‌کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں جرمن قساب یہودیوں کو کیمیاوی تقطیر کے زریعے ٹھکانے لگایا کرتے تھے۔ اور یہ فنی ماہرین کون ہیں؟ خود روسی۔ خود ہی مدعی، خود ہی شاہد اور خود ہی منصف۔ یہ بات اتنی مضحکہ خیز تھی کہ ریٹ لنگر کو لکھنا پڑا: عمل تقطیر کے زریعے انسانوں اور وہ بھی چالیس لاکھ انسانوں‌کو ٹھکانے لگانے کا خیال خاصا نامعقول ہے۔(ص 460) کرسٹوفرسن اپنے قارئین کو ایک حیرت انگیز واقعہ کی طرف متوجہ کرتا ہے فرینکفرٹ آسخوٹز کے مقدمے (1963) میں رچرڈبائر واحد مجرم تھا جسے عدالت میں پیش نہیں‌کیا گیاوہ روڈلف ہوئز کا جانشین اور آسخوٹز کیمپ کا کمانڈنٹ تھا۔ وہ بالکل چنگا بھلا اور تندرست اور توانا تھا۔ لیکن مقدمہ شروع ہونے سے فورا پہلے قید خانے میں اچانک مر گیا۔ شہادت دینے سے پہلے بائر کی پراسرار موت سے لوگ چونک اٹھے۔ پیرس کے اخبار رائیوارل نے پرزور الفاظ میں اعلان کیا کہ بائر پر گوناگوں ظلم توڑے گئے لیکن جب اس نے روسیوں کے مطلب کا بیان دینے سے انکار کردیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ میں‌ نے اپنی کمان کے زمانے میں نہ تو کوئی گیس چیمبر دیکھا اور نہ مجھے ایسی باتوں پر یقین ہے۔ تو اسے مارڈالا گیا، نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ اب کہا جاسکتا تھا: گیس چیمبروں کے عینی گواہ اور منتظم کی موت سے ایک چشم دید شہادت ضائع ہو گئی۔ کرسٹوفرسن اپنی کتاب میں آسخوٹز کیمپ کا ذکر بہت مفصل کرتا ہے وہ کہتا ہے یہ کیمپ درحقیقت یہودیوں کا صفایا کرنے کا مقام نہیں‌، صنعتی مراکز تھے جہاں قیدیوں سے مشقت لی جاتی تھی۔

    قتل عام کے اس ڈھونگ میں یہودی مصنفین، پولستانی یہودیوں کو سب سے زیادہ مظلوم قرار دیتے رہے کہ یہ قتل عام آسخوٹز کیمپ میں ہوا۔ مگر پھر رفتہ رفتہ نئے “نئے صفایا“ کیمپ ان پر منکشف ہونے لگے۔ ٹربلینکا، سوبی بور، بیلزک، میڈانک، شلمنو اورنہ جانے کتنے غیر معروف مقام اچانک “یہودی تاریخ“ کاحصہ بن گئے۔ یہودیوں‌کے صفائے کی اس مہم میں‌ اپریل 1943 کی اس ڈرامائی بغاوت کو مرکزی مقام دیا جاتا ہے جو وارسا کے غیتو میں‌ہوئی۔ کہتے ہیں ہٹلر اور ہملر نے جب یہودیوں کو گیس کے چولہوں میں‌ جھونکنے کا خفیہ فیصلہ کیا تو یہ خبر کسی طرح فاش ہو گئی اورسارے وارسا میں‌پھیل گئی۔ چنانچہ جب یہودی پکڑ پکڑ کر کنسنٹریشن کیمپوں‌ میں منتقل کیے جانے لگےتو انہوں‌نے بغاوت کردی۔ وارسا غیتو کے معاملے پر یارلوگوں نے exodus اور the wall ایسے سنسنی خیز ناول لکھ کرافسانوں اور دیو مالائی داستانوں کی تہیں چڑھا دیں ہیں اور اس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اصل حقیقت پر پردہ چڑھ جائے اور ایک عام سا واقعہ بڑے گھناونے انداز میں دنیا کے سامنے پیش کردیا جائے۔ جرمنی نے پولینڈ پر قبضہ کیا تو پہلے پہل یودیوں کو قیدی کیمپوں کے بجائے غیتو۔۔۔ یہودی محلوں ۔۔۔۔ ہی میں‌نظر بند رکھا۔ غیتو کا داخلی نظم و نسق یہودیوں‌کی اپنی منتخبہ کونسل کے ہاتھوں‌میں‌تھا۔ یہاں تک کہ ان کی پولیس بھی اپنی اور غیتو کی چاردیواری میں بالکل خودمختار تھی۔ سٹہ بازی روکنے کے لیے خصوصی کرنسی نوٹ جاری کیے گئے۔ یہ نظام غلط تھا یا صحیح اس سے قطع نظر زمانہ جنگ میں قابل فہم تھا۔ غیتو بلاشبہ ایک ناپسندیدہ معاشرتی ادارہ ہے۔ مگر بربریت کا مظہر بہرحال نہیں‌ہے۔ پھر یہ غیتو صدیوں سے چلے آتے تھے۔ یہودیوں کے سازشی ذہن کےلیے ان کا وجود اور ان کی فضا ہمیشہ سازگار ثابت ہوئی، لیکن یہودی اور ان کے سرپرست روسی انہیں دنیا کے سامنے یوں‌پیش کرتے ہیں جیسے یہ ان کی نسل کشی کے لیے جرمنوں نے بنائے ہوں۔ہم پہلے لکھ چکے ہیں‌کہ 1931 کی مردم شماری کے مطابق پولینڈ میں یہودیوں کی کل آبادی 2،732،600 تھی۔ پھر بہت سے لوگ وطن چھوڑ کر سوویت روس چلےگئے۔ بہت سے ویسے بھاگ گئے، حتی کہ صرف گیارہ لاکھ پیچھے رہ گئے۔ ان میں‌سے تقریبا چارلاکھ وارسا کے غیتو میں رہتے تھے۔ باقی سات لاکھ یہودی، پولش حکومت ستمبر 1940 سے پہلے ‘پولش گورنمنٹ جنرل‘ میں منتقل کرچکی تھی۔ یہ چارلاکھ یہودی آہستہ آہستہ قابض جرمن حکومت کے لیے مسئلہ بنتے جارہے تھے۔ اور غیتو کی چاردیواری میں تخریبی سرگرمیاں شروع ہو گئی تھیں۔ ایسی سرگرمیوں کو کوئی بھی حکومت برداشت نہیں‌کرتی۔۔۔ اسی زمانے میں پولینڈ کے مقبوضہ علاقوں ‌میں جنگی صنعتیں‌قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ان کارخانوں میں‌کام کرنے کے لیے مزدوروں اور کارکنوں کی ضرورت تھی۔ چنانچہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے 1942 کی گرمیوں میں ہملر نے حکم دیا کہ وارسا کے یہودی ، نظربندی کیمپوں‌میں‌منتقل کردیے جائیں۔ وہاں یہودیوں پر کڑی نگرانی بھی کی جاسکتی تھی اور ان کی افردی قوت سے کام بھی لیا جاسکتا تھا۔ جولائی سے اکتوبر 1942 تک یہ کام بڑے پرامن طور پر ہوتا رہا اور تین چوتھائی سے زائد یہودی کنسنٹریشن کیمپوں‌میں‌پہنچا دیے گئے۔ انخلا یہودی پولیس کی نگرانی میں ہوا۔ اکتوبر کے اواخر تک غیتو میں‌صرف ساٹھ ہزار یہودی رہ گئے۔ 18 جنوری 1943 کو اچانک بغاوت کی آگ بھڑک اٹھی۔

    مینویل انیڈ فرانکی تسلیم کرتے ہیں کہ یہودیوں نے خاصی مدت سے پہلے سے مزاحمت کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ اور وہ باہر سے ہتھیار سمگل کررہے تھے۔ پولش ہوم آرمی اور پولش کمیونسٹ ورکرز پارٹی، غیتو کے ان دہشت پسندوں کی پشت پر تھی۔ جرمنوں کو یہودیوں کی خفیہ سرگرمیوں کی خبر تو مل گئی تھی اور خود غیتو‌کے یہودیوں‌ہی نے دی تھی۔ لیکن انہوں نے اسے اس خیال سے زیادہ اہمیت نہ دی کہ انہیں آہستہ آہستہ پہلے ہی کیمپوں میں منتقل کیا جارہا تھا۔ بس زرا چوکنے ہوگئے۔ ایک روز یہودیوں کے لڑاکا گروپ نے ایس ایس کےجوانوں اور ملیشیا پر جو انخلا کے کام کی نگرانی کررہے تھے، حملہ
    کردیا اور کئی سپاہیوں کو مارڈالا۔ اور پھر پورا غیتو اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ تھے ہو حالات جن میں‌جرمن فوج حرکت میں‌آئی اور غیتو میں داخل ہو کر بغاوت کو کچل ڈالا۔ یہ کوئی غیر معمولی اقدام نہ تھا۔ کسی ملک پر قابض کوئی بھی فوج ایسے حالات میں اسی قسم کا اقدام کرتی۔ یہودیوں کی تیاری کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک ایک عمارت میں انہوں نے جرمن فوج کی مزاحمت کی۔ انہوں نے جگہ جگہ چھتے ہوئے مورچے بنا رکھے تھے۔ ایس ایس کا لیفٹیننٹ جنرل سٹروپ بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ غیتو میں داخل ہوا تو چاروں طرف سے گولیوں کی بارش شروع ہو گئی۔ پہلے ہی قدم پر اس کے بارہ آدمی ڈھیر ہو گئے۔ یہ تصادم چار ہفتے جاری رہا اور جرمن فوج کے ایک سو ایک آدمی ہلاک یا زخمی ہوئے۔ دوسری طرف بارہ ہزار یہودی کھیت رہے۔ اکثریت جلتی ہوئی عمارتوں اور چھتے ہوئے زیرزمیں مورچوں میں‌ ماری گئی۔ 56،065 یہودی گرفتار کرلیے گئے اور انہیں‌کنسٹریشن کیمپوں میں پہنچا دیا گیا۔

    مردے زندہ ہو گئے

    یہودیوں نے جو داستانیں گھڑی ہیں ان میں‌انہوں نے اپنے پولستانی بھائی بندوں کے خون سے بڑی فنکارانہ رنگ آمیزی کی ہے جیوش جائنٹ ڈسٹری بیوشن کمیٹی نے نیورمبرگ کے مقدمات کے لیے جو اعداد وشمارتیار کیے ان کے مطابق 45ء تک پولینڈ میں‌صرف 80 ہزار یہودی زندہ بچے تھے اور جرمنی اور آسٹریا میں تو ایک بھی بدقسمت پولستانی یہودی، جرمنوں‌ کے ہاتھ سے بچنے نہ پایا۔ حقیقت کیا تھی؟ جہاں تک جرمنی اور آسٹریا کے قصے کا تعلق ہے اتحادیوں نے جب ان ملکوں‌پر قبضہ کیا تو امریکی اور برطانوی حکام نے بہت سے پولستانی یہودیوں‌کو چوربازاری کرتے ہوئے پکڑا۔ رہا خود پولینڈ میں رہنے والے یہودیوں‌کا ماجرا، تو جیوش کیمٹی کے تیارکردہ اعداد و شمار کے غبارے سے اس وقت ہوا نکل گئی جب پولینڈ میں‌ کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی اور 4 جولائی 1964ء کو کائلس کے مقام پر یہودیوں‌کا قتل عام شروع ہوگیا۔ اس قتل عام میں‌کتنےلوگ مارے گئے کمیونسٹ حکومت نے آج تک دنیا کو ٹھیک ٹھیک نہیں‌ بتایا۔ البتہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد یہودی بھاگ کر برے حالوں مغربی جرمنی پہنچے۔ اتنی بڑی تعداد میں پولستانی یہودی پہنچے تو دنیا ششدر رہ گئی۔ اسے تو پروپیگنڈے نے یہ باور کرادیا تھا کہ پولینڈ میں صرف 80 ہزار یہودی جرمنوں‌کے ہاتھ سے زندہ سلامت بچ سکے ہیں۔ ان ڈیڑھ لاکھ پولستانی یہودیوں کو فلسطین اور امریکہ جاتے ہوئے بھی ایک دنیا نے دیکھا۔ اس واقعے کے بعد جیوش کمیٹی کے اعدادوشمار میں‌ کئی بار تخفیف وترمیم ہوچکی ہے۔ 49-1948ء کی امریکن جیوش بک شائع ہوئی تو اس میں‌پولستانی یہودیوں کی تعداد 390،000 بیان کی گئی تھی گویا 310،000 مردہ یہودی زندہ ہو گئے تھے۔ امید ہے کہ آئندہ اور مردے بھی اسی طرح زندہ ہوتے چلے جائیں گے۔

    ہالوکاسٹ: آپ بیتیاں

    اس جھوٹے پروپیگنڈے میں‌ان سنسنی خیز آپ بیتیوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے جو پیپر بیک کتابوں کی صورت میں آئے دن چھپتی رہتی ہیں۔ ان میں سے بعض کو فلمایا بھی جاچکا ہے اور مصنفین اور ناشروں نے خوب ہاتھ رنگے ہیں۔ یہ کتابیں جرمنی کے خلاف نفرت کے زہر سے بھری ہوئی ہیں۔ ان کے آئینے میں جرمن پرلے درجے کے خونخوار شیطان نظر آتے ہیں۔ 1950ء میں تو یہ کاروبار پورے شباب پر تھا۔ یہ آب بیتیاں دو قسم کی ہیں۔ ایک وہ جنہیں ایس ایس کے سابق افسروں، کیمپ کمانداروں اور اسی طرح کے دوسرے لوگوں سے منسوب کیا جاتا ہے اور دوسری وہ جن کے مصنف کنسٹریشن کیمپ کے سابق قیدی بتائے جاتے ہیں جنہیں‌ پڑھ کر انسان کا خون خشک ہونے لگتا ہے پہلی قسم کی کتابوں‌کی نمایاں مثال commandant of auschwits ہے جو مبینہ طور پر روڈلف ہوئز نے لکھی اور 1960ء میں لندن سے شائع ہوئی۔ یہ کتاب سب سے پہلے پولینڈ کی کمیونسٹ حکومت نے پولستانی زبان میں wspqmniena کے نام سے چھاپی۔ ہوئز ایک نوجوان افسر تھا جسے 1940ء میں آسخوٹز کی زمام سونپی گئی۔ پہلے اسے برطانویوں نے گرفتار کیا اور فلنسبرگ میں زیر حراست رکھا۔ پھر پولینڈ کی کمیونسٹ حکومت کے حوالے کردیا جنہوں نے اس کو 1947ء میں سزائے موت دی اور فیصلے کے فورا بعد پھانسی پر لٹکا دیا۔ ہوئز کی یہ آپ بیتی جعل سازی کا شاہکار ہے جسے کمیونسٹوں کی نگرانی میں باقاعدہ لکھا گیا۔ اگرچہ کمیونسٹ کہتے ہیں کہ انہوں نے ہوئز کی اپنی زندگی کی کہانی قلمبند کرنے کا حکم دیا تھا اور اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا مسودہ موجود ہے لیکن یہ محض ایک دعویٰ ہے اصل مسودہ آجتک کسی نے نہیں‌دیکھا اور نہ ہی خود کمیونسٹوں ہی نے اسے دنیا کو دکھانے کی زحمت گوارا کی۔ گرفتاری کے بعد ہوئز پر ہولناک مظالم ڈھائے گئے اور ذہنی غسل کے لرزہ خیز حربے استعمال کیے گئے۔ اسے جب نیورمبرگ کی عدالت میں پیش کیا گیا تو صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ رٹا رٹایا اور زہن میں ٹھونسا ہوا بیان دے رہا ہے۔ بیان کے دوران وہ شروع سے آخر تک فضا میں خالی نظروں سے گھورتا رہا۔ خود ریٹ لنگر اس بیان کو مایوس کن حد تک ناقابل اعتبار قراردیتا اور کہتا ہے کہ سارا بیان مبالغہ آرائی سے بھرا ہوا ہے۔ مثلا یہ بات کہ آسخوٹز میں‌روزانہ 16ہزار آدمی موت کے گھاٹ اتارے جارہے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ ختم ہونے تک ایک کروڑ تیس لاکھ یہودی مارے جاچکے تھے۔ بجائے اس کے کہ ریٹ لنگر اور دوسرے یہودی مصنفین اس مبالغہ آرائی کو سویت ذہن کا فراڈ قرار دیتے وہ کہتے ہیں ہوئز نے یہ مضحکہ خیز مبالغہ آرائی اپنے کام پر اظہار فخر کرنے کے لیے کی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ خود ہوئز کی “مستند“ آپ بیتی اس سے بالکل مختلف تاثر دیتی ہے اس کتاب میں بار بار وہ اس کام کو گھناؤنا قرار دیتا ہے جو اس نے افسران بالا کے احکام کے تحت بادل نخواستہ انجام دیا۔ ہوئز کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے تیس لاکھ یہودیوں کو آسخوٹز کیمپ میں قتل کرنے کا اعتراف کیا۔ اس پر وارسہ میں مقدمہ چلایا گیا، تو استغاثہ نے مقتولین کی تعداد میں تخفیف کردی اور صرف گیارہ لاکھ 35 ہزار بتائی۔ ہوئز کی آپ بیتی کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے وہ کہتا ہےکہ یہ گھناؤنا کام یہودی قیدیوں پر مشتمل ایک اسپیشل ڈیپارٹمنٹ نے انجام دیا۔ جو لوگ کیمپ میں ‌لائے جاتے یہ ڈیپارٹمنٹ ان کا چارج سنبھال لیتا۔ انہیں‌وسیع وعریض گیس چیمبروں‌ میں لے جاکر ختم کرتا اور بعد ازاں ان کی لاشیں ٹھکانے لگا دیتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایس ایس کے جوانوں‌کا اس بھیانک کاروائی میں کوئی ہاتھ نہ تھا بلکہ صفائے کے اس پروگرام کی شاید خبر تک نہ ہوگی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایک یہودی بھی ایسا نہیں‌ملتا جو یہ کہے کہ اس گھناؤنے اسپیشل ڈیپارٹمنٹ کا ممبر تھا اور یہودی قیدیوں کو اس کی آنکھوں‌کے سامنے گیس چیمبروں میں‌بھیجا گیا۔ باالفاظ دیگر پورا معاملہ مشکوک اور ناقابل اعتبار ہے اور اپنے دامن میں کوئی ثبوت نہیں‌رکھتا۔ ایک بار پھر ذہن نشین کرلیجئے کہ طول طویل مقدمات میں ایک معتبر عینی گواہ بھی عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔


    ایک اور بوگس آپ بیتی


    اب تک شائع ہونے والی آپ بیتیوں میں آئخ من کی آپ بیتی سب سے زیادہ بوگس ہے۔ اسرائیلیوں نے اسے مئی 1960ء میں غیر قانونی طور پر اغوا کیا اور بین الاقوامی پروپیگنڈے کے زور سے نازی جرمنی کا بڑا آدمی بنا دیا۔ حالانکہ اس سے پہلے بہت کم لوگوں نے اس کا نام سنا تھا۔ وہ ایک غیر اہم شخصیت تھی۔ آئخ سیکورٹی ہیڈ آفس کے محکمہ چہارم (گسٹاپو) میں دفتر a-46 کا افسر اعلٰی، یہودیوں کو نظر بندی کے کیمپوں‌ میں‌ منتقل کرنے کی نگرانی اس کا دفتر کرتا تھا۔ آئخ من کی آپ بیتی اچانک عین اس کے اغواء کے وقت منظر عام پر آئی۔ سب سے پہلے اسے امریکی رسالے لائف نے شائع کیا۔ کہتے ہیں آئخ من نے اپنے پکڑے جانے سے کچھ روز پہلے یہ آپ بیتی ایک اخبار نویس کے حوالے کی تھی۔ کہیئے ہے نا حیران کن اتفاق! دوسرے زرائع بالکل مختلف داستان سناتے ہیں وہ کہتے ہیں آئخ من نے 55ء میں‌اپنے ایک “ ساتھی “ سے جو باتیں کی تھیں یہ “ آپ بیتی “ انہی پر مبنی ہے۔ پھر ایک اور غیر معمولی اتفاق ملاحظہ فرمائیے کہ جنگ کے پندرہ سال سے بھی زیادہ عرصے بعد ، امریکی کانگریس لائبریری کے آرکائیوز میں‌آئخ من کے محکمے کی مکمل فائل مل گئی۔ جہاں تک آپ بیتی کا تعلق ہے اس کے مندرجات پڑھ کر انسان تھرا اٹھتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آئخ من نے یہ آپ بیتی اپنے آپ کو مجرم ٹھہرانے کے لیے لکھی تھی۔ وہ یہودیوں‌کے صفائے کی داستان بڑے مزے لے لے کر بیان کرتا ہے شاید اپنے دشمنوں‌ کو اپنے خلاف ثبوت فراہم کرنے کی تگ و دو کی زحمت سے بچانا چاہتا تھا۔ آپ بیتی لکھنے کی “ اہمیت “ اس وقت اور زیادہ آشکارا ہوجاتی ہے جب یہ بات نظر میں‌ رکھی جائے کہ آئخ من اچھی طرح جانتا تھا کہ خونخوار شکاری کتے ہر جگہ اس کے خون کی بو سونگھتے پھر رہے ہیں۔ اور وہ اس پر کسی بھی وقت قابو پاسکتے ہیں۔ کہئیے کبھی کوئی مجرم ایسا آپ کو ملے گا جسے یہ خبر ہو کہ ایک نہ ایک روز وہ پکڑا جائے گا اس کے باوجود اس نے اپنے جرائم کی پوری داستان قلمبند کرکے رکھ دی ہو تاکہ استغاثہ کو جرم ثابت کرنے میں‌ زرا تکلیف اٹھانی نہ پڑے۔ یہ آپ بیتی اس لحاظ سے بھی من گھڑت ہے کہ اس میں بہت سی باتیں بالکل خلاف حقیقت ہیں حتیٰ کہ آئخ من کو یہ بھی صحیح طور پر معلوم نہیں کہ ہملر ریزرو فوج کا کمانڈر اپریل 1966ء میں بنا تھا یا ہٹلر کو قتل کرنے کی جولائی میں سازش کے بعد ۔

    ہالوکاسٹ: ٹربیلنکا کا جھوٹ

    حال ہی میں‌جھوٹ کا ایک اور شاہکار سامنے آیا ہے۔ یہ ٹربیلنکا کیمپ (پولینڈ) کے سابق کمانڈنٹ فرانزسٹانگل کی آپ بیتی ہے اس شخص کو دسمبر 1970 میں‌ پولینڈ کی ایک عدالت نے عمر قید کی سزا دی۔ آپ بیتی کے اقتباسات 8 اکتوبر 1971 کے ڈیلی ٹیلیگراف (لندن) میں‌ایک مضمون میں‌شائع ہوئے۔ لکھا تھا کہ یہ ایک انٹرویو پر مبنی ہیں جو فرانزسٹاگل سے قید خانے میں لیا گیا۔ وہ انٹرویو ختم ہونے کے چند روز بعد مر گیا۔ اب تک جتنی آپ بیتیاں چھپی ہیں یہ آپ بیتی ان میں ‌سب سے خونیں اور انوکھی ہے اور کچھ اس طرح اوٹ پٹانگ انداز میں لکھی گئی ہے کہ خود مضمون نگار کو تسلیم کرنا پڑا کہ سٹانگل کے مقدمے میں پیش کی جانے والی شہادت سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس نے قتل کے گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ مضمون نگار کے بقول آپ بیتی کا وہ حصہ تو خاصا من گھڑت ہے جس میں سٹانگل نے اپنی پولینڈ کی زندگی کے ابتدائی ایام کی داستان بیان کی ہے۔ ٹربیلنکا کے پہلے دورے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے “ جونہی گاڑی اسٹیشن کے قریب پہنچی ساتھ والی پٹری کے دونوں طرف سینکڑوں نہیں ہزاروں لاشیں بچھی دکھائی دیں۔ ان میں سے اکثر گل سٹر چکی تھیں۔ اسٹیشن پر پہنچا تو ایک گاڑی یہودیوں سے بھری کھڑی تھی۔ کچھ لوگ مر چکے تھے اور کچھ ابھی تک زندہ تھے یوں نظر آتا تھا جیسے یہ قتل عام کئی روز پہلے ہوا ہو“ اس بے سروپا کہانی کا کلائمکس وہ ہے جب سٹانگل کہتا ہے “میں ڈبے سے نکلا تو میری ٹانگیں گھٹنوں تک پلیٹ فارم پر بکھرے ہوئے روپوں میں دھنس گئیں۔ مجھے کہیں جانے کو رستہ نہ ملتا تھا۔ آخر نوٹوں، روپوں، پیسوں، جواہرات، زیوروں اور کپڑوں کے انبار میں سے گزرتا ہوا نکلا۔ پلیٹ فارم پر جدھر نگاہ اٹھتی تھی یہی چیزیں پڑی تھیں۔“ لیکن ابھی یہ منظر مکمل نہیں ہوا۔ سٹانگل کہتا ہے “ خاردار تاروں کے جنگلے کے پار وارسا کی طوائفیں جمع تھیں اور نشے میں دھت ناچ رہی تھیں۔ گار رہی تھیں اور آلات موسیقی بجا رہی تھیں۔ پلیٹ فارم پر پھیلا ہوا گھٹنوں تک گہرا نوٹوں اور زیورات کا سمندر اور اس سمندر میں تیرتی ہوئی ہزاروں گلی سڑی لاشیں اور گاتی بجاتی طوائفیں ۔ ۔ ۔“ کیا اب بھی آپ کو اس داستان کی صداقت پر یقین نہیں آئے گا؟

    بشکریہ : جناب شازل صاحب ( شازل کا بلاگ( / جناب ماجد بھائی عرف چاند بھائی (اردونامہ(
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہولوکاسٹ حقیقت یا افسانہ

    بہت خوب
    اچھا اور تحقیقی مضمون ہے
     
  3. شاہنوازعامر
    آف لائن

    شاہنوازعامر ممبر

    شمولیت:
    ‏5 مارچ 2012
    پیغامات:
    400
    موصول پسندیدگیاں:
    287
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہولوکاسٹ حقیقت یا افسانہ

    بہت خوب بہت تحقیقی مضمون ہے بڑی کاوش ہے
     
  4. شاہنوازعامر
    آف لائن

    شاہنوازعامر ممبر

    شمولیت:
    ‏5 مارچ 2012
    پیغامات:
    400
    موصول پسندیدگیاں:
    287
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہولوکاسٹ حقیقت یا افسانہ

    ہولو کاسٹ کو جھٹلانے کی بہت کوشش کی گئی لیکن بات نہ بن سکی جس بناء پر پوری دنیا میں اسرائیل نام نہاد احتجاج کرتا ہے جبکہ یہ حقیقت ہے ایران تو باقاعدہ یہ دن خوشی کے تہوار کے طور پر مناتا ہے جتنا ان اسرائیلیوں نے ظلم ط بربریت کی مثال قائم کی ہے کسی دور میں اس کی مثال نہیں ملتی جس بناء انہوں نے چنگیز خان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے
     
  5. عمر خیام
    آف لائن

    عمر خیام ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    2,188
    موصول پسندیدگیاں:
    1,308
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہولوکاسٹ حقیقت یا افسانہ

    اعداد و شمار میں لوگ حسب توفیق اور حسب منشاء کمی و بیشی کرتے رہتے ہیں لیکن یہ تو تاریخی حقیقت ہے کہ یہودیوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا گیا تھا ۔
    ہٹلر نسل پرستانہ اور فاشسٹ نظریات کا حامی تھا ۔ آج بھی یورپ میں نسل پرست تنظیمیں اپنے نظریات کا پرچار اور حرکات کا اظہار ہٹلرانہ سیلوٹ سے کرتی ہیں ۔
     
  6. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہولوکاسٹ حقیقت یا افسانہ

    کم یا زیادہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جرمنی نے ہٹلر کی رہنمائی میں‌یہودیوں کے ساتھ بے انتہا ظلم کیا ۔۔۔۔۔۔نہ صرف ان پر بلکہ پورے یورپ اور روسیوں کے ساتھ کیا نہیں کیا۔۔۔۔۔۔اس لیے یہ کہنا کہ جرمن اس وقت بہت معصوم تھے۔۔۔۔۔۔غلط ہے البتہ حقائق کو اپنے مفاد کے لیے کس طرح استعمال کیا گیا یہ ایک اور پہلو ہے۔ اب موجودہ دور میں عراق اور افغانستان میں کیا نہیں ہوا۔۔۔۔۔یہ بھی ظلم ہے اور جو شام میں ہورہا ہے وہ بھی ظلم ہے۔۔۔۔۔ظالموں کے نظریات عام لوگوں سے بالکل ہی مختلف ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی ایک گروہ کی وجہ سے کسی قوم کو ظالم نہیں کہا جاسکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی جرمن ہیں ان میں کس چیز کی کمی ہے مگر اس وقت کے رہنماؤں نے انھیں جس رخ پر ڈالا وہ اس پر چلے اور خوب بھگتا ہے۔
     
  7. شاہنوازعامر
    آف لائن

    شاہنوازعامر ممبر

    شمولیت:
    ‏5 مارچ 2012
    پیغامات:
    400
    موصول پسندیدگیاں:
    287
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہولوکاسٹ حقیقت یا افسانہ

    اب ہولو کاسٹ مسلمانوں کے ساتھ کھیلا جارہا ہے کتنے بے گناہ افراد مارے جاچکے ہیں اور کتنے ہی مارے جائں گے اور یہ کھیل کب تک جاری رہے گا پتہ نہیں
     

اس صفحے کو مشتہر کریں