1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کیا جعلساز قانون ساز بن سکتا ہے؟

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عدنان بوبی, ‏10 جولائی 2010۔

  1. عدنان بوبی
    آف لائن

    عدنان بوبی ممبر

    شمولیت:
    ‏1 فروری 2009
    پیغامات:
    1,777
    موصول پسندیدگیاں:
    30
    ملک کا جھنڈا:
    کائنات کی تخلیق سے لیکر آج تک انسانوں سے مختلف جرائم کا ارتکاب ہوتا چلا آیا ہے اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا‘ بدنصیب بھٹکے ہوئے لوگ بدعنوانی، بدکاری، دھوکہ بازی اور فراڈ کے مرتکب ہوتے رہیں گے۔ جعلی پاسپورٹ بنیں گے، جعلی ویزے لگیں گے، جعلی کرنسی نوٹ چھپیں گے اور جعلی اسناد کے استعمال سمیت چوری چکاری، ڈاکہ زنی، رشوت خوری اور فریب کا دھندا جاری رہیگا۔ ایک مہذب دنیا اور مہذب معاشرے کا خواب دیکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ان برائیوں کو روکنے کیلئے ہمارے پاس مندرجہ ذیل چار سیڑھیاں ہیں۔
    (1) خاندان یا کنبے کی سطح پر گھر کا سربراہ خلوص نیت کے ساتھ اپنی اولاد کی ایسی تربیت کرنا چاہتا ہے کہ وہ معاشرے کی مذکورہ بالا لعنتوں سے پاک رہے۔ وہ سختی سے تلقین کرتا ہے کہ فراڈ، دھوکہ بازی یا جعلسازی انسان کو رسوائی کے سوا کچھ نہیں دیتی۔
    (2) دوسری سطح پر اداروں کے دیانتدار اور باشعور سربراہ ایسے قوانین وضع کرتے ہیں تاکہ ان کے اداروں میں جعلسازی اور فراڈ کی کوئی گنجائش نہ رہے تاکہ ادارے کی ساکھ پر حرف نہ آئے اور وہ پھلے پھولے۔
    (3) تیسری سطح پر بااصول اور اہل بصیرت ملکی سیاسی قیادت کا چیف ایگزیکٹو، کابینہ اور منتخب قانون ساز اسمبلیاں ملکوں کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لے جانے کیلئے فراڈ اور جعلسازی سمیت معاشرے کی ساری برائیوں کیخلاف پورے زوروشور اور پورے خلوص کیساتھ جہاد میں مصروف رہتی ہیں۔
    (4) بین الاقوامی سطح پر ان برائیوں کو روکنے اور انصاف کے بول بالا کیلئے چوتھی سیڑھی پر اقوام متحدہ اور بین الاقوامی عدالت انصاف جیسے دوسرے ادارے ہیں جو بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کو ممکن بناتے ہیں۔
    قارئین! اس میں شک نہیں کہ مذکورہ بالا برائیاں معاشروں کو گھن کی طرح کھاتی ہیں اور ملک کیلئے ایک بہت برا شگون ہوتی ہیں لیکن اس سے بھی بدترین اور اندوہناک صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب خاندان کا سربراہ اپنی اولاد کو برائی سے روکنے کی بجائے انکی حوصلہ افزائی کرے۔ اداروں کے سربراہ ادارے کی بہتری کی بجائے دوسروں کے فرنٹ مین بن کر اداروں کے اندر سے ساری پونجی چاٹ جائیں اور اداروں کے اندر موجود کرپٹ اور بددیانت لوگوں کی سرپرستی کریں اور ادارے کے مفادات کا نہ سوچیں۔ ملک کا چیف ایگزیکٹو غیرموثر ہو، کابینہ حکومت کو بلیک میل کرکے وزارتیں لینے والوں اور قانون ساز اسمبلیاں جعلسازوں اور فراڈیوں سے بھری ہوں۔ ملکی سلامتی اور بقاء کی محافظ سیاسی قیادت یہ کہے کہ ڈگری ڈگری ہے، اصلی ہو یا جعلی۔ عدالتوں میں سرعام جانبداری کے الزامات لگیں اور ان کو متنازع اور غیرموثر بنانے کی سازش وہ کررہے ہوں جن کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور ہے اور جن کے فرائض میں یہ شامل ہے کہ وہ ملکی سلامتی کیلئے عدالتوں کو مضبوط، موثر اور غیرمتنازع بنائیں۔ اسی طرح دنیا کا امن تباہ کرنے کیلئے یہ کافی ہے کہ اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی ادارے ملکوں کو انصاف دینے کی بجائے بڑی طاقتوں کے گھر کی لونڈی بن جائے۔کئی لوگ جمشید دستی کے دوبارہ انتخاب کو عوامی عدالت کی فتح کہہ کر بغلیں بجاتے ہیں۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ پاکستان کا آئین جس کا موجودہ عدالتی نظام ایک اہم ترین حصہ ہے، پاکستان کے کروڑوں عوام کے منتخب نمائندوں نے ہی بنایا تھا اس لئے پاکستان کی سپریم کورٹ یا ہائیکورٹس کے پیچھے 17 کروڑ پاکستانیوں کی عوامی طاقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ایک انتخابی حلقے سے چند ہزار ووٹ لیکر فراڈ میں ملوث ایک شخص کو قانون ساز اسمبلی کا رکن منتخب کرنے کے جرم کو آئین اور قانون کے مطابق بنائی گئی عدالتوں کے فیصلوں پر کوئی فوقیت نہیں ہوسکتی۔ دراصل عدالتوں سے تصدیق شدہ جرائم کے مرتکب افراد کے حق میں ووٹ دینے والے خواہ انکی تعداد ہزاروں میں ہو یا لاکھوں میں، خود قومی مجرم ہیں۔
    قارئین! بات یہ ہے کہ صرف انصاف کے بول بالا سے ہی قومیں ترقی کرسکتی ہیں اور ان کو کوئی خطرات لاحق نہیں ہوسکتے۔ لوگ ہمیشہ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے قائد سر ونسٹن چرچل کی بات کرتے ہیں کہ اس نے برطانیہ کی گھبرائی ہوئی قوم کو یہ کہہ کر دلاسہ دیا تھا کہ اگر عدالتیں قائم ہیں تو فکر کی بات نہیں ہے۔ دو جہانوں کے سردار اور اس کائنات کے سب سے بڑے قائد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاف کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا تھا:
    ’’… انصاف کی گھڑی برسوں کی عبادت سے بہتر ہے‘‘
    اور حضرت عثمان غنیؓ نے فرمایا:
    ’’… بعض دفعہ جرم معاف کرنا مجرم کو زیادہ خطرناک بنا دیتا ہے‘‘
    اس لئے اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے جعلسازوں کو قانون کی گرفت میں لانا ضروری ہے۔ ان کو تاحیات سیاست سے دور رکھا جائے۔
     
  2. وصی
    آف لائن

    وصی ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اکتوبر 2008
    پیغامات:
    46
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جواب: کیا جعلساز قانون ساز بن سکتا ہے؟

    سارا کام عدالتوں کا نہیں‌عوام کا بھی ہےانقلاب کی تیاری کرو اپنے رب سے وعدہ کرو کہ آئندہ کسی جعلساز کی نہ حمایت کرو گے نہ اپنے کسی دوست عزیز رشتہ دار کو کرنے دو گے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں