1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کیا تم سچ مچ پاکستانی ہو ؟ یا بکاؤ پاکستانی

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏28 مارچ 2011۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    کیا تم سچ مچ پاکستانی ہو ؟ یا بکاؤ پاکستانی
    آصف بھٹی ۔کویت
    سیاست ایک بار پھر جیت گئی اور محبت ہمیشہ کی طرح ہار گئی ، لالچ ، پیسہ اور خوف جیت گیا اور رشتے پھر ہار گئے ، چال باز میدان مار گئے اور عام آدمی منہ دیکھتا رہ گیا ، ریمنڈ پھر جیت گیا اور عافیہ پھر ہار گئی ،امریکہ اخلاقی طور پر ہار کر بھی جیت گیا اور ہم اخلاقی طور پر جیت کر بھی ہار گئے ، افسوس کہ ہمارے بونے محض انچاس دن ہی مدافعت کر سکے اور پھر پاؤں چاٹنے لگے ،اپنے چہروں پہ خود کالک پوتی ہے اور اب منہ چھپاتے پھر رہے کچھ سامنے آنے سے گریزاں ہیں اور کچھ بیرون ملک بھاگ گئے ، فیضان اور فہیم کی بات کرنا تو اب بے معنی ہو گیا ہے ، مگر شمائلہ ؟ ہاں وہی شمائلہ ؟ کتنی نادان تھی ، اور کتنی جلد باز ، کیا پتہ گجرات والے بڑے ابا جی اُسے بھی اپنی بیٹی بنا لیتے ، یا ممکن ہے رائیونڈ والے اُس کے سر پر دست شفقت رکھ دیتے ، سیاست کے کتنے روپ ہیں ؟ کوئی نہیں جان سکتا ۔ اور عام آدمی تو کبھی سمجھ ہی نہیں سکتا ، عام آدمی تو محض زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے ہی لگاتا رہ جاتا ہے اور سارا کھیل بالا ہی بالا ختم ہو جاتا ہے ، ہم ایک اذیت پسند اور اندھی قوم کا حصہ ہیں ، بے حس لوگ ہیں ، اپنے اپنے حصے کو بونوں کو اپنے سروں کا تاج بنا رکھا ہے ، نیچ اور پاؤں چاٹتے لوگوں کو اپنے رہنما سمجھتے ہیں ، اُن کے ہر ہر قول و فعل پرآنکھیں بند کر کے دل و جان سے آمین کہتے ہیں ، ہر ہر لمحہ اُنہیں تعظیمی سجدے کرنا ہمارا شعار ہے ، ہماری یاداشت اتنی کمزور ہے کہ ہم محض کچھ دیر پہلے کہی ہو ئی اور بیتی ہوئی بات بھول جاتے ہیں ، ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ بونے کچھ دیر پہلے کیا کہہ رہے تھے ، ہم تو بس ہر ہرجملے پہ سبحان اللہ کہتے ہیں اور ہر ہر ادا پہ واری صدقے جاتے ہیں ۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم اِس سوراخ سے پہلے بھی بار بار ڈسے جا چکے ہیں ، مگر ہم ہر بار پھر یقین کر لیتے ہیں ، ہر بار دھوکہ کھا جاتے ہیں ، ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر بھی ہم نے دھوکہ کھایا ہے ، اور دھوکہ بھی ایسا کہ شاید ہم جیسی کمزور یاداشت والی قوم بھی مدتوں نہ بھول پائے گی ، اِس پورے معاملے میں کیسے یہ بونے ہمیں دھوکہ دیتے رہے ؟ اور ہم اتنے سادہ لوح کہ یقین کر لیا اور پھولے نہ سماتے تھے ، کہ اِس بار ہمارے بونے شاید پاؤں چاٹنے سے باز آ جائیں ، مگر کیا کوئی اپنی فطرت بدل سکتا ہے ؟ کیا یہ ممکن ہے ؟ اگر ہے تو بحیثیت قوم کیا ہم اپنی فطرت بدل سکتے ہیں ؟ کیا ہم زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں سے زیادہ بھی کچھ سوچ سکتے ہیں ؟ کیا ہم کچھ ہی دیر کے لیے اپنے پاؤں چاٹتے راہنماوں کو تعظیمی سجدے کرنا ملتوی کر کے اُن سے اُن کے قول و فعل کی تضاد پر سوال کر سکتے ہیں ؟ کیا ہم اپنی بھولنے کی عادت چھوڑ سکتے ہیں ؟ کیا ہم خود کو ڈسنے والوں کا سر کچلنے کی ہمت کر سکتے ہیں ؟ کیا ہم عافیہ کی رہائی کے لیے صرف ایک روز میں لاکھوں کی ریلی نکالنے والوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ اُس کے بعد کیا ہوا ؟ عافیہ تو اب بھی وہیں ہے ؟ کیا اُن کا مقصد محض اپنے مسلز دکھانا نہیں تھا ؟ یا وہ واقعی عافیہ کے لیے سنجیدہ تھے ؟ فہیم اور فیضان کے لیے ایک دن امریکہ سے سوالات کرنے والے اب کہاں ہیں ؟ انقلاب کی باتیں کرنے والے اب کہاں ہیں ؟ کیا ہم شریفوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ دل کے ڈاکٹر صرف لندن میں ہی ہیں ؟ کیا منہ چھپانے کا اور کوئی طریقہ نہ تھا ؟ اور کیا گجرات والے بڑے ابا جی بتائینگے کہ بیٹیاں بنا کر ہی سیاست کی جاسکتی ہے ؟ اِس سب سے پہلے تو ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا ہم سوال کر سکتے ہیں ۔۔
    کیا ہم سچ مچ پاکستانی ہیں ؟ یا بکاؤ پاکستانی ؟
     

اس صفحے کو مشتہر کریں