1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

گئودان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منشی پریم چند

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏9 فروری 2019۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    گئودان
    منشی پریم چند کا یہ ناول 1936ء میں شائع ہوا۔ اسے پریم چند کا سب سے بہترین ناول مانا جاتا ہے۔ ناول ہندوستان کے پسے ہوئے کسانوں کی دکھ بھری زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ پریم چند نے نہایت بے باکی سے دہقانوں سے روا رکھے جانے والے ریاستی مظالم کا نقشہ کھینچا ہے۔ گئو دان پہلے دیوناگری رسم الخط میں لکھا گیا تھا پھر اقبال بہادر ورما ساحر نے اسے اردو زبان کے قالب میں ڈھالا۔

    [​IMG]
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    منشی پریم چند
    جے نندر کمار

    پریم چند کی کچھ باتیں کرنے میں آج آپ کے سامنے ہوں۔ اس بات پر جی میں کچھ بے چینی ہوتی ہے۔ آج وہ ہمارے بیچ نہیں ہیں۔ اور کبھی وہ دن تھے کہ ہم لوگ پاس بیٹھ کر چرچا کیا کرتے تھے اور ان کی ہنسی کا قہقہہ کسی وقت بھی سُنا جاسکتا تھا۔ پر اس بات پر آج اٹک کر بھی تو نہیں رہا جاسکتا ہے۔ دنیا میں کون سدا بیٹھا رہتا ہے۔ اور کون بیٹھا رہے گا۔ آدمی آتے ہیں اور جوان کے ذمہ کام ہوتا ہے کرتے ہوئے پردے کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔ پر پریم چند اس انجان پردے کے پیچھے ہوکر آنکھوں سےاوجھل ہوگئے ہیں۔ یاد سے دُور کرلینا انھیں ممکن نہیں ہے۔ زندگی ان کی اوسط سے زیادہ نہیں رہی۔ کل چھپن (۵۶) برس اس دنیا میں جیئے۔ کہیں یہ برس روشنی کے برس تھے۔ اور ان کی زندگی سچی محنت ایمانداری اور سادگی کی زندگی تھی۔

    یہ تو آپ اور ہم جانتے ہی ہیں کہ ہندستان میں ہندی اور اردو بھاشائیں جب تک ہیں پریم چند کا نام مٹ نہیں سکتا۔ وہ دُھندلا بھی نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ دونوں زبانوں کو پاس لانے میں اور ان دونوں کو گھڑنے میں ان کا بہت ہاتھ ہے۔ ان کے خیالات ہندوستان کی زندگی میں کھل مل گئے ہیں۔ اور وہ ہماری تاریخ کا جزو بن گئے ہیں۔ ان کی کہانیاں گھر گھر پھیلی ہیں ان کی کتابوں کے ورق لوگوں کے دلوں میں بس گئے ہیں۔

    لیکن اس سچائی کا بانی کون تھا۔ یہ بہت لوگوں کو معلوم ہوگا۔ کیا چیز تھی جو پریم چند کی تحریروں کو اس قدر عمدہ بنادیتی تھی یہ جاننے کے لیے ذرا پیچھے جاکر دیکھنا چاہیے۔ ان کی ہنسی تو مشہور ہی ہے۔ زندگی میں میں نے کھلے گلے کا ویسا قہقہہ اور کہیں نہیں سنا۔ گویا جس من سے ہنسی کا وہ فوارہ نکلتا تھا اس میں کسی طرح کا کینہ اور میل تو رہ ہی نہیں سکتا۔

    ان پر چوٹیں بھی کم نہیں پڑیں۔ سب ہی طرح کی مصیبتیں جھیلنا پڑیں۔ پھر بھی ان کی ہنسی دھیمی یا پھیکی نہیں ہوئی۔ یا تو وہ سب باتوں میں ایک طرح کی علیحدگی کے بہاؤ سےالگ کرکے دیکھ سکتے تھے۔ اس خوبی کی قیمت سمجھنے کے لیے ہمیں ان کے بچپن کے زمانہ کو بھی کچھ دیکھنا چاہیے۔

    چھٹپن کی بات ہے کہ ماں گذر چکی تھی پتا کا بھی پندرھویں برس انتقال ہوگیا تھا۔ گھر میں دوسری ماں تھی اور بھائی تھے اور بہن تھی۔ گھر میں کئی تن پالنے کو تھے۔ پر آمدنی پیسے کی نہ تھی۔ ادھر بالک پریم چند کے من میں ایم-اے پاس کرکے وکیل بننے کا ارمان تھا۔ بیاہ بھی چھٹپن میں ہوگیا تھا۔ وہی لکھتے ہیں پاؤں میں جوتے نہ تھے۔ بدن پر ثابت کپڑے نہ تھے۔ گرانی الگ، دس سیر کے جوتھے۔ اسکول سے ساڑھے تین بجے چھٹی ملتی تھی۔ کوئنز کالج بنارس میں پڑھتا تھا۔ فیس معاف ہوگئی تھی۔ امتحان سرپر اور میں بانس کے پھاٹک ایک لڑکے کو پڑھانے جایا کرتا تھا۔ جاڑے کاموسم تھا۔ چار بجے شام کو پہنچ جاتا۔ چھ بجے چھٹی پاتا۔ وہاں سےمیرا گھر پانچ میل کے فاصلہ پر تھا۔ تیز چلنے پر بھی آٹھ بجے رات سے پہلےگھر نہ پہنچتا۔

    اپنی آپ بیتی کہانی جو انہوں نے لکھی ہے اس سے ان کے شروع کے جیون کے دن آنکھوں کے آگے آجاتے ہیں۔ ماں کم عمری میں ہی انھیں چھوڑ کر چل بسیں۔ پندرہ سال کی عمر میں پتا بھی چھوڑ گئے۔ شادی چھٹپن ہی میں ہوچکی تھی گھر میں کئی آدمی تھے۔ گاؤں سے روزانہ دس میل چل کر پڑھنے پہنچتے۔ گذارے کے لیے تین اور پانچ روپے کی ٹیوشن پائے۔ میٹرک جوں توں پاس ہوا اب آگے کے لیے کوششیں کیں۔ سفارش بھی پہنچائی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ داخلہ ہوگیا تو حساب انہیں لے ڈوبتا رہا۔ سالہا سال ریاضی کے مضمون کی وجہ سے وہ فیل ہوتے رہے۔ آخر دس بارہ سال بعد جب ریاضی اختیاری مضمون ہوا تب بڑی آسانی سے انہوں نے وہ امتحان پاس کرلیا۔ پڑھائی کے دنوں میں کتنے دن انہیں بھنے چنوں پر رہنا پڑا اور کتنے دن ایک دم بن کھائے گذارے، اس کا شمار ہی نہیں۔ آخر ایک دن پاس کھانے کو کوڑی نہ بچی تھی تب دو برس سے بڑے پیار کے ساتھ سنبھال کر رکھی ہوئی ایک کتاب دوکان پر بیچنے پہنچے۔ دوروپے کی کتاب کا ایک میں سودا ہوا۔ روپیہ لے کر دوکان سے اتر رہے تھے کہ ایک شخص نے پوچھا ‘‘کیا پڑھتے ہو؟’’ ‘‘نہیں مگر پڑھنے کو دل چاہتا ہے’’۔ ‘‘میٹرک پاس ہو؟’’، ‘‘جی ہاں’’۔ ‘‘نوکری تو نہیں چاہتے؟’’، ‘‘نوکری کہیں ملتی ہی نہیں۔’’ انہی بھلی مانس نے انہیں ملازمت دی تو شروع میں اٹھارہ روپے تنخواہ ہوئی۔ یہیں سے ان کی زندگی کا شروع سمجھنا چاہیے۔

    میری پہلی ملاقات ۱۸۸۸ء میں ہوئی۔ دسمبر کامہینہ تھا۔ بنارس سے لوٹ رہا تھا۔ بنارس میں ان کا خط مل گیا تھا کہ ٹھیک کس جگہ ان کا مکان ہے آنے کی اطلاع نہ دے سکا تھا۔ سیدھا وہاں پہنچا۔ پہلے کبھی انہیں دیکھا نہ تھا۔ تھوڑی خط و کتابت ہوچکی تھی۔ اسی بھروسہ میں لکھنؤ ان کے گھر جادھمکا، میں انجان وہ مشہور مصنف۔ مجھے قلم پکڑنے کا شعور نہ سیکھنے کا تھا۔ ان کے قلم کی دھاک تھی۔ لیکن انہوں نے خط ایسا بھیجا تھا کہ گویا دونوں ہاتھ پھیلاکر وہ مجھے بلا رہے ہیں۔ سورج ابھی نکلا بھی نہ تھا کہ میں نے زینہ پر پہنچ کر آوازیں دیں۔ زینہ کھلا اور ایک شخص ایسے نظر آئے جیسے نیند سے ابھی اٹھے ہوں۔ خمار آنکھوں میں ابھی باقی تھا۔ موچھیں بڑی بڑی تھیں۔ قد کچھ پستہ۔ ماتھا اٹھا ہوا تھا۔ پر اس وقت بالوں نے آکر اسے ڈھک لیا تھا اور یہ سب ملاکر سر کچھ چھوٹا معلوم ہو رہا تھا۔ لال املی کی اونی چادر ایک کندھے پر لیے تھے۔ جو یوں بھی بہت صاف نہ تھی۔ رانوں میں دھوتی کافی اونچی بندھی ہوئی تھی۔ خیال پڑتا ہے کہ بدن پر نیم آستین ایک مزنی تھی سچ پوچھئے تو میں اس کے لیے تیار نہ تھا کہ یہ شخص پریم چند ہوں گے۔ یہ گمان نہ ہوسکتا تھا۔ پر وہی تھے پریم چند۔

    بولے کون صاحب ہیں۔

    میں نے کہا نندر

    اتنا کہنے کے بعد تو جیسے میں خالی ہی نہ چھوڑا گیا۔ زینہ کے پاس دالان میں پانی پھیلاتھا۔ اور کمرے کے اندر ایک میلی کچیلی میز تھی۔ لیکن پریم چند مجھ کو لے کر ایسے بیٹھ گئے کہ میں کسی چیز کے لیے بول ہی نہ سکا۔ اسی طرح کوئی نو بج گئے۔ اتنے میں اندر سے کہلایا گیا کہ آج دوا آئے گی کہ نہیں۔ پریم چند سن کر چونکے، بولے: جے نندر۔ یہ لو ہمیں تو وقت کا خیال ہی نہیں رہا۔ تم منہ ہاتھ دھوؤ۔ اتنے میں دوا لے آتا ہوں اور اتنے میں میں کیا دیکھتا ہوں کہ پریم چند طاق سے شیشی اٹھا انھیں کپڑوں اور اسی سلیپر میں کھٹ کھٹ زینہ سے اتر کر دوا لینے چل دیے۔ آتے ہی جو ایک ڈیڑھ گھنٹے ان سے باتیں ہوئیں تب میں دیکھ سکا کہ پریم چند اپنے خیالات کی دنیا میں کتنے جگے ہوئے رہتے ہیں۔ پچھم میں کیا لکھا اور سوچا جارہا ہے۔ اس کا انہیں پورا علم تھا۔ اور وہ علم صحیح تھا۔ ان سب باتوں کے بارے میں ان کی رائے اپنی ہی تھی۔ دوسروں کی نہیں۔ کھلی آنکھوں اور کھلی عقل سے چیزوں کو دیکھتے پرکھتے تھے لیکن آپس کے برتاؤ میں اتنے جاگے ہوئے تھے یہ نہیں کہا جاسکتا۔ مگر اس کی انہیں پرواہ نہ تھی۔

    خیرلوٹ کر آئے۔ ناشتہ کیا۔ گپ شپ کی۔ کھانا کھایا۔ اور بولے چلو دفتر چلیں۔ راہ میں جو پہلا یکہ ملا۔ اس سے پوچھا کیوں دوست چلتے ہو۔

    یکے والے نے کیا جواب دیا مجھے ٹھیک یاد نہیں۔ لیکن اس نے جتنے پیسے بتلائے اس میں کچھ کمی انہوں نے اپنی طرف سے نہیں کی۔ نہ یہ دیکھا کہ وہ بڑھیا چمکیلا ہے کہ نہیں۔ یکے میں بیٹھے بیٹھے یکے والے بوڑھے مسلمان سے دو ایک ہی باتوں میں انہوں نے ایک طرح کی برابری پیدا کرلی اور اسے اپنا بنالیا۔

    دفتر پہنچ کر بولے: چلو جے نندر ایک دوست ہے۔ انہیں تمہارا ہاتھ دکھائیں۔ میں نے کہا، ہاتھ کیوں۔ بولے بھائی وہ اس ہنر کے استاد ہیں۔ دیکھو تو جانوگے آخر ہاتھ دکھایا گیا۔ اور لوٹتے وقت پوچھنے لگے کہو جے نندر کیا رائے ہے۔

    میں نے کہا۔ مجھے اس علم پر یقین نہیں۔ اور نہ مستقبل میں اپنے سے کچھ امید ہے۔ یہ جواب پریم چند کو پسند نہ آیا وہ دوسرے کی شخصیت کو کم کرکے دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اپنے مستقبل کے بارے میں نا امید ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔

    سویرے کا آیا ہوا جب میں اسی شام پریم چند کے گھر سے لوٹ کر چلنے لگا تو مجھے معلوم ہوا کہ نہ جانے کب سے کسی بھائی سے بچھڑ رہا ہوں۔ انہوں نے اپنے میرے درمیان کوئی فرق مجھے محسوس نہیں ہونے دیا۔ بولے جے نندر جا رہے ہو۔ میں نے کہا۔ ہاں۔ کہنے لگے میں یہ نہ جانتا تھا ایسا تھا تو آئے ہی کیوں۔ میں نے پھر کبھی جلدی آنے کا وعدہ کیا اور رخصت ہوگیا۔ اس طرح پہلی ہی دفعہ مجھے پریم چند سے محبت ہوگئی۔ کہ وہ کچھ بھی اور ہوں چاہے نہ ہوں لیکن اندر تک کھرے آدمی ہیں اور دل ان کا صحیح ہے اور ثابت ہے۔

    اس کے بعد تو خط و کتابت کافی ہوئی اور معلوم ہوا کہ وہ بڑے بننے کے پیچھے نہیں ہیں۔ سچا بننا ان کا مقصد ہے۔ اپنے کو سدا معمولی ہی آدمی گنتے ہیں۔ میں نے کہا آپ کو کیوں یہ معلوم نہیں کہ باہر آپ کی کتنی شہرت ہے۔

    بولے، اس شہرت کا مستحق کوئی اور ہی ہوگا۔ سچ جانو میں تو مزدور ہوں لکھتے وقت مجھے ہر گھڑی یہ محسوس ہوتا ہے۔ پہلی بار دہلی آئے اس کی کہانی دلچسپ ہے۔ میں نے ناگہانی ایک کارڈ میں انھیں لکھا کہ یہ یہ لوگ گھر آئے ہوئے ہیں۔ لیکن آپ بھی یہاں ہوتے تو بڑی رونق رہتی۔ اس اپنے خط کا انتظار مجھے اس اپنے خط کے انتظار میں تھا، دیکھا کہ تیسرے روز سویرے ہی سویرے پریم چند کندھے پر کمبل لٹکائے گلی میں سے چلے آرہے ہیں میں اچھنبھے میں رہ گیا۔ بولا یہ کیا۔ تار نہ خط ایسے کہاں سے چلے آرہے ہیں۔ بولے کل دوپہر بعد تمہارا خط ملا۔ وقت تھا ہی۔ گاڑی مل سکتی تھی اسی لیے چلا آرہا ہوں۔ میں نے کہا تار تو دے دیا ہوتا۔ بولے دیکھا، تمہارا گھر مل گیا کہ نہیں۔ تار میں ناحق پیسے کیوں خراب کرتا۔
     
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    معلوم ہوا کہ دلّی آنے کا زندگی میں ان کے لیے یہ پہلا موقع ہے۔ اس ذہانت پر میں حیرت میں رہ گیا۔ پانچ چھ روز یہاں رہے۔ ان دنوں کافی دلچسپی رہی۔ کئی پارٹیاں دی گئیں اور برابر لوگ ان کو پوچھتے اور گھیرتے رہے۔ میں من میں سمجھا تھا کہ چلو اس سے ان کی طبیعت بہلی رہی ہوگی۔ لیکن بات الٹی تھی چلنے لگے تو بولے جے نندر یہ کیا تماشا بناڈالا ہے۔

    میں نے کہا کیوں لوگوں کا آپ پر حق نہیں ہے۔ بولے، میں یہاں عزت پاتا رہوں اور گھر والے؟ اسی سلسلہ میں معلوم ہوا کہ زندگی میں دلّی میں بیتنے والے یہ پہلے ہوش کے چار پانچ دن ہیں کہ جب انہوں نے سویرے کام نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد یہاں ایک لٹریری کانفرنس میں صدر بناکر پریم چند کو ہم نے بُلایا۔ لیکن وہ آنے کو راضی ہی نہ ہوئے۔ خط لکھا۔ تار دیے۔ لیکن انھوں نے لکھا تم بلاؤ تو آجاؤں۔ لیکن کانفرنس کی تہمت کیوں لیتے ہو۔ آخر رصامندی دی ہے تو تار میں لکھا۔Reaching with protest.

    ان سب چیزوں سے میں نے دیکھا کہ انہیں دل کی تلاش ہے جہاں پریم ہو رہاں وہ بے دام حاضر ہوسکتے ہیں۔ مگر ویسے نہیں۔ دنیا کی شان و شوکت ان کے نزدیک کوئی چیز نہیں ہے۔ بڑے بڑے جلسوں اور مجمعوں میں بے لاگ اور بے لوث خیال سے میں نے انھیں گھومتے ہوئے دیکھا ہے۔ گویا وہ دھوم دھام کے نہیں ہیں۔ کسی اور ہی گہری سچائی کے خواہاں ہیں۔

    ایک بات پر اکثر ان کے ساتھ بات چیت ہوگئی ہے اور وہ ہے ایشور اور دھرم۔ وہ ایشور کےوجود کے قائل نہیں ہوتے تھے۔ کیوں کہ وہ دیکھتے تھے کہ ایشور اور دھرم اچھے سے زیادہ بُرے کام میں لائے جاتے تھے۔

    پوچھتے دنیا میں زور ہے، ظلم ہے۔ لوگ ستائے جاتے ہیں اور بھوکوں مرتے ہیں، چاروں طرف تو دُکھ کی چیخ پکار ہے۔ تم اس ایشور کو مانوگے جو اس سب کی اجازت دیتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ایسے وقت ان کی قوت گویائی کم ہوگئی ہے اور آنکھوں میں چمک آگئی ہے یا تو دنیا کی دکھ کی چیخ اس وقت بھی ان کے کانوں کے اندر پڑ رہی ہے اور وہ انہیں چین نہ لینے دینا چاہتی ہے۔ میں کہتا کہ مجھے ایشور کے وشواس سے بچنے کی راہ مل جائے تو میں خود بچ نکلناچاہتا ہوں۔ وہ کہتے کہ دکھیوں کے دکھ کی طرف سے دل کو کڑا کرکے تم ایشور میں بند ہونا چاہتے ہو یہی تو؟ میں کہتا ہوں، ہاں یہی۔ دل کو اور دوسرا کون سا سہارا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ اس بیان سے ان میں گرمی آگئی اور اپنے کو بہت زیادہ کوسنے کو تیار ہوگئے ہیں کہ کیوں دُکھیوں کے دُکھ درد میں وہ پوری طرح گھل مل نہیں سکتے۔ وہ مصیبت زدوں کی حالت دیکھ کر خدا کے منکر ہوجاتے تھے۔ لیکن میں سدا یہ مانتا آیا ہوں کہ دین اور دکھی لوگوں کی حمایت کرنا اور ان کے درد کو اپنا بنا لینے سے ان کو دلی خوشی حاصل ہوتی تھی۔ اور اس لحاظ سے پریم چند سچے معنی میں رحم دل اور مذہبی آدمی تھے۔ مجھے وہ دن یاد ہے۔ کلکتہ سے لوٹا تھا پریم چند کھاٹ پر پڑے تھے۔ بیمار تھے اور وہ موت کی بیماری ثابت ہونے والی تھی۔ جسم زرد ہوگیا تھا ہڈیوں کے سوا اس تن میں کیا باقی رہ گیا تھا۔ اسی دن کی تصویر ہے جو جہاں تہاں اخباروں میں چھپی ہے۔ پیٹ کی تکلیف بڑھ رہی تھی۔ کسی کروٹ چین نہ تھا۔

    لیکن دیکھتا ہوں کہ آنکھوں میں ان کی اب بھی میٹھے سپنے بھرے ہیں اور چہرے پر بشاشت ہے۔ ان کے دل میں نہ کوئی شکایت ہے اور نہ کوئی میل ہے۔

    بیماری کے وقت شدت مرض میں تقدیر سے ہر کوئی ناراض ہوجاتا ہے اور طبیعت چڑچڑی ہوجاتی ہے۔ لیکن کھاٹ پر پڑے پڑے پریم چند کو اس دن بھی اپنی حالت کی فکر نہیں تھی۔ انہیں یہ فکر تھی کہ ہم کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی ہے۔

    بولے جے نندر دُکھ میں ایشور ملا کرتے ہیں لیکن مجھے اب بھی اس کی ضرورت معلوم نہیں ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے آخر تک ایشور کو تکلیف نہیں دوں گا۔

    آج بھی اس حالت کو یاد کرکے میں تعجب کرتا ہوں کہ وہ کیا طاقت تھی جو موت کے سر پر آجھولنے پر بھی پریم چند کو پرسکون بنائے رکھتی تھی۔ ان کی ساری نگاہیں میری نگاہ کے پیچھے رہ جاتی ہیں اور بیمار پریم چند کی وہ مطمئن آنکھیں میری آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں۔ دو ایک بار موقع آیا ہے کہ میں نے ان کی آنکھوں میں آنسو گرتے دیکھے ہیں۔ ایک کتاب کا ذکر کرتے ہوئے وہ زاروقطار رو پڑے۔ وہ اپنے کو قابو میں نہیں رکھ سکے اور جس دُکھیا کے درد پر ان کا جی اس طرح مٹ کر رویا تھا وہ ایک معمولی بازاری عورت تھی۔ ایک رُوسی ناول کا وہ ایک کیرکٹر تھی۔ پریم چند کا دل اس کی تکلیف پر بے بس طور پر اس طرح بھر آیا تھا کہ کہا نہیں جاسکتا۔ لیکن وہی نرم دل اپنے دکھ درد پر تو ہلتا بھی نہ تھا۔ زندگی میں مصیبت ان پر کم نہیں پڑی۔ کیا مصیبتیں انھوں نے نہیں جھیلیں لیکن ان کا دل مضبوط رہا۔ وہی دل دوسروں کی مصیبت دیکھ کر فوراً پگھل جاتا تھا۔

    پھر تو آخری درشن ہی مجھے ملے۔ سویرے سات بجے کے قریب ان کو بے ہوشی آجانے والی تھی اور اس کے پیچھے ہی پیچھے موت بھی۔ اسی رات دو ڈھائی بجے تک میں ان کے پلنگ کے پاس بیٹھا رہا۔ وہ آہستہ آہستہ باتیں کرسکتے تھے۔ ایک ایک لفظ پر انھیں سانس لینا ہوتا تھا۔ کایا ان کی سفید پڑگئی تھی۔ ہاتھ اور پیروں میں سوجن تھی پھر بھی تھوڑی بہت من کی بات مجھ تک پہنچا ہی سکتے تھے۔

    میں نے دیکھا کہ اس وقت جو بات ان کے دل میں تھی وہ اپنی حالت کی نہیں تھی۔ جس کے لیے جئے اسی لٹریچر کی اونچائی اور بھلائی کی طرف تب بھی ان کی نگاہ تھی۔ وہی ایک ان کی لگن تھی۔

    پریم چند کی شخصیت کے بارے میں میں کوئی اندازہ نہیں دینا چاہتا ہوں۔ وہ کام دوسروں کا ہے۔ ان کی زندگی کی بہت سی باتیں مجھے یاد آتی ہیں۔ ایک لمبا عرصہ ان کے ساتھ رہ سہہ کر میرا بیتا ہے۔ ان کی یاد پر کچھ جی بھر آتا ہے اور دل بھاری ہوجاتا ہے۔ دُنیا میں ان سے بڑی بڑی ہستیاں ہیں اور ہوتی رہتی ہیں۔ ان کے بیچ پریم چند کو کہاں رکھنا ہوگا۔ یہ مؤرخ جانے میرا اس سے کچھ سروکار نہیں۔ لیکن یہ جانتا ہوں کہ پریم چند کی زندگی بھی ایک لگن کا نمونہ تھی۔ اور وہ آدھی زندگی نہیں تھی اس میں ہم سب کے سیکھنے کے لیے بہت کچھ سبق مل سکتے ہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں