1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کینو: ذائقے اور توانائی کا امتزاج

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏5 دسمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    کینو: ذائقے اور توانائی کا امتزاج
    upload_2019-12-5_2-19-51.jpeg
    شکیل احمد
    نارنجی رنگ کا یہ پھل نباتات کے خاندان اسپند یا سداب (Rutaceae) کی جنس ترنج سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی جنس میں انگور، لیموں، نارنگی، مالٹا، چکوترا وغیرہ شامل ہیں۔ اس جنس کے درخت اور بیلیں رسیلے پھلوں کی وجہ سے گرم علاقوں میں کاشت کی جاتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق کینو، مالٹے وغیرہ کا وطن جنوب مشرقی ایشیا ہے۔ وہاں سے یہ ترشاوا پھل پوری دنیا میں پھیلے۔ اب دنیا کے مختلف ممالک میں کینو کے وسیع باغات ہیں۔ پاکستان میں سرگودھا، فیصل آباد، گوجرانوالہ اور شیخوپورہ میں کینو اور اس کے رشتے داروں کے بڑے بڑے باغات ہیں۔ جنس ترنج میں موسمی بھی شامل ہے جس میں ترشی سب سے کم ہوتی ہے۔ ترشاوا پھلوں کے پودے زیادہ بلندی پر نہیں اگتے کیونکہ سردی انہیں مار ڈالتی ہے۔ ترشاوا پھل رنگت، چھلکے کی موٹائی، رس کی مقدار، مٹھاس اور خوشبو کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان کی جسامت کا انحصار جغرافیائی حالات اور آب و ہوا پر بھی ہے۔ کینو یا مالٹے کا پھل نباتاتی اصطلاح میں بیری کی خصوصی قسم ہے اور اس کا نام Hesperidium ہے۔ پھل کا رس محلل کاربوہائیڈریٹ (گلوکوز، فروکٹوز، سکروز)، نامیاتی تیزاب (بنیادی طور پر سیٹرک تیزاب)، وٹامن سی، وٹامن بی کمپلیکس، معدنی نمکیات اور دیگر غذائیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ معدنیات میں چونا، فاسفورس اور لوہا موجود ہیں۔ کینو کی غذائی قوت پر اگر غور کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ یہ پھل بھی انسان کیلئے قدرت کے اعلیٰ ترین تحائف میں سے ایک ہے۔ ایک شیریں کینو کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا رس معدے میں جا کر جذب ہو جاتا ہے۔ معدے پر کوئی بار نہیں پڑتا، گویا رس ہضم شدہ غذا ہے جسے بس منہ کے ذریعہ معدہ میں ڈال لینا کافی ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کینو میں ایسی غذائیت نہیں ہوتی جیسی روٹی وغیرہ میں ہوتی ہے۔ اس لیے کینو کے استعمال سے جسم میں مطلوبہ توانائی پیدا نہیں ہوتی۔ یہ خیال محض ناواقفیت کی بنا پر ہے اور خصوصاً اس وجہ سے کہ پھل کے رس کا بار معدہ پر پڑتا معلوم نہیں ہوتا۔ فرق یہ ہے کہ روٹی کئی گھنٹے میں ہضم ہو کر جسم کو قوت دیتی ہے اور کینو کا رس معدے میں پہنچتے ہی جسم کے کام آتا ہے، یہی سبب ہے کہ اسے کمزور مریض کی غذا میں بھی شامل کیا جاتا ہے۔ دودھ کو ہضم کرنے کے لیے معدہ کو کام کرنا پڑتا ہے مگر کینو کا رس فوراً ہضم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ضعف معدہ کے ان مریضوں کو جنہیں دودھ ہضم نہیں ہوتا، کینو کا رس دیتے ہیں۔ کینو کے رس میں بہت سے معدنی نمکیات پائے جاتے ہیں جن کے استعمال سے تیزابیت رفع ہوتی ہے۔ تیزابیت کی شکایت عموماً ان لوگوں کو زیادہ پیدا ہوتی ہے جو غذا میں گوشت زیادہ کھاتے اور بیٹھے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے کینو کا استعمال غایت درجہ مفید رہتا ہے۔ یوں ہر وقت بیٹھ کر کام کرنے سے جو نقصانات ہوتے ہیں، وہ کسی حد تک زائل ہو جاتے ہیں۔ کینو کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ آنتوں میں ناقص غذا سے جو سستی پیدا ہو جاتی ہے، اسے رفع کرتا ہے۔ چنانچہ دائمی قبض کے مریضوں کیلئے رات کو سوتے وقت اور صبح اٹھتے ہی ایک یا دو کینو کھانا نہایت مفید ثابت ہوتا ہے۔ سہ پہر کے وقت بھی کینو کھانا قبض کیلئے مفید ہے۔ اس پھل کا رس اپنی خصوصیات کی بنا پر بخار کے مریضوں کیلئے بہتر غذا ہے۔ نظام ہضم پر کسی قسم کا بار ڈالے بغیر یہ مریض کے جسم کی پرورش کرتا ہے اور ان عناصر کو خارج کرتا ہے جو بخار کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے مریضوں کو پلانے کیلئے شیریں کینو کا رس اچھا ہے۔ جنہیں پروٹین والی غذا کی کم ضرورت ہوتی ہے ان کیلئے کینو کا رس مفید ہے۔ یہ بخار میں فائدہ مند غذا ہے۔ کینو کے رس میں ترشی پیاس بجھانے کے حق میں اکسیر ہے۔ بہرحال کینو کا ذائقہ ایسا خوشگوار ہوتا ہے کہ مریض ہنسی خوشی رس پی لیتا ہے۔ بخار کے زہر کے سبب مریض کی زبان پر میل جم جاتی ہے اور اسے غذا اور پانی دونوں کی رغبت نہیں رہتی۔ اس پر کینو کے رس کی خوشبو اور ذائقہ غالب آتے ہیں اور لطف یہ کہ رس، پانی، دوا اور غذائیت کا کام دیتا ہے۔ کینو کا رس بخار کے مریضوں کے لیے مفید ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مریضوں کی قوت ہاضمہ کمزور ہوتی ہے اورلازم ہے کہ انہیں وہ غذا ملے جو معدہ پر بوجھ نہ ڈالے۔ انسانی صحت کے لیے معدہ کی درستی اشد ضروری ہے، جوں ہی معدے میں خلل واقع ہو، فوراً کوئی نہ کوئی بیماری نمودار ہو جاتی ہے، معدہ کی درستی کا خیال رکھنا ہر انسان کا فرض ہے۔ اگر معدہ اپنا کام صحیح کرتا ہو تو معمولی اور روکھی سوکھی غذا بھی باعث طاقت ہوتی ہے۔ معدہ کی خرابی کے دوران خواہ اچھی سے اچھی مرغن غذا کھائی جائے، فائدہ نہیں دیتی۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں