1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کیا زلزلوں کی پیش گوئی ہوسکتی ہے؟

'جنرل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏29 ستمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    کیا زلزلوں کی پیش گوئی ہوسکتی ہے؟
    [​IMG]
    رضوان عطا
    رواں برس دنیا میں 4 سے 4.9 شدت کے 8ہزار سے زائد جبکہ 7 سے 7.9 شدت کے 8 زلزلے آچکے ہیں۔ 5 سے 5.9 شدت کے زلزلوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے لیکن ان میں سب سے زیادہ جانی نقصان 24 ستمبر کو آنے والے زلزلے سے ہوا، جس نے بالخصوص آزاد کشمیر کو متاثر کیا۔ ان اعدادوشمار سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہماری دنیا مسلسل زلزلوں کی زد میں رہتی ہے۔ ان میں سے بیشتر بے ضرر لیکن چند ایک انتہائی نقصان دہ ہوتے ہیں۔ اگر گزشتہ چند دہائیوں ہی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ دنیا کے مختلف خطوں میں زلزلوں نے کس قدر تباہی پھیلائی ۔ یہ انسان کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں، ایسا جو کسی بھی وقت لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ لہٰذا ان کی پیش گوئی انتہائی اہم ہے کیونکہ یہ نقصان سے بچا سکتی ہے۔ اب اگلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ کی جا سکتی ہے؟ کیا سائنس کی مدد سے یہ بتایا جا سکتا ہے کہ اگلا شدید زلزلہ کہاں آئے گا؟ بدقسمتی سے اس سوال کا جواب واضح انداز میں ’’ہاں‘‘ یا ’’نہیں‘‘ کی صورت نہیں دیا جا سکتا۔ پیش گوئی کا معاملہ پیچیدہ ہے۔ اس کا جائزہ لینے سے قبل زلزلے کے عمل اور سبب کو جاننا ضروری ہے۔سادہ الفاظ میں وضاحت کچھ یوں ہو سکتی ہے۔ ہماری زمین کی بیرونی سخت تہ 7 بڑے ٹکڑوں پر مشتمل ہے جنہیں پلیٹس کہا جاتا ہے۔ یہ پلیٹس آہستہ آہستہ حرکت کرتی رہتی ہیں کیونکہ ان کے نیچے موجود تہ قدرے سیلانی ہے۔ جس رفتار سے ہماری انگلیوں کے ناخن بڑھتے ہیں، ان پلیٹس کی حرکت کی رفتار بھی اتنی ہی ہے۔ حرکت کے باعث پلیٹوں کے یہ بڑے بڑے ٹکڑے ایک دوسرے سے ٹکراتے، دور ہوتے اور رگڑ کھاتے رہتے ہیں جس سے ان کے درمیان رخنے پیدا ہوتے ہیں اور زمین کی سخت بیرونی پرت پر توانائی جمع ہو جاتی ہے۔ ایک خاص حد پر پہنچنے کے بعد یہ خارج ہوتی ہے جس سے زمین کی سطح ہلتی ہے۔ ہم اسے زلزلے کا نام دیتے ہیں۔ بیشتر زلزلے پلیٹس کی سرحدوں پر آتے ہیں۔ یہ جاننے کے بعد خیال آتا ہے کہ پیش گوئی کرنا سہل ہو گا۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ جہاں رخنہ (فالٹ) بڑا ہو وہاں زیادہ بڑے زلزلے آتے ہیں۔ نظریے کی حد تک تو یہ بات درست محسوس ہوتی ہے کہ اگر تمام رخنوں اور توانائی کی پیمائش کر لی جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کہاں بڑا زلزلہ آئے گا۔ البتہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ رخنوں کی جیومیٹری پیچیدہ ہوتی ہے۔ ایک ہی وقت میں کئی رخنے ہل سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر نیوزی لینڈ میں 2016ء میں آنے والے کائی کاؤرا زلزلے میں 13 رخنے پھسلے۔ علاوہ ازیں، لازمی نہیں کہ زلزلے سے نقصان اتنا ہی ہو جتنی اس کی شدت ہے۔ بعض اوقات درمیانی شدت کا زلزلہ بھی بہت زیادہ تباہ کن ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر لاس اینجلس کی گنجان آباد وادی سان فرنانڈو میں 25 برس قبل آنے والے زلزلے کی شدت 6.7 تھی۔ ریاست ہائے متحدہ میں اس زلزلے نے سب سے زیادہ مالی نقصان پہنچایا جبکہ کم از کم 57 ہلاکتیں ہوئیں۔ اس کے برخلاف فیجی میں گزشتہ برس 8.2 شدت کا زلزلہ آیا لیکن اس سے کوئی نقصان نہیں ہوا کیونکہ اس کی گہرائی 560 کلومیٹر تھی۔ یہ بتانا کہ کس گہرائی پر زلزلہ پیدا ہو گا، آسان نہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ زلزلوں کی پیش گوئی کی سائنس ابھی نابالغ ہے۔ اس معاملے میں سائنس دانوں کا ایک اہم طریقہ شدید زلزلہ آنے سے قبل کی علامات یا جغرافیائی رجحانات پر غورکرکے اس کا امکان بتانا ہے۔مثلاً ایک علامت جانوروں کا غیرمعمولی رویہ ہے۔ جہاں بعض جانور سونگھنے، سننے اور دیکھنے میں انسانوں سے بہتر ہیں وہیں زلزلے کی آمد کی خبر بھی انہیں جلد ہو جاتی ہے۔ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ ’’پی لہروں‘‘ پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں۔ یہ زلزلے کی ’’ایس لہروں‘‘ کی نسبت دگنی رفتار سے سفر کرتی ہیں جو زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جانور زلزلے کی پیش گوئی نہیں کرتے بلکہ آمد کے آثار بھانپ لیتے ہیں۔ 4 فروری 1975ء کو چین کے صوبے لیاؤنگ میں آنے والے 7.3 شدت کے زلزلے کی پیشگی خبر یوں ہی پھیلی تھی۔ ازبکستان اور اس کے قریب کے علاقوں میں، جہاں زلزلوں کا خدشہ رہتا ہے، زیرِ زمین پانی کی ترکیب کا باقاعدگی سے جائزہ لیا جاتا رہا۔ اس دوران دیکھا گیا کہ زلزلے سے 2 سے 8 روز قبل حل شدہ معدنیات کا ارتکاز (کنسنٹریشن) بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح زیرِزمین پانی کے درجہ حرارت اور اس کی سطح میں بھی تبدیلی کا مشاہدہ کیا گیا۔ جاپان، چین اور روس میں دیکھا گیا کہ زلزلوں سے قبل کنوؤں کے پانی کی سطح میں ردوبدل ہوا۔ زیادہ تر چٹانوں میں ایک گیس کی تھوڑی سی مقدار ہوتی ہے جو ہماری فضا میں پائی جانے والی گیسوں سے مختلف ہے۔ یہ رینڈن ہے۔ تابکاری گیس ہونے کے باعث اس کی شناخت آسان ہے۔ یہ زلزلے سے قبل چٹانوں سے خارج ہوتی ہے۔ یہ کنوؤں کے پانی میں حل ہو کر اس کے ارتکاز کو بڑھا دیتی ہے۔ ازبکستان میں 1972ء اور چین میں1976ء اور 1973ء میں آنے والے زلزلوں سے قبل یہ امر مشاہدے میں آیا۔شمالی قفقاز اور چین میں تیل کے کنوؤں میں تیل کے بہاؤ میں ارتعاش اور تبدیلی کا مشاہدہ بھی کیا گیا ہے۔ اس دوران تیل کے بہاؤ میں اضافہ ہوا۔ مذکورہ علامتوں کے علاوہ متعدد دیگر کی معاونت سے دنیا میں آنے والے مختلف زلزلوں کی اطلاعات دی گئیں تاہم اس دوران غلط اندازے بھی لگائے گئے۔ غلط اندازوں کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ اگر کسی بڑے شہر کی آبادی کو خبردار کر دیا جائے کہ زلزلہ آنے والا ہے تو سارا نظام زندگی معطل ہو کر رہ جائے گا۔ اس کے منفی معاشی اور نفسیاتی اثرات بھی بہت ہوں گے۔ اس لیے ماہرین کے ہاں ایک بڑا رجحان یہ ہے کہ زلزلوں کی پیش گوئی پر تحقیق میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے عمارتوں اورانفراسٹریکچر کو زلزلے برداشت کرنے کے قابل بنانے پر توجہ دی جائے۔ نیز زلزلے کے نقصانات سے بچانے کے طریقوں کے بارے عوام کو تعلیم و تربیت فراہم کی جائے۔ انسان زلزلوں کی 100فیصد درست پیش گوئی کرنے کے تاحال قابل نہیں ہوا لیکن اتنا کہا جا سکتا ہے ایک حد تک وہ ایسا ضرور کر سکتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس صلاحیت میں بہتری آتی جا رہی ہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں