1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کیا جشن میلاد النبی منانا بدعت ہے مگر کیوں (ضرور پڑھیئے)۔

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از جبار گجر, ‏27 جنوری 2012۔

موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا جشن میلاد النبی منانا بدعت ہے مگر کیوں (ضرور پڑھیئے)۔

    قرآن بطور "میلاد نامہء انبیاء کرام"

    اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کا میلاد بیان کیا ہے۔ قرآن مجید کی کئی شانوں میں سے ایک شان یہ بھی ہے کہ یہ میلاد نامۂ انبیاء علیہم السلام ہے اور میلاد پڑھنے والی ذات خود ربِ کائنات ہے۔ لہٰذا اس اعتبارسے محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد پڑھنا سنتِ الٰہیہ ہے۔

    میلادِ انبیاء علیہم السلام کی اہمیت

    ولادت ہر انسان کے لیے خوشی و مسرت کا باعث ہوتی ہے۔ اس حوالے سے یومِ پیدائش کی ایک خاص اہمیت نظر آتی ہے، اور یہ اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ان دنوں کی نسبت انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف ہو۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی ولادت فی نفسہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتِ عظمیٰ ہے۔ ہر نبی کی نعمتِ ولادت کے واسطہ سے اس کی اُمت کو باقی ساری نعمتیں نصیب ہوئیں۔ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعثت و نبوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمتِ ہدایتِ آسمانی اور وحی ربانی کی نعمتِ نزولِ قرآن اور ماہ رمضان کی نعمت، جمعۃالمبارک اور عیدین کی نعمت، شرف و فضیلت اور سنت و سیرتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمت، الغرض جتنی بھی نعمتیں ایک تسلسل کے ساتھ عطا ہوئیں، ان ساری نعمتوں کا اصل موجب اور مصدر ربیع الاوّل کی وہ پرنور، پرمسرت اور دل نشین و بہار آفریں سحر ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت ہوئی اور وہ بابرکت دن ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دنیائے آب و گل میں تشریف آوری ہوئی۔ لہٰذا حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پر خوش ہونا اور جشن منانا ایمان کی علامت اور اپنے آقا نبئ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قلبی تعلق کا آئینہ دار ہے۔
    قرآن مجید نے بعض انبیاء کرام علیہم السلام کے ایام ولادت کا تذکرہ فرما کر اس دن کی اہمیت و فضیلت اور برکت کو واضح کیا ہے :

    قرآن میں میلادِ سیدنا اسماعیل و سیدنا اسحاق علیہما السلام کا ذکر

    الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِO
    ’’سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحق (دو فرزند) عطا فرمائے، بے شک میرا رب دعا خوب سننے والا ہےo‘‘ابراهيم، 14 : 39

    قرآن میں میلادِ یحیی علیہ السلام

    حضرت یحییٰ علیہ السلام کے حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
    وَسَلاَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّاO

    ’’اور یحییٰ پر سلام ہو، ان کے میلاد کے دن اور ان کی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گےo‘‘ مريم، 19 : 15

    قرآن میں میلادِ عیسیٰ علیہ السلام

    حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف کلام کی نسبت کرکے قرآن مجید فرماتا ہے :
    وَالسَّلاَمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّاO
    ’’اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن اور میری وفات کے دن اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گاo‘‘مريم، 19 : 33

    قرآن میں میلادِ النبی محمد مصطفی علیہ الصلوۃ و السلام

    3۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا ذکر مبارک قسم کے ساتھ بیان فرمایا۔ ارشاد فرمایا :
    لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِO وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِO وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَO
    ’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوںo (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیںo (اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم علیہما السلام) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئیo‘‘ البلد، 90 : 1 – 3

    میلاد نامۂ یحییٰ علیہ السلام کی تفصیلی تذکرہ

    اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کا میلاد نامہ بھی تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ جب ان کے والد گرامی حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم علیھا السلام کی پرورش کے دوران توسلِ مکانی کرتے ہوئے حجرۂ مریم علیھا السلام میں کھڑے ہوکر دعا کی تو یہ منظر بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
    هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِOفَنَادَتْهُ الْمَلآئِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَـى مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَO آل عمران، 3 : 38 - 41
    ’’اسی جگہ زکریا نے اپنے رب سے دعا کی، عرض کیا : میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو ہی دعا کا سننے والا ہےo ابھی وہ حجرے میں کھڑے نماز ہی پڑھ رہے تھے (یا دعا ہی کر رہے تھے) کہ انہیں فرشتوں نے آواز دی : بے شک اللہ آپ کو (فرزند) یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو کلمۃ اﷲ (یعنی عیسیٰ) کی تصدیق کرنے والا ہوگا اور سردار ہوگا اور عورتوں (کی رغبت) سے بہت محفوظ ہو گا اور (ہمارے) خاص نیکوکار بندوں میں سے نبی ہوگاo

    اگر ولادت کا دن قرآن و سنت اور شریعت کے نقطہ نظر سے خاص اہمیت کا حامل نہ ہوتا تو اس دن پر بطور خاص سلام بھیجنا اور قسم کھانے کا بیان کیا معنی رکھتا ہے؟

    قرآن میں ذکرِ میلادِ مریم علیہا السلام

    حضرت مریم علیھا السلام کی ولادت سے متعلق ذیل میں دی گئی آیات اور ترجمہ پر غور کریں، خود بخود پتہ چل جائے گا کہ یہ نفسِ مضمون کسی تعلیم و تربیت اور رُشد و ہدایت کے لیے نہیں بلکہ فقط ولادت کا قصہ بیان ہو رہا ہے جسے ہم بجا طور پر میلاد نامہ کا نام دے رہے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے :
    إِذْ قَالَتِ امْرَأَةُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُO فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَى وَاللّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَى وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وِإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِO
    ’’اور (یاد کریں) جب عمران کی بیوی نے عرض کیا : اے میرے رب! جو میرے پیٹ میں ہے میں اسے (دیگر ذمہ داریوں سے) آزاد کر کے خالص تیری نذر کرتی ہوں، سو تو میری طرف سے (یہ نذرانہ) قبول فرمالے، بے شک تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہےo پھر جب اس نے لڑکی جنی تو عرض کرنے لگی : مولا! میں نے تو یہ لڑکی جنی ہے، حالاں کہ جو کچھ اس نے جنا تھا اللہ اسے خوب جانتا تھا، (وہ بولی : ) اور لڑکا (جو میں نے مانگا تھا) ہرگز اس لڑکی جیسا نہیں (ہوسکتا) تھا (جو اللہ نے عطا کی ہے)، اور میں نے اس کا نام ہی مریم (عبادت گزار) رکھ دیا ہے، اور بے شک میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود (کے شر) سے تیری پناہ میں دیتی ہوںo‘‘آل عمران، 3 : 35، 36

    مندرجہ بالا آیاتِ قرآنی سے واضح ہوتا ہے کہ پیغمبر کی ولادت کا ذکر (میلاد نامہ) قرآن مجید کے الفاظ میں اللہ کی رحمت ہوتا ہے۔ جب دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کے میلاد کا ذکر رحمتِ ایزدی ہے تو میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بدرجہ اُولیٰ رحمت کیوں نہ ہوگا۔ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑی رحمت اور کیا ہو سکتی ہے، لہٰذا عقلی و منطقی رُو سے بھی میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر، ذکرِ رحمت ہے۔نیز ذکرِ میلادِ انبیاء اور ذکرِ میلادِ محبوبانِ الہی سنتِ الہیہ ہے۔

    قرآن بطور میلاد نامہء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم

    اگر قرآنی آیات کے مفہوم پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ربِ کریم نے امام الانبیاء حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جتنے بھی انبیاء علیھم السلام کا ذکر کیا وہ فقط ذکرِ ولادت تک محدود تھا، مگر جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا تو اس شانِ امتیاز کے ساتھ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی نسبت سے نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہرِ ولادت بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباو واجداد اور خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا :
    لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِO وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِO وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَO
    ’’میں اس شہر (مکہ) کی قسم کھاتا ہوںo (اے حبیبِ مکرم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیںo (اے حبیبِ مکرم! آپ کے) والد (آدم علیہ السلام یا ابراہیم علیہ السلام ) کی قسم اور (ان کی) قسم جن کی ولادت ہوئیo‘‘البلد، 90 : 1 - 3
    اللہ تبارک و تعالیٰ نے شہر مکہ کو اس وجہ سے لائقِ قسم نہیں ٹھہرایا کہ وہاں بیت اللہ، حجرِ اسود، مطاف، حطیم، ملتزم، مقامِ ابراہیم، چشمۂ زَم زَم، صفا و مروہ، میدانِ عرفات، منیٰ اور مزدلفہ ہیں، بلکہ قسم کھانے کی وجہ قرآن کی رُو سے یہ ہے کہ اس شہر کو محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے سکونت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے شہر مکہ کی قسم صرف اس لیے کھائی کہ وہ اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسکن ہے، پھر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جملہ آباء و اَجداد کی قسم کھائی۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کے پیدا ہونے کی قسم نہیں کھائی بلکہ صرف ایک ہستی کی ولادت کی قسم کھائی ہے۔
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ کا ذکر اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں مختلف مقامات پر یوں کیا ہے :
    كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ.
    ’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہی میں سے (اپنا) رسول بھیجا۔‘‘ البقره، 2 : 151
    لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ.
    ’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے عظمت والا رسول بھیجا۔‘‘ آل عمران، 3 : 164
    يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَآمِنُواْ خَيْرًا لَّكُمْ.
    ’’اے لوگو! بے شک تمہارے پاس یہ رسول تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ تشریف لایا ہے سو تم (ان پر) اپنی بہتری کے لیے ایمان لے آؤ۔‘‘ النساء، 4 : 170
    يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُواْ عَن كَثِيرٍ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌO
    ’’اے اہلِ کتاب! بے شک تمہارے پاس ہمارے (یہ) رسول تشریف لائے ہیں جو تمہارے لیے بہت سی ایسی باتیں (واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب میں سے چھپائے رکھتے تھے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے درگزر (بھی) فرماتے ہیں، بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید ‘ؕ المائدة، 5 : 15
    يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ أَن تَقُولُواْ مَا جَاءَنَا مِن بَشِيرٍ وَلاَ نَذِيرٍ فَقَدْ جَاءَكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌO
    ’’اے اہلِ کتاب! بے شک تمہارے پاس ہمارے (یہ آخر الزمان) رسول پیغمبروں کی آمد (کے سلسلے) کے منقطع ہونے (کے موقع) پر تشریف لائے ہیں جو تمہارے لیے (ہمارے احکام) خوب واضح کرتے ہیں، (اس لیے) کہ تم (عذر کرتے ہوئے یہ) کہہ دو گے کہ ہمارے پاس نہ (تو) کوئی خوش خبری سنانے والا آیا ہے اور نہ ڈرانے والا، (اب تمہارا یہ عذر بھی ختم ہو چکا ہے کیونکہ) بلاشبہ تمہارے پاس (آخری) خوش خبری سنانے اور ڈرانے والا (بھی) آگیا ہے، اور اللہ ہر چیز پر بڑا قادر ہےo‘‘المائده، 5 : 19
    لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌO
    ’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول تشریف لائے، تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیںo‘‘التوبه، 9 : 128
    وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَO
    ’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کرo‘‘الأنبياء، 21 : 107
    هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍO
    ’’وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک (باعظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو بھیجا وہ ان پر اس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور ان (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، بے شک وہ لوگ ان (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھےo‘‘الجمعة، 62 : 2
    إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا.
    ’’بے شک ہم نے تمہاری طرف ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا ہے۔‘المزمل، 73 : 15
    مذکورہ بالا آیات میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس جہانِ رنگ و بو میں تشریف آوری کا ذکر در حقیقت ذکرِ ولادت ہی ہے۔ ان آیات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا ذکر بلا اِستثنا تمام نسلِ انسانی کے لیے کیا ہے۔ اس میں تمام اہلِ ایمان کے علاوہ جمیع اہلِ کتاب اور کفار و مشرکین شامل ہیں۔ ہر ایک کو مطلع کیا گیا کہ حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں، اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کو تمام کائنات کے لیے نعمت اور رحمت قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کا ذکر اِس قدر اِہتمام اور تواتر سے کیا ہے کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ معمول کی بات ہے

    لہذا یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی کہ ذکرِ میلاد الانبیاء اور بالخصوص ذکرِ میلاد النبی :drood: سنتِ الہی ہے۔
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا جشن میلاد النبی منانا بدعت ہے مگر کیوں (ضرور پڑھیئے)۔

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عظیم فضلِ الہی اور عظیم رحمتِ الہی ہیں۔
    اور اس عظیم نعمتِ الہی پر خوشی منانا حکمِ قرآنی ہے

    اللہ تعالی نے سورہ الجمعہ میں اپنے فضل عظیم کا ذکر فرمایا۔
    ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِO
    یہ (یعنی اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد اور اِن کا فیض و ہدایت) اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہےo‘‘ الجمعه، 62 : 3، 4

    اَئمہ تفسیر کے نزدیک ’’فَضْلُ اﷲِ‘‘ سے مراد

    سورۃ الجمعۃ کی آیت نمبر 4 کے الفاظ ’’ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ‘‘ اور ’’وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ‘‘ رسولِ رحمت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے لیے وحی کیے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ورودِ مسعود عالم انسانیت کے لیے ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے فضل سے تعبیر فرمایا ہے۔ اگر کسی نے فضل کو جیتی جاگتی صورت میں دیکھنا ہو تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں دیکھ لے۔ اس نکتے کی توضیح و تشریح خود قرآن مجید نے فرما دی ہے۔ ذیل میں ہم اس خاص آیت کریمہ کے حوالے سے چند اہم تفاسیر کا حوالہ ذکر کر رہے ہیں :
    حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (م 68ھ)الْفَضْلِ الْعَظِيمِ کی مراد یوں بیان کرتے ہیں :
    (وَاﷲُ ذُو الْفَضْلِ) المن (الْعَظِيْمِ) بالإسلام والنبوة علي محمد صلي الله عليه وآله وسلم ، و يقال : بالإسلام علی المؤمنين، ويقال : بالرسول والکتاب علی خلقه.
    ’’فضلِ عظیم یعنی دینِ اسلام اور نبوتِ محمدی کی صورت میں احسانِ عظیم ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : مومنوں پر اسلام کی صورت میں احسان عظیم ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے : مخلوق پر وجودِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور نزولِ قرآن کی صورت میں احسانِ عظیم ہے۔‘‘
    فيروز آبادي، تنوير المقباس من تفسير ابن عباس : 471

    علامہ زمخشری (467۔ 538ھ) نے بیان کرتے ہیں :

    (ذٰلِکَ) الفضل الذي أعطاه محمدًا وهو أن يکون نبي أبناء عصره، و نبي أبناء العصور الغوابر، هو (فَضْلُ اﷲِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ).
    ’’(ذٰلِکَ) سے مراد وہ فضل ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرمایا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے زمانے کے لوگوں کے لیے (تا قیامت) اور پہلے زمانوں کے لوگوں کے لیے بھی نبی ہونا ہے۔ یہی اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے۔‘‘
    زمخشري، الکشاف عن حقائق غوامض التنزيل وعيون الأقاويل فی وجوه التأويل، 4 : 530

    علامہ طبرسی (م 548 ھ) مذکورہ الفاظ کی مراد یوں واضح کرتے ہیں :

    (وَاﷲُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ) ذو المن العظيم علي خلقه ببعث محمد صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’وہ اُس اِحسانِ عظیم والا ہے جو اُس نے اپنی مخلوق پر بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے کیا۔‘‘
    طبرسي، مجمع البيان فی تفسير القرآن، 10 : 429
    یعنی رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دنیائے انسانیت کی طرف بھیجا جانا اﷲ تعالیٰ کا عظیم تر فضل اور احسان ہے۔

    علامہ ابن جوزی (510۔ 579ھ) فرماتے ہیں :

    (وَاﷲُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِيْمِ) بإرسال محمد صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔ اور (اس کا یہ فضل) بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہوا۔‘‘
    ابن جوزي، زاد المسير في علم التفسير، 8 : 260
    یعنی رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بنی نوع انسان میں تشریف آوری اور بعثت اﷲ کا بہت بڑا فضل (الفضل العظیم) اور انعام ہے۔

    امام نسفی (م 710 ھ) فرماتے ہیں :

    (ذٰلِکَ) الفضل الذي أعطاه محمدًا. . . وهو أن يکون نبي أبناء عصره ونبي أبناء العصور الغوابر.
    ’’(ذٰلِکَ) سے مراد وہ فضل ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرمایا۔ اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے زمانے کے لوگوں کے لیے (تا قیامت) اور پہلے زمانوں کے لوگوں کے لیے بھی نبی ہونا ہے۔‘‘
    نسفي، مدارک التنزيل و حقائق التأويل، 5 : 198

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور اور بعثت مبارکہ اُن سب کو اپنے دامنِ رحمت میں لیے ہوئے ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے تھے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد قیامت تک آئیں گے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے زمانوں میں آنے والے اور بعد میں آنے والے تاقیامِ قیامت آپ کے فیوضاتِ رسالت سے مستفیض ہوں گے۔ یہ ہے ’’ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ‘‘ کی تفسیر جس میں امام نسفی نے دونوں معانی کا اِحاطہ کیا ہے۔ ’’وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ‘‘ میں وہ لوگ شامل ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد پیدا ہوں گے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ دیکھا ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے بھی رسول ہوں گے اور ان کا شمار بھی اس زمرے میں ہو گا جن کے لیے ’’فَلْيَفْرَحُواْ‘‘کا حکم اِلٰہی وارِد ہوا ہے۔ لہٰذا ان کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشیاں منائیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور اس عالم ارضی میں ان کے لیے مژدۂ عظیم بن کر آیا ہے جو ماضی، حال اور مستقبل کی صدیوں میں آتے رہے یا آتے رہیں گے۔ اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔

    امام خازن (678۔ 741ھ) ’’الْفَضْلِ الْعَظِيمِ‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

    أي علي خلقه حيث أرسل فيهم رسوله محمدا صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق پر فضل ہے جو اس نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیج کر فرمایا۔‘‘
    خازن، لباب التأويل في معاني التنزيل، 4 : 265

    امام ابو حیان اندلسی (682۔ 749ھ) اس لفظ کی مراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
    و (ذٰلِکَ) إشارة إلی بعثته عليه السلام.
    ’’ذٰلِکَ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ کی طرف اشارہ ہے۔‘‘
    ابوحيان، تفسير البحر المحيط، 8 : 265

    امام ابن کثیر (701۔ 774ھ) تفسیر کرتے ہیں :

    يعني ما أعطاء اﷲ محمدًا صلي الله عليه وآله وسلم من النبوة العظيمة، وما خص به أمته من بعثته صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’اس سے مراد وہ نبوتِ عظیمہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرمائی، اور (اس سے مراد) وہ خصائص ہیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ذریعے اُمت کو نوازا گیا۔‘‘
    ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 4 : 364
    پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ورودِ مسعود اور نبوت دونوں فی الحقیقت اﷲ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے۔

    امام سیوطی (849۔ 911ھ) لکھتے ہیں :

    (ذٰلِکَ فَضْلُ اﷲِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ) النبي صلي الله عليه وآله وسلم ومن ذکر معه.
    ’’ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ) میں فضل سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مذکور لوگ ہیں۔‘‘
    سيوطي، تفسير الجلالين : 553

    علامہ آلوسی (1217۔ 1270ھ) اس لفظ کی مراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :

    (ذٰلِکَ) إشارة إلي ما تقدم من کونه عليه الصلاة والسلام رسولا في الأميين ومن بعدهم معلمًا مزکيا، وما فيه من معني البعد للتعظيم أي ذٰلِک الفضل العظيم.
    ’’ذٰلِکَ اسی امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سورت کی ابتداء میں جو ذکر کیا گیا ہے کہ رسول معظم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُمیوں اور ان کے بعد آنے والوں کے درمیان انہیں تعلیم دینے اور ان کا تزکیہ کرنے کے لیے معبوث فرمائے گئے ہیں، اور اِشارۂ بعید۔ ذٰلِکَ۔ تعظیم کے لیے ہے یعنی بے شک وہ فضل عظیم ہیں۔‘‘
    آلوسي، روح المعاني في تفيسر القرآن العظيم والسبع المثاني، 28 : 94، 95

    شیخ احمد مصطفیٰ مراغی (1300۔ 1372ھ) مذکورہ الفاظ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

    أي وإرسال هذا الرسول إلي البشر مزکيا مطهرًا لهم، هاديا معلما، فضل من اﷲ، و إحسان منه إلي عباده.
    ’’اللہ تعالیٰ کا اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم انسانیت کی طرف تزکیہ کرنے والا، پاک کرنے والا، ہدایت دینے والا اور علم دینے والا بنا کر بھیجنا اللہ کا اپنے بندوں پر فضل و اِحسان ہے۔‘‘
    احمد مصطفي، تفسير القرآن الکريم، 10!28 : 96

    عصر حاضر کے ایک نام وَر مصری مفسر شیخ طنطاوی جوہری (م 1359 ھ) لکھتے ہیں :

    (وَاﷲُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ) فإذا کان محمد قد أرسلته إليکم أيها الأميون وإلي من يأتي بعدکم.
    ’’اور اﷲ بہت بڑے فضل والا ہے۔‘‘ میرا یہ فضل تم پر اُس وقت ہوا جب میں نے اے اُمّیو (اَن پڑھ لوگو)! اپنے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمہاری طرف اور تمہارے بعد آنے والوں کی طرف بھیجا۔‘‘
    طنطاوي جوهري، الجواهر في تفسير القرآن الکريم، 24 : 175

    اﷲ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی نعمتوں کا شکر بجا لانے کا ایک مقبولِ عام طریقہ خوشی و مسرت کا اِعلانیہ اظہار ہے۔ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑی نعمت اور کیا ہو سکتی ہے! یہ وہ نعمتِ عظمیٰ ہے جس کے لیے خود ربِ کریم نے خوشیاں منانے کا حکم فرمایا ہے :
    قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَO
    ’’فرما دیجئے : (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ (خوشی منانا) اس سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیںo‘‘يونس، 10 : 58

    اَئمہ تفسیر کے نزدیک فضل و رحمت کا مفہوم

    ہم ذیل میں سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 میں مذکور الفاظ۔ فضل اور رحمت۔ کی تفسیر اور توضیح و تشریح چند مستند ائمہ تفاسیر کی آراء کی روشنی میں بیان کریں گے تاکہ نفسِ مضمون زیادہ بہتر طور پر سمجھا جا سکے :
    علامہ ابن جوزی (510۔ 579ھ) سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما کا قول نقل کرتے ہیں
    إن فضل اﷲ : العلم، ورحمته : محمد صلي الله عليه وآله وسلم. رواه الضحاک عن ابن عباس.
    ’’ضحاک نے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے روایت کیا ہے کہ بے شک ’’فضل اﷲ‘‘ سے مراد علم (یعنی قرآن) ہے، اور رحمت سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘ ابن جوزي، زاد المسير في علم التفسير، 4 : 40

    امام ابوحیان اندلسی (682۔ 749ھ) ضحاک کے حوالے سے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کی روایت نقل کرتے ہیں :
    وقال ابن عباس فيما روي الضحاک عنه : الفضل : العلم، والرحمة : محمد صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’ضحاک نے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا ہے کہ فضل سے مراد علم (یعنی قرآن) اور رحمت سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘ ابوحيان، تفسير البحر المحيط، 5 : 171

    امام سیوطی (849۔ 911ھ) نے بھی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مذکورہ بالا قول نقل کیا ہے :
    وأخرج أبو الشيخ عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما في الآية، قال : فضل اﷲ : العلم، ورحمته : محمد صلي الله عليه وآله وسلم. قال اﷲ تعالي : (وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ)
    ’’ابو شیخ نے اس آیت کے بارے میں حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا ہے کہ فضل اﷲ سے مراد علم (یعنی قرآن) ہے، اور رحمت سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے : (اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر)۔‘‘
    (1) الأنبياء، 21 : 107
    (2) سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 4 : 330
    علامہ آلوسی (1217۔ 1270ھ) بیان کرتے ہیں :
    و أخرج أبو الشيخ عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما أن الفضل العلم والرحمة محمد صلي الله عليه وآله وسلم، وأخرج الخطيب وابن عساکر عنه تفسير الفضل بالنبي عليه الصلاة والسلام.
    ’’ابو شیخ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا ہے کہ فضل سے مراد علم ہے اور رحمت سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ خطیب اور ابن عساکر نے ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے نقل کیا ہے کہ فضل سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
    آلوسي، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، 11 : 141

    میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جشن اور عبادات

    مذکورہ بالا آیات و تفاسیر میں مفسرین کے اقوال یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی اللہ تعالی کا فضل ِ عظیم اور نعمتِ بے مثال ہیں اور ایک مومن اس سے بڑی نعمت کا تصور نہیں کرسکتا ۔ اب چونکہ اس نعمتِ عظمی پر خوش ہونے اور خوشیاں منانے کا واضح حکم ہےاور اسی سے متصل اگلے حصے میں یہ بھی واضح فرما دیا کہ خوشی ایسے منائی جائے کہ جس میں خرچ بھی کیا جائے۔ اور ساتھ ہی تنبیہ کردی گئی کہ یاد رکھو اس خوشی میں خرچ کرنا تمھارے لیے بچا بچا کر جمع کرکے رکھنے سے کہیں بہتر ہے۔

    هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ کے تحت جشن میلاد کی تقریبات کا اہتمام

    آیت کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوشی منانا جمع کرکے رکھنے سے بہتر ہے۔ سوال یہ کہ کیا چیز جمع ہو سکتی ہے؟
    دو چیزیں ہی جمع کی جاسکتی ہیں :
    1۔ دنیا کے حوالے سے جمع کرنا چاہیں تو مال و اَسباب اور دولت وغیرہ جمع کی جاسکتی ہے۔ اور
    2۔ اگر آخرت کے حوالے سے جمع کرنا ہو تو اَعمالِ صالحہ مثلًا نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، صدقات و خیرات وغیرہ جمع ہو سکتے ہیں۔ مگر قرآن حکیم نے یہاں نہ مال و دولت کی تخصیص کی ہے اور نہ ہی اَعمالِ صالحہ اور تقویٰ وغیرہ کی نشان دہی کی ہے۔ بلکہ آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا کلمہ مَا عام ہے جواپنے اندر عمومیت کا مفہوم لیے ہوئے ہے اور دنیا و آخرت دونوں کو حاوی ہے۔
    مذکورہ بالا دونوں نکات ذہن نشین رکھ کر دیکھا جائے تو اس آیت سے مراد ہوگا : لوگو! تم اگر دنیا کے مال و دولت جمع کرتے ہو، جائیدادیں، کارخانے اور فیکٹریاں بناتے ہو یا سونے چاندی کے ڈھیروں کا ذخیرہ کرتے ہو غرضیکہ انواع و اقسام کی دولت خواہ نقد صورت میں ہو یا کسی جنس کی صورت میں، میرے حبیب کی آمد اور ولادت پر خوشی منانا تمہارے اس قدر مال و دولت جمع کرنے سے بہ ہر حال بہتر ہے۔ اور اگر آخرت کے حوالے سے سجود، رکوع، قیام و قعود کا ذخیرہ کر لو، نفلی عبادات جمع کر لو، فرائض کی بجا آوری سے اجر و ثواب کا ذخیرہ کرلو، غرضیکہ نیکی کے تصور سے جو چاہو کرتے پھرو لیکن اس نعمت پر شکرانے کے لیے جشن منانا اور اس پر اپنا مال و دولت خرچ کرنا، یہ تمہارے اَعمالِ صالحہ کے ذخیرے سے زیادہ گراں اور زیادہ بہتر ہے۔ اس لیے کہ اگر تم نے اس نعمتِ عظمیٰ کی آمد پر خوشی نہ کی تو تم نے اَعمالِ صالحہ کی بھی قدر نہ کی۔ چونکہ سب اعمال تو تمہیں اسی کے سبب سے نصیب ہوئے؛ قرآن اسی کے سبب سے ملا، نماز، روزہ، حج وغیرہ اسی کے توسط سے عطا کیے گئے، ایمان و اسلام بھی اسی کے ذریعے سے ملے، دنیا و آخرت کی ہر نیکی اور عزت و مرتبہ بھی اسی کے سبب سے ملا، بلکہ نیکی، نیکی اِنتخابِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بنی اور برائی، برائی اِجتنابِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرار پائی۔ اور حق تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ عطا کرنے والے رب العزت کی معرفت تمہیں اسی کے سبب سے ملی۔ پس اس ہستی کے عطا کیے جانے پر خوشی اور مسرت کا اظہار کر کے باری تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کا یہ عمل سب سے بڑھ کر ہونا چاہئے۔

    جشنِ میلاد۔ شکرانۂ نعمتِ عظمیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

    خالقِ کائنات نے بنی نوع انسان پربے حد و حساب احسانات و انعامات فرمائے ہیں۔ اس نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا کیں۔ کھانے پینے اور دیگر سامانِ آرام و آسائش اور زینت و آرائش سے نوازا۔ ہمارے لیے دن رات کا نظام مرتب کیا۔ سمندروں، پہاڑوں اور فضاؤں کو ہمارے لیے مسخر فرمایا مگر اس نے کبھی اپنی کسی نعمت کا احسان نہیں جتلایا۔ اس ذات رؤف و رحیم نے ہمیں اپنی پوری کائنات میں شرف و بزرگی کا تاج پہنایا اورأَحْسَنِ تَقْوِيمٍ کے سانچے میں ڈھال کر رشکِ ملائکہ بنایا۔ ہمیں ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی اور بچوں جیسے پیارے رشتے عطا کیے۔ غرضیکہ اَنفس و آفاق کی ہزاروں ایسی نعمتیں جو ہمارے حیطۂ ادراک سے بھی باہر ہیں اس نے ہمیں عطا فرمائیں، لیکن بطور خاص کسی نعمت کا احسان نہیں جتلایا۔ اس لیے کہ وہ تو اتنا سخی ہے کہ کوئی اسے مانے یا نہ مانے وہ سب کو اپنے کرم سے نوازتا ہے اور کسی پر اپنا احسان بھی نہیں جتلاتا۔ لیکن ایک نعمتِ عظمیٰ ایسی تھی کہ اﷲ تعالیٰ نے جب اسے حریمِ کبریائی سے بنی نوع انسان کی طرف بھیجا اور کائنات کو اس نعمت سے سرفراز فرمایا تو نہ صرف اس کا ذکر کیا بلکہ تمام نعمتوں میں سے فقط اس کا احسان جتلایا اور اس کا اظہار عام الفاظ میں نہیں بلکہ دو تاکیدوں۔ لَ اور قَدْ۔ کے ساتھ کیا۔ ارشاد فرمایا :
    لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ.
    ’’بے شک اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں پر بڑا اِحسان فرمایا کہ اُن میں اُنہی میں سے (عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا۔‘‘ ۔ آل عمران، 3 : 164
    آیت مبارکہ واضح کرتی ہے کہ اﷲ رب العزت فرما رہا ہے : اے لوگو! تم پر میرا یہ بہت بڑا احسان اور کرم ہے کہ میں نے اپنے محبوب کو تمہاری جانوں میں سے تمہارے لیے پیدا کیا۔ تمہاری تقدیریں بدل دیں، بگڑے ہوئے حالات سنوار دیے اور تمہیں ذلت و گمراہی کے گڑھے سے اٹھا کر عز و شرف سے ہم کنار کر دیا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ میرے کارخانۂ قدرت میں اس سے بڑھ کر کوئی نعمت تھی ہی نہیں۔ جب میں نے وہی محبوب تمہیں دے دیا جس کی خاطر میں کائنات کو عدم سے وجود میں لایا اور اس کو انواع و اقسام کی نعمتوں سے مالا مال کر دیا تو اب ضروری تھا کہ میں رب العالمین ہوتے ہوئے بھی اس عظیم نعمت کا احسان جتلاؤں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ امتِ مصطفوی اسے عام نعمت سمجھتے ہوئے اس کی قدر و منزلت سے بے نیازی کا مظاہرہ کردے اور میرے اس احسانِ عظیم کی ناشکری کرنے لگے۔ اس احسان جتلانے میں بھی اُمت مسلمہ کی بھلائی کو پیش نظر رکھا گیا اور قرآن حکیم نے اس واضح حکم کے ذریعے ہر فرزندِ توحید کو آگاہ کر دیا کہ وہ کبھی اﷲ کے اس عظیم احسان کو فراموش نہ کرے بلکہ اس نعمتِ عظمیٰ پر شکرانہ ادا کرتے ہوئے جشنِ مسرت منائے۔

    نعمتوں کا شکر بجا لانا کیوں ضروری ہے؟

    اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے فضل و کرم پر شکر بجا لانا تقاضائے بندگی ہے مگر قرآن مجید نے ایک مقام پر اس کی ایک اور حکمت بھی بیان فرمائی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
    لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌO
    ’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہےo‘‘ ابراهيم، 14 : 7
    نعمتوں پر شکر بجا لانا اس آیت کے تحت مزید نعمتوں کے حصول کا پیش خیمہ ہے، یعنی اﷲ تعالیٰ اپنے شاکر بندوں پر مزید نعمتیں نچھاور کرتا ہے لیکن کفرانِ نعمت اتنا ناپسندیدہ عمل ہے کہ ایسا کرنے والوں کو عذابِ الٰہی کی وعید سنائی گئی ہے۔ اِس لیے دیگر اِنعاماتِ اِلٰہی کا مستحق قرار پانے کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی صورت میں میسر آنے والی نعمتِ عظمیٰ پر شکر بجالانا ضروری ہے۔

    شکرانۂ نعمت کے معروف طریقے

    اِس باب کے آخر میں ہم بالاختصار نعمتوں پر شکر بجا لانے کی مختلف صورتیں بیان کریں گے جن کی سند بھی قرآن حکیم نے ہی فراہم کی ہے۔ نعمتِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکرانہ ادا کرتے وقت بھی یہی طریقے اختیار کئے جاتے ہیں :

    (1) ذکرِ نعمت

    قرآن حکیم نے نعمتوں کا شکر بجالانے کی ایک صورت یہ بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی نعمت کو یاد رکھا جائے، جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بنی اسرائیل پر ہونے والی نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورۃ البقرۃ میں ہے :
    يَا بَنِي إِسْرَآئِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ.
    ’’اے اولادِ یعقوب! میرے وہ انعام یاد کرو جو میں نے تم پر کیے۔‘‘ البقره، 2 : 47
    یہی مضمون سورۃ آل عمران کی اس آیت میں بھی ضمناً آیا ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو حکم دیا کہ وہ اس کی نعمت کو یاد کریں :
    وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا.
    ’’اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہو گئے۔‘‘۔آل عمران، 3 : 103
    اس سے پتہ چلتا ہے کہ اب کوئی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرے گا تو اس سے اس کی اپنی ذات کو فائدہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد مبارک کے موقع پر اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں بطور شکرانہ خوشی منائے گا تو یہ بھی اس کے اپنے مفاد میں ہے، ایسا کرنے والا کسی پر احسان نہیں کر رہا بلکہ اپنا ہی توشۂ آخرت جمع کر رہا ہے۔

    (2) عبادت و بندگی

    اﷲ کی نعمتوں کا شکر اُس کی عبادت و بندگی کے ذریعے بھی ادا کیا جاتا ہے۔ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ جیسی فرض عبادات کے علاوہ دیگر نفلی عبادات سب اﷲ کی نعمتوں پر شکرانے کی بہترین صورتیں ہیں۔
    علاوہ ازیں صدقات و خیرات دے کر غریب، بے سہارا اور یتیم لوگوں کی پرورش و نگہداشت کر کے بھی اﷲ تعالیٰ کی دی گئی نعمت پر شکر بجا لانا اَمرِ مستحب ہے۔

    (3) تحدیثِ نعمت

    نعمت کا شکر بجا لانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان اللہ کی عطا کردہ کسی نعمت پر اُس کا خوب اِظہار کرے۔ خوشی منانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے سامنے اس کا تذکرہ بھی کرے۔ اِس کا ذکر قرآن حکیم نے یوں کیا ہے :
    وَ اَمَّا بِنِعْمَة رَبِّکَ فَحَدِّثْo
    ’’اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریںo‘‘ الضحیٰ، 93 : 11
    گزشتہ صفحات میں بیان کردہ آیاتِ قرآنی میں ذکرِ نعمت کا حکم ہے جس سے مراد ہے کہ نعمت کو دل سے یاد رکھا جائے اور زبان سے اس کا چرچا کیا جائے لیکن وہ ذکر لوگوں کے لیے نہیں بلکہ اﷲ کے لیے ہو۔ مذکورہ بالا آیت میں تحدیثِ نعمت یعنی کھلے بندوں اس نعمت کا تذکرہ کرنے کا حکم دیا گیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ مخلوقِ خدا کے سامنے نعمت کا خوب چرچا کیا جائے۔ چنانچہ ذکر اور تحدیثِ نعمت میں بنیادی فرق یہ ہوا کہ ذکر اللہ کے لیے ہوتا ہے جب کہ تحدیث کا تعلق زیادہ تر مخلوق کے ساتھ ہے یعنی لوگوں میں چرچا کرنا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :
    فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِO
    ’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور (میری نعمتوں کا) اِنکار نہ کیا کروo‘‘ البقره، 2 : 152
    یہاں ذکر سے مراد اللہ کو یاد کرنا ہے، لیکن تحدیثِ نعمت سے مراد ہے کہ خالی ذکر ہی پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس نعمت کا ایسا اظہار کیا جائے کہ اسے خلقِ خدا بھی سنے، اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے درمیان کیا جائے جو کہ منشائے الٰہی ہے۔
    تحدیثِ نعمت کے بیان میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ نعمتِ خداوندی کے نزول کا علم زیادہ سے زیادہ خلقِ خدا تک پہنچے اور لوگ کثرت کے ساتھ اس ادائے شکر میں شریک ہوں۔ لہٰذا اب ذکر اور تحدیث میں دوسرا بڑا اور واضح فرق یہ ہوا کہ ذکر تنہا شکر بجا لا کر بھی ہوسکتا ہے مگر تحدیثِ نعمت کا تقاضا ہے کہ اسے بڑے بڑے جلسوں اور اجتماعات میں خلقِ خدا تک پہنچایا جائے۔ اس کے شکرانے کے لیے اس کی نعمت کے شایانِ شان عظیم محافل و مجالس اور اجتماعات کا اہتمام کیا جائے اور ان محافل میں اس نعمتِ کبریٰ کا تذکرہ کیا جائے۔

    ’’تحدیثِ نعمت‘‘ کیسے کی جائے؟

    قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ جب اُمتِ مسلمہ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت جیسی عظیم ترین نعمت کے صلہ میں تحدیثِ نعمت کے فریضہ سے عہدہ برآ ہوگی تو تذکارِ نعمت میں کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت پڑھی جائے گی، کبھی صلوٰۃ و سلام کا نذرانہ پیش کیا جائے گا، کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و شمائل کا ذکر ہوگا، کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی بات ہو گی اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ سیرت کا ذکر چھیڑا جائے گا۔ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن صورت اور دل رُبا اداؤں کا تذکرہ کرے گا اور کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیاری پیاری اور کریمانہ عادات مبارکہ بیان کرے گا۔ یہ سب چیزیں وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ کی تفسیر میں ہیں اور اس نعمت کبریٰ کی یاد کی مختلف صورتیں ہیں جو ذکرِ نعمت کے ذیل میں آتی ہیں۔ اگر تھوڑا سا بھی غور کر لیا جائے تو تمام محافلِ میلاد کی عام صورت حال یہی ہوتی ہے اور ان ہی چیزوں کے بیان کو ان محافل میں خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔

    (4) جشنِ عید کے طور پر خوشی کا اظہار

    ذکرِ نعمت اور تحدیثِ نعمت کے علاوہ اﷲ کی نعمتوں اور اس کی عنایات کریمانہ پر شکر کے اظہار کا ایک طریقہ اور صورت یہ بھی ہے کہ اس خوشی و مسرت کا اِظہار جشن اور عید کے طور پر کیا جائے۔ پہلی امتوں کا بھی ادائے شکر کے حوالے سے یہی وطیرہ تھا، جس کا ذکر گزشتہ اَوراق میں ہو چکا ہے۔ اور یہ سنتِ انبیاء ہے کہ جس دن اﷲ کی کوئی خاص نعمت میسر آئے اس دن کو بطور عید منایا جائے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں یوں ملتجی ہوتے ہیں :
    رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا.
    ’’اے اﷲ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہوجائے، ہمارے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی)۔‘‘ المائده، 5 : 114
    یہ بات ذہن میں رہے کہ یہاں مائدہ جیسی عارضی نعمت کے حصول پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام عید منانے کا ذکر کرتے ہیں -
    نزولِ مائدہ کی نعمت کو ہمارے آقا و مولا حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ کے ساتھ کیا نسبت ہو سکتی ہے ؟ کہاں وہ ایک عارضی خوانِ نعمت اور کہاں وہ دائمی اور ابدالاباد بلکہ دونوں جہانوں میں جاری رہنے والی نعمت جو حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں نوعِ انسانی کو نصیب ہوئی! ان دونوں کا آپس میں تقابل و موازنہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم اس ابدی و دائمی نعمت پر کماحقہ اظہار تشکر کر رہے ہیں یا نہیں۔
    یہاں نزولِ مائدہ اور ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تقابل قطعاً مقصود نہیں، سردست ایک تاریخی حقیقت پر مبنی اہم اور توجہ طلب پہلو کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔سابقہ امتیں تو مائدہ جیسی نعمت کے شکرانے پر عیدیں مناتی رہی ہیں جس کا ذکر قران نے بھی محفوظ رکھا ہے کیوں کہ یہ بھی رضائے الٰہی کے حصول کی ایک صورت ہے اور سنت انبیاء ہے۔ تو جب عمومی نعمتوں کے حصول اور ان کے نزول پر عید منانا انبیاء علمہ السلام کی سنت اور اﷲ کے حکم کی پیروی قرار پائی تو پھر میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی نعمتِ عظمیٰ کے حصول پر۔ کہ جس کے توسط سے کائنات ہست و بود کو ساری نعمتیں عطا ہوئی ہیں۔ یہ امت عید اور جشن کیوں نہ منائے۔
    گزشتہ صفحات میں دی گئی تفصیلات سے یہ اَمر بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا نصِ قرآن سے ثابت ہے۔ اِس پر کسی قسم کا اِعتراض و اِبہام پیدا کرنا قرآنی تعلیمات سے عدم آگہی کے مترادف ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر خوشی منانے کے جائز اور مستحسن اَمر کو باعثِ نزاع بنانے کی بجائے اِس خوشی میں دل و جان سے شریک ہوکر اُلوہی نعمتوں اور نبوی فیوضات سے سیراب ہوا جائے۔

    حوالہ جات کتاب میلاد النبی :drood:
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا جشن میلاد النبی منانا بدعت ہے مگر کیوں (ضرور پڑھیئے)۔

    اسلام میں دن منانے اور اہم واقعات کی یاد ماننے کا تصور
    نماز پنج گانہ یادِ انبیائے کرام

    کسی واقعہ کی یاد منانا شعائر اسلام سے ثابت شدہ اَمر ہے۔ دین کی بنیاد اور ستون قرار دی جانے والی پانچ نمازیں۔ جنہیں اِسلام اور کفر کے مابین اِمتیاز کا درجہ حاصل ہے اور جو تمام مسلمانوں پر فرض کی گئی ہیں۔ دراَصل اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اَنبیاء کے اُن سجدہ ہائے شکر کی یاد منانے سے عبارت ہیں جو انہوں نے اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں مختلف مواقع پر بہ صورتِ نوافل ادا کیے۔ اپنے محبوب بندوں کی یہ ادا اﷲتعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ اس نے یہ نوافل اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو بطور فرض نماز عطا کر دیئے۔
    امام طحاوی (229. 321ھ) پانچ فرض نمازوں کی نسبت امام محمد بن عائشہ کا قول نقل کرتے ہوئے شرح معانی الآثار میں درج ذیل تفصیل بیان کرتے ہیں :
    1۔ نمازِ فجر سیدنا آدم علیہ السلام کی یادگار ہے
    إن آدم عليه السلام لما تِيبَ عليه عند الفجر، صلي رکعتين، فصارت الصبح.
    ’’جب صبح کے وقت ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تو آپ نے (شکرانے کے طور پر) دو رکعت نماز پڑھی، پس وہ نمازِ فجر ہوگئی۔‘‘
    2۔ نمازِ ظہر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے
    وفدي إسحاق عند الظهر فصلي إبراهيم عليه السلام أربعا، فصارت الظهر.
    ’’ظہر کے وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جب حضرت اسحق علیہ السلام سے نوازا گیا تو آپ نے (شکرانے کے طور پر) چار رکعات ادا کیں، پس وہ نمازِ ظہر ہوگئی۔‘‘
    3۔ نمازِ عصر سیدنا عُزیر علیہ السلام کی یادگار ہے
    و بُعِثَ عزير، فقيل له : کم لبثت؟ فقال : يوما أو بعض يوم. فصلي أربع رکعات، فصارت العصر.
    ’’جب حضرت عزیر علیہ السلام کو (سو سال بعد) اٹھایا گیا تو ان سے پوچھا گیا : آپ اس حالت میں کتنا عرصہ رہے؟ تو انہوں نے کہا : ایک دن یا دن کا بھی کچھ حصہ۔ پس انہوں نے چار رکعات ادا کیں تو وہ نماز عصر ہوگئی۔‘‘
    4۔ نمازِ مغرب سیدنا داؤد علیہ السلام کی یادگار ہے
    وقد قيل : غُفِر لعزير عليه السلام وغُفِر لداود عليه السلام عند المغرب، فقام فصلي أربع رکعات فجهد فجلس في الثالثة، فصارت المغرب ثلاثا.
    ’’اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت عزیر اور داؤد علیہما السلام کی مغرب کے وقت مغفرت ہوئی تو انہوں نے(شکرانے کے طور پر) چار رکعات نماز شروع کی (مگر نقاہت وکمزوری کے باعث) تھک کر تیسری رکعت میں بیٹھ گئے۔ (اس طرح تین رکعات ادا کیں، چوتھی رکعت مکمل نہ ہو سکی۔) پس وہ نمازِ مغرب ہوگئی۔‘‘
    5۔ نمازِ عشاء تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یادگار ہے
    وأوّل من صلي العشاء الآخرة، نبينا محمد صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’اور جس ہستی نے سب سے پہلے آخری نماز (یعنی نمازِ عشاء) ادا کی وہ ہمارے محبوب نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
    طحاوي، شرح معاني الآثار، کتاب الصلاة، باب الصلاة الوسطي أي الصلوات، 1 : 226، رقم : 1014
    الغرض یہ پنجگانہ نمازیں ان جلیل القدر پیغمبروں کی عبادت کی یاد دلاتی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے لطف و کرم اور فضل و احسان فرمایا اور انہوں نے اظہارِ تشکر کے طور پر دوگانہ اور چہارگانہ نوافل ادا کیے جو اللہ رب العزت نے امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پانچ فرض نمازوں کی صورت میں ان کی یادگار بنا دیئے۔ اس طرح دن بھر کی ان تمام نمازوں کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے انبیاء کرام کی یاد کا تسلسل بنا دیا۔
    علامہ ابن عابدین شامی (1244۔ 1306ھ) اپنے فتاویٰ
    ’’رد المحتار علی در المختار علی تنویر الابصار‘‘ میں پانچ فرض نمازوں کی نسبت فرماتے ہیں :
    قيل : الصبح صلاة آدم، والظهر لداود، والعصر لسليمان، والمغرب ليعقوب، والعشاء ليونس عليهم السلام، وجمعت في هذه الأمة.
    ’’کہا گیا ہے کہ نمازِ فجر حضرت آدم، ظہر حضرت داؤد، عصر حضرت سلیمان، مغرب حضرت یعقوب، اور عشاء حضرت یونس علیہم السلام کے لیے تھیں جنہیں اِس اُمت میں جمع کر دیا گیا ہے۔‘‘
    ابن عابدين، رد المحتار علي در المختار علي تنوير الأبصار، 1 : 351
    وہ لمحے جو انبیاء کرام نے اﷲ کی بارگاہ میں شکر، عجز اور خشوع و خضوع میں گزارے اﷲ نے انہیں اَمر کر دیا۔ اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو اپنے قرب کا راستہ دکھا دیا اور محبت و اطاعت کی نورانی کیفیات کی رحمت بے پایاں عطا کر دی۔ اﷲ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبروں کے وہ سجدے جو مقبول ہوئے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے اُمت مسلمہ کو مل گئے جو تاابد اُن کی یاد مناتی رہے گی۔ یاد کی اَہمیت اِس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ اَرکانِ اِسلام میں سے اہم ترین رُکن صلوٰۃ کی عملی صورت میں جو پانچ نمازیں مقرر ہوئیں وہ ساری کی ساری کسی نہ کسی نبی کی یاد ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ مقبولانِ بارگاہ ایزدی سے منسوب کسی عمل یا واقعہ کی یاد منانا اسلام میں نہ صرف جائز ہے بلکہ دین اِسلام کی بنیادی فکر و فلسفہ کا تقاضہ ہے۔ جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی خیر الوریٰ، حبیبِ کبریاء، تاجدارِ اَنبیاء حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واقعاتِ ولادت کی یاد منائی جاتی ہے جو سراسر جائز اور منشاء خداوندی کے عین مطابق ہے۔

    قیامِ مقامِ اِبراہیم سیدنا اِبراہیم علیہ السلام کی یاد ۔ یاد منانے کا حکم

    لغت کی رو سے مقام قدم رکھنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔
    (1) مقامِ ابراہیم کے تعین کے بارے میں مختلف اَقوال ہیں : جمہور علماء و مفسرین کے نزدیک حضرت جابر بن عبد اﷲ، حضرت عبد اﷲ بن عباس اور قتادہ رضی اللہ عنھم و دیگر کے قول کے مطابق مقامِ ابراہیم اُس پتھر کو کہا جاتا ہے جسے لوگ اب مقامِ ابراہیم کے نام سے پہچانتے اور اس کے نزدیک طواف کی دو رکعت ادا کرتے ہیں۔ صحیح ترین قول بھی یہی ہے۔ (2) اِس کی وضاحت امام بخاری (194۔ 256ھ) کی بیان کردہ اس روایت سے ہوتی ہے جس میں ہے کہ تعمیر کعبہ کے وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام پتھر لاتے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ان پتھروں کو جوڑ کر دیواریں بنا رہے تھے۔ جب دیواریں بلند ہوگئیں تو وہ اِس پتھر کو لائے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اِس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے۔ (3) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لائے ہوئے پتھر اُٹھانے سے ضعف لاحق ہوا تو وہ اِس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے اور یہ پتھر کعبہ کے عمارت کے اِرد گرد گھومتا رہتا یہاں تک کہ تعمیر مکمل ہوگئی۔(4)
    1. فراهيدي، کتاب العين، 5 : 232
    2. فيروز آبادي، القاموس المحيط، 4 : 170
    3. ابن منظور، لسان العرب، 12 : 498
    4. زبيدي، تاج العروس من جواهر القاموس، 17 : 592

    (2) 1. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 1 : 537
    2. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2 : 112
    3. رازي، التفسير الکبير، 4 : 45
    4. آلوسي، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، 1 : 379
    5. عسقلاني، فتح الباري، 1 : 499

    (3) 1. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب يزفون : النسلان في المشي، 3 : 1235، رقم : 3184
    2. عبد الرزاق، المصنف، 5 : 110، رقم : 9107
    3. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 1 : 550
    4. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم 1 : 178
    5. قزويني، التدوين في اخبار قزوين، 1 : 105

    (4) 1. أزرقي، أخبار مکة و ماجاء فيها من الآثار، 1 : 58
    2. أزرقي، أخبار مکة و ماجاء فيها من الآثار، 2 : 33
    حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا :
    يا رسول اﷲ! لو اتخذت من مقام إبراهيم مصلي.
    ’’یا رسول اﷲ! کاش آپ مقامِ ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالیں۔‘‘
    اس پر درج ذیل آیت نازل ہوئی :
    وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهيْمَ مُصَلًّي.القرآن، البقرة، 2 : 125
    ’’اور ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کومقامِ نماز بنالو۔‘‘
    (1) 1. بخاري، الصحيح، کتاب التفسير، باب قوله : و اتخذوا من مقام إبراهيم مصلي، 4 : 1629، رقم : 4213
    2. ترمذي، الجامع الصحيح، أبواب التفاسير، باب ومن سورة البقرة، 5 : 206، رقم : 2960
    3. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة و السنة فيها، باب القبلة، 1 : 322، رقم : 1008

    اس حکم کی تعمیل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقامِ اِبراہیم کے پیچھے نماز ادا کی۔ حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ بیت اﷲ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِستلامِ رکن کیا، پھر طواف کے تین چکروں میں رمل کیا اور چار میں معمول کے مطابق طواف کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ ابراہیم پر آئے اور آیت (وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى)۔ تلاوت فرمائی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقامِ ابراہیم کو اپنے اور بیت اﷲ کے درمیان کیا اور دو رکعت نماز پڑھی۔
    مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب حجة النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 887، رقم : 1218

    عرفات، مزدلفہ اور منیٰ حضرت آدم و حوا علیھما السلام کی یادگار ہیں

    حجاج کرام نویں ذی الحج کو میدانِ عرفات میں قیام کرتے ہیں۔ اس میں کوئی خاص عبادت لازمی طور پر ادا نہیں کی جاتی۔ وقوفِ عرفات فریضۂ حج ادا کرنے کے لیے کافی ہے۔ عرفات کی یہ حاضری حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام کے درمیان اس ملاقات کی یاد دلاتی ہے جو نویں ذوالحجہ کو اس میدان میں ہوئی۔ اس کی تائید درج ذیل روایات سے ہوتی ہے :
    1۔ مزدلفہ اور عرفات کی وجہ تسمیہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما درج ذیل الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :
    أهبط آدم عليه السلام بالهند وحواء بجدة، فجاء في طلبها حتي اجتمعا، فازدلفت إليه حواء فلذلک سميت المزدلفة، وتعارفا بعرفات فلذلک سميت عرفات، واجتمعا بجمع فلذلک سميت جمعًا.
    ’’حضرت آدم علیہ السلام کو ہند اور حضرت حواء کو جدہ کے مقام پر اتارا گیا، پس حضرت آدم علیہ السلام ان کی تلاش میں نکلے تو ان کا آپس میں ملاپ ہوگیا۔ حضرت حوا علیہا السلام (اس مقام پر) ان کے قریب ہوئیں تو اس کا نام ’’مزدلفہ‘‘ پڑگیا، اور ان دونوں نے عرفات کے مقام پر ایک دوسرے کو پہچان لیا تو اس کا نام ’’عرفات‘‘ ہو گیا اور (نویں ذی الحج کو) جمع ہونے کے مقام پر ان کا اکٹھ ہوا تو اس کا نام ’’یوم جمع‘‘ ہوگیا۔‘‘
    1. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 79
    2. ابن أثير، الکامل في التاريخ، 1 : 34
    3. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 39
    4. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 69 : 109
    2۔ جنت سے حضرت آدم علیہ السلام کو ہند کے ایک پہاڑ ’’نوذ‘‘ پر جبکہ حضرت حواء علیہا الاسلام کو حجاز میں ’’جدہ‘‘ کے مقام پر اتارا گیا۔ ابن سعد (168۔ 230ھ)، طبری (224۔ 310ھ) اور نووی (631۔ 677ھ) کے مطابق پھر حضرت آدم علیہ السلام نے حواء علیہا السلام کو مقامِ عرفات پر پہچان لیا، پس اسی وجہ سے اسے ’’عرفۃ‘‘ کا نام دیا گیا۔
    1. طبري، تاريخ الأمم و الملوک، 1 : 79
    2. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 35، 36
    3. نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 237
    3۔ امام قرطبي رحمۃ اللہ عليہ (284۔ 380ھ) اپني تفسير ’’الجامع لاحکام القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں :
    أن آدم لما هبط وقع بالهند، وحواء بجدة، فاجتمعا بعد طول الطلب بعرفات يوم عرفة وتعارفا، فسمي اليوم عرفة والموضع عرفات، قاله الضحاک.
    ’’جنت سے زمین پر حضرت آدم علیہ السلام کو ہند میں اور حضرت حواء علیہا السلام کو جدہ میں اتارا گیا، کافی تگ و دو کے بعد آپس میں ان کی ملاقات عرفہ کے دن مقامِ عرفات پر ہوئی اور انہوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ پس اس دن کو ’’یوم عرفہ‘‘ اور اس جگہ کو ’’عرفات‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ یہ قول امام ضحاک کا ہے۔‘‘
    قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2 : 415
    4۔ حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ)، یاقوت حموی (م 626ھ) اور علامہ شوکانی (1173۔ 1250ھ) مُزدلفہ کی وجہ تسمیہ کے بارے میں رقم طراز ہیں :
    وسميت المزدلفة جمعاً، لأن آدم اجتمع فيها مع حواء، وازدلف إليها أي دنا منها.
    ’’مزدلفہ کو ’’جمع‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں حضرت آدم علیہ السلام حضرت حواء علیہا السلام کے ساتھ اکٹھے ہوئے اور ان کے قریب ہوئے۔‘‘
    1. عسقلاني، فتح الباري، 3 : 523
    2. ياقوت حموي، معجم البلدان، 5 : 121
    3. شوکاني، نيل الأوطار شرح منتقي الأخبار، 1 : 423

    شیطان کوکنکریاں مارنے کا عمل سنتِ ابراہیمی علیہ السلام کی یاد منانا ہے

    حجاج کرام تین دن منٰی میں قیام کرتے ہیں اور ان ستونوں کو پتھر مارتے ہیں جو جمرۂ اُولیٰ، جمرۂ وُسطیٰ اور جمرۂ عقبیٰ کے نام سے معروف ہیں۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل کی یاد گار ہے۔
    1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    إن جبريل ذهب بإبراهيم إلي جمرة العقبة، فعرض له الشيطان، فرماه بسبع حصيات، فساخ، ثم أتي الجمرة الوسطي، فعرض له الشيطان، فرماه بسبع حصياتٍ، فساخ، ثم أتي الجمرة القصوي، فعرض له الشيطان، فرماه بسبع حصيات، فساخ.
    ’’جبرائیل امین ابراہیم علیہ السلام کو لے کر جمرۂ عقبیٰ پر گئے تو وہاں ان کے سامنے شیطان آیا۔ انہوں نے اسے سات کنکریاں ماریں تو وہ زمین میں دھنس گیا۔ پھر آپ جمرہء وسطیٰ پر تشریف لائے تو شیطان کے (دوبارہ) سامنے آنے پر انہوں نے اسے سات کنکریاں ماریں۔ وہ پھر زمین میں دھنس گیا۔ پھر آپ جمرۂ اُولیٰ پر پہنچے تو شیطان سے (سہ بارہ) آمنا سامنا ہونے پر اسے سات کنکریاں ماریں۔ وہ زمین میں دھنس گیا۔‘‘
    1. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 306
    2. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1 : 638، رقم : 1713
    3. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 153، رقم : 9475
    4. مقدسي، الأحاديث المختارة، 10 : 283، رقم : 296
    یہ چند مثالیں ہیں ورنہ فرض نماز و حج سمیت بیسیوں عبادات ایسی ہیں جو کسی نہ کسی طور انبیائے کرام یا محبوبانِ الہی کی یاد منانے پر دلالت کرتی ہیں۔
    ہزاروں سال قبل ظہور پذیر ہونے والے واقعات میں ہمارے لیے ایک پیغام اور مقصد مضمر ہے۔ مناسکِ حج ہی کو لیجیے، بادی النظر میں ان اعمال کو جاری رکھنے میں کوئی عملی ربط پنہاں نہیں۔ بظاہر یہ مختلف واقعات تھے جو رونما ہوئے اور گزر گئے۔ ان واقعات میں ہمارے لیے کیا عملی اور تعلیمی سبق ہے کہ شریعت نے حج و عمرہ کے موقعوں پر مناسک کی صورت میں ان کا جاری رکھنا فرض اور واجب قرار دیا ہے؟ اس حقیقت سے ہم یہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اسلام دونوں باتوں کو تسلیم کرتا ہے۔ وہ دینی تعلیمات کے اس پہلو کو جو اَحکاماتِ الٰہیہ سے متعلق ہے ضروری سمجھتا ہے کیونکہ ان کی تعمیل تقاضائے دین ہے۔ اس کے ساتھ ہی بیک وقت وہ کسی واقعہ کے جذباتی پہلو اور تعلق کو بھی خصوصی اہمیت دیتا ہے اور اس امر کا متقاضی ہے کہ وہ پہلو مداومت کے ساتھ ہماری زندگیوں میں جاگزیں رہے۔ ہم اس کے تاریخی پس منظر کو اپنے دل و دماغ سے بھی اوجھل نہ ہونے دیں۔ ہمارے جذبات، احساسات اور تخیلات کی دنیا میں اس کی گونج ہمیشہ سنائی دیتی رہے۔ درحقیقت اسلام ہر واقعہ سے دوگونہ تعلق کا خواہاں ہے : ایک عملی وابستگی کا تعلق اور دوسرا جذباتی وابستگی کا تعلق اول الذکر تعلیماتی پہلوؤں اور ثانی الذکر جذباتی پہلوؤں یعنی محبت، چاہت اور اپنائیت کے عملی مظاہر سے عبارت ہے۔ محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم ولادت پر والہانہ جذباتی وابستگی کا اظہار تاریخی، ثقافتی اور روحانی پس منظر میں کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس واقعہ کو کبھی نہ بھولیں اور یہ ہمارے قلب و باطن اور روح میں اس طرح پیوست ہو جائے کہ امتدادِ وقت کی کوئی لہر اسے گزند نہ پہنچا سکے۔ اسلام اس یاد کو مداومت سے زندہ رکھنے کا تقاضا کرتا ہے، اس لیے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر جشن مسرت کا سماں پیدا کر دیا جاتا ہے تاکہ اس واقعے کو اہتمام کے ساتھ منایا جائے۔
    بس یہ امر واضح ہوگیا کہ مناسکِ حج دراَصل اﷲ کے مقرب بندوں سے متعلق واقعات ہی ہیں جنہیں شعائر اﷲ قرار دے کر ان کی یاد منائی جاتی ہے۔ اگر اِس اَمر میں کوئی تنازعہ اور اِختلاف نہیں تو میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریبات پر بھی کسی کو کوئی اِعتراض اور اِبہام نہیں ہونا چاہئے۔

    حوالہ جاتی کتاب میلاد النبی :drood:
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا جشن میلاد النبی منانا بدعت ہے مگر کیوں (ضرور پڑھیئے)۔

    اسلام میں دو عیدوں کے علاوہ دیگر عیدوں کا ثبوت

    اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ کے نزول پر سالانہ و ہفتہ وار (جمعہ) کی عیدیں

    جب سورۃ المائدہ کی تیسری آیت. (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ)۔ نازل ہوئی تو یہودی اِسے عام طور پر زیرِبحث لاتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ مکالمہ کرتے تھے۔ درج ذیل حدیث میں اسی حوالہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ایک یہودی کا مکالمہ بیان کیا گیا ہے اور اِس سے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دن بہ طورِ عید منانے پر اِستشہاد کیا گیا ہے :
    اِمام بخاری (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں :
    عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه : إن رجلا من اليهود قال له : يا أمير المومنين! آية في کتابکم تقرؤونها، لو علينا معشر اليهود نزلت، لاتّخذنا ذلک اليوم عيدًا، قال : أي آية؟ قال : (اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْناً) قال عمر : قد عرفنا ذلک اليوم، والمکان الذي نزلت فيه علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، وهو قائم بعرفة يوم جمعة.
    ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ایک یہودی نے اُن سے کہا : اے امیر المومنین! آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہم گروہِ یہود پر اُترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید بنا لیتے۔ آپ نے پوچھا : کون سی آیت؟ اس نے کہا : (آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بہ طورِ) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جس دن اور جس جگہ یہ آیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی ہم اس کو پہچانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس وقت جمعہ کے دن عرفات کے مقام پر کھڑے تھے۔‘‘
    بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه، 1 : 25، رقم : 45
    بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب حجة الوداع، 4 : 1600، رقم : 4145
    مسلم، الصحيح، کتاب التفسير، 4 : 2313، رقم : 3017
    ترمذي، الجامع الصحيح، أبواب تفسير القرآن، باب من سورة المائدة، 5 : 250، رقم : 3043
    نسائي، السنن، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان، 8 : 114، رقم : 5012

    حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب کی تصریح حضرت کعب اَحبار رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں ایسی قوم کو جانتا ہوں کہ اگر ان پر یہ آیت نازل ہوتی تو وہ اسے عید کے طور پر مناتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کون سی آیت ؟ میں نے کہا :
    اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنا.
    ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اِسلام کو (بہ طور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔‘‘ المائدة، 5 : 3
    اِس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
    إني لأعرف في أي يوم أنزلت : (اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ)، يوم جمعة ويوم عرفة، وهما لنا عيدان.
    ’’میں پہچانتاہوں کہ کس دن الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ نازل ہوئی : جمعہ اور عرفات کے دن، اور وہ دونوں دن (پہلے سے) ہی ہمارے عید کے دن ہیں۔‘‘
    1. طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 253، رقم : 830
    2. عسقلاني، فتح الباري، 1 : 105، رقم : 45
    3. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 14
    مذکورہ بالا روایات ثابت کرتی ہیں کہ یہودی کا نظریہ درست تھا۔ اِسی لیے اُس کی توثیق کی گئی ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُسی وقت اس کی تردید کر دیتے اور فرماتے کہ شریعت نے ہمارے لیے عید کے دن مقرر کر کھے ہیں، لہٰذا ہم اس دن کو بہ طورِ عید نہیں منا سکتے۔ بہ اَلفاظِ دیگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہودی کو باور کرایا کہ اگر یہ دن تمہارے نصیب میں ہوتا تو تم اس دن ایک عید مناتے مگر ہم تو یومِ عرفہ اور یومِ جمعہ دو عیدیں مناتے ہیں۔

    یومِ جمعہ بھی یومِ عید ہے

    اس معنی کی تائید کتب حدیث میں مذکور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما کے اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے جسے حضرت عمار بن اَبی عمار رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے آیت۔ (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِينًا)۔ تلاوت کی تو آپ کے پاس ایک یہودی کھڑا تھا۔ اس نے کہا :
    لو أنزلت هذه علينا لاتّخذنا يومها عيدًا.
    ’’اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید کے طور پر مناتے۔‘‘
    حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا :
    فإنها نزلت في يوم عيدين : في يوم الجمعة ويوم عرفة.
    ’’بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن نازل ہوئی۔‘‘
    ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب من سورة المائدة، 5 : 250، رقم : 3044
    طبراني، المعجم الکبير، 12 : 184، رقم : 12835
    طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 6 : 82
    ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 14
    حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما نے یہودی کا قول ردّ نہیں کیا بلکہ اس کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ اس آیت کا نزول جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن ہوا جنہیں مسلمان پہلے ہی عیدوں کے طور پر مناتے ہیں۔

    عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ عید کا تصور

    بعض لوگ اِعتراض کرتے ہیں کہ عید الفطر اور عید الاضحی کے سوا کسی دن کے لیے عید کا لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ہم یہی سوال حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما کی طرف لے جاتے ہیں کہ کیا عید الفطر اور عید الاضحی کے سوا کسی دن کے لیے عید کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟ ان کی طرف سے جواب آتا ہے :
    فإنها نزلت في يوم عيدين : في يوم الجمعة ويوم عرفة.
    ’’بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن نازل ہوئی۔‘‘
    اِس جواب پر یہ اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے کہ یومِ عرفہ تو عید الاضحی کا دن ہے۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنھم نے یوم جمعہ کو بھی یومِ عید قرار دیا ہے۔ اور اگر ان اَجل صحابہ کے قول کے مطابق جمعہ کا دن عید ہو سکتا ہے تو پھر میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دن عید کیوں نہیں ہو سکتا؟ بلکہ وہ تو عید الاعیاد (عیدوں کی عید) ہے کہ اُن صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ اور وسیلہ سے پوری نسلِ اِنسانی کو قرآن حکیم جیسے بے مثل صحیفۂ آسمانی اور ہدایتِ ربانی سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔

    فضیلتِ عیدِجمعہ کا سبب یومِ تخلیقِ آدم علیہ السلام بھی ہے

    جمعہ کے دن کی خاص اَہمیت اور فضیلت کی بناء پر اسے سید الایام کہا گیا ہے۔ اس دن غسل کرنا، صاف ستھرے یا نئے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا اور کاروبارِ زندگی چھوڑتے ہوئے مسجد میں اِجتماع عام میں شریک ہونا اُمورِ مسنونہ ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کا بھی حکم دیا ہے۔
    حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    إن من أفضل أيامکم يوم الجمعة، فيه خلق آدم، وفيه قبض، وفيه النفخة، وفيه الصعقة، فأکثروا عليّ من الصلاة فيه، فإن صلاتکم معروضة علي.
    ’’تمہارے دنوں ميں سب سے افضل دن جمعہ کا ہے، اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت ہوئی (یعنی اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت ہوئی اور آپ کو لباسِ بشریت سے سرفراز کیا گیا)، اس روز اُن کی روح قبض کی گئی، اور اِسی روز صور پھونکا جائے گا۔ پس اس روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو، بے شک تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔‘‘
    1. أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب تفريع أبواب الجمعة وفضل يوم الجمعة وليلة الجمعة، 1 : 275، رقم : 1047
    2. أبو داؤد، السنن، أبواب الوتر، باب في الاستغفار، 2 : 88، رقم : 1531
    3. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1 : 345، رقم : 1085
    4. نسائي، السنن، کتاب الجمعة، باب إکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 3 : 91، رقم : 1375
    5. نسائي، السنن الکبري، باب الأمر بإکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 1 : 519، رقم : 1666
    6. دارمي، السنن، 1 : 445، رقم : 1572
    7. ابن ابي شيبة، المصنف، 2 : 253، رقم : 8697
    8. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 216، رقم : 589
    9. بيهقي، السنن الکبري، 3 : 248، رقم : 5789
    10. بيهقي، السنن الصغري، 1 : 372، رقم : 634

    جمعۃ المبارک عید کا دن ہے، اِس پر کبار محدثین کرام نے اپنی کتب میں درج ذیل احادیث بیان کی ہیں :
    1۔ اِبن ماجہ (209۔ 273ھ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    إن هذا يوم عيد، جعله اﷲ للمسلمين، فمن جاء إلي الجمعة فليغتسل، وإن کان طيب فليمس منه، وعليکم بالسواک.
    ’’بے شک یہ عید کا دن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے بنایا ہے۔ پس جو کوئی جمعہ کی نماز کے لیے آئے تو غسل کر کے آئے، اور اگر ہوسکے تو خوشبو لگا کر آئے۔ اور تم پر مسواک کرنا لازمی ہے۔‘‘
    1. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلٰوة، باب في الزينة يوم الجمعة، 1 : 349، رقم : 1098
    2. طبراني، المعجم الأوسط، 7 : 230، رقم : 7355
    3. منذري، الترغيب والترهيب من الحديث الشريف، 1 : 286، رقم : 1058

    عید پر روزہ نہ رکھنے کا حکم

    2۔ احمد بن حنبل (164۔ 241ھ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    إن يوم الجمعة يوم عيد، فلا تجعلوا يوم عيدکم يوم صيامکم إلا أن تصوموا قبله أو بعده.
    ’’بے شک یومِ جمعہ عید کا دن ہے، پس تم اپنے عید کے دن کو یومِ صیام (روزوں کا دن) مت بناؤ مگر یہ کہ تم اس سے قبل (جمعرات) یا اس کے بعد (ہفتہ) کے دن کا روزہ رکھو (پھر جمعہ کے دن روزہ رکھنے کی اجازت ہے ورنہ نہیں)۔‘‘
    1. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 303، 532، رقم : 8012، 10903
    2. ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 315، 318، رقم : 2161، 2166
    3. ابن راهويه، المسند، 1 : 451، رقم : 524
    4. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1 : 603، رقم : 1595

    اِبن حبان (270۔ 354ھ) روایت کرتے ہیں کہ ابو اوبر بیان کرتے ہیں :
    کنت قاعدًا عند أبي هريرة إذ جاء ه رجل فقال : إنک نهيت الناس عن صيام يوم الجمعة؟ قال : ما نهيت الناس أن يصوموا يوم الجمعة، ولکني سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : لاتصوموا يوم الجمعة، فإنه يوم عيد إلا أن تصلوه بأيام.
    ’’میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نے اُن کے پاس آ کر کہا : آپ نے لوگوں کو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے؟ آپ نے فرمایا : میں نے لوگوں کو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے نہیں روکا بلکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : تم جمعہ کے دن روزہ نہ رکھو کیوں کہ یہ عید کا دن ہے، سوائے اس کے کہ تم اس کو اور دنوں کے ساتھ ملا کر (روزہ) رکھو۔‘‘
    ابن حبان، الصحيح، 8 : 375، رقم : 3610

    یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فضیلتِ جمعہ کا سبب کیا ہے اور اسے کس لیے سب دنوں کا سردار اور یومِ عید قرار دیا گیا؟ اس سوال کا جواب گزشتہ صفحات میں بیان کی گئی حدیث مبارکہ میں موجود ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن کی فضیلت کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا :
    فيه خلق آدم.
    ’’(یوم جمعہ) آدم کے میلاد کا دن ہے (یعنی اس دن آدم علیہ السلام کی خلقت ہوئی اور آپ کو لباسِ بشریت سے سرفراز کیا گیا)۔‘‘
    جمعہ کے دن ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی جس کی بناء پر اِسے یوم عید کہا گیا ہے اور اس دن کی تکریم کی جاتی ہے۔ اگر یوم الجمعہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے باعث عزت و اِحترام کے ساتھ منائے جانے کا حق دار ہو سکتا ہے تو یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی بناء پر عید الاعیاد (تمام عیدوں کی عید) کے طور پر اسلامی کیلنڈر کی زینت کیوں نہیں بن سکتا۔ اب کوئی کہے کے میلادِ آدم علیہ السلام کی تقریب کا اہتمام اس لیے کیا گیا کہ ان کی تخلیق معروف طریقے سے عمل میں نہیں آئی۔ لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیوں کہ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق جمعہ کے دن ہوئی۔ لہذا یوم الجمعہ کو یوم العید بنا دیا گیا کہ یہ بنی نوع انسان کے جد اَمجد اور پہلے نبی کا یومِ تخلیق ہے۔ اِسی بناء پر وجہ تخلیقِ کائنات اور تمام انبیاء کے سردار سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت تمام عیدوں کی عید ہے۔

    عیدِ جمعہ پر خصوصی اِہتمام برائے محفلِ درود و سلام

    جمعۃ المبارک کے سلسلہ میں کیے جانے والے تمام تر اِنتظامات وہ ہیں جو میلاد کے حوالہ سے بھی کیے جاتے ہیں، مثلاً غسل کرنا، خوشبو لگانا، ایک جگہ جمع ہونا، کاروبار ترک کرنا اور مسجد میں حاضری دینا۔ ان کے علاوہ بھی بعض امور کا تذکرہ کتب حدیث میں موجود ہے۔ جمعہ کے دن یہ سارا اہتمام درحقیقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام بھیجنے کے حوالہ سے ہے اور اس دن کو کثرتِ درود و سلام کے لیے اس لیے چنا گیا کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کا یومِ میلاد ہے۔ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان کیا گیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادگرامی ہے :
    فأکثروا عليّ من الصلاة فيه.
    ’’پس اس روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو۔‘‘
    اِس دن عاشقانِ رسول درود شریف کا اِجتماعی ورد کرتے ہیں اور اس دن محفل میلاد اور محفلِ صلوٰۃ و سلام کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ سو یہ دن جہاں ایک طرف میلادِ سیدنا آدم علیہ السلام کے لیے خاص ہے تو دوسری طرف درود و سلام کے ذکر کی نسبت سے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بھی ہے۔ اس طرح بہ یک وقت یہ دن جدماجد اور فرزند اَمجد دونوں کے لیے اِظہارِ مسرت کا مژدہ بردار بن گیاہے۔

    حضور نبی اکرم :drood: کی حیات النبی بعد از وصال کا ثبوت

    حدیث مبارکہ میں یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا :
    يا رسول اﷲ! وَکيف تعرض صلاتنا عليک وقد أرمت؟
    ’’یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد کیسے آپ پر پیش کیا جائے گا؟‘‘
    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :إن اﷲ عزوجل حرّم علي الأرض أن تأکل أجساد الأنبياء.
    ’’بے شک اللہ عزوجل نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیاء کرام کے جسموں کو کھائے۔‘‘
    1. أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب تفريع أبواب الجمعة وفضل يوم الجمعة وليلة الجمعة، 1 : 275، رقم : 1047
    2. أبو داؤد، السنن، أبواب الوتر، باب في الاستغفار، 2 : 88، رقم : 1531
    3. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1 : 345، رقم : 1085
    4. نسائي، السنن، کتاب الجمعة، باب إکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 3 : 91، رقم : 1375
    5. نسائي، السنن الکبري، باب الأمر بإکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 1 : 519، رقم : 1666
    6. دارمي، السنن، 1 : 445، رقم : 1572
    7. ابن ابي شيبة، المصنف، 2 : 253، رقم : 8697
    8. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 216، رقم : 589
    9. بيهقي، السنن الکبري، 3 : 248، رقم : 5789
    10. بيهقي، السنن الصغري، 1 : 372، رقم : 634
    11. هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان، 1 : 146، رقم : 550

    اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ میں اِس دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد بھی اپنے جسم کے ساتھ زندہ رہوں گا، اور تمہیں چاہیے کہ مجھ پر جمعہ کے دن کثرت کے ساتھ درود و سلام پڑھنا اپنا معمول بنا لو۔

    اِن اَحادیث سے اِس اَمر کی تائید ہوتی ہے کہ نزولِ نعمت کے دن کو بطور عید منانا جائز ہے۔ جس طرح تکمیلِ دین کی آیت کا یومِ نزول روزِ عید ٹھہرا، اسی طرح وہ دن جب حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود دنیا میں تشریف لائے اور جن کے صدقے ہمیں صرف یہ آیت نہیں بلکہ مکمل قرآن جیسی نعمت عطا ہوئی اس دن کو بطور عید کیوں نہیں منایا جا سکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عید میلاد منانا اَصل حلاوتِ ایمان ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایمان کی بنیاد تسلیم کیا جائے ورنہ یہ حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی۔ وہ ذات اقدس جن کے صدقے تمام عالم کو عیدیں نصیب ہوئیں، ان کا جشنِ میلاد منانے کے لیے دل میں گنجائش نہ ہونا کون سی کیفیتِ ایمان کی نشان دہی کرتا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی سورۃ المائدۃ کی یہ آیت بہت بڑی خوش خبری اور بشارت کی آئینہ دار تھی۔ جس دن اس آیت کا نزول ہوا وہ دن عید الجمعہ اور عید الحج کی خوشیاں لے کر طلوع ہوا۔ لہٰذا اہلِ ایمان کے لیے یہ نکتہ سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں کہ جس مبارک دن نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ ہوئی وہ سب عیدوں سے بڑی عید کا دن ہے۔ جمہور اہلِ اِسلام محافلِ میلاد کے ذریعے اپنی دلی مسرت کا اظہار اور بارگاہ ایزدی میں اس نعمتِ اَبدی کے حصول پر ہدیۂ شکر بجا لاتے ہیں۔ اس دن اظہارِ مسرت و انبساط عینِ ایمان ہے۔ جمہور اُمتِ مسلمہ مداومت سے اس معمول پر عمل پیرا ہے اور رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت ’’12 ربیع الاول‘‘ ہر سال بڑے تزک و احتشام سے عید کے طور پر مناتی ہے۔

    یومِ عاشور بھی یومِ عید منانا بھی سنتِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم

    اِمام بخاری (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    کان يوم عاشوراء تَعُدُّه اليهود عيدًا، قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : فصوموه أنتم.
    ’’یوم عاشورہ کو یہود یومِ عید شمار کرتے تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں کو حکم دیتے ہوئے) فرمایا : تم ضرور اس دن روزہ رکھا کرو۔‘‘
    بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، 705، رقم : 1901
    2۔ اِمام مسلم (206۔ 261ھ) نے بھی الصحیح میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے حدیث روایت کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :
    کان يوم عاشوراء يوما تعظّمه اليهود، وتتّخذه عيدًا، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : صوموه أنتم.
    ’’یہود یوم عاشورہ کی تعظیم کرتے تھے اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں کو) حکم دیا کہ تم بھی اس دن روزہ رکھو۔‘‘
    1. مسلم، الصحيح، 2، 796، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، رقم : 1131
    2. نسائي، السنن الکبري، 2 : 159، رقم : 2848
    3. طحاوي، شرح معاني الآثار، کتاب الصوم، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 133، رقم : 3217
    4. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 289، رقم : 8197
    اِمام طحاوی (229۔ 321ھ) اِس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یومِ عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم صرف اِس لیے دیا تھا کہ یہود اس دن روزہ رکھتے تھے۔
    3۔ اِمام مسلم (206. 261ھ) نے الصحیح میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے درج ذیل الفاظ کے ساتھ ایک اور حدیث بھی روایت کی ہے :
    کان أهل خيبر يصومون يوم عاشوراء، يتّخذونه عيدًا، ويُلْبِسُوْنَ نساء هم فيه حُلِيَّهمْ وشَارَتَهُمْ. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : فصوموه أنتم.
    ’’اہلِ خیبر یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ اس دن وہ اپنی عورتوں کو خوب زیورات پہناتے اور ان کا بناؤ سنگھار کرتے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں سے) فرمایا : تم بھی اس دن روزہ رکھا کرو۔‘‘
    1. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 796، رقم : 1131
    2. ابو نعيم، المسند المستخرج علي صحيح الإمام مسلم، 3 : 212، رقم : 2575
    3. إسماعيلي، معجم شيوخ أبي بکر الإسماعيلي، 3 : 722، رقم : 337
    4. عسقلاني، فتح الباري، 4 : 248
    اِمام بخاری (194۔ 256ھ) اور اِمام مسلم (206۔ 261ھ) کی مذکورہ بالا روایات سے مستنبط ہوتا ہے کہ :
    1۔ یومِ عاشورہ یہودیوں کے لیے یومِ نجات اور یومِ کامیابی تھا۔ وہ عرصہ قدیم سے من حیث القوم اِسے یومِ عید کے طور پر شایانِ شان طریقے سے مناتے چلے آرہے تھے۔
    2۔ عید کا دن اُن کے لیے یومِ تعظیم تھا، وہ اس کا احترام کرتے اور بطور شکر و اِمتنان ایک اِضافی عمل کے طور پر اس دن روزہ بھی رکھتے تھے۔
    3۔ یہ دن صرف روزہ رکھنے پر ہی موقوف نہ تھا بلکہ روزہ رکھنا محض ایک اِضافی عمل تھا جو اس دن انجام دیا جاتا تھا۔
    4۔ اِس حوالے سے اگر آج کوئی عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں اِعتراض کرے اور کہے کہ روزہ کے بغیر عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جشن منانا جائز نہیں، تو یہ درست نہیں اور نہ ہی ایسا اِستدلال احادیث کی روشنی میں ممکن ہے۔
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بخوبی جانتے تھے کہ یومِ عاشورہ یہودیوں کے نزدیک یومِ عید ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے عید منانے پر کوئی سوال نہیں کیا بلکہ ان کے روزہ رکھنے کے بارے میں اِستفسار فرمایا تو انہوں نے۔ ’’تعظیماً لہ‘‘ اور ’’شکراً لہ‘‘ کہہ کر بہ طور تعظیم و تشکر روزہ رکھنے کی توجیہ بیان کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اس کی تلقین فرمائی۔

    عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حافظ عسقلانی کا اِستدلال

    حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) نے مذکورہ بالا اَحادیثِ مبارکہ سے عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اِستدلال کرتے ہوئے اُس دن کی شرعی حیثیت کو واضح طور پر متحقق کیا ہے اور اس سے یوم میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کی اِباحت پر دلیل قائم کی ہے۔ حافظ اِبن حجر عسقلانی کا اِستدلال نقل کرتے ہوئے اِمام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) لکھتے ہیں :
    وقد سئل شيخ الإسلام حافظ العصر أبوالفضل ابن حجر عن عمل المولد، فأجاب بما نصه : قال :
    وقد ظهر لي تخريجها علي أصل ثابت، وهو ما ثبت في الصحيحين من : ’’أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قدم المدينة، فوجد اليهود يصومون يوم عاشوراء، فسألهم، فقالوا : هو يوم أغرق اﷲ فيه فرعون، ونجّي موسي، فنحن نصومه شکرًا ﷲ تعالي.
    فيستفاد منه فعل الشکر ﷲ تعالي علي ما منَّ به في يوم معيّن من إسداء نعمة، أو دفع نقمة، ويعاد ذلک في نظير ذلک اليوم من کل سنة.
    والشکر ﷲ تعالي يحصل بأنواع العبادات کالسجود والصيام والصدقة والتلاوة، وأيّ نعمة أعظم من النعمة ببروز هذا النبي صلي الله عليه وآله وسلم الذي هو نبي الرحمة في ذلک اليوم.
    1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 63
    2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 205، 206
    3. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 366
    4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 263
    5. احمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 54
    6. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237

    ’’شیخ الاسلام حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر سے میلاد شریف کے عمل کے حوالہ سے پوچھا گیا تو آپ نے اس کا جواب کچھ یوں دیا :
    ’’مجھے میلاد شریف کے بارے میں اصل تخریج کا پتہ چلا ہے۔ ’’صحیحین‘‘ سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا : ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس پر وہ عرض کناں ہوئے کہ اس دن اﷲ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، سو ہم اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کے لیے اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔
    ’’اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کسی اِحسان و اِنعام کے عطا ہونے یا کسی مصیبت کے ٹل جانے پر کسی معین دن میں اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانا اور ہر سال اس دن کی یاد تازہ کرنا مناسب تر ہے۔
    ’’اﷲ تعالیٰ کا شکر نماز و سجدہ، روزہ، صدقہ اور تلاوتِ قرآن و دیگر عبادات کے ذریعہ بجا لایا جا سکتا ہے اور حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے بڑھ کر اﷲ کی نعمتوں میں سے کون سی نعمت ہے؟ اس لیے اس دن ضرور شکرانہ بجا لانا چاہیے۔‘‘
    جشنِ میلاد کی بابت پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے حافظ عسقلانی (773۔ 852ھ) نے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کی بنیاد ان اَحادیث کو بنایا ہے جو ’’صحیحین‘‘ میں متفقہ طور پر روایت ہوئیں۔ ان احادیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو ملنے والی عظیم نعمت اور فتح پر اِظہارِ تشکر کرنے اور اس دن کو عید کے طور پر منانے کی تائید و توثیق فرماتے ہوئے اس عمل کو اپنی سنت کا درجہ دے دیا۔ جب رسولِ معظم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے، کیا اس دن سے زیادہ کوئی اور بڑی نعمت ہوسکتی ہے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عید کے طور پر نہ منایا جائے!
    حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) کے موقف کی تائید اِمام سیوطی (849۔ 911ھ) نے ’’الحاوی للفتاوی (ص : 205، 206)‘‘ میں کی ہے۔

    یومِ غلافِ کعبہ بھی یومِ عید منائے جانے سے عید میلاد کا اِستدلال

    دورِ جاہلیت میں قریشِ مکہ یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے اور اس دن کو عید کے طور پر مناتے تھے۔ ہجرت سے قبل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اِس دن روزہ رکھا۔ وہ اس دن کو اس وجہ سے مناتے اور اس کا احترام و تعظیم کرتے کہ اس دن کعبۃ اللہ پر پہلی مرتبہ غلاف چڑھایا گیا تھا۔ یہی وہ خاص پس منظر تھا جس کی وجہ سے ہجرت کے بعد آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہودیوں سے عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرمائی۔
    1۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں :
    کان يوم عاشوراء تصومه قريش في الجاهلية، وکان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يصومه.
    ’’زمانۂ جاہلیت میں قریش عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1898
    2. بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب أيام الجاهلية، 3 : 1393، رقم : 3619
    3. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 792، رقم : 1125
    4. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الصوم، باب ما جاء في الرخصة في ترک صوم يوم عاشوراء، 3 : 127، رقم : 753
    جب پہلی دفعہ زمانۂ جاہلیت میں کعبہ کو غلاف سے ڈھانپا گیا تو یہ دس محرم کا دن تھا۔ اُس وقت سے مکہ کے لوگوں کا یہ معمول رہا کہ وہ ہر سال اسی دن روزہ رکھتے اور یہ ان کے لیے عید کا دن ہوتا تھا۔ ان کا یہ معمول حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سعیدہ کے بعد بھی جاری رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی کعبہ پر غلاف چڑھانے کے دن روزہ رکھنے کا معمول اپنایا۔ کعبہ پر غلاف چڑھانے کو ’’کسوۃ الکعبۃ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
    2۔ اِمام بخاری (194. 256ھ) الصحیح میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے ہی روایت کرتے ہیں :
    کانوا يصومون عاشوراء قبل أن يُفرض رمضان، وکان يوما تستر فيه الکعبة، فلما فرض اﷲ رمضان، قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من شاء أن يصومه فليصمه، ومن شاء أن يترکه فليترکه.
    ’’اہلِ عرب رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور (اس کی وجہ یہ ہے کہ) اس دن کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کر دیے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے جو اس دن روزہ رکھنا چاہے وہ روزہ رکھ لے، اور جو ترک کرنا چاہے وہ ترک کر دے۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب قول اﷲ : جعل اﷲ الکعبة البيت الحرام، 2 : 578، رقم : 1515
    2. طبراني، المعجم الأوسط، 7 : 278، رقم : 7495
    3. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 159، رقم 9513
    4. ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 7 : 204
    حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) درج بالا حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
    فإنه يفيد أن الجاهلية کانوا يعظّمون الکعبة قديمًا بالستور ويقومون بها.
    ’’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت سے ہی وہ کعبہ پر غلاف چڑھا کر اس کی تعظیم کرتے تھے، اور یہ معمول وہ قائم رکھے ہوئے تھے۔‘‘
    عسقلاني، فتح الباري، 3 : 455
    حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) ایک اور مقام پر قریش کے اس دن روزہ رکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
    أما صيام قريش لعاشوراء فلعلهم تلقّوه من الشرع السالف، ولهذا کانوا يعظّمونه بکسوة الکعبة فيه.
    ’’یومِ عاشورہ کو قریش کا روزہ رکھنے کا سبب یہ تھا کہ شاید اُنہوں نے گزشتہ شریعت سے اس کو پایا ہو، اور اِسی لیے وہ اس دن کی تعظیم کعبہ پر غلاف چڑھا کر کیا کرتے تھے۔‘‘
    عسقلاني، فتح الباري، 4 : 246
    ہر سال کعبہ پر غلاف چڑھانے کا دن منانے پر امام طبرانی (260۔ 360ھ) ’’المعجم الکبیر (5 : 138، رقم : 4876)‘‘ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے درجِ ذیل قول نقل کر تے ہیں :
    ليس يوم عاشوراء باليوم الذي يقوله الناس، إنما کان يوم تستر فيه الکعبة وکان يدور في السنة.
    ’’یومِ عاشورہ سے مراد وہ دن نہیں جو عام طور پر لیا جاتا ہے، بلکہ یہ وہ دن ہے جس میں کعبہ کو غلاف چڑھانے کی رسم کا آغاز ہوا۔ اسی سبب ہر سال اس کی تجدید ہوتی ہے اور اس دن کو منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔‘‘
    1. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 3 : 187
    2. عسقلاني، فتح الباري، 4 : 248
    3. عسقلاني، فتح الباري، 7 : 276

    مندرجہ بالا احادیث سے ثابت ہوا کہ اسلام میں عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ مختلف اہم ایام بھی بطور عید منانے کا تصور موجود ہے اور یہ عقیدہ رکھنا کہ ان دو عیدوں کے علاوہ کسی عید کا تصور ہی نہیں سراسر لاعلمی اور احادیث نبویہ :drood: سے انکار کے مترادف ہے۔

    حوالہ جاتی کتاب ۔۔ میلاد النبی :drood:
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا جشن میلاد النبی منانا بدعت ہے مگر کیوں (ضرور پڑھیئے)۔

    احادیث میں ذکر و محفل میلاد اور جلوس میلاد کا تصور

    حضور نبی اکرم :drood: نے خود محفل میلاد منعقد فرمائی

    جشنِ میلاد کی شرعی حیثیت کے حوالہ سے درج بالا دلائل کے ساتھ ساتھ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے یومِ ولادت کی بابت بالتخصیص کوئی ہدایت یا تلقین فرمائی ہے؟ اس کا جواب اِثبات میں ہے۔

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خود اپنے میلاد کا ذکر فرمانا۔۔ تذکرہء میلاد ۔ سنتِ نبوی

    الإمام أحمد من حديث العِرْباض بن سَارِيَةَ السُّلَمِي رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم، قال : إنّي عِند اﷲ في أُمّ الکتاب لَخاتمُ النّبِيّين، وإنّ آدم لَمُنجدلٌ في طينتهِ، وَسوف أنبئکم بتأْويل ذلک : دعوة أبي إبراهيم، (1) وبشارة عيسي قومه، (2) ورؤْيا أمّي الّتي رأت أنه خرج منها نورٌ أضاءت له قصور الشام، وکذلک أمهات النببين يَرَيْنَ. (3)

    ’’اَحمد بن حنبل نے حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی تخریج کی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت بھی خاتم الانبیاء تھا جب کہ حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ اور میں تمہیں ان کی تاویل بتاتا ہوں کہ میں اپنے جدِ امجد ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی اپنی قوم کو دینے والی بشارت کا نتیجہ ہوں، اور اپنی والدہ ماجدہ کے ان خوابوں کی تعبیر ہوں جس میں انہوں نے دیکھا کہ ان کے جسم اَطہر سے ایسا نور پیدا ہوا جس سے شام کے محلات بھی روشن ہو گئے۔ اور اسی طرح کے خواب اَنبیاء کی مائیں دیکھتی تھیں۔‘‘

    (1) البقرة، 2 : 129
    (2) الصف، 61 : 6
    (3) 1. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 127، 128، رقم : 17190، 17191، 17203
    2. ابن حبان، الصحيح، 14 : 312، رقم : 6404
    3. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2 : 656، رقم : 4174
    4. طبراني، المعجم الکبير، 18 : 253، رقم : 631
    5. طبراني، مسند الشاميين، 2 : 340، رقم : 1455
    6. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 149
    7. هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان : 512، الرقم : 2093
    8. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8 : 223
    9. عسقلاني، فتح الباري، 6 : 583
    10. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 321
    حضور نبی اکرم :drood: کا اپنے یومِ میلاد کو منانا اور صحابہ کو تلقین

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود صحابہ کرام کو اپنے یومِ میلاد پر اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانے کی تلقین فرمائی اور ترغیب دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے میلاد کے دن روزہ رکھ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِظہارِ تشکر و اِمتنان فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل مبارک درج ذیل روایات سے ثابت ہے :
    اِمام مسلم (206. 261ھ) اپنی الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
    أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم سُئل عن صوم يوم الإثنين؟ قال : ذاک يوم ولدت فيه ويوم بعثت أو أنزل عليّ فيه.
    ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسی روز میری ولادت ہوئی اور اسی روز میری بعثت ہوئی اور اسی روز میرے اوپر قرآن نازل کیا گیا۔‘‘
    1. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب استحبابِ صيام ثلٰثة أيام من کل شهر، 2 : 819، رقم : 1162
    2. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 286، رقم : 38182
    درج ذیل کتب میں ’’انزلت عليّ فیہ النبوۃ (اسی روز مجھے نبوت سے سرفراز کیا گیا)‘‘ کے الفاظ ہیں :
    3. نسائی، السنن الکبری، 2 : 146، رقم : 2777
    4. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 296، 297، رقم : 22590، 22594
    5. عبد الرزاق، المصنف، 4 : 296، رقم : 7865
    6. أبويعلي، المسند، 1 : 134، رقم : 144
    7. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 300، رقم : 8259
    پیر کے دن کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کا دن ہے۔ بنا بریں یہ دن شرعی طور پر خصوصی اَہمیت و فضیلت اور معنویت کا حامل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود روزہ رکھ کر اس دن اظہارِ تشکر فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل امت کے لیے اِظہارِ مسرت کی سنت کا درجہ رکھتا ہے۔ آج بھی حرمین شریفین میں بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم اہلِ محبت و تصوف پیر کے دن روزہ رکھنے کی سنت پر باقاعدگی سے عمل کرتے ہیں۔
    اِسلام میں ولادت کے دن کو خاص اَہمیت حاصل ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں یومِ ولادت کا کوئی تصور نہیں، انہیں علمِ شریعت سے صحیح آگہی نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان . کہ ’’یہ میری ولادت کا دن ہے‘‘. اِسلام میں یوم ولادت کے تصور کی نشان دہی کرتا ہے۔ قرآنِ حکیم انبیاء علیھم السلام کے ایامِ میلاد بیان کرتا ہے۔ اِس کی تفصیل گزشتہ اَبواب میں بیان ہوچکی ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنے پیغمبر کے یوم ولادت کی کیا قدر و منزلت ہے۔ اگر اِس تناظر میں دیکھا جائے تو یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام و مرتبہ سب سے اَرفع و اَعلیٰ ہے۔ یہ دن منانے کے مختلف طریقے ہیں جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔ جیسے مذکورہ بالا حدیث سے عبادات کی ایک قسم روزہ رکھنا ثابت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کے حصول کے لیے صدقہ و خیرات کرنا، کھانا کھلانا، شکر بجا لانا اور خوشی منانا میلاد منانے کی مختلف صورتیں ہیں۔

    حضور نبی اکرم :drood:نے اپنا میلاد بکرے ذبح کر کے اور ضیافت کرکےمنایا

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنا میلاد منایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہوئے اپنی ولادت کی خوشی میں بکرے ذبح کیے اور ضیافت کا اہتمام فرمایا۔

    ضیافتِ میلاد ، عقیقہ نہ تھی ۔ ایک شبہے کا ازالہ

    امام بیہقی (384۔ 458ھ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
    إن النبي صلي الله عليه وآله وسلم عقّ عن نفسه بعد النبوة.
    ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِعلانِ نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا۔‘‘
    1. بيهقي، السنن الکبري، 9 : 300، رقم : 43
    2. مقدسي، الأحاديث المختارة، 5 : 205، رقم : 1833
    3. نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 2 : 557، رقم : 962
    4. عسقلاني، فتح الباري، 9 : 595
    5. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 5 : 340، رقم : 661
    6. مزي، تهذيب الکمال في أسماء الرجال، 16 : 32، رقم : 3523
    ضیاء مقدسی (569۔ 643ھ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
    أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم عق عن نفسه بعد ما بُعِثَ نببًاَ
    ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد اَز بعثت اپنا عقیقہ کیا۔‘‘
    1. مقدسي، الأحاديث المختارة، 5 : 205، رقم : 1832
    2. طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 298، رقم : 994
    3. روياني، مسند الصحابة، 2 : 386، رقم : 1371
    3۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا :
    لمّا ولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم عقّ عنه عبد المطلب بکبش.
    ’’جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے آپ کی طرف سے ایک مینڈھے کا عقیقہ کیا۔‘‘
    1. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 3 : 32
    2. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 128
    3. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 134
    2۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما ہی سے روایت ہے :
    أن عبد المطلب جعل له مأدبة يوم سابعة.
    ’’بے شک حضرت عبد المطلب نے ساتویں روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے عقیقہ) کی دعوت کی۔‘‘
    1. ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 21 : 61
    2. ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 1 : 51
    3. ابن حبان، الثقات، 1 : 42
    4. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2 : 100
    5. ابن قيم، زاد المعاد في هدي خير العباد، 1 : 81
    اِس میں تو اَئمہ کا اختلاف ہی نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے ساتویں دن کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چالیس سال تک اپنا عقیقہ کیسے مؤخر کر سکتے تھے، کیوں کہ حدیث مبارکہ کی رُو سے جب تک عقیقہ نہ کر دیا جائے بچہ گروی رہتا ہے۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا :
    الغلام مُرْتَهَنٌ بعقيقته يُذبَحُ عنه يوم السابع.
    ’’بچہ اپنے عقیقہ کے باعث گروی رہتا ہے، اس کی طرف سے ساتویں دن ذبح کیا جائے۔‘‘
    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 101، کتاب الأضاحي، باب من العقيقة، رقم : 1522
    2. أبوداؤد، السنن، 3 : 106، کتاب الضحايا، باب في العقيقة، رقم : 2837
    3. ابن ماجه، السنن، 2 : 1056، کتاب الذبائح، باب العقيقة، رقم : 3165
    سوال پیدا ہوتا ہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثتِ مبارکہ کے بعد کون سا عقیقہ کیا تھا؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعثت کے بعد اپنی ولادت اور میلاد کی خوشی و مسرت اور شکرانے میں بکرے ذبح کیے اور اِہتمامِ ضیافت کیا تھا کیونکہ عقیقہ دو (2) بار نہیں ہوتا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ صرف عقیقہ ہی تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اعلانِ نبوت کے بعد کیا۔ اگر ہم اسے عقیقہ ہی تصور کریں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ’’عقیقہ‘‘ کیا ہے؟ عقیقہ فی نفسہ ولادت پر اِظہار تشکر و اِمتنان ہے۔ اسے ولادت کی خوشی کی تقریب کہہ لیں یا تقریبِ میلاد، مفہوم ایک ہی ہے کہ ولادت کے موقع پر خوشی منائی جاتی ہے۔
    امام سیوطی کا قول
    اِمام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) نے اپنی کتاب ’’حسن المقصد فی عمل المولد (ص : 64، 65)‘‘ میں حافظ ابن حجر عسقلانی (773. 852ھ) کے دلائل کی تائید میں ایک اور استدلال پیش کیا ہے جو جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
    وظهر لي تخريجه علي أصلٍ آخر، وهو ما أخرجه البيهقي، عن أنس رضي الله عنه أن النبي عق عن نفسه بعد النبوة. مع أنه قد ورد أن جده عبد المطلب عق عنه في سابع ولادته، والعقيقة لا تعاد مرة ثانية، فيحمل ذلک علي أن الذي فعله النبي صلي الله عليه وآله وسلم إظهارًا للشکر علي إيجاد اﷲ تعالي إياه، رحمة للعالمين وتشريفًا لأمته، کما کان يصلي علي نفسه، لذلک فيستحب لنا أيضًا إظهار الشکر بمولده باجتماع الإخوان، وإطعام الطعام، ونحو ذلک من وجوه القربات، وإظهار المسرات.
    ’’یوم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے حوالہ سے ایک اور دلیل مجھ پر ظاہر ہوئی ہے۔ وہ ہے جو امام بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِعلانِ نبوت کے بعدخود اپنا عقیقہ کیا باوُجود اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبد المطلب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے ساتویں روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ کر چکے تھے۔ اورعقیقہ دو (2) بار نہیں کیا جاتا۔ پس یہ واقعہ اِسی پر محمول کیا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آپ کو اﷲ کی طرف سے رحمۃً للعالمین اور اپنی اُمت کے مشرف ہونے کی وجہ سے اپنی ولادت کی خوشی کے اظہار کے لیے خود عقیقہ کیا۔ اسی طرح ہمارے لیے مستحب ہے کہ ہم بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ ولادت پر خوشی کا اِظہار کریں اور کھانا کھلائیں اور دیگر عبادات بجا لائیں اور خوشی کا اظہار کریں۔‘‘
    1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 64، 65
    2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206
    3. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 367
    4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 263، 264
    5. نبهاني، حجة اﷲ علي العٰلمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237
    اِمام سیوطی خود ہی سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا وہ حقیقتاً ایک عقیقہ ہی تھا، اور پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دراصل وہ عقیقہ نہیں تھا۔ اگرچہ ’’عق عن نفسہ‘‘ کے الفاظ جو ولادت کی خوشی میں شکرانے کے طور پر جانور کی قربانی دینے سے عبارت ہیں۔ تکنیکی اِعتبار سے عقیقہ کے آئینہ دار ہیں تاہم وہ معروف معنوں میں روایتی طور پر عقیقہ نہیں تھا کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ آپ کے دادا حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ آپ کی ولادت کے ایک ہفتہ بعد ہی کر چکے تھے۔ پھر امام سیوطی اپنا شرعی موقف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عقیقہ زندگی میں صرف ایک بار ہوتا ہے اور اسے دہرایا نہیں جاتا۔
    اگر کوئی کہے کہ ٹھیک ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ آپ کے دادا حضرت عبد المطلب کر چکے تھے لیکن عقیقہ کی وہ رسم دورِ جاہلیت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ سے پہلے ادا کی گئی تھی اس لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عقیقہ کا اِعادہ مناسب خیال کیا ہوگا۔ یہ سوچ جاہلانہ ہے۔ اگر دورِ جاہلیت سے متعلق اس نقطہ نظر کو درست مان لیا جائے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعثت کے بعد اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے اپنے نکاح کی بھی تجدید کرنی چاہیے تھی۔ عقیقہ تو محض ایک صدقہ ہے جب کہ نکاح عقدِ ازدواج ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح پر مہر کی ادائیگی بھی حضرت ابو طالب نے اپنی جیب سے کی تھی۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو نکاح اور مہر کا اعادہ بھی ہونا چاہئے تھا۔ اِس لیے یہ نقطہ نظر درست نہیں کیوں کہ شریعتِ مطہرہ نے دورِ جاہلیت میں کیے گئے جائز کاموں کو سندِ قبولیت عطا کی ہے اور شرعی اَحکام نزولِ وحی کے بعد نافذ کیے گئے۔ جیسے ’’اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ (سوائے اس کے کہ جو دورِ جہالت میں گزر چکا)‘‘(1) کے تحت تو قبولِ اسلام کے بعد دورِ جاہلیت کے تمام گناہ بھی معاف ہوتے ہیں، ہر ہر گناہ کی الگ الگ توبہ درکار نہیں ہوتی، چہ جائے کہ اُمورِ صالحہ اور اُمورِ مستحسنہ، نکاح، عقیقہ، معاہدے اور ایسے تمام اُمورِ خیر برقرار رہتے ہیں۔ اس لیے امام سیوطی فرماتے ہیں کہ دوبارہ عقیقہ کرنے کی کوئی ضرورت تھی نہ کوئی شرعی تقاضا تھا۔ پس اس پوری تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعثت کے بعد خود اپنا میلاد مناتے ہوئے بکرے ذبح کیے۔
    القرآن، النساء، 4 : 22

    آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اِظہارِ مسرت پر کافر کے عذاب میں تخفیف

    مندرجہ بالا دلائل سے یہ واضح ہوا کہ جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا اﷲ تعالیٰ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سنت ہے، اس لیے محدثین و اَئمہ کرام اور بزرگانِ دین نے کثیر تعداد میں اس کے فضائل و برکات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ تمام کتبِ فضائل و سیرت اور تاریخ اس پر شاہد ہیں۔ اِس ضمن میں ایک مشہور واقعہ درج ہے جو اِمام بخاری (194۔ 256ھ) نے الصحیح کی کتاب النکاح میں نقل کیا ہے۔ اس واقعہ کو زیربحث لانے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ قرآن و حدیث کا مسلمہ اُصول اور اِجماعِ اُمت ہے کہ کافر کی کوئی نیکی اُسے آخرت میں فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ اُس کے اُمورِ خیر کے صلہ میں اُسے جنت دی جائے گی نہ اُس کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی۔ بلکہ اُس کے اچھے اَعمال کے صلہ میں اُسے دنیا میں ہی کشادگی عطا کر دی جاتی ہے۔ (1) آخرت میں نیک کاموں پر جزا کے مستحق صرف مسلمان ہیں کیوں کہ عند اﷲ اَعمال کے اَجر کا باعث اِیمان ہے۔ (2)
    1. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 9 : 145
    2. عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کے حوالہ سے مشہور واقعہ کتبِ اَحادیث میں مذکور ہے کہ ابو لہب نے اپنی ایک لونڈی ثویبہ کو وقتِ ولادت حضرت سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت کے لیے بھیجا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ثویبہ دوڑتے ہوئے ابولہب کے پاس پہنچی اور اسے بھتیجا پیدا ہونے کی خوش خبری سنائی۔ بھتیجے کی پیدائش کی خبر سن کر ابولہب اتنا خوش ہوا کہ اُس نے وہیں اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا : ’’ثویبہ! جا میں نے تجھے نومولود (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیدائش کی خوشی میں آزاد کیا۔‘‘
    ابو لہب جب حالت کفر پر ہی مر گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کہ مرنے کے بعد تجھ پر کیا گزر رہی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں دن رات سخت عذاب میں جلتا ہوں لیکن جب پیر کا دن آتا ہے تو میرے عذاب میں کمی کر دی جاتی ہے اور میری انگلیوں سے پانی جاری ہو جاتا ہے جسے پی کر مجھے سکون ملتا ہے۔ اِس تخفیف کا باعث یہ ہے کہ میں نے پیر کے دن اپنے بھتیجے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی خوش خبری سن کر اپنی خادمہ ثویبہ کو ان انگلیوں کا اشارہ کرتے ہوئے آزاد کر دیا تھا۔
    یہ واقعہ حضرت زینب بنت اَبی سلمہ سے مروی ہے جسے محدثین کی کثیر تعدادنے واقعہ میلاد کے تناظر میں نقل کیا ہے۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) کی الصحیح میں مروی حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
    فلما مات أبولهب أريه بعض أهله بشرّ حيبة، قال له : ما ذا لقيت؟ قال أبولهب : لم ألق بعدکم غير أني سقيت في هذه بعتاقتي ثويبة.
    ’’جب ابولہب مر گیا تو اس کے اہل خانہ میں سے کسی کو اُسے خواب میں دکھایا گیا۔ وہ برے حال میں تھا۔ (دیکھنے والے نے) اس سے پوچھا : کیسے ہو؟ ابولہب نے کہا : میں بہت سخت عذاب میں ہوں، اس سے کبھی چھٹکارا نہیں ملتا۔ ہاں مجھے (اس عمل کی جزا کے طور پر) اس (انگلی) سے قدرے سیراب کر دیا جاتا ہے جس سے میں نے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب وأمهاتکم اللاتي أرضعنکم، 5 : 1961، رقم : 4813
    2. عبد الرزاق، المصنف، 7 : 478، رقم : 13955
    3. عبد الرزاق، المصنف، 9 : 26، رقم : 16350
    4. مروزي، السنة : 82، رقم : 290
    5. بيهقي، السنن الکبري، 7 : 162، رقم : 13701
    6. بيهقي، شعب الإيمان، 1 : 261، رقم : 281
    7. بيهقي، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشريعة، 1 : 149
    8. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 108
    9. ابن ابی دنیا نے ’’کتاب المنامات (ص : 154، رقم : 263)‘‘ میں اسے حسن اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔
    10. بغوي، شرح السنة، 9 : 76، رقم : 2282
    11. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 62
    12. سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 3 : 98، 99
    13. زيلعي، نصب الراية لأحاديث الهداية، 3 : 168
    14. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 67 : 171، 172
    15. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 229، 230
    16. عسقلاني، فتح الباري، 9 : 145
    17. عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95
    18. شيباني، حدائق الأنوار، 1 : 134
    19. عامري، شرح بهجة المحافل، 1 : 41
    20. انور شاه کشميري، فيض الباري علي صحيح البخاري، 4 : 278
    یہ روایت اگرچہ مُرسَل(1) ہے لیکن مقبول ہے، اِس لیے کہ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) نے اسے اپنی ’’الصحیح‘‘ میں نقل کیا ہے اور اَجل علماء و حفاظِ حدیث نے اِس پر اِعتماد کرتے ہوئے اِس سے اِستشہاد و اِستناد کیا ہے۔ ثانیاً یہ روایت فضائل و مناقب کے باب میں ہے نہ کہ حلال و حرام میں؛ اور مناقب و اَحکام کے مابین حدیث کے اِستدلال میں فرق کو علماء خوب جانتے ہیں۔
    (1) اُصولِ حدیث میں مرسل اُس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کی سند کا آخری حصہ یعنی تابعی سے اوپر کا کوئی راوی ساقط ہو۔
    (1) اِس کا حکم یہ ہے کہ جب اَجل تابعی تک یہ روایت صحیح ثابت ہوجائے تو قابلِ حجت ہوگی۔ (2) تین فقہی مذاہب کے بانیان. اِمام اَعظم ابو حنیفہ (80۔ 150ھ)، اِمام مالک (93۔ 179ھ) اور اِمام اَحمد بن حنبل (164۔ 241ھ)۔ اور محدّثین کی کثیر جماعت کے نزدیک مرسل روایت قابلِ حجت ہوتی ہے بشرطیکہ ارسال کرنے والا ثقہ ہو اور وہ ثقہ ہی سے ارسال کرتا ہو۔ (3) ان کی دلیل یہ ہے کہ ثقہ تابعی کے متعلق یقینی ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ’’قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کذا او فعل کذا او فعل بحضرتہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا، یا یہ کیا یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے یہ کیا گیا)‘‘ تب ہی کہے گا جب وہ ثقہ راوی سے سنے گا۔
    1. ذهبي، الموقظة في علم مصطلح الحديث : 38
    2. ابن کثير، الباعث الحثيث شرح اختصار علوم الحديث : 48
    3. ابن حجر عسقلاني، نزهة النظر بشرح نخبة الفکر في مصطلح حديث أهل الأثر : 36، 37
    4. سخاوي، کتاب الغاية في شرح الهداية في علم الرواية، 1 : 272

    (2) ذهبي، الموقظة في علم مصطلح الحديث : 39

    (3) 1. سخاوي، کتاب الغاية في شرح الهداية في علم الرواية، 1 : 273
    2. ابن کثير، الباعث الحثيث شرح اختصار علوم الحديث : 48
    3. عبد الحق محدث دهلوي، مقدمة في أصول الحديث : 42، 43
    حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) ’’نزھۃ النظر بشرح نخبۃ الفکر فی مصطلح حدیث اھل الاثر (ص : 37)‘‘ میں لکھتے ہیں :
    ’’اِمام اَحمد کے ایک قول اور مالکی و حنفی فقہاء کے مطابق حدیثِ مرسل مطلقاً مقبول ہوتی ہے، اور امام شافعی یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی اور سند (خواہ وہ سند متصل ہو یا مرسل) سے مرسل روایت کی تائید ہو جائے تو وہ مقبول ہے ورنہ نہیں۔‘‘
    ملا علی قاری حنفی (م 1014ھ) شرح شرح نخبۃ الفکر میں لکھتے ہیں کہ ابن جریر نے یہ تصریح کی ہے کہ حدیث مرسل قبول کرنے پر تمام تابعین کا اِجماع ہے اور کسی تابعی سے اس کا انکار منقول نہیں۔ اور نہ اس کے بعد دو سو (200) سال تک اَئمہ میں سے کسی نے اس کا انکار کیا اور یہی وہ قرونِ فاضلہ ہیں جن کے خیر پر برقرار رہنے کی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہادت دی۔
    اس روایت سے آئمہ و محدثین کا جشنِ میلاد کا استشہاد
    ذیل میں ہم اِس روایت کے بارے میں چند ائمہ کرام کے ملفوظات نقل کریں گے، جنہوں نے اِس واقعہ سے جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِستشہاد و اِستناد کیا ہے :
    1۔ حافظ شمس الدین محمد بن عبد اﷲ جزری (م 660ھ) اپنی تصنیف ’’عرف التعریف بالمولد الشریف‘‘ میں لکھتے ہیں :
    فإذا کان أبولهب الکافر الذي نزل القران بذمه جوزيَ في النار بفرحه ليلة مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم به، فما حال المسلم الموحد من أمة النبي صلي الله عليه وآله وسلم يسر بمولده، وبذل ما تصل إليه قدرته في محبته صلي الله عليه وآله وسلم ؟ لعمري إنما يکون جزاؤه من اﷲ الکريم أن يدخله بفضله جنات النعيم.
    ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اُس ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے۔ تو اُمتِ محمدیہ کے اُس مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک اﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو اپنے حبیب مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے کے طفیل اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔‘‘
    1. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206
    2. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 65، 66
    3. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 147
    4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 260، 261
    5. يوسف صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 366، 367
    6. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237، 238
    2۔ حافظ شمس الدین محمد بن ناصر الدین دمشقی (777۔ 842ھ) ’’مورد الصادی فی مولد الہادی‘‘ میں فرماتے ہیں :
    قد صح أن أبالهب يخفّف عنه عذاب النار في مثل يوم الإثنين لإعتاقه ثويبة سرورًا بميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کرنے کے صلہ میں ہر پیر کے روز ابولہب کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے۔‘‘
    اِس کے بعد محمد بن ناصر الدین دمشقی نے درج ذیل اَشعار پڑھے :
    إذا کان هذا کافر جاء ذمه
    وتبت يداه في الجحيم مخلَّدا

    أتي أنه في يوم الاثنين دائما
    يخفّف عنه للسّرور بأحمدا

    فما الظن بالعبد الذي طولُ عمره
    بأحمد مسروراً ومات موحدا
    ’’جب ابولہب جیسے کافر کے لیے۔ جس کی مذمت قرآن حکیم میں کی گئی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں اُس کے ہاتھ ٹوٹتے رہیں گے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی منانے کی وجہ سے ہر سوموار کو اُس کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔ تو کتنا خوش نصیب ہوگا وہ مسلمان جس کی ساری زندگی عبادتِ الٰہی اور میلاد کی خوشیوں میں بسر ہوئی اور وہ حالتِ اِیمان پر فوت ہوا۔‘‘
    1. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206
    2. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 66
    3. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 238

    3۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ) اِسی روایت کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
    در اینجا سند است مراہل موالید را کہ در شبِ میلاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرور کنند و بذل اموال نمایند یعنی ابولہب کہ کافر بود، و قرآن بمذمت وے نازل شدہ، چوں بسرور میلاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و بذل شیر جاریہ وے بجہت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جزا دادہ شد تا حال مسلمان کہ مملوست بمحبت و سرور و بذل مال در وے چہ باشد۔ ولیکن باید کہ از بدعتہا کہ عوام احداث کردہ انداز تغنی وآلات محرمہ ومنکرات خالی باشد تا موجب حرمان اَز طریقہ اِتباع نگردد۔
    عبد الحق، مدارج النبوة، 2 : 19
    ’’یہ روایت موقعِ میلاد پر خوشی منانے اور مال صدقہ کرنے والوں کے لیے دلیل اور سند ہے۔ ابولہب جس کی مذمت میں ایک مکمل سورتِ قرآنی نازل ہوئی جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں لونڈی آزاد کر کے عذاب میں تخفیف حاصل کر لیتا ہے تو اس مسلمان کی خوش نصیبی کا کیا عالم ہوگا جو اپنے دل میں موجزن محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے ولادتِ مصطفیٰ کے دن مسرت اور عقیدت کا اظہار کرے۔ ہاں بدعات مثلاً رقص اور غیر اسلامی اعمال وغیرہ سے اجتناب ضروری ہے کیوں کہ انسان اس کے باعث میلاد کی برکات سے محروم ہو جاتا ہے۔‘‘
    4۔ مولانا محمد عبد الحئ فرنگی محلی لکھنوی (1264۔ 1304ھ) لکھتے ہیں :
    ’’پس جب ابولہب ایسے کافر پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہو گئی تو جو کوئی امتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کرے اور اپنی قدرت کے موافق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں خرچ کرے کیوں کر اعلیٰ مرتبہ کو نہ پہنچے گا، جیسا کہ ابن جوزی (510۔ 579ھ) اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ) نے لکھا ہے۔‘‘
    عبد الحئ، مجموعه فتاويٰ، 2 : 282
    5۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی (و 1341ھ) تحریر کرتے ہیں :
    ’’جب ابولہب جیسے بدبخت کافر کے لیے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہو گئی تو جو کوئی اُمتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کرے اور حسبِ وسعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں خرچ کرے تو کیوں کر اَعلیٰ مراتب حاصل نہ کرے گا۔‘‘
    لدهيانوي، احسن الفتاويٰ، 1 : 347، 348
    اِن اَئمہ و علماء کا ثویبہ کے واقعہ سے اِستدلال کرنا اس روایت کی صحت و حقانیت پر بھی دلالت کرتا ہے اور جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواز کا بھی بيّن ثبوت ہے۔

    میلاد منانے پر کافر کے عذاب میں تخفیف کیوں؟

    مذکورہ بالا تفصیل سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابولہب کے عذاب میں تخفیف کیوں کی گئی جب کہ قرآن و حدیث اور اِجماعِ اُمت کی رُو سے کافر کا کوئی عمل بھی قابلِ اَجر نہیں اور آخرت میں اَجر و ثواب کا مستحق صرف صاحبِ ایمان ہی ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ ابولہب کے اِس عمل کا تعلق چوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس سے تھا اور اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا، اِس لیے اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا جشن منانے پر اُس کافر کے عذاب میں بھی تخفیف کردی جس کی مذمت میں پوری ایک سورۃ نازل فرمائی تھی۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کافر کا وہ عمل جس کا تعلق رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے رائیگاں نہیں جائے گا۔
    ابولہب سے ہفتہ وار تخفیفِ عذاب اِس سبب سے نہیں ہوئی کہ اُس نے اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پر خوشی منانا ہی اِس اِنعام کا باعث ہے اور اُس کا یہی عمل کافر ہوتے ہوئے بھی اُس کے عذاب میں رعایت کا سبب بن گیا۔ اﷲ تعالیٰ یہ نہیں دیکھتا کہ عمل کرنے والا کون ہے بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ عمل کس کے لیے کیا گیا ہے۔ اُسے اِس سے غرض نہیں کہ عمل کرنے والا ابو لہب ایک کافر تھا کیوں کہ اُس کی ساری شفقتیں تو اپنے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خاص ہیں۔
    وضاحت کے لیے محدثین کی چندمزید تصریحات درج ذیل ہیں :
    1۔ اِمام بیہقی (384۔ 458ھ) شعب الایمان میں لکھتے ہیں کہ یہ خصائص محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہے کہ کفار کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کا صلہ عطا کیا جاتا ہے :
    وهذا أيضا لأن الإحسان کان مرجعه إلي صاحب النبوة، فلم يضع.
    ’’اور یہ اِس لیے ہے کہ ابو لہب کے اِحسان کا مرجع صاحبِ نبوت ذات تھی، اس لیے اُس کا عمل ضائع نہیں کیا گیا۔‘‘
    بيهقي، شعب الإيمان، 1 : 261، رقم : 281
    2۔ اِمام بغوی (436۔ 516ھ) لکھتے ہیں :
    هذا خاص به إکرامًا له صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’ابو لہب کے عذاب میں تخفیف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِکرام کی وجہ سے ہے۔‘‘
    بغوي، شرح السنة، 9 : 76
    3۔ اِمام سہیلی (508۔ 581ھ) نے بھی یہی نقطہ نظر اِختیار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک روایت میں ہے :
    قال : مالقيت بعدکم راحة، غير أني سُقيت في مثل هذه، وأشار إلي النقرة بين السبابة والإبهام، بعِتقي ثويبة، وفي غير البخاري إن الذي رآه من أهله هو أخوه العباس، قال : مکثت حولا بعد موت أبي لهب لا أراه في نوم، ثم رأيته في شر حال، فقال : ما لقيت بعدکم راحة إلا أن العذاب يخفّف عني کل يوم اثنين. وذلک أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ولد يوم الإثنين، وکانت ثويبة قد بشّرته بمولده، فقالت له : أشعرت أن آمنة ولدت غلامًا لأخيک عبد اﷲ؟ فقل لها : اذهبي، فأنت حرة، فنفعه ذلک.
    ’’ابو لہب نے کہا : میں نے تمہارے بعد آرام نہیں پایا سوائے اس کے کہ ثویبہ لونڈی کے آزاد کرنے پر مجھے اتنا پانی پلایا جاتا ہے، اور (یہ کہتے ہوئے) اُس نے سبابہ (انگشتِ شہادت) اور انگوٹھے کے درمیانی فاصلے کی طرف اشارہ کیا۔ صحیح بخاری کے علاوہ دیگر روایات میں ہے کہ اُس کے اہلِ خانہ میں سے جس فرد نے اُسے دیکھا وہ اُس کے بھائی حضرت عباس رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ نے فرمایا : میں ابولہب کی موت کے بعد ایک سال تک اُسے خواب میں دیکھتا رہا، پھر میں نے اُسے بہت بری حالت میں دیکھا تو اُس نے کہا : میں نے تمہارے بعد کوئی آرام نہیں پایا سوائے اِس کے کہ ہر پیر کے روز میرے عذاب میں کمی کر دی جاتی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پیر کے دن ہوئی اور ثویبہ نے ابولہب کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوش خبری سنائی تھی، اور اسے کہا تھا : کیا تجھے پتہ چلا ہے کہ آمنہ (رضی اﷲ عنھا) کے ہاں تیرے بھائی عبد اﷲ (رضی اللہ عنہ) کا بیٹا پیدا ہوا ہے؟ (اِس پر خوش ہوکر) ابو لہب نے اُس سے کہا : جا، تو آزاد ہے۔ اِس (خوشی منانے) نے اُسے دوزخ کی آگ میں فائدہ پہنچایا۔‘‘
    سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 3 : 98، 99
    4۔ رئیس المفسرین اِمام قرطبی (م 671 ھ) فرماتے ہیں :
    هذا التخفيف خاص بهذا وبمن ورد النص فيه.
    ’’جب نصِ صحیح میں آچکا ہے کہ کافر کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کے صلہ میں اَجر ملتا ہے تو ایسے مقام پر اُسے مانا جائے گا۔‘‘
    عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95
    5۔ شارِحِ صحیح بخاری اِمام کرمانی (717۔ 786ھ) لکھتے ہیں :
    يحتمل أن يکون العمل الصالح والخير الذي يتعلق بالرسول صلي الله عليه وآله وسلم مخصوصا من ذالک.
    ’’اِس واقعہ کو اِس پر محمول کیا جائے گا کہ کافر کے اُس عمل اور بھلائی پر اَجر و ثواب دیا جاتا ہے جس کا تعلق اﷲ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہو۔‘‘
    کرماني، الکواکب الدراري في شرح صحيح البخاري، 19 : 79
    6۔ شارِحِ صحیح بخاری اِمام بدر الدین عینی (762۔ 855ھ) بیان کرتے ہیں :
    يحتمل أن يکون ما يتعلق بالنبي صلي الله عليه وآله وسلم مخصوصا من ذلک.
    ’’اِس واقعہ کو اِس پر محمول کیا جائے گا کہ وہ اَعمال جن کا تعلق ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہو اُن کے ذریعے کافر کے عذاب میں تخفیف ہو جاتی ہے۔‘‘
    عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95
    7۔ اِمام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) نے یہ موقف بالصراحت بیان کیا ہے، جیسا کہ ہم نے گزشتہ صفحات میں اُن کی کتب الحاوی للفتاوی اور حسن المقصد فی عمل المولد سے مختلف عبارات نقل کی ہیں۔
    8۔ اِمام عبد الرحمن بن دبیع شیبانی (866۔ 944ھ) لکھتے ہیں :
    فتخفيف العذاب عنه إنما هو کرامة النبي صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’ابولہب کے عذاب میں یہ تخفیف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِکرام کی وجہ سے ہوئی۔‘‘
    شيباني، حدائق الأنوار، 1 : 134
    اِن تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ نادانستہ طور پر آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے والے بدترین کافر کو بھی اﷲ تعالیٰ اِس عمل کی جزا دے رہا ہے اور قیامت تک دیتا رہے گا۔ اور یہ صرف اور صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے کیے جانے والے اَعمال کی خصوصیت ہے کہ اگر کافر بھی کوئی عمل کرے گا تو اس کو جزا دی جائے گی۔
    ایک اِعتراض اور اُس کا جواب
    بعض لوگ اِس روایت پر اِعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ معاملہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ خواب میں پیش آیا اور وہ اُس وقت تک ایمان بھی نہیں لائے تھے۔ لہٰذا اِسے شرعی ضابطہ کیوں کر بنایا جا سکتا ہے؟
    اِس اِعتراض کا جواب یہ ہے کہ :
    1۔ جب ہم اِس واقعہ کو اپنے موقف میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خوشی منانا باعثِ اَجر و ثواب ہے۔ کی تائید میں بطور دلیل لیتے ہیں تو ہم ابو لہب کا بیان اپنی دلیل کی بنیاد نہیں بناتے۔ ہمارے اِستدلال کی بنیاد حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی روایت پر ہوتی ہے۔
    2۔ اگرچہ یہ واقعہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے اِسلام لانے سے پہلے کا ہے لیکن اِسے روایت کرتے وقت اُن کا مشرف بہ اِسلام ہونا شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ یہ روایت اُنہوں نے شرفِ صحابیت حاصل کرنے کے بعد مدینہ منورہ میں بیان کی تھی۔ لہٰذا آپ کی یہ روایت نورِ اِسلام حاصل ہوجانے کے بعد کی ہے اور ہر طرح سے قابلِ لحاظ و لائق اِستناد ہے۔
    3۔ اس حدیث کی ثقاہت اور قبولیت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ اِس روایت پر اِعتماد کرتے ہوئے اِمام بخاری (194۔ 256ھ) نے اسے الصحیح میں روایت کیا ہے۔ اگر اِمام بخاری کی نظر میں یہ حدیث قابلِ اِستناد نہ ہوتی تو وہ ہرگز اسے اپنی الصحیح میں شامل نہ کرتے بلکہ اِسے مسترد کر دیتے۔ ان کے علاوہ اِمام بخاری کے اُستاد اِمام عبد الرزاق بن ہمام صنعانی (126۔ 211ھ) نے اِسے المصنف میں روایت کیا ہے۔ اِمام مروزی (202۔ 294ھ) نے السنۃ میں درج کیا ہے۔ اِمام بیہقی (384۔ 458ھ) نے یہ روایت اپنی تین کتب. السنن الکبری، شعب الایمان، دلائل النبوۃ و معرفۃ احوال صاحب الشریعۃ. میں بیان کی ہے۔ اِمام ابن کثیر (701۔ 774ھ) نے یہ روایت البدایۃ والنہایۃ میں درج کی ہے۔ ابن سعد (168۔ 230ھ) نے الطبقات الکبری میں، اِمام بغوی (436۔ 516ھ) نے شرح السنۃ میں، ابن جوزی (510۔ 579ھ) نے صفوۃ الصفوۃ میں، سہیلی (508۔ 581ھ) نے الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ہشام میں اور ابن عساکر (499۔ 571ھ) نے تاریخ دمشق الکبیر میں اِسے روایت کیا ہے۔ اگر یہ روایت صحیح نہ ہوتی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشی منانے کے صلہ میں ابولہب کے عذاب میں تخفیف کا واقعہ درست نہ ہوتا تو مذکورہ بالا اَجل علماء و محدثین سمیت دیگر ائمہ کرام یہ روایت اپنی اپنی کتب میں کیوں بیان فرماتے؟ اِن اَجل ائمہ و محدثین نے نہ صرف اِسے روایت کیا ہے بلکہ اِس سے اِستنباط کرتے ہوئے اِس کی شرح بیان کی ہے جس پر کسی حاشیہ آرائی کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔
    خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہماری نظر میں اِس حدیث کے قابلِ اِستناد و اِستدلال ہونے کی دلیل حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا اِسے بیان کرنا، اِمام بخاری کا بطورِ حدیث اِسے قبول کرنا اور درجنوں ائمہ حدیث کا اپنی اپنی کتب میں اِسے شرعی قواعد و ضوابط کے طور پر درج کرکے اس سے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کی شرعی اِباحت کا اِستدلال و اِستنباط کرنا ہے۔

    محافل میلاد اور محافل نعت سنت نبوی :drood: ہے

    حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے نعت سننا

    1۔ ام المؤ منین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يضع لحسان منبراً في المسجد يقوم عليه قائماً يفاخر عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أو قالت : ينافح عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے مسجد نبوی میں منبر رکھواتے، وہ اس پر کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق (کفار و مشرکین کے مقابلہ میں) فخریہ شعر پڑھتے یا فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کرتے۔‘‘
    حدیث شریف میں وارِد لفظ ’’کَانَ‘‘ اس امر کی خبر دیتا ہے کہ یہ واقعہ بار بار ہوا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو مسجد نبوی میں منبر پر بلاتے اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں نعت پڑھتے اور کفار کی ہجو میں لکھا ہوا کلام سناتے۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و شوکت اور علو مرتبت کا پتہ چلتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا آگے بیان کرتی ہیں کہ حضرت حسان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوکر فرماتے :
    إن اﷲ تعالي يؤيّد حسان بروح القدس ما يفاخر أو ينافح عن رسول اﷲ.
    ’’بے شک اللہ تعالیٰ روح القدس کے ذریعے حسان کی مدد فرماتا ہے جب تک وہ اﷲ کے رسول کے متعلق فخریہ اَشعار بیان کرتا ہے یا (اَشعار کی صورت میں) ان کا دفاع کرتا ہے۔‘‘
    1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الأدب، باب في إنشاد الشعر، 5 : 138، رقم : 2846
    2. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 72، رقم : 24481
    3. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 554، رقم : 6058
    4. ابو يعلي، المسند، 8 : 189، رقم : 4746

    حضرت عامر بن اَکوع رضی اللہ عنہ سے مجمع عام میں نعتیہ اَشعار سننا
    حضرت سلمہ بن اَکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک رات ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ خیبر کی طرف جا رہے تھے۔ قافلہ میں سے کسی شخص نے میرے بھائی عامر بن اَکوع سے کہا کہ آج آپ ہمیں اپنا کوئی کلام سنائیں۔ وہ اونٹ سے اُترے اور یہ شعر پڑھنے لگے :
    اللّهم! لو لا أنت ما اهتدينا
    ولا تصدّقنا ولا صلّينا

    فاغفر فداء لک ما اتّقينا
    وثبّت الأقدام إن لاقينا​
    (اے ہمارے پروردگار! اگر تو (اپنا محبوب ہمارے درمیان بھیج کر) ہمارے شاملِ حال نہ ہوتا تو ہم ہرگز ہدایت پاسکتے نہ ہم صدقہ و خیرات کرتے اور نہ نماز قائم کرسکتے۔ میں تجھ پر فدا! تو ہماری خطائیں معاف فرما جب تک ہم تقوی اِختیار کیے ہوئے ہیں اور جب دشمن سے ہمارا سامنا ہو تو ہمیں ثابت قدمی عطا فرما۔‘‘
    یہ سن کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : من هذا السائق؟
    ’’یہ اونٹنی چلانے والا (اور میری نعت کہنے والا) کون ہے؟‘‘
    صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! یہ عامر بن اَکوع ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوش ہوکر دعا دیتے ہوئے فرمایا : يرحمه اﷲ.
    ’’اللہ تعالیٰ اُس پر رحمت نازل فرمائے۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة خيبر، 4 : 1537، رقم : 3960
    2. بخاري، الصحيح، کتاب الأدب، باب ما يجوز من الشّعر، 5 : 2277، رقم : 5796
    3. مسلم، الصحيح، کتاب الجهاد، باب غزوة خيبر، 3 : 1428، رقم : 1802

    حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے ذکرِ میلاد و نعت سننا
    حضرت خریم بن اوس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غزوۂ تبوک سے واپسی پر حاضر ہو کر اسلام قبول کیا تو میں نے عباس بن عبد المطلب کو یہ کہتے ہوئے سنا : یا رسول اللہ! میں آپ کی مدح کرنا چاہتا ہوں۔ اُن کے اِظہارِ خواہش پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قل، لا يفضض اﷲ فاک.
    ’’کہیں، اللہ تعالیٰ آپ کے منہ کی مہر نہ توڑے (یعنی آپ کے دانت سلامت رہیں)۔‘‘
    پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اَقدس میں درج ذیل نعتیہ اَشعار کہے :
    من قبلها طبت في الظلال وفي
    مستودع حيث يخصف الورق​
    (جب حضرت آدم علیہ السلام (اور حضرت حوا علیہا السلام) اپنے اپنے جسموں کو (جنت میں) پتوں سے ڈھانپ رہے تھے۔ اُس وقت سے بھی بہت پہلے آپ صلی اﷲ علیک وآلک وسلم جنت کے سایوں اور اپنی والدہ ماجدہ کے رحم میں بھی پاکیزہ تھے۔)
    ثم هبطت البلاد لا بشر
    أنت ولا مضغة ولا علق​
    (اُن کے جنت سے زمین پر اتارے جانے کے بعد) آپ صلی اﷲ علیک وآلک وسلم بھی اُن کے ہمراہ زمین پر تشریف لے آئے جب کہ آپ صلی اﷲ علیک وآلک وسلم نہ تو قبل ازیں بشری صورت میں تھے اور نہ ہی گوشت اور علق کی حالت میں۔)
    بل نطفة ترکب السفين وقد
    ألجم نسرا وأهله الغرق​
    (بلکہ حضرت نوح علیہ السلام کی مبارک پشت میں ایک تولیدی قطرہ کی حالت میں کشتی میں سوار تھے جب (دریا کے) غرق نے نسر (بت) اور اس کی پرستش کرنے والوں کو لگام دی تھی (یعنی طوفان کے باعث منکرینِ نوح غرق ہوگئے تھے)۔
    تنقل من صالب إلي رحم
    إذا مضي عالم بدا طبق​
    (آپ صلی اﷲ علیک وآلک وسلم مقدس اَصلاب سے پاکیزہ اَرحام کی جانب منتقل ہوتے رہے۔ جب ایک دور گزرتا تو دوسرا شروع ہوجاتا۔)
    حتي احتوي بيتک المهيمن من
    خندف علياء تحتها النطق​
    (یہاں تک کہ آپ صلی اﷲ علیک وآلک وسلم کا مبارک شرف جو آپ کے فضل پر گواہ ہے قبیلہ خندف (قریش) کے نسب کے اَعلیٰ مقام پر فائز ہوا (جب کہ دوسرے تمام لوگ آپ کے اِس مقام سے نیچے ہیں)۔
    وأنت لما ولدت أشرقت الأ
    رض وضاءت بنورک الأفق

    (اور جب آپ (سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کی گود میں) بزم آرائے جہاں ہوئے تو آپ کی تشریف آوری کے باعث زمین پُر نور ہوگئی اور فضائیں جگمگا اٹھیں۔)

    فنحن في ذلک الضياء وفي
    النور وسبل الرشاد نخترق​
    (ہم آپ صلی اﷲ علیک وآلک وسلم کی ضیاء پاشی اور نورانیت کے صدقے ہی تو راہِ ہدایت پر گامزَن ہیں۔ )
    1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 369، 370، رقم : 5417
    2. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 213، رقم : 4167
    3. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 54
    4. ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 2 : 165، 166
    5. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8 : 218
    6. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 46
    7. نبهاني، الأنوار المحمدية من المواهب اللدنية : 25

    اَنصار کی بچیوں کی دف پرآمدِ مصطفی پر جلوس ،نعت خوانی اور جلوسِ میلاد

    عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دن درود و سلام سے مہکی ہوئی فضا میں جلوس نکالنا بھی تقریباتِ میلاد کا حصہ ہے۔ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کا یہ عمل بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سنت ہے۔ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی جلوس نکالے جاتے جن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم شریک ہوتے۔ درج ذیل احادیث سے جلوس کا ثبوت فراہم ہوتا ہے :
    کتب سیر و اَحادیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہجرت کے بعد مدینہ منورہ آمد کا حال اس طرح بیان کیا گیا ہے :
    ’’اُن دنوں جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کسی روز بھی متوقع تھی مدینہ منورہ کے مرد و زن، بچے اور بوڑھے ہر روز جلوس کی شکل میں دیدہ و دل فرشِ راہ کیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِستقبال کے لیے مدینہ سے چند میل کے فاصلے پر قباء کے مقام پر جمع ہو جاتے۔ جب ایک روز سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کی مسافتیں طے کرتے ہوئے نزولِ اِجلال فرمایا تو اس دن اہلِ مدینہ کی خوشی دیدنی تھی۔ اس دن ہر فرد فرطِ مسرت میں گھر سے باہر نکل آیا اور شہرِ مدینہ کے گلی کوچوں میں ایک جلوس کا سا سماں نظر آنے لگا۔‘‘
    حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ہیں :
    فصعد الرجال والنساء فوق البيوت، وتفرق الغلمان والخدم في الطرق، ينادون : يا محمد! يا رسول اﷲ! يا محمد! يا رسول اﷲ!
    ’’مرد و زن گھروں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام راستوں میں پھیل گئے، سب بہ آواز بلند کہہ رہے تھے : یا محمد! یا رسول اللہ! یا محمد! یا رسول اللہ!‘‘
    1. مسلم، الصحيح، کتاب الزهد والرقائق، باب في حديث الهجرة، 4 : 2311، رقم : 2009
    2. ابن حبان، الصحيح، 15 : 289، رقم : 68970
    3. أبويعلي، المسند، 1 : 107، رقم : 116
    4. مروزي، مسند أبي بکر : 129، رقم : 65
    اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری دیکھ کر جاں نثاروں پر کیف و مستی کا ایک عجیب سماں طاری ہوگیا۔ اِمام رویانی کے مطابق اہالیانِ مدینہ جلوس کی شکل میں یہ نعرہ لگا رہے تھے :
    جاء محمد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’اﷲ کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔‘‘
    روياني، مسند الصحابة، 1 : 138، رقم : 329
    معصوم بچیاں اور اَوس و خزرج کی عفت شعار دوشیزائیں دف بجا کر دل و جان سے محبوب ترین اور عزیز ترین مہمان کو اِن اَشعار سے خوش آمدید کہہ رہی تھیں :
    طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا
    مِنْ ثَنِياتِ الْودَاعِ

    وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَيْنَا
    مَا دَعَاِﷲِ دَاعٍ

    أيُّهَا الْمَبْعُوْثُ فِيْنَا
    جِئْتَ بِالْأمْرِ الْمَطَاعِ​
    (ہم پر وداع کی چوٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا، جب تک لوگ اللہ کو پکارتے رہیں گے ہم پر اس کا شکر واجب ہے۔ اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی! آپ ایسے اَمر کے ساتھ تشریف لائے ہیں جس کی اِطاعت کی جائے گی۔)
    1. ابن ابي حاتم رازي، الثقات، 1 : 131
    2. ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 14 : 82
    3. أبو عبيد اندلسي، معجم ما استعجم من أسماء البلاد والمواضع، 4 : 1373
    4. محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشرة، 1 : 480
    5. بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 2 : 507
    6. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 583
    7. ابن کثير، البداية والنهاية، 3 : 620
    8. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 7 : 261
    9. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 8 : 129
    10. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 634
    11. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 4 : 100، 101
    12. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 323

    کیا مندرجہ بالا ساری روایات سب محافلِ میلاد نہیں ہیں ؟

    غور طلب مقام یہ ہے کہ ہر روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، نعت خوان صحابی اور انکے ہمراہ دیگر صحابہ کا ذکر ہے۔ مثلا راوی صحابی وغیرہ ۔ بالخصوص آخری روایت میں انصار کی بچیاں تو باقاعدہ جلوس کی شکل میں اجتماعی طور پر خوشی مناکر نعتیں پڑھتی نظر آتی ہیں۔ جو کہ سب کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وقوع پذیر ہوا اور آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا۔ بلکہ میلاد کی نعتیں پڑھنے والوں کو انعام و اکرام سے نوازا۔

    اوپر بیان کردہ محفلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَجزائے تشکیلی سے واضح ہوگیا ہے کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے یہی طریقے جائز اور مسلمہ ہیں۔ دنیا بھر میں اِسلامی معاشرے اِنہی طریقوں سے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سے ایک عمل بھی ایسا نہیں جس کی اَصل عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دورِ صحابہ میں موجود نہ ہو یا قرآن و سنت سے متصادم ہو۔ جس طرح یہ اَجزاء الگ الگ طور پر جائز بلکہ مسلمہ ہیں اُسی طرح مجموعی طور بھی محفلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں اِن کو شرعی جواز حاصل ہے۔

    حوالہ جاتی کتاب ۔ میلاد النبی :drood:
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا جشن میلاد النبی منانا بدعت ہے مگر کیوں (ضرور پڑھیئے)۔

    جشنِ میلاد النبی :drood: کی خوشی میں چراغاں کا اِہتمام سنتِ الہی ہے۔

    جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریبات میں اِجتماعاتِ ذکر اور محافلِ نعت کا اِنعقاد اَدب و اِحترام اور جوش و جذبے سے کیا جاتا ہے۔ شبِ ولادت چراغاں کا اِہتمام جشنِ میلاد کا ایک اور ایمان اَفروز پہلو ہے۔ عمارتوں اور شاہراہوں کو رنگا رنگ روشنیوں سے سجایا جاتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِنسانیت کو تاریکیوں سے نکال کر علم و آگہی کے اُجالوں میں لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات نورِ اِلٰہی کا مظہر اَتم ہے۔ لہٰذا دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی خوشیاں منانے کے لیے بساطِ زندگی کو رنگ و نور سے سجایاجاتا ہے۔ ذہن میں سوال آسکتا ہے کہ کیا اَوائل دورِ اسلام میں بھی اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟ دِقتِ نظر سے دیکھا جائے تو یہ عمل ثقہ روایات کے مطابق خود ربِ ذوالجلال کی سنت ہے۔
    1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے حوالہ سے حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت عبد اللہ ثقفیہ رضی اﷲ عنہما حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا کے پاس تھیں۔ آپ شبِ ولادت کی بابت فرماتی ہیں :
    فما ولدته خرج منها نور أضاء له البيت الذي نحن فيه والدّار، فما شيء أنظر إليه إلا نور.
    ’’پس جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی تو سیدہ آمنہ کے جسمِ اَطہر سے ایسا نور نکلا جس سے پورا گھر اور حویلی جگمگ کرنے لگی اور مجھے ہر ایک شے میں نور ہی نور نظر آیا۔‘‘
    1. طبراني، المعجم الکبير، 25 : 147، 186، رقم : 355، 457
    2. شيباني، الآحاد والمثاني : 631، رقم : 1094
    3. ماوردي، أعلام النبوة : 247
    4. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 454
    5. بيهقي، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشريعة، 1 : 111
    6. أبو نعيم، دلائل النبوة : 135، رقم : 76
    7. ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الأمم والملوک، 2 : 247
    8. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 3 : 79
    9. ابن عساکر، السيرة النبوية، 3 : 46
    10. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 264
    11. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8 : 220
    12. ابن رجب حنبلي، لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف : 173
    13. عسقلاني، فتح الباري، 6 : 583
    2۔ حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا سے ایک روایت یوں مروی ہے :
    إني رأيت حين ولدته أنه خرج مني نور أضاء ت منه قصور بصري من أرض الشام.
    ’’جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنم دیا تو میں نے دیکھا کہ بے شک مجھ سے ایسا نور نکلا جس کی ضیاء پاشیوں سے سر زمینِ شام میں بصرہ کے محلات روشن ہوگئے۔‘‘
    1. طبراني، المعجم الکبير، 24 : 214، رقم : 545
    2. ابن حبان، الصحيح، 14 : 313، رقم : 6404
    3. عبد الرزاق، المصنف، 5 : 318
    4. دارمي، السنن، 1 : 20، رقم : 13
    5. شيباني، الآحاد والمثاني، 3 : 56، رقم : 1369
    6. شيباني، الآحاد والمثاني، 4 : 397، رقم : 2446
    7. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2 : 673، رقم : 4230
    8۔ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (8 : 222)‘‘ میں کہا ہے کہ اِسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے، اور احمد کی بیان کردہ روایت کی اسناد حسن ہیں۔
    9. هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان : 512، رقم : 2093
    10. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 102
    11. ابن إسحاق، السيرة النبوية، 1 : 97، 103
    12. ابن هشام، السيرة النبوية : 160
    13. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 455
    14. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 1 : 171، 172
    15. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 3 : 466
    16. ابن عساکر، السيرة النبوية، 3 : 46
    17. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 275
    18. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 78
    19. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 83
    20. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 46

    اُتر آئے ستارے قمقے بن کر

    اِنسان جب جشن مناتے ہیں تو اپنی بساط کے مطابق روشنیوں کا اہتمام کرتے ہیں، قمقے جلاتے ہیں، اپنے گھروں، محلوں اور بازاروں کو ان روشن قمقموں اور چراغوں سے مزین و منور کرتے ہیں، لیکن وہ خالقِ کائنات جس کی بساط میں شرق و غرب ہے اُس نے جب چاہا کہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر چراغاں کروں تو نہ صرف شرق تا غرب زمین کو منور کر دیا بلکہ آسمانی کائنات کو بھی اِس خوشی میں شامل کرتے ہوئے ستاروں کو قمقمے بنا کر زمین کے قریب کر دیا۔
    حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت عبد اﷲ ثقیفہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں :
    حضرت ولادة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فرأيت البيت حين وضع قد امتلأ نوراً، ورأيت النجوم تدنو حتي ظننت أنها ستقع عليّ.
    ’’جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو (میں خانہ کعبہ کے پاس تھی) میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے منور ہوگیا ہے اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ کہیں مجھ پر نہ گر پڑیں۔‘‘
    1. سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 1 : 278، 279
    2. ابن أثير، الکامل في التاريخ، 1 : 459
    3. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 454
    4. أبو نعيم، دلائل النبوة : 135، رقم : 76
    5. بيهقي، دلائل النبوة، 1 : 111
    6. ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، 2 : 247
    7. ابن رجب حنبلي، لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف : 173
    8. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 40
    9. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 94
    10. نبهاني، الأنوار المحمدية من المواهب اللدنية : 25

    جشنِ میلاد النبی :drood: کے موقع پر مکہ مکرّمہ میں چراغاں

    مکہ مکرمہ نہایت برکتوں والا شہر ہے۔ وہاں بیت اللہ بھی ہے اور مولد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اس شہر کی قسمیں کھاتا ہے۔ اہلِ مکہ کے لیے مکی ہونا ایک اعزاز ہے۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر اہلِ مکہ ہمیشہ جشن مناتے اور چراغاں کا خاص اہتمام کرتے۔ اَئمہ نے اس کا تذکرہ اپنی کتب میں کیا ہے۔ نمونے کے طور پر چند روایات درج ذیل ہیں :
    اِمام محمد جار اﷲ بن ظہیرہ حنفی (م 986ھ) اہلِ مکہ کے جشنِ میلاد کے بارے میں لکھتے ہیں :
    وجرت العادة بمکة ليلة الثاني عشر من ربيع الأول في کل عام أن قاضي مکة الشافعي يتهيّ. أ لزيارة هذا المحل الشريف بعد صلاة المغرب في جمع عظيم، منهم الثلاثة القضاة وأکثر الأعيان من الفقهاء والفضلاء، وذوي البيوت بفوانيس کثيرة وشموع عظيمة وزحام عظيم. ويدعي فيه للسلطان ولأمير مکة، وللقاضي الشافعي بعد تقدم خطبة مناسبة للمقام، ثم يعود منه إلي المسجد الحرام قبيل العشاء، ويجلس خلف مقام الخليل عليه السلام بأزاء قبة الفراشين، ويدعو الداعي لمن ذکر آنفاً بحضور القضاة وأکثر الفقهاء. ثم يصلّون العشاء وينصرفون، ولم أقف علي أول من سن ذالک، سألت مؤرخي العصر فلم أجد عندهم علماً بذلک.
    ’’ہر سال مکہ مکرمہ میں بارہ ربیع الاول کی رات اہلِ مکہ کا یہ معمول ہے کہ قاضی مکہ۔ جو کہ شافعی ہیں۔ مغرب کی نماز کے بعد لوگوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ مولد شریف کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں تینوں مذاہبِ فقہ کے قاضی، اکثر فقہاء، فضلاء اور اہل شہر ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں فانوس اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں۔ وہاں جا کر مولد شریف کے موضوع پر خطبہ دینے کے بعد بادشاہِ وقت، امیرِ مکہ اور شافعی قاضی کے لیے (منتظم ہونے کی وجہ سے) دعا کی جاتی ہے۔ پھر وہ وہاں سے عشاء سے تھوڑا پہلے مسجد حرام میں آجاتے ہیں اور صفائی کرنے والوں کے قبہ کے مقابل مقامِ ابراہیم کے پیچھے بیٹھتے ہیں۔ بعد ازاں دعا کرنے والا کثیر فقہاء اور قضاۃ کی موجودگی میں دعا کا کہنے والوں کے لیے خصوصی دعا کرتا ہے اور پھر عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد سارے الوداع ہو جاتے ہیں۔ (مصنف فرماتے ہیں کہ) مجھے علم نہیں کہ یہ سلسلہ کس نے شروع کیا تھا اور بہت سے ہم عصر مؤرّخین سے پوچھنے کے باوُجود اس کا پتہ نہیں چل سکا۔‘‘
    ابن ظهيرة، الجامع اللطيف في فضل مکة وأهلها وبناء البيت الشريف : 201، 202
    علامہ قطب الدین حنفی (م 988ھ) نے کتاب الاعلام باعلام بیت اﷲ الحرام فی تاریخ مکۃ المشرفۃ میں اہلِ مکہ کی محافلِ میلاد کی بابت تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
    يزار مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم المکاني في الليلة الثانية عشر من شهر ربيع الأول في کل عام، فيجتمع الفقهاء والأعيان علي نظام المسجد الحرام والقضاة الأربعة بمکة المشرفة بعد صلاة المغرب بالشموع الکثيرة والمفرغات والفوانيس والمشاغل وجميع المشائخ مع طوائفهم بالأعلام الکثيرة ويخرجون من المسجد إلي سوق الليل ويمشون فيه إلي محل المولد الشريف بازدحام ويخطب فيه شخص ويدعو للسلطنة الشريفة، ثم يعودون إلي المسجد الحرام ويجلسون صفوفاً في وسط المسجد من جهة الباب الشريف خلف مقام الشافعية ويقف رئيس زمزم بين يدي ناظر الحرم الشريف والقضاة ويدعو للسلطان ويلبسه الناظر خلعة ويلبس شيخ الفراشين خلعة. ثم يؤذّن للعشاء ويصلي الناس علي عادتهم، ثم يمشي الفقهاء مع ناظر الحرم إلي الباب الذي يخرج منه من المسجد، ثم يتفرّقون. وهذه من أعظم مواکب ناظر الحرم الشريف بمکة المشرفة ويأتي الناس من البدو والحضر وأهل جدة، وسکان الأودية في تلک الليلة ويفرحون بها.
    ’’ہر سال باقاعدگی سے بارہ ربیع الاول کی رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کی جاتی ہے۔ (تمام علاقوں سے) فقہاء، گورنر اور چاروں مذاہب کے قاضی مغرب کی نماز کے بعد مسجد حرام میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کثیر تعداد میں شمعیں، فانوس اور مشعلیں ہوتیں ہیں۔ یہ (مشعل بردار) جلوس کی شکل میں مسجد سے نکل کر سوق اللیل سے گزرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ پھر ایک عالم دین وہاں خطاب کرتا ہے اور اس سلطنتِ شریفہ کے لیے دعا کرتا ہے۔ پھر تمام لوگ دوبارہ مسجد حرام میں آنے کے بعد باب شریف کی طرف رُخ کرکے مقامِ شافعیہ کے پیچھے مسجد کے وسط میں بیٹھ جاتے ہیں اور رئیسِ زَم زَم حرم شریف کے نگران کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ بعد ازاں قاضی بادشاہِ وقت کو بلاتے ہیں، حرم شریف کا نگران اس کی دستار بندی کرتا ہے اور صفائی کرنے والوں کے شیخ کو بھی خلعت سے نوازتا ہے۔ پھر عشاء کی اذان ہوتی اور لوگ اپنے طریقہ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں۔ پھر حرم پاک کے نگران کی معیت میں مسجد سے باہر جانے والے دروازے کی طرف فقہاء آتے اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا اجتماع ہوتا کہ دور دراز دیہاتوں، شہروں حتیٰ کہ جدہ کے لوگ بھی اس محفل میں شریک ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر خوشی کا اِظہار کرتے تھے۔‘‘
    قطب الدين، کتاب الإعلام بأعلام بيت اﷲ الحرام في تاريخ مکة المشرفة : 355، 356
    اِس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ خوشی کے موقع پر چراغاں کرنا سنتِ اِلٰہیہ ہے۔ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ میلاد سے بڑھ کر خوشی کا موقع کون سا ہوسکتا ہے! لہٰذا ہمیں چاہیے کہ بحث و نزاع میں پڑنے کی بجائے سنتِ اِلٰہیہ پر عمل کرتے ہوئے اہالیانِ مکہ کے طریق پر جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر حسبِ اِستطاعت چراغاں کا اِہتمام کریں۔

    حوالہ جاتی کتاب ۔ میلاد النبی :drood:
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا جشن میلاد النبی منانا بدعت ہے مگر کیوں (ضرور پڑھیئے)۔

    حضور نبی اکرم سیدنا محمد مصطفی ﷺ کی تاریخ ولادت

    حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت بارہ ۱۲ 12ربیع الاوّل شریف کو ہوئی ۔اس کے لیے مندرجہ ذیل روایات ملاحظہ ہوں۔

    امام ابوبکر بن ابی شیبہ روایت کرتے ہیں کہ
    عن عقان عن سعید بن مینار عن جابر و ابن عباس انھما قال ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل یوم الاثنین الثانی عشر من شھر ربیع الاول
    ترجمہ :عقان سے روایت ہے وہ سعید بن مینا سے روایت فرماتے ہیں اور وہ حضرت جابر اور ابن عباس رضی اللہ عنھم سے راوی کہ یہ دونوں (حضرت جابر اور ابن عباس رضی اللہ عنھم) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت عام الفیل میں پیر کے روز بارہ کے روز بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔
    (سیرۃ انبویہ لابن کثیر جلد ا صفحہ ۱۹۹، البدایہ والنھایہ جلد ۲، صفحہ ۲۶۰)
    اس روایت کی سند بھی صحیح ہے
    تو ثابت ہوا کہ جلیل القدر دو صحابہ کرام سے باسند صحیح یہ ثابت ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی ولادت باسعادت بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔ ۹ بیع الاول کے تاریخ ہونے کی رٹ لگانا اس روایت کے مقابلے میں کمزور اور ناقابل قبول ہے۔تمام عالم میں ولادت کی تاریخ ۱۲ ہی ہے جس کا انکار کرنا ناممکن ہے

    اس حدیث کے راویوں کی توثیق جلیل القدر آئمہ محدیثین کرام سے آپ ملاحظہ کریں۔

    (۱) اس کے پہلے راوی خود امام ابوبکر بن شیبہ ہیں جو امام بخاری و امام مسلم کے استاد ہیں ۔ جو جلیل القدر آئمہ محدیثین کی تصریحات کی رو سے ثقہ حافظ ہیں۔ (تہذیب التہذیب جلد ۶، صفحہ ۳۔۴،) متصل سند کے ساتھ امام بخاری نے ان سے ۲۲روایات صحیح بخاری میں ۔امام مسلم نے ۱۵۲۸ روایات صحیح مسلم میں امام نسائی نے ۶ روایات سنن نسائی میں امام ابوداؤد نے ۶۰ روایات سنن ابوداؤدمیں امام ابن ماجہ نے ۱۱۵۱ روایات سنن ابن ماجہ میں نقل کی ہیں۔

    (۲) اس روایت کے دوسرے راوی عقان ہیں جو کہ بلند پایہ امام ثقہ صاحب ضبط اور اتقان تھے۔ خلاصۃ التہذیب صفحہ ۲۶۸، امام عجلی نے کہا کہ وہ ثقہ اور صاحب سنت تھے (تہذیب التہذیب جلد ۷، صفحہ ۲۳۱، )امام ابن معین نے ان کو اصحاب الحدیث بلند پایہ میں شمار کیا ہے۔ (تہذیب التہذیب جلد ۷، صفحہ ۲۳۳، )امام ابن سعد نے کہا کہ وہ ثقہ ثبت حجت اور کثیر الحدیث تھے۔ امام ابن خراش نے کہاکہ وہ ثقۃ من خیار المسلمین تھے۔ ابن قانع نے کہا کہ وہ ثقہ اور مامون تھے۔ابن حبان نے ان کوثقات میں شمار کیا ہے ۔(تہذیب التہذیب جلد ۷، صفحہ ۲۳۴، )امام ذہبی نے کہا کہ وہ مشائخ الاسلامیں سے تھے ۔ آئمۃ العلام میں سے تھے۔ امام عجلی نے ثبت اور صاحب سنت کہا (میزان الاعتدال ،جلد ۳ ، صفحہ ۸۱) امام ابن معین نے ان کو پانچ بلند اصحاب الحدیث میں شمار کیا۔ امام ابو حاتم نے ثقہ متقن متین کہا (میزان الاعتدال ،جلد ۳ ، صفحہ ۸۲)

    (۳) تیسرے راوی سعید بن مینار ہیں۔ امام ابن معین اور امام ابو حاتم نے ان کو ثقہ کہا۔ ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا ۔ امام نسائی نے الجرح و التعدیل میں ثقہ کہا (تہذیب التہذیب جلد ۴، صفحہ ۹۱)

    امام ابن کثیر رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ
    وھذا ھو المشھور عند الخمھور ۔ جمہور علماء کے نزدیک یہی مشہور ہے (سیرۃ النبویہ جلد ۱، صفحہ ۱۹۹)

    روایت دوسری (۲)
    عن سعید بن جبیر عن ابن عباس ولد انبی صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل لا ثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من ربیع الاوّل
    حضرت سعید بن جبیر نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ بنی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت عام الفیل میں۔ پیر کے روز ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو ہوئی۔(تلخیص المستدرک ،جلد ۲، صفحہ ۶۰۳)
    12 بارہ ربیع الاول یومِ میلاد کی تائید میں آئمہ محدثین کے اقوال

    امام ابن جریر طبری کا قول :

    امام ابن جریر طبری لکھتے ہیں کہ : ولد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم یوم الاثنین عام الفیل لا ثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من شھر ربیع الاوّل۔
    رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت پیر کے روز ربیع الاوّل کی بار ہویں تاریخ کو عام الفیل میں ہوئی۔ (تاریخ طبری ، جلد ۲، صفحہ ۱۲۵)

    محمد بن اسحاق اور امام ابن ہشام

    امام ابن ہشام نے محمد بن اسحاق کا قول نقل فرمایا کہ
    ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الاثنین لا ثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من شھر ربیع الاوّل عام الفیل
    رسول اللہ ﷺ کی ولادت پیر کے دن بارہویں ربیع الاوّل کو عام الفیل میں ہوئی۔(السیرۃ النبویہ، لابن ہشام ، جلد۱، صفحہ ۱۸۱)

    محدث ابن جوزی علیہ الرحمۃ

    محدث ابن جوزی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں کہ
    قال ابن اسحاق ولد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یوم الاثنین عام الفیل لاثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من شھر ربیع الاوّل
    امام ابن اسحاق نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت پیر کے دن بارہ ربیع الاوّل کو عام الفیل میں ہوئی۔(الوفاء جلد ۱ صفحہ۹۰) امام ابن اسحاق کا یہ قول ان کتب میں بھی موجود ہے
    (سبل الھدیٰ و الرشاد جلد ۱، صفحہ ۳۳۴، شیعب الایمان بیہقی، جلد ۲، صفحہ ۴۵۸، السیرۃ النبویہ مع الروض الانف جلد ۳ ص ۹۳)

    امام ابن جوزی نے اپنی دیگر کتب میں بھی سرکار اقدس ﷺ کی تاریخ ولادت بارہ ربیع الاوّل کو قرار دیا ہے (بیان المیلاد النبوی، ص ۳۱۔مولد العروس ،ص ۱۴)

    علامہ ابن خِلدون
    علامہ ابن خِلدون لکھتے ہیں کہ
    ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل لاثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من ربیع الاوّل ۔
    رسول اللہ ﷺ کی ولادت عام الفیل کو بارہویں ربیع الاوّل کو ہوئی (تاریخ ابن خلدون، جلد ۲، صفحہ ۷۱۰)
    الحافظ امام ابو الفتح الشافعی
    امام ابو الفتح محمد بن محمد بن عبداللہ بن محمد بن یحییٰ بن سید الناس الشافعی الاندلسی لکھتے ہیں کہ
    ولد سیدنا و نبینا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الاثنین لاثنتی عشرۃ مضت من شھر ربیع الاوّل عام الفیل (عیون الاثر، جلد ۱ ،ص۲۶)
    ہمارے سردار اور ہمارے نبی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت پیر کے دن بارہ ربیع الاوّل شریف کو عام الفیل میں ہوئی
    امام ابن حجر مکی
    امام ابن حجر مکی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں کہ
    وکان مولدہ لیلۃ الاثنین لاثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من شھر ربیع الاوّل ( النعمۃ الکبری علی العالم ، ص ۲۰)
    اور آپ ﷺ کی ولادت باسعادت پیر کی رات بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی
    امام حاکم
    عن محمد بن اسحاق ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من شھر ربیع الاوّل (مستدرک جلد ۲،ص ۶۰۳)
    امام المغازی محمد بن اسحاق سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی۔

    امام برہان الدین حلبی :
    امام برہان الدین حلبی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں
    عن سعید بن المسیب ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عندالبھار ای وسطہ و کان ذلک لمض اثنی عشرۃ لیلۃ مضت من شھر ربیع الاوّل (سیرت حلبیہ، جلد۱،ص ۵۷)
    حضرت سعید بن مسیّب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت بہار نہار کے قریب یعنی وسط میں ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو ہوئی۔

    امام بیہقی (۳۸۴-۴۵۸ھ)
    جلیل القدرمحدث امام بیہقی لکھتے ہیں کہ
    ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الاثنین عام الفیل لاثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من شھر ربیع الاوّل
    رسول اللہﷺ پیر کے دن عام الفیل میں ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو پیدا ہوئے (دلائل النبوت بیہقی، جلد ۱،ص ۷۴)

    امام ابن حبان(متوفی۳۵۴ھ)
    جلیل القدر محدث امام ابن حبان لکھتے ہیں کہ
    قال ابو حاتم ولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل یوم الاثنین لاثنتی عشرۃ مضت من شھر ربیع الاوّل
    امام ابو حاتم نے فرمایا کہ نبی کریمﷺ کی ولادت عام الفیل کے سال پیر کے دن بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی(سیرۃ البنویہ و اخیار الخلفاء، ص ۳۳)

    امام سخاوی (متوفی۹۰۲ھ)
    محدث جلیل امام سخاوی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں کہ
    (ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) فی یوم الاثنین عند فجرہ لاثنتی عشرۃ لیلۃ مضت ربیع الاوّل عام الفیل
    رسول اللہ ﷺ عام فیل ربیع الاوّل پیر کے دن فجر کے وقت ۱۲ کی رات میں پیدا ہوئے (التحفۃ اللطیفۃ، جلد ۱، ص ۷)

    امام ابوالحسن علی بن محمد ماوردی (متوفی ۴۵۰ھ)
    امام ابوالحسن علی بن محمد ماوردی لکھتے ہیں کہ
    لانہ ولد بعد خمسین یومامن الفیل و بعد موت ابیہ فی یوم الاثنین الثانی عشرمن شھر ربیع الاوّل
    عام الفیل کے پچاس روز بعد والد گرامی کے وصال کے بعد رسول اللہ ﷺ ماہ ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو پیدا ہوئے۔(اعلام النبوۃ، جلد ۱، ص ۳۷۹)

    ملا معین واعظ کاشفی
    معروف سیرت نگار ملامعین واعظ کاشفی لکھتے ہیں۔
    مشہور ہے کہ ربیع الاوّل کے مہینے میں آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور اکثر کہتے ہیں کہ ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ تھی۔(معارج النبوت،ج۱ ،ص ۳۷،باب سوم)

    مولانا عبدالرحمٰن جامی(متوفی ۸۹۸ھ)
    مولانا عبدالرحمٰن جامی ؒ لکھتے ہیں کہ
    ولادت رسول اکرم ﷺ بتاریخ ۱۲ ربیع الاوّل بروز پیر واقعہ خیل سے پچیس دن بعد ہوئی۔(شواہد البنوت فارس، ص،۲۲۔اردو،ص۵۶)

    محدث سید جمال حسینی
    محدث جلیل سید جمال حسینیؒ رقمطراز ہیں کہ
    مشہور قول یہ ہے اور بعض نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ آپ ﷺ ربیع الاوّل کے مہینہ میں پیدا ہوئے۔ ۱۲ ربیع الاوّل مشہور تاریخ ہے (رسالت مآب ترجمہ روضۃ الاحباب از مفتی عزیز الرحمٰن ص ۹)

    امام ابو معشر نجیع
    امام ذہبی لکھتے ہیں کہ :- و قال ابو معشر نجیع ولد لاثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من ربیع الاوّل
    ابو معشر نجیع فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بارہ ربیع الاوّل کو پیدا ہوئے (سیرت النبویہ للذہبی ،ج۱،ص،۷)
    ملاعلی قاری (متوفی ۱۰۱۴ھ)
    محدث جلیل ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ:-
    و المشھور انہ ولد فی یوم الاثنین ثانی عشر ربیع الاوّل
    اور مشہور یہی ہے کہ حضور اقدسﷺ کی ولادت پیر کے روز بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی ۔(الموردالروی،ص۹۸)
    امام قسطلانی (۸۵۱-۹۲۳ھ)
    شارح بخاری امام قسطلانی لکھتے ہیں کہ:-
    و المشھور انہ دلد یوم الاثنین ثانی عشر شھر ربیع الاوّل
    اور مشہور یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ پیر بارہ ربیع الاوّل کو پیدا ہوئے۔(مواہب اللدنیہ،ج۱،ص ۱۴۲)

    امام زرقانی (متوفی۱۱۲۲ھ)
    امام زرقانی لکھتے ہیں کہ:-
    و قال ابن کثیر وھو المشھور عند الجمھورو بالغ ابن جوزی و ابن الجزار نقلا فیہ الاجماع وھو الذی علہہ العمل
    امام ابن کثیر نے فرمایا کہ جمہور کے نزدیک بارہ ربیع الاوّل کو ولادت مشہور ہے۔ ابن جوزی اور ابن الجزار نے مبالغہ سے اس اجماع نقل کیا ہے۔یہ وہ قول ہےجس پر (امت کا ) عمل ہے (زرقانی علی المواہب، ج۱، ص۱۳۲)

    امام حسین بن محمد دیا ربکری(۹۸۲ھ)
    علامہ حسین بن محمد دیاربکری لکھتے ہیں کہ
    والمشھور انہ ولد فی ثانی عشر ربیع الاوّل وھو قول ابن اسحاق
    اور مشہور یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی ولادت بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی اور یہ ابن اسحاق کا قول ہے ( تاریخ الخمیس، ج۱،ص ۱۹۲)

    شیخ عبدالحق محدث دہلوی(متوفی ۱۲۳۹ھ)
    حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ
    و قیل لاثنتی عشرۃ و ھو االمشھور۔
    اور کہا گیا ہے کہ حضور کریمﷺ کی تاریخ ولادت بارہ ربیع الاوّل ہے اور یہی مشہور قول ہے (ماثبت بالسنۃ،ص۱۴۹۔مدارج النبوت ،ج۲،ص ۲۳)

    علامہ یوسف النبھانی
    علامہ یوسف بن اسمعٰیل بنھانی لکھتے ہیں کہ
    فی یوم الاثنین ثانی عشرمن شھر ربیع الاوّل رسول اکرم ﷺ کی ولادت پیر کے دن بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی۔(حجۃ اللہ علی العالمین ص ۱۷۶)

    دیگر حوالہ جات

    ان کے علاوہ متعد د آئمہ نے باریخ ولادت بارہ ربیع الاوّل کی ہی صراحت کی ہے۔ مزید چند حوالہ جات درج ذیل ہیں۔
    نسیم الریاض،ج۳،ص۲۷۵۔صفۃ الصفوۃ ،ج۱،ص۵۲۔اعلام النبوۃ ،ج۱،ص ۱۹۲۔ فقہ السیرۃ للغزالی،ص ۲۰۔ تواریخ حبیب الہٰ ،ص ۱۲۔وسیلۃ الاسلام ،ج۱،ص۴۴۔ مسائل الامام احمد ،ج۱،ص ۱۴۔سرور المخزون ص۱۴۔
    اب ہم تمام مکتب فکر کے علماء کے قوال نقل کرتے ہیں

    نواب صدیق حسن بھوپالی
    جماعت اہلحدیث کے مفسر مولوی نواب صدیق حسن بھوپالی لکھتے ہیں کہ
    ولادت شریف مکہ مکرمہ میں وقت طلوع فجر کے روز دو شنبہ شب دواز دہم ربیع الاوّل عام فیل کو ہوئی۔ جمہور علماء کا قول یہی ہے۔ ابن الجوزی نے اس پر اتفاق نقل کیا ہے ۔(اشمامۃ العنبریہ من مولد خیرالبریہ ،ص ۷)

    سلیمان ندوی
    دیوبند اور اہلحدیث کے معتمد عالم مولوی سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ
    (آپ ﷺ کی ) پیدائش ۱۲ تاریخ کو ربیع الاوّل کے مہینے میں پیرکے دن حضرت عیسٰی ؑسے پانچ سوا کہتر(۵۷۱) برس بعد ہوئی۔(رحمت عالم ،ص ۱۳،طبع مکتبہ دارارقم)

    مولوی عبدالستار
    اہلحدیث کے مشہور مولوی عبدالستار اپنے پنجابی اشعار پر مشتمل کتاب میں لکھتے ہیں کہ
    بارھویں ماہ ربیع الاوّل رات سو سوار نورانی
    فضل کنوں تشریف لیایا پاک حبیب حقانی
    (کرام محمدی، ص ۲۷۰)

    مولوی صادق سیالکوٹی
    اہلحدیث کے صادق سیالکوٹی لکھتے ہیں کہ
    بہار کے موسم بارہ ربیع الاوّل (۲۲اپریل ۵۷۱ء)سوسوار کے روز نور کےتڑکے........امت محمدیہ کے زہےنصیب کہ یہ آیہ رحمت اسے عطا ہوئی۔ (سیدالکونین ،ص ۵۹۔۶۰)

    ابو القاسم محمد رفیق دلاوری
    دیوبندی مسلک کے مشہور عالم ابو القاسم محمد رفیق دلاوری لکھتے ہیں کہ
    حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ٰﷺ دوشنبہ کے دن ۱۲ ربیع الاوّل صبح صادق کے وقت مکہ معظمہ کے محلہ شعب بنو ہاشم میں اس مقام پرظہور فرماہوئے۔(سیرت کبریٰ، ج۱،ص۲۲۴)

    مفتی محمد شفیع آف کراچی
    دیوبند مسلک کے مفتی اعظم محمد شفیع آف کراچی لکھتے ہیں کہ
    ماہ ربیع الاوّل کی بارھویں تاریخ روز شنبہ دنیا کی عمر میں ایک نرالا دن ہے کہ آج پیدائش عالم کا مقصد لیل و نہار کے انقلاب کی اصلی غرض آدم اور اولادآدم کا فخر کشتی نوح کی حفاظت کا راز ابراہیم کی دعا اور موسیٰ و عیسیٰ کی پیشن گوئیوں کا مصداق یعنی ہمارے آقا ئے نامدار محمد رسول اللہ ﷺ رونق افروز عالم ہوتے ہیں۔(سیرت خاتم الانبیاء،ص ۲۰،طبع دارالاشاعت)
    مزید لکھتے ہیں کہ
    (آپ ﷺ کی ولادت کے متعلق)مشہور قول بارھویں تاریخ کا ہے۔ یہاں تک کہ ابن البزار نے اس پر اجماع نقل کر دیا اور اسی کو کامل ابن اثیر میں اختیار کیا ہے۔اور محمود پاشامکی مصری نے جو نویں تاریخ بذریعہ حسابات اختیار کیا ہے ۔ یہ جمہور کے خلاف بے سند قول ہے اور حسابات پر بوجہ اختلاف مطالع ایسا اعتماد نہیں ہوسکتا کہ جمہور کی مخالفت اس کی بناء پر کی جائے (سیرت خاتم الانبیا ،ص ۲۰)
    اشرف علی تھانوی

    اشرف علی تھانوی بیان کرتے ہیں کہ :جمہور کے قول کے موافق بارہ ربیع الاوّل تاریخ ولادت شریف ہے ( ارشاد العباد فی عیدالمیلاد،ص۵)

    اسلم قاسمی:-قاری محمد طیب کے فرزند محمد اسلم قاسمی لکھتے ہیں کہ بارہ ربیع الاوّل پیر کے روز بیس تاریخ اپریل ۵۷۱ء کو صبح کے وقت جناب آمنہ کے یہاں ولادت ہوئی۔(سیرت پاک ،ص۲۲)

    احمد علی لاہوری :- دیوبند مسلک کے امام التفسیر احمد علی لاہوری لکھتے ہیں کہ
    احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ رحمۃ للعالمین ﷺ ۱۲ ربیع الاوّل بیس اپریل ۵۷۱ء پیر کے دن عرب دیس کے شہر مکہ میں پیدا ہوئے۔(ہفت روز خدام الدین ، ص ۷، ۱۸ مارچ ۱۹۷۷ء)

    مولانا ابوالاعلی مودودی:-جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ
    ربیع الاوّل کی کون سی تاریخ تھی اس میں اختلاف ہے لیکن ابن ابی شیبہ نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور جابربن عبداللہ ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ آپ ۱۲ ربیع الاوّل کو پیدا ہوئے تھے ۔ اس کی تصریح محمد بن اسحاق نے کی ہے اور جمہور اہل علم میں یہی تاریخ مشہور ہے ۔(سیرت سرور عالم ، ص ۹۳،ج۱)

    سرسید احمد خان:
    لکھتے ہیں کہ جمہور مورخین کی رائے یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ بارہویں ربیع الاوّل کو عام الفیل کے پہلے برس یعنی ابراہہ کی چڑھائی سے پچپن روز بعد پیدا ہوئے۔(سیرت محمدی ، ص۲۱۷)

    نوٹ مندرجہ بالا مضمون تاریخ عید میلادالنبی ﷺ از حضرت علامہ ابوحذیفہ محمد کاشف اقبال مدنی ۔میں سے درج کیا گیا ہے اس میں مزید اور حوالہ جات ہیں لیکن مضمون کی طول کو ختم کرنے کے لے اس پر اتفا کیا جاتا ہے

    نتیجہ کلام :-
    ان تمام دلائل و براہین سے ثابت ہوگیا کہ ہمارے آقا نامدار محمد ﷺ کی ولادت باسعادت 12 ۱۲ ربیع الاوّل ہے اور اہل اسلام کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے ۔


    تحقیق از بھائی اسماعیل صاحب۔ القلم
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا جشن میلاد النبی منانا بدعت ہے مگر کیوں (ضرور پڑھیئے)۔

    بدعت کا صحیح تصور اور شبہات کا ازالہ

    اہلِ علم کے نزدیک بدعت کی اِصطلاحی تعریف درج ذیل ہے :
    1۔ اِمام نووی (631۔ 677ھ) بدعت کی تعریف اِن الفاظ میں کرتے ہیں :
    البدعة هي إحداث مالم يکن في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’بدعت سے مراد ایسے نئے کام کی ایجاد ہے جو عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہ ہو۔‘‘
    نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 22
    2۔ شیخ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ (736۔ 795ھ) بدعت کی اِصطلاحی تعریف درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں :
    المراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له في الشريعة يدل عليه، وأما ما کان له أصل من الشّرع يدل عليه فليس ببدعة شرعاً، وإن کان بدعة لغة.
    ’’بدعت سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے، لیکن ہر وہ معاملہ جس کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً بدعت نہیں اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے بدعت ہوگا۔‘‘
    1. ابن رجب، جامع العلوم والحکم في شرح خمسين حديثاً من جوامع الکلم : 252
    2. عظيم آبادي، عون المعبود شرح سنن أبي داود، 12 : 235
    3. مبارک پوري، تحفة الأخوذي شرح جامع الترمذي، 7 : 366
    حافظ ابنِ حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیّئہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
    والتحقيق أنها إن کانت مما تندرج تحت مستحسن في الشّرع فهي حسنة، وإن کانت مما تندرج تحت مستقبح في الشّرع فهي مستقبحة.
    ’’تحقیق یہ ہے کہ اگر بدعت کوئی ایسا کام ہو جو شریعت میں مستحسن اُمور میں شمار ہو تو وہ حسنہ ہے اور اگر وہ شریعت میں ناپسندیدہ اُمور میں شمار ہو تو وہ قبیحہ ہوگی۔‘‘
    1. عسقلاني، فتح الباري، 4 : 253
    2. شوکاني، نيل الأوطار شرح منتقي الأخبار، 3 : 63

    اِن تعریفات سے واضح ہوتا ہے کہ ہر نئے کام یعنی بدعت کو محض نیا کام ہونے کی وجہ سے مطلقاً حرام یا ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ اُس کے جواز یا عدمِ جواز کو پرکھنے کا پیمانہ یہ ہے کہ اگر وہ نیا کام شریعت میں مستحسن و مباح ہے تو اُسے بدعتِ حسنہ کہیں گے اور اگر وہ نیا کام شریعت میں غیر مقبول و ناپسندیدہ ہو تو اُسے بدعتِ سیئہ یا بدعتِ قبیحہ کہیں گے۔

    بدعت کا حقیقی تصوراور اسکی حقیقی تشریح

    ذیل میں اَحادیثِ مبارکہ کی روشنی میں بدعت کا حقیقی مفہوم بیان کیا جا رہا ہے جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ ’’مضمونِ بدعت کی احادیث‘‘ کا حقیقی اِطلاق کن کن بدعات پر ہوتا ہے :
    1۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردّ.
    ’’جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اِس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘
    1. مسلم، الصحيح، کتاب الأقضية، باب نقض الأحکام الباطلة، 3 : 1343، رقم : 1718
    2. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب تعظيم حديث رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 1 : 7، رقم : 14
    3. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 270، رقم : 26372
    2۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    من أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو ردّ.
    ’’جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اِس میں اَصلًا نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علي صلح جور، 2 : 959، رقم : 2550
    2. ابو داؤد، السنن، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، 4 : 200، رقم : 4606
    3۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو ردٌّ.
    ’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا کوئی اَمر موجود نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘
    1. مسلم، الصحيح، کتاب الأقضيه، باب نقض الأحکام الباطلة، 3 : 1343، رقم : 1718
    2. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 180، 256، رقم : 25511، 26234
    3. دارقطني، السنن، 4 : 227، رقم : 81
    مغالطہ کا اِزالہ اور فَھُوَ رَدٌّ کا درست مفہوم
    مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں اَحْدَثَ، مَا لَيْسَ مِنْہُ اور مَا لَيْسَ فِيْہِ کے الفاظ قابلِ غور ہیں۔ عرف عام میں اَحْدَثَ کا معنی ’’دین میں کوئی چیز ایجاد کرنا‘‘ ہے، اور مَا لَيْسَ مِنْہُ کے الفاظ اَحْدَث کا مفہوم واضح کر رہے ہیں کہ اس سے مراد وہ چیز ایجاد کرنا ہے جو دین میں نہ ہو۔ حدیث کے اس مفہوم سے ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ اگر اَحْدَث سے مراد ’’دین میں کوئی نئی چیز پیدا کرنا‘‘ ہے تو پھر مَا لَيْسَ مِنْہُ (جو اس میں سے نہ ہو) یا مَا لَيْسَ فِيْہِ (جو اس میں اَصلًا نہ ہو) کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیوں کہ اگر وہ چیز دین میں سے تھی یعنی اس دین کا حصہ تھی تو اسے نئی نہیں کہا جاسکتا کہ محدثۃ (نئی چیز) تو کہتے ہی اسے ہیں جو پہلے دین میں موجود نہ ہو۔
    اس سوال کے جواب میں کہا جائے گا کہ حدیث مذکورہ پر غور کرنے سے یہ معنی معلوم ہوتا ہے کہ ہر نیا کام مردود نہیں بلکہ صرف وہ نیا کام مردود ہوگا جو دین کا حصہ نہ ہو، جو نیا کام دین کے دائرے میں داخل ہو وہ مردود نہیں مقبول ہے۔ اس کی مزید وضاحت یوں ہوگی کہ من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ! فیہ فھو ردّ میں فھو ردّ کا اطلاق نہ صرف مَا لَيْسَ مِنْہُ پر ہوتا ہے اور نہ ہی فقط اَحْدَثَ پر بلکہ اس کا صحیح اطلاق اس صورت پر ہوگا جہاں دونوں چیزیں (اَحْدَثَ اور مَا لَيْسَ مِنْہُ! فِیہِ) جمع ہو جائیں یعنی مردود فقط وہی عمل ہوگا جو نیا بھی ہو اور جس کی کوئی اصل، مثال یا دلیل بھی دین میں نہ ہو اور نہ دین کی کسی جہت کے ساتھ اُس کا کوئی تعلق ہو۔ پس اس وضاحت کی روشنی میں کسی بھی محدثۃ کے بدعت و ضلالت قرار پانے کے لیے دو شرائط کا ہونا لازمی ہے :
    1۔ دین میں اس کی کوئی اصل، مثال یا دلیل موجود نہ ہو۔
    2۔ یہ محدثۃ نہ صرف دین کے مخالف اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرے اور اَحکامِ سنت کو توڑے۔
    مذکورہ بالا تیسری حدیث شریف میں لَيْسَ عَلَيْہِ اَمْرُنَا سے عام طور پر یہ مراد لیا جاتا ہے کہ کوئی بھی کام خواہ وہ نیک اور اَحسن ہی کیوں نہ ہو (مثلاً ایصالِ ثواب، میلاد اور دیگر سماجی، روحانی اور اَخلاقی اُمور) اگر اس پر قرآن و سنت کی کوئی دلیل موجود نہ ہو تو یہ بدعت اور مردود ہے۔ یہ مفہوم غلط اور مبنی بر جہالت ہے کیوں کہ اگر یہ معنی مراد لے لیا جائے کہ جس کام کے کرنے پر اَمرِ قرآن و سنت نہ ہو وہ مردود اور حرام ہے تو پھر شریعت کے جملہ مباحات بھی قابلِ ردّ ہوجائیں گے۔
    مذکورہ بالا اَحادیث پر غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہر نیا کام مردود کے زمرہ نہیں آتا بلکہ صرف وہ نیا کام مردود ہوگا جس کی کوئی اَصل، مثال، ذکر، معرفت یا حوالہ. بالواسطہ یا بلا واسطہ. قرآن و سنت میں موجود نہ ہو اور اسے ضروریاتِ دین، (1) واجباتِ اسلام اور اَساسی عقائدِ شریعت میں اِس طرح شمار کر لیا جائے کہ اسے ’’اَساسیاتِ دین میں اِضافہ‘‘ سمجھا جانے لگے یا اُس سے دین اسلام کے بنیادی اصولوں میں اَصلًا کمی بیشی واقع ہو جائے۔ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کُلُّ بِدْعَة ضَلَالَة سے بھی یہی بدعت مراد ہے، نہ کہ ہر نئے کام کو ’’ضلالۃ‘‘ کہا جائے گا۔ یہی اِحداث فی الدین، اسلام کی مخالفت اور دین میں فتنہ تصور ہوگا۔
    (1) ضروریاتِ دین ان چیزوں کو کہتے ہیں جن میں سے کسی ایک چیز کا انکار کرنے سے بھی انسان کافر ہو جاتا ہے۔
    مذکورہ بالا بحث واضح کرتی ہے کہ جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرگز کوئی ایسا اَمر نہیں ہے جو قرآن و حدیث کے خلاف ہو بلکہ یہ ایک ایسا مبنی بر خیر اور مستحسن عمل ہے جو سراسر شریعت کے منشاء و مقصود کے عین مطابق ہے۔

    عہدِ نبوی میں اِحداث فی الدین سے مراد

    گزشتہ صفحات میں ’’بدعت‘‘ اور ’’اِحداث فی الدین‘‘ (دین میں نئے کاموں کے آغاز) پر علمی و قیاسی گفتگو کی گئی کہ ہر وہ نیا کام جس پر دلیل شرعی موجود ہو شرعاً بدعت نہیں اگرچہ لغوی اعتبار سے وہ بدعت ہوگا۔ اب ان کی عملی و اِطلاقی صورت بیان کی جاتی ہے کہ وہ کون سے اُمور یا معاملات ہیں جن پر بدعات و محدثات کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس کے لیے ایک قاعدہ اور ضابطہ متعین ہونا چاہیے کہ قیامت تک کے لیے اِسی قاعدہ اور کلیہ کی کسوٹی پر کسی بھی معاملہ کو رکھ کر ہم یہ کہہ سکیں کہ یہ بدعت ضلالہ اور اِحداث فی الدین ہے۔ ذیل میں ہم اِس حوالہ سے چند روایات نقل کریں گے :
    1۔ اِحداث فی الدین یعنی کفر و اِرتداد کے فتنوں کا آغاز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے فوری بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    أنا فرطکم علي الحوض وليرفعن رجال منکم، ثم ليختلجن دوني. فأقول : يا رب! أصحابي؟ فيقال : إنک لا تدري ما أحدثوا بعدک.
    ’’میں حوضِ کوثر پر تمہارا پیش رَو ہوں گا اور تم میں سے کچھ آدمی مجھ پر پیش کیے جائیں گے، پھر وہ مجھ سے جدا کر دیے جائیں گے، تو میں کہوں گا : اے میرے رب! کیا یہ میرے لوگ ہیں؟ تو کہا جائے گا : کیا آپ نہیں جانتے کہ اُنہوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیا کیا نئی چیزیں نکالیں (یعنی نئے فتنے بپا کیے)؟‘‘
    1. بخاري، الصحيح، کتاب الرقاق، باب في الحوض، 5 : 2404، رقم : 6205
    2. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب إثبات حوض نبينا صلي الله عليه وآله وسلم، 4 : 1796، رقم : 2297
    3. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 439، رقم : 4180
    سی مضمون کی اور بھی بہت سی اَحادیث وارد ہوئی ہیں جن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد قریبی زمانہ میں ’’اِحداث‘‘ کا ذکر ہے اور اِحداث سے مراد دین میں ایسے بڑے فتنوں کا اِجراء لیا گیا ہے جو دین کو ہی بدل دیں۔ علاوہ ازیں احادیث مبارکہ سے اس امر کی نشان دہی بھی ہوتی ہے کہ خلفائے راشدین کے دور میں محدثات الامور اِرتداد کے فتنوں کی شکل میں ظاہر ہوئے، ان کا ارتکاب کرنے والے وہ تھے جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں اِسلام قبول کر لیا اور بعد میں مرتدین، منکرینِ زکوٰۃ، جھوٹے مدعیانِ نبوت اور خوارج میں شامل ہوگئے۔ ہمارے اس مؤقف کی تائید حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعدد احادیث مبارکہ سے ہوتی ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
    4۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں :
    قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : تحشرون حفاة عراة غرلاً، ثم قرأ (كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ)(1) فأول من يُکسي إبراهيم، ثم يؤخذ برجال من أصحابي ذات اليمين وذات الشمال. فأقول : أصحابي. فيقال : إنهم لم يزالوا مرتدّين علي أعقابهم منذ فارقتهم. فأقول : کما قال العبد الصالح عيسي بن مريم : (وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌO إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.) (2)
    قال محمد بن يوسف : ذُکر عن أبي عبد اﷲ، عن قبيصة، قال : هم المرتدون الذين ارتدّوا علي عهد أبي بکر، فقاتلهم أبوبکر رضي الله عنه. (3)
    ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ننگے پاؤں، ننگے بدن، غیر مختون حالت میں جمع کیے جاؤ گے۔ پھر آیت مبارکہ تلاوت کی : (جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلی بار پیدا کیا تھا، ہم (اس کے ختم ہو جانے کے بعد) اُسی عمل تخلیق کو دہرائیں گے۔ یہ وعدہ پورا کرنا ہم نے لازم کر لیا ہے۔ ہم (یہ اِعادہ) ضرور کرنے والے ہیںo) پس سب سے پہلے اِبراہیم کو (خلعت) پہنائی جائے گی، پھر میرے لوگوں کو دائیں اور بائیں سے پکڑا جائے گا تو میں کہوں گا : کیا یہ میرے لوگ ہیں؟ تو کہا جائے گا : جب سے آپ ان سے جدا ہوئے ہیں، بے شک وہ الٹے پاؤں دین سے پھر کر مرتد ہوگئے ہیں۔ تومیں کہوں گا : جیسا اللہ کے صالح بندہ عیسیٰ بن مریم نے کہا : (اور میں اُن (کے عقائد و اَعمال) پر (اُس وقت تک) خبردار رہا جب تک میں ان لوگوں میں موجود رہا۔ پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان (کے حالات) پر نگہبان تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہےo اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے (ہی) بندے ہیں، اور اگر تو انہیں بخش دے تو بے شک تو ہی بڑا غالب حکمت والا ہےo)
    ’’محمد بن یوسف کہتے ہیں کہ ابو عبد اللہ سے ذکر کیا گیا، وہ قبیصہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا : یہ وہی مرتدین ہیں جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں دین سے پھر گئے تھے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کیا تھا۔‘‘
    (1) الأنبياء، 21 : 104

    (2) المائدة، 5 : 117، 118

    (3) 1. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ : واذکر في الکتاب مريم إذ انتبذت من أهلها، 3 : 1271، 1272، رقم : 3263
    2. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ : واتخذ اﷲ إبراهيم خليلا، 3 : 1222، رقم : 3171
    3. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب صفة القيامة، باب ما جاء في شأن الحشر، 4 : 615، رقم : 2423

    حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی حدیث مبارکہ کے اگلے حصہ میں ہمارے موقف پر مرفوع متصل روایت موجود ہے کہ’’إنهم لم يزالوا مرتدين علي أعقابهم منذ فارقتهم (جونہی آپ ان سے جدا ہوئے وہ اپنی ایڑیوں کے بل دین سے پھر رہے ہیں)۔‘‘ پس اِحداث کے مرتکب لوگوں کو حدیث میں صراحتًا مرتدین کہا گیا ہے۔
    2۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی حدیث کے آخر میں امام بخاری نے محدث قَبِیصہ بن عقبہ کا درج ذیل قول نقل کیا ہے جو ہمارے موقف کا مؤید ہے :
    هم المرتدّون الذين ارتدّوا علي عهد أبي بکر، فقاتلهم أبوبکر رضي الله عنه.
    ’’(ان سے مراد) وہ مرتدین ہیں جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں دین سے پھر گئے تھے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کیا تھا۔‘‘
    3۔ امام بخاری نے ہی حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اﷲ عنہما سے مروی روایت بیان کرنے کے بعد ابن ابی ملیکہ تابعی کا قول نقل کیا ہے۔ ابن ابی ملیکہ فرمایا کرتے تھے :
    اللّهم! إنا نعوذ بک أن نرجع علي أعقابنا أو نفتن عن ديننا.
    ’’اے اللہ! بے شک ہم (دین سے) الٹے پاؤں پھرنے سے تیری پناہ چاہتے ہیں یا اس سے کہ ہم اپنے دین کے بارے آزمائش میں ڈالے جائیں۔‘‘
    4۔ مذکورہ حدیث مبارکہ میں ما برحوا یرجعون علی اعقابھم (وہ (دین سے) اُلٹے پاؤں پھر گئے تھے)، یا ما برحوا بعدک یرجعون علی اعقابھم (وہ آپ کے بعد (دین سے) الٹے پاؤں پھر گئے تھے) سے بھی ہمارے بیان کردہ معنی کی تائید ہوتی ہے۔
    5۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تو ابو درداء رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا نبی اللہ! آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ میں ان میں سے نہ ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ان میں سے نہیں ہو۔‘‘
    امام طبرانی اپنی کتاب ’’مسند الشامیین (2 : 311، رقم : 1405)‘‘ میں اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
    فمات قبل عثمان بسنتين.
    ’’وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے وصال سے دو سال قبل وفات پاگئے۔‘‘
    اِس سے معلوم ہوا کہ اِحداث فی الدین سے مراد خلفائے راشدین کے دور میں وقوع پذیر ہونے والا فتنۂ اِرتداد تھا۔
    زیرِ نظر مؤقف کی وضاحت کرنے کے لیے ایک اور روایت نہایت ہی اہم ہے جسے امام حاکم نے ’’المستدرک علی الصحيحین‘‘ میں کبیر تابعین میں سے ایک تابعی حسین بن خارجہ سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے فتنہ اولی کے بعد اپنا ایک خواب بیان کیا ہے جس میں وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مکالمہ ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اپنی امت کے لیے دعائے مغفرت کے لیے کہا تو انہوں نے فرمایا :
    إنک لا تدري ما أحدثوا بعدک، أراقوا دماء هم وقتلوا إمامهم.
    ’’کیا آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیا کیا محدثات (یعنی فتنے) بپا کیے؟ انہوں نے اپنوں کا خون بہایا ہے اور اپنے امام کو قتل کیا ہے۔‘‘
    حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 4 : 499، رقم : 8394
    حافظ ابن حجر عسقلانی نے ’’الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (2 : 172، رقم : 1979)‘‘ اور ابن عبد البر نے ’’التمہید لما فی الموطا من المعانی والاسانید (19 : 222)‘‘ میں اِمام حاکم کی بیان کردہ روایت میں مذکور ’’الفتنۃ الاولی‘‘ کے الفاظ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر اُمتِ مسلمہ میں پیدا ہونے والا فتنہ مراد لیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والے فتنہ پرور لوگ ہی دین میں بدعت کے مرتکب ہوئے اور یہی لوگ بدعتی کہلائے۔ یہی وہ فتنہ پرور، متعصب اور انتہاء پسند لوگ تھے جو جنگِ صفین کے بعد خارجی گروہ پیدا کرنے کی بنیاد بنے۔
    عہدِ خلفائے راشدین میں رُونما ہونے والے محدثات الامور

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے فوراً بعد عہدِ خلفائے راشدین کے زمانہ میں جو بڑے بڑے ’’محدثات‘‘ (دین میں نئے فتنے) پیدا ہوئے۔ جن کو بدعات کہا گیا اور جن کے خلاف جہاد بالسیف کیا گیا۔ درج ذیل ہیں:
    1۔ فتنہ دعویء نبوت کو اِحداث فی الدین قرار دیا گیا
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے فوری بعد جھوٹے مدعیان نبوت کا فتنہ ظاہر ہوا اور ان کا یہ دعویء نبوت ’’احداث فی الدین‘‘ تھا۔ اَسود بن عنزہ عنسی، طلیحہ اَسدی اور مسیلمہ کذاب جیسے جھوٹی نبوت کے دعوے داروں کے خلاف حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے لشکر روانہ کیے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ان کے خلاف جہاد کیا۔
    فتنہ اِرتداد کو اِحداث فی الدین قرار دیا گیا
    لشکرِ اُسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کے بعد سرزمین عرب میں اِحداث کی شکل میں ایک اور فتنہ رُونما ہوا جسے فتنۂ اِرتداد کہا جاتا ہے۔ عرب کے نومسلم قبائل اسلام سے پھر گئے اور دوبارہ اپنی پرانی روش پر چل نکلے۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس فتنہ کا قلع قمع کیا۔
    طبري، تاريخ الأمم والملوک، 2 : 254
    فتنۂ منکرینِ زکوٰۃ کو اِحداث فی الدین قرار دیا گیا
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد عرب میں فتنہ اِرتداد پھیل جانے کے ساتھ ساتھ بعض قبائل نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جنگ کا اِرادہ کرتے ہوئے فرمایا :
    واﷲ! لأقاتلن من فرّق بين الصلاة والزکاة، فإن الزکاة حق المال، واﷲ! لو منعوني عناقاً کانوا يؤدّونها إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، لقاتلتهم علي منعها.
    ’’اللہ کی قسم! میں اس کے خلاف ضرور لڑوں گا جس نے نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کیا، کیوں کہ زکوٰۃ بیت المال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر انہوں نے مجھے ایک رسی دینے سے بھی انکار کیا جو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ادا کرتے تھے تو اس انکار پر بھی میں ان سے ضرور قتال کروں گا۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، کتاب الزکاة، باب وجوب الزکاة، 2 : 507، رقم : 1335
    2. بخاري، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين، باب قتل من أبي قبول الفرائض، 6، 2538، رقم : 6526
    3. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب الأمر بقتال الناس حتي يقولوا لا إله إلا اﷲ محمد رسول اﷲ، 1 : 51، رقم : 20
    لہٰذا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ان عرب قبائل کی طرف روانہ کیا جنہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا۔
    فتنۂ خوارج کو اِحداث فی الدین قرار دیا گیا
    خوارج کی اِبتداء سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی۔ جب صفین کے مقام پر سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ میں کئی روز تک لڑائی جاری رہی، جس کے نتیجے میں ہزارہا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تابعین شہید ہوئے۔ بالآخر فیصلہ کیا گیا کہ طرفین میں سے دو معتمد اشخاص کو حَکَم بنایا جائے جو قرآن و سنت کے مطابق کوئی ایسی تدبیر نکالیں جس سے لڑائی کا خاتمہ ہو۔ چنانچہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ابو موسیٰ عبد اللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے اور عہد نامہ لکھاگیا جس کے نتیجہ میں لڑائی تھم گئی۔
    پھر اَشعث بن قیس نے اس کاغذ کو لے کر ہر ہر قبیلہ کے افراد کو سنانا شروع کر دیا۔ جب وہ بنی تمیم کے لوگوں کے پاس آئے جن میں ابو بلال کا بھائی عروہ بن اَدَیہ بھی تھا اور ان کو پڑھ کر سنایا تو عروہ نے کہا :
    تحکّمون في أمر اﷲ عزوجل الرجال؟ لاحکم إلا ﷲ.
    ’’تم اللہ کے اَمر میں انسانوں کو حَکَم بناتے ہو؟ سوائے اللہ کے کسی کا حکم نہیں۔‘‘
    1. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 3 : 104
    2. ابن أثير، الکامل في التاريخ، 3 : 196
    3. ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، 5 : 123
    اس نے یہ کہہ کر اشعث بن قیس کی سواری کے جانور کو تلوار ماری جس سے آپ رضی اللہ عنہ نیچے گر پڑے۔ اس پر آپ کے قبیلہ والے اور ان کے لوگ جمع ہوگئے اور جھگڑا ہوتے ہوتے رہ گیا۔ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ جب صفین سے واپس کوفہ پہنچے تو ان کو خوارج کے اس عمل سے آگاہی حاصل ہوئی تو آپ نے فرمایا :
    اﷲ أکبر! کلمة حق يراد بها باطل، إن سکتوا عممناهم، وإن تکلموا حَجَجْناهم، وإن خرجوا علينا قاتلناهم.
    ’’اﷲ ہی بڑا ہے۔ بات تو حق ہے مگر مقصود اس سے باطل ہے۔ اگر وہ خاموش رہے تو ہم ان پر چھائے رہیں گے اور اگر انہوں نے کلام کیا تو ہم ان پر دلیل لائیں گے اور اگر وہ ہمارے خلاف نکلے تو ہم ان سے لڑیں گے۔‘‘
    1. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 3 : 114
    2. ابن أثير، الکامل في التاريخ، 3 : 212، 213
    خوارج نے لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف اُکسانا شروع کر دیا اور لوگوں کو پہاڑوں پر چلے جانے یا دوسرے شہروں کی طرف نکلنے کا مشورہ دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عمل کو بدعت ضلالۃ تک کہا گیا۔ آخر کار ان لوگوں نے آپس کے مشورہ سے ’’الحُکْمُ ﷲ‘‘ کے اِجراء کے لیے نہروان کا مقام چنا اور سب وہاں جمع ہوگئے۔ نہروان کے مقام پر ان خارجیوں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج کے درمیان لڑائی کا آغاز اُس وقت ہوا جب اُنہوں نے صحابی حضرت عبد اللہ بن خباب رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ ان کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
    دونکم القوم.
    ’’اس قوم کو لو (یعنی قتل کرو)۔‘‘
    حضرت جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    فقتلت بکفي هذه بعد ما دخلني ما کان دخلني ثمانية قبل أن أصلي الظهر، وما قتل منا عشرة ولا نجا منهم عشرة.
    ’’میں نے نمازِ ظہر ادا کرنے سے قبل اپنے ہاتھوں سے آٹھ خوارج کو قتل کیا اور ہم میں سے دس شہید نہ ہوئے اور ان میں سے دس زندہ نہ بچے۔‘‘
    1. طبراني، المعجم الأوسط، 4 : 227، رقم : 4051
    2. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 4 : 227
    حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں یوں فتنہ خوارج اپنے انجام کو پہنچا۔
    یہی وہ فتنے تھے جن کی طرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِجتماع میں اِشارہ فرمایا، جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال فرما جانے کے بعد نمودار ہوئے اور جنہیں محدثات الامور کا نام دیا گیا۔ لہٰذا صحیح روایات کے مطابق یہ چار طبقات (مدعیانِ نبوت، مرتدینِ اِسلام، منکرینِ زکوٰۃ، خوارج) محدثات کے مرتکب تھے اور احادیث نے ’’اِحداث‘‘ کے معنی کو ’’اِرتداد‘‘ کے ساتھ مختص کر دیا ہے۔ پس اِحداث کا معنی اِرتداد ہوگا اور یہی بدعتِ ضلالت و بدعتِ سیئہ اور داخلِ دوزخ شمار ہوگی۔
    آج ’محدثات الامور‘ کس سطح کے اُمور کو کہا جائے گا؟
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدعت کو ’’محدثات الامور‘‘ سے تعبیر کیا اور اس کا معنی خود اپنے ارشاد سے متعین فرمایا۔ وہ ایسے فتنے ہیں جو دین کی بنیادی تعلیمات کو مسخ کر دیں یا ان کا انکار کر دیں اور یہ ارتداد پر مبنی ہوں۔ لہٰذا بدعاتِ ضلالۃ سے مراد چھوٹے اور ہلکی نوعیت کے اختلافات نہیں بلکہ ان سے مراد اس سطح کے فتنے ہیں کہ ان میں سے ہر فتنہ ’’خروج عن الاسلام‘‘ اور ’’اِرتداد‘‘ کا باعث بنے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور اَمرِ دین کو کاٹے اور ’’اِختلافِ کثیر‘‘ بن کر اُمت میں ظاہر ہو۔ مثلاً اگر کوئی شخص دین کے بنیادی عقائد (ایمان باللہ، ملائکہ، سابقہ نازل شدہ کتب، انبیاء، یوم آخرت، تقدیر اور حیات بعد اَز موت) میں سے کسی کا انکار کرے، اسلام کے اَرکانِ خمسہ (ایمان باللہ والرسول، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ) میں سے کسی کا انکار کرے، اَرکانِ اسلام میں کمی یا زیادتی، ختم نبوت کے انکار، تحریفِ قرآن (متنِ قرآن میں کمی یا زیادتی) کا مرتکب ہو، سنت کا انکار کرے، کسی خارجی فتنہ کی طرح باطل مسلک کی بنیاد رکھے، جہاد کی منسوخی، سود کا جواز وغیرہم کا عقیدہ گھڑ لے تو ان فتنوں کو قیامت تک کے لیے دین میں بدعاتِ ضلالۃ کہیں گے اور یہی ایسے فتنے ہیں جن کے ماننے والوں اور پیروکاروں کو جہنم کا ایندھن بنایا جائے گا۔ لہٰذا بدعت سے مراد فقط فتنہ اِرتداد اور اس کی مختلف شکلیں ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے فورًا بعد پیدا ہوئیں یا بعد کے مختلف اَدوار میں پیدا ہوں گی۔ اگر ایسی صورت نہیں ہے تو اس پر بدعتِ ضلالۃ کا اِطلاق نہیں ہوگا۔ پس آج بھی ارتداد ہی ایسا قاعدہ اور کلیہ ہے جس پر کسی بھی اَمر کو پرکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ بدعتِ ضلالۃ میں شمار ہوتا ہے یا نہیں؟ لہٰذا چھوٹے چھوٹے فروعی اور نزاعی مسائل مثلا میلاد، عرس، ایصالِ ثواب وغیرہ کو بدعات و گمراہی اور ’’محدثات الامور‘‘ نہیں کہا جاسکتا، کیوں کہ ان سے خروج عن الاسلام لازم نہیں آتا اور نہ اِرتداد ہوتا ہے بلکہ یہ اَصلاً شریعت سے ثابت ہیں۔ جب کہ ’’محدثات الامور‘‘ ان فتنوں کو کہا گیا ہے جن کی وجہ سے اُمت میں اِختلافِ کثیر پیدا ہوا، امت آپس میں بٹ گئی حتی کہ الگ الگ لشکر بنے، جنگیں ہوئیں اور ہزاروں افراد ان فتنوں کے باعث شہید ہوئے۔
    افسوس ہے ان لوگوں پر جنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد اور ایصالِ ثواب وغیرہما کو محدثات الامور اور بدعاتِ ضلالۃ قرار دیا ہے۔ ان کو دین میں بدعت قرار دینا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیان کردہ تعریف سے انکار، حدیث سے انکار اور جسارت علی الرسول ہے۔ لیس علیہ امرنا کا بھی یہی معنی ہے، یہ دَرحقیقت دین کے اندر مستحب اور مستحسن اُمور ہیں۔ فقہاء کے درمیان ہزاروں اختلافات ہیں، کئی مسائل میں مستحب و مکروہ حتی کہ حلت و حرمت کا بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان اُمورِ مستحبات کو بدعات کہنا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیان کردہ تعریف کی روشنی میں گویا ارتداد اور کفر و شرک کا فتویٰ لگانے کے مترادف ہے اور مرتدین کے خلاف قتال کرنا جہاد ہے۔ کیا جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بدعتِ ضلالہ کا فتوی لگانے والے میلاد منانے والوں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں؟
    جس طرح عہدِ صحابہ میں تدوینِ قرآن، باجماعت نمازِ تراویح اور جمعہ کے دن دو اذانوں جیسے اُمور کو جاری کرنے کا مقصد اُمتِ مسلمہ کی بھلائی تھا، ایسے ہی میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا تاجدارِ کائنات حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ٹوٹے ہوئے قلبی اور حبی تعلق کو برقرار رکھنے اور دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت و اِتباع کا جذبہ بیدار کرنے کا قوی اور مستحکم ذریعہ ہے۔ اور ایصالِ ثواب جیسے اُمور متوفیانِ اِسلام کی بلندیء درجات اور گناہوں کی بخشش کا سبب ہیں۔
    گزشتہ بحث میں ہم نے بدعت کا لغوی مفہوم بیان کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ لغوی اعتبار سے بدعت نئی چیز کو کہتے ہیں اور محدثات الامور و اِحداث فی الدین کا تعلق فتنہ اِرتداد یا خروج عن الاسلام کی سطح کے فتنوں کے ساتھ ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ بدعت کا تصو ر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے آثار میں بھی موجود ہے یا نہیں؟ اس کی وضاحت کے لیے ہم یہاں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا عمل مختصراً بیان کریں گے، کیوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اُمت کے لیے اِن صحابۂ کبار رضی اللہ عنھم کا عمل سب سے زیادہ معتبر ہے، اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنوں کے قلع قمع کے لیے اپنی اور اپنے بعد آنے والے خلفاء راشدین مہدیین کی سنت کی پیروی کو لازمی قرار دیا ہے۔
    خلفائے راشدین کی بدعاتِ حسنہ​


    1۔ جمعِ قرآن اور شیخین رضی اﷲ عنہما کا عمل
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد جب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ منصبِ خلافت پر متمکن ہوئے تو اس وقت جھوٹی نبوت کے دعوے دار مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ یمامہ میں تقریباً سات سو (700) حافظِ قرآن صحابہ رضی اللہ عنھم شہید ہوئے۔سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ اگر یہ سلسلہ جہاد و قتال اسی طرح جاری رہا اور وہ صحابہ رضی اللہ عنھم جن کے سینوں میں قرآن حکیم محفوظ ہے شہید ہوتے رہے تو عین ممکن ہے کہ حفاظتِ قرآن میں خاصی دشواری پیش آئے۔ اِس خدشہ کے پیش نظر اُنہوں نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو تجویز دی کہ قرآن حکیم ایک کتابی صورت میں جمع کر لیا جائے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
    کيف أفعل شيئا ما لم يفعله رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم؟
    ’’میں ایسا کام کیسے کر سکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں فرمایا۔‘‘
    حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : اے امیر المومنین! درست ہے کہ یہ کام ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ظاہری حیاتِ مقدسہ میں نہیں کیا لیکن ’’ہو واﷲ خیر‘‘ اللہ کی قسم! بہت اچھا اور بھلائی پر مبنی ہے۔ لہٰذا ہمیں اسے ضرور کرنا چاہیے۔ اس بحث و تمحیص کے دوران سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سینہ کھل گیا اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اس عظیم کام پر مامور کیے گئے۔ چنانچہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کھجور کی شاخوں، سفید پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن کو جمع کرنا شروع کر دیا اور اس طرح تیار کیے گئے قرآن حکیم کے چند نسخے جو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بعد ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اﷲ عنہا کے پاس محفوظ ہوگئے تھے بعد میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان سے منگوا کر قرآنِ حکیم کو دوبارہ موجودہ ترتیب میں یک جا کر دیا۔
    1. بخاري، الصحيح، کتاب التفسير، باب قوله : لقد جاء کم رسول من أنفسکم عزيز عليه ما عنتم حريص عليکم، 4 : 1720، رقم : 4402
    2. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب من سورة توبة، 5 : 283، رقم : 3103
    اس طرح تاریخِ اسلام میں پہلی بدعتِ حسنہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوئی۔
    2۔ باجماعت نمازِ تراویح کی اِبتداء
    جمع و تدوینِ قرآن کی طرح یہ عمل بھی سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے فرمان کی تعمیل میں باقاعدہ وجود پذیر ہوا۔ احادیثِ مبارکہ میں مذکور ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں رمضان المبارک میں تین راتیں نماز تراویح باجماعت پڑھائی۔ اس کے بعد فرض ہوجانے کے خدشہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازِ تراویح گھر میں ہی پڑھتے رہے اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بھی اِنفرادی طور پر اپنی اپنی نماز پڑھ لیتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اڑھائی سالہ دورِ خلافت میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا یہی معمول رہا۔ جب سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا اور آپ نے دیکھا کہ رمضان المبارک میں لوگ مختلف شکلوں میں نماز تراویح ادا کر رہے ہیں۔ تو اس خیال سے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے اندر مساجد کو آباد کرنے کا ذوق بھی کم ہوسکتا ہے اور اگر صورت حال یہی رہی تو عین ممکن ہے کسی وقت لوگ نماز تراویح پڑھنا ہی ترک کر دیں، انہوں نے یہ اِجتہاد فرمایا اور سب کو حافظِ قرآن حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نمازِ تراویح باجماعت پڑھنے کا حکم دیا۔ صحابہ کرام کو باجماعت نمازِ تراویح پڑھتے دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
    نعم البدعة هذه، والتي ينامون عنها أفضل من التي يقومون.
    ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور رات کا وہ حصہ جس میں لوگ سو جاتے ہیں اُس حصہ سے بہتر ہے جس میں وہ قیام کرتے ہیں۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906
    2. مالک، الموطأ، 1 : 114، رقم : 250
    3. بيهقي، السنن الکبري، 2 : 493، رقم : 4379
    حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اِس قول کی وضاحت کرتے ہوئے عبد الرحمان بن عبد القاری تابعی بیان کرتے ہیں :
    يريد آخر الليل، وکان الناس يقومون أوّله.
    ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مراد رات کا آخری حصہ تھا جب کہ لوگ پہلے حصہ میں قیام کرتے تھے۔‘‘(2)
    (2) یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب رات کے آخری حصہ میں کی جانے والی عبادت زیادہ فضیلت رکھتی ہے تو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اِبتدائی حصہ میں قیام کیوں شروع کروایا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) ’’فتح الباری (4 : 253)‘‘ میں اِس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
    هذا تصريح منه بأن الصلاة في آخر الليل أفضل من أوله، لکن ليس فيه أن الصلاة في قيام الليل فرادي أفضل من التجميع.
    ’’اِس میں صراحت ہے کہ رات کے پچھلے پہر کی نماز پہلے پہر کی نماز سے اَفضل ہے، تاہم اِس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تنہا نماز پڑھنا باجماعت نماز پڑھنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔‘‘
    پس اِس سے واضح ہوگیا کہ اگرچہ آخرِ شب پڑھی جانے والی نماز فضیلت کی حامل ہے لیکن باجماعت ادا کی جانے والی نمازِ تراویح. جو رات کے اِبتدائی حصہ میں ادا کی جاتی ہیں۔ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔
    اس روایت میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خود ’’نعم البدعۃ ھذہ‘‘ فرما کر یہ ثابت کر دیا کہ ہر بدعت، بدعتِ سیئہ نہیں ہوتی بلکہ بے شمار بدعات اچھی بھی ہوتی ہیں۔ اور بدعتِ حسنہ اور سیئہ کی تقسیم مبنی بر حدیث ہے، محض قیاسی تقسیم نہیں بلکہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول پر قائم ہے۔
    3۔ نمازِ جمعہ سے قبل دوسری اذان
    نماز جمعہ میں خطبہ سے پہلے دوسری اذان عہدِ عثمانی رضی اللہ عنہ میں شروع کی گئی تھی۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) لکھتے ہیں :
    أن التأذين الثاني يوم الجمعة، أمر به عثمان، حين کثر أهل المسجد.
    ’’بے شک جمعہ کے دن دوسری اذان کا حکم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دیا جب مسجد میں آنے والوں کی تعداد زیادہ ہوگئی۔‘‘
    بخاري، الصحيح، کتاب الجمعة، باب الجلوس علي المنبر عند التأذين، 1 : 310، رقم : 873
    لہٰذا جس طرح خیر القرون میں بھی تدوینِ قرآن حکیم کے موقع پر اَجل صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھا تھا کہ جو کام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا وہ کیسے کرسکتے ہیں، اُسی طرح آج کے دور میں بھی جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس جیسے دیگر اُمورِ خیر کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ جائز ہیں جب کہ اَوائل دورِ اِسلام میں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اور جس طرح صحابہ کرام کو اِنشراحِ صدر ہوا اور اُنہوں نے بھلائی کے ان نئے کاموں کو اپنایا اُسی طرح ہم نے محافلِ میلاد اور جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اَمرِ خیر اور باعثِ برکت ہونے کے اپنایا ہے۔
    تصورِ بدعت اور چند عصری نظائر و واقعات
    اِس ضمن میں چند شہادتیں عصری نظائر و واقعات سے پیش کی جاتی ہیں :
    1۔ اِسلامی حکومت کے قیام کا مسئلہ
    شریعت نے ضروری قرار دیا کہ مسلمانوں کی نمائندہ حکومت ہو، لیکن اِس کا انتخاب کس طرح ہو، حکومت کی تشکیل کس نظام کے تحت کی جائے، اس کے ادارے کس طرح وجود میں آئیں اور پھر ان میں اِختیارات کی تقسیم کس اُسلوب پر ہو؟ ان تفصیلات کے متعلق شریعت میں صریح اَحکامات نہیں ملتے۔ ہر مسلمان ریاست نے اپنی صواب دید کے مطابق جو نظام ضروری سمجھا اپنا لیا۔
    2۔ تعمیرِ مساجد کا مسئلہ
    اَوائلِ اسلام میں پختہ مکانات بنانا ناپسند خیال کیا جاتا تھا، لہٰذا مسجد کو بھی اَز رُوئے شرع پختہ بنانا ناجائز تصور کیا جاتا رہا۔ پھر ایک وقت آیا جب اسلامی سلطنت کی حدیں شرق تا غرب تک پھیل گئیں، تہذیب و ثقافت اور رہن سہن کے طریقوں میں تبدیلیاں آگئیں، لوگوں نے اپنی رہائش کے لیے بڑے بڑے کشادہ اور پختہ مکانات بنانا شروع کر دیے۔ بنو اُمیہ اور بنو عباس کے دورِ حکومت اور مابعد اِسلامی مملکت کے جاہ و جلال کے دور میں مسلمانوں نے عالی شان محلات تعمیر کیے تو علماء نے وقت کے تقاضوں کے مطابق مساجد کی تعمیر کو بھی اسی طرح نہ صرف جائز کہا بلکہ عظمتِ اسلام کے پیش نظر ضروری قرار دیا۔
    اگر مساجد کی تعمیر میں تبدیلی پر غور کیا جائے تو اس کی مصلحت اب سمجھ میں آتی ہے کہ اس وقت لوگوں کے اپنے گھر کچے ہوتے تھے لہٰذا اﷲ کے گھر کا کچا ہونا باعثِ ننگ و عار نہ تھا۔ لیکن جب لوگوں کے اپنے مکانات پختہ محلات میں بدل گئے تو خانۂ خدا کی وجاہت اور ظاہری رعب و دبدبہ کے پیشِ نظر پختہ اور خوبصورت مساجد کی تعمیر کے جواز کا فتویٰ دے دیا گیا۔ اِس سے واضح ہوتا ہے کہ دین کو اگر ظاہری لفظوں سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اس سے (الا ما شاء اﷲ) گمراہی کے سوا کچھ نہیں ملتا لیکن اگر دین کی اصل روح اور اس میں کار فرما حکمتوں پر غور کر کے اس کے اَحکام کو پرکھا جائے تو دین کا صحیح فہم پیدا ہوتا ہے۔
    3۔ قرآن حکیم کا ترجمہ و تفسیر
    قرآن حکیم کی تعلیمات لوگوں تک پہنچانے کے لیے ضروری تھا کہ اس کے تراجم اور تفاسیر بھی مختلف ممالک کے لوگوں کی زبان اور فہم کے مطابق ہوں لیکن دین کے بارے میں ظاہری الفاظ پر نظر رکھنے والا ناپختہ اور انتہا پسند جامد ذہن ہر دور میں ہونے والے نئے کام کی مزاحمت میں پیش پیش رہا ہے۔ چنانچہ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان میں جب پہلی مرتبہ اسی ضرورت کے پیشِ نظر قرآن حکیم کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا تو یہاں کے ظاہر بیں علماء نے بہت واویلا کیا، کفر و بدعت کے فتاویٰ صادر کیے کہ قرآن کو عربی زبان سے فارسی میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ لیکن آنے والے وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ نئی بدعت مصلحتِ وقت اور عین تقاضائے تبلیغِ دین تھی، جب کہ فتویٰ لگانے والے اُس وقت اس دینی مصلحت سے ناآشنا تھے۔

    اَئمہ و محدثین کی بیان کردہ اَقسامِ بدعت
    دین کے متذکرہ پہلوؤں کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہی اَئمہ و محدثین نے بدعت کی پانچ اقسام بیان کی ہیں، جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
    1۔ اِمام شافعی (150۔ 204ھ)
    شافعی فقہ کے بانی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کی تقسیم ان الفاظ میں کرتے ہیں :
    المحدثات من الأمور ضربان : ما أحدث يخالف کتاباً أو سنة أو أثرًا أو إجماعاً فهذه البدعة ضلالة، وما أحدث من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا، فهذه محدثة غير مذمومة، قد قال عمر رضي الله عنه في قيام رمضان : نعمت البدعة هذه.
    ’’محدثات میں دو قسم کے اُمور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے اُمور ہیں جو قرآن و سنت، آثارِ صحابہ یا اِجماعِ اُمت کے خلاف ہوں۔ پس یہ بدعتِ ضلالہ ہیں۔ اور دوسری قسم میں وہ نئے اُمور ہیں جن کو بھلائی کے لیے اَنجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی کی مخالفت نہ کرتا ہو۔ پس یہ نئے اُمور ناپسندیدہ نہیں ہیں۔ اِسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا : یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔‘‘
    1. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 10 : 70
    2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 202
    3. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 52، 53
    2۔ شیخ عز الدین بن عبد السلام (577۔ 660ھ)
    شیخ عز الدین بن عبد السلام سلمی اپنی کتاب ’’قواعدالاحکام فی مصالح الانام‘‘ میں فرماتے ہیں :
    البدعة فعل ما لم يعهد في عهد النبي صلي الله عليه وآله وسلم، وتنقسم إلي خمسة أحکام يعني الوجوب والندب. . . الخ. وطريق معرفة ذلک أن تعرض البدعة علي قواعد الشرع فأي حکم دخلت فيه فهي منه، فمن البدع الواجبة تعلم النحو الذي يفهم به القرآن والسنة، ومن البدع المحرمة مذهب نحو القدرية، ومن البدع المندوبة إحداث نحو المدارس والاجتماع لصلاة التراويح، ومن البدع المباحة المصافحة بعد الصلاة، ومن البدع المکروهة زَخرفة المساجد والمصاحف أي بغير الذهب.
    ’’بدعت ایسا فعل ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھا اور بدعت کو پانچ اَحکام میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی واجب اور ندب وغیرہ اور اس کی پہچان کا طریقہ کار یہ ہے کہ بدعت کو قواعدِ شرعیہ پر پرکھا جائے گا۔ پس وہ جو حکم شرعی پر پورا اترے گا اسی قسم میں سے ہوگا۔ پس نحو کا علم سیکھنا جس سے قرآن اور سنت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، بدعتِ واجبہ میں سے ہے۔ اور قدریہ جیسے نئے مذہب بنانا بدعتِ محرمہ میں سے ہے۔ اور مدارس بنانا اور نمازِ تراویح جماعت کے ساتھ ادا کرنا بدعتِ مندوبہ میں سے ہے۔ اور نماز کے بعد مصافحہ کرنا بدعتِ مباحہ میں سے ہے۔ اور سونا اِستعمال کیے بغیر مساجد اور قرآن کی تزئین و آرائش کرنا بدعتِ مکروہہ میں سے ہے۔‘‘
    ابن حجر هيتمي، الفتاوي الحديثية : 203
    3۔ ملا علی قاری حنفی (م 1014ھ)
    ملا علی قاری حنفی ’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ کی شرح ’’مرقاۃ المفاتیح‘‘ میں لکھتے ہیں :
    قال الشيخ عز الدين بن عبد السلام في آخر کتاب القواعد : البدعة : أما واجبة کتعلم النحو لفهم کلام اﷲ ورسوله وکتدوين أصول الفقه والکلام في الجرح والتعديل. وأما محرمة کمذهب الجبرية والقدرية والمرجئة والمجسمة. والرد علي هؤلاء من البدع الواجبة لأن حفظ الشريعة من هذه البدع فرض کفاية. وأما مندوبة کإحداث الربط والمدارس وکل إحسان لم يعهد في الصدر الأول وکالتراويح أي بالجماعة العامة والکلام في دقائق الصوفية. وأما مکروهة کزخرفة المساجد وتزوين المصاحف يعني عند الشافعية، وأما عند الحنفية فمباح. وأما مباحة کالمصافحة عقيب الصبح والعصر أي عند الشافعية أيضًا وإلا فعند الحنفية مکروه، والتوسّع في لذائذ المأکل والمشارب والمساکن وتوسيع الأکمام.
    ’’شیخ عز الدین بن عبد السلام ’’القواعد‘‘ کے آخر میں بدعت کے بارے میں فرماتے ہیں : اﷲ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کو سمجھنے کے لیے نحو کا سیکھنا، اُصولِ فقہ کی تدوین کرنا اور علم جرح و تعدیل کا حاصل کرنا بدعتِ واجبہ ہے، جب کہ بدعتِ محرمہ میں نئے مذاہب کا وجود ہے جیسے جبریہ، قدریہ، مرجئہ اور مجسمہ اور ان تمام کا ردّ بدعتِ واجبہ سے کیا جائے گا کیوں کہ اِسی بدعت سے شریعت کی حفاظت کرنا فرضِ کفایہ ہے۔ جب کہ سرائیں اور مدارس کا قیام اور ہر قسم کی نیکی کے فروغ کے کام جو اِسلام کے اِبتدائی دور میں نہ تھے جیسے باجماعت نمازِ تراویح اور تصوف کے پیچیدہ نکات و رموز پر گفتگو کرنا بدعتِ مندوبہ میں شامل ہیں۔ شوافع کے ہاں مساجد اور قرآن کی تزئین و آرائش کرنا بدعتِ مکروہہ ہے، جب کہ اَحناف کے ہاں یہ اَمر مباح ہیں۔ اور شوافع کے ہاں فجر اور عصر کے بعد مصافحہ کرنا بدعتِ مباحہ ہے، جب کہ اَحناف کے نزدیک یہ اَمر مکروہ ہیں اور اِسی طرح لذیذ کھانے، پینے اور گھروں کو وسیع کرنا (جیسے اُمور بھی بدعتِ مباحہ میں شامل) ہیں۔‘‘
    ملا علي قاري، مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 1 : 216
    کلّ بدعۃ ضلالۃ کا صحیح مفہوم
    ملا علی قاری کل بدعۃ ضلالۃ کا صحیح مفہوم واضح کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں :
    أي کل بدعة سيئة ضلالة، لقوله عليه الصلاة والسلام : من سنّ في الإسلام سنّة حسنة فله أجرها وأجرمن عمل بها‘‘ وجمع أبوبکر وعمر القرآن وکتبه زيد في المصحف وجدد في عهد عثمان رضي الله عنهم.
    ’’یعنی ہر بری بدعت گمراہی ہے کیوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشاد ہے : ’’جس نے اِسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اُسے اُس عمل کا اور اُس پر عمل کرنے والے کا اَجر ملے گا۔‘‘ اور یہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم جمع کیا اور حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اِسے صحیفہ میں لکھا اور عہد عثمانی میں اِس کی تجدید کی گئی۔‘‘
    1. ملا علي قاري، مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 1 : 216
    2. شبير احمد ديوبندي، فتح الملهم بشرح صحيح مسلم، 2 : 406
    2۔ ابن حجر مکی بدعت کی اَقسام بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
    وفي الحديث : کل بدعة ضلالة، وکل ضلالة في النار. وهو محمول علي المحرّمة لا غير.
    ’’اور جو حدیث میں ہے کہ ’’ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی‘‘ اس حدیث کو بدعتِ محرّمہ پر محمول کیا گیا ہے، اِس کے علاوہ اور کسی پر نہیں۔‘‘
    ابن حجر هيتمي، الفتاوي الحديثية : 203
    بدعت کی اس تقسیم کے بعد معلوم ہوا کہ اگر بدعت شریعت کے مستحسنات کے تحت آ جائے تو وہ بدعتِ حسنہ ہے اور اگر مستقبحات کے تحت آجائے (یعنی مخالف دلیل ہو) تو بدعتِ سیئہ ہے اور اگر ان دونوں میں نہ آئے تو وہ بدعت مباحہ ہے۔
    تقسیمِ بدعت
    مذکورہ بالا تعریفاتِ بدعت کی روشنی میں ہم ذیل میں خلاصتہً محدثین و اَئمہ کی بیان کردہ بدعت کی تقسیم بیان کریں گے۔ بنیادی طور پر بدعت کی دو اَقسام ہیں :
    1۔ بدعتِ حسنہ
    2۔ بدعتِ سیئہ

    جو کام بظاہر اپنی ہیئت میں نیا ہو لیکن اصلا" شرعاً ممنوع ہو نہ واجب کی طرح ضروری ہو بلکہ عام مسلمان اسے مستحسن اَمر سمجھتے ہوئے ثواب کی نیت سے کریں تو اس کے نہ کرنے والا گناہ گار بھی نہیں ہوتا لیکن کرنے والے کو ثواب ملتا ہے، جیسے مسافر خانوں اور مدارس کی تعمیر وغیرہ ہر وہ اچھی بات جو پہلے نہیں تھی اس کا ایجاد کرنا بھی بدعتِ مستحبہ ہے، جیسے نمازِ تراویح کی جماعت، تصوف و طریقت کے باریک مسائل کا بیان، محافلِ میلاد، محافلِ عرس وغیرہ جنہیں عام مسلمان ثواب کی خاطر منعقد کرتے ہیں اور ان میں شرکت نہ کرنے والا گناہ گار نہیں ہوتا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اﷲ عنھما نے فرمایا :
    فما رآه المؤمن حسناً فهو عند اﷲ حسن، وما رآه المؤمنون قبيحاً فهو عند اﷲ قبيح.
    ’’جس کو (بالعموم) مومن اچھا جانیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جس کو مومن برا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے۔‘‘
    1. بزار، البحر الزخار (المسند)، 5 : 212، 213، رقم : 1816
    2. طيالسي، المسند، 1 : 33، رقم : 246
    3. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 379، رقم : 3600
    4. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 83، رقم : 4465
    5۔ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد و منبع الفوائد (1 : 177، 178)‘‘ میں کہا ہے کہ اِسے احمد، بزار اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اِس کے رجال موثق (ورجالہ موثقون) ہیں۔
    6۔ عجلونی نے ’’کشف الخفاء ومزیل الالباس (2 : 245، رقم : 2214)‘‘ میں کہا ہے کہ یہ روایت موقوف حسن ہے۔
    اِس تعریف کی رُو سے جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدعتِ مستحسنہ ہے، جسے مومن ثواب کی نیت سے کرتے ہیں اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اﷲ عنھما کے قول کے مطابق یہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں بھی مقبول ہے کیوں کہ اِسے جمہور مسلمان (سوادِ اَعظم) مناتے ہیں۔

    اگر کسی نئے عمل کی اصل قرآن حکیم یا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہو جائے تو پھر وہ طعن و تشنیع اور گمراہی یا گناہ کا باعث نہیں رہتا اور اگر بہ فرضِ محال قرآن و سنت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ثابت نہ بھی ہو لیکن اس سے قرآن و سنت کی مخالفت نہ ہوتی ہو تو پھر بھی وہ کسی قسم کی قباحت کا باعث نہیں بنتا اور نہ ہی اس پر طعن و تشنیع درست ہے۔ البتہ صرف اس صورت میں کوئی بدعت ناجائز اور قبیح کے زمرے میں شامل ہو کر قابلِ مذمت ٹھہرے گی جب وہ قرآن و سنت کی کسی نص یا شریعت کے کسی حکم کے خلاف ہو یا دین کے عمومی مزاج اور اُس کی روح کے منافی ہو۔
    قرآن و حدیث میں جشنِ میلاد کی اَصل موجود ہے
    قرآن حکیم کی آیات اور متعدد احادیث کے ذریعے جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی حیثیت اور اس کی اصل غرض و غایت صراحت کے ساتھ بیان کی جا چکی ہے۔ لہٰذا اَصلاً حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کو اﷲ تعالیٰ کی نعمت اور اُس کا اِحسانِ عظیم تصور کرتے ہوئے اِس کے حصول پر خوشی منانا اور اسے باعث مسرت و فرحت جان کر تحدیثِ نعمت کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے بہ طور عید منانا مستحسن اور قابلِ تقلید عمل ہے۔ مزید برآں یہ خوشی منانا نہ صرف سنتِ اِلٰہیہ ہے بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی سنت بھی قرار پاتا ہے، صحابہ کرام کے آثار سے بھی ثابت ہے اور اِس پر مؤید سابقہ امتوں کے عمل کی گواہی بھی قرآن حکیم نے صراحتاً فراہم کر دی ہے۔ اب بھی اگر کوئی اس کے جواز اور عدم جواز کو بحث و مناظرہ کا موضوع بنائے اور اس کو ناجائز، حرام اور قابلِ مذمت کہے تو اسے ہٹ دھرمی اور لاعلمی کے سوا اور کیا کہا جائے گا!

    حوالہ جاتی کتاب ۔۔ میلاد النبی :drood:
     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا جشن میلاد النبی منانا بدعت ہے مگر کیوں (ضرور پڑھیئے)۔

    میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےمنکرین اور اس پر پر شرعی دلیل طلب کرنے والوں کی خدمت میں

    اَحکامِ اِلٰہیہ سے مستنبط اُصول و قوانین ہر شرعی عمل کی اَساس ہیں اور ہر عمل سنتِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بنیاد پر استوار ہے۔ یہی اس دین کی حقانیت و صداقت کی وہ بیّن دلیل ہے جو اسے دیگر اَدیانِ باطلہ سے ممتاز کرتی ہے۔ اِس ضمن میں ہم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ طور عید منانے اور اِظہار مسرت کرنے کی بابت نصوصِ قرآن و حدیث کے ساتھ تفصیلی بحث کر چکے ہیں لیکن ایسے حضرات کے لیے جو بلاوجہ میلاد شریف کے موقع پر فتویٰ بازی سے جمہور مسلمانوں کو کفر و شرک اور بدعت کا مرتکب ٹھہراتے ہیں اور ہر بات پر قرآن و سنت سے دلیل طلب کرتے ہیں اُن کے دل و دماغ تنگ نظری کا شکار ہیں اور وہ بزعم خویش یہ سوچتے ہیں کہ اِس عمل کا کوئی شرعی ثبوت نہیں؟
    میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی نعمتِ عظمی پر شکرانے کے ثبوت طلب کرنے والے نادان اور کم نصیب لوگوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ زندگی میں ہزارہا دنیاوی خوشیاں مناتے وقت کبھی قرآن و حدیث کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھ لیں کہ اِس کا ذکر اِن میں ہے یا نہیں؟
    1۔ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ جب کبھی ایک مدت کے بعد اولاد پیدا ہو تومٹھائیاں بانٹی جاتیں اور دعوتیں دی جاتیں ہیں؟ کیا اُس وقت بھی کتبِ حدیث اٹھا کر یہ ثبوت طلب کیا جاتا ہے کہ آیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا کسی صحابی نے بیٹوں کی پیدائش پر مٹھائی بانٹی تھی؟
    2۔ ہر سال اپنے بچوں کی سالگرہ پر ہزاروں لاکھوں کی ضیافتیں کرنے والوں نے کیا کبھی قرآن و حدیث سے اِس بارے میں بھی ثبوت تلاش کیا ہے؟
    3۔ عام معمول ہے کہ جب کسی کی شادی قریب ہوتی ہے تو کئی کئی مہینے اِس کی تیاریوں میں گزرتے ہیں۔ اِشتہار اور دعوتی کارڈ چھپوائے جاتے ہیں، رسم و رواج اور تبادلہ تحائف پر لاکھوں روپے اڑائے جاتے ہیں۔ اچھے کپڑے پہنے جاتے ہیں۔ ولیمہ پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں، اپنے خویش و اَقارب اور دوست و اَحباب کی حتی الوسع خدمت کی جاتی ہے۔ کیا اس موقع پر بھی ہم نے کبھی قرآن و حدیث سے دلیل طلب کی کہ شادیوں پر آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یا ان کے غلاموں نے ایسی خوشیاں منائی تھیں یا نہیں؟ کیا انہوں نے بھی اتنے مہنگے اور پرتکلف کھانے تیار کرائے تھے؟ یہاں اِس لیے ثبوت طلب نہیں کیے جاتے کہ اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کا معاملہ ہے اور بات اپنے گھر تک پہنچتی ہے مگر میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ثبوت یاد آجاتا ہے کیوں کہ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا معاملہ ہے۔
    4۔ 23 مارچ کو آزادی کے حصول کے لیے قرارداد پاس ہوئی اور جد و جہد آزادی کا آغاز ہوا تھا۔ اِس کی خوشی میں ہر سال ملک کے طول و عرض میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر تقریبات، جشن اور محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
    14 اگست غیروں کے تسلط سے آزادی ملی اور مملکتِ خداداد پاکستان کی صورت میں اﷲ تعالیٰ کی نعمت ملی تو اُس دن ہر سال پورے ملک کو دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے، بے پناہ وسائل خرچ ہوتے ہیں، جگہ جگہ جہازوں، ٹینکوں اور گاڑیوں کی سلامی دی جاتی ہے، گارڈ آف آنر پیش ہوتے ہیں۔ یومِ دفاع (6 ستمبر) کی خوشی میں پاک فوج کی جنگی مشقیں دیکھنے کے لیے مخصوص مقامات پر اِجتماعات ہوتے ہیں۔ یہ سب اُمور اگرچہ درست ہیں مگر اِن قومی تہواروں کے لیے عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عہدِ صحابہ سے ثبوت تلاش نہیں کیے جاتے۔
    5۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور حصولِ آزادی کی جد و جہد میں کام کرنے والے رہنماؤں کے یومِ ولادت پر پورے ملک میں عید کا سا سماں ہوتا ہے۔ دفاتر، تعلیمی اور صنعتی اِدارے بند کر دیے جاتے ہیں۔ جلسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے لیے دور دور سے دانش وروں اور زعماء کو بڑے اہتمام سے دعوتیں دے کر بلوایا جاتا ہے اور ان کی شان میں قصیدہ خوانی کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں قرآن و حدیث یا اُسوئہ صحابہ رضی اللہ عنھم سے کسی ثبوت کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ بجا طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ملک و قوم کے رہبروں کی ملی خدمات کو سراہا جانا چاہیے لیکن پوری انسانیت بلکہ کائناتِ ہست و بود کے محسنِ اَعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت آئے تو اُن کی یاد میں محافلِ میلاد اور خوشی کرنے پر ہمیں ثبوت یاد آنے لگتے ہیں اور دلیلیں طلب کرنا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔
    6۔ جب ملک کا یوم تاسیس آئے یا بیرونِ ملک سے کوئی مہمان آئے (خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم) اُسے اِکیس توپوں کی سلامی دی جائے تو اُس وقت قرآن و حدیث سے جواز تلاش نہیں کیا جاتا۔
    7۔ ملک کے صدر، سربراہِ ریاست یا بہت بڑے لیڈر کے اِنتقال پر بڑے اِعزاز کے ساتھ اُس کی تدفین عمل میں آتی ہے، اُس کی وفات پر سوگ کے جلوس نکالے جاتے ہیں، میت پر ماتمی دھنوں سے بینڈ باجے، توپوں کی سلامی ہوتی ہے، پھولوں کی چادریں چڑھتی ہیں، گل پاشیاں اور نہ جانے کیا کیا تقریبات ہوتی ہیں۔ علماء و غیر علماء سب اِن تقریبات میں شریک ہوتے ہیں مگر کسی نے کبھی فتویٰ صادر نہیں کیا۔ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُسوئہ صحابہ رضی اللہ عنھم سے کبھی سند تلاش نہیں کی۔ اِس لیے کہ اِس میں ملک کا اِعزاز اور مرحوم لیڈر کی خدمات کا اعتراف تھا، اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار تھا اور اقوام عالم کے سامنے اپنے قومی وقار کا مسئلہ تھا۔ یہ سب کچھ ٹھیک ہے اور ہمارے نزدیک بھی یہ غلط نہیں ہے۔ ایسا ہونا چاہیے مگر اَمر زیرِ بحث یہ ہے کہ کسی صدر مملکت کے لیے ایسا اہتمام ہو تو کوئی ثبوت نہیں مانگے جاتے لیکن باعثِ موجودات حضرت محمد علیہ الصلوٰت والتسلیمات کے یوم ولادت کے سلسلے میں دلائل اور فتووں کا مطالبہ کیا جاتاہے۔
    8۔سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک میں آج بھی عید الوطنی منائی جاتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ میلاد النبی :drood: کے منکرین کی فکری و علمی تربیت اکثر و بیشتر وہیں سے ہوتی ہے۔ لیکن وہاں پر تو کبھی شرعی دلیلیں طلب نہیں کی جاتیں اور نہ ہی عرب حکمرانوں پر کفر و شرک کے فتوے جڑے جاتے ہیں ؟
    آقائے دوجہاں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا دن آئے تو خوشی منانے کے لیے دلائل و براہین اور ثبوت مانگے جائیں، اس کا صاف مطلب ہے کہ باقی ہر موقع پر خوشی تھی بس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاملے میں دل اِحساسِ مسرت سے محروم ہوگیا اور حکمِ خداوندی۔ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ(1) یاد نہ رہا۔ اَعمالِ حسنہ، عبادت و ریاضت میں کثرتِ ذکر پر بھروسہ کافی محسوس ہونے لگا اور دل اس احساس سے خالی ہوگیا کہ دنیا کی سب سے پیاری، سب سے معظم اور سب سے زیادہ واجب التعظیم ہستی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ ان کی محبت ایمان کی اساس ہے اور ایمان دل کی وہ حالت ہے جسے کیفیت یا حال کہتے ہیں، جسے لگن بھی کہتے ہیں اور لگاؤ بھی، محبت بھی کہتے ہیں اور محبت کا الاؤ بھی۔ یہ الاؤ دل میں جل اٹھے تو مومن اپنی زندگی کے ہر لمحے کو عید میلاد بنا کر مناتا رہے اور اپنے در و دیوار کو آخرت کا گھر سمجھ کر سجاتا رہے۔ ہم سب کو یہ جان لینا چاہیے کہ ان خشک و بے مغز عبادتوں کے ذخیروں کے مقابلے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر خوشی کرنا اﷲ تعالیٰ کی نگاہ میں زیادہ اَفضل عمل ہے۔
    يونس، 10 : 58
    اَفسوس کہ کفر و شرک کے فتاویٰ صادِر کرنے والے منکرِ میلاد بدعتیوں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی خوشیوں پر لاکھوں روپے خرچ کر دیے تو کوئی چیز رکاوٹ نہ بنی لیکن محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ماہِ ولادت جلوہ فگن ہوا تو اِس کے اہتمام پر خود خرچ کرنے کی بجائے دوسروں کو بھی اس سے منع کرتے رہے۔ یاد رہے کہ کوئی خوشی آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشی سے بڑی نہیں، اس کے مقابلے میں دنیا و جہان کی ساری خوشیاں ہیچ ہیں۔
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صاحبِ لولاک ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کائنات کی روح ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہی سے ہمیں کعبہ ملا، اگر کعبہ کو سجایا جا سکتا ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر چراغاں کیوں نہیں ہو سکتا؟ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر آرائش و زیبائش کا اہتمام کرنا بدرجہ اَتم مستحسن اور مقبول عمل ہے۔
    9۔ محافلِ میلاد کے اِنعقاد کے تقاضے
    گزشتہ صفحات میں ہماری معروضات صراحت سے اِس اَمر کی شہادت فراہم کر رہی ہیں کہ جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِہتمام کرنا یقیناً مستحسن اور باعثِ اَجر و ثواب عمل ہے لیکن اِس موقع پر اگر اِنعقادِ میلاد کے بعض قابلِ اِعتراض پہلوؤں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اُنہیں برقرار رہنے دیا جائے تو ہم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوض و برکات سے محروم رہیں گے۔ جب تک اس پاکیزہ جشن میں طہارت، نفاست اور کمال درجہ کی پاکیزگی کا خیال نہیں رکھا جائے گا سب کچھ کرنے کے باوجود اِس سے حاصل ہونے والے مطلوبہ ثمرات سمیٹنا تو درکنار ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضی مول لیں گے۔ محفلِ میلاد ہو یا جلوسِ میلاد، یہ سارا اِہتمام چوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کے سلسلہ میں ہوتا ہے، لہٰذا اس کا تقدس برقرار رکھنا اُسی طرح ضروری ہے جس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مقدسہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس کے آداب ملحوظ رکھے جاتے تھے۔ ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ماحول کی پاکیزگی کو خرافات اور خلافِ شرع بے ہودہ کاموں سے آلودہ نہ ہونے دیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ جشنِ میلاد کے موقع پر محفلیں منعقد کرنا اور صدقہ و خیرات کرنا، جانی و مالی، علمی و فکری غرضیکہ ہر قسم کی قربانی کا جذبہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کے حصول کے لیے ہونا چاہیے۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ صبح و شام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے علاوہ اپنی اُمت کے دوسرے نیک و بد اَعمال بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچھے کام دیکھ کر خوشی کا اظہار فرماتے ہیں اور برائی دیکھ کر ناراضگی اور اَفسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ (1) بالکل اسی طرح ہماری یہ میلاد کی خوشیاں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ اگر ان میں صدق و اخلاص شامل نہیں ہوگا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہماری ایسی محفلوں کے انعقاد سے کیا مسرت ہوگی؟ اور اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر کی جانے والی اس تقریب کو کیوں کر شرفِ قبولیت سے نوازے گا؟ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ صدقہ و خیرات میں کثرت اور اِظہارِ مسرت کے لیے بڑے بڑے جلسے جلوس اُس بارگاہ میں باعثِ شرف و قبولیت نہیں جب تک کہ ظاہری عقیدت میں اخلاصِ باطن اور حسنِ نیت شامل نہ ہو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت اور ادب و تعظیم ہی ہمارے ہر عمل کی قبولیت کی اَوّلیں شرائط میں سے ہیں۔
    1. بزار، البحر الزخار (المسند)، 5 : 308، 309، رقم : 1925
    2۔ ابن ابی اسامۃ نے اِسے صحیح سند کے ساتھ ’’مسند الحارث (2 : 884، رقم : 953)‘‘ میں روایت کیا ہے۔
    3. حکيم ترمذي، نوادر الأصول في أحاديث الرسول صلي الله عليه وآله وسلم، 4 : 176
    4. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 1 : 183، رقم : 686
    6. قاضي عياض، الشفا بتعريف حقوق المصطفي صلي الله عليه وآله وسلم، 1 : 19
    6۔ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (9 : 24)‘‘ میں کہا ہے کہ یہ حدیث بزار نے روایت کی ہے اور اِس کے تمام رجال صحیح ہیں۔
    7. ابن کثير، البداية والنهاية، 4 : 257
    8۔ ابو الفضل عراقی نے ’’طرح التثریب فی شرح التقریب (3 : 297)‘‘ میں اس روایت کی اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔
    اِصلاح طلب پہلو
    یہ بات خوش آئند ہے کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیدہ رکھنے والے اور جشنِ میلاد کے جلوس کا اِہتمام کرنے والے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اتنی محبت و عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ میلاد کی خوشیوں کو جزوِ ایمان سمجھتے ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ درست اور حق ہے، مگر انہیں اس کے تقاضوں کو بھی بہرحال مدنظر رکھنا چاہئے۔ کاش ان عقیدت مندوں کو بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا بھی کما حقہ علم ہوتا!
    اس مبارک موقع کے فیوضات سمیٹنے کے لیے ضروری ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی ان پاکیزہ محفلوں میں اس انداز سے شرکت کریں جس میں شریعتِ مطہرہ کے احکام کی معمولی خلاف ورزی بھی نہ ہونے پائے لیکن فی زمانہ بعض مقامات پر مقام و تعظیم رسالت سے بے خبر جاہل لوگ جشنِ میلاد کو گوناگوں منکرات، بدعات اور محرمات سے ملوث کر کے بہت بڑی نادانی اور بے ادبی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جلوسِ میلاد میں ڈھول ڈھمکے، فحش فلمی گانوں کی ریکارڈنگ، نوجوانوں کے رقص و سرور اور اِختلاط مرد و زن جیسے حرام اور ناجائز اُمور بے حجابانہ سرانجام دیے جاتے ہیں جو کہ انتہائی قابلِ افسوس اور قابلِ مذمت ہے اور ادب و تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراسر منافی ہے۔ اگر ان لوگوں کو ان محرمات اور خلافِ ادب کاموں سے روکا جاتا ہے تو وہ بجائے باز آنے کے منع کرنے والے کو میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منکر ٹھہرا کر اِصلاحِ اَحوال کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔ اُن نام نہاد عقیدت مندوں کو سختی سے سمجھانے کی ضرورت ہے ورنہ جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان ادب ناشناس جہلاء کی اِسلام سوز رسوم و رواج کے باعث پاکیزگی و تقدس سے محروم ہو کر محض ایک رسم بن کر رہ جائے گا۔ جب تک ان محافل و مجالس اور جشن میلاد کو ادب و تعظیم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سانچے میں نہیں ڈھال لیا جاتا اور ایسی تقاریب سے ان تمام محرمات کا خاتمہ نہیں کر دیا جاتا اس وقت تک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا اور خوش نودی ہمارے شاملِ حال نہیں ہوسکتی۔ ایسی محافل میں جہاں بارگاہِ رِسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب سے پہلوتہی ہو رہی ہو نہ صرف یہ کہ رحمتِ خداوندی اور اس کے فرشتوں کا نزول نہیں ہوتا بلکہ اہلِ محفل و منتظمینِ جلوس خدا کے غضب اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
    قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ اس برائی کے خلاف کہیں آواز بلند کی جاتی ہے نہ حکومت کی طرف سے حکمت یا سختی کے ساتھ اس قبیح روش کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ مذہبی طبقے کی خاموشی کی سب سے بڑی وجہ (الا ماشاء اللہ) پیٹ کا دھندا ہے جو ان قبیح رسموں کو روکنے میں آڑے آجاتا ہے۔ مفاد پرست حلقوں کی سوچ یہ ہے کہ اگر ان غیر اَخلاقی و غیر شرعی اُمور کی سختی سے گرفت کی گئی تو شاید جلسے جلوسوں میں ان علماء کی دھواں دھار تقریریں ختم ہو جائیں اور کاروباری حضرات سے ملنے والے معاوضے اور چندے بند ہو جائیں۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ مالی مفادات اور ان گروہی اور نام نہاد محدود مسلکی منفعتوں کی خاطر یہ لوگ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقدس اور عظمت کو پامال کر رہے ہیں۔
    ایسے مواقع پر حکومت کو خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ ضروری ہے کہ وہ ہر ممکن اِصلاحی تدابیر عمل میں لائے۔ کیا وجہ ہے کہ اَربابِ اِقتدار یا سیاسی حکومت کے کسی لیڈر یا عہدے دار کے خلاف معمولی سی گستاخی اور بے ادبی کرنے والے کو حکومت اپنی پولیس فورس کے ذریعے ڈنڈے کے زور سے نہ صرف باز رکھتی ہے بلکہ معاملہ گھمبیر ہو تو قانون شکنی کرنے والوں کو فوراً گرفتار بھی کر لیا جاتا ہے۔ مگر عرس اور میلاد جیسے موقعوں پر بدعمل، اوباش اور کاروباری لوگ ناچ گانے اور ڈانس کا باقاعدہ اہتمام کرتے ہیں، میلے، تھیٹر اور سرکسوں کا انتظام ہوتا ہے، اَولیائے کرام کی پاکیزہ تعلیمات کی دانستہ اور سرِبازار خلاف ورزی ہوتی ہے مگر معلومات کے باوجود حکومت کوئی قانونی کارروائی نہیں کرتی۔ حکومت کے اَربابِ بست و کشاد نہ جانے کیسے گوارا کر لیتے ہیں کہ باقاعدہ پولیس کی نگرانی اور اَمن و امان میں یہ خلافِ شریعت اُمور ہو رہے ہیں۔ ایسے عناصر کو بزورِ قانون خلافِ شریعت حرکات سے روکنا اَشد ضروری ہے۔
    عرس کے موقعوں پر بزرگانِ دین کے مزارات پر آنے کا مقصد قرآن حکیم کی تلاوت اور ان اولیائے کرام کی پاکیزہ تعلیمات سے بہرہ ور ہونے اور ان پر عمل کرنے کا جذبہ ہوتا ہے۔ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوس نعت خوانی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص و شمائل اور فضائل و مراتب کے بیان اور جائز شرعی طریقے سے خوشیاں منانے کے لیے نکالے جاتے ہیں۔

    11۔ اِفراط و تفریط سے اِجتناب کی ضرورت
    بدقسمتی سے آج اُمتِ مسلمہ دو بڑے طبقوں میں بٹ گئی ہے : ایک طبقہ جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سرے سے ناجائز، حرام اور بدعت کہہ کر اِس کا اِنکار کر رہا ہے، جب کہ دوسرا طبقہ میلاد کے نام پر (اِلا ما شاء اللہ) ناجائز اور فحش کام سرانجام دینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ اُنہوں نے بہت سے ناجائز اور حرام اُمور کو داخلِ میلاد کر کے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاکیزہ تصور کو بدنام اور تقدس کو پامال کردیا ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اِفراط و تفریط سے بچتے ہوئے اِن انتہاء پسند رویوں کے بین بین اِعتدال پسندی کی روش اِختیار کی جائے۔ ہم نے میلاد اور سیرت کے نام پر مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ کوئی صرف میلاد کا داعی بن گیا اور کوئی صرف سیرت کا نام لیوا۔ میلاد کا نام لینے والا سیرت سے کتراتا ہے اور سیرت کا داعی میلاد کو ناجائز کہہ کر اپنی دانش وری اور بقراطیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ سوچ ناپید ہے کہ اگر میلاد نہ ہوتا تو سیرت کہاں سے ہوتی اور اگر سیرت کے بیان سے اِحتراز کیا تو پھر میلاد کا مقصد کیسے پورا ہو سکتا ہے! بیانِ میلاد اور بیانِ سیرت دونوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کے طریقے ہیں۔ دونوں ایک شمع کی کرنیں ہیں۔ میلاد کو نہ تو بدعت اور حرام کہہ کر ناجائز سمجھیں اور نہ اِسے جائز سمجھتے ہوئے اس کے پاکیزہ ماحول کو خرافات سے آلودہ کیا جائے۔
    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کی خوشی مناتے ہوئے محافلِ میلاد میں محبت و تعظیم کے ساتھ باوُضو ہو کر شریک ہوں تو یہ اَفضل عبادت ہے۔ میلاد کے جلسے، جلوسوں اور محافل میں سیرت کا ذکرِ جمیل کرنا، لوگوں کو آقائے نامدار حبیبِ کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ سیرت و صورت اور فضائل و شمائل سنانا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور عشق کے نغمے الاپنا ہر سچے مسلمان کا شیوہ ہونا چاہیے کہ اِسی میں پوری اُمتِ مسلمہ کی کامیابی کا راز مضمر ہے اور یہی وقت کی سب سے اہم مذہبی ضرورت ہے۔ ملتِ اِسلامیہ کے واعظین اور مبلغین اگر میلاد اور سیرت کی دو بنیادی حقیقتوں کو الگ الگ کر دیں گے تو عوام الناس تک کلمہ حق کیسے پہنچے گا؟
    واعظین اور مبلغین اگر دین کا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و رسالت کا تحفظ چاہتے ہیں تو یہ ان کی ذاتی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حتی المقدور ناجائز اور خلافِ شرع بدعت، ہرقسم کے منکرات اور فحش اُمور کے خلاف علم جہاد بلند کریں۔
    حکومت کا فرض ہے کہ محافلِ میلاد کا تقدس برقرار رکھنے کے لیے مداخلت کرے اور عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر ناچ گانا اور دیگر خرافات کرنے والوں پر قانونی پابندی لگا دے جس کی خلاف ورزی کرنے والے عناصر کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں تاکہ جلسوں اور جلوسوں کا ماحول ہر قسم کی خرافات اور غیر شرعی اُمور سے پاک رہے۔
    اﷲ تعالیٰ اپنے حبیب مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصدق سے ہمارے حال پر رحم فرمائے، ہمیں میلاد شریف کے فیوض و برکات سمیٹنے، اپنی زندگیاں سیرتِ طیبہ کے سانچے میں ڈھالنے اور منکرات و فواحش سے بچنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ (آمین بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

    بشکریہ حوالہ جاتی کتاب ۔۔ میلاد النبی :drood:
     
  10. ناصر نعمان
    آف لائن

    ناصر نعمان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مئی 2011
    پیغامات:
    21
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا جشن میلاد النبی منانا بدعت ہے مگر کیوں (ضرور پڑھیئے)۔

    ہمارے خیال سے اگر نعیم بھائی کے اس طویل مضمون کے جواب میں ہم بھی ایسا ہی ایک طویل مضمون کہیں سے کاپی پیسٹ کردیں تو کیا اس طرح قارئین کرام مسئلہ سمجھ سکیں گے ؟؟؟
    اور اگر یہ طریقہ درست ہے تو پھر ہمارے خیال میں اس طرح ڈسکشن فورم کی ضرورت باقی نہیں رہتی پھر اس کے لئے لائبریری ہی کافی ہیں ۔
    بہرحال ہم بحث برائے بحث کے قائل نہیں کہ ہم جوابا اتنا ہی لمبا ایک طویل مضمون پوسٹ کریں ۔۔۔۔ہم کوشش کرتے ہیں‌کہ کسی بھی فورم پر جو بھی بات ہو بامقصد ہو اور اس بات چیت کو انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے کچھ سیکھنا سیکھانا مقصد رہے تو ان شاء اللہ تعالیٰ اس طرح یہ عمل دنیا و آخرت دونوں کے لئے مفید رہے گا
    آخر میں ہماری اُن تمام بھائیوں بہنوں سے درخواست ہے جو غیر جانبداری سے مذکورہ مسئلہ سمجھنے سمجھانے میں سنجیدہ ہوں تو وہ اپنے اشکالات مختصرا ضرور لکھیں ۔۔۔۔ اگر ہمیں اپنے دلائل میں کمزوری محسوس ہوئی تو ہمیں اپنی رائے تبدیل کرنے میں‌ذرہ برابر بھی عار محسوس نہیں ہوگی ۔
    (اشکالات تحریر کرنے والے حضرات اس دھاگہ کے پچھلے صفحہ پر ہماری پوسٹ نمبر 60 یا پوسٹ نمبر 39 کا ضرور مطالعہ فرماکر ہمارا موقف سمجھ لیں اس کے بعد اپنا جواب تحریر فرمائیں نیز اگر کوئی بات سمجھنے میں دشواری ہو تو مختصرا ضرور لکھیں ان شاء اللہ ہم واضح کرنے کی کوشش کریں گے(
    اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین
     
  11. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا جشن میلاد النبی منانا بدعت ہے مگر کیوں (ضرور پڑھیئے)۔

    جناب برادم نعیم صاحب نے میلادکے حق میں قرآن کی آیت 39سورہ ابراہیم کاحوالہ دیالیکن مذکورہ سورہ کی کسی بھی تفسیرکی کتاب میں مجھے تویہ نہیں ملاکہ مذکورہ سورہ میلادپردلالت کرتی ہے اگرایسی کوئی بات ہے توآپ کومفسرکانام بھی لکھناچاہیئے تھا۔نہ حافظ ابن کثیررح اورنہ ہی حضرت ابن عباس رض مذکورہ آیت کی تفسیرآپ کی والی کرتے ہیں۔
    حافظ ابن کثیر رح اس آیت کی تفسیر کرتے لکھتے ہیں کہ تونے مجھے بیٹادیاجبکہ میں بوڑھاتھا۔قصہ یہ ہے آپ ع کواولادنرینہ تب ہوئی جب آپ ع عمررسیدہ تھے توآپ ع کی دعاپریہ آیت ہے جس پرآپ ع اللہ کاشکربجالارہے ہیں۔مجھے معلوم نہیں کہ میرے دوست نے اس آیت کومیلادکے لئے دلیل کیسے بنالیاجبکہ خود حافظ ابن کثیررح بھی ایسانہیں کررہے ہیں۔
    اسکے بعدمیرے پیارے دوست نے مريم، 19 : 15کی آیت کاحوالہ دیاہے مجھے نہیں معلوم کس طرح یہ آیت میلادپردلالت کرتی ہے جبکہ امام ابن جوزی رح لکھتے ہیں کہ آپ ع کی پیدائش رحمت اس طرح تھی کہ آپ ع ہرگناہ سے بچے ہوئے تھے اور حافظ ابن کثیر رح بھی رحمت کواسی معنی میں لیتے ہیں اب اللہ ہی بہترجانتاہے کہ جناب نعیم صاحب نے اسے میلادکے مطلب میں کیسے لیااورکیوں کرلیا۔
    اسی سورہ کی ایک اورآیت کاحوالہ بھی جناب نے دیا آیت ہے 33تفسیرابن جریرطبری کے مطابق کہ آپ ع کاگھرانہ دینداری کے لئے مشہورتھااورآپ ع کی پاکی بیان ہورہی ہے جسے حضرت عکرمہ رض نے بھی بیان کیاہے۔حافظ ابن کثیر رح کے مطابق آپ ع نے ساری زندگی اللہ کی فرمانبرداری میں گزاری
    اس آیت میں حضرت عیسی ع کے بزرگی بیان ہورہی ہے جیساکہ صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ آپ ص نے فرمایا کہ مجھ میں اورعیسی ع میں زیادہ قربت ہے۔
    اس کے بعدنعیم بھائی نے سورہ آل عمران 38سے 41کاحوالہ دیاہے جسمیں حضرت زکریاع دعاکرتے ہیں پیٹے کی اوراللہ نے فرشتے کے ذریعے انہیں بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں تفسیرابن ابی حاتم میں یہی ہے اورانہوں نے کہیں بھی ان آیات کومیلادسے تعبیرنہیں کیاہے نہ اسے بنیادبناکرمیلادپرکوئی مذہب قائم کیاہے تعجب ہے اسے میلادکے سلسلے میں ایک حوالے کے طورپرپیش کیاجارہاہے۔
    پھرمیرے دوست آیت آل عمران، 3 : 35، 36کاحوالہ دیاہے محمدبن اسحاق رح فرماتے ہیں کہ حضرت عمران رض کی بیوی کواولادنہیں ہوتی تھی انہوں نے دعاکی کہ اسے اولادہوئی توبیت المقدس کووقف کرے گی لیکن اسے لڑکی ہوئ۔اب یہاں حیرت اس بات کی ہے کہ آیات میں میلادکاذکریاپھرمیلادکاثبوت کہاں ہے کس نے اسے میلادکاثبوت قراردیا۔تعجب ہے۔
    پھرایک اورتعجب انگیزحوالہ دیتے ہیں البلد، 90 : 1 – 3اب حیرت اس بات کی ہے کہ مذکورہ بات نہ ان آیات کے حوالے سے نہ امام بخاری رح ،امام ابن جریررح اورنہ ہی ابوعمران جونی رح نے بیان کی لیکن میرے دوست نے اسے بھی میلادکے لئے بطورحوالہ پیش کردیا۔
    البقره، 2 : 151اس آیت میں اللہ اپنے بندوں سے کہتاہے کہ محمد ص اللہ کی ایک نعمت ہیں کاجسکاشکرکرناچاہیئے لیکن اسکے شکرکے لئے میلادمنائویہ بات نہ حضرت ابن عباس رض نے کہی نہ امام بیہقی رح نے کہی ہاں میرے فاضل دوست ضروریہ بات کہہ رہے ہیں۔
     
  12. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا جشن میلاد النبی منانا بدعت ہے مگر کیوں (ضرور پڑھیئے)۔

    میلادبدعت ہے۔
     
  13. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا جشن میلاد النبی منانا بدعت ہے مگر کیوں (ضرور پڑھیئے)۔

    السلام علیکم۔
    ہمیں یاد رہنا چاہیے کہ دین اسلام اوراسکے کل احکامات کی" بنیاد " قرآن و حدیث (سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے۔
    آئمہ ، فقہا، علمائے کرام کی آراء ، تراجم و تفاسیر اسکی "تائید" ہوتی ہیں ۔اسلیے اگر ایک حکم قرآن و سنت نبوی سے واضح ہوچکا ہو تو اسے کسی مترجم ، امام یا عالم دین کے بیان نہ کرنے کی وجہ سے "مردود" قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یہی "اندھی تقلید" دراصل گمراہی و تعطل کی بنیاد بنتی ہے۔اور پھر خاص طور پر جب انسان تائید بھی محض اپنے پسندیدہ علمی اشخاص ہی کی تلاش کرے تو یہ قرآن و سنت کی اتباع نہیں بلکہ "شخصیت پرستی" بن جاتی ہے۔ جس سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔
    کیونکہ اللہ پاک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرما دیا ہے۔
    ولقد یسرنا القرآن لذکر فھل من مدکر (القمر:١٥)۔
    ترجمہ:ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لئے آسان ذریعہ بنا دیا ہے۔ پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟
    شھر رمضان الذی انزل فیہ القر آن ھدی للناس و بینٰت من الھدی والفرقان۔۔ (سورۃ البقر ہ: 185)
    ’’ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے۔
    وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا (الحشر:٧)
    جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے تم کو روک دے اس سے رک جائو“۔
    من یطع الرسول فقد اطاع اﷲ (النساء:٨٠)
    جو رسول کی اطاعت کرتا ہے اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کرلی“۔
    اسی طرح احادیث مبارکہ سے بھی ہمیں دین اسلام کو سمجھنے کی یہی کسوٹی ملتی ہے۔
    عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم خَطَبَ النَّاسَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَقَالَ : يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمْ مَا إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ فَلَنْ تَضِلُّوْا أَبَدًا : کِتَابَ اﷲِ وَسُنَّةَ نَبِيِهِ.
    رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
    الحاکم في المستدرک، 1 / 171، الرقم : 318،
    البيهقي في السنن الکبري، 10 / 114، وفي الاعتقاد، 1 / 228،
    المنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 41، الرقم : 66،
    ابن هشام في السيرة النبوية، 6 / 10.

    ’’حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں سے خطاب فرمایا اور فرمایا : اے لوگو! یقیناً میں تمہارے درمیان ایسی شے چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے یعنی اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت۔‘‘
    امام حاکم نے اسے صحیح الاسناد قرار دیا۔

    عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضي الله عنه قَالَ : وَعَظَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَوْمًا بَعْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مَوْعِظَةً بَلِيْغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُوْنُ وَ وَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوْبُ، فَقَالَ رَجُلٌ : إِنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ : أُوْصِيْکُمْ بِتَقْوَي اﷲِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْکُمْ يَرَي اخْتِلَافًا کَثِيْرًا، وَإِيَاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ، فَإِنَّهَا ضَلَالَةٌ، فَمَنْ أَدْرَکَ ذَلِکَ مِنْکُمْ، فَعَلَيْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِيْنَ، عَضُّوْا عَلَيْهَا بَالنَّوَاجِذِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
    وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

    الترمذي في السنن، کتاب : العلم عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في الأخذ بالسنة واجتناب البدع، 5 / 44، الرقم : 2676،
    أبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في لزوم السنة، 4 / 200، الرقم : 4607،
    ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب : اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهديين، 1 / 15، الرقم : 42، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 126،
    ابن حبان في الصحيح، 1 / 178، الرقم : 5،
    الحاکم في المستدرک، 1 / 174، الرقم : 329، وقال : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ لَيْسَ لَهُ عِلَّةٌ،

    ’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فجر کی نماز کے بعد ہمیں نہایت فصیح و بلیغ وعظ فرمایا، جس سے آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے اور دل کانپنے لگے۔ ایک شخص نے کہا : یہ تو الوداع ہونے والے شخص کے وعظ جیسا (خطاب) ہے۔ یا رسول اﷲ! آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمہیں پرہیزگاری اور سننے اور ماننے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ تمہارا حاکم حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ خبردار (شریعت کے خلاف) نئی باتوں سے بچنا کیونکہ یہ گمراہی کا راستہ ہے لہٰذا تم میں سے جو یہ زمانہ پائے تو وہ میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑے، تم لوگ (میری سنت کو) دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ لینا (یعنی اس پر سختی سے کاربند رہنا)۔‘‘
    امام ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا اور امام حاکم نے کہا اس حدیث کی صحت میں کوئی علت نہیں۔
    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خلفائے راشدین کی سنت کو بھی اپنی سنت کے ساتھ شامل فرمایا تو یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ بدعتِ حسنہ کا اجراء بذاتِ خود خلفائے راشدین کی سنت ہے۔
    حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باجماعت نماز تراویح کی بدعت پر ارشاد فرمایا :
    نعم البدعة هذه، والتي ينامون عنها أفضل من التي يقومون.
    ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور رات کا وہ حصہ جس میں لوگ سو جاتے ہیں اُس حصہ سے بہتر ہے جس میں وہ قیام کرتے ہیں۔‘‘
    بخاري، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906
    قرآن مجید کا جمع کرنا ۔
    نماز تراویح باجماعت
    نمازِ جمعہ سے قبل دوسری اذان

    نماز جمعہ میں خطبہ سے پہلے دوسری اذان عہدِ عثمانی رضی اللہ عنہ میں شروع کی گئی تھی۔
    أن التأذين الثاني يوم الجمعة، أمر به عثمان، حين کثر أهل المسجد.
    ’’بے شک جمعہ کے دن دوسری اذان کا حکم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دیا جب مسجد میں آنے والوں کی تعداد زیادہ ہوگئی۔‘‘
    بخاري، الصحيح، کتاب الجمعة، باب الجلوس علي المنبر عند التأذين، 1 : 310، رقم : 873
    یہ سب وہ بدعاتِ حسنہ ہیں جو خلفائے راشدین کے دور میں شروع ہوئیں۔اور سنتِ خلفائے راشدین المھدین قرار پائیں۔ سو یہ اصول طے پا گیا کہ قیامت تک قرآن و سنت کی مطابقت میں ہر نیک عمل بدعتِ حسنہ اور سنتِ خلفائے راشدین قرار پائے گا۔
    اسی اصول کے تحت بعد کے ادوار میں تاریخ اسلام میں بےشمار ایسے دینی امور شروع ہوئے جو دورِ نبوی یا دورِ خلفائے راشدین میں بظاہر نظر نہیں آتے۔ مثلا
    اسلامی دنیا میں رائج چند بدعاتِ حسنہ
    1-پختہ اور عالیشان مساجد
    2-مساجد میں لاؤڈ سپیکرز
    3-قرآن حکیم پر اعراب
    4-قرآن حکیم کا ترجمہ و تفسیر
    5-جمع حدیث و شرحِ حدیث
    6-صرف ، نحو، فقہ سمیت دیگر علوم و فنون
    جو اس اسلامی شریعت کو سیکھنے کی بنیاد بنتے ہیں
    7-تبلیغی و اصلاحی اجتماعات
    8-انٹرنیٹ کے ذریعے تبلیغ دین

    یہ سب وہ امور دین ہیں جو دنیا بھر بشمول عرب و عجم جاری و ساری ہیں
    اگر کسی کو صرف میلاد منانا ہی بالفرض (معاذ اللہ) بدعت اور گمراہی نظر آتا ہے تو پہلے کعبۃ اللہ و مسجد نبوی شریف سمیت دنیا بھر سے یہ بدعات ختم کروا لیں ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    میلاد ۔ کا معنی ولادت ہوتا ہے۔ مولود یا موالد بھی عربی میں کہا جاتا ہے۔ ۔ میلاد عربی لفظ ہے جسے ترمذی (210۔ 279ھ)، طبری (224۔ 310ھ)، ابن کثیر (701۔ 774ھ)، سیوطی (849۔ 911ھ) اور عسقلانی (773۔ 852ھ) سمیت متعدد مفسرین، محدّثین، مؤرّخین اور اَصحابِ سیر نے اِستعمال کیا ہے۔ قرآن حکیم کی جن آیات میں انبیائے کرام علیھم السلام کی ولادت کا ذکر اوپر بیان ہوا۔ اس سے یہی استدلال کرنا مقصود ہے کہ انبیائے کرام کی ولادت یعنی میلاد کا ذکر کرنا سنتِ الہی ہے۔
    اور پھر جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صحابہ کرام کی مجالس و محافل میں اپنی ولادت یعنی میلاد کاذکر کیا اور نعت خوان صحابہ کرام سے اپنی ولادت یعنی میلاد کا ذکر سنا ۔ تو میلاد براہ راست سنتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہوگیا۔
    اس کے علاوہ ولادتِ مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت چراغاں کرنا خود رب کریم کی سنت جسے سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کی زبانی متعدد کتب میں نقل کیا گیا۔
    تاریخ اسلام بتاتی ہے کہ 1916 تک یعنی کم و بیش 96 سال پہلے تک مکہ مکرمہ میں میلاد کا جلوس نکلتا تھا۔ جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ولادت سے ہوتا ہوا صحنِ کعبہ میں اختتام پذیر ہوتا تھا یہاں علمائے کرام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد و سیرت کا بیان کرتے اور دعائے خصوصی کی جاتی۔
    ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بعد جب نجدی و وہابی طرز فکر کے علمبردار اہل سعود کی حکومت برسرِ اقتدار آئی تو انہوں نے صدیوں سے جاری یہ نیک امور رکوائے ۔ بلکہ جنت البقیع اور جنت المعلی سمیت حجاز مقدس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان سے منسوب اہل بیت اطہار و صحابہ کرام کے مزارات و تبرکات پر بھی "شرک، بدعت، گمراہی " کے فتوے لگا کر صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ استغفر اللہ العظیم۔
    جبکہ اللہ پاک نے اپنے محبوب بندوں اور اولیاء اللہ اصحابِ کہف سے نسبت رکھنے والے کتے کو بھی "کلبہم باسط" (سورہ کہف) فرما کر قرآن میں مذکور کرکے امر کردیا۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم ولادت کو عیدِ میلاد اور عیدِ نبوی کا نام دینا اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ ہمارے نزدیک شرعی طور پر صرف دو ہی عیدیں ہیں : عید الفطر اور عید الاضحی۔ حالاں کہ بنظر غائر دیکھا جائے تو یومِ میلاد ان عیدوں سے کئی گنا بلند رُتبہ اور عظمت کا حامل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے صدقہ و توسط سے ہمیں تمام عیدیں، تمام تہوار اور اسلام کے تمام عظمت والے دن نصیب ہوئے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوتی نہ قرآن نازل ہوتا، نہ معراج ہوتی، نہ ہجرت ہوتی، نہ جنگ بدر میں نصرتِ خداوندی ہوتی اور نہ ہی فتحِ مبین ہوتی۔ یہ تمام چیزیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے تصدق و توسل سے نصیب ہوئی ہیں۔

    اللہ پاک ہمیں اپنے پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے اپنی جان، اپنی اولاد و والدین و کل انسانوں سے زیادہ سچی محبت اور سچی غلامی عطا فرمائے ۔ اور اس لازوال نعمت پر ہدیہ تشکر اور خوشیاں منا کر ورفعنا لک ذکرک کی سعادتیں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ کہ یہی اساسِ ایمان ہے۔

    بخدا خدا کا یہی ہے در، نہیں اور کوئی مفر مقر
    جو وہاں پہ ہو، یہیں آکے ہو، جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں۔ ​

    والسلام علیکم
     
موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اس صفحے کو مشتہر کریں