1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

گھونسلے سے گری ہوئی چڑیا

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از سموکر, ‏20 اگست 2006۔

  1. سموکر
    آف لائن

    سموکر ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    859
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    گھونسلے سے گری ہوئی چڑیا,,,,ابدال بیلا

    امریکا کچھ ہفتے وائلڈ لائف سے متعلقہ ایک تعلیمی ورکشاپ سے پلٹ کے آیا،تو جہاز سے رات کے آخری پہر اترا۔میرے گھر پر تالا تھا۔چابی لگائی اندر گیا۔بھاری سوٹ کیس ایک طرف رکھے۔لمبی فلائٹ کے ہینگ اوور سے برا حال تھا۔گھر پہنچ کے مدتوں کی چہیتی کالی چیتے جیسی آنکھوں والی باہر بالکونی میں رہتی بلی کیلئے دودھ کا کٹورا بھی نہ بھرا گیا۔تھکن سے صوفے پہ گرا اور تازہ دم ہونے کے لئے سامنے پڑا ٹی وی آن کیا۔مگر اس کی آواز بند رکھی۔خاموش ٹیلی ویژن پہ اجڑی ہوئی لبنانی گلیوں میں کوئی کیمرہ لئے پھرتا ہوا گھروں کے کھنڈر بنے ہوئے دکھا رہا تھا۔امریکا میں رہتے ہوئے بھی کئی بار میں نے یہی منظر دیکھے تھے اور چینل بدل لیاتھا۔ تھکن اورتساہل کی وجہ سے مجھ سے اُٹھ کے ریموٹ اٹھا کے چینل بدلنے کی ہمت نہیں تھی۔میں جوتے اتارنے لگا۔ابھی ایک تسمہ ہی کھولا تھا کہ بغلی کمرے سے مجھے چھرچھر کی معدوم سی عجیب آواز آئی۔جیسے کوئی کاپی کھلی پڑی ہو اور کوئی پاس بیٹھا،آنے والے وقتوں کی تاریخ لکھتے ہوئے قلم گھسیٹ رہا ہو۔پہلے میں سمجھا کوئی مغالطہ ہوا ہے۔چند لمحوں بعد پھر ویسی ہی آواز آئی۔اس بار جیسے کوئی کاغذ کا ٹکڑا کسی نے کھینچا ہو۔میں ہڑبڑا کے اس کمرے میں گیا۔بتی جلائی۔اِدھر اُدھر چاروں طرف دیکھا،کہیں کوئی نہیں تھا۔پھر وہی آواز ابھری۔ میں آواز کی طرف پلٹا تو سامنے زمین پر ایک چڑیا کا بچہ ننگے ٹھنڈے فرش پر اپنے دونوں پروں کو کھولے کچھ سمیٹے تھوڑی تھوڑی دیر بعد تڑپنے کے انداز میں زمین پر گھسٹنے کی کوشش میں لگا تھا۔خدا جانے اس کا شعور چاہتا تھا کہ کوئی اسے دیکھے یا وہ چاہتا تھا کہ وہ کسی کو نظر نہ آئے۔اس کے بازو سوکھے ہوئے تھے۔کھال کاغذ کی طرح چپکی ہوئی تھی۔میں نے ہاتھ اٹھا کے چڑیا کا بوٹ اٹھا لیا۔وہ بے وزن سا تھا۔اس کے پر مرجھائے ہوئے تھے۔پرواز سے عاری تھے، ٹانگیں ناتوان،سینہ پچکا ہوا۔صرف اس کی چونچ کبھی کبھی کھلتی تھی اور کھلی چونچ کچھ لمحوں تک کھلی رہتی۔جیسے اسے بند کرنے کی بھی اس میں سکت نہ ہو۔میں احساس جرم سے سہم گیا۔ یہ چڑیا کا بوٹ میری عدم موجودگی میں یہاں بند رہا۔ میں تو چارہفتوں سے گھر بند کر کے گیا تھا۔ گھر میں کھانے پینے کی چیزیں تھیں مگر الماریوں میں بند۔واش بیسن اور باتھ روم کے نل سارے بند۔کہنے کو باورچی خانے میں فرج چل رہا تھا۔اس کے اندر کچھ کھانے پینے کی اشیاء بھی تھیں،مگر ذرا سا چڑیا کا بوٹ فرج کیسے کھولتا۔اسے تو گرے ہوئے اناج کے چند دانوں کی ضرورت تھی۔ایسے بکھرے دانے شائستہ اطوار سلجھے لوگوں کے گھروں سے نہیں ملتے۔پانی کی چند بوندوں کی تلاش کے لئے اس کی زندگی لڑتی رہی۔پتہ نہیں کب وہ کہیں سے گرا اور پھر کبھی باہر ہی نہ جا سکا۔ یہ گراکہاں سے؟ میں کمرے کی کھڑکیوں کا جائزہ لینے لگا۔ ایک کھڑی کے اوپر مجھے اُکھڑے پروں اور سوکھی گھاس سے بنایا ہوا چڑیوں کا گھونسلا نظر آگیا۔ گھونسلے میں اب چوں چوں ہورہی تھی۔گھاس پھوس کی گھونسلا دیواروں سے کچھ پرندے سرنکالے ایسے شور مچا رہے تھے،جیسے انہیں گرے ہوئے اپنے بوٹ سے زیادہ اپنے ٹوٹے ہوئے گھونسلے کی فکر ہو۔اپنی جان کے لالے پڑے ہیں۔مجھے گھونسلے کے مکین پرندوں کی آواز میں عجیب سہما ہوا خوف سنائی دیا۔ یہ کس سے ڈر رہے ہیں؟ کیوں سہمے بیٹھے ہیں؟ اچانک مجھے باہر بالکونی میں اچھل کے وار کرنے کے انداز میں بیٹھی ہوئی ایک خونخوار بلّی نظر آگئی۔جس کے لئے عموماً میں دودھ بھرا کٹورا رکھا کرتا تھا۔ یہ ساری شرارت اس بلّی کی ہے۔ میں سمجھ گیا۔ مگر اس مرتے بوٹ کو کیسے بچاؤں؟ کیا پلاؤں؟ کیا کھلاؤں؟ میں بھاگم بھاگ کچن سے نمک،چینی،شہد اور پانی بھرا گلاس لے آیا۔کئی پیالے اٹھائے۔کئی رنگ کے مشروب بنائے اور انگلی سے چھو چھو کے اس کی چونچ میں قطرے ٹپکانے لگا۔پہلا قطرہ اس کے حلق میں گیا۔قطرے کے جاتے ہی اس معصوم چھوٹے سے پرندے کے پورے جسم میں ایک عجیب سا ارتعاش ہوا۔جیسے اس نے سر سے پاؤں تک کوئی عہد کیا ہو،کوئی فیصلہ کیا ہو،کسی کے لئے کوئی دعا کی ہو۔ وہ جان کنی کی کیفیت میں تھا۔ ایسی حالات میں اپنے لئے دعا نہیں ہوا کرتی۔ شاید وہ اپنی قبیل کی بے بس چڑیاؤں کے لئے شریر بلیوں سے محفوظ رہنے کی دعامانگ رہا تھا۔ اس کی زندگی کی موم بتی کا سارا موم پگھلا پڑا تھا۔بتی کا شعلہ بجھنے کے لئے آخری ہچکولے لے رہا تھا۔میں اسے اٹھا کے ہال کمرے میں لے آیا۔جدھرمیرا امریکا سے آیا بند سامان پڑا تھا۔خاموش ٹیلی ویژن پہ ابھی تک لبنان کی شہری آبادی پہ کی گئی مہذب دنیا کے بنے بمبار جہازوں کی بمباری کی خبریں چل رہی تھیں۔کوئی گھر سالم نہ بچا تھا،کوئی بچہ ایسا نہ رہا تھا جو گھائل نہ ہوا ہو جس کا حال میرے گھر میں بلی کے توڑے گھونسلے سے گرے چڑیا کے بوٹ جیسا نہ ہوا ہو۔میں امریکا کا پڑھا مہذب آدمی ہوں۔میرا ذہن لبنان کے لہولہان بچوں کی نسبت چڑیا کے بچے پہ فوکس تھا۔سوچنے لگا،پتہ نہیں یہ اس بند گھر کے کتنے چکر لگاتا رہا۔اس چڑیا کے بوٹ نے بند دروازوں پر کتنی ٹکریں ماری ہوں گی۔کھڑکیوں سے باہر نکلنے کی کتنی کوشش کی ہوگی۔خداجانے اس بے شمار کمروں والے گھر کے اندر ہی اندر،کس کس کمرے میں وہ اڑتا پھرتا رہا ہو گا کہ کہیں سے اسے باہر جانے کی راہ ملے۔تھک کے اس نے خوارک کے لئے تگ و دو کی ہوگی، پانی کی ایک بوند کو ترساہوگا۔مگر اسے میرے اتنے کمروں کے گھر سے کچھ بھی نہ ملا۔میں کیسا بد نصیب بڑے گھر والا ہوں جہاں ایک پرندے کا بچہ بھی ہفتوں بھوکا رہا۔ میں اس کی حالت دیکھ دیکھ کے خود کو لعنت ملامت کر رہا تھا۔دکھ اور تاسف سے ہاتھ ملتے نگاہ ٹیلی ویژن کی طرف کی تو عجیب منظر نظر آیا۔ایک ریڈ کراس کی گاڑی پہ بم گرا۔ زخمیوں کے پرخچے اڑ گئے۔ ریڈ کراس کا نشان بھی پچک گیا۔ زخمیوں کا خون ٹوٹی کراس کے سروں سے بہنے لگا۔ میں سر پکڑ کے بیٹھ گیا،یہ کیا ہو رہاہے۔ اُدھر بے بس گھائل انسان چڑیوں کی طرح مارے جارہے ہیں۔اِدھر چڑیا کا بوٹ بے بسی سے مرنے والا ہے۔ میں نے بھاگم بھاگ اپنا میڈیکل ایمرجنسی بکس کھولا۔سرنج نکالی،گلوکوز کی بوتل کیل سے لٹکائی اورپچکے ہوئے چڑیا کے بوٹ کی ٹانگوں سے چمٹے کالے کاغذی سے گوشت میں وریدیں ٹٹولنے لگا۔بتیاں جلائیں،عینک لگائی مگر ادھر کہاں ورید نظر آتی۔آخر میں نے اس کی ہڈی میں سوئی کھبو کے ڈرپ چلا دی۔ساتھ ساتھ اس کی چونچ میں انگلیوں سے نمکول والے پانی کے قطرے ٹپکاتا رہا۔مجھے پتہ ہی نہ چلا کب صبح آگئی۔ دو گھنٹے گزر گئے۔ میں نے نہ جوتے اتارے۔نہ اپنے اٹیچی کیس اٹھا کے کہیں رکھے۔اسی طرح ٹائی کوٹ پہنے میں بھاگم بھاگ ایک ایمرجنسی بھگتانے میں جتا رہا۔ ڈھائی گھنٹے بعد اس چڑیا کے بوٹ کے سانس رک رک کے آنے لگے۔ایک بار وہ چونچ کھول لیتا تو کئی ساعتوں تک اس سے چونچ بند ہی نہ ہوتی۔میں اس کے سینے کو سہلانے لگا۔اس کے سانسوں میں وقفے بڑھنے لگے۔اب وہ سانس لیتا تو پورا لرز جاتا اور سانس لینے کے بعد اس کے پیر اندر کی طرف مڑ جاتے۔میں خدا سے دعائیں مانگنے لگا۔اللہ اسے بچا لے۔میری غلطی ہے۔میری ہی کھڑکی سے یہ گرا ہے۔میں یہاں موجود نہیں تھا۔پڑوسیوں کی بلی تو بہانہ ہے۔ذمہ داری تو میری ہی ہے۔اللہ اسے مرنے نہ دے۔تھوڑی سی اُڑان دے دے۔اس گھر سے باہر تک اڑنے کی اجازت دے دے۔ مگر میری نہ سنی گئی۔ کوئی دعا اس صبح میری پوری نہ ہوئی۔ وہ چڑیا کا بوٹ مر گیا۔مرنے سے پہلے اس نے آنکھیں کھول کے مجھے عجیب طرح سے دیکھا تھا۔مجھے سمجھ نہ آئی کہ وہ کیا کہہ رہا تھا۔شکریہ ادا کر رہا تھا یا شکاری بلیوں کو پالنے کا شکوہ کررہا تھا۔اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔اس کے پنجے الٹے ہو گئے۔چونچ ادھ کھلی رہ گئی۔سینے کے پروں نے سانس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بند کر دیا۔میرا ضبط بھی جاتا رہا۔میں کرب سے برف کی سل بن گیا اور اسی مرے پرندے کے پاس زمین پہ سر رکھ کے رونے لگا۔آنسوؤں سے چہرہ بھیگ گیا،فرش گیلا ہو گیا۔ پتہ نہیں مجھے کیاہوا۔مجھے ایسا لگ رہا تھا۔جیسے میرے ہاتھ میں ایک بچے نے دم توڑا ہے۔ بچہ تو بچہ ہی ہوتا ہے۔انسان کا ہو یا پرندوں کا۔ دکھ اور درد کی اس انتہا کو پہنچ کے میں نے اپنے آپ کو سنبھالنے کے لئے سامنے چلتے ٹیلی ویژن کی آواز اونچی کر دی۔شاید ٹی وی کی تصویر اور آواز سے میرے اندر کا درد کم ہو۔ٹی وی کی تصویروں میں چیخ وپکار تھی۔لبنان کی کھنڈر شہری عمارتوں کے اوپر جنگی حملہ آور جہاز بم گراتے گزر رہے تھے۔دھماکے ہورہے تھے۔شعلے اٹھ رہے تھے۔دھواں ہی دھواں تھا۔چیخیں تھیں۔پکار تھی۔انسانیت بے گورو کفن پڑی تھی۔چڑیوں کو توپوں سے مارا جا رہا تھا۔ اکا دکا لرزتی عمارتوں سے لوگ اپنے بچے اور سامان کی گٹھڑیاں اٹھائے بھاگ رہے تھے۔ پورا شہر ایسے لگ رہا تھا جیسے بچیوں کے گڑیا گھر میں کوئی پاگل ہاتھی گھس گیا ہو۔ ایسے میں کیمرہ ایک گھر کے ملبے میں مٹی میں لت پت پڑی،گولیوں سے چھلنی ہوئی،ایک گڑیا کے پاس،گری ہوئی کوئی سوا دوسال کی بچی کو فوکس کرتا ہے۔بچی کا معصوم فرشتوں جیسا چھوٹا سا چہرہ کسی بمبار جہاز کے بموں کی کرچیوں سے ادھڑ پڑا تھا۔زخموں سے بھرا۔خون سے لتھڑا اور مٹی سے اٹا۔وہ بچی ابھی زندہ تھی۔مرنے والے گھر میں مرے چڑیا کے بوٹ کی طرح تھی۔بوٹ کو مرتے تو صرف میں نے دیکھا تھا۔لیکن اسے مرتے ہوئے ٹیلی ویژن پہ ساری دنیا دیکھ رہی تھی۔دھیرے دھیرے موت بچی کی طرف جاتی ہوئی نظر آرہی تھی۔ٹیلی ویژن کی اسکرین پہ اسی پس منظر میں ایک”بریکنگ نیوز“کی سرخی کے ساتھ ایک چوکھٹے میں ایک تصویر ابھری۔یہ تصویر بے ضرر چڑیوں کے گھونسلوں کو توڑنے والی میری بالکونی کی کالی خونخوار بلی کے خدوخال جیسی ایک سیاہ فام عورت کی تھی۔وہ مسکرا رہی تھی۔اس کے چہرے پہ کبھی اس کی اپنی قبیل کی سیاہ فام قوم پہ سفید بھیڑیوں کی یلغار اور”کوکلکس کلان“کی تاریخی حقیقت کا کوئی عکس نہ تھا۔الٹا وہ والہانہ انداز میں مظلوموں پر حملہ کرنے والے ظالم وزیراعظم کا ہاتھ ہاتھوں میں لئے بیٹھی تھی۔جیسے اسے شاباش دے رہی ہو۔کہہ رہی ہو،گراتے جاؤ چڑیوں کے گھونسلے۔ میں نے آنسو پونچھ ڈالے اور مٹھّیاں بھینچ کے بیٹھ گیا۔مجھے ایک دم سے احساس ہو گیا۔چند ہی لمحے توڑے ہوئے گھونسلے سے گرکرمرنے والا چڑیا کا بچہ میرے ہی گھر کا فرد تھا جس کے گھونسلے کو میں نے کبھی اپنے گھر کا حصہ نہیں سمجھا۔ مجھے خیال آیا۔ یہ چڑیوں کے بچے کبھی پرندوں کے غول میں شاہین ہوا کرتے تھے۔اپنی پرواز میں کوتاہی سے نیچے آکے جب سے انہوں نے الگ الگ گھونسلے بنائے،شکاری خونخوار بلیوں کو خود پہ مسلط کر لیا۔
    [align=left:3v4f7uoy]بشکریہ روزنامہ جنگ[/align:3v4f7uoy]
     
  2. گھنٹہ گھر
    آف لائن

    گھنٹہ گھر ممبر

    شمولیت:
    ‏15 مئی 2006
    پیغامات:
    636
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    کاش ہم سمجھ سکیں !
     
  3. پٹھان
    آف لائن

    پٹھان ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    514
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    بہت اچھا مضمون ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں