1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہجر زاد ، آفتاب اقبال شمیم

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏8 اکتوبر 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    میرے دکھ کا عہد طویل ہے

    میرا نام لوحِ فراق پر ہے لکھا ہوا

    میں جنم جنم سے کسی میں عکسِ مشابہت کی تلاش میں

    پھرا اپنے خواب سراب ساتھ لئے ہوئے

    گیا شہر شہر، نگر نگر

    تھیں عجیب بستیاں راہ میں، میری جیت، میری شکست کی

    کسی دوسرے کی صداقتیں۔۔۔۔ مری راہبر، مری رہزن

    لئے ساتھ ساتھ، قدم قدم

    کبھی پیشِ خلوتِ آئینہ،

    کبھی صبح و شام کی خلقتوں کے جلوس میں،

    کئی ظاہروں، کئی باطنوں کے بدلتے روپ میں منقسم مجھے کر گئیں

    میں دھواں سا آتشِاصل کا

    اُڑا اور خود سے بچھڑ گیا

    مجھے ہر قدم پہ لگا کہ میں

    سفرا آزما ہوں۔۔۔۔ مگر مجھے مری سمت کی بھی خبر نہیں

    میں حلیف اپنے غنیم کا

    ہوں جہاں بھی راہِ زیاں میں ہوں

    میں خیال پرورِ شوق، شہرِ مثال کا

    مجھے ہر مقام پہ یوں لگا

    کہ حقیقتوں کے سگانِ کوچہ نورد مجھ پہ جھپٹ پڑیں گے یہیں کہیں

    مجھے دنیا دار پچھاڑ دیں گے مفاہمت کی زمیں پر

    میرے ہاتھ بھیگے ہوئے صداؤں کے خوف سے

    میری سانس لرزی ہوئی ہوا کی مچان پر

    یہ فرار تھا۔۔۔۔

    کہ انا کا سایہ و سائبان

    لیا جس نے اپنے بچاؤ میں

    میں رواں رہا کسی بے نمود سی روشنی کے بہاؤ میں

    میرا پائے شوقِ سزا کہیں پہ رکا نہیں

    یہ نشیبِ شام ہے اور میں ہوں رواں دواں

    یہ نہیں کہ مجھ کو اماں ملے گی شبِ ابد کے پڑاؤ میں

    ذرا انتظار۔۔۔۔ کہ جب وجود کا کوزہ گر مجھے پھر سے خاک بنا چکے

    تو یہ دیکھنا

    کہ شبیہہ شخصِ دگر میں لوٹ کے آؤں گا۔۔۔۔

    اسی شہر میں

    میرا نام لوحِ فراق پر ہے لکھا ہوا

    میرے دکھ کا عہد طویل ہے

    آفتاب اقبال شمیم
     
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اپنی کیفیتیں ہر آن بدلتی ہوئی شام

    منجمد ہوتی ہوئی اور پگھلتی ہوئی شام

    ڈگمگاتی ہوئی ہر گام سنبھلتی ہوئی شام

    خواب گاہوں سے ادھر خواب میں چلتی ہوئی شام

    گوندھ کر موتیے کے ہار گھنی زلفوں میں

    عارض و لب پہ شفق سرخیاں ملتی ہوئی شام

    اک جھلک پوشش بے ضبط سے عریانی کی

    دے گئی دن کے نشیبوں سے پھسلتی ہوئی شام

    ایک سناٹا رگ و پے میں سدا گونجتا ہے

    بجھ گئی جیسے لہو میں کوئی جلتی ہوئی شام

    وقت بپتسمہ کرے آب ستارہ سے اسے

    دست دنیا کی درازی سے نکلتی ہوئی شام
     

اس صفحے کو مشتہر کریں