1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

گلی نمبر 10 ۔۔۔۔۔ امین کنجاہی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏22 مارچ 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    گلی نمبر 10 ۔۔۔۔۔ امین کنجاہی

    1965ء میں سمندری سے راولپنڈی شفٹ ہوئے تو ہمارے پاس رہنے کیلئے کوئی جگہ نہیں تھی ، فوری طور پر کوئی کرائے کا مکان بھی دستیاب نہیں تھا ، میرے والد نے اپنے بڑے بھائی سے کہا پاجی میں کچھ دن کیلئے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آپ کے گھر میں رہ سکتا ہوں ؟تو اُنھوں نے بڑی خوشدلی سے اجازت دیدی۔ یہ گھر کوئی چار ساڑھے چار مرلے کا گھر تھا ، جس کے اندر سب رہائش پذیر تھے ، ہم بھی پانچ بہن بھائی اور والدین تھے ، مگر نا ہی ہماری تائی اماں نے کبھی ماتھے پر بل ڈالے اور نہ ہی اُن کے بچوںنے ۔ میرے والد ڈاک خانہ میں ملازم تھے۔ تایا جی نے اپنا گھر بنا لیا اور وہاں شفٹ ہو گئے پھر ہم ہنسی خوشی اِس گھر میں رہنے لگ پڑے ، اِس گھر میں ہم 1965ء سے لے کر 1978ء تک رہے۔یہ 1965ء کی جنگ کے بعد کا دور تھا ، شروع میں ہمیں اس گلی میں رہتے ہوئے کچھ مشکلا ت پیش آئیں ، کیونکہ ہمارے ارد گرد کے جو ہمسائے تھے اُن کے ساتھ اتنی سلام دُعا نہیں تھی ، ہمارے گھر کے بالکل سامنے ایک گھر کیانی فیملی کا تھا ، وہ تین بھائی اکٹھے رہا کرتے تھے ، وہ اس گلی کے بد معا ش مانے جاتے تھے، اکرم چاچا زیادہ اکھڑ، لاڈلہ اور غصیلہ تھا ، وہ محلے میں ذرا ذرا سی بات پر پستول نکال لیا کرتااور غلیظ گالیاں نکالا کرتا تھا ، اُس نے اپنی گلی ہی کی ایک لڑکی سے پسند کی شادی کررکھی تھی۔13برس سے رہتے ہوئے گلی نمبر 10میں ہمیں ہر کوئی جانتا تھا ۔پوری گلی میں 50سے 60مکانات تھے کچھ سنگل کچھ ڈبل سٹوری تھے۔ آج تقریباً 10 برس کے بعد جب میں گلی نمبر 10 میں داخل ہوا تو میری خواہش تھی کہ سب سے پہلے وہ گھر دیکھوں جہاں زندگی کے 13برس گزارے تھے ، اب اُس کا نقشہ ہی تبدیل ہو چکا تھا ، وہ ڈبل سٹوری گھر بن چکا تھا ۔ میں نے ڈرتے ڈرتے دروازے پر دستک دی اندر سے ، چاچے اکرم کی بیوی چاچی صفیہ آئی ، اُس نے مجھے پہچان لیا ۔ وہ مجھے گھر لے گئیں ، میں نے سب کے بارے میں پوچھا ، اکثر کا انتقال ہو گیا تھا جو بچے تھے وہ بیمار تھے میںانکی درد ناک صورتحال برداشت نہ کر سکا اور آنکھوں میں آنسو لئے گلی نمبر 10سے تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے باہر نکلا ، جس گلی میں ہم کھیلتے پھرتے تھے اب مجھے اس سے ڈر لگنے لگا تھا ۔۔۔۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں