1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کیا زیادہ بچے پیدا کرنا ثواب کا کام ہے ؟؟؟

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏21 جون 2007۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ایک تصور ہمارے پاکستانی معاشرے میں عام ہے کہ جب کبھی کسی شادی شدہ نوجوان کو اپنی بیوی کی صحت و سلامتی اور بہتر مستقبل کی خاطر بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کا احساس دلا کر بچوں کی تعداد کم رکھنے کا مشورہ دیا جائے تو جواب ملتا ہے

    “ہمارے نبی اکرم :saw: کا فرمان ہے کہ قیامت کے دن میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا“ (الحدیث) تو اسکا مطلب یہ کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کر کے امتِ محمدیہ :saw: میں اضافہ کرنے کے کارِ خیر میں حصہ ڈالنا چاہیئے۔ شاید اسی طرح ہماری بخشش کا سامان ہو جائے ۔

    میرا سوال ہے ؟؟

    کیا پوری اسلامی تعلیمات چھوڑ کر ایک حکم کو پکڑ کر ملت اسلامیہ کو کثرتِ آبادی کی مشکلات میں ڈال دینا اسلامی نقطہ نظر سے درست ہے ؟؟

    کیا حضور نبی اکرم :saw: کے فرمان کا یہی مقصد تھا کہ بچوں کی لائن لگا دو ؟؟

    یا آپ :saw: کے فرمان کا مقصد یہ بھی تھا کہ اپنے اعلی کردار اور دین اسلام کی دعوت و تبلیغ کے فروغ کے ذریعے غیر مسلموں کو بھی مسلمان بنا کر امتِ محمدیہ :saw: میں اضافہ کرو ؟؟؟

    کیا ہم لوگ اجتماعی طور پر دینی احکامات سے اپنی مرضی کے مطابق اور اپنے مفادات کو پورا کرنے والے جزو پکڑ کر دین اسلام پر ظلم نہیں کر رہے ؟؟؟


    یا اگر میرے سوالات غلط ہیں اور دوسری رائے درست ہے کہ درجن بھر بچے پیدا کر کے انسان جنت کا حقدار بن جائے گا تو اسکے حق میں دلائل اور اپنی اپنی آراء پیش کریں۔

    پلیز دو لفظ ہی سہی لیکن اپنی رائے کا اظہار کرکے زندہ قوم اور باشعور مسلمان ہونے کا ثبوت ضرور دیں۔ شکریہ
     
  2. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    اس بات سے ھم انکار نہیں کرسکتے کہ رزق کا بندوبست انسان کے ھاتھ میں نہیں بلکہ صرف اللٌہ تعالیٰ کے ھاتھ میں ھے، اور جتنی بھی ذی روح کا دنیا میں پیدا ھونا اللٌہ تعالیٰ کے حکم سے مقصود ھوتا ھے، اس کے رزق کا بندوبست پہلے ھی سے اللٌہ تعالیٰ نے کردیا ھوتا ھے،!!!!!
    اور جس کو اس دنیا میں آنا ھے وہ اللٌہ تعالیٰ کے حکم سے ھی اُس کا ایک وقت معین ھے اور ساتھ ھی موت کا دن بھی پہلے سے ھی مقرٌر ھے، !!!!!

    اگر ھمیں اس بات پر یقین ھے تو باقی سوالات کے کیا معنی رہ جاتے ھیں،؟؟؟؟؟؟؟؟؟
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عبدالرحمن سید بھائی ۔ بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے ایک اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی۔ بظاہر آپ کی بات بہت درست نظر آتی ہے۔ لیکن آئیے تھوڑا سا گہرائی میں بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔۔

    یہ دنیا عالم اسباب ہے۔ امورِ حیات کے لیے ایک تدبیر و سبب مقرر ہے۔

    بے شک زندگی ، موت ، صحت، رزق ہر شئے کا مالک ہے۔ لیکن یہاں عالم اسباب میں ہم بیمار ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالی کے “شافی (شفا دینے والا)“ پر ایمان کے باوجود ہم ڈاکٹر، طبیب کے پاس کیوں جاتے ہیں ؟؟ ظاہر ہے سبب و تدبیر کے لیے ۔ اور اللہ تعالی پر توکل اسکے بعد کرتے ہیں۔ توکل گولیوں، سیرپ یا انجیکشن یا ڈاکٹر پر نہیں ہوتا۔ یہ چیزیں صرف تدابیر ہوتی ہیں۔ توکل اللہ تعالی کی ذات پر ہوتا ہے کہ وہ شفا دینے والا ہے۔ لیکن تدابیر و ذرائع کو استعمال کیے بغیر اسلام بھی توکل کا حکم نہیں دیتا۔۔

    رازق صرف اللہ کی ذات ہے۔ جسے چاہتا ہے جتنا چاہتا ہے رزق دیتا ہے۔ بحثیت مسلمان ہمارا اس چیز پر ایمان ہے تو پھر ہم سب اعلی تعلیم ، فنون و ہنر کے لیے سالہا سال اور لاکھوں روپے کیوں صرف کر دیتے ہیں ؟؟ جب انجینئیر ، ڈاکٹر ، اکاؤنٹنٹ ، زمیندار بن کر بھی اتنا ہی رزق مل جانا ہے جتنا اللہ تعالی نے مقدر میں لکھ دیا ہے تو پھر یہ ساری تعلیم، ہنر، ڈگریاں، ڈپلومے اور سالہا سال کی محنت کا کیا جواز ؟؟؟

    جواب یہی ملے گا کہ بے شک اللہ تعالی ہر شئے کا خالق و مالک اور عطا کرنے والا ہے۔ ہمارا اس پر ایمان بھی ہے۔ لیکن عالم اسباب میں مختلف تدابیر و ذرائع استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالی کی ذات پر توکل رکھنا ہی ایمان ہے۔

    توکل بھی بغیر تدبیر اور اسباب کے ایک غلط فہمی ہے ۔ حقیقی توکل نہیں ہے۔ کسی نے گندم کی فصل کاشت کرنا ہے۔ گندم کا بیج بوری میں ہی بند رہنے دے، یا زمین کے کنارے لے جا کر رکھ دے۔ زمین میں ہل نہ چلائیں، زمین کو نرم نہ کریں، نہ ہی اس میں بیج ڈالیں، فقط مصلیّ بچھا کر بیٹھ جائیں کہ اللہ تعالی رازق ہے ۔ ہر شئے اسی کے حکم کی تابع ہے ۔ سو اگر اللہ تعالی نے میرے مقدر میں یہ گندم کی فصل لکھ دی ہے تو اسی بوری سے مجھے 100 بوریوں کی فصل مل جائیں گی ۔ کیا ایسا کرنا ایمان ہے ؟؟

    نہیں ۔ اسے آپ کہیں گے بھائی صاحب ! پہلے کھیت میں ہل چلائیں، زمین کو نرم کریں، اس میں بیج بو کر پانی لگائیں۔ یہ سب اسباب و تدابیر کر چکنے کے بعد اب اللہ تعالی سے دعا کریں کہ یا اللہ میری استطاعت کا کام میں نے کر دیا۔ اب آگے تیرے توکل پر بات چھوڑتا ہوں جتنا چاہے مجھے اس محنت کا پھل عطا کر دے۔

    اب آتے ہیں اصل مسئلہ زیر بحث کی طرف !!

    فرض کریں ایک خاتون ہے جو چند بچوں کی ماں بن چکنے کے بعد ڈاکٹرز کہہ چکے ہیں کہ مزید بچے پیدا کرنا اس خاتون کی صحت کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے اس لیے احتیاط کی جائے۔
    اب ایسی تدابیر اختیار کرنا جس سے کسی کی زندگی اور صحت بچ سکتی یا قائم رہ سکتی ہو۔ اور وہ تدبیر اختیار نہ کرنے سے اسکی صحت تباہ ہونے کا خدشہ ہوجانے لگے۔ اور صحت تباہ ہوجانے کے بعد وہ اپنے پہلے سے پیدا شدہ بچوں کی پرورش کی ذمہ داری کما حقہُ ادا نہ کرسکتی ہو نہ ہی وہ اس قابل رہے کہ اپنی بقیہ عائلی فرائض و ذمہ داریوں کو پورا کر سکے تو اسکی صحت کا خیال کرنا چاہیے یا محض توکل کا نعرہ لگا کر اپنا کام جاری رکھنا چاہیئے ؟؟؟؟

    اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مثال کے ذریعے سمجھاتے ہوئے فرمایا

    ترجمہ : “تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں ۔۔۔۔“

    اب میرا سوال ہے کہ وہ کونسا کسان ہے جس کی زمین اپنی ہو اور وہ اس کا خیال نہ رکھتا ہو ؟ اسکو وقت پر پانی نہ دیتا ہو؟ اسکی تمام ضروریات پوری نہ کرتا ہو؟ اور پھر اسکی طاقت سے بڑھ کر اس میں سے فصل لینے کی کوشش بھی نہیں کرتا ۔۔اگر بارانی علاقے کی زمین ہو اور کبھی قحط سالی آ جائے تو اس سال فصل بھی نہیں بوتے کہ زمین کی ضرورت (پانی) پورا نہیں تو اب اس میں سے فصل نہیں اگے گی۔ اگر بو بھی دی جائے تو حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا۔

    تو گویا اگر صرف ہم زمین کی مثال کو ہی کما حقہُ سمجھ لیں تو بھی بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر بے زبان زمین کے کچھ حقوق ہیں۔ تو عورت جب بیوی کے روپ میں انسان کی شریک حیات بن جاتی ہے ، پھر اسکے حقوق تو ہزارہا درجے بڑھ جاتے ہیں۔

    اب اگلی بات کی طرف آتے ہیں کہ رزق صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے اور ہر جان اپنا رزق ساتھ لے کر اترتی ہے ۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں یہ بھی ارشاد فرماتا ہے کہ اللہ تعالی کسی پر ظلم (وزیادتی) نہیں کرتا ۔ ٹھیک ؟؟؟

    اب آئیے دنیا میں لاکھوں لوگ خاص طور پر بچے بھوک سے بلک کر مر رہے ہیں۔ افریقہ کے علاقے میں قحط زدگی کی تصاویر و واقعات ہر کوئی جانتا ہے۔ تیسری دنیا کے اکثر ممالک میں ایسا ہو جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے ؟؟؟

    میں یہ نہیں کہتا کہ وہاں صرف آبادی کی کثرت کے مسئلے سے ہی ایسا ہوتا ہے۔ یا دنیا میں پیدا ہونے والی ہر بھوک و موت کو کثرت آبادی کے مسئلے سے جوڑ دیا جائے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ بلکہ میں صرف اس بات کی وضاحت کی کوشش کر رہا ہوں کہ بے شک اللہ تعالی رازق ہے۔ ساری کائناتوں کو رزق دینے والا بلکہ رب العلمین ہے۔ جن کائناتوں کو انسان ابھی تک جان بھی نہیں سکا وہ تو ان کو بھی پال رہا ہے۔ لیکن پھر یہ لاکھوں لوگوں کا بھوک سے مرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟؟؟؟

    ماننا پڑے گا کہ ایسی جگہوں پر سیاسی، معاشرتی ، سماجی اور اجتماعی سطح پر کہیں نہ کہیں ایسی غلطیاں ضرور کی گئی ہیں جس کی وجہ سے انہیں یہ دن دیکھنا پڑے۔ اور اگر وہ غلطیاں یا پالیسیاں نہ اپنائی گئیں ہوتیں یا انکے سدباب کے لیے مناسب اقدامات اٹھا لیے گئے ہوتے تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔

    اب آئیے سوچتے ہیں کہ جب انسان کے لیے تدابیر و اسباب اختیار کرنا لازم ہیں تو پھر عورت و خاندان کے بہتر مستقبل کے مسئلے پر بھی تدابیر و اسباب اختیار کرنے میں کیا برائی ہے ؟؟؟ جس سے ہمارے ہزارہا مسائل انفرادی و اجتماعی سطح پر کم ہو سکتے ہیں۔

    ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ جس جان کو دنیا میں آنا ہے اسے آکر رہنا ہے۔ تو پھر تدابیر و اسباب کو حکمت و عقلمندی سے استعمال کریں۔ اگر اللہ تعالی نے جان کو زمین پر بھیجنا مقدر کر دیا ہے تو پھر بھی وہ جان وجود میں آ ہی جائے گی ۔ یہ تقدیر الہیہ کا ظہور ہو گا۔ اور اسی سے ہمارا ایمان اللہ تعالی پر مزید مضبوط ہوتا ہے۔

    لیکن بحثیت مجموعی ۔ اچھے مستقبل کی پلاننگ کرنا، اس کے لیے مختلف ذرائع و تدابیر استعمال کرنا، اور مختلف امور کے لیے اوقات کار مقرر کرنا میرے خیال میں بہت ضروری ہے۔

    میری رائے ہے۔ جیسے ہر کسی کو اپنے رائے دینے کا حق ہے ویسے ہی ہر کسی کو اختلاف رائے کا بھی حق حاصل ہے۔

    آئیے ! پھر سے دعوت سوچ و فکر ہے۔ اپنے خیالات لکھ کر ایک دوسرے کے علم میں اضافے کی کوشش کریں تاکہ ہم اجتماعی فلاح و بہبود کی طرف بڑھ سکیں‌‌‌
     
  4. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ایک بہت ہی نازک اور حساس معاشرتی موضوع زیر بحث ہے۔

    میں صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ اسلام دین اعتدال و توازن ہے۔ اسلام ہمیں ہر قدم پر اعتدال و توازن سکھاتا ہے۔

    سو اعتدال کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں‌ چھوڑنا چاہیئے۔

    یعنی ازدواجی زندگی کو نہ تو فقط شہوانی لذات کا ذریعہ سمجھ لینا چاہیئے

    اور نہ ہی فقط بچے پیدا کرنے کی فیکٹری بنا کر بغیر سوچے سمجھے اپنی انفرادی اور معاشرتی زندگی کو تباہ کرنے کا اہتمام کرنا چاہیئے۔

    اعتدال و توازن ہی زندگی کا حسن ہے۔ سو اسے قائم رکھنا چاہیئے۔
     
  5. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    [/quote:2kxtzn50]

    عبدالرحمن سید بھائی ۔ بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے ایک اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی۔ بظاہر آپ کی بات بہت درست نظر آتی ہے۔ لیکن آئیے تھوڑا سا گہرائی میں بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔۔

    یہ دنیا عالم اسباب ہے۔ امورِ حیات کے لیے ایک تدبیر و سبب مقرر ہے۔

    بے شک زندگی ، موت ، صحت، رزق ہر شئے کا مالک ہے۔ لیکن یہاں عالم اسباب میں ہم بیمار ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالی کے “شافی (شفا دینے والا)“ پر ایمان کے باوجود ہم ڈاکٹر، طبیب کے پاس کیوں جاتے ہیں ؟؟ ظاہر ہے سبب و تدبیر کے لیے ۔ اور اللہ تعالی پر توکل اسکے بعد کرتے ہیں۔ توکل گولیوں، سیرپ یا انجیکشن یا ڈاکٹر پر نہیں ہوتا۔ یہ چیزیں صرف تدابیر ہوتی ہیں۔ توکل اللہ تعالی کی ذات پر ہوتا ہے کہ وہ شفا دینے والا ہے۔ لیکن تدابیر و ذرائع کو استعمال کیے بغیر اسلام بھی توکل کا حکم نہیں دیتا۔۔


    نعیم بھائی،!!!!
    آپ کی کہی ھوئی باتوں سے بھی میں انکار نہیں کرسکتا لیکن کچھ ایسے شواھد اور اپنی زندگی کے تجربات کی روشنی میں کچھ کہنا چاھونگا، مگر شاید میرا نقطہ نظر غلط بھی ھوسکتا ھے، اللٌہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے،!!!!!

    بیماری بھی وھی دیتا ھے اور شفا بھی وھی دیتا ھے اور بیماری جان کا صدقہ بھی ھے، لیکن یہ بات آپ کی صحیح بھی ھے کہ احتیاطی تدابیر اور ذرائع کو بھی استعمال میں لانا ضروری ھیں، لیکن قانون قدرت میں بعض اوقات ناجائز مداخلات کرنا بھی گناہ ھے، بچے کی پیدائش کو روکنا، یا ایسا آپریشن کروانا جس سے افزائش نشل کو روکنا ھو، کہ کہیں اس کی وجہ سے رزق میں کمی نہ ھوجائے، ھاں صرف جہاں کوئی خطرناک صورت حال ھو وہاں پر آحتیاطی تدابیر لازمی ھوجاتی !!!!

    کئی ایسے بھی واقعات دیکھنے میں آئیں ھیں، جہاں تمام احتیاطی تدابیر اور علاج کے بعد بھی انسان بچوں کی پیدائیش کو روک نہیں سکا، اور بعض تو اولاد کی خواھش لئے کچھ لوگوں نے کئی قسم کے مصنوعی طریقہ علاج سے بھی کوشش کی لیکن اولاد حاصل کرنے میں ناکامی ھوئی، مگر کئی ایسی بھی مثالیں ھیں جہاں لوگوں کو شادی کے کافی عرصہ بعد بغیر کسی علاج کے اولاد کی خوشی نصیب بھی ھوئی ھے، کئی لوگوں کو تو بڑھاپے میں قدرت نے اولاد سے نوازا ھے،!!!!!!

    میرے ھاں بھی پہلی اولاد شادی کے ڈھائی سال بعد 21 دسمبر 1981 ھوئی، اور پھر لگاتار ھر ڈیڑھ یا دو سال بعد یکے بعد دیگرے تین مزید ھمارے گلشن میں پھول کھلے، مگر اس کے بعد تقریباً چھ سال بعد 8 جنوری 1993 آخری بیٹی ھوئی، ان تمام پیدائیش کے مرحلوں کے دوران جب ھم نے بیگم کی صحت کو مد نظر رکھتے ھوئے تیسری اولاد سے بچنے کیلئے دوسرے بچے کی پیدائیش کے فوراً بعد ھی ڈاکٹری نبسخہ جات اور مستند علاج کو استعمال کرنے کی کوشش کی تو فوراً ھی نتیجہ یہ نکلا کہ ایک سال تین مہینے میں ھی چوتھے بچے کی پیدائیش ھوگئی، اور پھر ھم نے کوئی بھی احتیاطی تدابیر یا کوئی علاج کی تدبیر اختیار کرنے کے بارے میں سوچنا ھی چھوڑ دیا، تو اس کے نتیجہ یہ ھوا کہ چھ سال تک کوئی اولاد ھی نہیں ھوئی، لیکن جب پانچویں سال بعد بیگم کے دل میں بچے کی خواھش نے جنم لیا تو چھٹے سال میں اس کی گود میں ایک بچی کی خوشخبری ملی، !!!!!!

    جہاں تک بیماری کا تعلق ھے، اسکے لئے علاج اور معالجہ کی سہولت کو بروئے کار ضرور لانا چاھئے، علاج سنت بھی ھے، اور دل کو ایک اطمنان بھی حاصل ھوجاتا ھے، لیکن کئی دفعہ بہت سے واقعات ایسے بھی رونما ھوئے ھیں کہ بغیر علاج کے بھی شفا ملی ھے اور کئی ایسے بھی واقعات دیکھنے میں آئے ھیں، جو کافی علاج کے بعد بھی افاقہ نہ ھوا، اور اللٌہ توکل سے ھی وہ بیماری ختم ھوگئی، اور کئی تو وفات بھی پا گئے، جہاں علاج معالجہ کا حکم ھے، وہاں بعض علاج میں ناکامی کے بعد اللٌہ تعالیٰ کے مکمل یقین اور دعاؤں کے ساتھ عقیدت سے بھی شفا ملی ھے !!!

    ایک میں بھی اپنا ھی ایک حقیقی واقعہ پیش کرنا چاھوں گا، کہ میرا دوسرا بیٹا جو پیدا ھونے کے چھ ماہ بعد تک مسلسل بیمار رھا اور ھم نے ان چھ مہینوں کے دوران تمام بڑے ھسپتالوں، بہترین ڈاکڑوں، مستند طبیبوں، کے علاؤہ عاملوں، مولیوں، دیسی ٹوٹکے اور جو کچھ بھی ھم سے ھوسکتا تھا ھم نے سب آزمالئے، لیکن کہیں بھی اسکی صحت بہتر نہ ھو پائی اور روز بروز وہ بلکل کمزور ھوگیا، دو تین دفعہ تو کئی کئی دن اسپتالوں میں داخل بھی رھا اور سب نے بالآخر یہ شبہ طاھر کردیا، کہ یہ اس کا بچنا بہت مشکل ھے بس کوئی اللٌہ تعالیٰ کی طرف سےمعجزہ یا دعاء ھی اس کو بچا سکتا ھے، اور سونے پر سہاگہ کہ آخر میں اسے خسرہ کے دانے نکل آئے، جس سے تو رھی سہی امید بھی ختم ھوگئی تھی، اور ھم بس کرگئے اور جو علاج چل رھا تھا ھم نے بند کردیا اور یہ واقعہ میری زندگی کا سب سے بڑا صبر آزما دور تھا، مگر ھم میاں بیوی پھر بھی اللٌہ کی ذات سے مایوس نہیں ھوئے، اور ھم نے بس اللٌہ تعالیٰ سے دعاؤں پر ھی اکتفا کیا،

    اور آپ یقین جانے کہ خسرہ کے دوران اسکی بے ھوشی اور سکتے کا عالم ایسا تھا کہ اکثر نے تو اس کے لئے موت کی دعاء مانگی کہ اس کو اس مشکل سے اللٌہ تعالیٰ نجات دلادے، مگر اگر اسے کچھ ھوجاتا تو یہ ھم دونوں کے لئے یہ بہت مشکل تھا کہ اپنے آپ کو سنبھال سکتے، شاید پاگل ھی ھوجاتے، میری میوی کی حالت تو پہلے سے ھی بالکل غیر تھی، مگر ھم دونوں نے صرف اور صرف اللٌہ تعالیٰ کی ذات سے ھی امید رکھی اور اس بات کا مکمل یقین بھی رکھا کہ وہ ھمارے بیٹے کو اپنے حبیب کے :saw: صدقہ شفا ھی دے گا،!!!!!

    جہاں رزق او رازق کا مسئلہ ھے، اللٌہ تعالیٰ نے ھر ایک کے رزق کا وعدہ تو ضرور کیا ھے، اس بات سے کوئی انکار کوئی بھی نہیں کرسکتا چاھے وہ مسلم ھو یا غیر مسلم، یہ آپ دیکھ لیں کہ کوئی بھی میں نے یہ سنا ھو کہ فاقے سے کوئی مرگیا ھو، کہیں کہیں ایسا ھوا بھی ھے لیکن زیادہ تر نہیں، جہاں انسان نے جب چاھا اسے اس کی خوراک ضرور ملی ھے، مگر اس دنیا کو چلانے اور ترقی دینے کیلئے بھی اللٌہ تعالیٰ نے کچھ قوانین بھی مرتب کئے ھیں، کہ تعلیم حاصل کرو اور چاھے اس کے لئے چین ھی کیوں نہ جانا پڑے اور یہ ضروری بھی نہیں کہ آپ کسی مسلمان سے ھی تعلیم حاصل کریں کوئی بھی ھوسکتا ھے جنہیں اللٌہ نے مختلف لوگوں کو مختلف علوم سے مالا مال کیا ھو، مگر وہ علم جائز اور بہتری کا راستہ دکھانے والا ھو، پہلے کسی وقت تمام علوم اور سائینس کی ایجادات سب مسلمانوں کے ھی ھاتھ سے ھو کر گزری ھیں، جس کا فائدہ غیر اسلامی قوتٌوں نے اٹھایا اور اسے آگے مزید جدید اصلاحات کے ساتھ ترقی دی،!!!!!

    دنیا میں اللٌہ تعالیٰ نےاس دنیا فانی کو چلانے کیلئے انسان کو ھی کیوں اشرف المخلوقات بنایا ھے، تاکہ وہ اپنی سمجھ بوجھ کے ساتھ اپنی بہتر منزل کا تعیٌن کرسکے، اور یہی اسکا امتحان بھی ھے، کیونکہ یہ دنیا ایک عارضی مقام ھے، اسی امتحان سے سب کو گزر کے جانا ھے، اور اصل مقام جو اللٌہ تعالیٰ نے اوپر بنایا ھے وہ ھماری اصل حقیقت میں ھی مستقل جگہ ھے اور اس دنیا میں ان تمام کاروبار اپنی ھنرمندی کے تمام جائز پیشوں، اور اس کی عبادات ساتھ احکامات کو عقل کے صحیح جائز استعمال کے ذریئے ھی ھم سب ایک اس اُوپر والے کے اس امتحان کو کامیابی سے بہتر سے بہتر نتائج حاصل کرسکتے ھیں، اور جنت میں ایک مستقل بہتر درجات کا پقام حاصل کرسکتے ھیں، اگر کامیاب نہ ھوئے تو جہنم کی آگ ھی ھمارا استقبال کرے گی، مگر دوبارہ آپکو یہ موقعہ کبھی نہیں دیا جائے گا، کہ جاؤ ایک دفعہ اور اپنی قسمت آزمالو، اور میرے خیال میں وھاں جہاں آپکا اصل اور مستقل مقام ھو گا،!!!!!

    یہ آپکے علوم آپکی ھنر مندی اور آپکے پیشے جو آپنے بہت محنت سے سیکھے تھے، وہاں پر کوئی دکان یا دفتر یا کوئی فیکٹری نہیں ملے گی، جہاں ان کے توسط سے آپ کوئی اپنی روزی کما سکو گے، وہاں تو بس ھمیشہ کے لئے مستقل طور پر یا تو ایک اچھا درجاتی مقام جنت میں حاصل کرسکو گے یا پھر اپنے برے اعمال کے نتیجہ میں دوزخ میں جگہ حاصل کرسکو گے، شاید سزا کے مکمل ھونے تک کچھ بخشیں بھی جائیں گے اور کئی تو پہلے ھی ھمارے پیارے نبی :saw: کی شفاعت اور سفارش سے بھی بخشیے جائیں گے،!!!!

    اس دنیا میں میں ھر ایک کو اللٌہ تعالیٰ نے مختلف راستے اور وسائل دکھادیئے اور حلال رزق حصول کے بہتر طریقہ کار بھی سمجھا دیئے ھیں، ان پر چلنے کے لئے ھم کو کچھ نہ کچھ محنت تو ضرور کرنی پڑے گی، اور سب ھمارے امتحان ھیں، اور رزق چاھے وہ محنت کرے یا نہ کرے اسے ملے گا ضرور، ہزاروں کی تعداد میں لوگ ایسے بھی ھیں کہ وہ کچھ بھی نہیں کرتے اور نہ ھی کوئی علم حاصل کیا ھے ساتھ ھی نہ کوئی ھنر سیکھا ھے، وہ بھی تو زندہ ھیں اور انہیں بھی اللٌہ تعالیٰ رزق پہنچا رھا، کہیں مزاروں پر بہت سارے عقیدت مندوں کے ذریئے روزانہ سیکڑوں دیگیں چڑھی ھوتی ھیں اور لاکھوں لوگ اس سے استفادہ حاصل کرتے ھیں، اور اسی طرح اُوپر والا رزق پہنچانے کا بنوبست کرتا ھے اور تمام جانوروں، چرند پرند اور حشرات چاھے خشکی پر ھوں چاھے سمندروں اور دریاؤں میں ھوں سب کسی نہ کسی ذرایع سے رزق ضرور پہنچاتا ھے، سبحان اللٌہ،!!!! ھم اسکی کن کن نعمتوں کو جھٹلایں گے،!!!!!!

    مجھے بھی کئی مجبوریوں کی وجہ سے اپنی زندگی میں چار پانچ دفعہ نوکری چھوڑنی پڑی، لیکن یہ اللٌہ کا فضل و کرم ھی رھا کہ میری بےروزگاری کے دوران اللہ تعالیٰ نے میرے بچوں کو کسی نہ کسی طرح معجزانہ طور پر رزق پہنچایا، کیونکہ میں کسی غلظی پر نہیں تھا، ان بے روزگاری کے دنوں میں میرے پاس کوئی بھی ایسی جمع پونجی بھی نہیں تھی، اور اگر تھی بھی تو وہ کچھ دنوں میں ختم ھوجاتی تھی، لیکن یہ اس رب کا ھی اپنے حبیب :saw: کے صدقے ھمیشہ رحم و کرم رھا کہ اس نے ایسی غیبی امداد کی کہ میں کبھی اپنے خوابوں میں بھی سوچ نہیں سکتا تھا، کیونکہ ھمیں اس پر پورا بھروسہ اور یقین تھا، کئی دفعہ جہاں ھمارا عقیدہ کمزور پڑا وہاں پر ھمیں نقصان بھی ھوا ھے، جس کا ذکر آپ میری آپ بیتی “یادوں کی پٹاری“ میں بھی پڑھیں گے، میں کوئی مستند عالم نہیں ھوں آللٌہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے، جو مجھے اپنی زندگی کے تجربات کی روشنی میں سیکھ سکا یا سمجھ سکا وھی میں سب کے سامنے لا رھا ھوں، یہ بھی ھوسکتا ھے کہ میں غلطی پر ھوں، لیکن اللٌہ تعالیٰ سے دعاء ھے کہ مجھ گنہگار کو معاف فرمائے،!!!!!!!!

    جو محنت نہیں کرتے اسکے لئے بھی امتحان کا اللٌہ تعالیٰ نے ایک الگ پیمانہ رکھا ھوا ھے اور جو محنت کرتے ھیں اس کا بھی ایک علیحدہ سے ھی جانچ کا نظام بنایا ھوا ھے، اکثریت میں ھم بہت ھی کم علم ھیں ساتھ گنہگار بھی ھیں، ھمیں کوئی سیدھے طریقے سے اس یقین اور پکے عقیدوں کے ساتھ آسان لفظوں میں سمجھا دے کہ ھماری صحیح منزل کیا ھے اور کس طرح وھاں تک پہنچنا ھے تو شاید بہت سارے لوگ اپنی صحیح منزل کو پاسکیں گے، ورنہ تو اکثریت میں اتنی منتقی اور گہرائیوں کی باتوں کو سمجھ نہ سکے گی، اور اپنی صحیح منزلوں کو پانے کے بجائے گمراہ ھوجائیں گے، کیا کبھی ھمارے عالم دین حضرات نے ان غریب اور مفلسی سے دوچار لوگوں کے محلے میں گئے ھیں جہاں ان کو آسان لفظوں میں اپنے اسلام کے بارے میں کوئی سبق یا اچھی نصیحتیں سمجھا سکیں، بعض تو صرف اسلئے نہیں جاتے کہ ان مفلص علاقوں سے انہیں کیا ملے گا، انہیں تو رزق اُوپر والا نہیں دیتا، وہ کچھ تقریر کرکے کمائیں گے تو انہیں کھانے اوڑھنے اور پہنے کو ملے گا، اور اس کے علاوہ ایسے بھی ھمارے علماء دین ھیں جو ان علاقوں کی طرف جاتے ھوئے گھبراتے ھیں کیونکہ وھاں پر جاگیرداروں اور وڈیروں کا راج ھے، اگر وہ گئے تو پٹ پٹا کر واپس آجائیں گے اور جان کا بھی خطرہ ھے کیونکہ انہیں اس بات کا یقین بھی نہیں ھے کہ اللٌہ ھی زندگی اور موت کا کھوالا ھے،!!!!

    کم از کم اسی کو اگر وہ ھمارے تمام علمائے دین ایک جہاد کی حیثیت دے کر ایک قافلے کی صورت میں مل کر ان غریب اور کم علم رکھنے والوں کو ان جاگیرداروں اور وڈیروں کے چنگل سے نجات دلادیں، تو بھی ایک جہاد کا رتبہ تو حاصل کرسکتے ھیں،!!!!!
     
  6. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    ساری بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر بیوی کی جان کو خطرہ ہو تو حفاظتی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں لیکن رزق کی تنگی کے ڈر سے یا یہ سوچ کر (کہ چھوڑو بھئی زیادہ بچے تو بس وبال جان ہوتے ہیں ہم نے اپنی زندگی سے بھی تو لطف اندوز ہونا ہے) بالکل جائز نہیں۔ میں تو پہلے بھی کہہ چکی ہوں ہمیشہ کہتی آئی ہوں کہ ہمارا مقصد صرف زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کر کے امت میں اضافہ کرنا ہی نہیں بلکہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت کر کے روز قیامت حضور :saw: کے سامنے سرخرو بھی تو ہونا ہے۔ سب لوگ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ اگر آپ کے 2 سے زیادہ بچے ہوں تو ان کو انفرادی توجہ دینا کسقدر مشکل اور محنت طلب کام ہے ہاں نا ممکن بالکل نہیں! میرے ماشاءاللہ سے چار بچے ہیں بیٹی اور 3 بیٹے ماشاءاللہ ۔ میں اور میرے شوہر اللہ ان کو صحت مندانہ زندگی دے آمین دونوں ملکر بچوں کی پرورش اور تربیت پہ خاص طور پہ نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس لیئے نہیں کہ ہم غیر مسلم ملک میں رہ کر بچے پال رہے ہیں بلکہ اس لیئے کہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ ہماری انتہائی کوشش کے باوجود بچے کبھی غلطی نہیں کریں گے۔ ان کی زندگی میں کئی مراحل آئیں گے جب ان کے قدم لڑکھڑائیں گے لیکن اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان کو ثابت قدم رکھے۔ آمین ۔ اپنی انتہائی کوشش کے باوجود انسان اللہ کی تقدیر کے آگے بے بس ہے! ہوتا تو وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے ! میں اپنی والدہ صاحبہ سے بات کر رہی تھی تو انہوں نے کیا خوبصورت بات کی کہ یہ جو نوجوان نسل کہتی ہے ناں کہ ہمیں بس اتنے ہی بچے چاہیئں دراصل ان کی قسمت میں اولاد ہی ختم ہو جاتی ہے۔ لوگ سوچتے ہیں کہ یہ ہمارا ذاتی فیصلہ ہے حالانکہ فیصلہ تو اللہ کا ہوتا ہے!

    نعیم بھائی آپ نے بہت اچھا موضوع شروع کیا ہے۔

    سید بھائی صاحب آپ کا 21 دسمبر والا لاڈلا کیسا ہے! میرا آخری بیٹا 21 دسمبر کا ہے۔ اتنا بولتا ہے کہ کیا بتاؤں! اور پورے کا پورا چنگیز خان ہے !!! ‌‌ :84: لیکن ماشاءاللہ بہت اچھی طبیعت کا ہے کسی کو دکھی نہیں دیکھ سکتا!

    یہ سب تو خیر میرا جواب تھا۔ مرزا جی کی واپسی پہ ان سے بولوں گی کہ اپنی رائے کا اظہار کریں۔
     
  7. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    مسز مرزا جی،!!!
    آپکا آخری بیٹا اور میرا پہلا لاڈلا بیٹا کیا زبردست اتفاق ھے کہ دونوں کی تاریخ پیدائیش 21 دسمبر ھی ھے، بس فرق یہ ھے کہ وہ میرا لاڈلا سید حبیب الرحمٰن اب اس سال 26 سال کا ھو جائے گا، اور اسکا مزاج بھی آپکے آخری بیٹے کی طرح ھی ھے، کہ بہت اچھی طبیعت کا ھے کسی کو دکھی نہیں دیکھ سکتا!!!! مگر بچپن میں آپکے بیٹے کی طرح ھی خوب بولتا تھا اور واقعی وہ پہلے اپنے بچپن میں ایک چنگیز خان سے کم بھی نہیں تھا لیکن اب اسکے نکاح کے بعد گھر میں تو سنجیدہ ھوگیا ھے لیکن اپنے دوستوں میں بہت مقبول ھے، !!!!

    میرے دوسرے بیٹے سید دانش کی پیدائیش 5 نومبر 1985 کو ھوئی تھی اور اب وہ تقریباً اس سال 22 سال کا ھوجائے گا، اور وہ بھی سب کا لاڈلا ھے اور دوستوں میں بھی بہت مقبول ھے، کمپوٹر ٹریننگ کررھا ھے اور صرف اسکے پاس ھی ڈرائیونگ لائسنس ھے اور ایک کار بھی ھے، جس میں وہ اپنے تمام گھر والوں کو خوب گھماتا پھرتا بھی ھے اور ساتھ ھی اپنے اور بڑے بھائی کے دوستوں کے ساتھ بھی گھومتا پھرتا ھے، !!!!!

    خوش رھیں اور اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں،!!!!!
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    میرا خیال ہے باقی صارفین کو بھی اس موضوع پر اظہارِ خیال کی دعوت دینا چاہیئے۔ خاص طور پر شادی شدہ یا قریب الشادی خواتین و حضرات کو تو اس موضوع پر خصوصی طور پر ڈسکشن کرنا چاہیئے۔

    آئیے ذرا اپنے اپنے دوستوں کو یہاں بلائیں
     
  9. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم بھائی
    آپ کس گروپ میں ھیں، شادی شدہ میں یا قریب شادی شدہ یا ابھی تک بہت دور شادی شدہ، ھیں!!!!!
    اگر شادی شدہ ھیں تو آپ بھی شروع ھوجائیں اور اگر نہیں تو ھماری محفل میں ایک رشتہ والی خالہ بھی رھتی ھیں، بغیر کسی فیس کے آپ کا بھی کام تمام یعنی رشتہ کروا ھی دیں گی،!!!!!
     
  10. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    میرے جواب سے میرے مرزا جی متفق نہیں ہیں :84:
    سب سے پہلے تو میں حماد بھائی اور عبد الجبار بھائی سے ایک سوال کروں گی کہ میرے مرزا جی ادھر اپنا پیغام کیسے ارسال کریں۔ سوچا تو یہی تھاکہ وہ پیغام بھیجیں گے اور ترجمہ میں کر دیا کروں گی۔ اور ایک دو دفعہ کیا بھی لیکن خیر اصل بات کی طرف آتی ہوں مرزا جی کا کہنا ہے کہ جب بیوی کی صحت کو مد نظر رکھ کے فیملی پلاننگ کی طرف قدم اٹھایا جاتا ہے تو اس میں جسمانی صحت کے علاوہ ذہنی صحت بھی آتی ہے۔ شوہر اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے کہ اس کی بیوی کتنا بوجھ آسانی سے اٹھا سکتی ہے۔ اس میں کتنا صبر ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور بچے پیدا کر کے بیوی کے سر پہ چھوڑ دینا کہ میرا کام ختم اب سب تمھاری ذمہ داری ہے انتہائی جاہلانہ سوچ ہے ! میاں بیوی کو ایک گاڑی کے دو پہیئے کہا جاتا ہے اسی طرح ماں باپ بھی ایک ہی گاڑی کو اکٹھا لے کر چلتے ہیں۔ اب یہ تو گاڑی کے اوپر منحصر ہے کہ اس میں کتنی نشستیں ہیں اور کتنے بچے آرام سکون سے بیٹھ سکتے ہیں!

    میں نے “اسلامک اکیڈمی“ ویب سائٹ پہ محترمہ عائشہ صاحبہ کی ایک انتہائی خوبصورت تحریر “ماں کیسی ہو؟“ پڑھی۔ آپ سب کی آسانی کے لیئے لنک بھیجے دیتی ہوں۔

    http://www.islamicacademy.org/html/Arti ... /man_1.htm

    سبحان اللہ!!! اللہ ہمیں اپنے حبییب :saw: کے صدقے اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے! آمین!!!
     
  11. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    اگر وہ اُردو نہیں لکھ سکتے تو آپ اُن کے خیالات کا اظہار اپنی زبانی ہی کر دیا کریں۔ لیکن جیسے آپ کہہ رہی ہیں کہ پہلے وہ لکھیں‌، پھر آپ اُن کا ترجمہ کریں تو (آپ کے لئے) زیادہ مشکل ہو جائے گی۔ ویسے اگر آپ کو ایسے ہی مناسب لگتا ہے اور آپ کے لئے آسانی ہے تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔

    مرزا صاحب یہاں انگریزی میں لکھ لیا کریں لیکن پھر اُن کی عبارت کو quote کر کے فوری اُردو ترجمہ کرنا آپ کی ذمہ داری ہو گی۔ ہمیں‌ کوئی اعتراض نہیں۔
     
  12. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    منتظمِ اعلیٰ صاحب !!

    کیا باقی جملہ ٹرانسلیٹ کروانے چلے گئے ؟؟؟ :84: :84: :84:
     
  13. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    نعیم بھائی ۔ پلیز اتنی سنجیدہ لڑی کو شروع کر کے خود ہی اسے مذاق کی نذر نہ کریں۔ شکریہ

    یہ موضوع بہت اہم ہے۔ اور بہت حد تک ہمارے معاشرے میں غلط رنگ میں‌سمجھا جاتا ہے۔ اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے ہمیں توکل کے معنی و مفہوم کو سمجھنا ہو گا۔ نعیم بھائی نے گو کہ کافی حد تک مسئلہ کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

    جس طرح ہم زندگی کے دیگر امور میں اللہ تعالی پر توکل کرنے کے باوجود پلاننگ کرتے ہیں۔ ظاہری ذرائع و وسائل استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم آنکھیں بند کرکے محض توکل کے نام پر زچہ بچہ کی جانوں پر ظلم نہیں‌کرسکتے۔

    میرا خیال ہے کہ ہم یہاں انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی اور جنرل فلاح و بہبود کی بات کررہے ہیں۔ جیسے نعیم بھائی نے لکھا بھی ہے کہ ہم سب مثبت تبادلہء خیالات کے نتیجے میں اجتماعی طور پر اپنی بہتری کا کوئی حل نکال سکیں۔۔

    محترم عبدالرحمن بھائی کے سارے تجربات و مشاہدات سر آنکھوں پر ۔ لیکن معاف کیجئے گا وہ صرف انفرادی و استثنائی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے آپ نے فرمایا آج تک کوئی بھی بھوک سے نہیں مرا۔

    جو زندگی آپ نے گذاری ہے ممکن ہے اس میں آپ نے نہ دیکھا ہو۔ لیکن میں نے خود اپنی آنکھوں سے معصوم پھولوں جیسے بچوں کو کوڑے کے ڈھیر پر سے روٹی کے ٹکڑے کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ بچوں کو گدھا گاڑیاں چلا کر اپنے اور اپنے دیگر بہن بھائیوں کے لیے رزق کماتے ہوئے دیکھا ہے۔ معصوم بچے بچیوں کا بھیک مانگنا تو عام معمول ہے۔
    وسائل کی عدم دستیابی کے باعث غریبوں کو بغیر علاج معالجے یا غیر معیاری علاج معالجے کے نتیجے میں مرتے دیکھنا بھی اکثر مشاہدے میں آتا ہے۔

    میرا سوال ہے ۔۔۔
    کیا یہ سب اسے اللہ تعالی کی طرف سے عطا ہوا ہے ؟؟
    کیا یہ فاقہ کشی نہیں ہے ؟ کیا یہ بھوک سے مرنا نہیں ہے ؟؟؟
    کیا ان کا حق نہیں کہ 8-10 سال کی عمر میں وہ بھی اور بچوں کی طرح سکول جائیں؟
    وہ بھی اچھے کپڑے پہن کر کھیلیں کودیں، خوشیاں منائیں اور زندگی کو انجوائے کریں؟ ‌
    ان بچوں‌‌کو انکے حقوق سے محروم کر دینا بھی دراصل ایک جرم ہے جس کا ارتکاب اسکے والدین کرتےہیں۔

    ہمیں بحثیت قوم اس مسئلے پر واقعی سوچ بچار کرنا ہوگی۔ اگر ہمارا معاشرہ اسی طرح آبادی کے مسائل سے دوچار رہا تو میں یہ نہیں‌ کہتا کہ ہم ترقی نہیں کرسکیں گے۔ لیکن ترقی کی رفتار کم ضرور پڑ جائے گی۔ اور جس منزل پر ہم معقول آبادی کے ساتھ اگلے 10 سال میں پہنچ سکتے ہیں بے تحاشہ آبادی کے مسئلہ کے ساتھ شاہد وہاں پہنچنے میں 20 سال لگ جائیں۔

    اگر یہاں کوئی مستند عالم دین لوگ ہوں تو تھوڑی سی وضاحت “عملِ عزل“ کی کردیں جو کہ صحابہ کرام :rda: کے دور میں بھی روا رکھا جاتا تھا۔ اور کسی طور پر اپنے وقت کے تقاضوں کے مطابق خاندانی منصوبہ بندی کی طرف دلالت کرتا تھا۔

    بہن مسز مرزا اور زاہرا بہن نے بہت خوبصورت انداز میں ہمیں‌ جذباتیت سے بچتے ہوئے اعتدال کی راہ پر چلنے کا اشارہ دیا ہے۔ اور میں ان سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔
     
  14. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    اللٌہ پریقیں بھروسہء، ھمارے اعمال اور یوم الآخرت

    کوئی مانے یا نہ مانے مجھے تو اس بات پر مکمل یقین ھے کہ رزق کا مالک صرف اور صرف اللٌہ تعالیٰ ھی ھے، وہی زندگی دینے والا ھے اور وھی موت بھی دیتا ھے، اور ھر زندگی اور موت کا ایک وقت معیٌن ھے، اور وہ کسی بھی بہانے آسکتی ھے، فاقے سے ھو، خود کشی سے، بیماری سے ھو یا چلتے پھرتے آجائے، اور اس میں انساں کی کوئی بھی مداخلت نہیں ھے، انسان اپنی تسلی کیلئے ھر ممکن کوشش ضرور کرتا ھے اور آحتیاطی تدابیر کو بروئے کار لاتا ھے لیکن اللٌہ تعالی کی مرضی میں اسکی ایک مصلحت چھپی ھوتی ھے، جس میں کسی کی بھی کوئی مداخلت کے نتیجہ میں یہ کہنا کہ یہ سب میری وجہ سے ھوا کہ یہ سب میری ناقص عقل قبول نہیں کرتی، اور اگر یہ میری لاعلمی اور جہالت کی وجہ ھے تو میں اپنی اس جہالت اور لاعلمی پر فخر کرتا ھوں، کہ مجھ جیسے لاکھوں لوگ اس ایک اللٌہ پر ایمان اور یقین ضرور رکھتے ھیں، !!!

    خدارا اپنی علمی قابلیت سے ھم لاعلم اور جاھل لوگوں میں پہلے اللٌہ پر بھروسے، یقین اور اسکے احکامات اور ھمارے آخری نبی :saw: کی سیرت پر عمل کرنے کیلئے آسان لفظوں میں سمجھائیں، تو بہتر ھوگا، کیونکہ ھمارے نبی :saw: نے اپنے کردار اور عمل سے ھی اسلام کے دائرہء اسلام کو پھیلایا، انہوں نے کتنی تکلیفیں جھیلیں اگر وہ چاھتے تو اپنے لئے عیش اور امیر ترین زندگی کو چن سکتے تھے، اور طائف کا وہ واقعہ تو کوئی نہیں ‌بھول سکتا جس میں وہ ظالموں کے ظلم سے لہو لہان ھوگئے تھے کہ اللٌہ کی قدرت بھی تڑپ گئی تھی اور حکم بھی ھوا تھا کہ اگر آپکی اجازت ھو تو ان ظالموں کو تباہ کردیا جائے، لیکن آپنے انکار کردیا تھا اور آپ نے سب کے لیئے دعاء ھی کی تھی، اسلام کو پھیلانے میں جو حکمت کار فرما رھی، وہ ھمارے پیغمبرانِ اسلام کی وہ لازوال قربانیاں ھی تھیں اور ھمیں اس بات پر فخر بھی ھونا چاھئے کہ ھم نے ایک مسلم گھرانے میں آنکھ کھولی ھے،!!!

    آپ اب بتائیں کہ آپ اپنی اس قوم کی بہتری کیلئے کونسا زاستہ اختیار کریں گے، کیا اپ انی تمام کمائی ھوئے دولت اور جائداد کو اسلام کی خاطر ان کی اچھائیوں کو سنوارنے کیلئے صرف کردیں گے یا اپنے لئے آسائش کے راستے کو اختیار کریں گے،!!!!

    میں ایک بات صرف اپنے حوالے سے بتادوں کہ مجھے یہاں سعودی عرب میں تقریباً 25 سال سے زائد ھونے والے ھیں لیکن آللہ تعالٰ ھی میرا گواہ ھے کہ میرا کوئی بھی بینک بیلینس نہیں ھے، دو تین بینکوں میں اکاؤنٹ ھے ضرور، لیکن اس میں 100 روپے سے کم ھی بیلینس ھوگا، اور میری کوئی بھی جائداد بلکہ میرا ایک چھوٹا سا ایک کمرے کا مکان بھی نہیں ھے، اللٌہ ھی جانتا ھے کہ میری کمائی کن چیزوں میں صرف ھوئی، کیونکہ میں اسکو ھی جواب دہ ھوں،!!!

    والد کا دو منزلہ مکان تو ھے جو انہوں نے کافی تکلیفوں اور محنت سے حاصل کیا تھا لیکن وہ آج ھم بہن بھائیوں میں ایک ایک اختلاف کا باعث بن گیا اور اپنی ماں جو کہ زندہ ھے ھر ایک اس پر بضد ھے کہ وہ اپنی زندگی میں اس مکان کو بیچ کر اس کا حصہ باٹی کردیں لیکن میرا موقف ھے کہ اس مکان کو اوٌل تو والدہ کی زندگی میں نہ بیچیں، بلکہ یہ ھماری ماں کی ایک ٹھنڈی چھاؤں ھے اور اس میں تمام بہن بھائی جب کوئی دکھ سکھ کی خوشیوں اور پریشنیوں کو بانٹنے آتے ھیں تو ان کی دعائیں ھی لے کر جاتے ھیں، کوئی کسی کو اگر کہیں رھنے کی مشکل ھو تو یہ سب سے بڑا اللہ کے بعد ایک آسرا ھے اور یہ مکان ھمارے والدین کی ایک نشانی ھے، بیچنے سے بہتر میں سمجھتا ھوں کہ اس مکان کو سامنے کی مسجد کے ٹرسٹ کی نگرانی میں اگر دے دیا جائے، جیسا کہ ھمارے والد صاحب کی کافی خدمات اس مسجد سے وابسطہ ھیں، اور اس مسجد کی انتظامیہ اب تک ان کے خدمات کو سرھاتی بھی ھے اور انکی خدمات ھی کے سلسلے میں ھمیشہ خراج تحسین بھی پیش کرتیں ھیں اور ایک اچھے نیک انسان کے نام سے وہ جانے پہچانے جاتے ھیں، اور اگر ھم انکی اولاد کی حیثیت سے ایک اور ان کی طرف سے انہی کا مکان ھم تمام بھائی بہن ملکر ایک انکی ایک نشانی کے طور پر اس مسجد کے ٹرسٹ کے حوالے کردیں تاکہ وہاں پر غریب اور غرباء کے بجوں کی درس وتدریس کے اخراجات اور انکی فلاح و بہبود کیلئے اس مکان کی آمدنی، کچھ کام آسکے اور اس کا ثواب بھی ھمارے والدیں کو پہنچے اور میرے خیال میں اس سے بہتر اور والدیں کے حق میں کوئی اور خدمت نہیں ھوسکتی ، !!!!!!!!

    میری ایک فیملی ھے ایک بیوی اور پانچ بچے بھی ھیں اور شادی کے بعد ان کے ساتھ اللہ تعالی کے فضل وکرم سے عزت کے ساتھ آٹھائس سال بھی بتا چکا ھوں، چھوٹی موٹی آزمائشوں سے بھی گزرا ھوں لیکن اُوپر والے کی مہربانیوں ‌سے ھر مشکلات اور تکلیفوں کا صبر و تحمل سے مقابلہ کیا ھے، یہ میری کسی بڑائی یا احسان کی بات نہیں ھے، سب اُوپر والے کا کرم اور نوازش ھی ھے،

    ھمارے بچوں میں علم کی کمزوری کے ذمہ دار ھم خود ھیں اگر ھر انسان اپے قریبی اور اڑوس پڑوس کے حقوق کی ذمہ داری کو قبول کرلیں اور اپنے قیمتی وقت کے حصہ میں سے کچھ وقت ان بچوں کو بھی اپنے بچوں کے ساتھ بٹھا کر ان کی علمی قابلیت میں اگر اضافہ کرنے کی کوشش کریں تو میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی اپنے دیس کا بچہ دینی اور دنیاوی علم سے محروم رھے گا،!!!

    وہی بیماری دیتا ھے اور وھی شفا بھی دیتا ھے، وھی عزت بھی دیتا ھے اور وھی ذلت بھی دیتا ھے، اور یہ سب کچھ ھمارے اعمالوں پر بھی منحصر ھے، اس نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر ھر اچھائی اور بائی کی طرف روشناس بھی کرادیا ھے تاکہ ھم اپی اس مختصر سی زندگی میں اپنے امتحانات میں پورا اتر کر نتیجہ کے طور پر اپنے اصل مقام جو آوپر ھے حاصل کر سکیں، یہ دنیا تو فانی ھے ایک دن اس کو ختم ھوجانا ھے، اس دنیا میں رہ کر ھم نے اپنے اصل مقام کو پہچاننا ھے، اور یہی ھمارا مقصد بھی ھے، کہ اپنے اچھے اعمال کے ساتھ اوپر حساب کتاب کے دوران سرخ رو ھوسکیں اور ھمیں اس بات پر بھی فخر ھونا چاھئے کہ ھماری اگر کوئی بھول چوک کی وجہ سے ھمیں اگر وہ مقام نہ مل سکے تو ھمارے نبی :saw: ھی ھمارے لئے شفاعت کریں گے،!!!!! سبحاں اللٌہ

    کیا ھم اپنی بہتری اور اصلاح کے لئے کوشش اس لئے نہ کریں کہ اس دن ھماری وہاں شفاعت اور سفارش کرنے والے ھمارے پاک نبی :saw: موجود ھونگے،؟؟؟؟؟؟،

    اب بھی وقت ھے ھم اپنے آپ کو سنبھال سکتے ھیں، ھم قیامت کے دن کا کیوں انتظار کریں، آیئں آج ھم یہ عہد اور وعدہ کریں کہ آج سے ھی اپنی بقیہ زندگی اچھی صحت مند بحث و مباحثہ کے ساتھ ساتھ اپنی تمام تر توجہ کو اللٌہ کے احکامات، اسلام اور سنت نبوی :saw: کی روشنی میں انسانی بہتری اور خدمت کیلئے وقف کردیں، !!!!!

    شکریہ، خوش رھیں، اور اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں،!!!!!

    مجھ سے اگر لکھنے میں کوئی غلطی ھوگئی ھو تو اللٌہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے، اور اللہ تعالیٰ سے بس یہی دعاء ھے کہ ھمیں ایک مسلم اتحاد کی طرح ایک ھی صف میں بیٹھنے اور آچھے اعمال کرنے کی قوت عطا فرمائے، آمین،!!!!!!!!!
     
  15. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    آخری پیغام سے پہلے تک کی بحث بہت ہی مفید ہے۔

    میرا خیال ہے موضوع کو سمجھنے میں‌کچھ غلط فہمی سی ہو گئی ہے ورنہ یہ موضوع اپنی اہمیت کے اعتبار سے اقوام کی ترقی و زوال میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے
     
  16. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    میں اپنے محترم سید بھائی کے اللہ پہ کامل بھروسے اور یقین کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہوں۔

    اچھا میں ذرا کھل کے بات کرتی ہوں آپ ذرا میری بات غور سے سنیں۔ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکی کہ میرے ماشاءاللہ سے چار بچے ہیں۔ 3 بیٹے اور ایک بیٹی! کتنے ہی لوگ میرے سامنے اس بات کو ہزار دفعہ دہرا چکے ہیں کہ ارے چلو بھائیوں کو تو ساتھ مل گیا لیکن بہن بیچاری اکیلی رہ گئی! :84: کتنے ہی لوگ بیٹوں کے چکر میں لڑکیوں کی اور لڑکی کے چکر میں بیٹوں کی لائن لگا دیتے ہیں۔ ہر کسی کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنا بوجھ آسانی سے سنبھال سکتا ہے۔ اب یہاں پہ میری بات سے خدانخواستہ یہ مطلب نہ اخذ کیا جائے کہ میں بچوں کو بوجھ قرار دے رہی ہوں۔ بچے بوجھ نہیں بلکہ آپ کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ پانچ سال تک بچہ جو بھی سیکھتا ہے وہ ماں باپ سے ہی سیکھتا ہے۔ لڑکی اپنی ماں سے سیکھتی ہے کہ اولاد کی پرورش کیسے کی جائے اور لڑکا اپنے باپ سے سیکھتا ہے کہ بیوی کی عزت کیسے کی جائے۔ اس کے علاوہ بھی بچے ماں باپ کے ہر ہر عمل کا بہت باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں۔ ہم چاہے اچھے ہیں یا برے بچوں کے سامنے ایک رول ماڈل کے طور پہ اپنے آپ ‌کو‌ پیش ‌کرنا ‌پڑتا ہے۔ یہ کام کہنا بہت آسان ہے لیکن کرنا تھوڑا مشکل لیکن ہمیشہ کی طرح کہوں گی ناممکن ہر گز نہیں ہے۔ میرا خیال ہے وہ زمانہ گیا جب لوگ کہتے تھے کہ بچے کسی نہ کسی طرح پل ہی جاتے ہیں۔ بالکل پل جاتے ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ان میں سے زیادہ تر آپ کو کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے اپنا رزق حاصل کرتے نظر آئیں گے۔ رزق تو ان کو بے شک مل رہا ہے لیکن کیسے!؟
    اچھا اب موضوع کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں! کیا آپ جانتے ہیں کہ اس وقت دنیا میں یہودیوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ (تھوڑی سی مبالغہ آرائی کے ساتھ) 30 ملین ہے۔ لیکن یہی لوگ ساری دنیا میں چھائے ہوئے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کیوں؟ یہودی کبھی نہیں بولیں گے کہ بچے نہیں ہونے چاہیئں۔ زیادہ تر بچے ضرور پیدا کرتے ہیں لیکن شروع سے ہی ان کے دماغ میں ڈالنا شروع کر دیتے ہیں کہ تم نے کچھ نہ کچھ بننا ضرور ہے۔ تعلیم حاصل کرنی ہے۔ خیر خاص بات ان میں یہ ہے کہ وہ متحد ہیں۔
    میرے خیال میں اگر ماں بچوں کو فرداً فرداً یکساں توجہ نہیں دے پا رہی اور اس کے لیئے مشکل ہو رہا ہے تو میاں بیوی کو احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کرنی چاہیئں۔ اگر ماں ایسی ہے کہ ذرا سی بات پہ پھٹ پڑتی ہے یا اس میں صبر کا مادہ نہ ہونے کے برابر ہے تو میرا ذاتی خیال ہے کہ ایسی عورت کو مزید بچے پیدا کر کے اپنے بچوں پہ ظلم نہیں کرنا چاہیئے۔ کہنے کا مطلب ہے اپنی عقل استعمال کرنی چاہیئے!
    کیا آپ جانتے ہیں کہ کتنی ہی عورتیں پوسٹ پارٹم ڈیپریشن کا شکار ہو کر اپنی اولاد کی جان لے لیتی ہیں! آپ مجھے بتایئے اگر آپ میں بچے پالنے کا حوصلہ نہیں ہے تو اس میں ان معصوم جانوں کا کیا قصور! اگر آپ ایک انتہائی بےصبرے انسان ہیں تو آپ کو ماں باپ بننے سے اپنے آپ کو حتی الامکان روکنا چاہیئے لیکن اگر آپ کی زندگی میں اللہ کی طرف سے امتحان لکھا ہوا ہے تو آپ اس سے گزر کے ہی رہیں گے! اس بات پہ تو ہمارا یقین ہے!بات صرف اور صرف یہ ہو رہی ہے کہ ہم معاشی صورتحال کو نظر انداز کر کے بچوں کو ایک بہت بڑی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اپنے حوصلے کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے گلشن میں پھول مہکایئں! اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے پیارے حبیب محمد :saw: کے صدقے و طفیل بچوں کو صحیح راستے کی طرف رہنمائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے! کیونکہ بچے زندگی میں کیا بنتے ہیں اس کی ایک بڑی وجہ والدین ہی ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اپنے مضمون میں محترمہ عائشہ صاحبہ نے اس واقعے کا ذکر کیا جب ایک چور کو عدالت نے ہاتھ کاٹنے کی سزا دی تھی تو اس نے کہا کہ میرا ہاتھ کاٹنے سے پہلے میری ماں کا ہاتھ کاٹو کیونکہ جب میں نے بچپن میں پہلی چوری کی تھی تو میری ماں نے بجائے مجھے ڈانٹنے یا سرزنش کرنے کہ شاباش دی تھی۔ سو اس کا ہاتھ پہلے کٹے پھر میرا!

    اِھدنَا الصرَاطَ المُستَقِیم۔
    آمین!​
     
  17. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    آنٹی مسزمرزا ! آپ کی گفتگو بہت مفید ہے۔ اور لڑی کے عنوان کے عین مطابق ہے۔

    خاص طور پر آپ کی بات کے پیچھے صرف تھیوری نہیں بلکہ عملی تجربہ و مشاہدہ بھی کارفرما ہے اس لیے بات میں وزن بڑھ جاتا ہے۔

    ہم بدقسمتی سے افراط و تفریط کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہم مسلمان پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ اور مستقبل بینی سے عاری قیادتوں کی وجہ سے تنزلی کے گڑھوں میں دن بدن گرتے جا رہے ہیں۔ ترقی کی کوئی راہ اگر نظر آئے تو دو چار ملاّ حضرات اٹھ کر اسکے خلاف سینہ سپر ہوجاتے ہیں۔

    کچھ دن پہلے میں انٹرنیٹ پر ایک مولانا کے سوال جواب سن رہی تھی۔ جہاں ایک انجنئیر نے سوال کیا کہ میں امریکہ میں مقیم ہوں، کنسٹریکشن کمپنی میں ملازمت کرتا ہوں۔ میری کمپنی کو ایک بنک بنانے کا ٹھیکہ ملا ہے ۔ ظاہر ہے جب بنک بن جائے گا تو وہاں سودی کاروبار ہوگا ۔ کیا میرا اس کمپنی میں جاب کرنا ٹھیک ہے ؟؟

    مولانا صاحب جو شاید زندگی میں کبھی اپنے محلے کی مسجد سے باہر نہیں نکلے تھے جنہیں معلوم ہی نہ تھا کہ یورپ امریکہ میں مسلم دنیا کو کون کون سے مسائل درپیش ہیں۔ بڑے آرام سے فرماتے ہیں۔ “نہیں ۔ برخوردار ! تمہارا کام اور اسکی کمائی تم پر مکمل حرام ہے۔ فوراً جاب چھوڑ دو“

    سوال یہ ہے کہ اگر وہ انجینئر ہے ۔ تو امریکہ میں جو بھی بلڈنگ بنائے گا فرض کریں ہاوسنگ سکیم ہی بناتا ہے تو وہاں تو ہاؤسنگ سکیمیں بھی مورٹگیج کے سودی نظام پر بکتی ہیں۔ کمرشل پلازے بھی سودی کاروبار کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ وہاں تو تنخواہ بھی اسی نظام سے آتی ہے اور چائلڈ کئیر بینیفٹ سے لے کر میڈیکل سہولتیں اور پینشنز تک اسی نظام کی مرہون منت ہیں۔ تو کیا یورپ امریکہ میں بسنے والے کروڑوں مسلمان ان مولانا صاحب کی ہدایت کے مطابق سب چھوڑ چھاڑ کر اپنے اپنے ملکوں‌میں واپس چلے جائیں اور اپنے خاندان اور ملکوں‌کو مزید مالی و معاشی مشکلات کا شکار کردیں ؟؟؟

    کہنے کا مطلب یہ تھا کہ قرآن و سنت کی توجیہات کے لیے ہمارے علمائے کرام کو اجتہاد کا راستہ اپنانا ہوگا۔ ہزارہا مسائل ایسے جنم لے چکے ہیں جو آج سے دو تین صدیاں قبل تک اس امت مسلمہ کو درپیش ہی نہ تھے۔ اس لیے اب ان مسائل پر اتفاق رائے سے جدید تقاضوں کے مطابق اسلامی تعلیمات کی روشنی میں لائحہ عمل وضع کرنا ہمارے علمائے کرام کی اولین ذمہ داری ہے۔

    زیر بحث مسئلہ بھی ایسے ہی مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ہے۔ جس پر جب تک علمائے کرام اجتہاد کو اپنا کر اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔ عامۃ المسلمین کے ذہن اسی طرح منتشر رہیں گے۔ اور ہم اسی طرح مسائل میں جکڑے رہیں گے۔ کیونکہ ہم کتنے ہی روشن خیال کیوں نہ ہو‌جائیں ہم بہرحال مسلمان ہیں اور ہم اسلامی تعلیمات کو چھوڑ کر مغربی طرز زندگی کبھی نہیں اپنا سکتے ۔ ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر ہی فخر ہے اور ہونا چاہیئے۔ بحمد اللہ تعالی۔
     
  18. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    اس موضوع کو آج بھی وہی اہمیت حاصل ہے جو پہلے تھی ۔
    اگر مزید کوئی صارف روشنی ڈالنا چاہے تو دروازے کھلے ہیں۔

    کیا ہمیں " امت مسلمہ کی کثرت " ثابت کرنے کے لیے کثیر تعداد میں بچے پیدا کرنے چاہئیں؟
    یا
    ماں‌ ، باپ کی صحت ، معاشرتی ماحول میں اپنے وسائل و ذرائع کو مد نظر رکھتے ہوئے اتنے ہی بچے ہونے چاہییں کہ جن کو پیدا کرنے کے بعد انکی صحیح پرورش کا حق بھی ادا کیا جاسکے۔
     
  19. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    [highlight=#FFFF40:3gp9ucmx]زیادہ بچے پیداکرنا کارثواب ہے،اور بلندی درجات کا ذریعہ ہے[/highlight:3gp9ucmx]
    مدینے کے میرسرورکونین :saw: نے ارشاد فرمایا[highlight=#FFBF00:3gp9ucmx]تزوجواالودودالولود[/highlight:3gp9ucmx]
    [highlight=#80FFFF:3gp9ucmx]فانی اباھی بکم الامم[/highlight:3gp9ucmx] اس فرمان نبوی :saw: کا معنی یہ ہے کہ شادی کروایسی عورت سے جو آپ سے زیادہ محبت کرے(اور)زیادہ بچے جنے پس تحقیق میں( روزقیامت)دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔۔۔۔۔: اس کے علاوہ اور بھی کئی فرامین ہیں
    پس خوشخبری ہے زیادہ بچے جننے والوں مسلمانوں کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں بھی الحمدللہ دوبیٹوں کا باپ ہوں اور اورتیسرا ان شاء اللہ چار ماہ تک آجائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔اور بچے اللہ کے فضل سے نعمت عظمی ہوتے ہیں
     
  20. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    انتہائی افسوس اور عاجزی کے ساتھ ایک بات کہوں گی کہ حدیث شریف کو سمجھنے کے لیئے بے پناہ ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے :neu:
     
  21. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    میری اپنی ناقص رائے میں اپنی زندگی کے ذاتی مشاھدات اور تجربات کی روشنی کے مطابق میرا تو اس بات پر یقین ھے کہ جس بھی ذی روح کو اس دنیا میں آنا ھے، اور جسے بھی اس دنیا سے رخصت ھونا ھے اس کا اللٌہ تعالیٰ نے ایک ھی وقت مقرر کیا ھے اسے کوئی بھی دنیا کی کوئی بھی طاقت روک نہیں سکتی، زندگی اور موت بس اسی اوپر والے کے ھاتھ میں ھے، اس پر ھمارا پورا اور کامل یقین ھے،!!!!

    اور وہ ھی ساری کائنات کو چلانے والا ھے، اگر انسان کے بس میں کچھ ھوتا تو کب کی یہ دنیا تباہ و برباد ھوجاتی، جہاں کا دانہ پانی اس نے لکھ دیا ھے بندہ کو وہیں جانا بھی ھے، مقدر سے زیادہ اور وقت سے پہلے جو رزق نصیب میں لکھ دیا ھے، اس سے زیادہ مل نہیں سکتا،!!!!!

    لیکن کوشش کرنا محنت کرنا ھر ایک کا اپنا ایک فرض بھی ھے، باقی سب کچھ وہ اوپر والا ھی صلہ دینے والا ھے، ھر حال میں اس کا شکر بجا لانا ھمارا فرض ھے، اور تقدیر کو بگاڑنا سنوارنا بس اسی کا کام ھے، وہی عزت دیتا ھے اور ذلت بھی، بس ھمیں اللٌہ تعالیٰ کا ھر طرف موجود ھونے پر یقین ضرور ھونا چاھئے، وہ ھم سب کو دیکھ رھا ھے اور ھماری شہ رگ کے بالکل قریب ھے،!!!!!!!
     
  22. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم مجیب منصور بھائی ۔
    اگر آپ نے اس لڑی کو شروع سے پڑھا ہوا ہے تو یقیناً آپکی نظر سے اس لڑی کے پہلے پیغام کی معروضات گذری ہوں گی جس میں اس موضوع کی بنیاد ہی اسی حدیث کو بنا کر پوچھا گیا تھا کہ آیا صرف ایک حدیث کو پکڑ کر اپنے ذاتی و معاشرتی حالات، والدین خصوصا والدہ کی کمزور صحت ، والدین کے ناگفتہ بہ اور غیر یقینی معاشی خدشات اور اپنی آئندہ نسل کی بھرپور تعلیم و تربیت نہ کر سکنے کے امکانات و خدشات کے باوجود کثرتِ اولاد کا عمل جاری رکھنا چاہیے ؟

    آپ نے اپنی ذاتی صورت حال واضح کی ہے۔ اللہ کریم آپکو اور آپکی فیملی کو اپنے اہل و عیال کے ساتھ سلامت رکھے۔ آمین ۔
    لیکن 3 یا 4 بچوں کو تو کثرت اولاد میں شامل نہیں کر سکتے۔
    اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو میں پوچھنا چاہوں گا کہ کیا کثرتِ اولاد کا یہ عمل آپ تادمِ امکانِ آخر جاری رکھیں گے یا کبھی کسی مرحلے پر رکنے کا بھی سوچیں گے ؟
    اگر آپ کسی مرحلے پر رکنے کا سوچیں گے تو وہیں سے اس لڑی کا عنوان پھر سے شروع ہوجائے گا۔

    والسلام
     
  23. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جب تک ہم قرآن یا حدیث بار بار نہیں پڑھیں گے اس میں پوشیدہ معنی کو نہیں سمجھ سکیں گے کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ہمارے اکثر علماء ہی اسلام کی غلط تصویر پیش کرتے ھیں بڑی معذرت کے ساتھ

    اور اسی وجہ سے پھر غیروں کو بھی باتیں بنانے کا موقع ملتا ھے میں مذھبی سیاسی بحچ مباحثوں سے پرہیز ہی رکھتی ہوں کیونکہ اس معاملے میں ہر انسان بڑ احساس ہوتا ھے اور پھر یہ معملات بہت حساس اور نازک بھی ہوتے ھیں اور ان علمو پہ جب تک عبور نہ ہو بات کرنا میں مناسب نہیں سمجھتی
     
  24. نادر سرگروہ
    آف لائن

    نادر سرگروہ ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جون 2008
    پیغامات:
    600
    موصول پسندیدگیاں:
    6
     
  25. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    السلام علیکم جناب نادر خان سرگروہ صاحب۔
    کیا میں پوچھنے کی جسارت کرسکتی ہوں کہ اوپر والے الفاظ کانٹ چھانٹ کر اور سیاق و سباق سے ہٹا کر اقتباس جلی حروف میں لکھنے کا کیا مقصد ہے ؟
     
  26. نادر سرگروہ
    آف لائن

    نادر سرگروہ ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جون 2008
    پیغامات:
    600
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    ۔
    ۔
    وعلیکم السلام۔۔۔۔
    محترمہ زاہرا خان صاحبہ
    ۔
    ۔
    اقتباس جلی حروف میں لکھنے کا مطلب ( مقصد نہیں ) یہ ہے کہ ۔۔۔ میں آپ کی بات سے صد فی صد اتفاق کرتا ہوں۔
    اور یہ کہ آپ کے اِن دو جُملوں کے بعد اِس لڑی میں مزید بحث کا اِمکان باقی نہیں رہتا۔



    اب تک تو صرِف ایک نقطہ کے گِرد ، دائرے پر دائرے بنتے جا رہے تھے۔ آپ نے ہر دائرے کے محیط سے راستہ نِکال کر لوگوں
    کو باہر آنے کا موقع دِیا۔۔۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہ مخرج سب کو دِکھائی دیتا ہے یا نہیں۔
     
  27. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    وضاحت کا شکریہ جناب :a191:
     
  28. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    السلام علیکم ۔
    یہ لڑی اپنی مقصدیت اور سنجیدگی کے اعتبار سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔

    محترم نادر خان سرگروہ صاحب اور ان جیسے صاحبانِ قلم اور صاحبانِ دانش سے ایسے موضوع پر بہت کچھ لکھنے کی توقع کی جاتی ہے۔
     
  29. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    ویسے ذرا غور کریں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    بچوں کی لمبی لمبی قطاریں لگا کے ہمیں ملتا کیا ہے آخر۔۔

    ماں نہ تو دین کی رہتی ہے نہ دنیا کی

    سارا دن کام اور بچوں پہ چیخ چیخ کے رات کو جب مجازی خدا گھر آتا ہے تو سیدھے منہ اس سے بھی بات نہیں کر سکتی۔۔اس کا گناہ علیحدہ!!!!!!!!
    باپ کا دل اسی وجہ سے عورت سے خراب ہو جاتا ہے اور اسکی نظر پرائی عورتوں کی جانب اٹھنے لگتی ہے اسکا گناہ علیحدہ!!!!!!!!!!!!!!
    میاں بیوی پہ توجہ نہیں دے پاتا
    تو بیوی کو کاموں اور بچوں سے فرصت ملے گی تو میاں کی جانب متوجہ ہو گی
    سو ان باتوں کا گناہ علیحدہ!!!!!!!!!!!!!
    بچوں کی تربیت صحیح نہ ہو سکے اور وہ غلط صحبت میں پڑ جایئں تو چونکہ ماں باپ کی عدم توجہی سے بچہ ایسے بنا تو ظاہر ہے گناہ ماں باپ کی طرف ہی جائے گا۔۔۔۔سو اسکا گناہ بونس میں !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

    ہم زیادہ بچے کیوں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    اور اگر ہم میں سے کوئی 2 یا 3 یا 4 پہ رکنا چاہے تو اس کو بے دین کہنے سے بھی نہیں چوکتے۔۔۔کہ میاں یا بہن تمھارا تو ایمان ہی نہیں ہے اس ذات پاک پہ۔۔۔۔۔
    لاحول ولا قوۃ!!!!!!!!!!!!!!! :neu:
     
  30. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    مسزمرزا بہنا نے اپنے موقف کی حمایت میں بہت اہم نکات کی جانب اشارہ کیا ہے۔
    جو کہ عملی زندگی میں انتہائی توجہ کے حامل ہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں