1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

'اِعلانات، تبصرے، تجاویز، شکایات' میں موضوعات آغاز کردہ از واصف حسین, ‏13 اپریل 2011۔

  1. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے




     
  2. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے

    میں، آصف حسین بھائی، محبوب بھائی اور صدیقی بھائی 25 کے لیے متفق ہیں۔حکم کا انتظار ہے۔
     
  3. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے

    کیا محمد عبیداللہ بھائی سے آپ کا رابطہ کروادوں انہیں بھی ساتھ لے لیں
     
  4. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے

    بسم اللہ ضرور کروا دیں ۔۔۔ایک ساتھی کی گنجائش تو ہے گاڑی میں۔
     
  5. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے

    میں نے آپکو فون نمبر میسج کردیاہے فی الحال ان کا فون بند ہے میں بھی ٹرائی کرتا ہوں آپ بھی کریں
     
  6. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے

    آپ بے فکر ہو جائیں میں ان سے رابطہ کر لوں کا ۔۔۔آپ بس تاریخ کے فائنل ہونے کا اعلان کر دیں اور پورا دھیان رکھیں کہ احمد کھوکھر چکما نہ دے جائے۔۔۔
     
  7. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے

    احمد کے پاس ہم انشاء اللہ 24 کو پہنچ جائیں گے اور ان سے آہو پوری طرح کرلیں گے
    رات کو پڑاؤ سادھوکے میں میرے سسرال میں‌ہوگا صبح انشاء اللہ 6 بجے بلال بھائی کے پاس پہنچ جائیں گے ، اور امید ہے کہ 10 بجے کلر کہار میں ہونگے ۔
    باقی تفصیلات کیلئے بلال بھائی اور الکرم صاحب کا انتظار ہے ان سے ابھی رابطہ کرتا ہوں
     
  8. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے

    میں بھی تھوڑی دیر میں آصف بھائی کی طرف جا رہا ہوں۔ تمام روابط کر کے تفصیلی رپورٹ رات میں لکھ دوں گا۔
     
  9. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے

    کوئی اور دوست بھی آنا چاہے تو بھئی کھلی دعوت ہے
     
  10. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے

    آصف بھائی اور محبوب بھائی سے بالمشافہ ملاقات ہوئی دونوں 25 کے لیے تیار ہیں۔
    عبید بھائی سے بات تو نہیں ہوئی مگر انکا ایس ایم ایس آیا ہے کہ کل بتائیں گے۔
    صدیقی بھائی نے نہ تو اپنا نمبر دیا ہے اور نہ ہی رابطہ کیا ہے۔
    بلال بھائی سے فون پر بات ہوئی۔ کھانے کی بابت دریافت کر رہے تھے کہ ساتھ لایا جائے یا ادھر ہی کوئی بندبست کیا جائے۔آصف بھائی کے مطابق کلر کہار جھیل پر کھانے کا مناسب انتظام نہیں ہے مگر کلرکہار شہر میں مناسب جگہ مل جائے گی۔ چونکہ ہمیں شامل ہونے والے دوستوں کی درست تعداد معلوم نہیں اس لیے کھانے کا بندبست موقع پر ہی کیا جانا بہتر ہے۔

    ایک مشورہ یہ ہے کہ تفریح پر اٹھنے والے اخراجات موقع پر تمام دوستوں پر برابر تقسیم کیے جائیں تاکہ کسی بھی ساتھی پر بیجا بوجھ نہ پڑے۔ عام اصطلاح میں‌اس کو امریکی سسٹم کہتے ہیں۔

    اس وقت تک جن دوستوں کی شمولیت یقینی ہے ان کے نام یہ ہیں
    ہارون رشید
    ملک بلال
    آصف حسین
    واصف حسین
    محبوب خان
    جن دوستوں کے نام یقینی شمولیت کی لسٹ میں نہیں ہیں ان سے درخواست ہے کہ اپنی پوزیشن واضع کریں۔

    ہارون بھائی سے درخوست ہے کہ تمام صارفین کو ذپ کر کے اس لڑی کا ربط دے دیں تاکہ جن دوستوں کی نظر سے یہ لڑی نہیں گزری ان کو بھی اطلاع ہو جائے۔

    صدیقی بھائی سے گزارش ہے کہ یا تو اپنا رابطہ نمبر ارسال کریں یا مجھ سے رابطہ کریں۔ میں نے اپنا نمبر ان کو پہلے ہی ذپ کر دیا ہے۔

    پروگرام کے مطابق تمام دوست 25 ستمبر بوقت 10 بجے تک کلر کہار جھیل پر بنے پارک میں پہنچ جائیں۔ ہماری ٹیم صبح 7 بجے راولپنڈی سے روانہ ہو گی اور انشاء اللہ مقررہ وقت سے پہلے ہی متعین کردہ مقام پر موجود ہو گی۔
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے

    میرے ساتھ پہلے آنے والے دوست آصف ، اور شکور ہونگے اور ایک اور دوست بھائی اختر بھی ساتھ ہونگے کلر کہار شہر میں کھانے کی جگہ تلاش کرنا اور امریکن سسٹم والا آئیڈیا بلکل درست ہے
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے

    میں کِسی مجبُوری کی وجہ سےحاضر ہونے سے قاصِر ہوں
    باقی تفصیلات بِلال جی آپ سے طے کرلیں گے
    وہاں کوئی گائڈ چاہئے تو بندوبست ہو سکتا ہے
    اور کوئی خِدمت ہو تو اُس کے لیے بھی حاضِر ہوں
    آپ اگر اِدھر سے گُزرے تو میں آپ کے ساتھ بھیرہ شریف تک جا سکتا ہُوں
    ہاں ،،،، ھارون جی کڑھی کے بارے میں کیا خیال ہے ؟
    ٹائم دیکھ کے اِطلاع دینا
     
  13. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے

    یہ بھی بلال بھائی سے ہی طئہ کرلیں
     
  14. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے

    ھارون بھائی ۔۔۔۔اس لڑی کی وضاحت میں‌"راولپنڈی میں‌ملاقات" نکال کے کچھ اور اگر لکھا جائے کیونکہ اب تو اس کو بہت ہی وسیع تر بنایا گیا ہے ماشاء اللہ سے۔
     
  15. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے

    تاریخی حوالے کے طور پر تو راولپنڈی میں ملاقات اس سلسلے کی پہلی کڑی تھی اور اس کی اہمیت یا درجہ کسی طور بھی کم نہیں سمجھا جا سکتا مگر محبوب بھائی کی بات میں بھی وزن ہے اس لیے اس کو "راولپنڈی میں ملاقات" سے تبدیل کر کے "ملاقاتوں کا سلسلہ" کر دینے کی تجویز پیش کی جاتی ہے۔
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے

    نعیم بھائی اور سائیں بزم خیال سے گذاش ہے کہ وہ ہمارے فون کا انتظار کریں انشاء اللہ انہیں فون پر شامل بزم کیا جائیگا
     
  17. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے

    السلام علیکم ۔ ہارون بھائی اور دیگر برادران
    آپ کی محبتوں کا شکریہ لیکن میں اس ویک اینڈ پر برطانیہ میں ہوں گا اس لیے شاید فون پر دستیاب نہ ہوسکوں۔
    لیکن میری دعائیں۔ وفائیں اور نیک خواہشات آپ سب کے ساتھ ہیں۔
    انشاءاللہ یہ ملاقات سابقہ ملاقات سے بڑھ کر یادگار ثابت ہوگی ۔ اللہ تعالی آپ سب کا سفر اور ملاقات مبارک کرے۔ آمین

    والسلام
     
  18. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    نعیم بھائی وہاں بھی اگر لینڈ‌لائین میسر ہو تو مجھے ایس ایم ایس کردیں وہاں بھی آپ سے بات ہوسکے گی انشاء اللہ
     
  19. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    صدیقی بھائی نے آنے کی تصدیق کر دی ہے اور محمد عبیداللہ نے ذاتی وجوہات پر معذرت کر لی ہے۔ یوں اب تک جن دوستوں کی شرکت یقینی ہے ان کے نام یہ ہیں۔
    ہارون رشید
    آصف بھائی
    شکور بھائی
    اختر بھائی
    ملک بلال
    آصف حسین
    واصف حسین
    محبوب خان
    صدیقی

    احمد کھوکھر کو راہ راست پر لا سکے کہ نہیں ۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟
     
  20. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    احمد بھائی کہ خالہ جی آئی ہوئی ہیں ان کی طبیعت ناساز ہے وہ انہیں ڈاکٹر کے پاس کے کے جائیں گے اور ان کی فیکٹری کا آڈٹ‌ہورہا ہے ٹیم آئی ہوئی ہے وہ پھنسے ہوئے ہیں

    ہم انشاء اللہ اب 7 بجے روانہ ہورہے ہیں آج کا دن لاہور کے نام ۔ کل انشاء اللہ آپ تمام پیارے بھائیوں کی دید سے شرف یاب ہونگے
     
  21. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    السلام علیکم
    اللہ آپ سب دوستوں کی باہمی محبت اور خلوص یونہی قائم و دائم رکھے ، وآپسی پر احوال مع مرچ مصالہ یقینا بلال بھائی ہی تحریر کرینگے ۔
     
  22. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    تھوڑاسا لہسن پیاز میرے پاس بھی ہے
     
  23. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    آپ کو یہ جان کر بہت اچھا تو نہیں لگے گا کہ میں واپس پہنچ گیا ہوں اب دیگر بھائیوں کی آمد کا انتظار ہے جن کے پاس تصاویر اور بہت ہی شرارتی ، پیاری اور قہقہوں سے پر باتوں کا خزانہ ہے
     
  24. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    لیں جی آخرکار بفضل تعالیٰ ملاقات انجام بخیر ہوئی۔ ردواد طویل ہے اور بہت سے پیچ و خم اس میں آئے ہیں اس لیے اس پر ایک مکمل مضمون تحریر کر رہا ہوں جو کہ جلد ہی پوسٹ کرؤں گا۔ فی الوقت اتنا ہی کہوں گا کہ زندگی کی کتاب میں خوبصورت یادوں کا ایک زریں ورق رقم ہوا ہے۔ ہاورن بھائی کے ہم سب مشکور ہیں کہ یہ لمحے ہماری زیست کا حصہ بنے۔
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  25. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    حاضرین محفل اور احباب ہماری اردو۔۔۔۔۔۔۔کافی جاں گسل انتظار اور پروگرام آگے سے مزید آگے کرتے کراتے ۔۔تھکنے کی بجائے۔۔۔۔اب ہم پروگرام کی تبدیلی سے بھی لطف اندوز ہونے لگے تھے۔۔۔۔مگر ہمارے ارادے نیک تھے۔۔۔۔عزم پختہ تھا۔۔۔۔سو تمام بہانوں کے باوجود 25 ستمبر کا وہ مبارک دن آہی پہنچا۔۔۔۔۔۔کہ ہماری کے کچھ احباب کہیں بیٹھک کرسکتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ رات کو ہم ٹی وی کے آگے بیٹھ کر۔۔۔۔۔۔خود ساختہ حالات حاضرہ کے دانشور میزبان اور تھوک کے حساب سے آنے والے۔۔۔۔بلکہ کچھ تو یہ بھی کہتے ہیں‌کہ اپنے آپ کو خود ہی فون اور سفارشیں کرواکے مختلف ٹی وی چینل پر بلواتے ہیں کے افکار عالیہ سننے اور دیکھنے میں‌محو تھے۔۔۔۔۔۔واصف بھائی نے فون کیا کہ وہ ڈاکٹر آصف کے گھر آئے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔یاد رہے کہ ہم اور ڈاکٹر آصف بہت ہی اچھے پڑوسی ہیں۔۔۔۔۔سو ٹی وی پر موجود لوگوں کو آپس میں‌جھگڑتے چھوڑا اور گلی کے نکڑ پر پہنچ گئے۔۔۔۔اتنے میں واصف بھائی بقلم خود تشریف لائے اور پھر ایک سے زائد گھنٹوں پر مشتمل چلتے پھرتے ہوئے اس مجلس میں کہ بعد میں ڈاکٹر آصف بھی شریک محفل ہوئے۔۔۔۔۔۔یہ طے کیا جاتا رہا ۔۔۔۔عبید اور صدیقی بھائی سے رابطوں کی سرتوڑ کوششیں کی گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔مگر کوئی حتمی جواب ہر دونوں طرف سے نہیں‌ملا۔۔۔۔مگر ہمارے جزبے پھر بھی جوان تھے۔۔۔۔کہ انشاء اللہ پروگرام مقررہ تاریخ پر ہی ہوگا۔۔۔۔۔۔۔سو طے پایا کہ 25 ستمبر کی مبارک ساعتوں کا انتظار کیا جائے۔۔۔۔اور ڈاکٹر آصف نے ہمیں بطور خاص تاکید نما دھمکی بھی دی کہ صبح سات بجے ہم بیل پر ہاتھ رکھیں گے۔۔۔۔ہمیں کچھ شک ہوا کہ ڈاکٹر صاحب بیل یعنی گھنٹی پر ہاتھ رکھنے کے بعد اس وقت تک نہیں ہٹائیں گے۔۔۔جب ہم باہر نہیں نکلیں گے۔۔۔۔سو اس کے بعد تو ہم نے تہیہ کرلیا کہ گھنٹی بجانے سے پہلے ہی ہم اپنی باہر موجودگی کا اعلان بابانگ دہل کرتے ہوئے بقلم خود گلی میں وارد ہونگے۔۔۔۔۔اس کے بعد جو کچھ ہوگا۔۔۔وہ دیکھا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔وہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سات بجے کیا کہ ہم تو دو گھنٹے پہلے سے اٹھے ہوئے تھے۔۔۔۔۔آخر کے اذان بھی سنتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔مجھ سے کسی نے کہا کہ کسی یورپی ملک اور پاکستان میں کیا فرق ہے۔۔۔۔بس مختصر جواب دینا۔۔۔۔۔۔ہم نے عرض کی کہ یہاں پانچ وقت اذانوں کی آوازیں سنتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ہم سے کوئی نماز میں اپنی کاہلی سے سستی کرے بھی تو ۔۔۔۔۔آذانیں تو سنتا ہے اور ایک دفعہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ نماز کا وقت ہے۔۔۔۔۔لیکن وہاں۔۔۔۔۔۔ایسی کسی سعادت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔سو پاکستان زندہ باد۔۔۔۔۔۔۔۔۔سات بجنے کے بعد جب یہ دیکھا کہ آصف بھائی ابھی تک نظر نہیں‌آرہے ہیں۔۔۔۔۔تو ہم گلی میں چہل قدمی شروع کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھا کہ آصف بھائی گاڑی نکال رہے ہیں۔۔۔۔۔ہم جلدی سے بھاگ کر اپنے ٹھکانے پر پہنچے۔۔۔۔مگر آصف بھائی پھر بھی جیت گئے گھنٹی بجانے کے معاملے کہ بجاتے ہی رہے۔۔۔۔۔جی بالکل انھوں نے موبائل فون کی گھنٹی کو بجایا۔۔۔۔۔اور ہم اپنی تمام تر ہوشیاریوں کے باوجود بہت سارے گھنٹی سنتے ہوئے حاضر جناب کا نعرہ لگایا اور باہر آموجود ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں سے واصف بھائی کو لیا۔۔۔۔۔جو کہ پچھلے 35 منٹوں سے انتظار کے نام پر چہل قدمی کے نئے ریکارڈ بنا رہے تھے اور پھر توڑ رہے تھے کہ مقابلہ ان کا اپنے آپ سے تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں سے قافلے کو مزید آگے بڑھایا۔۔۔۔۔۔اور اب یہ طے تھا کہ صدیقی بھائی کو اٹھانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔سو مقررہ جگہ سے صدیقی بھائی بھی ساتھ ہوئے۔۔۔۔اب قافلے نے موٹر وے کی طرف دوڑنے کا آغاز کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔کئی گھنٹے۔۔۔۔۔۔کچھ آدھ گھنٹے بھی شامل ہونگے۔۔۔۔یہ سفر بہت ہی بہترین انداز میں جاری رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور تمام راستے میں اردو کے تمام شاعروں، ان کی شاعری۔۔۔۔ادب کے شاہ پارے اور دیگر ۔۔۔۔۔پر سیر حاصل بحث کی گئ۔۔۔۔۔یعنی سیر بھی اور حاصل بھی بہت کچھ کیا۔۔۔۔۔اس کے علاوہ ڈاکٹر آصف کی گاڑی میں غزلوں کی بہت اعلی کولیکشن موجود تھی۔۔۔۔۔وہ سب سننا بطور بونس تھا۔۔۔۔۔۔اس کے علاوہ ہمارے ناخدا تو واصف بھائی ہی بنے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔مگر محفل میں شمولیت بھی بڑھ چڑھ کے تھی۔۔۔۔۔۔۔سو قافلے کو کلر کہار کی طرف موڑا گیا۔۔۔۔۔۔لگے ہاتھوں کلر کہار کے بارے بھی کچھ بتاتا چلو کہ یہ شمالی پنجاب میں دریائے جہلم اور دریائے سندھ کے درمیان واقع ہے اس شہر کے دونوں طرف دو چٹانی پہاڑی سلسلے واقع ہیں۔۔۔۔۔جن کی لمبائی 300 کلومیٹر جبکہ چوڑائی 8 سے 30 کلومیٹر ہے۔سکیسر سب سے بلند پہاڑی چوٹی ہے۔جس کی اونچائی 1522 میٹر ہے۔ یاد رہے کہ یہی پہاڑی سلسلہ کوہستان نمک بھی کہلاتا ہے۔ جس میں‌مشہور و معروف کیوڑا کان بھی موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔ایک راز کی بات بتادوں کہ انشاء اللہ اگلی دفعہ پروگرام ہے کیوڑا نمک کان میں جایا جائے۔۔۔۔۔کب یہ تو ھارون بھائی ہی بتا سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن کئی مہینوں کے بعد ہے۔۔۔۔اس لیے تسلی رکھیں۔۔۔۔۔۔کوئی جلدی نہیں۔۔۔نمک کے ذخیروں‌کے علاوہ یہاں کوئلہ، جپسم، اور دوسرے نکمیات بھی پائے جاتے ہیں۔ ۔۔کہاجاتا ہے کہ علم الارض کے سلسلے میں کی جانی والی تحقیق کے لیے اس پہاڑی سلسلے کی چٹانوں‌میں‌مکمل ریکارڈ موجود ہے۔۔۔۔اس جھیل کا منبہ برسنے والے پانی کے علاوہ وہ قدرتی چشمے ہیں جو یہاں ان پہاڑی سلسلوں میں‌پائے جاتے ہیں۔۔۔۔اس جھیل کا پانی زیادہ نکمین ہے اس لیے انسانی استعمال کے قابل نہیں ہے۔لیکن بہت سارے پرندوں‌کی نسلیں یہاں پلتی ہیں۔۔۔۔خاص طور پر مور تو یہاں کا ایک عام پرندہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔لیکن مور کو دیکھنے کے لیے صبح سویرے یا پھر غروب آفتاب کے وقت وہاں‌موجود رہنا ضروری ہے ورنہ ہماری طرح صرف مور کے پر ہی دیکھ سکیں گے۔۔۔۔۔۔۔جب ہم وہاں ایک جگہ کھڑے ایک مقامی دکاندار سے پوچھ رہے تھے کہ بھائی جان یہ مور کہاں چلے گئے ہیں۔۔۔۔ہم اتنی دور سے آئے ہیں تو درشن کیے بنا کیسے چلیں جائیں۔۔۔۔اور دوستوں کو کیا بتائیں کہ موروں کیس رزمین میں جاکر ہمیں کوئی مور نہیں دیکھ پائے۔۔۔۔انھوں‌نے کہا کہ یہ رکھے مور کے پر بطور ثبوت لے جائیں۔۔۔۔۔دکاندار سے جب ہم نے موروں کا پوچھا تو انھوں نے کہا کہ موروں کو تنگ کرنا، پکڑنا او رہاتھ لگانا منع ہے۔۔۔ہم نے عرض کی کہ صرف دیکھنے کی بات کررہے ہیں۔۔۔۔۔ہم میں‌سے کوئی بھی شکاری نہیں ہے۔ ۔۔۔۔۔ پھر میں نے فورا کہا جناب آپ نے موروں‌کے پر نوچ کے بیچنے کے لیے دکان میں رکھ دیے۔۔۔۔وہ کہنے لگا نہیں۔۔۔جی یہ پر تو وہ خود ہی جھاڑ دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔میں نے کہ اتنے سارے پر۔۔۔۔یہاں آپ کی دکان پر تو ڈھیر لگا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔کہنے لگا۔۔۔۔تو لاہور سے آئے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد ہم تمام حاضرین بشمول ھارون بھائی۔۔۔۔۔۔ایک دوسرے کے منہ دیکھنے لگے۔۔۔۔۔۔واہ بھائی دکاندار اچھا مشور دیا۔۔۔۔۔کہ پر لے جائے بطور یادگار۔۔۔۔مگر ہیں لاہور کے۔۔۔۔۔۔پھر پتا چلے کہ لاہور میں چین سے آئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔یوں‌ہم مور اور مور پر لانے اور کسی کو ثبوت دکھانے سے محروم رہے۔۔۔۔لیکن احباب یقین رکھیں‌کہ ہم مور پہلے کسی چکر میں کلر کہار دیکھے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔اب کے موروں کی پھرنے کی جگہ پر دکان زیادہ بنے ہوئے تھے اور چینی اشیاء سے بھرے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو میں‌عرض کررہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یاد رہے کہ مجھے امید ہے تمام شریک محفل اپنے اپنے احساسات یہاں لکھنے کی کوشش کریں گے۔۔۔۔۔۔سو یہ جو کچھ لکھ رہا ہوں‌یہ میرے احساسات ہیں۔۔۔۔امید ہے کہ آپ لطف اندوز ہورہے ہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔ہم لوگ یعنی واصف بھائی، ڈاکٹر آصف، صدیقی بھائی اور یہ عاجز نو بج کر تیس منٹ پر کلر کہار جھیل پہنچ چکے تھے۔۔۔۔۔سب سے پہلے ایک چھوٹے سے بنے پلیٹ فارم پر پھرنے کا سلسلہ شروع ہوا جہاں چپو کشتی اور پیڈل کشتی سواری کے منتظر تھے۔۔۔۔۔مگر ھارون بھائی کا سوچ ہم نے بھی یہ ہمت نہیں‌کہ کہ کچھ بھی ہوسکتا ہےاو پھر پانی بھی شدید نمکین۔۔۔۔سو کنارے ہی سہی۔۔۔اتنے میں دیکھا کہ ڈاکٹر آصف جو کہ جانوروں، چرند و پرند کے ڈاکٹر ہیں۔۔۔۔ایک پرندے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔۔۔۔۔تصاویر بھی موجود ہیں۔۔۔ڈاکٹر آصف کے پاس امید ہے کہ یہاں شیئر کریں گے۔۔۔۔۔جلد ہی۔۔۔۔۔سو کافی دیر ڈاکٹر اور زبردستی کے مریض یعنی پرندہ کے درمیاں آنکھ مچولی ہوتی رہی۔۔۔۔۔۔۔اور ساتھ ساتھ تصویر کشائی بھی۔۔۔۔۔اور ہم تینوں دور سے تالی بجاتے رہے اور جی پی آر ایس نظام کے طور پر پرندے کا لوکیشن یعنی محل وقوع ڈاکٹر آصف کو بتاتے رہے۔۔۔۔۔اتنے میں پرندے نے بڑے ہی مزے سے پانی میں‌اترنے کا ارادہ کرلیا۔۔۔۔۔اور پھر ایک شان بے نیازی سے وہ پانی کے اندر تیرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد تو ڈاکٹر آصف کے پاس یہی اختیار تھا کہ تصویر پے تصویر کھنچیں سو وہ یہی کرتے رہے۔۔۔۔۔۔۔۔وہ سے قریب پرندوں‌نے بولنا شروع کیا۔۔۔۔۔ان صبح کی پیاری ہوا چل رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔اور پرندے بول رہے ہوں بلکہ گا رہے ہوں تو بڑے بڑوں کا ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔واصف بھائی کہنے لگے کہ میرا دل کرتا ہے کہ بس اکیلے یہاں‌بیٹھوں اور جھیل میں‌موجود پرندوں کی خوبصورت آوازیں سنوں۔۔۔۔۔۔لیکن جب ہم جیسے شور کرنے والے موجود ہوں تو واصف بھائی یہ شوق کہاں‌پورا کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔بہرحال جی ہزاروں‌خواہشوں میں سے یہ بھی بطور ایک خواہش کے خواہشوں کے رجسٹر میں چڑھادیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد چائے کی تلاش میں ہم جھیل کے کنارے کنارے چلنے لگے۔۔۔۔۔۔کئی کھوکھوں سے پوچھا کہ جناب چائے مل جائے گی۔۔۔۔۔۔کئی آوازیں آئی کہ جی بالکل ملے گی۔۔۔۔۔پھر عرض کی کہ ڈبے کا دودھ ہے یا کھلا۔۔۔۔پتا چلا کہ ڈبے کا دودھ ہے۔۔۔۔۔مگر میں‌ضد کی اور تمام ساتھیوں‌نے اس پر ہمیں تسلی دی کہ ابھی آدھا کلومیٹر کا علاقہ ہے جہاں‌کئی چائے والے ہیں آپ تلاش جاری رکھیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔۔۔۔۔۔۔ہم خوش ہوئے اور پھر چائے خانے تھے اور ہمارے مخصوص سوالات مگر کھلا دودھ کہاں۔۔۔۔۔سو چلتے رہے یہاں تک جھیل کے دوسرے سرے تک پہنچے اور اب یہ آخری چائے خانہ نظر آیا۔۔۔۔دھڑکتے دل اور سوچتے دماغ کے ساتھ۔۔۔۔۔اب کچھ کچھ پسینہ بھی آنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔بڑے ہی دھیمے لہجے سے پوچھا کہ چائے مل جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔جواب ملا جی۔۔۔۔۔پوچھا دودھ ڈبے کا ہے ۔۔۔۔پہلی دفعہ ہمیں جواب نفی میں ملا۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد آپ سوچ سکتے ہیں کہ ہمارے چہرے پہ ایک فاتحانہ مسکراہٹ سج گیا۔۔۔۔۔تمام ساتھیوں ۔۔۔۔۔۔ھارون بھائی بھائی اپنے گروپ کے ساتھ ابھی تک نہیں پہنچے۔۔۔۔اس لیے ان سے کوئی داد نہیں ملا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نے داد دی۔۔۔۔اور وہ بھی دل کھول کر۔۔۔۔۔بلکہ واصف بھائی۔۔۔۔۔نے دوڑ لگایا۔۔۔۔سڑک پار کی اور ایک عدد ڈبہ بسکٹوں کا ۔۔۔۔۔شاید۔۔۔۔بالکہ یقینا بطور انعام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عطاء کیا۔۔۔۔۔کہ لو جی چائے کے ساتھ۔۔۔بسکٹ بھی موجود ہیں۔۔۔۔سو نوش فرمائیں۔۔۔۔۔۔۔چائے بنانے والے کی طرف ہم اشتیاق بھری نظروں سے دیکھتے رہے۔۔۔۔مگر وہ بے نیاز انسان۔۔۔۔بس ہماری طرف پشت کیے چائے بنانے میں مشغول رہے۔۔۔۔۔۔اور خوشبو بڑھتی جارہی تھی۔۔۔۔۔آخر کار کپ اور پرچوں کی چھنا چھن آنے لگی۔۔۔۔پھر بہترین دودھ پتی چائے ہمارے سامنے تھا۔۔۔۔۔۔تو دیکھا آپ نے کہ ڈھونڈنے سے تو خدا مل جاتا ہے ۔۔۔چائے کیا چیز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سو ہم چائے پینے کے ساتھ۔۔۔۔۔اپنی تلاش کی وجہ سے اپنے سساتے ہوئے لطف اندوز بھی ہونے لگے۔۔۔۔۔اور ہر چسکی کے ساتھ یوں‌لگ رہا تھا کہ مناظر روشن ہوتے جارہے ہیں اور قہقے اور ہنسی زیادہ سنائی دیے رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور لوگوں کا چہل پہل بڑھتا جارہا ہے۔۔۔۔۔۔۔اس دوران لوکاٹ کے باغات جن کے ساتھ کچھ خوبانی کے درخت بھی لگے ہوئے تھے۔۔۔۔۔پھلوں‌کے بغیر کہ ابھی صرف بور لگے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھتے رہے۔۔۔۔۔اور واہ کرتے رہے۔۔۔۔۔۔۔پہاڑ کی ٹھنڈی چھاؤں۔۔۔۔سامنے جھیل اور ارد گرد باغات۔۔۔جس کے اندر مور بھی چھپے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کتنا خوبصورت منظر اور ماحول ہوگا۔۔۔۔۔۔اور اس ماحول کا ہم بھی حصہ تھے۔۔۔۔۔۔۔بلکہ خوب سرشاری میں ادھر سے ادھر گھوم پھر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخر کار دور سے ایک عدد گاڑی نظر آئی۔۔۔۔۔جو لگ رہا تھاکہ ایک طرف کو جھکا ہوا ہے۔۔۔۔۔اور ایکسل سے زیادہ وزن بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔باتیں شروع کی کہ موٹر وے والے زائد وزن پر چالان کے علاوہ موٹر سے نکال بھی دیتے ہیں۔۔۔۔بلکہ داخل بھی نہیں ہونے دیتے۔۔۔۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔۔ابھی ہم یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے سوچ ہی رہے تھے کہ ھارون بھائی نظر آئے۔۔۔۔سو سوچوں کو وہی قابو کیا۔۔۔۔۔۔۔۔اور آنے والے دوستوں۔۔۔۔۔ھارون بھائی، بلال بھائی، شکور بھائی، آصف بھائی، اور اختر بھائی سے ملے۔۔۔۔۔۔۔۔اور ایک دفعہ پھر جھیل کے کنارے سے جھیل کے اندر ۔۔۔۔۔۔کشیوں والی جگہ پر چلے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔دو تین لمبی سانسیں‌لی۔۔۔۔نمکین جھیل کے اوپر کچھ کرارے جملوں کو تبادلہ خیال ہوا۔۔۔۔جان محفل ھارون بھائی پورے جاہ جلال میں تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٹانگ پر پٹی چھڑھا کے پھر بھی متوازن چل رہے تھے۔۔۔۔۔طبیعت کو پوچھا۔۔۔تو سب اچھا کا نعرہ لگا۔۔۔۔۔یہ جواب تھا۔۔۔۔۔۔ھارون بھائی کی طرف سے کہ وہ ٹھیک ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں سے پہاڑ کے اوپر کے طرف چل دیئے۔۔۔۔۔۔اونچائی میں ایک دربار ہے۔۔۔۔۔جو سخی آہو باہو دربار کے نام سے جانا جاتا ہے۔۔۔۔یاد رہے کہ دربار آہو باہو سرکار حضرت سید نا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے دو پوتے شہزادگان حضرت سید نا محمد یعقوب ، حضرت سید نا محمد اسحق المعروف سخی آہو باہو سرکار کلر کہار کی سب سے بڑی روحانی شخصیات میں اپنا منفرد مقام رکھتی ہیں اور روزانہ ہزاروں کی تعداد میں ملک بھر سے عقید ت مند یہاں پر حاضری دیتے ہیں اور روحانی فیض حاصل کرتے ہیں ۔ ۔۔۔۔۔دربار میں حاضری دی۔۔۔فاتحہ پڑھنے کے بعد بلال، آصف، صدیقی اور شکور بھائی نے کیبل کار کے زریعے مزید اونچائی پہ جانے کی ضد کی۔۔۔۔۔۔۔اور پھر ہم دیکھتے ہی رہے۔۔۔۔۔اور یہ چاروں ساتھی۔۔۔۔۔۔چل دیے۔۔۔۔۔۔آخری چوٹی پر وہ لوگ گھوم پھر کے واپس آئے اور اس کے بعد یہ طے ہوا کہ اب راج کٹاس جایا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔یوں ہم پہاڑ سے نیچے اترے اور راج کٹاس کی طرف جانے کے لیے پھر سے جھیل کے کنارے کنارے چلنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تاکہ چواں سیدن شاہ جانے والی سڑک کی طرف جاسکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے خیال میں اب یہاں کچھ میں دم لے لیتا ہوں اور راج کٹاس کا احوال پھر ارسال کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رائے ضرور دیجیے کہ آپ احباب کی قیمتی رائے ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  26. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]
     
  27. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    [​IMG]

    [​IMG]
     
  28. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    واہ بئی !‌ بہت خوب !‌ اللہ یونہی محبتیں‌اور خلوص قائم رکھے ۔

    تفریح اپنی جگہ !
    -
    -
    -
    -
    -
    مگر !
    -
    -
    -
    -
    کیا آپ سب لوگ مل کر محض اس جوہڑ کو دیکھنے گئے تھے ۔
    -
    -
    -
    -
    نوٹ : ۔ یہ بات میں اپنی تفریح کے لیے پوچھ رہا ہوں ۔ :84:
     
  29. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    حصہ دوم

    پہاڑ کے اوپری چوٹی سے نیچے آئے اور جھیل کنارے چلتے ہوئے چواں سیدن شاہ سڑک کی چل دیے۔۔۔۔۔۔۔تاکہ راج کٹاس جاسکیں۔۔۔۔اب کچھ بیان راج کٹاس کے بھی ہوجائے۔۔۔پیارے پاکستان میں پوٹھوہار کے علاقے میں کلر کہار سے چوآ سیدن شاہ کی طرف جائیں تو راستے میں کٹاس کے مندر آتے ہیں جن کی اہمیت ہندو دھرم کے ماننے والوں کے لیے بے پایاں ہے مگر تقسیم ِ ہند کے بعد جب ہندو آبادی یہاں سے بھارت چلی گئی تو ان مندروں کا کوئی پرسانِ حال نہ رہا تھا۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں جب پاکستان اور بھارت باہمی اعتماد سازی کے اقدامات کررہے تھے تو اُس وقت کے گورنر پنجاب لیفٹینٹ جنرل (ریٹائرڈ) خالد مقبول نےدو ہزار تین میں کٹاس کے ان مندروں کی بحالی کی طرف توجہ دی اور بعد ازاں اُس دور کے بھارتی وزیرِ داخلہ لال کشن ایڈوانی بھی اپنے دورہ پاکستان کے دوران کٹاس کے ان مندروں کو دیکھنے گئےتھے۔ دوہزار پانچ میں ان مندروں میں یہاں موجود ہندووں کے مقدس تالاب اور دیگر عمارتوں کی درستگی اور بحالی کا کام حکومتِ پنجاب کے سپرد کیا گیا اور اس پراجیکٹ میں بڑی تعداد میں رہائشی سہولتوں کی تعمیر بھی رکھی گئی تھی تاکہ بھارت سے جو یاتری یہاں آئیں تو وہ ان مندروں کے قریب ہی قیام بھی کرسکیں۔ یہ منصوبہ ساڑھے چار کروڑ مالیت کا پراجیکٹ ہے جس کے تحت کٹاس راج میں کام ہورہا ہے۔ پنجاب کے پبلک ہیلتھ انجینرنگ ڈیپارٹمنٹ نے کٹاس راج کے تالاب کو صاف کیا اور پھر ہندووں کے مقدس چشمے کے پانی سے اس کو بھرا رکھنے کا انتظام بھی کردیا اور تالاب میں مچھلیاں بھی چھوڑ دی گئیں ہیں۔ اس مقام کی ہندو مذہب میں اہمیت کے حوالے سے محکمہ آثارِقدیمہ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ہندومت کی روایت کے مطابق شِو دیوتا اپنی بیوی کی موت پر رویا تو اُس کے آنسووں سے دو چشمے پھوٹے۔ ایک کٹاس کے مقام پر اور دوسرا بھارت میں اجمیر شریف کے قریب پوشکرا کے مقام پر۔ بھارت میں پوشکرا کے مقام پر پوجا کے دِنوں میں لاکھوں ہندو عقیدت مند حاضری دیتے ہیں اور تقسیم ِ ہند سے پہلے جتنے مذ ہبی جوش وخروش سے پوشکرا میں پوجا ہوتی تھی ویسے ہی جوش وخروش سے کٹاس میں بھی ہندو عقیدت مند پوجا کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کٹاس میں بحالی کے کام کے بعد عام خیال تھا کہ بڑی تعداد میں ہندو یاتری یہاں آیا کریں گے۔ کٹاس میں ہندوؤں کے مقدس تالاب کی صفائی اور مندروں کی دستیابی کا کام کافی حد تک مکمل ہوجانے کے بعد فروری دو ہزار سات میں ایک سو چھہتر بھارتی یاتری یہاں شِوراتری کی پوجا کے لیے آئے تھے اور اُن کے بقول تقسیمِ ہند کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں ہندو یاتری یہاں پوجا کے لیے آئے۔پچاس سے ساٹھ یاتریوں کے لیے رہائشی عمارت بھی محکمے نے تعمیر کردی ہے اور کٹاس راج کے مندروں کی درستیابی کے ساتھ ساتھ یہاں موجود مندر کے پجاری کی روایتی رہائش گاہ "بیراگی ہاؤس" اور ہری سنگھ نلوا کی حویلی کو بھی بحال کرنے کا کام جاری ہے۔۔۔۔۔۔اور اس بات کی گواہی تو ہم سب بھی دیں گے کہ بحالی کا کام زور و شور سے جاری تھا۔۔۔۔۔۔۔اور بہت کچھ بحال کیا گیا تھا۔۔۔۔۔اور یاتریوں کے لیے تعمیرات بھی کی گئیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔اسی راستے میں ہماری گاڑی کا کلچ پلیٹ کچھ گڑ بڑ کرنے لگا۔۔۔۔۔۔لیکن واصف بھائی پھر چلاتے رہے۔۔۔۔۔اب گاڑی کی رفتار میں تو کمی آگئی مگر سفر جاری رہا۔۔۔۔۔۔۔۔اس راستے میں سب سے پہلے ڈی جی خان سیمنٹ اور بیسٹ وے سیمنٹ کے فیکٹری آتے ہیں۔ ان کارخانوں کے قیام سے روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ ڈی جی سمنٹ میاں منشاء کی ہے ۔ جو مسلم کمرشل بنک کا مالک ہے۔اس کے علاوہ نشاط گروپ آف انڈسٹریز کے مالک ہیں اور قانونی طور پر پاکستان کے سب سے امیرترین شخص ہیں۔ جبکہ بیسٹ وے سیمنٹ پاکستانی نژاد برطانوی جناب سر محمد انوار پرویز کا ہے۔اور یہ برطانیہ میں دوسری بڑی کیش اینڈ کیری کمنی کا مالک ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔راستے میں جاتے ہوئے بہت ہی خوبصورت گاؤں اور مناظر نظر آرہے تھے۔۔۔۔۔اور یقین کریں کہ آنکھوں‌میں‌ٹھنڈک کا سبب بن رہی تھی۔۔۔۔یوں یہ قافلہ جو کہ نو بندوں‌پر مشتمل دو گاڑیوں میں راج کٹاس پہنچ گئی۔ سب سے پہلے سب نے مل کے چائے کا نعرہ لگایا کہ چائے چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔پوچھا گیا کونسی جناب۔۔۔۔۔۔پتا چلا دودھ پتی۔۔۔۔۔سو ہم وہاں موجود ایک چائے خانے میں چائے پینے کے لیے براجمان ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گپ شپ کے مختلف دور جاری و ساری تھے۔۔۔۔۔۔۔قدیم تعمیر شدہ مندر نظر آرہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن پہلے تھکن اتارنے کی کوشش کی گئی تاکہ دم لے کے ان اوپر نیچے پھیلے ہوئے قدیم اور یادگاری تعمیرات میں گھوما جاسکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چائے بہت ہی زبردست تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر ھارون بھائی نے ایک کپ پر ہی گزارہ کرلیا۔۔۔۔:212:۔۔۔۔۔۔۔۔بہرحال ان کی مرضی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویسے آگے ذکر آئے گا کہ پھر ان کے صبر کا پیمانہ لبریز بلکہ چھلک پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سامنے نظر آنے والے ایک مندر میں گھس گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اندر ایک غار بنا ہوا تھا۔۔۔۔جبکہ سامنے پتھروں کو خوبصورتی سے تراش کر داخلی دروازے کی شکل دی گئی تھی۔۔۔۔۔۔اس کے بعد تو اس طرح کے تعمیرات مع جھیل کا ایک وسیع اور اونچا سلسلہ تھا۔۔۔۔۔۔جس میں کئی موڑ آئے جہاں کئی ساتھیوں نے کلو کے حساب سے آکسیجن کے ساتھ انصاف کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر شاباش ہے کہ کوئی پیچے رہ نہیں گیا۔۔۔۔۔۔۔مزید اور آگے ہی آگے چلتے رہے اور آخری چوٹی پر موجود مندروں‌میں بھی پہنچ گئے۔۔۔۔ھارون بھائی نے کچھ تصاویر اب تو جو شیئر کی ہیں۔۔۔۔وہ اونچائی پر موجود مندروں کی ہیں۔۔۔۔جن کے سامنے ہم سب بیٹھے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور جس تصویر میں جو ساتھی غائب ہو۔۔۔۔سجمھے یا تو وہ تصویر لے رہا ہے یا پھر اپنی سانسیں درست کررہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شام کے سائے جب پھیلنے لگے اور بھوک اپنے جوبن پر آیا۔۔۔۔۔تو باقی تو چہروں سے ظاہر ہونے لگے۔۔۔۔۔مگر ھارون بھائی کے چہرے سے کبھی بھی آپ کو یہ احساس نہیں‌ہوسکتا کہ انھیں بھوک لگی ہے یہ وہ بھوکے ہوسکتے ہیں۔۔۔۔ماسوائے کہ وہ اس کا اظہار اپنے زبان سے نہ کریں۔۔۔۔۔سو اچانک کہ ہم نڈھالی کی طرف جارہے تھے۔۔۔۔ایک نعرہ مستانہ مگر سب کے دل کی آواز گونجی۔۔۔۔۔۔کہ بھائیوں کھانا نہیں کھانا۔۔۔۔۔بس بہت ہوگیا۔۔۔۔اب چلو کہیں کھانا کھاتے ہیں۔۔۔۔۔۔سب کی جان میں‌جان آئی۔۔۔۔۔۔۔۔واپسی پر ایک ہاتھ نلکے سے ھارون بھائی نے اسے گیڑنا یعنی ہاتھ سے چلانا شروع کیا اور ہم لوگ اس ٹھنڈے ٹھار پانی سے ہاتھ منہ دھونے کے علاوہ پینے بھی لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب پیاسے۔۔۔۔اور ایک ساقی۔۔۔۔۔۔۔ھارون بھائی یہاں‌تک کہ سب سیراب ہوگئے۔۔۔۔اور پھر چل پڑے۔۔۔۔۔ھارون بھائی خود پانی پیتے ہوئے بھی بضد تھے کہ وہ نلکہ خود ہی چلائیں گے۔۔۔۔مگر میں نے منتیں‌کی کہ ہمیں‌یہ سعادت لینے بلکہ لوٹ لینے دیں۔۔۔۔۔۔شکر ہے وہ راضی ہوگئے اور ہم نلکہ پر ہاتھ صاف کرنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد یہ طے ہوا کہ واپسی کا سفر بطرف کلر کہار جھیل شروع کی جائے اور راستے میں ایک اچھا ہوٹل ھارون بھائی پہلے سے تاڑ چکے ہیں ۔۔۔ اس میں کھانا کھایا جائے۔۔۔۔۔سو چل پڑے۔۔۔۔۔۔۔یہاں تک اس مطلوبہ ہوٹل تک پہنچے۔۔۔۔۔۔واصف بھائی نے ایک نعرہ مستانہ بلند کیا کہ دال سبزی کے علاوہ جو دستیاب ہو وہ منگوایا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ھارون بھائی کے چہرے پر ایک رونق آئی اور سب اس فرمائش پر دل و جان سے داد دینے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخر کار طے پایا کہ مرغی کے کڑاہی پر زرا ہاتھ مارا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔بہت ہی زائقے والا اور صاف ستھرا کھانا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کھانے کے بعد پھر چل پڑے۔۔۔۔۔طے پایا کہ کہیں چائے نوش کی جائے۔۔۔۔۔۔کہ کھانا تو تناول کرچکے ہیں۔۔۔۔۔پھر ھارون بھائی نے ایک باآواز بلند اقوال زریں پیش کی کہ راستے میں کہیں چائے پیتے ہیں۔۔۔۔سب نے تائید کی۔۔۔۔اور جب چائے پینے لگے۔۔۔۔تو ھارون بھائی کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا۔۔۔۔۔اور چائے والے سے کہا کہ میرا یہ پیالہ ختم ہوجانے سے پیشتر ایک اور پیالہ دودھ پتی لبریز خدمت میں پیش کی جائے۔۔۔۔۔۔۔باقی سب ایک کپ چائے سے لطف اندوز ہوتے رہے۔۔۔۔مگر آفرین ہے ھارون بھائی پر کہ دو دور چائے کے ہوئے پھر بھی مرد حق مرد مومن ۔۔۔ھارون بھائی ھارون بھائی۔۔۔۔۔سب سے آگے تھے۔۔۔۔۔۔یہاں سے چلنے سے پپشتر قافلہ دو حصوں میں بٹ گیا۔۔۔۔۔کہ جانے کے سمت تبدیل ہوئے۔۔۔۔۔خدا حافظ اور پھر سے ملنے کے وعدے اور ارادے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔یوں اسلام آبادی قافلہ اپنے راستے پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ھارون بھائی آتے ہوئے اور جاتے ہوئے کیا کرتے رہے کس سے ملے ۔۔۔۔خود ہی کچھ روشنی ڈال سکیں گے۔۔۔۔۔۔ہم تو پھر کلر کہار انٹر چینج سے دوبارہ موٹر وے داخل ہوئے۔۔۔۔۔۔۔رفتار گاڑی میں خرابی کے سبب کم کم ہی تھا۔۔۔۔۔۔یہاں تک کہ شہر اسلام آباد کو نزدیک ہی پہنچ گئے تھے۔۔۔۔کہ ہماری گاڑی نے مزید چلنے سے انکار کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر ہم بھی ہمت کب ہارنے والے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ناخدا واصف بھائی کے سوا تمام شیر نیچے اترے اور گاڑی کے ساتھ کشتی کرنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد موٹر وے والے پہنچ گئے۔۔۔۔۔اور رابطوں کے بعد یہ نوید سنا دی کہ انتظار کریں اسلام آباد سے ریکوری گاڑی آئے گی۔۔۔۔۔۔تاکہ پھر آپ گاڑی کو گاڑی کے ساتھ جوڑ کر جاسکیں۔۔۔۔۔۔۔اب ہم تھے۔۔۔۔رات کا اندھیرا تھا۔۔۔۔۔۔سڑک پر فراٹے سے گزرتی گاڑیا تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا پھر ڈاکٹر آصف کی گاڑی میں موجود بہترین موسیقی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخر کار ریکوری گاڑی نے ہمیں ساتھ لیا اور اسلام آباد ٹول پلازہ پہنچے اور پھر واصف بھی کے مسلسل رابطے رنگ لائے اور ہم گھر تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔یوں یہ سفر بہت ہی یادگار رہا اور ثبوت کچھ تصاویر اوپر موجود ہیں۔۔۔۔کچھ مزید اور آئیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک خوبصورت دن۔۔۔۔۔ایک بہترین محفل۔۔۔۔ایک یاد گار سفر۔

    تو دیکھیں‌ہماری اردو اور پیاری اردو کے توسط سے ہم اس سفر کا اس مجلس کا باقاعدہ حصہ رہے۔۔۔۔۔اور آپ یعنی صرف پڑھنے والے احباب روداد جبکہ دیگر شریک سفر ساتھی بھی اپنے اپنے انداز سے اس پر اپنا بیان یہاں‌پیش کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔پڑھ کر لطف اندوز ہورہے ہونگے۔۔۔۔۔اپنے آراء کا ضرور اظہار کریں۔
     
    سید شہزاد ناصر اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  30. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    جواب بھی اسی انداز میں بھٹی صاحب حاضر ہے۔۔۔۔۔ہمارے گاؤں میں‌۔۔۔۔بلوچستان۔۔۔۔۔لوگ آپ جانتے ہیں ویسے ہی سادے ہیں۔۔۔۔۔یہ حقیقی قصہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک لڑکے نے اپنے والد سے کہا کہ ابو جی پک نک پر جانا ہے دوستوں‌کے ساتھ اگر آپ اجازت دیں۔۔۔۔۔۔والد نے پوچھا بیٹا یہ پک نک کیا چیز ہے۔۔۔۔۔۔۔بیٹے نے پہلے تو کوشش کی پک نک کو انگریزی یا شہری انداز میں‌سمجھائے۔۔۔۔مگر ٹھیڑی کھیر پلے نہیں‌پڑا۔۔۔۔تو لڑکا آسان انداز میں‌بتانے لگا کہ ابا جی ۔۔۔۔۔۔ہم سب دوست اپنے اپنے گھروں سے کچھ پکا کر لے جائیں گے۔۔۔۔۔اور دیگر پھل فروٹ بھی ساتھ ہوگا۔۔۔۔۔۔پھر ہم کئی کلومیٹر کا سفر کرکے فلاں پہاڑ کے چوٹی پر جائیں گے۔۔۔۔اور مل بیٹھ کے کھانا کھائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔ان کے والد نے معصومیت سے جواب دیا۔۔۔۔۔بیٹے یہ کھانا کہیں نیچے کھایا نہیں جاسکتا۔۔۔۔۔۔:237:

    تو وہ بچہ کچھ بھی کہنے سے مزید قاصر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:113:۔۔۔۔امید ہے کہ آپ کچھ کچھ سمجھ گئے ہونگے۔۔۔۔۔باقی رودادیں پڑھیں گے تو امید ہے کہ آپ بھی پسند کریں گے۔
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں