1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

گننا اور تولنا

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از واصف حسین, ‏19 جنوری 2011۔

  1. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    گننا اور تولنا
    قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے "اور جن کے اعمال کے وزن زیادہ ہوں گے وہ جنت میں ہوں گے" (القارعۃ) یعنی اللہ تبارک تعالیٰ اپنے بندوں کے اعمال کو تولے گا، گننے گا نہیں۔ عجیب بات محسوس ہوتی ہے کہ ہم تو تمام اعمال گن کر تے ہیں، پانچ نمازیں، نمازوں کی رکعتیں، زکوۃ کا حساب۔ یہاں تک کہ ہمارے وہ اعمال جوکہ حاجت پوری کرنے یا فضائل اور مراتب حاصل کرنے کے لیے ہیں وہ بھی گنتی ہے۔ مثال کے طور پر ہر نماز کے بعد ۳۳ مرتبہ اللہ اکبر، ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ اور ۳۳ مرتبہ الحمداللہ پڑھیں۔ یا پھر دعا کے اول و آخر تین مرتبہ درود شریف پڑھیں۔اسی طرح کے بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔جب سب اعمال گن کر کیے جا رہے ہیں تو پھر اعمال کا وزن کیا ہے؟

    اعمال کا وزن جاننے کے لیے ایک مثال لیتے ہیں۔فرض کریں کہ آپ پر کوئی مشکل آ پڑی ہے اور لوگ آپ کے پاس تعزیت اور دلجوئی کے لیے آتے ہیں۔ آپ کے پاس آنے والے تمام لوگ کیا آپ کے نزدیک ایک جیسا مقام رکھتے ہیں؟ یقیناً نہیں۔ کچھ لوگ صرف معاشرے کی رسم نبھانے کے لیے آئے ہیں۔ کچھ کا مفاد آپ کے ساتھ وابستہ ہے۔کچھ اس لیے آئے ہیں کہ آپ سے انکا خونی رشتہ ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایک مخلص دوست کا مقام خونی رشتہ دار سے زیادہ ہو۔

    غور طلب بات یہ ہے کہ اعمال کا وزن کیسے بڑھایا جائے۔اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے اور یہ دل ہی ہے جو اعمال کے وزن میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔انسان کے اندر اچھائی اور برائی کا فرق معلوم کرنے کا ایک پیمانہ رکھا ہے۔ جب بھی کوئی کام درست اور خلوص نیت سے کیا جائے تو دل اس کی گواہی دیتا ہے اور خلوصِ نیت میں ذرہ برابر کمی دل کو بیتاب کرتی ہے۔ اب یہ انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ دل کی گواہی کو قبول کرے اور نیت کو صاف رکھے یا پھر دل کی وارننگ کو مسترد کر کے اپنے عمل کی توجیحات تلاش کرتا رہے۔ اور اگر مستقل طور پر اس وراننگ کو نظرانداز کیا جاتا رہے تو انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جس کو قرآن میں "دلوں پر مہر لگا دینا" کہا گیا ہے کہ اس کے بعد یہ وارننگ ملنا بند ہو جاتی ہے اور اللہ فرماتا ہے "کہ وہ سمجھتے ہیں کہ نیک کام کر رہے ہیں مگر اللہ ان کے اعمال کو کوئی وزن نہیں دے گا"(الکہف)۔

    حاصل کلام یہ ہے کہ اعمال کا وزن دل کی گواہی اور خلوص نیت سے بڑھتا ہے کیونکہ "بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے"۔ اگر دل کی گواہی شامل نہ ہو تو اعمال وزن سے خالی ہو جاتے ہیں۔ خلوصِ نیت سے بغیر بولے بہایا گیا ایک آنسو ہزار مرتبہ استغفراللہ پڑھنے سے زیادہ وزن رکھتا ہے۔بقول اقبال

    تو عرب ہو یا عجم ہو تیرا لا الہ الا
    لغتِ غریب جب تک تیرا دل نہ دے گواہی​



    تحریر کنندہ ۔ واصف حسین
     
  2. ارشین بخاری
    آف لائن

    ارشین بخاری ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2011
    پیغامات:
    6,125
    موصول پسندیدگیاں:
    901
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: گننا اور تولنا

    واصف صاحب بہت خوب کہا آپ نے۔ یہ بات تو میری آزمودہ ہے کہ خلوص نیت سے جو بھی کام کیا جائے وہ چایے بظاہر ناممکن نظر آتا ہو پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے۔
     
  3. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: گننا اور تولنا

    واصف صاحب کیا خوبصورت بات کی ہے آپ نے۔
    ماشاءاللہ
    بہت خوب
     

اس صفحے کو مشتہر کریں