1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہم ہیں مسلمان

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از رفاقت حیات, ‏27 دسمبر 2014۔

  1. رفاقت حیات
    آف لائن

    رفاقت حیات ممبر

    شمولیت:
    ‏14 دسمبر 2014
    پیغامات:
    318
    موصول پسندیدگیاں:
    244
    ملک کا جھنڈا:
    ہم بڑے فخر سے ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ آج ہمارا’’برتھ ڈے‘‘ ہے۔اور خوشی ے جھومتے جھامتے اس دن کو ’’مناتے ‘‘ہیں۔اور جو اس دن کو منانے سے منع کرتے ہیں یا نہیں مناتے ہمارے اس روشن خیال معاشرے میں اسے دقیانوسی کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔کبھی کبھی میں اس سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ شاید واقعی یہ اسلام کا حصہ ہے؟کہ مسلمان اس دن کو کافی جوش و خروش سے مناتے ہیں۔لیکن پھر جب اسلاف کی تاریخ اٹھا کہ دیکھتا ہوں تو وہاں اس نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔شاید پچھلے زمانے کے لوگوں کو اس کی ’’اہمیت‘‘ کا اندازہ نہ تھا یا یہ شروع ہی سے اسلام میں نہ تھی؟۔
    تو پھر بات صاف ظاہر ہے کہ اگر اس کی اتنی زیادہ اہمیت ہوتی تو اسلام ہمیں اس کو منانے کا ضرور حکم دیتا۔عجیب بات ہے کہ انسان کی زندگی کا ایک سال ختم ہوجاتا ہے اور وہ اس پر خوشی مناتا ہے کہ لو جی ہماری زندگی کا ایک سال کم ہو گیا ہے۔اور اپنے رشتے داروں،دوستوں اور دوسرے لوگوں میں اس بات کا چرچا کرتا ہے کہ جی کل ہمارے گھر آئیے گا ہمارا’’برتھ ڈے ‘‘ہے۔مجھے تو اس کا کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آتا۔ہاں البتہ کوئی یہ بات کہہ دے کہ اس دن انسان رشتے داروں سے مل لیتا ہے تو رشتہ اور زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے،ایک دوسرے سے مل بیٹھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ہاں یقیناًایسا ہی ہوتا ہو گا!۔۔لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام بنانے والے یعنی اللہ کو اس بات کا پتہ نہ تھا؟(نعوذ باللہ)۔ضرور پتہ تھا لیکن اس نے اور بھی توملنے کے مواقع رکھے ہیں ۔جیسا کہ عیدین،شادی یافوتگی وغیرہ۔ہاں تو بات چل رہی تھی اس کے نفع نقصان کی۔اس کا ایک نقصان تو وقت کا ضیاع ہے،اور اس سے بڑھ کر اخروی نقصان۔آج دنیا ایک گلوبل ولیج ہے ۔کسی سے کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں ہے۔یہ بات تو تقریباً ہر صاحبِ عقل اور ذی شعورشخص جانتا ہے کہ ’’برتھ ڈے‘‘ منانا کم از کم مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے۔بلکہ یہ کام صرف غیر مسلموں کا ہے،یہ کام یہود ہ ہنود کا ہے۔اور وہ یہ کام کرتے ہیں۔اس حوالے سے ایک حدیث مشہور ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو قوم جس کی مشابہت اختیار کرے گی وہ قیامت کے دن اسی کے ساتھ کھڑی ہو گی۔اب یہ ہمارا انتخاب ہے کہ ہم کس قوم کے ساتھ کھڑا ہونا پسند کریں گے،مسلمان قو م کے ساتھ یا کسی اور کے ساتھ۔اگر ہمیں کوئی کہہ دے کہ مسلمان قوم کے علاوہ جس کے ساتھ کھڑنا ہونا کھڑے ہو جاؤ تو ہمارا جواب یقیناًنفی میں ہو گا۔لیکن ہم کام پھر بھی دوسروں والا کریں گے۔
    بعض اوقات انسان شیطان کے دھوکے میں آجاتا ہے کہ کوئی بات نہیں یہ کام کر لو چار دن کی تو زندگی ہے اگر اس کو بھی بندہ انجوائے نہ کرے تو پھر کیا فا ئدہ؟۔عام طور پر یہ جملہ وہ لوگ بولتے ہیں جن کی کوئی منزل نہیں ہوتی ،جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس دنیا کے بعد کوئی دنیا نہیں ،جو یہ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد کون ہمیں زندہ کرے گا؟۔یہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت۔کافر ایسی بات کہیں تو کہہ سکتے ہیں ۔لیکن یہ فقرے مسلمان قوم کو زیب نہیں دیتے۔کیونکہ مسلمانوں کے پاس ایک منزل ہے،ایک اصول ہے۔ایک طریقہ ہے۔
    ہمارے ہاں ایک اور رواج جڑ پکڑتا جا رہا ہے اور وہ ہے مرحومین اور شہداء کی یاد میں شمعیں جلانا۔آپ آنکھیں بند کر کے یہ تصور کریں کہ شمعیں جلانے سے شہداء اور مرحومین کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟یقیناًآ پ کا جواب یہی ہو گا کہ کوئی فائدہ نہیں۔تو پھر ہم ایسا کام کیوں کرتے ہیں جس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ نقصان ہوتا ہے۔کرنا کیا چاہئیے تھا ؟اصل کام کرنے کو تو یہ تھا کہ ہم ان کے لئے فاتحہ خوانی کرتے،قرآن خوانی کرتے ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے۔جس سے ہمیں بھی کچھ فائدہ ملتا اور ان کو بھی۔لیکن ہم کریں تو کیا کریں؟ہم بھی چکی کے دو پاٹوں میں اس دانے کی طرح ہیں جس نے ہر حال میں ریزہ ریزہ ہونا ہے۔ادھر غیر کو بھی خوش رکھنا ہے تو ادھر اپنے کو بھی۔ادھر اسلام کا قانون ہے تو ادھر کفر کا۔ہمیں ایک کو لازمی چھوڑنا پڑے گا کیوں کہ دو کشتیوں کا سوار ہمیشہ ڈوب جاتا ہے۔اور ہماری کشتی اسلام کی ہے۔
    غالب نے کیا خوب کہا ہے کہ:۔
    ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
    کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسہ مرے آگے
    ہم مسلمان قوم بھی عجیب روش پر چل نکلے ہیں ۔ہم چاہتے ہیں کہ حکم شیطان کا مانیں اور توقع رکھیں رحمان سے۔ہم لوگوں کی مثال یوں ہے کہاایک بندہ پیٹرل اور آگ کو ایک ساتھ میں رکھے اور کہے کہ جب پیٹرول کو آگ پر ڈالا جائے تو یہ برف بن جائے۔ایسے شخص پر ہنسیں گے نہیں تو کیا اور کیا کریں گے؟ہم بالکل اسی شخص کی طرح ہیں جو یہ کہے کہ میں گناہ بھی کروں اور سزا بھی نہ ملے۔یہ اللہ کا اصول نہیں ہے۔ہمیں آج سے ہی خود کو بدلنا ہو گا۔ہمیں وہ تمام رواج ختم کرنا ہو گے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔اگر ہم خود کو نہیں بدلیں گے تو وہ ذات بھی ہمیں نہیں بدلے گی جس کا کام ہے صرف یہ کہنا کہ ’’ہو جا‘‘۔
    شاعر نے کیا خوب کہا ہے
    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
     
  2. ندیم وجدان
    آف لائن

    ندیم وجدان ممبر

    شمولیت:
    ‏26 دسمبر 2014
    پیغامات:
    115
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    ماشاء اللہ جناب بہت اعلیٰ۔:dilphool:
    :jazakallah:
    اسی موضوع پر ایک چھوٹامگر مفید کتابچہ سالگرہ
     
  3. رفاقت حیات
    آف لائن

    رفاقت حیات ممبر

    شمولیت:
    ‏14 دسمبر 2014
    پیغامات:
    318
    موصول پسندیدگیاں:
    244
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ جناب
     
    ندیم وجدان نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں