1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

'اسلامی ویڈیوز' میں موضوعات آغاز کردہ از احمد کھوکھر, ‏20 اکتوبر 2010۔

  1. احمد کھوکھر
    آف لائن

    احمد کھوکھر ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اگست 2008
    پیغامات:
    61,332
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
  2. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    میرے خداااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااا

    یہ کیا ہو رہا ھے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
     
  3. احمد کھوکھر
    آف لائن

    احمد کھوکھر ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اگست 2008
    پیغامات:
    61,332
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    شرک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  4. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    اگر یہ لوگ واقعی سجدے کررہے ہیں تو یہ سب شرک اور حرام ہے
    ایسا ہی ایک دلچسپ واقعہ اور اسکا حل ڈاکٹر طاہر القادری نے اس کلپ میں کیا ہے۔

     
  5. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    عقرب شکریہ اس شیئرنگ کا
     
  6. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    عقرب جی آپ نے شاید یہ ویڈیو نہیں دیکھی

     
  7. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    اللٌہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنا تو بالکل ناجائز، حرام اور شرک ہے، اور یہ سب جانتے ہیں، جعلی پیروں مریدوں کے چکر میں آکر لوگ بیوقوف بنتے ہیں، جو سراسر جاہلیت اور علم کی کمی ہے،!!!!!
     
  8. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    بالکل درست کہا سید جی

    مگر آج کل لوگوں کی عادت بن گئی ھے جو کام خود کریں اس کے لئے اسلامی احکامات بھی تراش لیتے ھیں، عقیدت سے کسی کے ہاتھ کو چومنا تو فطرتا بھی مناسب لگتا ھے مگر کسی کے قدموں میں گرنا یا چومنا اور سجدہ کرنا ، میری سمجھ سے باہر ھے جب خدا فرماتا ھے جو مانگنا ھے مجھ سے مانگو یہ غیر اللہ تمہیں کچھ نہیں دینے والے ، پھر یہ سب کس لئے کیوں؟؟؟
     
  9. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    خوشی جی،!!!!
    آپ نے بالکل صحیح فرمایا،!!!!!!
     
  10. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    میں نے تو دیکھی ہے :a165: :a191:
     
  11. احمد کھوکھر
    آف لائن

    احمد کھوکھر ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اگست 2008
    پیغامات:
    61,332
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    حسن اس میں کیا شاندار بات ہے :confused:
     
  12. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    جو حسن کو پسند ھے شاید شاندار اسی کو کہتے ہوں
     
  13. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    جو سجدہ فرشتوں نے حضرت آدم کو کیا تھا اور جو سجدہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کو کیا تھا اس بارے میں کیا خیالات ہیں؟
     
  14. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    میں فضول میں بحث نہیں کرنا چاہتا کیوں جس کی سوئی اڑی ہو اُس نے تو ماننا ہی نہیں ہوتا سچائی کو :mad:
     
  15. فرح ناز
    آف لائن

    فرح ناز ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2010
    پیغامات:
    236
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    سن 2005ء میں دِمشق میں تحریک منہاج القرآن کے وابستگان کی طرف سے منعقد کی گئی محفل سماع کے بعض حصوں کو کچھ عاقبت نااندیش لوگوں کی طرف سے کانٹ چھانٹ کر انٹرنیٹ پر upload کیے جانے والے video clip کے ذریعے یہ پراپیگنڈہ کیا گیا کہ شاید لوگ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو سجدہ کرتے ہیں اور شیخ الاسلام سجدہ کرنے والوں کو شاباش دیتے ہیں۔ العیاذ باﷲ! ایسا واقعہ ہرگز نہیں ہوا، یہ محض بہتان تراشی ہے۔ ایسا بہتان لگانے والے دراصل اپنے عقائد باطلہ پر زد پڑنے سے خائف ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری جیسی علمی شخصیت کے علمی و تحقیقی کام کے ذریعے ایسے لوگوں کے مفادات کو ٹھیس پہنچنے اور ان کے مذموم مقاصد بے نقاب ہونے کا خدشہ ہے۔ اس لیے وہ ایسی شخصیت پر کیچڑ اچھالنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں جس نے انہیں علم اور دلائل کی بنیاد پر چیلنج کر کے ان کے بے بنیاد اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ حالاں کہ وہ جانتے ہیں کہ آسمان کی طرف منہ کرکے تھوکیں گے تو اپنے اوپر ہی گرے گا۔

    حقیقت یہ ہے کہ تقبیلِ رِجلین یعنی بزرگ اور صالح شخصیات کے پاؤں چومنا نہ صرف ثابت شدہ شرعی اَمر ہے، بلکہ براہِ راست صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے عمل سے ثابت ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اَقدس کو بوسہ دیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک چومتے۔

    سب سے پہلے ہم دِمشق میں منعقد ہونے والی محفل سماع کے ویڈیو کلپ پر بحث کریں گے تاکہ جن نادان اور کم فہم لوگوں کو یہ شک گزرا ہے کہ ایک شخص (معاذ اﷲ) شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو سجدہ کررہا ہے اُن کا اِشکال دور ہوجائے۔

    ١۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے زندگی بھر کبھی کسی کو یہ اجازت نہیں دی کہ انہیں سجدہ کرے۔ سجدہ تو دور کی بات ہے، وہ ہمیشہ اپنے عقیدت مندوں کو اپنے ہاتھ چومنے سے بھی منع کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کبھی اپنی ذات کے لیے پاؤں چومنے کا عمل پسند نہیں کیا۔

    ٢۔ دمشق میں منعقد ہونے والی محفلِ سماع کے ویڈیو کلپ میں بھی وہ قدم بوسی کے لیے جھکنے والے شخص کو اپنے ہاتھوں سے ہٹاتے ہوئے واضح نظر آرہے ہیں۔ لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس ویڈیو پر تبصرہ کرنے والے بعض ”نابینوں” نے اِسے شاباش سے تعبیر کیا ہے۔

    ٣۔ یہ بات پوری دنیا جانتی ہے کہ شیخ الاسلام عرصہ دراز سے اپنی کمر میں تکلیف کی وجہ سے نماز بھی کرسی پر بیٹھ کر ادا کرتے ہیں اور بیٹھنے کے لیے بھی ہمیشہ medicated seat استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ اچانک قدم بوسی کے لیے جھکنے والے شخص کو فوری طور پر جھک کر روک دیتے۔ البتہ وہ اسے اپنے ہاتھوں سے دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    ٤۔ یہ بات بھی پوری دنیا جانتی ہے کہ کمر کی تکلیف کے باعث ہی وہ ہمیشہ بیٹھتے وقت foot rest کا استعمال ضرور کرتے ہیں، لیکن دمشق میں منعقد ہونے والی محفلِ سماع میں اُنہوں نے سفر کے دوران میں شرکت کی تھی، اس لیے اُس محفلِ سماع میں foot rest کی عدم دستیابی کے باعث تکیہ استعمال کر لیا گیا۔ تکیہ اِس مقصد کے لیے ہرگز نہیں رکھا گیا تھا کہ لوگ اس پر آکے جھکیں یا (معاذ اﷲ) سجدہ کریں۔ لیکن اِس پر کتنا افسوس کیا جائے کہ تبصرہ کرنے والی عدل و انصاف سے عاری طبیعت نے اِسے اہتمامِ سجدہ قرار دے دیا!

    ٥۔ چوں کہ یہ محفلِ سماع دورانِ سفر دمشق میں منعقد کی گئی جس کا اہتمام اُس طرح ممکن نہ تھا جس طرح تحریکِ منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر منعقد ہونے والی محافلِ سماع یا دیگر پروگراموں میں کیا جاتا ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر منعقد ہونے والی محافل سماع میں باقاعدہ لوگ تعینات کیے جاتے ہیں جو قدم بوسی کے لیے حاضر ہونے والے معتقدین کو سختی سے روکتے ہیں۔ اگر جانب داری کی عینک اتار کر دمشق کے اِس ویڈیو کلپ کو دیکھا جائے تو یہاں بھی واضح ہوگا کہ ایک طرف ایک شخص قدم بوسی کے لیے حاضر ہونے والے معتقدین کو روکنے کے لیے بیٹھا ہوا ہے۔ مگر جب اِس ویڈیو کلپ میں آنے والے شخص نے دوسری جانب کسی کو نہ پایا تو وہ اُدھر سے حاضر ہوگیا جسے خود شیخ الاسلام اپنے ہاتھوں سے ہٹاتے رہے۔

    ٦۔ لہٰذا کسی مسلمان شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ بغیر تحقیق اور چھان پھٹک کے کسی بات کی تشہیر کرے۔ یہی قرآن و سُنّت کی تعلیمات ہیں اور یہی منشاے دین ہے۔ جہاں تک محفل سماع میں پڑھے جانے والے کلام کا تعلق ہے تو تصوف و روحانیت پر مبنی اِس کلام میں پیغامِ توحید ہے اور یہ کلام اﷲ تعالیٰ کی ذات بابرکات کے لیے ہے۔ اتنے اعلیٰ و اَرفع کلام کو بدنیتی سے اور اپنے مذموم موقف کو ثابت کرنے کے لیے استعمال کرنا سراسر بدبختی اور جہالت کی علامت ہے۔ باری تعالیٰ ہمیں ایسی شرپسندی اور جہالت سے محفوظ فرمائے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

    یہاں تک ہم نے واضح کیا کہ شیخ الاسلام نے کبھی اپنے ہاتھوں اور قدموں کے چومنے کا عمل نہ پسند کیا اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کی۔ سجدہ تو بہت دور کی بات ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے خطابات اور کتب میں جابجا غیر اللہ کے لیے سجدہ عبادت کو شرک اور سجدہ تعظیمی کو حرام قرار دیا ہے۔ حوالہ کے لیے ان کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب التوحید اور دوسری کتاب تعظیم اور عبادت ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

    لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قدم بوسی سجدہ ہے؟ کیا قدم بوسی شرک ہے؟ اِس کے بارے میں اِسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ لہٰذا اِس بات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے تاکہ اگر بعض حالات میں کسی نے تقبیلِ رِجلین (قدم بوسی) کر بھی لی تو اس پر کیا حکمِ شرعی لاگو ہوگا۔ ذیل میں اس سے متعلقہ چند احادیث و آثار درج کیے جاتے ہیں:

    ١۔ زارع بن عامر – جو وفدِ عبد القیس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تھے – سے مروی ہے:
    لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِيْنَةَ فَجَعَلْنَا نَتَبَادَرُ مِنْ رَوَاحِلِنَا، فَنُقَبِّلُ يَدَ رَسُولِ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم وَرِجْلَهُ.
    ”جب ہم مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو اپنی سواریوں سے کود کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس اور پاؤں مبارک کو چومنے لگے۔”

    اس حدیث کو صحاح ستہ میں سے سنن ابی داود (کتاب الادب، باب قبلۃ الجسد، ٤: ٣٥٧، رقم: ٥٢٢٥) میں روایت کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اسے امام بیہقی نے السنن الکبری (7: 102) میں اور امام طبرانی نے اپنی دو کتب المعجم الکبیر (٥: ٢٧٥، رقم: ٥٣١٣) اور المعجم الاوسط (1: 133، رقم: ۴۱۸) میں روایت کیا ہے۔

    ٢۔ امام بخاری نے ”الادب المفرد” میں باب تقبيل الرِّجل قائم کیا ہے یعنی ”پاؤں کو بوسہ دینے کا بیان۔” اس باب کے اندر صفحہ نمبر ۳۳۹ پر حدیث نمبر ۹۷۵ کے تحت انہوں نے مذکورہ بالا حدیث کو حضرت وازع بن عامر رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:
    قَدِمْنَا فَقِيْلَ: ذَاکَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم. فَأَخَذْنَا بِيَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ نُقَبِّلُهَا.
    ”ہم مدینہ حاضر ہوئے تو (ہمیں) کہا گیا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ پس ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں اور قدموں سے لپٹ گئے اور اُنہیں بوسہ دینے لگے۔”

    یہ الفاظ خاص مفہوم کے حامل ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے صرف ہاتھ مبارک پکڑنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ہاتھوں کے علاوہ پاؤں مبارک کو بھی بوسہ دینے کا عمل جاری رکھا درآں حالیکہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں مبارک پکڑ رکھے تھے۔

    ٣۔ امام ترمذی نے اس مضمون پر ایک حدیث حضرت صفوان بن عسّال ‏رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ قومِ یہود کے بعض افراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کرنے کے بعد اعلانیہ گواہی دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں:
    فَقَبَّلُوْا يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ. وَقَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّکَ نَبِيٌّ.
    ”انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں مبارک کو بوسہ دیا، اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ہیں۔”

    اس حدیث مبارکہ کو امام نسائی نے السنن (کتاب تحریم الدم، ۷: ۱۱۱، رقم: ۴۰۷۸) میں اور امام ابن ماجہ نے السنن (کتاب الادب، باب الرجل یقبّل ید الرجل، ٢: ١٢٢١، رقم: ٣٧٠٥) میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو الجامع میں دو جگہ روایت کیا ہے: پہلی بار ابواب الاستئذان والآداب میں باب فی قبلۃ الید والرجل (٥: ٧٧، رقم: ٢٧٣٣) میں اور دوسری بار ابواب التفسیر کے باب ومن سورۃ بنی اسرائیل (۵: ۳۰۵، رقم: ۳۱۴۴) میں۔ امام احمد بن حنبل نے المسند (۴: ۲۳۹، ۲۴۰) میں، امام حاکم نے المستدرک (۱: ۵۲، رقم: ۲۰) میں، امام طیالسی نے المسند (ص: ۱۶۰، رقم: ۱۱۶۴) میں اور امام مقدسی نے الاحادیث المختارہ (٨: ٢٩، رقم: ١٨) میں روایت کیا ہے۔

    اتنے اجل محدثین کے اس حدیث کو روایت کرنے اور اس سے استشہاد کرنے کے باوجود بھی کوئی متعصب کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک یہودی کا فعل تھا، ہم اسے کس طرح لازمی شہادت کا درجہ دے سکتے ہیں۔ اس سوچ پر سوائے افسوس کے کیا کہا جا سکتا ہے کہ معترض کو یہودی کا عمل تو نظر آگیا مگر جس کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ بابرکت ہستی نظر نہیں آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو تقبیل سے منع نہیں فرمایا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ تقریری ہوا۔

    ٤۔ علامہ ابن تیمیہ کے جلیل القدر شاگرد حافظ ابن کثیر سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ١٠١ کی تفسیر میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک بار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بات پر خفا ہو کر جلال میں آگئے تو:
    فَقَامَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضي الله عنه فَقَبَّلَ رِجْلَهُ وَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، رَضِيْنَا بِاﷲِ رَبًّا وَبِکَ نَبِيًّا وَبِالإِْسْلَامِ دِيْنًا وَبِالْقُرْآنِ إِمَامًا فَاعْفُ عَنَّا عَفَا اﷲُ عَنْکَ فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّی رَضِيَ.
    ” حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک چوم کر عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہم اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، آپ کے نبی ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام و راہنما ہونے پر راضی ہیں، ہمیں معاف فرما دیجئے۔ اﷲ تعالیٰ آپ سے مزید راضی ہو گا۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلسل عرض کرتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی ہو گئے۔”

    اس روایت کو دیگر مفسرین نے بھی متعلقہ آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے۔

    اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے اجل صحابی کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک چومنا اور خود تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انہیں منع نہ فرمانا کیا (معاذ اللہ)عقیدہ توحید کی خلاف ورزی تھا۔

    ۵۔ امام مقری (م ۳۸۱ھ) اپنی کتاب تقبیل الید (ص: ۶۴، رقم: ۵) میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک اعرابی بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا اور اس نے آکر عرض کیا: میں نے اسلام قبول کر لیا ہے لیکن میں کچھ مزید چاہتا ہوں تاکہ میرے یقین میں اضافہ ہوجائے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دی تو اعرابی کے بلاوے پر ایک درخت اس کے پاس آیا اور اس نے کہا: یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو۔ اس کے بعد طویل روایت ہے اور آخر میں اعرابی نے تمام نشانیاں دیکھنے کے بعد عرض کیا:
    يا رسول الله! أئذن لي أن أقبل رأسك ورجلك.
    “اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کاسر اقدس اور قدم مبارک چوم لوں۔”

    اس کے بعد روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اعرابی کو اجازت مرحمت فرمائی۔ اور پھر اس اعرابی نے سجدہ کرنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت نہ دی۔ امام مقری کی روایت کردہ اس حدیث کو حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری (۱۱: ۵۷) میں نقل کیا ہے۔ نیز علامہ مبارک پوری نے بھی تحفۃ الاحوذی (۷: ۴۳۷) میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔

    یہ روایت بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کر رہی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قدم چومنے کی اجازت تو دی لیکن سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اگر قدم چومنا اور سجدہ کرنا برابر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی ان کے مابین فرق نہ فرماتے اور دونوں سے منع فرما دیتے۔

    یہاں تک آقاے نام دار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک چومے جانے پر چند احادیث کا حوالہ دیا گیا، جس سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ قدم بوسی ہرگز کوئی شرکیہ عمل نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنی ذات اقدس کے لیے بھی کبھی اس کی اجازت نہ دیتے۔

    کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُنہیں اِس عمل سے نہ روکنا اور سکوت فرمانا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اس کی اجازت نہ تھی؟ کیا صحابہ کرام ‏رضی اللہ عنھم کا یہ عمل سنتِ تقریری نہ قرار پایا؟ اگر پاؤں چومنا نعوذ باﷲ سجدہ ہے تو کیا صحابہ کرام ‏رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کر رہے تھے؟ کیا (معاذ اﷲ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – جو توحید کا پیغام عام کرنے اور شرک کے خاتمے کے لیے مبعوث ہوئے – خود شرک کے عمل کی اجازت دے رہے تھے؟

    کاش! قدم بوسی پر اعتراض کرنے والے پہلے کچھ مطالعہ ہی کر لیتے۔

    کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ قدم بوسی صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مخصوص ہے۔ لہٰذا ذیل میں ہم اِس اَمر کا جائزہ لیتے ہیں کہ غیر انبیاء صالحین اور مشائخ عظام اور اکابر اسلام کی دست بوسی و قدم بوسی کی کیا حقیقت ہے؟

    یہ ایک حقیقت ہے کہ علماے ‏کرام اور مشائخ عظام کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی خدمت کی نسبت سے تعظیم و احترام بجا لانا منشاء اِسلام ہے۔ اِن کی تعظیم کو شرک کہنا باطل اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے۔ کتب سیر و احادیث کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ اکابرین کی قدم بوسی ہمیشہ اہل محبت و ادب کا معمول رہی ہے۔ اِس سلسلے میں چند نظائر پیش خدمت ہیں:

    ١۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے غلام تھے، وہ بیان کرتے ہیں:
    رَأَيْتُ عَلِيًّا يُقَبِّلُ يَدَ الْعَبَّاسِ وَرِجْلَيْهِ وَيَقُوْلُ: يَا عَمِّ ارْضَ عَنِّي.
    ”میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور پاؤں چومتے دیکھا اور آپ ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے: اے چچا! مجھ سے راضی ہوجائیں۔”

    اسے امام بخاری نے الادب المفرد (ص: ٣٣٩، رقم: ٩٧٦) میں، امام ذہبی نے سیر أعلام النبلاء (٢: ٩٤) میں، امام مزی نے تہذیب الکمال (١٣: ٢٤٠، رقم: ٢٩٠٥) میں اور امام مقری نے تقبیل الید (ص: ٧٦، رقم: ١٥) میں روایت کیا ہے۔

    2۔ آسمان علم کے روشن ستارے اور ہر مسلک و مکتبہ فکر کے متفقہ محدث امام بخاری نے بھی اپنی کتاب الأدب المفرد میں ہاتھ چومنے پر ایک پورا باب (نمبر ٤٤٤) قائم کیا ہے۔ امام بخاری نے باب تقبيل اليد میں ”ہاتھ چومنے” کے حوالے سے تین احادیث بیان کی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ صحابہ کرام، حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارکہ کو چوما کرتے تھے؛ اور جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومتے تو اسی طرح تابعین، صحابہ کرام کے ہاتھ چومتے۔ ان احادیث کو ذکر کر کے امام بخاری آدابِ زندگی بتارہے ہیں کہ بزرگوں کی سنت یہ تھی کہ شیوخ اور اکابر کا ہاتھ چوما کرتے تھے۔ یہاں تک کہ امام بخاری نے دین میں اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کا الگ باب قائم کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ امام بخاری اِس باب کے فوری بعد پاؤں چومنے کا باب – بَابُ تَقْبِيْلِ الرِّجْل – لائے ہیں۔

    ظاہر ہے کہ امام بخاری نے کتاب الادب میں ان ابواب کو ترتیب دے کر یہ واضح کیا ہے کہ ان کے نزدیک ہاتھ چومنا اور قدم چومنا آداب میں سے ہے۔ اگر وہ اس عمل کو شرک یا سجدہ سمجھتے تو کبھی بھی آداب زندگی کے بیان پر مشتمل اپنی کتاب میں یہ ابواب قائم نہ کرتے اور نہ ہی ایسی احادیث لاتے۔

    ٣۔ اسی طرح امام بخاری کے بعد امت مسلمہ کے نزدیک ثقہ ترین محدث امام مسلم کے شہر نیشاپور میں جب امام بخاری تشریف لائے اور امام مسلم ان کے پاس حاضر ہوئے تو اَئمہ کے اَحوال پر مبنی تمام کتب میں درج ہے کہ امام مسلم نے امام بخاری کا ماتھا چوما اور پھر ان سے اجازت مانگی کہ:
    دعني حتی أقبّل رجليک، يا أستاذ الأستاذين وسيد المحدّثين وطبيب الحديث في علله.
    ”اے استاذوں کے استاذ، سید المحدّثین اور عللِ حدیث کے طبیب! آپ مجھے اجازت دیں تو میں آپ کے پاؤں کا بوسہ لے لوں۔”

    اِمام بخاری اور امام مسلم کا یہ واقعہ ابن نقطہ نے ‘التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید (١: ٣٣)’میں، امام ذہبی نے ‘سیر اعلام النبلاء (١٢: ٤٣٢، ٤٣٦)’ میں، امام نووی نے ‘تذعیب الاسماء واللغات (١: ٨٨)’ میں، حافظ ابن حجر عسقلانی نے مقدمۃ فتح الباری (ص: ٤٨٨)’ میں اور برصغیر کے نام ور غیر مقلد نواب صدیق حسن قنوجی نے ‘الحطۃ فی ذکر الصحاح الستۃ (ص: ٣٣٩)’ میں روایت کیا ہے۔

    ٤۔ علامہ شروانی شافعی ‘حواشی (٤: ٨٤)’ میں لکھتے ہیں:
    قد تقرّر أنه يسنّ تقبيل يد الصالح بل ورجله.
    ”یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ صالح شخص کے ہاتھ اور پاؤں چومنا مسنون عمل ہے۔”

    5۔ مسلک دیوبند کے نام ور عالم اور جامع الترمذی کے شارح علامہ ابو العلاء عبد الرحمان بن عبد الرحیم مبارک پوری کا علم الحدیث میں ایک نمایاں مقام ہے۔ انہوں نے تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی کی جلد سات کے صفحہ نمبر 437 پر ہاتھ اور پاؤں چومنے پر مذکورہ بالا تمام روایات بطور استشہاد درج کی ہیں، جس کے ان کے مسلک و مشرب کا واضح پتا چلتا ہے۔

    اِس طرح کی بے شمار روایات بطور حوالہ پیش کی جاسکتی ہیں، مگر چند ایک کے حوالہ جات دینے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے، جوکہ اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ صلحاء اور اَتقیاء کی دست بوسی و قدم بوسی کرنا جائز اور پسندیدہ عمل ہے۔ اہل تصوف و روحانیت مانتے ہیں کہ قدم بوسی معمول کا عمل نہیں ہے، بلکہ ایسا کرنے والا عقیدت و محبت سے کرتا ہے۔ اور ایسا عمل بالخصوص قدم بوسی کا عمل ایسی شخصیت کے لیے بجا لایا جاتا جو علم و عمل میں اپنے دور کے امام کی حیثیت رکھتی ہو۔ لہٰذا ہمیں مسلک و جانب داریت کی عینک اُتار کر قرآن و سُنّت، عمل صحابہ اور عمل سلف صالحین کا مطالعہ کرکے کوئی فتویٰ صادر کرنا چاہیے اور بلا تحقیق و بلا مطالعہ کسی بات کو نہیں اُچھالنا چاہیے کیوں کہ بلا تحقیق کوئی بات آگے بیان کرنے سے تو قرآن حکیم بھی منع فرماتا ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس کی مذمت بیان فرمائی ہے۔ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 6 میں ارشاد باری تعالی ہے:
    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا.
    “اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کرلیا کرو۔”

    اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے اہلِ ایمان کوحکم دیا کہ وہ کسی معاملے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے اُسے اچھی طرح چھان پھٹک لیں کہ اُس میں حقیقت کیا ہے اور فسانہ کیا ہے! پھرجب شرح صدر سے کسی نتیجے پر پہنچ جائیں تو اس کے بعد عملی اقدام اُٹھائیں۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرمایا:
    کَفٰی بِالْمَرْءِ کَذِبًا اَنْ يُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ.
    ” آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو (بغیر تحقیق کیے) آگے بیان کر دے۔”

    (صحيح مسلم، كتاب الايمان، 1: 10، رقم: 5)

    گویا یہاں مومنوں سے کہاجا رہا ہے کہ وہ کسی بھی سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے نہ مانیں، بلکہ مختلف ذرائع سے تصدیق کرنے کے بعد جب کسی بات کامبنی بر حق ہونا یقینی ہو جائے تو پھر ہی اُسے تسلیم کریں اور آگے روایت کریں کیوں کہ بغیر تحقیق کے کسی بات کو آگے بیان کردینا گویا جھوٹ بولنا ہے اور اس پر بھی بہت سی احادیث ہیں کہ مومن سب کچھ ہوسکتا ہے مگر جھوٹانہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ہم کہ سکتے ہیں کہ کوئی شخص ایسے فرامین مقدسہ صرف اسی صورت فراموش کرسکتا ہے جب اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہو اور اسے روز روشن کی طرح واضح حقیقت نظر نہ آرہی ہو۔ جیسا کہ ہم نے آغاز میں بھی واضح کر دیا تھا کہ ایسا اعتراض کرنے والا اپنے عقائد، مذموم عزائم اور مفادات پر زد پڑنے کے خوف سے اس طرح کے بے بنیاد الزامات وضع کرتا ہے۔ علمی سطح پر شکست خوردہ ذہنیت بہتان تراشی کا سہارا لیتی ہے۔

    اللہ تعالی ہمیں ایسی جہالت اور فتنہ پروری سے محفوظ فرمائے اور ہمیں حق بات سننے و سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
    شکریہ
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. rohaani_babaa
    آف لائن

    rohaani_babaa ممبر

    شمولیت:
    ‏23 ستمبر 2010
    پیغامات:
    197
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    ملک بلال صاحب حضور کیا کر رہے ہیں آپ کو اس کی مخالفت کرنی چاہیئے ہے۔۔۔۔۔بہرحال آپ کی بات درست ہے لیکن ادھر بہت کم سمجھ پائیں گے زیادہ تر لوگ سیدھے سادے ہوتے ہیں جن کو کسی بھی دینی مسئلے کی گہرائی کا زیادہ علم نہیں ہوتا ہے ۔۔۔ان کا معلومات کا تعلق زیادہ تر میٹرک تک کی پڑھی ہوئی اسلامیات تک ہوتا ہے اور بس ۔۔۔۔۔۔
    آپ نے جو بات بیان فرمائی ہے یہ تو قرآن مجید کا بیان ہے ۔۔۔۔کوئی اس بارے میں کیا کہہ سکتا ہے اور کسی کی مجال کیا ہے اس بارے میں کہے ۔۔۔۔
    یہ سجدہ جو حضرت یوسف علیہ کے بھائیوں نے ان کو کیا تھا یہ سجدہ تعظیمی تھا اور پیرانِ عظام کو بھی لوگ سجدہ تعظیمی کرتے ہیں اگرچہ میں خود بھی اس کے سخت خلاف ہوں لیکن بہرحال سجدہ تعظیمی مباح ہے اور اس کی تائید دینوبندیوں کے مشہور پیشوا حضرت اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بھی کرتے ہیں ان کا بھی یہ فرمان ہے کہ سجدہ تعظیمی مباح ہے۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    السلام علیکم فرح ناز بہن۔
    اللہ آپکو جزائے خیر دے۔ آپ نے قرآن و سنت کی روشنی میں بنا کسی بغض و تعصب آدابِ اسلامی سے حقائق کو واضح کیا ہے۔
    ہماری قومی "خوبی" ہے کہ ہم شرابیوں، لٹیروں بدکاروں کو لیڈر بنا لیتے ہیں ۔ لیکن باکردار ، باصلاحیت، دیانتدار دینی شخصیات خواہ علم و عمل میں ہم سے ہزارگنا بہتر ہوں ان پر اپنی تنقیدی توپوں کے منہ کھول کر انہیں اسلام سمجھانے کی کوشش شروع کردیتے ہیں۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. عبدالروف اعوان
    آف لائن

    عبدالروف اعوان ممبر

    شمولیت:
    ‏30 نومبر 2008
    پیغامات:
    851
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    سہی ، تو اب اس ساری بحث کا جامع نتیجہ کیا نکلا ؟

    کیوں کہ جہاں‌ تک میں سمجھ رہا ہوں ، اس لڑی کا عنوان ہی غلط ہے ، کیونکہ غیراللہ کو سجدہ سے تو سب انکاری ہیں۔

    تبصرہ تو سجدہ کی ذیلی اقسام اور کرنے والے کی نیت پر ہو رہا ہے۔

    تو اب اس سارے مسلے کا متفقہ حل کیا ہے ؟
     
  19. فرح ناز
    آف لائن

    فرح ناز ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2010
    پیغامات:
    236
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    واعلیکم سلام۔نعیم بھائی۔آپ کا شکریہ،،،،
     
  20. فرح ناز
    آف لائن

    فرح ناز ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2010
    پیغامات:
    236
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    ہارون رشید صاحب۔آپ کا شکریہ،،،،
     
  21. فرح ناز
    آف لائن

    فرح ناز ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2010
    پیغامات:
    236
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    مجھے بہت خوشی ہو گی۔اگر وہ لوگ میری کی ہوئی پوسٹ کو پڑھیں گے۔جن کے دل و دماغ میں کسی قسم کی کوئی بات ہے۔شکریہ
     
  22. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    السلام علیکم۔ عبدالرؤف اعوان بھائی ۔
    جہاں تک میری ناقص معلومات کا تعلق ہے وہ یہ ہے سجدہء عبودیت (عبادت کی نیت سے کیا گیا سجدہ) تو اللہ تعالی کی ذات کے سوا کسی کوکرنا جائز نہیں۔ ایسا کرنا شرک ہے اور کرنے والا مشرک ۔ یعنی خارج از اسلام ۔ اور اس پر ساری امت کا اتفاق ہے۔

    رہ گیا سجدہء تعظیمی (کسی کی عزت و تعظیم کی نیت سے کیا گیا سجدہ) تو اس کے بارے میں چاروں آئمہ امت حتی کہ غیر مقلدین سمیت ساری امت متفق ہے کہ سجدہء تعظیمی شریعت محمدی :drood: سےپہلے بعض امتوں میں جائز تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں کا سجدہ یا حضرت یوسف علیہ السلام کو کیا گیا سجدہ بھی اسی سجدہء تعظیمی کی مثالیں ہیں۔ لیکن حضور نبی اکرم :drood: کے بعد شریعت اسلامیہ میں یہ سجدہ بھی حرام و ممنوع قرار دے دیا گیا۔ یہ حکم براہ راست سنن ابن ماجه ، كتاب النكاح ، باب حق الزوج على المراة ، حدیث نمبر : 1926 اس حدیث پاک سے ثابت ہے۔

    صحابیء رسول :drood: حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ایک بار ملک شام گئے۔وہاں انہوں نے دیکھا کہ شامی لوگ اپنے اکابرین اور بزرگوں کو سجدہ کرتے ہیں ۔ وہ جب واپس لوٹے تو انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آکر سجدہ کیا۔
    آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : معاذ - یہ کیا بات ہے ؟
    تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ :drood: ! میں نے اہلِ شام کو اپنے بڑوں اور بزرگوں کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو آقا آپ :drood: تو اس (سجدہ)کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔
    اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کے سامنے سجدہ کرے (لیکن سجدہ کسی کے لیے جائز نہیں)"

    تو نتیجہ یہ نکلا کہ بطور امت محمدی :drood: ہمارے لیے سجدہ سوائے اللہ تعالی وحدہُ لاشریک کے کسی کو بھی کسی بھی نیت سے کرنا جائز نہیں۔

    رہ گیا اوپر والی ویڈیو کا مسئلہ ۔۔ تو فرح ناز بہن نے بہت تفصیل سے بتا دیا ہے کہ وہ سجدہ نہیں ۔ بلکہ قدم بوسی (عزت و تکریم کی وجہ سے قدم چومنا )‌ہے۔ جو کہ اسلامی شریعت میں جائز عمل ہے۔ صحابہ کرام، تابعین ، تبع التابعین اور دیگر آئمہ و بزرگان اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔
    اور ڈاکٹر طاہر القادری صاحب گو کہ خود کے لیے قدم بوسی کو پسند نہیں‌کرتے ۔ لیکن کیا کیا جائے عقیدتمندوں کا کہ جنہیں کسی بزرگ سے ایمان اور ہدایت کی روشنی ملی ہو ۔ وہ اسکے قدم چومنا اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب اپنی کمر کے مہروں‌کی تکلیف کے باعث نہ تو فورا پاؤں پیچھے کھینچ سکتے ہیں اور نہ ہی جھک اسے پیچھے ہٹا سکتے ہیں۔ بلکہ صرف اشارے سے منع کرسکتے ہیں اور وہ انہوں نے اس ویڈیو میں بھی کیا ہے۔

    والسلام علیکم۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  23. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    میں تو اِس بحث میں پڑنا نہیں چاہتالیکن جو جواب خوشی بہن نے دیاتو مجھے سب سےپیارا اور ایک بھر پور ریمارکس لگے۔
    اس کی یہ بات کہ بندوں کو بیچ میں کیوں لاتے ہو ؟ سیدھا اللہ سے مانگو میرے خیال میں سمجھدار کےلئے کافی ہوگا۔میں اِس جواب کا اس کابے حد ممنون اور شکر گزار ہوں کہ ایک عورت ہو کےکہ جس کو ہم کمزور سمجھتے ہیں کیا خوبصورت جواب پیش کیاہے اور اِس میں ایک بہت بڑا فلسفہ بھی ہے۔
    آج کل لوگ کہتے ہیں کہ فلاں پیر یا دربار جاؤ اور مانگو تو پورا ہوجائےگا آخر یہ کیا بے وقوفی ہے ۔۔اللہ فرماتا ہے کہ اے میرے بندے میں تجھ سے تیری شہ رگ سے زیادہ قریب اور نزدیک ہوں تو پھر کیوں نہ مانگیں اللہ سے ۔
    بہت سے لوگ قسم قسم کے درباروں میں جاتے ہیں اور مانگتے ہیں حالانکہ جس سے تو مانگ رہا ہے وہ تو خود دعاؤں کا محتاج ہے۔۔اللہ سے مانگو کیونکہ وہی ہر مراد پوری کرنے والا ہے ۔۔
    عرب میں72 فرقے تھے اور اِس امت میں 73 فرقے ہونگے جو کہ قیامت کی نشانیوں میں ایک نشانی بھی ہے کہ لوگ پیر وغیروں سے مانگنے لگیں گے ۔ آج دیکھیں کیا ہو رہاہے ۔ہر کوئی کہتا ہے کہ فلاں دربار گیا تو دعا پوری ہوگئی۔۔ارے بیوقوف انسان مسجد میں بیٹھ کر اللہ سے کیوں نہیں مانگتے۔۔بلکہ اللہ ہر جگہ موجود ہے تو پھر کیوں تو بٹھک رہا ہے ؟

    بہت سے کو دیکھا اور سنا ہے کہ کسی اچھے پیرکے پاس جاؤ اور اپنے ایمان کو کامل بناؤ۔
    اِن فضول باتوں اور عقیدوں سے وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بٹکا تے ہیں ۔
    سعودی عرب میں اگر آپ نے پیر کا نام بھی لیا تو گردن الگ کردیتے ہیں ۔ٹھیک ہے پہلے گزرے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ لوگ اللہ کا گھر چھوڑ کر وہاں عبادت کےلئے جاؤ اور ان سےمانگو ۔یہ سب غلط رسوم ہیں اور خود اس قسم کے گمراہ لوگوں سے بچائیں ۔۔
    مزید اس سلسلے میں بہت کچھ کہہ سکتا ہوں اور جو ویڈیو دکھائی گئ ہے اس پر بھی بہت کچھ کہہ سکتا ہوں لیکن پھر یہ ایک نہ ختم ہونے والا بحث شروع ہو جائے گا جس میں بڑے بڑے چپے رستم بھی ظاہر ہو جائیں گے۔۔۔تو بس چب میں بہتری ہے ان کے لئے اور ہمارے لئے بھی ۔۔۔
    بس خوشی بہن کے وہ دو تین فقرے ہی اصل نچوڑ ہے۔۔
     
  24. عابد ہمدرد
    آف لائن

    عابد ہمدرد ممبر

    شمولیت:
    ‏22 اپریل 2011
    پیغامات:
    186
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    :rda: اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنا حرام ھے۔ اور اس کا دالائیل قرآن مجید میں اللہ تعالی نے صاف بیان کیاھے۔ سو ر ت احلاص میں صاف اللہ تعالی کے وحدانیت کادالائیل ہے اللہ الصمد ہے ۔
    لم یلد ولم یو لد ہے۔ قرآن مجید وحدانیت کا صاف اور واضح دلیل ہے۔
     
  25. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    اللہ کے بغیر سجدہ کرنا حرام ھے۔
     
  26. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    آیتہ ''الحمد،، کے بارے میں
    بحث دوم ٭ العبادۃ و التالہ
    ٭ عبادت اور اطاعت
    ٭ عبادت اور خشوع
    ٭ غیر اللہ کو سجدہ
    ٭ آدم (ع) کو سجدہ ۔۔۔۔۔۔ اقوال علمائ
    ٭ شرک باللہ کیا ہے ؟
    ٭ اسباب عبادت
    ٭ صرف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتا ہے
    ٭ شفاعت
    ٭ امامیہ کے نزدیک شفاعت کی احادیث
    ٭ اہلسنت کے نزدیک شفاعت کی احادیث
    ٭ تحلیل آیتہ ، اھدنا الصراط المستقیم ۔ صراط الذین۔ نعمت علیہم ، غیر المغضوب علیہم و الضالین۔
    ٭ قرات
    ٭ لغت ، الہدایتہ ، الصراط ، الاستقامہ ، الانعام ، الغضب ، اضلال
    ٭ اعراب ، الضالین
    ٭ تفسیر
    ٭ ہدایت عامہ
    ٭ ہدایت خاصہ


    العبادۃ و التالہ
    اس میں کوئی مسلمان شک نہیں کر سکتا کہ ''عبادت،، بمعنی ''پرستش،، صرف اللہ سے مختص ہے اور اس سے قبل یہ بتایا جا چکا ہے کہ جب بھی یہ لفظ (عبادت) بولا جائے اس کا معنی ''پرستش،، ہی ذہن میں آتا ہے اور یہی وہ توحید ہے جس کی تبلیغ کیلئے اللہ کی طرف سے انبیاء (ع) بھیجے گئے اور آسمان سے کتابیں نازل کی گئیں ارشادباری ہے:
    قل یااھل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا وینکم الانعبدالااللہ ولانشرک بہ شیاء و الایتخذ بعضنا بعضا ارباباً من دون اللہ ٣:٦٤
    ''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان سے) کہو کہ اے اہل کتاب تم ایسی (ٹھکانے کی) بات پر تو آؤ جو ہمارے اورتمہارے درمیان یکساں ہے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بنائیں اور خدا کے سوا ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا پروردگار نہ بنائے،،
    پس ایمان بخدا اور غیر خدا کی عبادت یہ دونوں جمع نہیں ہو سکتے غیر خدا کی عبادت حرام ہے چاہے یہ عبادت ، توحید فی الذات سے انکار اور متعدد خالقوں کے عقیدے کی بنیاد پر ہو یا اس عقیدے کی وجہ سے کی جائے کہ مخلوق اور اللہ میں فاصلہ بہت زیادہ ہے اور لوگوں کی دعا اللہ تک نہیں پہنچ سکتی لہٰذا اس خالق کائنات کے علاوہ ایک یا کئی دیگر خداؤں کے محتاج ہیں جو خالق اور لوگوں کے درمیان واسطہ بن سکیں اور ان کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کر سکیں خدا کے مقابلے میں ان خداؤں کی وہی حیثیت ہے جو بادشاہ کے مقابلے میں اس کے حواریوں کی ہوتی ہے چونکہ بادشاہ اور عوام میں فاصلہ زیادہ ہوتا ہے اور عام لوگوں کی اس تک رسائی نہیں ہو سکتی اس لئے بادشاہ کے حواریوں کو واسطہ قرار دیتے ہیں اور انہی کے ذریعے اپنی حاجات اور ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔
    اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں ان دونوں عقیدوں کو باطل قرار دیا ہے چنانچہ پہلے عقیدے کے ابطال میں خالق فرماتا ہے۔
    لو کان فیھما الہۃ الا اللہ الفسدتا ٢١:٢٢
    '' اگر (بفرض محال) زمین اور آسمان میں خدا کے سوا چند معبود ہوتے تو دونوں کب کے بربادہو گئے ہوتے،،
    وما کان معہ من الہ اذا لذھب کل الہ بما خلق و لعلا بعضہم علی بعض سبحان اللہ عما یصفون ٢٣:٩١
    ''اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہے (اگر ایسا ہوتا تو) اس وقت ہر خدا اپنی اپنی مخلوق کو لئے پھرتا ہے اور یقیناً ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے (اور خوب جنگ ہوتی) جو جو باتیں یہ لوگ (خدا کی نسبت) بیان کرتے ہیں اس سے خدا پاک و پاکیزہ ہے،،۔
    دوسرا عقیدہ جس کی رو سے لوگ واسطہ کے قائل ہیں اور الٰہی نظام کو بادشاہوں کے نظام سے قیاس کرتے ہیں اللہ نے مختلف بیانات کے ذریعے اس عقیدے کو باطل قرار دیا ہے بعض آیات میں اس غلط دعویٰ کی دلیل کا مطالبہ کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس عقیدے کی کوئی دلیل نہیں ہے ارشاد ہوتا ہے:
    الہ مع اللہ قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین ٢٧:٦٤
    ''تو کیا خدا کے سامنے کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان مشرکین سے) کہہ دو کہ اگر تم سچے ہوتو اپنی دلیل پیش کرو،،
    ''قالوا نعبد اصناما فنظل لھا عاکفین ٣٦:٧١
    ''وہ بوگے ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیںاور ان ہی کے مجاور بن جاتے ہیں،،
    قال ھل یسمعو نکم اذتدعون : ٧٢
    ''یا تمہیں کچھ نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں،،
    قالوا بل وجدنا آباء نا کذلک یفعلون : ٧٤
    ''کہنے لگے ( کہ یہ سب کچھ تو نہیں) بلکہ ہم نے اپنے باپ داداؤں کو ایسا ہی کرتے پایا،،
    کبھی اللہ تعالیٰ ان (منکرین توحید) کو ان چیزوں کی طرف متوجہ فرماتا ہے جن کو وہ اپنے حواس کے ذریعے درک کر سکتے ہیں اور کہ یہ لوگ جن بتوں کی پوجا کرتے ہیں وہ کسی کو نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان اور جو نفع ، نقصان ، لینے دینے ، مارنے اور زندہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا وہ ایک کمزور مخلوق ہی ہو سکتی ہے وہ اس قابل نہیں کہ اسے معبود بنایا جائے ارشاد ہوتا ہے:
    قال افتعبدون من دون اللہ مالا ینفعکم شیأاً و لا یضرکم ٢١:٦٦
    ''ابرہیم نے کہا تو کیا تم لوگ خدا کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ نفع ہی پہنچا سکتے ہیں اور نہ تمہارا کچھ نقصان ہی کر سکتے ہیں،،
    ''اف لکم و لما تعبدون من دون اللہ افلاتعقلون : ٦٧
    ''تف ہے تم پر اور اس چیز پر جسے تم خدا کے سوا پوجتے ہو تو کیا تم (اتنا بھی) نہیں سمجھتے،،
    قل اتعبدون من دون اللہ مالا یمسلک لکم ضراً ولانفعاً ٥:٧٦
    ''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) تم ) کہہ دو کہ کیا تم خدا (جیسے قادر وتوانا) کو چھوڑ کر ایسی (ذلیل) چیز کی عبادت کرتے ہو جس کو نہ تو نقصان ہی کا اختیار ہے اور نہ نفع کا،،۔
    الم یروا انہ لایکلمہم ولایہدیہم سبیلاً اتخذوہ و کانوا ظالمین ٧:١٤٨
    ''(افسوس ) کیا ان لوگوں نے اتنا بھی نہ دیکھا کہ وہ نہ تو ان سے بات ہی کر سکتا ہے نہ کسی طرح کی ہدایت ہی کر سکتا ہے (خلاصہ) ان لوگو نے اسے اپنا معبود بنا لیا اور اپنے اوپر ظلم کرتے تھے،،
    مخلوق کا عبادت و پرستش کے قابل نہ ہونا ا یک عقلی اور فطری قانون ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ ان آیات کے ذریعے متوجہ فرما رہا ہے اور اس قانون سے کوئی موجود ، ممکن اور محتاج مستثنیٰ نہیں اگرچہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو۔
    واذقال اللہ یاعیسی بن مریم ء انت قلت للناس اتخذونیی و امیی الھین من دون الہ قال سبحاناک مایکون لیی ان اقول مالیس لیی بحق ان کسنت قلتہ فقد علمتہ تعلم ما فیی نفسیی و لااعلم ما فیی نفسک انک انت علام الغیوب ٥:١١٦
    ''اور وہ (وقت بھی یاد کرو) جب (قیامت میں عیسیٰ سے) خدا فرمائے گا کہ (کیوں) اے مریم کے بیٹے عیسیٰ کیا تم نے لوگوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر مجھ کو اور میری ماں کو خدا بنالو ، عیسیٰ عرض کریں گے سبحان اللہ میری تو یہ مجال نہ تھی کہ میں منہ سے ایسی بات نکالوں جس کا مجھے کوئی حق نہ ہو (اچھا) اگر میںنے کہا ہو گا کہ تجھ کو تو ضرور معلوم ہو گا کیونکہ تو میرے دل کی (سب بات ) جانتا ہے ہاں البتہ میں تیرے دل کی بات نہیں انتا (کیونکہ) اس میں تو شک ہی نہیں کہ تو ہی غیب کی باتیں خوب جانتا ہے،،
    ما قلت لھم الاما امر تنیی بہ ان اعبدوا اللہ ربیی و ربکم ٥:١١٧
    ؟؟ تو نے مجھے جو کچھ حکم دیا اس کے سوا تو میں نے ان سے کچھ بھی نہیں کہا یہی کہ خدا ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پالنے والا ہے،،
    کبھی اس اعتقاد کو اس دلیل سے باطل قرار دیا کہ اللہ اپنے بندوں کے نزدیک ہے ، ان کی سرگوشیوں کو سنتا اور ان کی پکار پر انہیں جواب دیتا ہے ان کی تربیت اور سرپرستی اسی کے ہاتھ میں ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
    ونحن اقرب الیہ من حبل الورید ٥٠:١٦
    ''اور ہم تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں،،
    الیس اللہ بکاف عبدہ ٣٩:٣٦
    ''کیا خدا اپنے بندوں (کی مدد) کیلئے کافی نہیں ہے (ضرور ہے)،،
    ادعونیی استجب لکم ٤٠:٦٠
    ''تم مجھ سے دعائیں مانگو میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا،،
    وھو القاھر فوق عبادہ وھو الحکیم الخبیر ٦:١٨
    ''وہی اپنے تمام بندوں پر غالب ہے اور وہ واقف کار حکیم ہے،،
    قل ان تخفوا ما فیی صدور کم او تبدوہ یعلمہ اللہ ویعلم ما فی السماوات وما فیی الارض واللہ علی کل شی ء قدیر ٣:٢٩
    ''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان لوگوں سے) کہہ دو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم خواہ اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو (بہرحال) خدا تو اسے جانتا ہے اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ (سب کچھ) جانتا ہے اور خداہر چیز پر قادر ہے،،۔
    و ان یمسسک اللہ بضر فلاکاشف لہ الا ھووان یردک بخیر فلا راد لفضلہ ١٠:١٠٧
    '' اور (یاد رکھو) اگر خدا کی طرف سے تمہیں کوئی برائی چھو بھی گئی تو اس کے سوا کوئی اس کا دفع کرنے والا نہ ہو گا۔ اور اگر تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو پھر اس کے فضل (وکرم) کا پلٹنے والا بھی کوئی نہیں،،
    وان یمسسک بخیر فہو علی کل شی ء قدیر ٦:١٧
    ''اور اگر تمہیں کچھ فائدہ پہنچائے تو بھی (کوئی روک نہیں سکتا کیونکہ) وہ ہر چیز پر قادر ہے،،
    اللہ یبسط الرزق لمن یشاء و یقدر ١٣:٢٦
    ''اور خدا ہی جس کیلئے چاہتا ہے روزی کو بڑھا دیتا ہے اور (جس کیلئے چاہتا ہے) تنگ کرتا ہے،،
    ان اللہ ھو الرزاق دینے والا زور آور (اور) زبردست ہے،،
    لیس کمثلہ شی ء وھو السمیع البصیر ٤٢:١١
    ''کوئی چیز اس کے مثل نہیں اوروہ ہر چیز کو سنتا دیکھتا ہے ،،
    الا انہ بکل شی ء محیط ٤١:٥٤
    ''سن رکھو وہ یقیناً ہر چیز پر حاوی ہے،،
    بنا برایں خدا اپنےی مخلوق سے دور نہیں اس کے اور اس کی مخلوق کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں لوگوں کے تمام معاملات اس کے ہاتھ میں ہیں لوگ کسی ایسے واسطے کے محتاج نہیں جو ان کی حاجات اللہ تک پہنچائے تاکہ یہ واسطے عبادت میں شریک ہو جائیں بلکہ سب کے سب لوگ اس بات میں مشترک ہیں کہ اللہ ہی ان کا پروردگار ہے اور ان کے تمام معاملات اس کے ہاتھ میں ہیں۔
    مایکون من نجوی ثلاثۃ الا ھوا رابعہم ولا خمسۃ الاھو سادسہم و لا ادنی من ذلک والا اکثر الاھو معہم اینما کانوا ٥٨:٧
    ''جب تین (آدمیوں) کا خفیہ مشورہ ہوتا ہے تو وہ (خدا) ان کا ضرور چوتھا ہے اور جب پانچ کا (مشورہ) ہوتا ہے تو وہ ان کا چھٹا ہے اور اس سے کم ہوں یا زیادہ اور چاہے جہاں کہیں ہو وہ ان کے ساتھ ضرور ہوتا ہے،،
    کذلک اللہ یفعل مایشاء ٣:٤٠
    '' اسی طرح خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے،،
    ان اللہ یحکم ما یرید ٥:١
    ''بیشک خدا جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے،،
    خلاصہ کلام یہ کہ توحید در عبادت کے بارے میں کوئی مسلمان شک نہیں کر سکتا اور یہ وہ امتیاز ہے جو موحد انسان کو حاصل ہے جو غیر اللہ کی عبادت کرے اور اسے اپنا پروردگار بنائے وہ کافرو مشرک ہے:


    عبادت اور اطاعت
    اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری واجب اوراس کی مخالفت عقلاً مستوجب عذاب ہے قرآن مجید میں بار بار اللہ تعالیٰ نے اطاعت کے عوض ثواب اور معصیت کی پاداش میں عذاب دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔
    غیر اللہ کی اطاعت کئی قسم کی ہوتی ہے۔
    اول: غیر اللہ کی ایک عبادت وہ ہے جو اللہ کے حکم اور اس کی اجازت سے ہو جس طرح رسول اکرم (ص) اور ائمہ اطہار (ع) کی اطاعت ہے درحقیقت یہ اللہ ہی کی اطاعت ہے عقلی طورپر اطاعت خدا کی طرح یہ اطاعت بھی واجب ہے:
    من یطع الرسول فقد اطاع اللہ ٤:٨٠
    ''جس نے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی اطاعت کی تو اس نے خدا کی اطاعت کی،،
    وما ارسلنا من رسول اللا لیطاع باذن اللہ ٤:٦٤
    ''اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس واسطے کہ خدا کے حکم سے لوگ اس کی اطاعت کریں،،
    یہی وجہ ہے کہ جہاں اللہ نے اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے وہاں ساتھ ساتھ رسول (ص) کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے ارشاد ہوتا ہے:
    ومن یطع اللہ و رسولہ فقد فاز فوزاً عظیماً ٣٣:٧١
    ''اور جس شخص نے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ تو اپنی مراد کو خوب اچھی طرح پہنچ گیا ہے،،
    یاایہا الذین آمنوا اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اولیی الامر منکم ٤:٥٩
    '' اے ایماندار و خدا کی اطاعت کرو اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی اور جو تم میں سے صاحبان حکم ہوں ا ن کی اطاعت کرو،،
    ثانی: غیر اللہ کی دوسری عبادت وہ ہے جس سے منع کیا گیا ہے جس طرح شیان اور ہر اس شخص کی اطاعت ہے جو اللہ کی معصیت کا حکم دے اس اطاعت کے شرعی طور پر حرام اور عقلی طور پر قبیح ہونے میں بھی کوئی شک نہیں بلکہ بعض اوقات یہی اطاعت کفر اور شرک قرار پاتی ہے ، جب کفر یا شرک کا حکم دیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے:
    یا ایہا النبیی اتق اللہ ولا تطع الکافرین و المنافقین ٣٣:١
    ''اے نبی خدا ہی سے ڈرتے رہو اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو،،
    فاصبر لحکم ربک و لا تطع منہم آثما او کفوراً ٧٦:٢٤
    ''تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کئے رہو ، اور ان لوگوں میں سے گنہگار اور ناشکرے کی پیروی نہ کرو۔
    ''وان جاھداک علی ان تشرک بیی ما لیس للک بہ علم فلا تطعھما ٣١:١٥
    ''اگر تیرے ماں باپ تجھے اس بات پر مجبور کریں کہ تو میرا شریک ایسی چیز کو قرار دے جس کا تجھے کچھ علم نہیں توتو (اس میں) ان کی اطاعت نہ کر۔
    ثالث: تیسری اطاعت وہ ہے جس کا نہ حکم دیا گیا ہے اور نہ اس سے روکا گیا ہے یہ اطاعت واجب بھی نہیں اور حرام بھی نہیں بلکہ جائز ہے۔


    عبادت اور خشوع
    اس میں کوئی شک نہیں کہ مخلوق کو اپنے خالق کے سامنے متواضع ہو کر پیش ہونا چاہئے اس بات کا عقل بھی حکم دیتی ہے اور شرع نے بھی اس کا حکم دیا ہے جہاں تک مخلوق کے سامنے تواضع سے پیش آنے کا تعلق ہے اس کی بھی کئی قسمیں ہیں۔
    (١) ایسی مخلوق سے تواضع کی جائے جس کی اللہ سے کوئی خاص نسبت نہیں جس طرح شاگرد اپنے استاد، بیٹا اپنے والد اور خادم اپنے آقا سے تواضع کیساتھ پیش آتا ہے یا اس قسم کی اور تواضع جس کا عام لوگوں میں رواج ہے اس تواضع کے جواز میں بھی کوئی شک نہیں بشرطیکہ شارع نے اس سے منہ نہ فرمایا ہو پس غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں اس لئے کہ اس سجدہ سے منع کیا گیا ہے:
    مخلوق کے ساتھ تواضع سے پیش آنے کا جائزہ ہونا ضرورت کا تقاضا ہے اور اس میں شرک کامعمولی سابھی شائبہ نہیں چنانچہ خ الق کا ارشاد ہے:
    و اخفض لھہا جناح الذل من الرحمۃ و قل رب الرحمھہا کہا ربیانیی صغیراً ١٧:٢٤
    ''اور ان کے سامنے نیاز سے خاکساری کاپہلو جھکائے رکھو اور (ان کے حق میں) دعا کرو کہ اے میرے پالنے والے جس طرح ان دونوں نے میرے چھٹپنے میں پرورش کی ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما،،
    ملا خطہ فرمائیں کیا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے سامنے اظہار ذلت کرنے کا حکم دے کر ان کی عبادت کا حکم دیا ہے ؟ جبکہ اس سے قبل غیر اللہ کی عبادت سے منع فرمایا گیا ہے۔
    وقضی ربک ان لاتعبدوا الا ایاہ و بالو الدین احساناً ١٧:٢٣
    ''اور تمہارے پروردگار نے تو ہی دا ہے کہ اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ سے نیکی کرنا،،
    نیز ملاخطہ ہو کہ شانہ ذلت کو جھکانا (جس طرح چھوٹے اور کمزور پرندے جھکایا کرتے ہیں) وہی احسان ہے جس کا آیت میں حکم دیا گیا ہے اور اسے عبادت کے مقابلے میں قرار دیا ہے معلوم ہوا ہر خشوع و خضوع اور اظہار ذلت شرک نہیں ہوتا ، تاکہ یہ حرام قرار پائے۔
    (٢) دوسرا خشوع و خضوع اور اظہار تواضح وہ ہے جو اس خیال سے کی مخلوق سے کیا جائے کہ اس مخلوق کو اللہ سے کوئی خاص نسبت ہے جس کی وجہ سے یہ مخلوق مستحق خشوع و خضوع ہے یہ عقیدہ درحقیقت باطل ہے اس خشوع و خضوع کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی جس طرح بعض باطل اور فاسد مذاہب کے پیروکار اپنے پیشوایان مذاہب کا کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بدعت ہے یعنی ایک ایسے عمل کو دین میں شامل کرنے کے مترادف ہے جو درواقع دین سے خارج ہے اور اس کی تشریع کہا جاتا ہے جو ادلہ اربعہ (١) کی رو سے حرام اور ذات خدا پر بہتان ہے۔
    فمسن اظلم ممن افتری علی اللہ کذباً ١٨:١٥
    ''اور جو شخص خدا پر جھوٹ بہتان باندھے اس سے زیادہ ظالم اور کون ہو گا،،
    (٣) تیسرا خشوع و خضوع وہ ہے جو اللہ کے حکم پر کسی مخلوق کے سامنے اختیار کیا جائے جس طرح رسول اللہ (ص) اور ائمہ ہدی (ع) اور دوسرے مومنین ہیں بلکہ بعض ایسی اشیاء ہیں جن کو اللہ سے کوئی خاص نسبت حاصل ہے جیسے مسجد ، قرآن اور حجراسود اور دوسرے شعائرالٰہی ہیں اس قسم کا تواضع اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے۔
    فسوف یاتیی اللہ بقوم یحبہم و یحبونہ اذلۃ علی المومنین اعزۃ علی الکافرین ٥:٥٤
    ''عنقریب ہی خدا ایسے لوگوں کو ظاہر کر دے گا جنہیں خدا دوست رکھتا ہو گا اور وہ اس کو دوست رکھتے ہوں گے ایمانداروں کے ساتھ منسکر (متواضع ) (اور) کافروں کے ساتھ کڑے،،


    ١) قرآن سنت ، اجماع اور عقل
    خشوع کی یہ قسم درحقیقت اللہ تعالیٰ کے سامنے خشوع و خضوع اور اس کی عبادیت و بندگی اختیار کرنے کے مترادف ہے ظاہر ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کی واحدنیت اور یگانگت کا معتقد ہو اس بات کااعتقاد رکھتا ہو کہ زندگی دینا ، مارنا ، خلق کرنا، رزق دینا ، بندوں کو کچھ عطا کرنا ، ان سے لے لینا ، لوگوں کوبخشنا اور عذاب کرنا اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے اور یہ عقیدہ بھی رکھتا ہو کہ نبی اکرم (ص) اور آپ (ص) اللہ کے لائق عزت و تکریم بندے ہیں جو کسی بات میں اللہ سے سبقت نہیں لے جاتے اور اس کے ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔
    عباد مکرمون لایسبقونہ بالقول و ھم بامرہ یعملون (٢١: ٢٦۔٢٧)
    '' خدا کے معزز بندے ہیں یہ لوگ اس کے سامنے بڑھ کر بول نہیں سکتے اور یہ لوگ اسی کے حکم پر چلتے ہیں،،
    ان ہستیوں (ع) کو اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ اور ذریعہ بنائے ، باذن اللہ ان (ع) کی شفاعت ، عظمت اور شان کا قائل ہو تو وہ دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس شخص نے غیر اللہ کی عبادت کی ہے اس لئے کہ ہر مسلمان بخوبی جانتا ہے کہ رسول اللہ (ص) حجراسود کو بوسہ دیا کرتے تھے اور اسے اپنے ہاتھ سے مس کر کے اس کی عزت و تکریم فرمایا کرتے تھے آپ (ع) مومنین ، شہداء اور دوسرے نیک بندوں کی قبروں کی زیارت فرماتے تھے انہیں سلام کرتے اور ان کیلئے دعا فرماتے تھے
    آپ (ص) کے بعد صحابہ کرام اور تابعین بھی اس سنت پر عمل پیرا رہے یہ حضرت رسول اللہ (ص) کی قبر کی زیارت کرتے اور ا سے متبرک سمجھتے بوسہ دیتے اور رسول اللہ (ص) سے اسی طرح شفاعت طلب کرتے جس طرح زندگی میں کیا کرتے تھے اسی طرح ائمہ دین اور صالحین اولیائے کرام کی قبروں کی زیارت اور احترام کرتے تھے اس عمل کو کسی بھی صحابی نے برا اور حرام نہیں کہا اور نہ تابعین یا علمائے کرام میں سے کسی نے اس عمل کو ناجائز سمجھا یہاں تک کہ احمد بن عبدالجلیم بن عبدالسلام بن عبداللہ بن تیمیہ حرانی ظاہر ہوا جس نے ان قبروں میں دفن ہستیوں سے شفاعت طلب کرنا حرام قرار دیا یہاں تک کہ اس نے ہر اس شخص کی سخت مذمت کی جس نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مطہر کی زیارت کی ، بطرو تبرک اس کا بوسہ لیا یا اسے مس کیا بلکہ اس نے اس عمل کو بھی شرک اصغر اور کبھی شرک اکبر گردانا۔
    جب اس زمانے کے تمام علمائے کرام نے دیکھا کہ ابن تیمیہ اپنے اس عیقدے کے نتیجے میں دین اسلام کے مسلمات اور ضروریات مسلمین کی مخالفت کر رہا ہے کیونکہ ان علمائے کرام نے آپ (ص) سے روایت نقل کی ہے جس میں آپ (ص) نے بالعموم تمام مومنین اور بالخصوص اپنی زیارت کی ترغیبو تشویق دلائی ہے اور فرمایا ہے۔
    من زارنی بعد مماتی کان کمن زارنی فی حیاتی۔
    ''جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی،،۔
    اس مضمون کی اور روایات بھی مروی ہیں (١) جب علماء نے ابن تیمیہ کے اس خلاف اسلام عمل کو دیکھا (١) تو انہوں نے اس سے برات اور نفرت کا اظہار کیا ، اس کی گمراہی کا فیصلہ دے دیا ، اس پر توبہ کو واجب قرار دیا اور اسے ہر حالت میں یا توبہ نہ کرنے کی صورت میں قید کرنے کا حکم صادر کر دیا۔
    اگر ابن تیمیہ کے اس عمل کو مسلمانوں میں اختلاف وانتشار کا بیج بونے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ نہ کہا جائے توا س کی اس غلط فہمی کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس کے خیال میں یہ اعمال (زیارات وغیرہ) شرک اور غیر اللہ کی عبادت شمار ہوتے ہیں ابن تیمیہ کو یہ معلوم نہیں کہ جو لوگ اس قسم کے اعمال بجا لاتے ہیں وہ اللہ کی توحید اور اس کی یگانگی کے معتقد ہیں اور یہ کہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسراخالق و رازق نہیں خلق اور امر صرف اس کی ذات سے مختص ہے ان اعمال کا مقصد صرف اور صرف شعائر الٰہی کی تعظیم ہے اس قبل ہم بتا چکے ہیں کہ ان ہستیوں کی تعظیم و تکریم درحقیقت اللہ کی تعظیم و تکریم ہے اور اللہ کے سامنے خشوع و خضوع اختیار کرنے اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے مترادف ہے۔
    ان اعمال میں شرک کا معمولی سا شائبہ تک نہیں کیونکہ شرک غیر اللہ کی عبادت کا نام ہے اور کسی کی عبادت کا مطلب کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کو قابل پرستش رب سمجھ کر اس کے سامنے خشوع و خضوع اختیار کیا جائے اس معنی میں عبادت کجا اورنبی (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء (ع) کو اللہ کے مکرم بندے مانتے ہوئے نبی کریم (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء (ع) کی تعظیم و تکریم کجا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی مسلمان کسی نبی یا اس کے وصی کی عبادت نہیں کرتا چہ جائیکہ ان کی قبروں کی عبادت کرے۔
    خلاصہ بحث یہ ہے کہ قبروں کی زیارت کرنا اور ان کو بوسہ دینا یا اس قسم کی تعظیم کی دیگر صورتیں کسی بھی اعتبار اور سبب سے شرک نہیں کہلاتیں اگر یہ چیزیں شرک کہلاتیں تو زندہ انسانوں کی تعظیم و تکریم بھی شرک شمار ہوتی کیونکہ اس اعتبار (غیر اللہ کی تعظیم شرک ہونا) سے زندہ اور مردے میں کوئی فرق نہیں۔ حالانکہ ابن تیمیہ اور اس کے ہم مسلک ، زندہ انسانوں کی زیارت کو کبھی بھی شرک نہیں سمجھتے اس کے علاوہ اگر قبروں کی زیارت کرنا شرک ہوتا تو العیاذ باللہ حاشاوکلا رسول اللہ (ص) بھی مشرک کہلائیں گے اس لئے کہ آپ (ص) بھی قبروں کی زیارت فرمایا کرتے ، انہیں سلام کرتے تھے اور حجراسود کا بوسہ کا بوسہ لیتے تھے جیسا کہ اس سے قبل ہم بتا چکے ہیں۔
    بنا برایں اس مقام پر دو میں سے ایک بات ضرور تسلیم کرنا پڑے گی۔
    (١) بعض شرک جائز ہیں اور بعض جائز نہیں۔
    (٢)پرستش کی نیت کے بغیر کسی قبر کی تعظیم کرنا اور اس کا بوسہ لینا شرک نہیں کہلاتا۔
    ظاہر ہے پہلی بات کا کوئی قائل نہیں ہو سکتا اس لئے کہ وہ سراسر باطل اور غلط ہے لامحالہ دوسری بات حق اور صحیح ہو گی اور یہ ثابت ہو گیا کہ انبیاء اوصیاء (علیہم السلام) کی قبروں کی زیارت اور تعظیم ، عبادت الہی اور تعظیم خدا شمار ہوتی ہے شرک نہیں کہلاتی
    ١) قبروں کی زیارت جائز ہونے کے متعلق روایات ضمیمہ نمبر ١٧ میں ذکر کی گئی ہیں۔
    ومن یعظم شعائر اللہ فانہا من تقوی القلوب ٢٢:٣٢
    ''اور جس شخص نے خدا کی نشانیوں کی تعظیم کی تو کچھ شک نہیں کہ یہ بھی دلوں کی پرہیز گاری سے حاصل ہوتی ہے،،
    اس قبل وہ روایات بیان کی جا چکی ہیں جن کی رو سے بنی (ع) اور صالحین اولیاء اللہ کی زیارت مستحب ہے۔


    غیر اللہ کو سجدہ
    گزشتہ مباحث سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ کسی بھی مخلوق کے سامنے خشوع و خضوع اختیار کرنا ( اگر شریعت میں اس سے منع کیا گیا ہو تو) جائز نہیں اگرچہ یہ تواضع بطور پرستش نہ ہو غیر اللہ کو سجدہ کرنا بھی اسی قبیل سے ہے اور تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ غیر خدا کو سجدہ کرنا حرام ہے ارشاد ہوتا ہے:
    لا تسجدوا للشمس ولا للقمر و اسجدوا للہ الذی خلقہن ان کنتم ایاہ تعبدون ٤١:٣٧
    ''تم لوگ نہ سورج کو سجدہ کرنا اور نہ چاند کو اور اگر تم کو خدا ہی کی عبادت کرنی منظور ہے تو بس اسی کو سجدہ کرو جس نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے،،۔
    اس آیت سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ سجدہ صرف خالق کائنات کیلئے مختص ہے اور کسی مخلوق کیلئے جائز نہیں۔
    وان المساجد للہ فلاتدعوا مع اللہ الحدا ٧٢:١٨
    ''اور یہ کہ مسجدیں خاص خدا کی ہیں تو تم لوگ خدا کے ساتھ کسی کی عبادت نہ کرنا،،
    یہ آیت ہمارے مدعا پر صرف اس صورت میں دلالت کرتی ہے جب آیت میں ''مساجد،، سے مراد سات اعضاء (پٍیشانی ، دونوں ہا تھوں کی ہتھیلیاں ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے ) ہوں جن کا حالت سجدہ میں زمین سے لگنا ضروری ہے چنانچہ آیہ شریفہ سے یہی ظاہر ہو رہا ہے اور معصومین (ع) کی روایات بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں (١)
    بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ اور تو اور کسی نبی یا اس کے وصی کو سجدہ کرنا بھی جائز نہیں شیعوں کی طرف یہ نسبت دینا
    ------------------------------
    ١) وسائل باب حدالقطع من ابواب حداسرقہ ، ج ٣ ، ص ٤٤٨

    کہ وہ اپنے ائمہ (ع) کی قبروں کو سجدہ کرتے ہیں محض تہمت اور الزام ہے روز محشر شیعہ اور ان پر اس قسم کے الزامات لگانے والے درگاہ الٰہی میں پیش ہوں گے اور اللہ ہی فیصلہ کرنے والا ہے ان میں سے بعض تو الزام تراشی میں حد سے بڑھ گئے ہیں یہ الزام تو پہلے سے بھی زیدہ دل آزار اور تکلیف دہ ہے اور وہ یہ کہ شیعہ اپنے ائمہ (ع) کی قبروں کی مٹی لے کر اس کو سجدہ کرتے ہیں۔
    بارالہا ! تو جانتا ہے کہ یہ کتنی بڑی تہمت ہے (١) شیعوں کی قدیم و جدید مطبوعہ اور قلمی کتب دنیا کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان تمام کتب کا اتفاق ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا حرام ہے جس شخص نے شیعوں کی طرف یہ نسبت دی ہے وہ یا تو شیعوں پر عمداً الزام تراشی اور تہمت کا مرتکب ہوا ہے یا وہ غافل ہے اور کسی چیز کو سجدہ کرنے اور کسی چیز پر سجدہ کرنے میں موجود فرق کو نہیں سمجھتا۔
    شیعوں کے نزیک نماز میں ہر اس چیز پر سجدہ ہو سکتا ہے جو زمین کا حصہ اور جزء شمار ہو جیسا کہ پتھر یا ڈھیلا یا ریت یا مٹی ہے ۔ ان نباتات پر بھی سجدہ ہو سکتا ہے جو کھائی یا پہنی نہ جائیں شیعہ نقطہ نگاہ سے مٹی پر سجدہ کرنا دوسری چیزوں کی نسبت افضل ہے ، اسی طرح خاک کربلا پر سجدہ کرنا باقی سب چیزوں پر سجدہ کرنے سے افضل ہے اور ان سب باتوں میں شیعہ اپنے ائمہ معصوم (ع) کی پیروی کرتے ہیں (٢) اس کے باوجود شیعوں کی طرف کیونکر شرک کی نسبت دی جاتی ہے کہ شیعہ غیر اللہ کو سجدہ کرتے ہیں(٣)
    خاک کربلا اللہ کی اس وسیع و عریض سرزمین ہی کاایک جزء ہے جسے اللہ نے اپنے نبی (ص) کیلئے سجدہ گاہ اور مطہر بنایا (٤) ہاں ! خاک کربلا وہ خاک ہے جس کی عظمت اور قدرو منزلت کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کیونکہ اس سرزمین میں وہ نواسہ رسول (ص) اور جوانان جنت کے سردار دفن ہیں جنہوں نے اپنے نفس ، خاندان اور اصاب کو دین اسلام کی راہ اور شریعت سید المرسلین (ص) کے احیاء کی خاطر قربان کر دیا خاک کربلا کی فضیلت میں فریقین نے رسول اللہ (ص) سے روایات نقل کی ہیں (٥)
    فرض کیجئے اس خاک کی فضیلت میں رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء کی کوئی روایت نہیں ہے لیکن کیا حق و انصاف کا یہ تقاضا نہیں کہ مسلمان اس مقدس خاک کو ہر وقت اپنے پاس رکھے اور جب بھی سجدہ کرنا ہو اس پر سجدہ کرے ؟ اس لئے کہ اس خاک پر سجدہ کرنا ، جو بذات خود ان چیزوں میں سے ہے جنپر سجدہ صحیح ہے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اس مقدس خاک کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنے والا شخص اس عظیم شخصیت کا پیروکار ہے جس کی طرف یہ خاک منسوب ہے اور جسے اللہ اور اصلاح مسلمین کی راہ میں شہید کر دیا گیا۔
    ----------------------------------------------
    ١) اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ١٨ میں روزوں کے بارے میں شیعوں پر آلوسی کے الزامات ملا خطہ فرمائیں۔
    ٢) وسائل ، باب ١٦٢ ، من ابواب مایسجد علیہ ، ص ٢٣٦
    ٣) ضمیمہ نمبر ١٩ میں تربت حسینیہ کے بارے میں ایک مباحثہ ملا خطہ فرمائیں جو م ولف اور ایک حجازی عالم کے درمیان ہوا
    ٤) سنن البیہقی باب التیمم بالصعید الطیب ، ج ١ ، ص٢١٢ ۔ ٢١٣
    ٥) وسائل ، ج ١ ، ص ٢٣٦ ۔ باب استحباب السجود علی تربتہ الحسین (ع) نیز ملا خطہ فرمائیں ضمیمہ نمبر ٢٠


    آدم (ع) کوسجدہ ۔ اقوال علمائ
    اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ حضرت آدم (ع) کو فرشتوں کا سجدہ کرنا کیوں جائز ہوا جبکہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں؟ علماء نے اس سوال کے مختلف جوابات دیئے ہیں۔
    (١) حضرت آدم(ع) کوفرشتوں کا سجدہ ، خشوع و خضوع کے معنی میں تھا یہ وہ سجدہ نہیں تھا جس کا عام طور پر تصور کیا جاتا ہے۔
    اس رائے کی رو یہ ہے کہ یہ احتمال ا س معنی کے سراسر خلاف ہے جو لفظ سجود سے عام طور پر سمجھا جاتا ہے بنا برایں بغیر کسی شاہداور خارجی دلیل کے یہ احتمال قابل قبول نہیں نیز روایات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ جب اولاد آدم (ع) اپنے رب کوسجدہ کرتی ہے تو ابلیس رنجیدہ ہو جاتااور رو پڑتا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو جس سجدے کا حکم دیا تھا اور ابلیس نے غرور میں آ کر جس سے انکار کیا تھا وہ وہی عام متصور سجدہ تھا اسی لئے ابلیس ، اولاد آدم (ع) کی طرف سے امتثال امر (تعمیل حکم) پر رنجیدہ ہوتا ہے کیونکہ اس نے خود اس کی مخالفت کی تھی۔
    (٢) فرشتوں نے اللہ تعالیٰ ہی کو سجدہ کیا تھا حضرت آدم (ع) تو اس سجدہ میں فرشتوں کا صرف قبلہ قرار پائے تھے جس طرح کہا جاتا ہے کہ ''صلی للقبۃ ،، اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس نے روبہ قبلہ نماز پڑھی اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (ع) کی تکریم و تعظیم کی خاطر فرشتوں کو حضرت آدم (ع) کی طرف رخ کر کے سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا۔
    اس نظریئے کی رو یہ ہے کہ آیت کی یہ تاویل ظاہر آیات قرآن اور روایات معصومین (ع) بلکہ آیات و روایات کی تصریحات کے بھی منافی ہے کیونکہ ابلیس نے اپنے زعم باطل میں اس بنیادپر حضرت آدم (ع) کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا کہ وہ آدم (ع) سے افضل ہے اگر یہ سجدہ اللہ کو ہوتا اور حضرت آدم (ع) صرف قبلہ قرار پاتے تو ابلیس کایہ قول بے معنی ہو جاتا:
    اس نظریئے کی رو یہ ہے کہ آیت کی یہ تاویل ظاہر آیات قرآن اور روایات معصومین (ع) بلکہ آیات و روایات کی تصریحات کے بھی منافی ہے کیونکہ ابلیس نے اپنے زعم باطل میں اس بنیاد پر حضرت آدم (ع) کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا کہ وہ آدم (ع) سے افضل ہے اگر یہسجدہ اللہ کو ہوتا اورحضرت آدم (ع) صرف قبلہ قرار پاتے تو ابلیس کا یہ قول بے معنی ہو جاتا:
    اسجد لمن خلقت طیناً ١٧:٦١
    ''کیا میں ایسے شخص کوسجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے،،
    کیونکہ ممکن تو ہے کہ سجدہ کرنے والا اس سے افضل ہو جس کی طرف رخ کر کے سجدہ کیا جائے۔
    (٣) یہ سجدہ حضرت آدم (ع) ہی کو تھا لیکن چونکہ حکم الٰہی سے انجام پایا تھا اس لئے خشوع وخضوع اور سجدہ ، خدا ہی کے لئے ہو گا۔
    وضاحت: خشوع و خضوع کی آخری منزل سجدہ ہے اسی لئے اللہ نے سجدہ اپنی ذات سے مختص فرمایا ہے اور غیر اللہ کو سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دی اگرچہ یہ سجدہ پرستش اور عبودیت کے عنوان سے نہ کیا جائے۔
    لیکن اگر اللہ کے حکم سے غیر اللہ کو سجدہ کیا جائے تو یہ درحقیقت اللہ کی عبادت اور اس کے تقرب کاباعث بنے گا اس لئے کہ یہ امتشال اور امر الٰہی اور اس کے حکم کی تعمیل ہے اگرچہ یہ ظاہراً اللہ کی کسی مخلوق کے سامنے تواضع کا مظاہرہ ہی ہو یہی وجہ ہے کہ اس امر سے سرکشی پر کسی کو عقاب کرنا صحیح ہے اور مخالف امر کا یہ عذر قابل قبول نہیں کہ میں کسی مخلوق کے سامنے ذلیل نہیںب نوں گا اور حکم دینے والے کے علاوہ کسی کے سامنے تواضع سے پیش نہیں آؤں گا(١)
    یہ تیسرا جواب درست ہے اس لئے کہ اللہ کے بندے کو چاہئے کہ وہ اپنے جملہ امور میں اپنے نفس کیلئے کسی استقلال کا قائل نہ ہو اور ہر حالت میں اپنے مولا کی اطاعت کرے اگر مولا کسی کے سامنے تواضع سے پیش آنے کا حکم دے تو بندے پر واجب ہے کہ امتثال امر کرے اس صورت میں بندے کے سامنے تواضع سے پیش آنا اللہ کے سامنے تواضع سے پیش آنے کے مترادف ہو گا جس نے اس کا حکم دیا ہے (٢)
    گزشتہ بحث کا نتیجہ یہ ہوا کہ کسی بھی عمل سے اللہ کا قرب صرف اسی صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ اس عمل کو انجام دینے کا حکم فرمائے اور یہ حکم کسی عمومی یا خصوصی دلیل کے ذریعے ثابت ہو اگر کسی عمل کے بارے میں شک ہو کہ اللہ نے اس کا حکم دیا ہے یا نہیں تو ایسے عمل کے ذریعے اللہ کاقرب حاصل کرنا تشریح (٣) کہلائے گا جو قرآن و سنت ، عقل اور اجماع علماء کی رو سے حرام ہے۔
    ہاں ! ائمہ (ع) اور دیگر مومنین کی قبور کی زیارت کرنا ، ان کو بوسہ دینا اور ان کی تعظیم کرنا عام دلیلوں اور اہل بیت (علیہم السلام) جن کو رسول اسلام (ص) نے اپنی مشہور حدیث : انی تارک فیکم ۔۔۔۔۔۔ کے ذریعے قرآن کے ہم پلہ قرار دیا ہے ، کی خصوصی روایات کے ذریعے ثابت ہے زیارت قبور کے جائز ہونے کی تائید ہر دور کے مسلمانوں کی سیرت اور اہل سنت کی گزشتہ روایات سے بھی ہوتی ہے۔


    شرک باللہ کیا ہے ؟
    توجہ: جب غیر اللہ کے سامنے کسی خاص قسم کے خضوع کی نہی کی جائے جس طرح غیر اللہ کو سجدہ کرنا یا کسی خاص عبادت سے منع فرمایا جائے جیسے عیدالفطر اور عید قربان کے دن روزہ رکھنا حالت حیض میں نماز پڑھنا اور شوال ، ذیقعدہ اور ذی الحجہ کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں حج کرنا ہے تو ان اعمال کو بجا لانے والا شخص حرام کا مرتکب اور عذاب کا مستحق ہو گا لیکن ان اعمال کی وجہ سے نہ مشرک ہو گا اور نہ کافر معلوم ہوا ہر فعل حرام کا مرتکب مشرک اور کافر نہیں ہوتا۔
    اس سے پہلے واضح ہو چکا ہے کہ شرک کا مطلب یہ ہے کہ غیر اللہ کی اس طرح تواضع کی جائے کہ تواضع کرنے والا ، عبد اور جس کی تواضع کی جا رہی ہے اسے رب مانا جائے پس جو شخص عبودیت اور پرستش کی نیت کے بغیر غیر اللہ کو سجدہ کرے وہ اپنے اس حرام عمل کی وجہ سے مسلمانوں کے زمرے سے خارج نہیں ہو سکتا اس لئے کہ اسلام کا دارو مدار شہداتین
    --------------------------------------
    ١) ملا خطہ فرمائیں ضمیمہ نمبر ٢١
    ٢) ایضاً ٢٢
    ٣) ایسے عمل کو دین میں شامل کرنا جو دین سے خارج ہو۔

    کے اقرار پر ہے اور اسی سے اس کا مال اور خون محترم سمجھا جاتا ہے۔
    اس امر پر فریقین کی متواتر روایات دلالت کرتی ہیں (١) ان دلائل کے باوجود اس شخص کو مشرک قرار دینے کا کیا جواز ہے باقی رہ جاتی ہے جو شہادتین کااقرار کرے اور قربتہ ً الی اللہ نبی اکرم (ص) اورآپ (ص) کے اوصیاء (ع) کی قبور کی زیارت کرے۔
    ولا تقولوالمن القی الیکم السلام لست مومناً ٤:٩٤
    ''اور جو شخص (اظہار اسلام کی غرض سے) تم کو سلام کرے تو تم (بے سوچے سمجھے) نہ کہہ دیا کرو کہ تو ایماندار نہیں،،
    نعنقریب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں حق کا فیصلہ فرمائے گااور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔


    اسباب عبادت
    عبادت کرنا ایک اختیاری عمل ہے جس کیلئے کسی نہ کسی ایسے سبب کا ہونا ضروری ہے جو انسان کو عبادت کرنے پرآمادہ کرے یہ سبب چند چیزیں ہو سکتی ہیں۔
    (١) عبادت کا سبب اور عامل اللہ کی عبادت کے عوض میں ملنے والی نعمتوں اور اجر و ثواب کی طمع ہو ، جس کا اللہ نے اپنے کلام مجید میں وعدہ فرمایا ہے۔
    ومن یطع اللہ و رسولہ یدلہ جنات تجری من تحتہا الانہار ٤:١٣
    ''اور جو خدا اور رسول کی اطاعت کرے اس کو خدا آخرت میں ایسے (ہرے بھرے) باغوں میں پہنچا دے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی،،
    وعد اللہ الذین آمنوا و عملوا الصالحات لھم مغفرۃ و اجر عظیم ٥:٩
    ''اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے (اچھے) کام (بھی) کئے خدا نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کیلئے (آخرت میں) مغفرت اور بڑا ثواب ہے،،
    (٢) عبادت کا سبب و عامل ، حکم خداکی مخالفت پر سزا و عقاب کا خوف ہو،،
    ----------------------------------------
    ١) ملا خطہ فرمائیں ضمیمہ مبر ٢٣

    انیی اخاف ان عصیت ربیی عذاب یوم عظیم ١٠:١٥
    ''میں تو اگر اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو بڑے (کٹھن) دن کے عذاب سے ڈرتا ہو،،
    انا نحاف من ربنا یوماً عبوساً قمطریراً ٧٦:١٠
    ''ہم کو تو اپنے پروردگار سے اس دن کا ڈر ہے جس میں منہ بن جائیں گے،،
    ان دونوں اسباب کی طرف قرآن کی متعدد آیات دلالت کرتی ہیں۔
    تتجافی جنوبہم عن المضاجع یدعون ربہم خوفاً و طمعاً ٣٢:١٦
    ''رات کے وقت ان کے پہلو بستروں سے آشنا نہیں ہوتے اور (عذاب کے) خوف اور (رحمت کی) امید پراپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں،،
    وادعوہ خوفاً و طمعاً ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین ٧:٥٦
    ''اور (عذاب کے) خوف سے اور (رحمت کی) آس لگا کے خدا سے دعائیں مانگو (کیونکہ) نیکی کرنے والو ںسے خدا کی رحمت یقیناً قریب ہے،،۔
    یبتغون الی ربہم الوسیلۃ ایہم اقرب ویرجون رحمتہ و یخافون عذابہ ١٧:٥٧
    ''وہ خود اپنے پروردگار کی قربت کے ذریعے ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ (دیکھیں) ان میں سے کون زیادہ قربت رکھتا ہے اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں،،
    (٣) خدا کو عبادت کا اہل سمجھ کر اس کی عبادت کی جائے کیونکہ اللہ ہی کی ذات کامل مطلق اور صفات جمال و جلال کی جامع ہے ایسی عبادت صرف وہ شخص کرسکتا ہے جو مکمل طور پر فنافی اللہ کی منزل پر پہنچا ہوا ہو اور اپنے خالق کے مقابلے میں اسے اپنا وجود تک نظر نہ آتا ہو جس کا وہ خیر خواہ یا اس کے بارے میں اسے کسی عذاب کا خوف لاحق ہو اس کے پیش نظر صرف اس کا خالق ہو اور وہ غیرا للہ کا تصور تک نہ کر کے۔
    سوائے مصومین (علیہم السلام) کے کسی اور کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ اس مرتبہ پر فائز ہے۔ جنہوں نے اپنے نفسوں کو محض اللہ کا مخلص بنایا ہے اور شیطان ان (ع) کے نزدیک تک نہیں جا سکتا اور وہ اس آیت کے مصداق ہیں:
    ولاغو ینہم الجمعین ١٥:٣٩
    ''اور ان سب کو ضرور بہکاؤں گا،،
    الا عبادک منہم المخلصین : ٤٠
    مگر ان میں سے تیرے نرے کھرے خاص بندے (کہ وہ میرے بہکانے میں نہ آئیں گے)،،
    امیر المومنین سید الموحدین (ع) فرماتے ہیں۔
    ''ماعبدتک خوفاً من نارک و لا طمعاً فی جنتک ولکن و جدتک اہلاً للعبادۃ فعبد تک (١)
    ''بارالہا ! میں نے آتش جہنم کے خوف سے تیری عبادت کی ہے اور نہ جنت کے لالچ میں بلکہ تجھے عبادت کا اہل سمجھ کر تیری عبادت کی ہے،،
    معصومین (ع) کے علاوہ باقی انسانوں کی عبادت کا عامل و سبب پہلی دو وجوہ ہو سکتی ہیں ہمارے اس بیان سے ان حضرات کے اس قول کا بطلان بھی ظاہر ہو جائے گا جو جنت کے طمع یا جہنم کے خوف سے انجام دی گئی عبادات کو باطل سمجھتے ہیں اور عبادت کی صحت میں اس امر کو شرط قرار دیتے ہیںکہ عبادت صرف اللہ کو اس کا اہل سمجھ کر انجام دی جائے یہ قول اس لئے باطل ہے کہ معصومین (ع) کے علاوہ عام لوگ ایسی عبادت انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتے اور انہیں ایسے امر کا مکلف بنانا ناممکن ہے جو ان کے دائرہ اختیار سے خارج ہے۔
    اس کے علاوہ پہلی دو آیات اس عبادت کے صحیح ہونے پر دلالت کرتی ہیں جو جنت کی طمع اور جہنم کے خوف سے انجام دی جائیں ان آیات میں اللہ نے اس شخص کی تعریف کی ہے جو اللہ کو جہنم کے خوف یا بہشت کے لالچ میں پکارے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ عمل محبوب خدا ہو ، اللہ نے اس کا حکم دیا ہو اور اس سے امتثال امر ہو جائے معصومین (ع) کی روایات بھی ہیں جن کی رو سے وہ عبادت صحیح ہے جو دوزخ کے خوف سے اور جنت کی طمع میں انجام دی جائے (٢)
    ہم گزشتہ بحثوں میں وضاحت کر چکے ہیں کہ اسی سورہ کی گزشتہ آیات کی رو سے حمد و ثناء اللہ کے کمال ذاتی اس کی ربوبیت ، رحمت واسعہ اور سلطنت و قدرت کی وجہ سے اللہ کی ذات سے مختص ہے اس طرح ان آیات میں عبادت کے منشاء اور اسباب کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے یعنی عبادت کی وجہ یا یہ ہوتی ہے کہ عابد معبود کے کمال اور اس کے مستحق عبادت
    -------------------------------------------
    ١) مراۃ العقول باب الینتہ ، ج ٢ ، ص ١٠١
    ٢) ضمیمہ نمبر ٢٤ پر عبادت کی اقسام ملا خطہ فرمائیں۔

    ہونے کو درک کر کے اس کی عبادت کرتا ہے اور یہ آزاد انسان کی عبادت ہے یا عبادت کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ عابد ، معبود کی نعمتوں اور اس کے احسان کو درک کرتے ہوئے ان کی طمع میں عبادت کرتا ہے یہ تاجروں کی عبادت ہے یا عبادت اس لئے کی جاتی ہے کہ عبادت گزار معبود کے قہر و غضب اور اس کے عقاب کو درک کرتا ہے یہ غلاموں کی عبادت ہے۔


    صرف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا
    اس میں کوئی حرج نہیں کہ انسان اپنے مقاصد میں اللہ کے علاوہ دوسری مخلوق یا افعال سے مدد طلب کرے ارشاد ہوتا ہے۔
    واستعینوا بالصبر والضلاۃ ٢:٤٥
    ''اور (مصیبت کے وقت) صبر اور نماز کا سہارا پکڑو،،
    وتعاونو علی البر و التقوی ٥:٢
    ''اور (تمہارا تو فرض یہ ہے کہ ) نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو،،
    قال مالکنیی فیہ ربیی خیر فاعینو نیی بقوۃ ١٨:٩٥
    ''ذوالقرنین نے کہا میرے پروردگار نے جو قدرت مجھے دے رکھی ہے وہ کہیں بہتر ہے،،۔
    پس معلوم ہوا ہر قسم کی مدد طلبی صرف اللہ کی ذات میں منحصر نہیں بلکہ اسعانت (مدد طلب کرنا) کے اللہ سے مختص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عبادت کی قدرت اور توفیقات میں اضافہ صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کیا جائے تاکہ عبادت خالص اور کامل انجام پائے۔
    پس معلوم ہوا ہر قسم کی مدد طلبی صرف اللہ کی ذات میں منحصر نہیں بلکہ استعانت (مدد طلب کرنا) کہ اللہ سے مختص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عبادت کی قدرت اور توفیقات میں اضافہ صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کیا جائے تاکہ عبادت خالص اور کامل انجام پائے۔
    اس کا مقصد ، اس حقیقت کو ثابت کرنا ہے کہ انسان اپنے اختیاری اعمال میں جبرو تفویض کے درمیانی سنگم پر کھڑا ہے اس لئے کہ جملہ افعال انسان کے اختیارسے صادر ہوتے ہیں اسی لئے قول خداوندی ''ایاک نعبد،، (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں) میں فعل کی نسبت انسان کی طرف دی گئی ہے لیکن انسان کا یہ فعل اللہ کی طرف لمحہ بہ لمحہ ملنے والی مدد اور قدرت کے ذریعے انجام پاتا ہے ، جو ایک غیر منقطع عطیہ ہے بایں معنی کہ اگر کسی بھی لمحے مدد الٰہی منقطع ہو جائے تو انسان اس فعل کو مکمل نہیں کر سکتا اور نہ اس سے کوئی عبادت اور نیکی ہو سکتی ہے۔
    یہ وہی قول و عقیدہ ہے جس کا ایک خالص انسان متقاضی ہے اس لئے کہ جبر کا لازمہ یہ ہے کہ گناہ گار انسان کو عذاب دینا ایک بے گناہ شخص کو عذاب دینے کے مترادف ہے اور یہ صریحاً ظلم ہے:
    سبحانہ و تعالیٰ عماً یقولون علواً کبیراً ١٧:٢٣
    ''جو جو (بیہودہ باتیں) یہ لوگ(خدا کی نسبت) کہا کرتے ہیں وہ ان سے بڑھ کر بہت پاکیزہ اور بدتر ہے،،
    تفویض یعنی جملہ افعال انسان کے سپرد ہونے سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے خالق کا اقرار جائے کیونکہ تفویض کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے افعال کو مستقل طور پر انجام دیتا ہے اور وہی ان کا خالق ہے اس عقیدے کا نتیجہ متعدد خالقوں کا قائل ہونا ہے جو شرک باللہ ہے۔
    اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان افراط و تفریط کی بجائے درمیانی راستہ اختیار کرے بایں معنی کہ فعل انسان ہی سے صادر ہوتا ہے اور وہی اس فعل کا اختیاری فاعل ہے اسی وجہ سے وہ سزا و عذاب کا مستحق قرار پاتا ہے اور ایک لحاظ سے اللہ کی ذات ہے جو انسان کو زندگی ، قدرت اور دیگر مقدمات فعل مسلسل عطا فرماتی رہتی ہیں۔
    بنا برایں انسان اپنے اعمال کو مستقل طور پر انجام دے سکتا ہے اور نہ اپنے خالق کی سلطنت میں کسی قسم کی دخل اندازی کر سکتا ہے اس مسئلہ کی وضاحت ہم اعجاز قرآن کی بحث میں کر چکے ہیں۔
    یہی وہ استعانت ہے جو اللہ کی ذات میں منحصر ہے اگر فیض الٰہی حاصل نہ ہو تو کسی سے کوئی فعل سرزد نہیں ہو سکتا چاہے تمام جن وانس مل کر اسے انجام دینا چاہیں۔ اس لئے کہ ممکن الوجود ، جو اپنے وجود میں استقلال نہیں رکھتا اس کا کسی عمل کو مستقلاً انجام دینا ناممکن ہے۔
    ہمارے اس بیان سے جملہ ''ایاک نستعین،، کو ''ایاک نعبد،، کے بعد ذکر کرنے کی وجہ بھی معلوم ہو جاتی ہے بایں معنی کہ پہلے تو اللہ نے عبادت کو اپنی ذات سے مختص کر دیا اور یہ کہ مومنین صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں پھر یہ حقیقت ظاہر کی کہ انسان کی عبادات ، اللہ کی مدد اور اس کی دی ہوئی قدرت سے انجام پاتی ہیں اور بندے مشیت کے مرہون منت ہیں بندوں کی نیکیوں میں اللہ کی ذات زیادہ موثر ہے اور برائیوں کا مسؤل بندہ ہی ہوتا ہے (١)


    شفاعت
    قرآنی آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان کے تمام معاملات کا کفیل و ضامن اللہ تعالیٰ ہے تمام معاملات اس کے قبضہ قدرت میں ہیں اللہ ہی اپنی رحمت سے بندوں کو کمال کا راستہ دکھاتا ہے وہ اپنے بن دوں کے نزدیک ہے ، ان کی آواز سنتا اور دعا قبول فرماتا ہے۔
    الیس اللہ بکاف عبدہ ٣٩:٣٦
    ''کیا خدا اپنے بندوں (کی مدد) کیلئے کافی نہیں ہے (ضرور ہے)،،
    ---------------------------------
    ١) ضمیمہ نمبر ٢٥ ملا خطہ فرمائیں۔

    واذا سالک عبادی عنیی فانیی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان فلیستجیبوا لیی ولیومنوا بیی لعلھم یرشدون ٢:١٨٦
    ''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) جب میرے بندے میرا حال تم سے پوچھیں تو (کہدو کہ ) میں ان کے پاس ہی ہوں اور جب کوئی مجھ سے دعا مانگتا ہے تو میں ہر دعا کرنے والے کی (دعا سن لیتا ہوں اور اگر مناسب ہو تو) قبول کرتا ہوں پس انہیں چاہئے کہ (میرا ہی کہنا مانیں اور) مجھپر ایمان لائیں تاکہ وہ سیدھی راہ پر آ جائیں،،
    بنا برایں مخلوق کو چاہئے کہ وہ اپنی جیسی مخلوق سے شفاعت طلب نہ کرے اور نہ کسی مخلوق کو اپنے اور اپنے رب کے درمیان واسطہ بنائے اس لئے کہ اس میں مقصد تک رسائی کیلئے لمبی مسافت طے کرنا پڑتی ہے بلکہ غیر اللہ کی طرف احتیاج ظاہر کرنا لازم آتا ہے ایک محتاج دوسرے محتاج کے کیا کام آ سکتا ہے اور ایک گناہگار کو اس شخص کی شفاعت سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے جس کے پاس کوئی سلطنت و اختیار نہ ہو۔
    للہ الامرمن قبل و من بعد ٣٠:٤
    ''پہلے اور بعد (غرض ہر زمانہ میں) ہر امر کا اختیار خدا ہی کو ہے،،۔
    قل للہ الشفاعۃ جمیعاً لہ ملک السماوات والارض ٣٩:٤٤
    ''تم کہہ دو کہ ساری سفارش تو خدا کیلئے خاص ہے سارے آسمان اور زمین کی حکومت اسی کیلئے خاص ہے،،
    یہ وہ شفاعت ہے جو اذن خدا کے بغیر کی جائے لیکن اگر اللہ کسی کو شفاعت کرنے کی اجازت دے دے تو اس سے شفاعت طلب کرنا اللہ کے حضور خشوع و خضوع اور اس کی پرستش کے مترادف ہو گا اور قرآن کریم سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض بندوں کو شفاعت کی اجازت دی ہوئی ہے اگرچہ اس کیلئے رسول اللہ (ص) کے علاوہ کسی دوسرے کے نام کی تصریح نہیں فرمائی گئی چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
    لایملکون الشفاعۃ الامن اتخذ عند الرحمن عہداً ١٩:٨٧
    ''(اس دن) یہ لوگ سفارش پر (بھی) قادر نہ ہونگے مگر (ہاں) جس شخص نے خدا سے (سفارش کا) اقرار لے لیا ہو،،
    یو مئذ لا تنفع الشفاعۃ الامن اذن لہ الرحمن ٢٠:١٠٩
    ''اس دن کسی کی سفارش کام نہ آئے گی مگر جس کو خدا نے اجازت دی ہو،،
    ولا تنفع الشفاعۃ عندہ الالمن اذن لہ ٣٤:٢٣
    ''اور جس شخص کیلئے وہ خود اجازت عطا فرمائے اس کے سوا کسی کی سفارش اس کی بارگاہ میں کام نہ آئیگی،،
    ولو انہم اذظلموا انفسھم جاعوک فاستغفر وا اللہ و استغفر لہم الرسول لوجدوا اللہ تواباً رحیماً ٤:٦٤
    ''اور (اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) جب ان لوگوں نے (نافرمانی کر کے) اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا ، اگر تمہارے پاس پاس چلے آتے اورخدا سے معافی مانگتے اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) (تم) بھی ان کی مغفرت چاہتے تو بیشک وہ لوگ خدا کو بڑا توبہ قبول کرنےوالا مہربان پاتے،،
    شفاعت کے موضوع پر اللہ رسول (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء (ع) کی متواتر روایات بھی موجود ہیں۔


    امامیہ کے نزدیک شفاعت کی احادیث
    شفاعت کےب ارے میں امامیہ سلسلہ سند سے پہنچنے والی روایات حدو حصر سے زیادہ ہیں امامیہ کے نزدیک یہ مسئلہ واضحات میں سے ہے اور کسی سے پوشیدہ نہیں نمونہ کے طور پر صرف ایک روایت پیش کرنے پر ہم اکتفا کرتے ہیں۔
    برقی نے ''المحاسن،، میں معاویہ بن وہب سے روایت کی ہے۔
    ''معاویہ بن وہب کہتا ہے : میں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے اس آیت کی تفسیر پوچھی:
    لا یتکلمون الامن اذن لہ الرحمن وقال صواباً ٧٨:٣٨
    ''اس سے کوئی بات نہ کرس کے گا مگر جسے خدا اجازت دے اور وہ حق بات کہے،،
    آپ (ع) نے فرمایا: اللہ کی قسم ہم ہی ہیں جنہیں بولنے کی اجازت ہو گی اور حق بات کریں گے میں نے کہا میری جان آپ (ع) پر نثار ہو جب آپ (ع) بولیں گے تو کون سی بات کریں گے؟ آپ (ع) نے فرمایا: ہم اپنے رب کی عظمت اور بزرگی بیان کریں گے اپنے نبی (ص) پروردو سلام بھیجیں گے اور اپنے شیعوں کی شفاعت کریں گے اور اللہ (ہماری سفارش) رد نہیں فرمائے گا،،
    محمد بن یعقوب نے ''کافی،، میں محمد بن فضیل سے اور اس نے امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) سے اسی مضمون کی روایت کی ہے (١)
    -------------------------------------
    ١) بحار ، باب الشفاعہ ، ج ٣ ، ص ٣٠١


    اہلسنت کے نزدیک شفاعت کی احادیث
    شفاعت کے بارے میں اہلسنت کے ہاں بھی روایات متواترہ (١) موجود ہیں جن میں سےب عض یہاں پیش کر رہیں۔
    ١۔ یزید فقیر روایت کرتا ہے کہ جابر بن عبداللہ نے خبر دی کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:
    اللہ کی جانب سے پانچ ایسی چیزیں مجھے عطا ہوئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو عطا نہیں کی گئیں ۔۔۔۔۔۔ مجھے ایسا رعب عطا کیا جو ایک ماہ کی مسافت سے دشمن کو محسوس ہوتا ہے ، زمین کومیرے لئے سجدہ گاہ اور مطہر بنایا ۔۔۔۔۔۔مال غنیمت میرے لئے حلال قرار دیا ، جبکہ مجھ سے پہلے یہ کسی کے لئے حلال نہ تھا اور مجھے شفاعت کا اختیار دیا ہے (٢) ٢۔ انس بن مالک نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

    ''بہشت میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ، میں ہوں: (٣)
    ٣۔ ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا۔
    ''ہر نبی کی ایک دعا ہوا کرتی ہے اور میں نے اپنی دعا ، روز محشر اپنی امت کی شفاعت کیلئے ذخیرہ کر رکھی ہے،، (٤)
    ٤۔ ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:
    ''میں روز قیامت اولاد آدم کا سردار ہوں گا میں وہ پہلا شخص ہوں گا جس کی قبر شگافتہ ہو گی ، میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں گا اور میری شفاعت سب سے پہلے ہو گی ،، (٥)
    ٥۔ ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:
    شفاعت کرنے والے پانچ ہیں ، قرآن کریم ، قریبی رشتہ دار ، امانت داری ، تمہارے نبی اور اس کے اہل بیت ،،(٦)
    ٦۔ عبداللہ بن ابی جدعاء نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:
    ------------------------------------------
    ١۔ کنز العمال ، ج ٧ ، ص ٢١٥ ۔٢٧٠ میں تقریبات ٨٠ روایات موجود ہیں۔
    ٢۔ صحیح بخاری کتاب یتمم ، باب ١ ، ج ١ ، ص ٨٦
    ٣۔ صحیح مسلم باب ان النبی اول من یشفع فی الجنتہ ، ج ١ ، ص ١٣٠
    ٤۔ ضمیمہ نمبر ٢٦ ملا خطہ فرمائیں۔
    ٥۔ صحیح مسلم باب تفصیل نبینا علی جمیع الخلائق ، ج ٧ ، ص ٥٩
    ٦۔ کنز العمال ، الشفاعتہ ، ج ٧ ، ص ٢١٤

    ''میری امت کے ایک آدمی کی شفاعت سے قبیلہ نبی تمیم کے افراد سے زیادہ لوگ جنت میں داخل ہونگے،، (١)
    اس روایت کو ترمذی اور حاکم نے بھی بیان کیا ہے ان روایات سے ثابت ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے اہل بیت (ع) سے شفاعت طلب کرنا ایک ایسا عمل ہے جس کاشریعت میں حکم دیا گیا ہے ایسی صورت میںشفاعت طلب کرنا کیونکر شرک شمارہو گا ؟ اللہ تعالیٰ ہمیں خواہشات نفسانی کی پیروی اور قدم و علم کی لغزشوں سے محفوظ رکھے۔


    تحلیل آیت
    ادھنا الصرط المستقیم (٦)
    صرط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین ٥
    ''تو ہم کو سیدھی راہ پر ثابت قدم رکھ ، ان کی راہ جنہیں تو نے (اپنی) نعمت عطا کی ہے ، نہ ان کی رہا جن پر تیرا غضب ڈھایا گیا ہے اور نہ گمراہوں کی،،۔


    قرات
    قراتوں میں سب سے مشہور قرات یہ ہے کہ اس آیت میں ''غیر،، کی 'را، کو مجرور پڑھا جائے البتہ زمحشری نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) اور حضرت عمر نے 'را، کو منصوب پڑھا ہے لیکن یہ ثابت نہیں کہ رسول اللہ (ص) نے ''غیر،،کی 'را، کو منصوب پڑھا ہو اسی طرح یہ بھی ثابت نہیں کہ حضرت عمر نے اسے منصوب پڑھا ہو اور اگر یہ ثابت بھی ہو کہ حضرت عمر نے اسے منصوب پڑھا تھا پھرب ھی یہ حجت اور قابل قبول نہیں کیونکہ اس سے قبل ہم واضح کر چکے ہیں کہیغر معصوم کی قرات کوتب اہمیت حاصل ہوتی ہے جب وہ مشہور قراتوں میں سے ہو ورنہ وہ شاذ ہو گی اور اس کا پڑھنا کافی نہ ہو گا مشہور و معروف قرات ''الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیھم ولاالضالین،، ہے البتہ حضرت علی (ع) اور حضرت عمر کی طرف یہ بات منسوب ہے کہ ان حضرات نے ''من انعمت علیہم و غیر الضآلین ،، پڑھا ہے حضرت عل ی(ع) کا اس طرح پڑھنا ثابت نہیں ہے بلکہ آپ کااس طرح سے نہ پڑھنا ثابت ہے اگر امیر المومنین (ع) ''ومن انعمت علیھم و غیر الضالین،، پڑھتے تو یہ قرات آپ (ع) کے شیعول میں رائج ہو گئی ہوتی اور آپ (ع) کے بعد دوسرے ائمہ (ع) اس کی تائید فرماتے حالانکہ کسی ایک قابل اعتماد آدمی نے بھی اس قرات کو نقل نہیں کیا۔
    رسول اللہ (ص) کی طرف ''غیر،، کو منصوب پڑھنے کی جو نسبت دی جاتی ہے اس کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا سکتا ہے کہ اگر آپ (ص) ''غیر،، کو منصوب پڑھتے تو یہ رات مشہور ہو جاتی اور باقی المہ ہدیٰ (ع) بھی اس کی تائید فرماتے جہاں تک حضرت عمر کی قرات کا تعلق ہے اس کا حکم بیان کر دیا گیا ہے۔


    لغت
    الہدایتہ
    ''ہدایت،، راہنمائی کو کہتے ہیں جو ضلالت و گمراہی کا عکس ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کا مطلب عنقریب نظر سے گزرے گا۔

    الصراط
    ''صراط،، وہ راستہ ہے جس پر چلنےسے انسان اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکے البتہ کبھی کسی غیر محسوس چیز کو بھی ''طریق،، کہا جاتا ہے چنانچہ کہاجاتا ہے ''الاحتیاط طریق النجاۃ ،، یعنی ''احتیاط راہ نجات ہے،، اطاعتہ اللہ طریق الی الجنتہ،، یعنی ''اللہ کی اطاعت بہشت تک پہنچنے کا راستہ ہے،،
    غیر محسوس طریق کو یا اس لئے ''طریق،، کہا جاتا ہے کہ لفظ ''طریق ،، طریق محسوس اور طریق غیر محسوس دونوں کیلئے استعمال ہو گا یا تشبیہ اور استعمارہ کے طور پر غیر محسوس طریق کو بھی طریق کہا گیا ہے۔

    الاستقامہ
    ''استقامت ،، اعتدال اور میانہ روی کو کہا جاتا ہے، جو دایں یا بائیں طرف انحراف کے مقابلے میں آتا ہے ''صراط مستقیم،، وہ راستہ ہے جس پر چلنے والا ابدی نعمتوں اور رضائے الہی تک پہنچ جاتا ہے اور ''صراط مستقیم،، یہی ہے کہ مخلوق اپنے خالق کی اطاعت کرے اس کے اوامرو نواہی میں اس کی مخالفت و معصیت نہ کرے اور غیر اللہ کی عبادت نہ کرے یہ وہی صراط ہے جس میں کسی قسم کا انحراف نہیں ارشاد ہوتا ہے۔
    و انک لتھدیی الی صراط مستقیم ٤٢:٥٢
    ''اور اس میں شک نہیں کہ تم (اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) سیدھا ہی راستہ دکھاتے ہو،،
    صراط اللہ الذیی لہ ما فیی السماوات و ما فیی الارض : ٥٣
    ''اس خدا کا راستہ کہ جو آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) اسی کا ہے سن رکھو،،
    وھذا صراط ربک مستقیماً ٦:١٢٦
    ''اور (اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) یہ (اسلام) تمہارے پروردگار کا (بنایا ہوا) سیدھا راستہ ہے،،۔
    ان اللہ ربیی و ربکم فاعبدوہ ھذا صراط مستقیم ٣:٥١
    ''بیشک خدا ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے پس اس کی عبادت کرو (کیونکہ) یہی (نجات کا) سیدھا راستہ ہے،،
    وان اعبدونیی ھذا صراط مستقیم ٣٦:٦١
    ''بیشک خداہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے پس اس کی عبادت کرو (کیونکہ) یہی (نجات کا) سیدھا راستہ ہے،،
    وان اعبدونیی ھذا صراط مستقیم ٣٦:٦١
    ''اور یہ کہ (دیکھو) صرف میری عبادت کرنا یہی (نجات کی ) سیدھی راہ ہے،،۔
    وبعھد اللہ اوفوا ذلکم وصاکم بہ لعلکم تذکرون ٦:١٥٢
    ''اور خدا کے عہد و پیمان کو پورا کرو یہ وہ باتیں ہیں جن کا خدا نے تمہیں حکم دیا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کرو،،۔
    وان ھذا صراطیی مستقیماً فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ : ١٥٣
    ''اور یہ (بھی سمجھ لو) کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے تو اسی پر چلے جاؤ اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تم کو خدا کے راستہ سے (بھٹکا کر) تتر بتر کر دیں گے،،
    چونکہ اللہ کی عبادت کسی خاص قسم میں منحصر نہیں ہے بلکہ بعض عبادات کاتعلق دل اور نفس سے ہے اور بعض کا متعدد اعضاء بدن سے۔ لہٰذا کبھی تو ایک عام اور وسیع معنی کو مدنظر رکھا جاتا ہے جو عبادت کی تمام اقسام کو شامل ہے اس معنی کی مناسبت سے لفظ صراط مفرد سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسے ''الصراط المستقیم،، اور ''الصراط السویٰ،، ہے اور کبھی عبادت کی مختلف اقسام کو پیش نظر رکھا جاتاہ ے جس طرح اللہ تعالیٰ ، رسول اللہ (ص) اور معادپر ایمان لانا اور نماز ، روزہ ، حج اور دیگر اعمال بجا لانا ہے اس معنی کی مناسبت سے یہ لفظ جمع کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے چنانچہ ارشادباری ہے۔
    قد جا کم من اللہ نور وکتاب مبین ٥:١٥
    ''اور تمہارے پاس تو خدا کی طرف سے ایک (چمکتا ہوا) نور اور صاف صاف بیان کرنے والی کتاب (قرآن) آ چکی،،
    یہدیی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلام ٥:١٦
    ''جو لوگ خدا کی خوشنودی کے پابند ہیں ان کو تو اس کے ذریعہ سے نجات کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے،،
    وما لنا ان لانتو کل علی اللہ وقد ھدانا سبلنا ١٤:١٢
    ''اور ہمیں (آخر) کیا ہے جو ہم اللہ پر بھروسہ نہ کریں حالانکہ ہمیں (نجات کی) یقیناً اسی نے راہیں دکھائیں،،
    والذین جاھدوا فینا لنھد ینہم سبلنا ٢٩:٦٩
    ''اور جنل وگوںنے ہماری راہ میں جہاں کیا انہیں ہم ضرور اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے،،

    الانعام:
    ''انعام،، کے معنی ہیں ، نعمتوں سے نوازنا اور ان میں اضافہ کرنا اللہ کی نعمتوں سے نوازے گئے لوگ وہ ہوتے ہیں جو صراط مستقیم پر گامزن ہوں جنہیں خواہشات نفسانی شیطان کی اطاعت پر آمادہ نہ کر سکے اور اس طرح وہ ابدی سعادت اور دائمی زندگی حاصل کر لیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ انہیں رضائے الٰہی نصیب ہو۔
    وعد اللہ المومنین و المومنات جنات تجریی من تحتہا الانہار خالدین فیہا و مساکن طیبۃ فیی جنات عدن و رضوان من اللہ اکبر ذلک ھو الغفوز العظیم ٩:٧٢
    ''خدا نے ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں سے (بہشت کے) ان باغوں کا وعدہ کر لیاہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے (بہشت) عدن کے باغوں میں عمدہ عمدہ مکانات کا (بھی وعدہ فرمایا ہے) اور خدا کی خوشنودی ان سب سے بالاتر ہے یہی تو بڑی اعلیٰ درجہ کی کامیابی ہے،،
    الغضب:
    ''غضب،، نارضگی کو کہا جاتا ہے جس کے مقابلے میں رحمت ہے اللہ ان لوگوں پر غضبناک ہوتا ہے جو کفر کے بھنور میں پھنسے ہوئے اور حق سے منحرف ہوں اور آیات الٰہی کو پس پشت ڈالتے ہوں اس سے مراد مطلق کافر نہیں:
    ولکن من شرح بالکفر صدراً فعلیہم غضب من اللہ ولھم عذاب عظیم ١٦:١٠٦
    ''بلکہ خوب سینہ کشادہ (جی کھول کر) کفر کرے تو ان پر خدا کا غضب ہے اور ان کیلئے بڑا (سخت)عذاب ہے،،

    الضلال:
    ''ضلال،، بے راہ روی اور گمراہی کو کہا جاتا ہے اس کے مقابلے میں ''ہدایت،، ہے گمراہ لوگ وہ ہیں جو راہ ہدایت سے منحرف اور ابدی ہلاکت و دائمی عذاب سے دوچار ہوں لیکن یہ لوگ شدت کفر میں ان لوگوں کی مانند نہیں جو غضب الٰہی کے مستحق ہیں کیونکہ اگرچہ گمراہ ہونے والے حق کی تحقیق میں کوتاہی کی وجہ سے صراط مستقیم سے بھٹک گئے ہوتے لیکن حق آشکار ہونے کے بعد وہ اس سے دشمنی نہیںبرتتے۔
    چنانچہ بعض روایات میں ہے کہ ''مغضوب علیھم،، سے مراد یہود اور ''ضالین،، سے مراد نصاریٰ ہیں اس سے قبل اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے کہ قرآنی آیات صرف شان نزول سے مختص نہیں ہواکرتیں اور یہ کہ ان آیات کا جو معنی بھی بیان کیا جائے وہ قاعدہ کلیہ کی تطبیق و اطلاق ہے۔


    اعراب
    سورہ فاتحہ میں جملہ ''غیر ا لمغضوب علیھم،، جملہ ''الذین انعمت علیھم،، کا بدن بن رہا ہے دوسرا احتمال یہ ہے کہ الذین انعمت علیھم کی صفت بن رہا ہے بایں معنی کہ اللہ کی نعمتیں اس کی رحمت کی طرح تمام تک پہنچتی رہتی ہیں کچھ لوگ ان نعمتوں کا شکر بجالاتے ہیں اور کچھ لوگ کفران نعمت کرتے ہیں:
    الم تروا ان اللہ سخر لکم ما فیی السماوات و ما فیی الارض واسبغ علیکم نعمہ ظاہرۃ و باطنۃ و من الناس من یجادل فیی اللہ بغیر علم ولا ھدی ولا کتاب منیر ٣١:٢٠
    ''کیا تم لوگوںنے اس پر غور نہیں کیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے(غرض سب کچھ) خدا ہی نے یقینی تمہارا تابع کر دیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اورباطنی نعمتیں پوری کر دیں اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو (خواہ مخواہ) خدا کے بارے میں ھجگڑتے ہیں (حالانکہ ان کے پاس ) نہ علم ہے اور نہ ہدایت ہے اور نہ کوئی روش کتاب ہے،،
    الٰہی نعمتوں سے مستفید ہونے والوں کو جو یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ غضب الٰہی سے بچتے ہیں اس کے مفہوم و اطلاق کو مقید کیا گیا ہے تاکہ یہ جملہ صرف ان لوگوں کو شامل ہو جو دونوں صفات کے حامل ہیں اس طرح یہ آیت ان لوگوں کو شامل نہیں ہو گی جنہوں نے اللہ کی نعمتوں کاشکر ادا نہیں کیا۔
    بنا برایں آیہ کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ بندے ، اللہ سے ایسے راستے کی ہدایت کے طالب ہیں جس پر اللہ کی نعمتوں سے بہرہ مند لوگوں میں سے کچھ خاص لوگ گامزن ہیں اور وہ ، وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفران نعمت نہیں کیا اور اللہ کی اطاعت میں ثابت قدم رہتے ہوئے آخرت کی نعمتوں سے بھی اسی طرح مستفیض ہوں گے جس طرح دنیا میں اس کی نعمتوں سے مستفیض ہوئے اس طرح دنیا و آخرت دونوں میں انہیں سعادت حاصل ہوئی۔
    آیہ شریفہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے اس جملے کی مانند ہے جیسے کہا جائے : گمراہ کن کتابوں کے علاوہ دوسری کتب اپنے پاس رکھنا جائز ہے،، اس تحیل کی روشنی میں بعض حضرات کے اس اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اور نہ ہی اس کا جواب دینے کی ضرورت ہے جو یہ کہتے ہیں ۔
    ''لفظ،، غیر میں بہت زیادہ ابہام پایا جاتا ہے جو اضافت کی وجہ سے معرفہ نہیں بن سکتا اس لئے یہ کسی معرفہ کی صفت نہیں بن سکتا،،
    خلاصہ بحث یہ ہوا کہ کسی بھی جملے، چاہے خبر ہو یا انشائیہ ، میں موجود حکم اگر عام ہو اور موضوع کے تمام افرادکو شامل ہو تو اس کی تخصیص جس طرح ''الا،، وغیرہ سے کی جا سکتی ہے اسی طرح لفظ ''غیر،، کے ذریعے بھی کی جا سکتی ہے گویا آپ یوں کہہ سکتے ہیں میرے پاس سارے شہر والے آئے سوائے فاسقین کے یا سب شہر والوں کا احترام کرو سوائے فاسقین کے۔

    الضآلین
    اس لفظ کا عطف ''غیر المغضوب علیھم ،، پر ہے ۔ اس جملے میں ''لا،، نفی کو بھی استعمال کیا گیاہ ے تاکہ نفی کی تاکید ہو اور یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ''مغضوب،، اور ''ضالین،، دونوں کے مجموعے کی نفی کی گئی ہے چنانچہ لفظ ''غیر،، ضمنی طور پر نفی پر دلالت کرتا ہے اس لئے اس پر وہی حکم جاری کرتے ہیں جو حروف کا ہے مثلاً کہتے ہیں:
    جالس رجلا غیر فاسق ولا سئی الخلق ، اعبداللہ بغیر کس ولا ملل ،، (یعنی) ''ایسے آدمی کے ساتھ بیٹھو جو فاسق اور بداخلاق نہ ہو۔ اللہ کی عبادت کرو بغیر کسی اکتاہٹ اور سستی کے،،۔
    ہمارے بعض تقریباً ہم عصر علمائے کرام کا خیال ہے لفظ ''غیر،، کا استعمال نفی میں صحیح نہیں ہے اس طرح انہوں نے آیہ کریمہ کی توجیہ کرنے میں اپنے آپ کو مشقت میں مبتلا کیا ہے آخر کار کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے اور اپنی عاجزی کا ا عتراف کر لیا ہے۔


    تفسیر
    اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پہلے توحید فی العبادۃ اور توحید فی الاستعانۃ کا اعتراف کرنے کی تعلیم دی یعنی صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور مدد بھی صرف اسی سے مانگی جائے اس کے بعد اپنے بن دوں کو اس امر کی تلقین کی کہ وہ اللہ سے صراط مستقیم کی ہدایت کی دعا مانگیں۔
    اس آیہ شریفہ کا پہلا حصہ اللہ کی حمد و ثناء اور بزرگی پر مشتمل ہے اور آخری حصہ ہدایت کی دعا پر ابتدائی اور آخری حصے کے درمیان آیہ شریفہ :ایاک نعبد و ایاک نستعین،، پہلی آیت کے مضمون کا نتیجہ اوربعد والی آیت میں موجود دعا کی تمہید ہے اس لئے کہ پہلی آیت میں خدا کی جو عظمت و بزرگی بیان کی گئی ہے اس پر عبادت و استعانت (مدد طلبی) کا ذات الٰہی سے مختص ہونے کا دار و مدار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات ، رحمت اور سلطنت کی وجہ سے عبادت کا مستحق ہے اور غیر اللہ عبادت و استعانت کا مستحق نہیں۔
    جب عبادت اور استعانت خدا کی ذات سے مختص ہوئی تو لامحالہ دعا بھی اسی کے دربار میں کی جانے چاہئے یہی وجہ ہے کہ فریقین نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔
    ان اللہ تبارک و تعالیٰ قدجعل ھذہ السورۃ نصفین : نصف لہ و نصف لعبدہ ، فاذا قال العبد : الحمد للہ رب العالمین ، یقول اللہ تعالیٰ : مجدنی عبدی ، و اذاقال : اھدنا الصراط المستقیم ، قال اللہ تعالیٰ ھذا لعبدی و لعبدی ماسال ،، (١)
    ''اللہ نے سورہ حمد کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا ، آدھا سورہ اللہ کیلئے اور آدھا اس کے بندوں کیلئے ، جب بندہ الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے تو خالق فرماتا ہے : میرے عبد نے میری عظمت بیان کی ہے اور جب بندہ کہے :اھدنا الصراط المستقیم،، تو خالق فرماتا ہے : یہ میرے عبد کا حصہ ہے میرا بندہ جو مانگے اسے دیا جائے گا،،۔
    گزشتہ بحثوں سے معلوم ہوا کہ انسان اپنے ایمان و عقیدہ اوراعمال کے سلسلے میں تین میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کر سکتا ہے۔
    ------------------------------------
    ١) عیون اخبار الرضا ۔ باب ماجاء من الرضامن الاخبار المتفرقہ ، ص ١٦٦ طبع ایران ١٣١٧ھ

    (١) وہ راستہ جو اللہ نے اپنے بندوں کیلئے مقرر کر رکھا ہے اس راستے پر وہ شخص چلتا ہے جسے اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ہدایت فرمائی ہے۔
    (٢) وہ راستے ، جن پر گمراہ چلتے ہیں۔
    (٣) وہ راستہ جس پر غضب الٰہی کے مستحق افراد چلتے ہیں۔
    سورہ حمد میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ صراط مستقیم جو پہلا راستہ ہے وہ دوسرے دو راستوں سے مختلف ہے بایں معنی کہ صراط مستقیم پر چلنے والے اور ہوتے ہیں اور دوسرے راستوں پر چلنے والے اور ہوتے ہیں اس طرح یہاں پر یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ جو شخص طریق مستقیم سے انحراف کرے رسوائی اس کا مقدر ہوتی ہے اس لئے کہ وہ گمراہ وتا ہے یا گمراہ ہونے کے علاوہ غضب الٰہی کا بھی مستحق ہوتا ہے۔
    اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت کی رسوائی سے بچائے اور صراط مستقیم کی ہدایت فرمائے۔
    مفسرین کا کہنا ہے : اللہ سے وہ شخص ہدایت طلب کرتا ہے جو پہلے سے ہدایت یافتہ نہ ہو اور ایک مسلمان ، جو اللہ کی وحدانیت اور یگانگی کا قائل ہے وہ کیونکر اپنی نماز میں ہدایت کی دعا کرتا ہے۔
    اس اعتراض کے کئی جواب دیئے گئے ہیں
    (١) آیت میں ہدایت سے مراد پہلے سے حاصل ہدایت کی بقاء اور دوام ہے یعنی جب اللہ نے اپنے بندوں کو اپنے فضل و احسان سے ایمان کی ہدایت کر دی تو اب اس کے بندے یہ دعا مانگتے ہیں : پالنے والے ! ہمیں ایمان پر ثابت قدم رہنے اور اسے برقرار رکھنے کی توفیق عنایت فرما تاکہ ہدایت کے بعد کہیں لغزش قدم کے نتیجے میں دوبارہ گمراہ نہ ہو جائیں۔
    (٢) ہدایت کا معنی ثواب ہے یعنی بارالٰہا! ہمیں ثواب کے طور پر راہ جنت عطا فرما۔
    (٣) ہدایت سے مراد ہدایت میں اضافہ ہے اس لئے کہ ہدایت کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتی ہے جو شخص ہدایت کی ایک منزل پر فائز ہو وہ اس سے بلند منزل پر فائز ہونے کی دعا کر سکتا ہے۔
    یہ تینوں جوابات خام خیالی اور ظاہر آیہ کریمہ کیخلاف ہیں ۔ صحیح جواب یہ ہے کہ جس ہدایت کی مسلمان اپنی نماز میں دعا کرتا ہے وہ ایسی ہدایت ہے جو اسے پہلے حاصل نہیں اسی لئے اللہ کے حضور اس کے حصول کی دعا مانگی جاتی ہے۔
    وضاحت: اللہ کی طرف سے دو قسم کی ہدایت کی جاتی ہے۔
    (١) ہدایت عامہ
    (٢) ہدایت خاصہ
    ہدایت عامہ: یہ ہدایت کبھی تکوینی ہوتی ہے اور کبھی تشریعی ۔ تکوینی ہدایت عامہ وہ ہے جو اللہ نے جمادات ، نباتات اور حیوانات غرض تمام موجودات کو ودیعت فرمائی ہے یہ سب چیزیں قدرتی طور پر یا اپنے اختیار سے اپنے کمال اور ارتقائی منازل کی طرف رواں دواں ہیں ۔ اللہ کی ذات نے ان چیزوں میں طلب کمال کی قدرت و دیعت فرمائی ہے:
    کیا آپ نے نباتات میں کبھی غور کیا ہے کہ وہ اپنی نشوونما کے دوران ایسے راستے کا انتخاب کرتی ہیں جس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ، یا کبھی حیوانات کے بارے میں سوچا ہے کہ وہ موذی حیوانوں کوکیسے دوسروں سے تمیز دے لیتے ہیں مثلاً چوہا بلی سے تو بھاگتا ہے لیکن بکری سے نہیں بھاگتا یا چیونٹی اور شہد کی مکھی اجتماع اور حکومت تشکیل دینے اور اپنی رہائشی جگہ تعمیر کرنے کی ہدایت و رہنمائی کیسے حاصل کرتی ہے ؟ یا شیر خوار طفل پستان مادر کی رہنمائی کیسے حاصل کرتا ہے اور ولادت کے فوراً بعد دودھ پینا شروع کر دیتا ہے۔
    قال ربنا الذیی اعطی شیی ء خلقہ ثم ھدی ٢٠:٥٠
    ''موسیٰ (ع) نے کہا ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اسی کے (مناسب) صورت عطا فرمای پھرا سی نے (زندگی بسر کرنے کے) طریقے بتائے،،۔
    تشریعی ہدایت عامہ وہ ہے جو اللہ نے انسانوں کی طرف نبی (ع) بھیج کر اور ان پر کتب نازل فرما کر مکمل کی پہلے خدا نے انسان کو عقل اور حق و باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت دے کر ان پر حجت تمام کی اس کے بعد انسان کی ہدایت کیلئے انبیاء بھیجے جو انسانوںکے سامنے آیات الٰہی کی تلاوت کرتے اور ان کیلئے مختلف شریعتوں کو بیان کرتے تھے پھر اللہ نے انبیاء (ع) کو معجزات دے کر بھیجا جو ان کی نبوت کا ثبوت اور دلیل بن سکے اس کے بعد کچھ لوگ ہدایت پا گئے اور کچھ گمراہ ہو گئے اور ضلالت ان کا مقدر بن گئی۔
    انا ھدیناۃ السبیل اما شاکراً و اما کفوراً ٧٦:٣
    ''اس کو رستہ بھی دکھا دیا (اب وہ ) خواہ شکر گزار ہو خواہ ناشکرا،،
    ہدایت خاصہ: یہ ہدایت تکوینی ہوتی ہے اور یہ اللہ کا خاص لطف و کرم ہے جس سے وہ اپنے بعض مخصوص بندوں کو اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق نوازتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے وہ اسباب و ذرائع فراہم کرتا ہے جس سے وہ اپنے کمال اور منزل مقصود تک پہنچ جائیں اگر اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت خاصہ کے ذریعے لوگوں کی ہدایت اور اصلاح نہ فرمائے تو وہ گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں جاگریں ہدایت کی اس قسم کی طرف قرآن کی متعدد آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔
    فریقاً ھدی و فریقاً حق علیہم الضلالۃ ٧:٣٠
    ''اسی نے ایک فریق کی ہدایت کی اور ایک گروہ (کے سر) پر گمراہی سوار ہو گئی،،۔
    قل فللہ الحجۃ البالغۃ فلو شاء لھدا کم اجمعین ٦:١٤٩
    (اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم کہو کہ اب (تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں) خدا تک پہنچانے والی دلیل خدا ہی کے لئے خاص ہے پھر اگر وہی چاہتا تو تم سب کی ہدایت کرتا،،
    لیس علیک ھدا ھم ولکن اللہ یہدیی من یشاء ٢:٢٧٢
    ''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) انہیں منزل مقصود تک پہنچانا تمہارا فرض نہیں (تمہارا کام) صرف راستہ دکھانا ہے مگر ہاں خدا جس کو چاہے منزل مقصود تک پہنچا دے،،
    ان اللہ لایہدی القوم الظالمین ٦:١٤٤
    ''خدا ہرگز ظالم قوم کو منزل مقصود تک نہیںپہنچاتا،،
    واللہ یہدیی من یشاء الی صراط مستقیم ٢:٢١٣
    ''اور خدا جس کو چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے،،
    انک لاتہدیی من احببت ولکن اللہ یہدیی من یشاء ٢٨:٥٦
    (اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) بیشک تم چسے چاہو منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتے مگر ہاں خا جسے چاہے منزل مقصود تک پہنچائے،،
    والذین جاھدوا فینا لنہدینہم سبلنا ٢٩:٦٩
    ''اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا انہیں ہم ضرور اپنی راہ کی ہدایت کریں گے،،
    فیضل اللہ من یشاء ویہدیی من یشاء وھو العزیز الحکیم ١٤:٤
    ''تو یہی خدا جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور وہی سب پر غالب حکمت والا ہے،،
    ان آیات کے علاوہ بھی قرآن کریم کی متعدد آیات ایسی ہیں جن سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ کی ہدایت خاصہ کچھ خاص قسم کے لوگوں کو نصیب ہوتی ہے سب کو نہیں بنا برایں اس سورہ فاتحہ میں مسلمان پہلے اللہ کی تشریعی و تکوینی ہدایت عامہ کا اعتراف کرتا ہے اس کے بعد درگاہ الٰہی میں تکوینی ہدایت خاصہ کی دعا کرتا ہے جو صرف مخصوص لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔
    خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسان قدرتی طور پر ہلاکت اور سرکشی سے دو چار ہو سکتا ہے اس لئے مسلمان اور موحد کو چاہئے کہ وہ صرف اپنے نفس پر اعتماد نہ کرے بلکہ اپنے رب سے مدد طلب کرے اور اس سے ہدایت کی دعا مانگے تاکہ وہ اسے صراط مستقیم کی رہنمائی فرمائے اور وہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جو گمراہ اور غضب الٰہی کے مستحق ہیں۔
     
  27. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    سجدہ تو ہوتا ہی تعظیمی ہے
    یعنی ساجد مسجود کی انتہاء درجہ کی تعظیم میں اپنے آپکو انتہاء درجہ انکساری پر لے جاتا ہے
    اور سجدہ کرنا عبادت ہے
    فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا [النجم : 62]
    اللہ کے آگے سجدہ کرو اور اسکی عبادت کرو
    اور عبادت غیر اللہ کے لیے جائز نہیں ہے
    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا ت 1159 ـ حسن صحيح , ابن ماجة ( 1853 )
    ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں کسی کو کسی کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دینے والا ہوتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے
    غیر اللہ کی عبادت کرنا شرک ہے جوکہ مخرج عن الملۃ گناہ ہے
     
  28. قاسم کیانی
    آف لائن

    قاسم کیانی ممبر

    شمولیت:
    ‏4 جون 2011
    پیغامات:
    375
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    سجدہ نہ سمجھ اے نجدی
    دیتا ہو میں نظرانے میں سر اپنا
     
  29. عباس حسینی
    آف لائن

    عباس حسینی ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2009
    پیغامات:
    392
    موصول پسندیدگیاں:
    23
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    إنّما الأعمال بالنّيّات.
    سلام . ھر عمل كا دار ومدار نيت پر منحصر هےِ اس سجده كرنےوالےسےپوچھا جائے کہ وھ کس نیت سے سجدہ کر رھا ھے؟ بهر حال ايسی صورت حال میں احتياط كرني چاھیے تاکہ تھمت سے بچیںِ
     
  30. قاسم کیانی
    آف لائن

    قاسم کیانی ممبر

    شمولیت:
    ‏4 جون 2011
    پیغامات:
    375
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا غیر اللہ کو سجدہ جائز ہے؟

    کیا آپ جوادنقوی صاحب کو جانتے ہیں
     

اس صفحے کو مشتہر کریں