1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہمارا گلی ڈنڈا اور ان کی سائنس

'جنرل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از کنورخالد, ‏28 فروری 2011۔

  1. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    مستقبل کی فصل کے لیے ماضی کے جینز

    دورِ حاضر میں فصلیں کئی گنا پیداواری صلاحیت رکھتی ہیں

    انسانی خوراک میں اضافے کے لیے ماہرینِ نباتات اب پودوں کی قدیم نسلوں پر انحصار کر رہے ہیں اور امریکی محققین کا کہنا ہے کہ وہ چاول اور مکئی جیسی فصلوں کی قدیم اقسام کے جینز استعمال کر کے مستقبل کے لیے سخت جان اور بیماریوں کے خلاف زیادہ قوتِ مدافعت رکھنے والی فصلوں کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔

    واشنگٹن میں منعقدہ سائنسی ترقی کی امریکی ایسوسی ایشن کے اجلاس میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ ایسی فصلیں اگانا چاہتے ہیں کہ جو سیلاب اور قحط کا مقابلہ کر سکیں اور ان کے لیے زیادہ کھاد بھی درکار نہ ہو۔

    سائنسدانوں نے دعویٰ کیا کہ چاول، گندم اور مکئی کی قدیم اقسام میں ایسے جین ملے ہیں جن کی مدد سے ان فصلوں کی موجودہ اقسام کی، بیماریوں کے خلاف قوتِ مدافعت بڑھائی جا سکتی ہے۔

    کئی نسلی تبدیلیوں کے بعد دورِ حاضر میں انسانی خوراک کی فصلیں، کئی گنا پیداواری صلاحیت رکھتی ہیں۔ لیکن جدید جینیاتی تکنیک نے ثابت کر دیا ہے، کہ محض پیداواری صلاحیت پر توجہ دیتے ہوئے، انسانوں نے فصلوں کی ایسی جینیاتی صلاحیتوں کو متاثر کر دیا، جو دورِ حاضر کی اہم ضرورت ہیں۔

    پرانے جینز کو دورِ حاضر کی فصلوں کی اقسام کے جینز کے ساتھ ملا کر باصلاحیت فصلوں کا حصول، مستقبل کا ایک بڑا چیلنج ثابت ہو گا۔

    ائین گراہم

    چاول کی قدیم اقسام کا مطالعہ کرنے والے محققین کو پتہ چلا ہے کہ قدیم دور کے چاول میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے، اور سیلاب اور خشک سالی جیسی آفات کو برداشت کرنے کی صلاحیت نسبتاً زیادہ تھی۔ ایک محقق، پروفیسر ائین گراہم کا خیال ہے کہ قدیم فصلوں کے جین کے ذریعے دورِ حاضر کی اقسام کی خصوصیات بحال کی جا سکتی ہیں۔

    ان کے مطابق’جب ہماری آج کل کی خوراک پر نظر ڈالی جائے تو ان میں گندم، مکئی اور سویا بین عام ہیں۔ دورِ حاضر میں ہمارے پاس ان فصلوں کا بڑا محدود جینیاتی ڈھانچہ ہے۔ لیکن اگر ہم قدیم دور کی جنگلی پودوں کے جین دیکھیں، تو اُن میں بیرونی مداخلت کے بغیر ہی، بہتر افزائش کی صلاحیت تھی۔ اِن پرانے جینز کو دورِ حاضر کی فصلوں کی اقسام کے جینز کے ساتھ ملا کر باصلاحیت فصلوں کا حصول، مستقبل کا ایک بڑا چیلنج ثابت ہو گا‘۔

    سائنسدانوں کی یہ بھی کوشش ہے کہ وہ نئے اور پرانے جینز کے امتزاج سے فصلوں کی ایسی اقسام تیار کریں جنہیں کم سے کم کھاد کی ضرورت پڑے، تاکہ غریب کسانوں کے اخراجات کم ہو سکیں اور ماحول کو آلودہ ہونے سے بھی بچایا جا سکے۔
     
  2. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہمارا گلی ڈنڈا اور ان کی سائنس

    عالمی ڈیٹا سٹور کرنے کی صلاحیت کیا ہے؟
    سی ڈیز

    اگر یہی انفارمیشن سی ڈیز پر جمع کی جائے تو سی ڈیز کا انبار چاند سے بھی اوپر پہنچ جائے گا

    سائنسدانوں نے اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ انسان دنیا میں موجود بے شمار اطلاعات کو کس حد تک سٹور کر سکتا ہے۔

    سائنس کے جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 2007 تک دنیا میں سٹور ہونے والا ڈیٹا 295 ایکسا بائٹ ہے جو اوسطاً 12 ملین ہارڈ ڈرائیو کے مساوی ہے۔

    تحقیق کاروں نے 1986 سے 2007 کی انفارمیشن کمپیوٹروں، ڈی وی ڈیز، کتابوں اور اشتہاروں سمیت 60 قسم کی ٹیکنالوجی سے لیے گئے اعدادو شمار کی بنیاد پریہ اندازہ پیش کیا ہے۔

    جنوبی کیلیفورنیا یونیورسٹی کے سائنسدان ڈاکٹر مارٹن ہلبرٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر ہم یہ تمام اطلاعات لے کر انہیں کتابوں میں جمع کریں تو ان کتابوں کا انبارامریکہ یا چین کے برابر کے رقبے میں پھیل جائے گا۔

    کمپیوٹر میں انفارمیشن جمع کرنے کی پیمائش روایتی طور پر کلو بائٹس پھر میگا بائٹس اور اب عموماً گیگا بائٹس میں کی جاتی رہی ہے جس کے بعد ٹیرا بائٹس، پیٹا بائٹس اور اب ایکسا بائٹس آ گیا ہے اور ایک ایکسا بائٹ ایک بلین گیگا بائٹس کے برابر ہے۔

    تحقیق کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یہی انفارمیشن سی ڈیز پر جمع کی جائے تو سی ڈیز کا انبار چاند سے بھی اوپر پہنچ جائے گا
     
  3. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہمارا گلی ڈنڈا اور ان کی سائنس

    امریکہ: اینٹی ایئرکرافٹ لیزر کا تجربہ
    فائل فوٹو

    کمپنی بہت دنوں سے لیزر تجربات میں مصروف تھی

    ہتھیار بنانے والی ایک امریکی کپمنی ’ریتھیون‘ نے ایئر شو کے دوران جہاز کو مار گرانے والی ایک خصوصی لیزر ٹیکنالوجی کو پیش کیا ہے۔

    کپمنی نے ہیمپشائر میں فانبرہ کے مقام پر ایک ایئر شو کے دوران یہ تجربہ کیا ہے۔

    ’دی لیزر کلوز ان ویپن سسٹم‘ یعنی سی آئی ڈبلیو ایس نامی اس نظام کا بذات خود بھی استعمال کیا جا سکتا ہے یا توپوں کے ساتھ بھی مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔

    اس سے قبل مئی میں بغیر پائلٹ والے ایک جہاز کو مارگرانے کے لیے لیزر کا کامیاب تجربہ کیاگيا تھا۔

    ریتھیون کا کہنا ہے کہ سولڈ فائبر کی لیزر سے پچاس کلوواٹ کی شعائیں پیدا ہوتی ہیں اور وہ بغیر پائلٹ والے جہاز، مورٹار، راکٹ اور اور چھوٹے سمندری جہازوں کے خلاف استعمال کی جا سکتی ہیں۔

    لیزرز کی دریافت انیس سو ساٹھ میں ہوئی تھی اور تبھی سے انہیں بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ پہلے کیمائی لیزر کا سسٹم تھا جو کیمکل کے ردعمل سے قوت پاتی تھیں۔

    لیکن اس کے برعکس سولڈ سٹیٹ لیزرز شیشے یا سرمیک مادے کی مدد سے شعائیں پیدا کرتی ہیں۔

    دفاع سے متعلق ایک ہفتہ وار میگزین جین ڈیفنس کے ایڈیٹر پیٹر فیلسٹیڈ کا کہنا ہے کہ سی آئی ڈبلیو ایس اب دفاعی امور میں استعمال کی جا سکے گي۔ ’بغیر پائلٹ والا جہاز نہ تو ہتھیار ہے اور نہ ہی بہت تیزی سے اڑتا ہے لیکن لیزر سے اسے گرادیا گیا۔ یہ ابھی اس ٹیکنالوجی کا ابتدائی مرحلہ ہے جو مستقبل میں بہت موثر ثابت ہوسکتی ہے۔‘

    ریتھیون کمپنی کے نائب صدر مائک بوئن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ تجربہ لیزر ٹیکنالوجی کے شعبہ میں ایک بڑا قدم ہے۔

    ان کا کہنا تھا ’اینٹی میزائیل نظام کے تحت اسے امریکی اور نیٹو کے بہت سے جہازوں، جیسے رائل بحریہ پر پہلے ہی نصب کیا جا چکا ہے۔ یہ بچنے کا آخری حربہ ہے۔ تو اگر آپ نے اسے بھی نصب کر لیا تو پہنچ دور تک ہو جاتی ہے۔‘

    بغیر پائلٹ والا جہاز نہ تو ہتھیار ہے اور نہ ہی بہت تیزی سے اڑتا ہے لیکن لیزر سے اسے گرادیا گیا۔ یہ ابھی اس ٹیکنالوجی کا ابتدائی مرحلہ ہے جو مستقبل میں بہت موثر ثابت ہوسکتی ہے۔

    جین ڈیفنس میگزین

    لیکن لیزر ٹیکنالوجی ابھی پوری طرح سے ترقی نہیں کر پائی ہے اور اس میں بعض مشکلات کا سامنا ہے۔

    مسٹر بوئن بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں ان مشکلات کو دور کیا جا سکتا ہے۔

    ’ہر مادے کی اپنی ریفلیکشنز ہیں لیکن آپ طاقت سے اس پر قابو پا سکتے ہیں۔ ایک بار آپ اس کے کلو واٹ اور تھریش ہولڈ پر قابو پالیں تو پھر لیزرز وہی کریں گی جس کے لیے وہ ڈیزائن کی گئی ہیں۔‘

    لیزر سے بغیر پائلٹ کے جہاز کو مار گرایا گیا لیکن کمپنی نے اس کی رفتار، اونچائی اور رینج کے متعلق کچھ بھی نہیں بتایا۔ ریتھیون کا کہنا ہے کہ اس کا ڈیٹا کافی حساس ہے۔

    مسٹر فیلسٹیڈ کا کہنا تھا کہ لیزر ٹیکنالوجی کو صرف جہاز گرانے کے لیے ہی نہیں بلکہ کئی دوسری چیزوں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

    ’افغانستان میں ایئربیس، بغداد میں گرین زون اور غزہ کی سرحد پر اسرائیل کی جانب سے اس طرح کی ٹیکنالوجی بخوبی استعمال کی جا سکتی ہے۔‘
     
  4. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہمارا گلی ڈنڈا اور ان کی سائنس

    شاہ محمود قریشی کا گلی ڈ نڈا

    اُن کے استقبال کے لیے پارٹی نے کوئی اہتمام نہیں کیا

    پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی سے علیحدہ نہیں ہو رہے ہیں اور نہ ہی فاروق لغاری بنیں گے۔

    اُن کے مطابق پارٹی قیادت سے اختلافات نہیں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ایماندار قیادت آگے آئے۔

    انہوں نے کہا ’وہ امریکہ کے سامنے جھکنا نہیں چاہتے اور ایسٹیبلشمینٹ کے کہنے پر پارٹی میں کوئی گروہ نہیں بنا رہے۔‘

    شاہ محمود قریشی کے دورے کے موقع پر سندھ میں نامعلوم افراد نے مختلف شہروں میں بینرز لگائے۔ جن پر لکھا تھا ’تاریخ سے سبق سیکھیں، فاروق لغاری کا حشر یاد رکھیں۔‘ جبکہ اُن کے مریدوں نے انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے جہاں خیر مقدمی بینر آویزاں کیے وہاں مقامی اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات بھی شائع کروائے۔

    لاہور میں دو شہریوں کے قتل میں ملوث امریکی اہلکار ریمنڈ ڈیوس کی سفارتی حیثیت کے تنازعے پر بظاہر شاہ محمود قریشی کو وزارتِ خارجہ نہیں دی گئی۔ جس کے بعد ملتان کے اس پیر نے سندھ کا سفر شروع کیا اور گڑھی خدا بخش میں اپنے سیاسی پیروں کی درگاہ پر حاضری بھی دی۔

    شاہ محمود قریشی کے دورے کے موقع پر سندھ میں نامعلوم افراد نے مختلف شہروں میں بینرز لگائے۔ جن پر لکھا تھا ’تاریخ سے سبق سیکھیں، فاروق لغاری کا حشر یاد رکھیں۔‘ جبکہ اُن کے مریدوں نے انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے جہاں خیر مقدمی بینر آویزاں کیے وہاں مقامی اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات بھی شائع کروائے۔

    شاہ محمود قریشی کے دورہ سندھ سے پیپلز پارٹی نے لاتعلقی ظاہر کی اور کہا کہ پارٹی کو اس دورے کی کوئی اطلاع نہیں دی گئی اس لیے اُن کے استقبال کے لیے پارٹی نے کوئی اہتمام نہیں کیا۔

    شاہ محمود قریشی نے نئی جماعت بنانے یا پیپلز پارٹی میں گروہ بندی کی بظاہر تو برملا تردید کی ہے لیکن کئی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اُن کے دورہ سندھ کا مقصد پیپلز پارٹی کی قیادت پر دباؤ ڈالنا اور یہ اندازہ کرنا تھا کہ انہیں اپنے مریدوں اور پارٹی کارکنوں سے کتنا رسپانس ملتا ہے۔

    اُن کے دورے کے موقع پر مختلف اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوئیں کہ شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی (بینظیر بھٹو گروپ) بنانا چاہتے ہیں اور وہ ناہید خان، صفدر عباسی، ممتاز بھٹو، اعتزاز احسن، غنویٰ بھٹو اور فاطمہ بھٹو سے رابطے کریں گے۔

    شاہ محمود قریشی نے نئی جماعت بنانے یا پیپلز پارٹی میں گروہ بندی کی بظاہر تو برملا تردید کی ہے لیکن کئی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اُن کے دورۂ سندھ کا مقصد پیپلز پارٹی کی قیادت پر دباؤ ڈالنا اور یہ اندازہ کرنا تھا کہ انہیں اپنے مریدوں اور پارٹی کارکنوں سے کتنا ’رسپانس‘ ملتا ہے۔

    اطلاعات کے مطابق شاہ محمود قریشی کو پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور سرکردہ شخصیات سے تو کوئی خاص رسپانس نہیں ملا البتہ اُن کے مریدوں نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اُن کی آؤ بھگت ضرور کی۔ لیکن یہ صورتحال مسٹر قریشی کی خواہشات اور توقعات کی نسبت کافی مایوس کن ہے کیونکہ انہیں اجرکیں اور ٹوپیاں تو بہت ملیں لیکن سیاسی حمایت بہت کم۔

    آج سے تیس چالیس برس پہلے سندھ سے ہزاروں کی تعداد میں غوث بہاؤالدین کی درگاہ سمیت ملتان کے گدی نشینوں کے دربار میں لوگ حاضر ہوتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ سندھ میں یہ کہاوت عام ہوئی کہ ’اندھن ملتان لدھو باقی اساں نہ لھنداسیں‘ یعنی نابینوں نے ملتان تلاش کرلیا کیا ہم نہیں کر سکتے۔

    شاہ محمود قریشی کو اپنے تین روزہ دورۂ سندھ کے دوران اتنا ’فیڈ بیک‘ ضرور مل گیا ہوگا کہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں کیونکہ انہیں اپنے ساتھی مخدوم امین فہیم سے ہونے والا سلوک بھی یاد ہوگا جب سنہ دو ہزار آٹھ کے انتخابات کے بعد مخدوم امین فہیم کے صدر آصف علی زرداری سے اختلافات تھے۔

    اُن دنوں سندھ حکومت بنانے کے لیے پیپلز پارٹی کے اراکین صوبائی اسمبلی کا کراچی میں ایک اجلاس طلب کیا گیا اور مخدوم امین فہیم نے اپنے بعض مریدوں کو پیغام دیا کہ وہ اس اجلاس میں نہ جائیں۔ جس پر انہیں جواب ملا ’قبلہ آپ مرشد ہیں، جان بھی حاضر ہے لیکن ووٹ شہید بہن بینظیر کا ہے۔‘
     
  5. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہمارا گلی ڈنڈا اور ان کی سائنس

    گلی ڈنڈا کی ٹیم کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    حلف اٹھانے والے ارکان کابینہ میں اکیس وفاقی اور ایک وزیر مملکت شامل ہیں۔

    حلف اُٹھانے والے وفاقی وزراء میں رحمان ملک (داخلہ)، فردوس عاشق اعوان (اطلاعات و نشریات)، منظور وٹو (کشمیر و گلگت بلتستان امور)، مخدوم شہاب الدین (ٹیکسٹائل)، غلام احمد بلور (ریلوے)، احمد مختار (دفاع)، میر چنگیز خان جمالی (سائنس و ٹیکنالوجی)، میاں رضا ربانی (بین الصوبائی رابطہ)، نوید قمر (نجکاری)، مخدوم امین فہیم (تجارت)، شہباز بھٹی (اقلیتی امور)، شوکت اللہ (ریاستی و سرحدی امور)، خدا بخش راجڑ (انسداد منشیات)، میر ہزار خان بجارانی (صنعت و پیداوار)، ثمینہ خالد گُھرکی (ماحولیات)، بابر اعوان (قانون، انصاف و پارلیمانی امور)، اسرار اللہ زہری (خوراک و زراعت)، ارباب عالمگیر (مواصلات)، حفیظ شیخ (خزانہ)، خورشید شاہ (مذہبی امور) ، محمد عمر گُرگیج (پوسٹل سروسز) شامل ہیں۔

    حنا ربانی کھر کو وزیر مملکت برائے خارجہ امور مقرر کیا گیا ہے۔
     
  6. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہمارا گلی ڈنڈا اور ان کی سائنس

    ’اتحاد ٹوٹنے سے فائدہ تیسری قوت کو ہوگا‘

    احمد رضا

    بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

    نواز شریف نے گزشتہ روز ہی پی پی پی سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا

    پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں حکمران جماعت مسلم لیگ نون کی جانب سے صوبے میں پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد توڑنے کے اعلان پر وفاقی حکومت کے اتحادیوں نے مختلف آراء کا اظہار کیا ہے۔
    آپ کی گلی ڈنڈا ٹیم مضبوط نہیں جناب
     
  7. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہمارا گلی ڈنڈا اور ان کی سائنس

    پاکستان میں پنجاب دوسرا صوبہ تھا جو خیبر پختونخواہ کے بعد سیلاب کا شکار ہوا اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کےگیارہ اضلاع کے ساٹھ لاکھ افراد سیلابی پانی سے متاثر ہوئے۔

    صوبہ پنجاب میں سیلاب سے تین لاکھ تیس ہزار مکانات تباہ ہوئے اور ان مکانات میں بسنے والے افراد سیلابی پانی اتر جانے کے باوجود بےسروسامانی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    پنجاب میں سیلاب کے نتیجے میں بےگھر ہونے والے افراد کو ابتدائی طور پر ایک ہزار کے قریب سکولوں اور تین سو سے زائد امدادی کیمپوں میں رکھا گیا تھا جبکہ لاکھوں افراد ایسے تھے کہ جنہیں کوئی کیمپ نہ ملا تو انہوں نے سڑکوں اور کھلے میدانوں میں ہی ڈیرے جما لیے۔

    اب جبکہ صوبے میں سیلابی پانی اتر گیا ہے تو حکومت اور مخِتلف سماجی تنظیموں کی جانب سے لگائے گئے یہ امدادی کیمپ بند کر دیےگئے ہیں۔
    پنجاب حکومت نے تباہ ہونے والے دیہات کو مثالی گاؤں بنانے کا فیصلہ کیا ہے تاہم خالد شیردل کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ مثالی گاؤں مخیر افراد کی امداد سے بنائے جا رہے ہیں اس لیے ان کی تکمیل کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جا سکتا۔

    پنجاب کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل خالد شیر دل کے مطابق انہیں یہ کیمپ اس لیے بند کرنے پڑے کیونکہ سکولوں کو کھولنا تھا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ اب تک صرف ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ تک خیمے بانٹے گئے ہیں اس لیے آدھے سے زیادہ خاندان ایسے ہیں کہ جنہیں ٹینٹ بھی نہیں مل سکے ہیں۔

    خالد شیردل کے مطابق تباہ شدہ مکانات میں سے ستر فیصد مکمل طور پر اور تیس فیصد جزوی طور پر تباہ ہوئے اور حکومت نے تباہ شدہ دیہات کو مثالی گاؤں بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم خالد شیردل کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ مثالی گاؤں مخیر افراد کی امداد سے بنائے جا رہے ہیں اس لیے ان کی تکمیل کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جا سکتا۔
    سرد موسم

    سیلابی پانی اتر جانے کے بعد متاثرین سیلاب اپنےگھروں کو تو لوٹ گئے لیکن انہیں درپیش ایک بڑا مسئلہ بے سروسامانی کے عالم میں سرد موسم کا سامنا ہے۔



    ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی پنجاب کے ایم ڈی کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت یکم نومبر سے ایک مہم شروع کر رہی ہے جس میں سکولوں کے بچوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے گھروں سے کمبل، لحاف اور گرم کپڑے لائیں جبکہ دس فیصد متاثرین کو حکومت نے خود کمبل اور لحاف دینے کا آغاز بھی کر دیا ہے۔

    خالد شیر دل نے کہا کہ متاثرین وطن کارڈ سے ملنے والی بیس ہزار کی رقم سے بھی اپنے لیے لحاف خرید سکتے ہیں کیونکہ بقول ان کے بیس ہزار کی رقم کافی ہوتی ہے۔تاہم ایسی مہم سے اتنے بڑے پیمانے پر بے گھر ہونے والے متاثرین کو جلد از جلد ایسا ساز وسامان فراہم کرنا ممکن نہیں ہے جس سے وہ سرد موسم کی سختی سے بچ سکیں۔
    زراعت اور مال مویشی

    ستر لاکھ ایکڑ سے زائد قابل کاشت اراضی سیلاب سے متاثر ہوئی

    موسمی حالات سے نبرد آزما اور اس وقت بنیادی ضروریات سے محروم متاثرین سیلاب کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ذرائع آمدنی سے بھی محروم ہو چکے ہیں کیونکہ کافی تعداد میں لوگوں کے مویشی بھی پانی کی نظر ہوئے جبکہ بچ جانے والے جانور مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔

    سرکاری اعدادو شمار کے مطابق سیلابی پانی نے تقریباً پانچ ہزار مویشی نگل لیے جبکہ لاکھوں کی تعداد میں جانور متاثر ہوئے۔ سیلاب کی بے رحم موجیں آٹھ سو سے زائد پولٹری فارم بہا کر لے گئیں اور یوں سیلاب زدہ علاقوں کے لوگوں کا ایک اہم ذریعۂ معاش بھی جاتا رہا۔

    پنجاب میں ستر لاکھ ایکڑ سے زائد قابل کاشت اراضی سیلاب سے متاثر ہوئی اور دس فیصد تیار فصلیں سیلابی پانی میں بہہ گئیں۔تباہ ہونے والی فصلوں میں کپاس،گنا ،چاول، جوار، دال اور چارہ شامل ہیں اور اس سے زراعت میں پنجاب کو اسّی ارب روپے سے زائدکا نقصان ہوا۔

    خالد شیر دل کا کہنا تھا کہ حکومت کسانوں کے اس نقصان کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ خالد شیر دل کا کہنا تھا کہ سیلاب سے متاثر ہونے والے وہ کاشت کار جن کے پاس پچیس ایکڑ سے کم زمین ہے انہیں ساڑھے بارہ ایکڑ تک حکومت فی ایکڑ ایک بوری کھاد اور ایک بوری بیج دے گی۔
    تعلیم اور مواصلاتی نظام
    سیلاب کی بے رحم موجیں آٹھ سو سے زائد پولٹری فارم بہا کر لے گئیں اور یوں سیلاب زدہ علاقوں کے لوگوں کا ایک اہم ذریعۂ معاش بھی جاتا رہا۔

    ستر فیصد مکانات مکمل اور تیس فیصد جزوی طور پر تباہ ہوئے

    پاکستان میں پنجاب دوسرا صوبہ تھا جو خیبر پختونخواہ کے بعد سیلاب کا شکار ہوا اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کےگیارہ اضلاع کے ساٹھ لاکھ افراد سیلابی پانی سے متاثر ہوئے۔

    صوبہ پنجاب میں سیلاب سے تین لاکھ تیس ہزار مکانات تباہ ہوئے اور ان مکانات میں بسنے والے افراد سیلابی پانی اتر جانے کے باوجود بےسروسامانی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    پنجاب میں سیلاب کے نتیجے میں بےگھر ہونے والے افراد کو ابتدائی طور پر ایک ہزار کے قریب سکولوں اور تین سو سے زائد امدادی کیمپوں میں رکھا گیا تھا جبکہ لاکھوں افراد ایسے تھے کہ جنہیں کوئی کیمپ نہ ملا تو انہوں نے سڑکوں اور کھلے میدانوں میں ہی ڈیرے جما لیے۔

    اب جبکہ صوبے میں سیلابی پانی اتر گیا ہے تو حکومت اور مخِتلف سماجی تنظیموں کی جانب سے لگائے گئے یہ امدادی کیمپ بند کر دیےگئے ہیں۔
    پنجاب حکومت نے تباہ ہونے والے دیہات کو مثالی گاؤں بنانے کا فیصلہ کیا ہے تاہم خالد شیردل کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ مثالی گاؤں مخیر افراد کی امداد سے بنائے جا رہے ہیں اس لیے ان کی تکمیل کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جا سکتا۔

    پنجاب کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل خالد شیر دل کے مطابق انہیں یہ کیمپ اس لیے بند کرنے پڑے کیونکہ سکولوں کو کھولنا تھا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ اب تک صرف ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ تک خیمے بانٹے گئے ہیں اس لیے آدھے سے زیادہ خاندان ایسے ہیں کہ جنہیں ٹینٹ بھی نہیں مل سکے ہیں۔

    خالد شیردل کے مطابق تباہ شدہ مکانات میں سے ستر فیصد مکمل طور پر اور تیس فیصد جزوی طور پر تباہ ہوئے اور حکومت نے تباہ شدہ دیہات کو مثالی گاؤں بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم خالد شیردل کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ مثالی گاؤں مخیر افراد کی امداد سے بنائے جا رہے ہیں اس لیے ان کی تکمیل کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جا سکتا۔



    خالد شیر دل آپ صرف گلی ڈنڈا کھیل رھے ہیں پریشان نہ ہوں کھیل جاری رکھیں۔۔۔۔۔۔۔
     
  8. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہمارا گلی ڈنڈا اور ان کی سائنس

    فیس بک کی مالیت ’پچاس ارب ڈالر‘

    اطلاعات کے مطابق دنیا کی مقبول ترین سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس میں سے ایک فیس بک میں گولڈمین ساش اور ایک روسی سرمایہ کار سے سرمایہ کاری کی ہے اور اس معاہدے میں فیس بک ویب سائٹ کی مالیت پچاس ارب ڈالر طے کی گئی ہے۔

    امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ گولڈمین ساش نے نے فیس بک میں چار سو پچاس ملین ڈالر جبکہ ڈیجیٹل سکائی ٹیکنالوجیز نے پچاس ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔

    اخبار نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ سرمایہ کاری کے انہی معاہدوں کے دوران فیس بک کی مالیت پچاس ارب ڈالر سے زیادہ رکھنے پر اتفاق ہوا۔

    گولڈمین ساش کی سرمایہ کاری سے یہ خیالات بھی سامنے آنے لگے ہیں کہ فیس بک بازارِ حصص کا حصہ بھی بن سکتی ہے۔

    فیس بک کی ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ کمپنی نیویارک ٹائمز کی خبر پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتی۔

    .اگر فیس بک کی مالیت کا اندازہ پچاس ارب ڈالر لگایا جائے تو یہ ای بے اور ٹائم وارنر سے بھی بڑی کمپنی بن جاتی ہے۔

    نیویارک ٹائمز کے مطابق فیس بک میں کی جانے والی نئی سرمایہ کاری ممکنہ طور پر نئی پروڈکٹس کی تیاری کے لیے استعمال کی جائے گی۔ اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں فیس بک کے ملازمین اور اس کے ابتدائی دنوں میں اس میں سرمایہ کاری کرنے والے افراد بھی اپنے حصص بیچ کر فائدہ اٹھا سکیں گے۔

    .اخبار کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ کا سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نجی مارکیٹ میں میں فیس بک، ٹوئٹر اور لنکڈ ان جیسی کمپنیوں کی بڑھوتری پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

    یہ ادارہ فیس بک پر پبلک لسٹنگ کے لیے بھی دباؤ ڈال سکتا ہے تام کمپنی کے بانی مارک زکربرگ کا کہنا ہے کہ وہ فی الحال کمپنی کو سٹاک مارکیٹ میں لانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
     
  9. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہمارا گلی ڈنڈا اور ان کی سائنس

    کراچی

    گلیشیروں کے پگھلنے سے دریاؤں کو خطرہ لاحق ہے

    پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بنے والی مہلک گیسوں کے اخراج کا ذمہ دار نہیں، تاہم اس عالمی ماحولیاتی مسئلےکےباعث ملکی معیشت کو سنگین خطرات کا سامنا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہےکہ اس صورتحال کے باوجود موسمیاتی تغیرات کےتناظر میں پیدا شدہ اور ممکنہ ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے ملک میں سائنسی سطح پر تحقیق نہ ہونےکےبرابر ہے۔

    پاکستان میں موسمیاتی تغیر ات کےسبب جو شعبےمتاثر ہورہے ہیں۔ ان کے بارے میں سرکاری سطح پر اعتراف کیا گیا ہے کہ زراعت، جنگلات، ماہی گیری اور سب سےزیادہ خطرات آبی وسائل کو درپیش ہیں۔ یہ اعتراف اس سال جنوری کے وسط میں اسلام آباد میں موسمیاتی تغیرات کے بارے میں عالمی سطح پر منعقدہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے کیا تھا۔

    ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تغیرات کا نشانہ بننے والے جن شعبوں کی نشاندہی کی جاچکی ہے ان کے تدارک کے لیے ملک میں سائنسی بنیادوں پر تحقیق کا فقدان ہے۔ جس کی وجہ سےاندیشہ ہے کہ آئندہ آنے والے برسوں کے دوران پاکستان میں سنگین ماحولیاتی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔

    پاکستانی معیشت میں زراعت، ماہی گیری اور جنگلات سے پیدا ہونے والی مصنوعات پر ملک کی اکثریتی آبادی کا معاشی انحصار ہے۔ جبکہ ملک کی آبی ضروریات کا بڑا حصہ دریائے سندہ سے پورا ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیرات کا شکار دریائے سندھ بھی ہوسکتا ہے جس کا سبب گلیشیروں کے پگھلنے کے باعث پہلے سیلاب اور پھر دریا میں پانی خطرناک کم ہو کر ملکی آبادی اور معیشت، دونوں کو تباہی سے دوچار کرسکتا ہے۔

    پاکستان میں تحقیق صرف پی ایچ ڈی ڈگری کےحصول اور سائنسی مقالوں کی اشاعت تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ملکی خدمت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تحقیق اور معاشرتی مسائل کو باہم مربوط کر کےمعاشرے کو یہ باور نہ کروادیا جائے کہ اگر نجی شعبے نےتحقیق میں سرمایہ کاری کی تو اس سےبراہ راست فائدہ معاشرے کو ہوسکتا ہے۔ اس وقت تحقیق اور معاشرے کے درمیان یہ ربط مفقود ہے۔ جس کی وجہ سےتحقیق کےشعبے میں نجی شعبےکی سرمایہ کاری نہ ہونےکےبرابر ہے

    ماہر ماحولیات رفیع الحق


    جامعہ کراچی میں برسوں تدریس سےوابستہ رہنے والے ماہرِ ماحولیات رفیع الحق کا کہنا ہےکہ ’اب تک ہم اس بات کا اِدراک نہیں کر پائے ہیں کہ معاشی اور ماحولیاتی مسائل کے خاتمے کے لیےسائنسی بنیادوں پر ایسی تحقیق کی ضرورت ہے، جس سےمعاشرے کو درپیش مسائل کا حل نکل سکتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں تحقیق صرف پی ایچ ڈی ڈگری کےحصول اور سائنسی مقالوں کی اشاعت تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ جس سے محققین کی ذات کو فائدہ ضرور ہوتا ہے لیکن ملکی خدمت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تحقیق اور معاشرتی مسائل کو باہم مربوط کر کےمعاشرے کو یہ باور نہ کروادیا جائے کہ اگر نجی شعبے نےتحقیق میں سرمایہ کاری کی تو اس سےبراہ راست فائدہ معاشرے کو ہوسکتا ہے۔ اس وقت تحقیق اور معاشرے کے درمیان یہ ربط مفقود ہے۔ جس کی وجہ سےتحقیق کےشعبے میں نجی شعبےکی سرمایہ کاری نہ ہونےکےبرابر ہے۔‘

    ہائر ایجوکیشن کمیشن، پاکستان کےمطابق اس وقت سولہ کروڑ کی آبادی والے پاکستان میں 2008 تک پی ایچ ڈی ڈگری کے حامل محققین کی تعداد صرف پانچ ہزار، گیارہ ہے۔ کمیشن کےایک اعلیٰ افسر کےمطابق ’عددی اعتبار سے پاکستان میں پی ایچ ڈی ڈگری کی سطح پرمحققین کی سطح شرمناک حد تک کم ہے، لیکن اس سے بھی بُری بات یہ ہے کہ مجوعی سطح پر ملک میں سائنسی بنیادوں پر تحقیق بھی بہت محدود ہے۔ اس وقت جو تحقیق ہورہی ہے، اس کا زیادہ تر حصہ نجی شعبےکےتحت کام کرنےوالی چند صنعتوں تک محدود ہے، جس میں تجارتی بنیادوں پر مارکیٹنگ اصولوں پر مبنی تحقیق کا ایک خاص ہدف ہوتا ہے۔ مجموعی ملکی مسائل کے حوالے سے اس وقت ان تمام شعبوں میں تحقیق کی ضرورت ہے جو موسمیاتی تغیرات کا نشانہ بن رہے ہیں۔‘

    یاد رہے کہ 1947ء میں قیامِ پاکستان کے وقت، اس وقت کے پاکستان میں موجود جامعات سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے محققین کی تعداد صرف دو تھی۔
    تحقیق کا دامن روایتی، مگر معاشی اعتبار سے ریڑھ کی ہڈی کےمترادف پیداواری شعبوں میں ہی تنگ نہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بھی ملکی سطح پر تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن، پاکستان کےمطابق 05-2004 میں صرف 72 طلبا و طالبات نےکمپیوٹر سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کےشعبےمیں بطور پی ایچ ڈی طالب علم انرولمنٹ کروایا۔ جس سےاندازہ کیا جاسکتا ہےاعلیٰ سطح پر تحقیق کر کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے پاکستان اس جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی دنیا کے دوسرے ممالک پر انحصار کررہا ہے۔ جس کےسبب تحقیق بھی اب درآمدی کنزیومر پراڈکٹ بن گئی ہے۔

    عددی اعتبار سے پاکستان میں پی ایچ ڈی ڈگری کی سطح پرمحققین کی سطح شرمناک حد تک کم ہے، لیکن اس سے بھی بُری بات یہ ہے کہ مجوعی سطح پر ملک میں سائنسی بنیادوں پر تحقیق بھی بہت محدود ہے۔ اس وقت جو تحقیق ہورہی ہے، اس کا زیادہ تر حصہ نجی شعبےکےتحت کام کرنےوالی چند صنعتوں تک محدود ہے، جس میں تجارتی بنیادوں پر مارکیٹنگ اصولوں پر مبنی تحقیق کا ایک خاص ہدف ہوتا ہے۔ مجموعی ملکی مسائل کے حوالے سے اس وقت ان تمام شعبوں میں تحقیق کی ضرورت ہے جو موسمیاتی تغیرات کا نشانہ بن رہے ہیں

    پاکستان میں موسمیاتی تغیرات کی ماہر صفیہ شفیق کا کہنا ہےکہ 'ملک کو آئندہ برسوں میں موسمیاتی تغیرات کےباعث سنگین ماحولیاتی مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور نجی شعبہ بڑے پیمانے پر زراعت، سمندری وسائل اور پانی کےشعبےمیں تحقیق پر سرمایہ کاری کرے، مگر افسوس ایسا نہیں ہو رہا۔ اس وقت ملک میں ماحولیاتی مسائل کےحوالے سےکام کرنے والی عالمی اور ملکی سطح کی بعض ایسی این جی اوز بھی موجود ہیں جو تحقیق کی علمبردار ہیں، لیکن خود ان کے پاس پی ایچ ڈی سطح کے ماہرین کی استعداد موجود نہیں۔ ،

    وفاقی وزارتِ ماحولیات، پاکستان کےایک اعلیٰ افسر عبدالمناف کا کہنا ہے کہ 'حکومت اس وقت موسمیاتی تغیرات کا سامنا کرنے کے لیے متعدد اقدامات کررہی ہے، جو اقوامِ متحدہ کےرہنما خطوط اور کیے گئے معاہدات کےعین مطابق ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ اس خطرے کا سامنا کرنے کے لیے ملک میں جس سطح پر تحقیق ہونی چاہیے، وہ نہیں ہورہی ہے۔،
    ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہےکہ سائنسی تحقیق کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈ کی کمی بھی اس فقدان کا سبب ہے۔ اقوامِ متحدہ کےترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی، پاکستان سےوابستہ ماہرِ آب ڈاکٹر عبدالمجید کےمطابق 'اگر آبی وسائل اور اس سےمستفید ہونےوالےشعبوں مثلاً زراعت، ماہی گیری وغیرہ پر، توجہ نہ دی گئی تو آنے والے برسوں میں قلتِ آب کےسبب ملکی معیشت ہی نہیں نجی شعبےمیں قائم صنعتوں کو بھی سنگین پیداواری نقصان کا سامنا ہوسکتا ہے۔ جس سے ملک میں غربت کی شرح میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس لیےضرورت ہے کہ سائنسی شعبےمیں تحقیق پر سرمایہ کاری کی جائے جس کے لیے فنڈز فراہم کرنا ہوں گے۔،

    یاد رہےکہ پاکستان 2009 ءکو بطور'ماحولیاتی سال ، منارہا ہے۔
     
  10. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہمارا گلی ڈنڈا اور ان کی سائنس

    جب ٹلا صحیح نہ لگے تو یہی کچھ ہوتا ہے جناب

    پاکستان کو درپیش مسائل سے نکالنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ فوج اور عدلیہ کی مشاورت کی مسلم لیگ نون کی تجویز پر شدید تنقید کے بعد انہیں پسپائی اختیار کرنی پڑی ہے۔

    حالیہ چند برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ مسلم لیگ نون کو کسی معاملے پر سیاسی جماعتوں اور ذرائع ابلاغ نے وسیع پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہو اور انہیں اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔

    کچھ عرصہ قبل مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف نے بیان دیا تھا کہ پاکستان کو دہشت گردی، بدتر اقتصادی صورتحال، غربت، مہنگائی، بدامنی اور بے روزگاری جیسے مسائل سے نکالنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ فوج اور عدلیہ کی مشاورت سے قومی ایجنڈا تشکیل دیا جائے۔

    ان کی تجویز اس وقت آئی تھی جب صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے قومی مسائل کے حل کے لیے گول میز کانفرنس بلانے اور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کل جماعتی کانفرنس منعقد کرنے کی خواہشات کا اظہار کیا تھا۔

    لیکن اس وقت میاں نواز شریف کی تجویز پر اتنی تنقید نہیں ہوئی جتنی پنجاب کے وزیراعلٰی میاں شہباز شریف کی جانب سے اپنے بھائی کی تجویز دوہرانے پر ہوئی ہے۔ چند روز قبل جب میاں شہباز شریف نے فوج اور عدلیہ کی مشاورت سے معاملات طے کرنے کا بیان دیا تو سب سے پہلے حکمران پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے کہا کہ ’یہ بیان غیر جمہوری ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے‘۔
    مبصرین نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ شہباز شریف نے آج وہ بات کہی ہے جو بارہ برس پہلے اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے کی تھی کہ سیاسی اور فوجی قیادت کی مشاورت کے لیے قومی سلامتی کونسل قائم کی جائے۔ جس پر اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف سخت ناراض ہوئے تھے اور انہیں بلا کر استعفٰی طلب کیا تھا۔

    بعد میں وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے میاں شہباز شریف کی اس تجویز کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ آئینِ پاکستان میں فوج اور عدلیہ کے کردار کا تعین کیا گیا ہے اور وہ سیاسی معاملات میں شامل نہیں ہوسکتے‘۔

    لیکن پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر امتیاز صفدر وڑائچ تو ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے اور مطالبہ کر ڈالا کہ میاں شہباز شریف نے آئین سے غداری کی ہے اور ان کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت بغاوت کے جرم میں کارروائی ہونی چاہیے۔

    حکومت کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی غلام احمد بلور سمیت بعض مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی سیاسی معاملات میں فوج اور عدلیہ کی مشاورت کو غیر آئینی قرار دیا۔ ان کے بقول ایسا کرنا جمہوری نظام اور سیاستدانوں کی ناکامی کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔

    فریقین کے بیانات پاکستان کی اخبارات اور ٹی وی چینلز کی زینت بنے اور ذرائع ابلاغ میں ہونے والے تبصروں میں بھی مسلم لیگ نون کے رہنما کو شدید تنقید کا سامنا رہا۔ بعض مبصرین نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ شہباز شریف نے آج وہ بات کہی ہے جو بارہ برس پہلے اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے کی تھی کہ ’سیاسی اور فوجی قیادت کی مشاورت کے لیے قومی سلامتی کونسل قائم کی جائے‘۔
    فوج کی سیاسی معاملات میں مشاورت یا مداخلت کی بات کرنے والی مسلم لیگ نون اکیلی جماعت نہیں ہے بلکہ حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ تو ان سے بھی آگے ہے، جس کے خود ساختہ جلاوطن قائد الطاف حسین محب وطن جرنیلوں کو انقلاب کے لیے پکارتے رہے ہیں۔

    جس پر اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف سخت ناراض ہوئے تھے اور انہیں بلا کر استعفٰی طلب کیا تھا۔ مبصرین نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیاں طے پانے والے’میثاق جمہوریت‘ کا تذکرہ بھی کیا اور کچھ نے تو یہاں تک کہا کہ شہباز شریف کے بیان نے میثاق جمہوریت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ کیونکہ میثاق جمہوریت میں فوج کے سیاسی کردار کی سخت مخالفت کی گئی ہے۔

    ابتداء میں تو مسلم لیگ نون نے خاموش رہنے میں عافیت سمجھی لیکن جب تنقید کے تیر زیادہ برسنے لگے تو احسن اقبال کو نیوز کانفرنس بلانی پڑی اور اپنے بیان سے پیچھے ہٹتے ہوئے یہ کہنا پڑا کہ اصل میں ان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ سیاست میں فوج اور عدلیہ کا کردار ہونا چاہیے بلکہ بحران سے نمٹنے کے لیے ان سے مشاورت کی جائے۔

    سیاسی معاملات میں فوج اور عدلیہ کی مشاورت کی تجویز دینے والے میاں شہباز شریف کے بیان کے دفاع میں احسن اقبال نے تو یہ بھی کہہ ڈالا کہ پاکستان نے ماضی میں فوج کے سیاسی کردار کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا ہے۔

    فوج کی سیاسی معاملات میں مشاورت یا مداخلت کی بات کرنے والی مسلم لیگ نون اکیلی جماعت نہیں ہے بلکہ حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ تو ان سے بھی آگے ہے، جس کے خود ساختہ جلاوطن قائد الطاف حسین محب وطن جرنیلوں کو انقلاب کے لیے پکارتے رہے ہیں۔

    یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ الطاف حسین کے ان بیانات پر سب سے زیادہ ردِ عمل مسلم لیگ (ن) نے ظاہر کیا تھا۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اب خود مسلم لیگ (ن) کی قیادت فوج اور عدلیہ کی سیاسی معاملات میں مشاورت کی بات کر رہی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بیانات فریقین کی اپنی خواہش کا عکاس ہیں یا کسی فرشتے کی فرمائش کا۔
     
  11. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہمارا گلی ڈنڈا اور ان کی سائنس

    گلی ڈ نڈے میں یہ سب چلتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    پاکستان کی حکمران پیپلز پارٹی نے متحدہ قومی موومنٹ کی آئے روز کی ناراضگی اور ان کی حکومت سے ممکنہ علیحدگی کی صورت میں مسلم لیگ قاف کو ساتھ ملانے کا اپنا متبادل منصوبہ تیار کر لیا ہے۔

    صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے اس بارے میں چند روز قبل ایوان صدر میں مسلم لیگ قاف کی قیادت کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے میں بات چیت کر لی ہے۔

    متحدہ قومی موومنٹ یا ایم کیو ایم کے اگر پچیس اراکین حکومت سے علیحدہ ہوتے ہیں تو مسلم لیگ قاف کے پچاس کے قریب اراکین حکومت کا ساتھ دینے کو بظاہر تیار بیٹھے ہیں۔

    بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت کے متبادل انتظامات کی وجہ سے حکومت تو بچ جائے گی لیکن ایم کیو ایم کی علیحدگی کی صورت میں کراچی کے حالات خراب ہوسکتے ہیں۔

    بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مسلم لیگ قاف ایک بار پھر اس دوراہے پر کھڑی ہے کہ اگر انہوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا یا مسلم لیگ نون سے تو دونوں صورتوں میں انہیں ایک بار پھر ٹوٹ پھوٹ کے مرحلے سے گزرنا پڑے گا۔

    لیکن مسلم لیگ قاف کے ایک سرکردہ رکن قومی اسمبلی سردار بہادر خان سِیہڑ کہتے ہیں کہ ان کی جماعت مسلم لیگ نون سے اتحاد پر پیپلز پارٹی کو ترجیح دے گی۔ ’ہم سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد بہتر ہوگا اور اس صورت میں اگر کچھ لوگ ناراض ہوئے بھی تو اکیاون اراکین قومی اسمبلی میں سے سینتالیس سے زیادہ اراکین چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ ہوں گے۔‘

    لیکن مسلم لیگ قاف کے پارلیمانی لیڈر فیصل صالح حیات کہتے ہیں کہ ’ہمیں عوام نے اپوزیشن کا مینڈیٹ دیا ہے اور ہم وہ اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہم نے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو یقین دہانی کروا رکھی ہے کہ ان کی جماعت جمہوریت کو کوئی نقصان پہنچنے نہیں دے گی۔‘

    پیپلز پارٹی کے ساتھ شراکت اقتدار کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ کافی محتاط نظر آئے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ سیاست میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی اور جب پیپلز پارٹی سے اتحاد کی نوبت آئی تو وہ اس وقت اپنا نکتہ نظر بیان کریں گے۔

    فیصل صالح حیات کی بات اپنی جگہ لیکن بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بظاہر انہیں یہ معاملات طے شدہ نظر آتے ہیں کہ مسلم لیگ قاف نے پیپلز پارٹی کا ساتھ دینا ہے۔

    لیکن ایک بات طے ہے کہ ’اصول پرستی‘ کا ڈھنڈورا پیٹنے والی مسلم لیگ نون ہو یا ’نظام بدلنے اور جمہوریت پسندی‘ کی دعویدار پیپلز پارٹی، انہوں نے اپنے سیاسی مفادات اور مجبوریوں کی خاطر’میثاق جمہوریت‘ کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔

    جب مرکز میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ نون کی کمزور حکومتوں کو خطرات لاحق ہوئے ہیں تو انہوں نے اپنی بے ساکھی کی تلاش میں بے اصولی کی انتہا کردی ہے۔

    مسلم لیگ نون تو اب کی بار پیپلز پارٹی کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ انہوں نے مسلم لیگ قاف میں ’چمک‘ کی بنیاد پر لوٹا کریسی کی نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ قاف کے اکیاسی میں سے سینتالیس اراکین توڑنے کا دعویٰ کیا لیکن جب وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اجلاس بلایا تو ’منہ دکھائی‘ میں چالیس اراکین حاضر ہوئے۔

    مسلم لیگ نون جو ’بڑے بہاؤ‘ لگا کر انہیں لے گئی وہ سب کو عہدے یا مراعات نہیں دے سکی اور کچھ ہی روز میں ’یونیفیکیشن بلاک‘ کے اراکین کی تعداد کم ہوگئی۔ اس بارے میں مسلم لیگ نون اور مسلم لیگ قاف کے مختلف دعوے ہیں۔

    لیکن چوہدری برادران کی منظوری سے پارٹی نظم وضبط کی خلاف ورزی یا انہیں نا اہل قرار دلوانے کے لیے نوٹسزصرف نو اراکین کو جاری کیے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی ایک سیاسی چال ہے اور مسلم لیگ قاف نے ہوشیاری کے ساتھ پتہ کھیلا ہے کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ باقی لوگ ان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

    جبکہ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ قاف سے بطور سیاسی پارٹی تعاون کے لیے بات کی ہے۔ پھر چاہے انہیں پرویز الہیٰ کے بیٹے مونس الہیٰ کو پنجاب کی زمین تنگ پڑنے پر سندھ میں شاندار پروٹوکول دینا پڑے یا مصیبت کی گھڑی میں ان کی مدد کرنا پڑے یا کچھ اور۔۔۔

    کل تک صدر آصف علی زرداری مسلم لیگ قاف کو ’قاتل لیگ‘ کہتے رہے اور میاں نواز شریف ’مشرف کی باقیات‘ قرار دیتے رہے۔ لیکن آج وہ قاتل لیگ ہو یا مشرف کی باقیات ان کے بغیر مسلم لیگ نون کی دکان چلتے نظر آتی ہے اور نہ پیپلز پارٹی کی۔

    شاید تب ہی کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی بھی چیز ممکن ہے کیونکہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں