1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کیرئیر پلاننگ کیسے کریں؟

'فروغِ علم و فن' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏16 اگست 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    کیرئیر پلاننگ کیسے کریں؟
    یونیورسٹی لیول طلباء و طالبات کے لیے

    سب سے پہلے تو ایک بات ذہن میں اچھی طرح بٹھا لیں کہ نیت، ارادہ اور عمل آپ کے اپنے اختیار میں ہے اور نتیجہ اللہ پاک نے اپنے پاس رکھا ہے۔ پلاننگ اور کوشش بالکل نہ کریں اور نصیب کو روتے رہیں تو یہ منفی رویہ ہے۔ ہماری نوجوان نسل کی اکثریت اس مسئلے کا شکار ہے کہ کیرئیر کے حوالے سے صحیح رہنمائی دستیاب نہیں۔ اور اگر رہنمائی دستیاب ہے تو مختلف اقسام کے سماجی، معاشی اور خاندانی دباؤ کے باعث اکثر لوگ ہمت ہی ہار بیٹھتے ہیں۔

    فی الحال تو میں بات کروں گا ان لوگوں کے بارے میں جو یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔ آپ اس وقت اپنا شعبہ منتخب کر چکے ہیں۔ چار سال (لاء اور میڈیکل والے پانچ سال) کی ڈگری میں مختلف لوگ مختلف مراحل پر ہوں گے اور آپ بہت فکر مند ہیں کہ
    نہ جانے آپ کا مستقبل کیسا ہو گا؟
    آپ کو نوکری کیسی ملے گی؟
    آپ کا گھر کب بنے گا اور بسے گا؟ وغیرہ وغیرہ

    دو قسم کی سوچ کے حامل افراد آپ کو بکثرت ملیں گے:

    1. جن کے نزدیک کامیاب کیرئیر کا مطلب اچھا بینک بیلنس، اچھی گاڑی، اچھا شریک حیات اور بسا ہوا گھر ہے۔ ان کو یہ فکر نہیں کہ وہ کتنا جانتے ہیں، بس یہ فکر ہے کہ وہ کتنا کماتے ہیں۔
    2. جن کے نزدیک کامیاب کیرئیر کا مطلب اپنے شعبے میں دلچسپی، بہترین معلومات اور ذہنی و قلبی سکون ہے، خواہ آمدن بہت معمولی سی ہو مگر علم غیر معمولی ہو۔
    آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ آپ کس گروپ سے تعلق رکھتے ہیں

    (%90 افراد 1 نمبر گروپ سے ہوتے ہیں)۔

    سب سے پہلے تو ایک بات اچھی طرح اپنے ذہن میں بٹھا لیجیے کہ علم اور سرمائے (بینک بیلنس) کا حصول دو مختلف چیزیں ہیں۔ بےشک علم سے بڑی دولت کوئی نہیں لیکن دنیا میں زندگی بسر کرنے کی لیے سرمائے یا روپے پیسے کی بھی برابر ضرورت ہے اور اگر آپ کوئی ایسی ڈگری کر رہے ہیں جس میدان میں لوگ کافی پیسہ کما چکے ہیں تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ آپ کو بھی اتنا ہی پیسہ ملے گا، پیسہ تو دور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نوکری ہی نہ ملے اور شعبہ تبدیل کرنا پڑے۔


    خیر، اپنا جائزہ لیجیے کہ آپ نے اسی شعبے کا انتخاب کیوں کیا؟
    (کوئی ایک آپشن چن لیجیے اور اوپر ذکر کردہ دونوں گروپس کو بھی ذہن میں رکھیے)
    الف: آپ کے اندر تڑپ تھی کہ میں اس شعبے کے بارے میں علم حاصل کروں اور زیادہ سے زیادہ معلومات سمیٹوں۔
    ب: آپ کو لگتا تھا کہ اس شعبے میں آمدن کے اچھے مواقع ہیں اور اس شعبے سے وابستہ افراد اچھا روزگار لے رہے ہیں۔
    ج: آپ کے والدین کی خواہش تھی۔

    اگر تو آپ کا جواب آپشن "ج" ہے تو آپ یقیناً سعادت مند اولاد ہیں مگر جناب یہ سعادت مندی اس وقت تک آپ کے کسی کام کی نہیں جب تک آپ کی اپنے شعبے میں دلچسپی نہ ہو، تو بھئی خالی خولی سعادت مندی کا سہارا چھوڑیے اور اپنے شعبے میں دلچسپی پیدا کیجیے تاکہ مستقبل میں بےروزگاری سے آپ بچ سکیں۔ اب اگر آپ کی دلچسپی پیدا نہیں ہو رہی اور آپ کا تعلق گروپ 1 سے ہے تو ڈگری کے علاوہ متبادل ذرائع آمدن کی تلاش فوراً شروع کر دیں لیکن اگر آپ کا تعلق گروپ 2 سے ہے تو بس اپنے شعبے میں دلچسپی پیدا کیجیے اور آپ کا کام بن گیا۔

    "ج" آپشن والے افراد میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی دلچسپی شعبے میں بنی ہوتی ہو اور ایسے بھی ہوتے ہیں جو بس دھکا لگا رہے ہوتے ہیں۔ صرف اس امید پر کہ ڈگری ملی تو نوکری مل جائے گی، نوکری ملی تو پیسہ ہی پیسہ۔ اگر آپ کا آپشن بھی "ج" ہے تو یقین کریں آپ انتہائی غلط سمت جا رہے ہیں اور اپنے مقصد سے دور ہٹتے جا رہے ہیں کیونکہ آپ سب کا تعلق گروپ 1 سے ہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج تک دنیا میں اگر کسی کو گروپ 1 کی سوچ والی کامیابی ملی ہے تو صرف اور صرف کاروبار سے ملی ہے۔ نوکری کر کے آپ بہت بھی کر لیں تو 45-50 سال کی عمر سے پہلے گھر بنانا تو دور، آپ ایک اچھی گاڑی بھی نہیں خرید سکتے۔ آج آپ کو جتنے بھی کروڑ پتی نظر آتے ہیں سب کاروباری ہیں، اور جتنے بھی ارب پتی ہیں ان میں سے اکّا دکّا کے علاوہ سب کے کاروبار ان کی پچھلی نسل سے اچھے چل رہے ہیں، اور جو بھی کھرب پتی ہیں ان کی کم از کم پچھلی تین نسلیں اسی کاروبار سے منسلک رہی ہیں۔

    آپ سب سے پہلے تو کوئی اچھا کاروبار سوچیں، سرمایہ کاری (انوسٹمنٹ) کے لیے تھوڑا بہت سرمایہ اکٹھا کریں اور اللہ کا نام لے کر کاروبار شروع کریں۔ لیکن ہر قسم کے رسک کے لیے خود کو تیار رکھیں کیونکہ جہاں منافع ہو سکتا ہے وہیں نقصان بھی ہو سکتا ہے، پیسہ ڈوب بھی سکتا ہے۔ آپ کو چاہیے سرمایہ، حوصلہ اور مستقل مزاجی۔ ساتھ ساتھ اپنی ڈگری بھی چلائیں اور کم از کم ڈگری ہولڈر بن جائیں تاکہ والدین کے لیے اس سوال کا جواب دینا آسان ہو کہ "لڑکا کتنا پڑھا ہوا ہے؟"۔ ویسے مال دولت کافی ہو تو ڈگری شگری کوئی نہیں دیکھتا۔

    "الف" آپشن والے افراد کے لیے خوشخبری یہ ہے کہ آج تک دنیا میں اگر ایسے افراد نے پیسہ بہت زیادہ نہیں بھی کمایا تو جتنے بھی افراد نے اچھا نام اور مرتبہ کمایا ہے وہ اسی سوچ کے حامل رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب اس طبقے کے کسی فرد کی قسمت کھلی ہے تو وہ سب سے بازی لے گیا ہے ایلفریڈ نوبیل، بل گیٹس، اسٹیو جابز اور مارک زکربرگ فیس بک والا بھی ایسے ہی لوگ ہیں۔

    اس آپشن والے %90 افراد گروپ 2 سے تعلق رکھتے ہیں۔

    آپ لوگ سب سے پہلے تو اپنی ڈگری مکمل کریں اور فوراً ہی اگلی ڈگری (ایم فل یا پی ایچ ڈی) میں داخلہ لیں۔ اب پیٹ تو سب ہی نے پالنا ہے تو آپ بھی کوئی نہ کوئی ذریعہ معاش ڈھونڈیں جو کم از کم آپ کی تعلیم کے اخراجات پورے کر دے۔ ریسرچ کے لیے اس فیلڈ کا انتخاب کریں جس میں آپ کو سب سے زیادہ دلچسپی ہو، اس کا انتخاب نہ کریں جس پر سب سے زیادہ لوگ کام کر رہے ہوں، کیونکہ آپ جیسے لوگ بھیڑچال پر چلنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ پوری دلچسپی اور دل جمعی سے کام کریں اور کوئی نہ کوئی نئی تحقیق یا نئی ایجاد آپ کے نام ضرور لگے گی۔ لیکن یہ یاد رہے کہ جو راستہ آپ نے چن لیا ہے یہ بہت لمبا اور کٹھن ہے۔ لیکن آپ بھی انسان ہیں اور آپ کی بھی خواہشات اور ضروریات ہیں۔ نمائشی طریقے چھوڑیں اور اپنا گھر بھی بسائیں، تھوڑی سی تنگی ہونے کے بعد آسانی ہی آسانی ہے۔ آپ کے لیے بہترین جاب یا پیشہ یا تو ٹیچنگ ہے اور یا ریسرچ، اسی کو اپنا گول بنا کر رکھیں۔ لیکن اگر آپ کوئی اچھی تحقیق یا ایجاد کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو فورا سے مارکیٹ میں آجائیں کیونکہ اب مارکیٹ آپ کی ہے۔

    امید کرتا ہوں کہ یہ باتیں یونیورسٹی لیول کے طلبہ و طالبات کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گی۔ ایک اور سب سے اہم بات یہ ہے آپ کا کیریئر صرف آپ کا اپنا ہے۔ اسے بنانا اور بگاڑنا بھی آپنے اپنے لیے ہی ہے۔ مشورہ کسی سے بھی کریں لیکن فیصلہ صرف اور صرف خود کریں، صرف خود۔ اور وہ لوگ جنہوں نے یہ تحریر ابھی پڑھی لیکن اس اسٹیج سے وہ گزر چکے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے آس پاس کے لوگوں اور خاص طور پر اپنے بچوں اور چھوٹے بھائیوں کی صحیح سمت میں رہنمائی کریں۔

    لیکن رہنمائی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ کسی پر اپنی سوچ مسلط کر دیں، ہر کسی کو آزادانہ فیصلہ کرنے کا اختیار دیں، اپنی اولاد کو بھی۔ انسان غلطی کرتا ہے تو سیکھتا ہے۔ آج کوئی غلط فیصلہ کرے گا تو کل صحیح فیصلہ کرے گا۔ لیکن اگر آپ نے انہیں غلطی کر کے سیکھنے کا موقع نہ دیا تو کل کو وہ بہت نقصان اٹھائیں گے جب آپ ان کی غلطیاں سنبھالنے کے لیے موجود نہیں ہوں گے۔

    تحریر: طلحہ شہادت
    ۱۵ اگست ۲۰۱۷
     

اس صفحے کو مشتہر کریں