1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کیا یہ سچ ہے

'کھیلو کودو بنو نواب' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏2 اگست 2018۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    بات یہ نہیں ، ہر زمانے کے لوگ شعراء اکرام اور ادباء لفظ کو اس وقت کے رائج معانی میں ہی لیتے ہیں ، مین پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ پچھلی کئی صدیوں میں یہ لفظ محبت کے ہم معنی بلکہ اس کی شدت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور میں اس کے اس معانی کو غلط نہیں سمجھتا بس اپنی ذات کی حد تک پسند نہیں کرتا ۔ ۔ ۔ اب یہ لفظ اسی معانی میں استعمال ہو گاکہ جیسا کے کئی الفاظ ہیں جو کہ غلط العام ہو چکے ہیں سو وہ اب انہین معانی میں استعمال ہونگے جس میں بولے ، لکھے اور سمجھے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    درست فرمایا
     
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    یہ جو میرے سگنیچر میں ہے اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
    [​IMG]
     
  4. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    عشق جنون ہی تو ہے ۔ ۔ ۔ میں وطینیت کو مقدم ضرور رکھتا ہوں مگر ایک حد تک جیسا کہ اقبال رحمۃ نے بھی فرمایا ہے کہ

    ان تازہ خداؤں ميں بڑا سب سے وطن ہے
    جو پيرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اسی لیے تو آپ نے آرمی جوائن نہیں کیا
    مجھ میں وطن پرستی زیادہ ہے میں قربان ہونے سے نہیں گھبراتی
    گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی خدمت کے جذبے کو بیدار رکھوں گی انشاء اللہ
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    اقبال رحمۃ اللہ نے اپنی اس نظم میں نہایت ہی خوبصورتی سے وطینیت کے متعلق ایک مسلمان کا جو عقیدہ ہو سکتا ہے بیان کر دیا ہے ، اس میں حد سے بڑھ جانے پر انتباہ بھی ہے جو کہ آج کے اس دور پر پورا پورا اُتر رہا ہے ۔ ۔ ۔ اور ہم لوگ گلے گلے تک اس مین مبتلا ہو چکے ہیں ۔ ۔ ۔

    وطنیت
    اس دور ميں مے اور ہے جام اور ہے جم اور
    ساقي نے بنا کي روش لطف و ستم اور
    مسلم نے بھي تعمير کيا اپنا حرم اور
    تہذيب کے آزر نے ترشوائے صنم اور

    ان تازہ خداؤں ميں بڑا سب سے وطن ہے
    جو پيرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے

    يہ بت کہ تراشيدہء تہذيب نوي ہے
    غارت گر کاشانہء دين نبوي ہے
    بازو ترا توحيد کي قوت سے قوي ہے
    اسلام ترا ديس ہے ، تو مصطفوي ہے

    نظارہ ديرينہ زمانے کو دکھا دے
    اے مصطفوي خاک ميں اس بت کو ملا دے

    ہو قيد مقامي تو نتيجہ ہے تباہي
    رہ بحر ميں آزاد وطن صورت ماہي
    ہے ترک وطن سنت محبوب الہي
    دے تو بھي نبوت کي صداقت پہ گواہي

    گفتار سياست ميں وطن اور ہي کچھ ہے
    ارشاد نبوت ميں وطن اور ہي کچھ ہے

    اقوام جہاں ميں ہے رقابت تو اسي سے
    تسخير ہے مقصود تجارت تو اسي سے
    خالي ہے صداقت سے سياست تو اسي سے
    کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسي سے

    اقوام ميں مخلوق خدا بٹتي ہے اس سے
    قوميت اسلام کے جڑ کٹتي ہے اس سے

    علامہ محمد اقبال​
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    نہیں یہ بات نہیں مادر وطن کی خاک پر جان قربان کرنے کی شدید ترین آرزو مجھ مین بھی ہے ، میں شدید ترین خواہش کے باوجود آرمی جوائن نہ کر سکا ۔ ۔ ۔ جذبہ حریت اور وطنیت میں فرق ہے ہم لوگ آج کل ان کو ایک معنی میں لیتے ہیں ۔ ۔ ۔ حضور اکرم مکہ سے ہجرت کرتے وقت کس قدر رنجیدہ تھے کون نہیں جانتا ۔ ۔ ۔ ایک پردیسی سے زیادہ وطن کی قدر کس کو ہو گی ۔ ۔ ۔ میں وطن سے محبت کرتا ہوں اس پر اپنی جان مال اولاد ہر شے قربان کر سکتا ہوں مگر میں وطن پرست نہیں ہوں میں اس معاملے میں شدت پسند نہیں ہوں ۔ ۔ ۔ خیر یہ بات میں شاید مناسب الفاظ میں ابلاغ نہیں کر سکتا ۔ ۔ ۔
     
  8. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت زبردست لیکن سوال یہ ہے کہ اپنے وطن پر قربان ہونے والا شہید نہیں کہلاتا؟
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. faizanamir09
    آف لائن

    faizanamir09 ممبر

    شمولیت:
    ‏27 جنوری 2019
    پیغامات:
    106
    موصول پسندیدگیاں:
    84
    ملک کا جھنڈا:
    سوچ زمانے کو دیکھ کر ہی بنتی ہے
     
    آصف احمد بھٹی اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    محبتِ وطن: قرآن کی روشنی میں:
    1۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل کو اپنی مقبوضہ سرزمین میں داخل ہونے اور قابض ظالموں سے اپنا وطن آزاد کروانے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

    يٰـقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِيْ کَتَبَ اﷲُ لَکُمْ وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِيْنَo

    (المائدة، 5: 21)

    اے میری قوم! (ملک شام یا بیت المقدس کی) اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اﷲ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور اپنی پشت پر (پیچھے) نہ پلٹنا ورنہ تم نقصان اٹھانے والے بن کر پلٹو گے۔

    2۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا شہر مکہ کو امن کا گہوارہ بنانے کی دعا کرنا درحقیقت اس حرمت والے شہر سے محبت کی علامت ہے۔ قرآن فرماتا ہے:

    وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَo

    (إبراهيم، 14: 35)

    اور (یاد کیجیے) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے میرے رب! اس شہر (مکہ) کو جائے امن بنا دے اور مجھے اور میرے بچوں کو اس (بات) سے بچا لے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں۔

    3۔ اپنی اولاد کو مکہ مکرمہ میں چھوڑنے کا مقصد بھی اپنے محبوب شہر کی آبادکاری تھا۔ انہوں نے بارگاهِ اِلٰہ میں عرض کیا:

    رَبَّنَآ اِنِّيْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِکَ الْمُحَرَّمِلا رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْيُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّيُمْ يَشْکُرُوْنَo

    (إبراهيم، 14: 37)

    اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی اولاد (اسماعیل علیہ السلام) کو (مکہ کی) بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسا دیا ہے، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں پس تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ وہ شوق و محبت کے ساتھ ان کی طرف مائل رہیں اور انہیں (ہر طرح کے) پھلوں کا رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر بجا لاتے رہیں۔

    4۔ سورہ توبہ کی درج ذیل آیت میں مَسٰکِن سے مراد مکانات بھی ہیں اور وطن بھی ہے:

    قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِيْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَهَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْکُمْ مِّنَ اﷲِ وَرَسُوْلِهِ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهِ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی يَاْتِيَ اﷲُ بِاَمْرِهِط وَاﷲُ لَا يَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَo

    (التوبة، 9: 24)

    (اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔

    اﷲ تعالیٰ نے یہاں محبتِ وطن کی نفی نہیں فرمائی صرف وطن کی محبت کو اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جہاد پر ترجیح دینے سے منع فرمایا ہے۔ لہٰذا اِس آیت سے بھی وطن سے محبت کا شرعی جواز ملتا ہے۔

    5۔ اسی طرح درج ذیل آیت مبارکہ میں وطن سے ناحق نکالے جانے والوں کو دفاعی جنگ لڑنے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی ہے:

    اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰـتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْاط وَاِنَّ اﷲَ عَلٰی نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُo نِالَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ يََّقُوْلُوْا رَبُّنَا اﷲُ.

    (الحج، 22: 39-40)

    ان لوگوں کو (فتنہ و فساد اور اِستحصال کے خلاف دفاعی جنگ کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جارہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بے شک اﷲ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے۔ (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے (یعنی انہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا)۔

    6۔ اِسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل جب اپنی کرتوتوں کے باعث ذلت و غلامی کے طوق پہنے بے وطن ہوئے تو ٹھوکریں کھانے کے بعد اپنے نبی یوشع یا شمعون یا سموئیل علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ہمارے لئے کوئی حاکم یا کمانڈر مقرر کر دیں جس کے ماتحت ہو کے ہم اپنے دشمنوں سے جہاد کریں اور اپنا وطن آزاد کروائیں۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا: ایسا تو نہیں ہوگا کہ تم پر جہاد فرض کردیا جائے اور تم نہ لڑو؟ اِس پر وہ کہنے لگے:

    مَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَاَبْنَـآئِنَاطفَلَمَّا کُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَ لَّوْا اِلَّا قَلِيْلاً مِّنْهُمْط وَاﷲُ عَلِيْمٌم بِالظّٰلِمِيْنَo

    (البقرة، 2: 246)

    ہمیں کیا ہوا ہے کہ ہم اﷲ کی راہ میں جنگ نہ کریں حالاں کہ ہمیں اپنے وطن اور اولاد سے جدا کر دیا گیا ہے، سو جب ان پر (ظلم و جارحیت کے خلاف) قتال فرض کر دیا گیا تو ان میں سے چند ایک کے سوا سب پھر گئے، اور اﷲ ظالموں کو خوب جاننے والا ہے۔

    مذکورہ بالا آیت میں وطن اور اولاد کی جدائی کروانے والوں کے خلاف جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔

    7۔ اسی طرح درج ذیل آیت مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے دیگر نعمتوں کے ساتھ مسلمانوں کو آزاد وطن ملنے پر شکر بجا لانے کی ترغیب دلائی ہے:

    وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَاَيَّدَکُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo

    (الأنفال، 8: 26)

    اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم (مکی زندگی میں عدداً) تھوڑے (یعنی اقلیّت میں) تھے ملک میں دبے ہوئے تھے (یعنی معاشی طور پر کمزور اور استحصال زدہ تھے) تم اس بات سے (بھی) خوفزدہ رہتے تھے کہ (طاقتور) لوگ تمہیں اچک لیں گے (یعنی سماجی طور پر بھی تمہیں آزادی اور تحفظ حاصل نہ تھا) پس (ہجرت مدینہ کے بعد) اس (اللہ) نے تمہیں (آزاد اور محفوظ) ٹھکانا (وطن) عطا فرما دیا اور (اسلامی حکومت و اقتدار کی صورت میں) تمہیں اپنی مدد سے قوت بخش دی اور (مواخات، اموالِ غنیمت اور آزاد معیشت کے ذریعے) تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا فرما دی تاکہ تم (اللہ کی بھرپور بندگی کے ذریعے اس کا) شکر بجا لا سکو۔

    درج بالا میں مذکور سات آیاتِ قرآنیہ سے وطن کے ساتھ محبت کرنے، وطن کی خاطر ہجرت کرنے اور وطن کی خاطر قربان ہونے کا شرعی جواز ثابت ہوتا ہے۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    شہید کے لفظی معنی گواہ کے ہیں ہم لوگ شریعت میں اللہ کی واحدانیت پر گواہی دیتے ہوئے جان کی بازی ہار جانے والے کو شہید کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ بعد میں اس میں مزید وسعت ہو گئی اور اب تو برصغیر کے ہر ملک قوم اور مزہب کے لوگ اس کو اپنے ایسے مرنے والے کے لیے استعمال کرتے ہیں جو کسی مقصد یا حمیت کے لیے جان دیں ۔ ۔ ۔ مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے ۔ ۔ ۔ احادیث کی کتب میں کہیں پڑھا تھا ۔ ۔ ۔ ایک غزہ میں (شاید غزہ حنین) حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے ساتھ ایک غیر مسلم انصاری بھی شریک ہوا اور وہ اپنے قبیلے کی حمیت میں شامل ہوا جو کہ اکثر مسلمان ہو چکے تھے اس جنگ میں نہایت ہی بہادری سے لڑتے ہوئے اس کی جان چلی گئی ۔ ۔ ۔ اس پر صحابہ اکرام نے رسول اللہ سے پوچھا کہ کیا یہ شہید ہے ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ! یہ اپنے قبیلے کی حمیت میں مرا ہے یہ شہید نہیں ہے ۔ ۔ ۔ واللہ اعلم ۔ ۔ ۔
     
    Last edited: ‏13 جون 2019
  12. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    محبتِ وطن: احادیث مبارکہ کی روشنی میں:
    احادیث مبارکہ میں بھی اپنے وطن سے محبت کی واضح نظائر ملتی ہیں، جن سے محبتِ وطن کی مشروعیت اور جواز کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔

    1۔ حدیث، تفسیر، سیرت اور تاریخ کی تقریبا ہر کتاب میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نزولِ وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ بن نوفل نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نزولِ وحی کی تفصیلات سن کر تین باتیں عرض کیں:

    1. آپ کی تکذیب کی جائے گی یعنی آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے گی
    2. آپ کو اذیت دی جائے گی اور
    3. آپ کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا۔
    اِس طرح ورقہ بن نوفل نے بتایا کہ اعلانِ نبوت کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی قوم کی طرف سے کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    امام سہیلی نے الروض الأنف میں باقاعدہ یہ عنوان باندھا ہے: حُبُّ الرَّسُوْلِ صلی الله عليه وآله وسلم وَطْنَهُ (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وطن کے لیے محبت)۔ اس عنوان کے تحت امام سہیلی لکھتے ہیں کہ جب ورقہ بن نوفل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا کہ آپ کی قوم آپ کی تکذیب کرے گی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاموشی فرمائی۔ ثانیاً جب اس نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف و اذیت میں مبتلا کرے گی تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ نہ کہا۔ تیسری بات جب اس نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فورا فرمایا:

    أَوَ مُخْرِجِيَّ؟

    کیا وہ مجھے میرے وطن سے نکال دیں گے؟

    یہ بیان کرنے کے بعد امام سہیلی لکھتے ہیں:

    فَفِيْ هٰذَا دَلِيْلٌ عَلٰی حُبِّ الْوَطَنِ وَشِدَّةِ مُفَارَقَتِهِ عَلَی النَّفْسِ.

    اِس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وطن سے شدید محبت پر دلیل ہے اور یہ کہ اپنے وطن سے جدائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کتنی شاق تھی۔

    (الروض الأنف للسهيلی، 1: 413-414، طرح التثريب فی شرح التقريب للعراقی، 4: 185)

    اور وطن بھی وہ متبرک مقام کہ اﷲ تعالیٰ کا حرم اور اس کا گھر پڑوس ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محترم والد حضرت اسماعیل علیہ السلام کا شہر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی دونوں باتوں پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں فرمایا لیکن جب وطن سے نکالے جانے کا تذکرہ آیا تو فورا فرمایا کہ کیا میرے دشمن مجھے یہاں سے نکال دیں گے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سوال بھی بہت بلیغ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے الف اِستفہامیہ کے بعد واؤؔ کو ذکر فرمایا اور پھر نکالے جانے کو مختص فرمایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ واؤؔ سابقہ کلام کو ردّ کرنے کے لیے آتی ہے اور مخاطب کو یہ شعور دلاتی ہے کہ یہ اِستفہام اِنکار کی جہت سے ہے یا اِس وجہ سے ہے کہ اُسے دکھ اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گویا اپنے وطن سے نکالے جانے کی خبر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے زیادہ شاق گزری تھی۔

    امام زین الدین العراقی نے بھی یہ سارا واقعہ اپنی کتاب ’طرح التثریب فی شرح التقریب (4: 185)‘ میں بیان کرتے ہوئے وطن سے محبت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔

    2۔ یہی وجہ ہے کہ ہجرت کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا:

    مَا أَطْيَبَکِ مِنْ بَلَدٍ وَأَحَبَّکِ إِلَيَّ، وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمِي أَخْرَجُوْنِي مِنْکِ مَا سَکَنْتُ غَيْرَکِ.

    (سنن الترمذی، 5: 723، رقم: 3926، صحيح ابن حبان، 9: 23، رقم: 3709، المعجم الکبير للطبرانی، 10: 270، رقم: 10633)

    تُو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے! اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا۔

    یہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صراحتاً اپنے آبائی وطن مکہ مکرمہ سے محبت کا ذکر فرمایا ہے۔

    3۔ اِسی طرح سفر سے واپسی پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے وطن میں داخل ہونے کے لئے سواری کو تیز کرنا بھی وطن سے محبت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ گویا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وطن کی محبت میں اتنے سرشار ہوتے کہ اس میں داخل ہونے کے لیے جلدی فرماتے، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

    إِنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، فَنَظَرَ إِلٰی جُدُرَاتِ الْمَدِيْنَةِ، أَوْضَعَ رَاحِلَتَهِ، وَإِنْ کَانَ عَلٰی دَابَّةٍ، حَرَّکَهَا مِنْ حُبِّهَا.

    (صحيح البخاري، 2: 666، رقم: 1787، مسند أحمد بن حنبل، 3: 159، رقم: 12644، سنن الترمذي، 5: 499، رقم: 3441)

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر سے واپس تشریف لاتے ہوئے مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی اونٹنی کی رفتار تیز کر دیتے، اور اگر دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو مدینہ منورہ کی محبت میں اُسے ایڑی مار کر تیز بھگاتے تھے۔

    اِس حدیث مبارک میں صراحتاً مذکور ہے کہ اپنے وطن مدینہ منورہ کی محبت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سواری کی رفتار تیز کردیتے تھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے:

    وَفِی الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلٰی فَضْلِ الْمَدِينَةِ، وَعَلٰی مَشْرُوعِيَةِ حُبِّ الْوَطَنِ وَالْحَنِيْنِ إِلَيْهِ.

    (فتح الباری، 3: 621)

    یہ حدیث مبارک مدینہ منورہ کی فضیلت، وطن سے محبت کی مشروعیت و جواز اور اس کے لیے مشتاق ہونے پر دلالت کرتی ہے۔

    4۔ ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ خیبر کی طرف نکلا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کرتا رہوں۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیبر سے واپس لوٹے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُحد پہاڑ نظر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

    هٰذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ.

    یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں۔

    اس کے بعد اپنے دستِ مبارک سے مدینہ منورہ کی جانب اشارہ کر کے فرمایا:

    اللّٰهُمَّ! إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا کَتَحْرِيمِ إِبْرَاهِيمَ مَکَّةَ. اللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَمُدِّنَا.

    (صحيح البخاري، 3: 1058، رقم: 2732، صحيح مسلم، 2: 993، رقم: 1365)

    اے اللہ! میں اس کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان والی جگہ کو حرم بناتا ہوں جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم بنایا تھا۔ اے اللہ! ہمیں ہمارے صاع اور ہمارے مُدّ میں برکت عطا فرما۔

    یہ اور اس جیسی متعدد احادیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے وطن مدینہ منورہ کی خیرو برکت کے لیے دعا کرتے جو اپنے وطن سے محبت کی واضح دلیل ہے۔

    5۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب لوگ پہلا پھل دیکھتے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے قبول کرنے کے بعد دعا کرتے: اے اللہ! ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما۔ ہمارے (وطن) مدینہ میں برکت عطا فرما۔ ہمارے صاع میں اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما۔ اور مزید عرض کرتے:

    اللّٰهُمَّّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُکَ وَخَلِيلُکَ وَنَبِيُکَ، وَإِنِّي عَبْدُکَ وَنَبِيُکَ وَإِنَّهُ دَعَاکَ لِمَکَّةَ وَإِنِّي أَدْعُوکَ لِلْمَدِينَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاکَ لِمَکَّةَ وَمِثْلِهِ مَعَهُ.

    (صحيح مسلم، 2: 1000، رقم: 1373)

    اے اللہ! ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکہ مکرمہ کے لیے دعا کی تھی۔ میں ان کی دعائوں کے برابر اور اس سے ایک مثل زائد مدینہ کے لیے دعا کرتا ہوں (یعنی مدینہ میں مکہ سے دوگنا برکتیں نازل فرما)۔

    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی چھوٹے بچے کو بلا کر وہ پھل دے دیتے۔

    6۔ وطن سے محبت کا ایک اور انداز یہ بھی ہے کہ حضور نبی اکرمa نے فرمایا کہ وطن کی مٹی بزرگوں کے لعاب اور رب تعالیٰ کے حکم سے بیماروں کو شفا دیتی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:

    إِنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَقُولُ لِلْمَرِيضِ: بِسْمِ اﷲِ تُرْبَهُ أَرْضِنَا، بِرِيقَةِ بَعْضِنَا يُشْفٰی سَقِيمُنَا بِإِذْنِ رَبِّنَا.

    (صحيح البخاري، 5: 2168، رقم: 5413، صحيح مسلم، 4: 1724، رقم: 2194)

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مریض سے فرمایا کرتے تھے: اﷲ کے نام سے شروع، ہماری زمین (وطن) کی مٹی ہم میں سے بعض کے لعاب سے ہمارے بیمار کو، ہمارے رب کے حکم سے شفا دیتی ہے۔

    7۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ کوئی شخص مکہ مکرمہ سے آیا اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس سے پوچھا کہ مکہ کے حالات کیسے ہیں؟ جواب میں اُس شخص نے مکہ مکرمہ کے فضائل بیان کرنا شروع کیے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مقدسہ آنسؤوں سے تر ہوگئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

    لَا تُشَوِّقْنَا يَا فُلَانُ.

    اے فلاں! ہمارا اِشتیاق نہ بڑھا۔

    جب کہ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے فرمایا:

    دَعِ الْقُلُوْبَ تَقِرُّ.

    (شرح الزرقانی علی الموطا، 4: 288، السيرة الحلبية، 2: 283)

    دلوں کو اِستقرار پکڑنے دو (یعنی اِنہیں دوبارہ مکہ کی یاد دلا کر مضطرب نہ کرو)۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    میں ان تمام باتوں کا قائل ہوں ۔ ۔ ۔ وطینیت اس حد تک ہی جائز اور مناسب ہے ۔ ۔ ۔ اس سے زیادہ ہمیشہ شدت پسندی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    علامہ زرقانی ’الموطا‘ کی شرح میں لکھتے ہیں:

    وَأَخْرَجَ ابْنُ إِسْحَاقَ عَنِ الزُّهْرِیِّ، عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: أَصَابَتِ الْحُمَّی الصَّحَابَةَ حَتّٰی جَهِدُوا مَرَضًا.

    ابن اِسحاق نے الزہری سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ بخار نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دبوچ لیا یہاں تک کہ وہ بیماری کے سبب بہت لاغر ہوگئے۔

    اس قول کی تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ زرقانی رقم طراز ہیں:

    قَالَ السُّهَيْلِيُّ: وَفِي هٰذَا الْخَبَرِ وَمَا ذُکِرَ مِنْ حَنِينِهِمْ إِلٰی مَکَّةَ مَا جُبِلَتْ عَلَيْهِ النُّفُوسُ مِنْ حُبِّ الْوَطَنِ وَالْحَنِينِ إِلَيْهِ.

    (شرح الزرقانی علی الموطا، 4: 287-288)

    امام سہیلی فرماتے ہیں: اِس بیان میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مکہ مکرمہ سے والہانہ محبت اور اشتیاق کی خبر ہے کہ وطن کی محبت اور اس کی جانب اِشتیاق اِنسانی طبائع اور فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے (اور اِسی جدائی کے سبب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بیمار ہوئے تھے)۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    پیاری بہن میں وطینیت کے خلاف نہیں بلکہ حب الوطنی کو لازم سمجھتا ہوں البتہ وطن پرستی کو مناسب نہیں سمجھتا ۔ ۔ ۔ حب الوطنی اور وطن پرستی میں فرق سمجھئے ۔ ۔ ۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تو واضح فرق دو الفاظ میں بتا دیجئے نا
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    حب الوطنی تو آپ سمجھ چکی ہے ، آپ نے خود ہی قرآن و احادیث مبارکہ اور بزرگان دین کے حوالہ جات دئیے ہیں ۔ ۔ ۔ وطن پرستی یہ ہے کہ جب آپ سرحدوں کو اس حد تک مقدس سمجھنے لگیں کہ غیر وطنی اپ کی نظر میں حقیر ہو جائیں ۔ ۔ ۔ جب آپ کہیں میرے وطن پر اس کے تمام وسائل پر صرف میرا حق ہے غیر وطنی میرے ملک میں دوسرے یا تیسرے درجے کے شہری بن کر رہیں ، جب آپ آپس میں صرف اس لیے محبت کریں کہ فلاں شخص پٹھان (یہ صرف میں حوالہ دینے کے لیے کہہ رہا ہوں اس سے میری مراد اپ یا کوئی دوسرا شخص نہیں ) ہے میرے وطن کا ہے ، یہ پنجابی ہے تو یہ ایسا ہے ، یہ مصری ہے یہ لبنانی ہے جیسا کہ آج کل عام طور پر رائج ہے ۔ ۔ ۔ یہ وہ تفریق ہے جو وطن پرستی پیدا کرتی ہے ۔ ۔ ۔ ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان میں تفریق کسی طور جائز نہیں ۔ ۔ ۔ جب آپ وطن پرستی میں مبتلا ہوتے ہیں تو اپنے مسلمان بھائیوں سے کٹ جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور آخیر میں انسانیت سے بھی کٹ جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ واللہ اعلم
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    اس دور ميں مے اور ہے جام اور ہے جم اور
    ساقي نے بنا کي روش لطف و ستم اور

    اس پہلے ہی شعر پر غور کیجئے علامہ صاحب نے کیا موجودہ دور کو سمجھنے کا پورا فلسفہ ہی اس شعر میں پرو دیا ہے ۔ ۔ ۔ یعنی گزرے قوتوں میں جو چیز جیسی تھی اب ویسی نہیں ہے ہمیں پہلے لیگ آف نیشن اور پھر اقوام متحدہ کے نام پر بہلایا گیا ہے یہ وہ خمار بھری نیند کی گولی ہے جس سے ہمیں سلا دیا گیا ہے ۔ ۔ ۔
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    مسلم نے بھي تعمير کيا اپنا حرم اور
    تہذيب کے آزر نے ترشوائے صنم اور

    اب دیکھ لیجئے اس شعر میں کس خوبصورتی سے بتایا ہے کہ ہم نے بھی طاقت کو اپنا قبلہ تسلیم کر لیا ہے سو پہلے انگریز ، ولندیزی ، ڈچ اور اب امریکی ہمارے آقا ہیں ۔ ۔ ۔ نئی تہزیب اور روشن خیالی کے نام پر کس بےدردی سے ہم سے ہمارے اسلاف کی عزت اور ان کے کارنامے اور چھین لیے گئے آج ہم دُنیا سے ان کی کامیابیاں چھپاتے پھرتے ہیں ۔ ۔ ۔
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    ان تازہ خداؤں ميں بڑا سب سے وطن ہے
    جو پيرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے

    یہ ہے وہ بات جو اس سارے فلسفے کیا بنیاد ہے ۔ ۔ ۔
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    يہ بت کہ تراشيدہء تہذيب نوي ہے
    غارت گر کاشانہء دين نبوي ہے

    وطینیت (یہاں وطینیت سے مراد کلی طور پر وطن پرستی ہے) یا تفریق سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ، خلافت ختم کر کے ہمیں چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا ایک بلاد شام ، فلسطین ، سیریا (شام) لبنان ، اردن اور اسرائیل بن گئے ، سرزمین عرب کو سعودی عرب عراق ، یمن اور خلیجی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا، افریقہ کو مصر ، لبیا ، سوڈان اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بانٹ دیا گیا ۔ ۔ ۔ اور کمال ہوشیاری سے کردوں کو چار ملکوں ترکی ، سیریا ، عراق اور لبنان میں بانٹ دیا ، اس طرح کاشغر سے لیکر اسپین تک ایک خلیفہ کے ماننے والے اپنی اپنی ریاستوں کی مقدس سرحدوں میں قید ہو گئے ۔ ۔ ۔
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    بازو ترا توحيد کي قوت سے قوي ہے
    اسلام ترا ديس ہے ، تو مصطفوي ہے

    یہ ہے وہ بات جس کے ڈر کی وجہ سے یہ سب کیا گیا ۔ ۔ ۔
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    نظارہ ديرينہ زمانے کو دکھا دے
    اے مصطفوي خاک ميں اس بت کو ملا دے

    اب یہ علامہ صاحب کی آرزو ہے ۔ ۔ ۔
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    ہو قيد مقامي تو نتيجہ ہے تباہي
    رہ بحر ميں آزاد وطن صورت ماہي

    یہ ہے اس کا نتیجہ ۔ ۔ ۔ آج ہم افغانیوں کے دشمن ہیں اور وہ ہمارے دشمن ۔ ۔ ۔ عرب ایرانیوں کے دشمن ہیں اور ایرانی تمام مسلمانوں کے ۔ ۔ ۔
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    ہے ترک وطن سنت محبوب الہي
    دے تو بھي نبوت کي صداقت پہ گواہي

    یہی سچ ہے ۔ ۔ ۔ اللہ نے پوری دُنیا مسلمان کا وطن قرار دی ہے ۔ ۔ ۔
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    گفتار سياست ميں وطن اور ہي کچھ ہے
    ارشاد نبوت ميں وطن اور ہي کچھ ہے

    کیا یہ سچ نہیں ۔ ۔ ۔ آج کی سیاست کس قدر غلیظ ہو چکی ہے ۔ ۔ ۔ محض اسی وجہ سے ۔ ۔ ۔
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    اقوام جہاں ميں ہے رقابت تو اسي سے
    تسخير ہے مقصود تجارت تو اسي سے

    کس حد تک درست بات ہے ۔ ۔ ۔ یہ ہماری مقدس سرحدیں ہی ہیں جس کے سبب آج پوری انسانیت ایک دوسرے کی دشمن ہے ۔ ۔ ۔
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    خالي ہے صداقت سے سياست تو اسي سے
    کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسي سے

    دیکھ لیجئے مسلمان ممالک چونکہ کمزور کا گھر ہو چکے ہیں اس لیے غارت ہو رہے ہیں ۔ ۔ ۔
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    اقوام ميں مخلوق خدا بٹتي ہے اس سے
    قوميت اسلام کے جڑ کٹتي ہے اس سے

    ایک ایک لفظ خود اپنی ترجمانی کر رہا ہے ۔ ۔ ۔
     
    Last edited: ‏13 جون 2019
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    مطلب یہ کہ

    حب الوطنی ........ وطن سے محبت
    وطن پرستی......... باقیوں سے نفرت
     
  21. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت محنت کی آپ نے
    ویسے دو الفاظ کچھ زیادہ نہیں ہو گئے؟

    بہت بہت شکریہ
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  22. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    بئی اب ان سب میں سے آپ کو جو دو الفاظ پسند آئیں رکھ لیں ۔ ۔ ۔ باقی مجھے لوٹا دیجئے ۔ ۔ ۔
     
  23. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    نہیں ۔ ۔ ۔پرستی یا پرستش صرف اللہ کی ۔ ۔ ۔ پرستی کسی بھی شے کی ہو اگر اللہ کے سوا ہے تو وہ آپ کو خفی شرک تک لے جاتی ہے ۔ ۔ ۔ جبھی تو اقبال نے " ان تازہ خداؤں میں " کہا ہے ۔ ۔ ۔ اور پرستی اگر قوم کی ہو یا زبان کی ہو یا وطن کی ہو یا کسی بھی شے کی ، وہ آپ کو اس کی ہم پلہ دوسری شے سے بغض ، حسد اور نفرت تک لے جاتی ہے ۔ ۔ ۔ آج کی دُنیا اور خصوصا پاکستانی معاشرہ اس کی بہترین مثال ہے ۔ ۔ ۔ ہم میں قوم پرست ہیں وہ اپنی قوم کے سوا باقی سب کو کچھ سمجھتے ہی نہیں ، ہم میں زبان پرست ہیں ، وہ اپنی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان کو اہمیت ہی نہیں دیتے ، ہم میں وطن پرست ہیں ، وہ ہمارے ملک مین موجود مہاجرین سے کم و بیش نفرت کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ یہ مہاجرین افغانی بھی ہیں اور دوسری اقوام کے لوگ بھی ۔ ۔ ۔ ہر مہاجر صرف اپنے ملک کے ابتر حالات کی وجہ سے ملک چھوڑتا ہے ورنہ ہر شخص کی فطرت میں اس کے وطن کی محبت ودیعت کی جا چکی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ یورپ و امریکہ لاکھوں مہاجرین ہیں اور اس لیے ہیں کہ وہاں مہاجرین کو شہریت ملنے کا امکان ہوتا ہے ہمارے لوگ بھی ہیں اور جب وہاں جاتے ہیں تو فورا وہاں کی شہریت حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر جب کسی افغانی یا غیر ملکی کو پاکستانی شہریت دینے کی بات کی جاتی ہے تو ہمیں وہ سب دہشت گرد لگنے لگتے ہیں ۔ ۔ ۔ یہ وطن پرستی ہے ۔ ۔ ۔ اپنے سوا اپنے وطن کی سر زمین پر کسی دوسرے کا وجود پسند نہ کرنا یا اپنے وطن کے وسائل پر صرف اپنا حق تسلیم کرنا ۔ ۔ ۔
     
  24. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    فراز نے ایک شعر میں عشق کا لفظ کم و بیش اسی معنی میں استعمال کیا ہے کہ جس معنی میں اسے لیتا ہوں ۔ ۔ ۔ گو یہ شاید مکمل طور پر اس معنی میں نہین مگر کسی حد تک ہے ۔ ۔ ۔

    ذرا سی گردِ ہوس دل پہ لازمی ہے فرازؔ
    وہ عشق کیا ہے جو دامن کو پاک چاہتا ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں