1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہفت زباں شاعر

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏27 ستمبر 2010۔

  1. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    سندھ کی سرزمین بزرگان دین اور اولیائے کرام کی سرزمین ہے اس پاک سرزمین کے ہر خطے میں بلند پایہ بزرگوں اور عظیم صوفی شاعروں نے سچائی کے پیغام اور اپنے عارفانہ کلام سے عوام کو اسلام کی سیدھی سچی راہ پر چلنے کا درس دیا ہے۔
    شاعر ہفت زباں حضرت سچل سرمست کا کلام بھی حق و صداقت، خلوص و محبت، ایثار و قربانی، ہمدردی و رواداری، عدل و احسان اور اخوت و مساوات کا آئینہ دار ہے۔ انہوں نے نہ صرف سندھی زبان کو ذریعہ اظہار بنایا بلکہ وہ اردو، فارسی، سرائیکی اور ہندی کے بھی ممتاز شاعر تھے۔
    سچل سائیں کا اصل نام خواجہ عبدالوہاب فاروقی ہے اور والد بزرگوار کا نام خواجہ صلاح الدین فاروقی، کہا جاتا ہے کہ ان کے جدامجد شیخ شہاب الدین فاروقی پہلی صدی ہجری میں فاتح سندھ محمد بن قاسم کے اتالیق اور مشیر خاص کی حیثیت سے اسلامی لشکر کے ہمراہ سندھ میں آئے تھٓے۔ وہ ایک نیک سیرت بزرگ اور اسلامی علوم پر گہری نظر رکھنے والے عالم تھے۔ جب سندھ پر عربوں کی حکومت قائم ہو گئی تو محمد بن قاسم نے شیخ شہاب الدین کو سیہون کا گورنر بنایا۔ 95ھ میں انہوں نے وفات پائی مگر جیتے جی عوام کی بھلائی کے انتظامات کے ساتھ ساتھ دین کی تبلیغ میں بھی پیش پیش رہے اور ان کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر ہزاروں غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا۔
    شیخ شہاب الدین کی رحلت کے بعد کئی پشتوں تک ان کے اہل خاندان سندھ میں انتظامی ذمہ داریاں سنبھالتے رہے لیکن جب سلطان محمود غزنوی کا دور آیا تو ان دنوں شیخ محمد بن اسحاق فاروقی سیہون کی گورنری سے سبکدوش ہو کر سندھ کے شمالی علاقے بکھر میں آباد ہوگئے وہاں بھی ان کے خاندان والے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے۔ سچل سرمست کے دادا خواجہ محمد حافظ فاروقی بھی اسی خاندان کے بزرگ تھے وہ ایک اعلیٰ عہدیدار تھے لیکن عمر کے آخری حصے میں درویشی اختیار کرلی تھی۔ خواجہ محمد حافظ فاروقی کے بڑے بیٹے کا نام خواجہ صلاح الدین فاروقی تھا اور چھوٹے بیٹے کا نام خواجہ عبدالحق فاروقی۔ سچل سائیں کے والد خواجہ صلاح الدین اس وقت وفات پاگئے تھے جبکہ ان کا پیارابیٹا بہت کمسن تھا، ظاہر ہے کہ شفیق باپ کا سایہ اٹھ جانے کے بعد خواجہ محمد حافظ نے بڑی چاہتوں سے اپنے یتیم پونے کو پالا پوسا۔
    سچل سائیں کے چچا خواجہ عبدالحق فاروقی بھی اپنے ہونہار بھتیجے کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا بڑا دھیان رکھتے تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے عربی پڑھائی اور باقاعدہ عربی پڑھانے کے لئے حافظ عبداللہ قریشی کو سچل سائیں کا استاد مقرر کیا۔ اس طرح چھوٹی عمر میں انہوں نے قرآن شریف پڑھا اور حافظ قرآن ہوئے پھر عربی، فارسی اور تصوف کی تعلیم سچل سائیں نے اپنے چچا خواجہ عبدالحق فاروقی نے حاصل کی۔ 1788ء میں خواجہ محمد فاروقی نے وفات پائی تو ان کی وصیت کے مطابق خواجہ عبدالحق سجادہ نشین ہوئے۔ عبادت و ریاضت اور خلق خدا کی خدمت میں وہ پہلے ہی پیش پیش رہتے تھے۔ سجادہ نشین ہونے کے بعد درازہ شریف کی درگاہ کو انہوں نے اخلاقی و روحانی تعلیم و تربیت کا ایک مثالی مرکز بنا دیا۔سچل سائیں بچپن ہی سے بڑے خاموش طبع اور نیک طنیت تھے۔ غریبوں، مسکینوں، محنت کشوں اور کسانوں سے ان کو دلی ہمدردی تھی۔ خدا ترسی، انسان دوستی اور خدمت خلق کا جذبہ ان کی شخصیت میں شروع سے موجود تھا۔ دینی تعلیم و تربیت اور صوفیانہ ماحول نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ عبادت و ریاضت اور محتاجوں کی امداد و اعانت کے کاموں میں اتنے منہمک رہتے تھے کہ عالم جوانی میں بھی سیر و تفریح سے کوئی واسطہ نہ رکھا۔
    نوجوانی کے دنوں میں خواجہ عبدالحق کی بیٹی سے شادی خانہ آبادی کی رسم ادا ہوئی۔ اپنی سلیقہ مند، دین دار اور پرخلوص شریک حیات سے بہت پیار تھا مگر خدا کی قدرت کہ باہمی رفاقت زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکی۔ ان کی نیک سیرت اہلیہ نے عالم جوانی میں وفات پائی، اولاد سے بھی محروم رہے اس لئے کرب تنہائی نے اتنی شدت اختیار کرلی کہ اکثر جنگلوں اور ویرانوں میں اکیلے گھومتے پھرتے رہے۔ روحانی سوز و گداز اور جذب و کیف اتنا بڑھ گیا کہ مسلسل سرمستی و بے خودی کے عالم میں رہنے لگے اسی لئے سرمست کہلائے۔
    شعر و ادب کا ذوق و شوق سچل پرمست کو وراثتاً ملا تھا۔ والدین اور شریک حیات کی رفاقتوں سے محروم ہونے کے احساس نے گداز قلب کی دولت عطا کی۔
    سچل کی شاعری ان کا فن نہیں ان کی زندگی ہے۔ کہتے ہیں کہ شعر کی تخلیق کے وقت سچل کی شعوری زندگی ٹھہری ہوئی ہوتی تھی جب اس بے خودی کے عالم سے باہر آتے تھے تو کہتے تھے کہ ”یہ کسی اور نہ کہا ہوگا۔ مجھے یاد نہیں۔“ یہ گویا اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش تھی اور اس کلام میں فن بھی ہے۔ یہ کلام مختلف زبانوں میں ہے۔
    سرائیکی اور سندھی ان کی زبانیں ہیں۔ فارسی اور اردو میں بھی کافی کلام ہے اور جس زبان میں کلام ہے اس کی معروف اصناف میں پر اور اس زبان کی ادبی روایات کا بھی پورا پورا لحاظ ہے۔ دوسرے شعراء کے کلام کی گونج بھی جابجا ہے۔ سچل سرمست درازا شریف میں 1739ء میں پیدا ہوئے اور 1826ء میں ان کا انتقال ہوا۔

    تحریر :ہما بخاری
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہفت زباں شاعر

    السلام علیکم۔ ہارون بھائی ۔ اس مفید شئیرنگ کے لیے شکریہ ۔ جزاک اللہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں