1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہشام اول: شخصیت اور طرزِحکمرانی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏19 ستمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ہشام اول: شخصیت اور طرزِحکمرانی
    [​IMG]
    امیر علی

    ہشام اول یا ہشام بن عبدالرحمن 26 اپریل 757ء کو قرطبہ میں پیدا ہوا۔ وہ عبدالرحمن الداخل جسے عبدالرحمن اول بھی کہا جا تا ہے، کا بیٹا تھا۔ عبد الرحمن الداخل اندلس میں امارت امویہ کا بانی تھا اور 756ء سے 788ء تک اندلس میں حکمران رہا۔ وہ 731ء میں پیدا ہوا اور 756ء میں خلافت عباسیہ کے مقابل امارت قرطبہ کا ایک خود مختار امیر بن گیا۔عبدالرحمن خلافت بنوامیہ کے دسویں خلیفہ ہشام بن عبدالمالک کا پوتا تھا۔ عباسیوں کے دمشق پر قبضہ کرنے اور اموی خلافت کو ختم کرنے کے وقت عبدالرحمن کی عمر 20 برس تھی۔ وہ غالباً زندہ بچ جانے والا اموی خاندان کا واحد فرد تھا۔ عبدالرحمن کا بیٹا ہشام اس کا جانشین بنا اور788ء سے 796ء تک حکمران رہا۔ اپنے اقتدار کے شروع ہی میں اسے اپنے بھائیوں سلیمان اورعبداللہ کی جانب سے ہونے والی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا تاہم وہ ان پر قابو پانے میں کامیاب ہوا۔ وہ ایک نرم دل، عادل اورفراخدل حکمران تھا، وہ مذہب کا پابند اور نیکی کا نمونہ تھا، ابن الاثیر کے الفاظ میں وہ عمر بن عبدالعزیز سے ملتا جلتا ہے۔ اسے عمربن عبدالعزیز کی تمثیل بھی کہا جاتا ہے۔ معمولی کپڑے پہن کر وہ قرطبہ کے بازاروں میں گھومتا پھرتا اور عوام کے ساتھ مل بیٹھتا، وہ عوام کی شکایات سنتا، بیماروں کی تیمارداری کرتا۔ غریبوں کے گھروں پر جاتا اور ان کی دکھ بھری کہانیاں سنتا، رات کے وقت برف کے طوفان میں پانے سر پر ایک بقچہ اٹھائے کسی غریب کے گھر کی راہ لیتا تاکہ اس غریب تک کھانا پہنچا سکے۔ اس کی سخاوت کی کوئی حد نہ تھی، وہ ان نمازیوں میں روپیہ بانٹتا جو موسم کی شدت کے باوجود اپنے اللہ کو سجدہ کرنے کے لیے مسجدوں میں آتے، ہشام ہر مفلس کا مددگار اور ہر مظلوم کا حامی تھا۔ ان سب باتوں کے باوجود اس کا نظم و نسق بہت سخت تھا۔ بغاوتوں کو بڑی سختی سے دبا دیا جاتا تھا، معمولی سے معمولی جرم کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاتا تھا، اس نیک دل حکمران کے عہد میں لوگوں کو فراغت نصیب ہوئی۔ اس نے بعض اہم تعمیراتی کام بھی کیے، ایک اہم پل کی مرمت کرائی، اس نے قرطبہ کی اس جامع مسجدکو مکمل کرایا جسے اس کے والد نے شروع کیا تھا، اس نے اپنی مملکت کے شہروں میں بڑی بڑی عمارتیں بنوائیں۔ اس کی ذاتی نرم دلی اور اس کے نظم و نسق کی سختی کے باوجود عرب سردار بغاوت سے باز نہیں آئے تھے۔ ابتدا تو گھر سے ہوئی کیونکہ جونہی وہ تخت پر بیٹھا اسے اپنے بھائیوں کی بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے کارولنجی سلطنت کی مداخلت کا مسئلہ درپیش ہوا۔ 793ء میں اس نے مسیحی فرینکس کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا اور گیرونا اور ناربونے کی جانب فوجوں کو روانہ کیالیکن یہ دونوں مضبوط علاقے اس کے قبضے میں نہ آ سکے۔ اس کا جرنیل عبدالمالک بن عبدالواحد بن مغیث کاراکاسن کو زیرنگیں کرنے میں کامیاب ہوا۔ یہ آج فرانس کا ایک شہر ہے جس کے گرد مضبوط فصیل ہواکرتی تھی۔ تاہم حیران کن طور پر اس وقت فتوحات کو سلسلہ روک دیا گیا اور مالِ غنیمت پر اکتفا کیا گیا۔ مسجد قرطبہ سمیت دیگر مساجد کی تعمیر میں یہ مال بھی کام آیا۔ ہشام ابتدائی بغاوتوں پر قابو پانے کے بعد ایک باغی سردار مطروح بن سلیمان کو سزا دینے کے لیے بڑھا، جس نے فرینک شارلمین کو ہسپانیہ پر حملہ کرنے کے لیے کہا تھا۔ باغی سردار مارا گیا، سارا گوسا اور بارسیلونا ایک مرتبہ پھر اموی حکمران کے زیراثر آ گئے۔ اپنی مملکت میں امن قائم کرنے کے بعد ہشام اس قابل ہو گیا تھا کہ شمالی ہسپانیہ کی طرف توجہ کر سکے، سرحد کے مسیحی قبیلوں نے حملے شروع کر رکھے تھے، ان قبیلوں کی سر کوبی ضروری تھی، یہ قبیلے جس علاقے پر حملہ کرتے اسے تباہ و برباد کر دیتے۔ ان کے حملوں سے کھیت ویران ہو جاتے اور آبادی کا نام و نشان باقی نہ رہتا، چنانچہ ہشام نے ان قبائل کو سبق سکھانے کا عہد کر لیا، جن کے بادشاہ اس وقت تک عربوں کے ساتھ لڑتے آ رہے تھے اور جنہوں نے ایک مرتبہ عربوں کے ہسپانیہ میں بغاوت پھیلا دی تھی، چنانچہ اس نے اس مقصد کے لیے دو فوجیں روانہ کیں، پہلی فوج کیتبالونیہ سے فرانس میں داخل ہوئی، اس فوج نے کاونٹ آف طولوس کو دریائے آربینہ کے کنارے پر شکست دی، دوسری فوج نے گلیشیا کے قبائلی لوگوں کو شکست دی، ان قبیلوں کے سردار برمودہ نے مجبور ہو کر عربوں کے ساتھ صلح کر لی۔ ہشام کے دل میں امام مالکؒ کا بہت زیادہ احترام تھا، چنانچہ ہشام نے جزیرہ نما ئے ہسپانیہ میں مالکی فقہ کو رائج کرنے کی کوشش کی، اس زمانہ سے ہسپانیہ میں مالکی فقہ رائج ہو گیا، یہاں تک کہ اس نے عمومی حیثیت اختیار کر لی، اس زمانہ میں فقیہوں کی بڑی قدروقیمت تھی۔ ہشام کا انتقال 796ء میں ہوا اور اس کا اقتدار آٹھ سال قائم رہا۔ مرنے کے وقت اس کی عمر صرف 40 برس تھی۔ اس نے اسلامی قوانین رائج کرنے کی پوری کوشش کی اور خود بھی اسلامی طرزِ زندگی کو اپنایا۔ اس کی موت کے بعد عبداللہ جلاوطنی سے لوٹ آیا اور ویلنشیا کی حکمرانی کا دعوے دار بنا، دوسری جانب سلیمان نے طنجہ کو ہشام کے بیٹے الحکم سے لے لیا۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں