1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کیا آپ کے ہاتھ بالکل نہیں کانپے؟

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏15 اپریل 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    کیا آپ کے ہاتھ بالکل نہیں کانپے؟
    15 اپریل 2017

    یہ کیسی اندھی محبت ہے؟ معاف کیجئے گا یہ محبت نہیں دشمنی ہے۔ لوگ نبی ﷺ کے نام پر قتل و غارت گری مچا رہے ہیں اور پھر حب داری کا دعویٰ بھی۔ یہ تو نری شدت پسندی ہے، جہالت ہے۔

    رحمتِ سیدِؐ لولاک پہ کامل ایمان
    امتِ سیدِؐ لولاک سے خوف آتا ہے


    لاٹھیاں، پتھر، جوتے، گالیاں، طعنے، چیخ و پکار اور لہو لہان ہجوم کے آگے بے بس بنا وہ سفید کپڑوں میں ملبوس جوان، جس کا لہو بہہ بہہ کر لباس اور فرش سُرخ کر چکا تھا۔ یا اللہ! کس قدر اذیت میں ہو گا یہ نوجوان یہ صرف تُو جانتا ہے یا وہ خود۔ اردگرد ہاتھ باندھے کھڑا ہجوم کیسی ڈھٹائی سے تماشہ دیکھ رہا ہے، کیمروں میں ریکارڈ کر رہا ہے، لیکن آگے بڑھ کر کوئی اُس کو بچانے کی کوشش نہیں کر رہا۔ یہ بھی تو اُنہی میں سے ایک ہے، یہ بھی تو اُن کے ساتھ اسپورٹس ڈے میں شریک تھا، اُس نے بھی فئیر ویل پارٹی میں باقی تمام طالبعلم جیسا لباس زیب تن کیا تھا، ایک جیسا لائبریری کارڈ، ایک جماعت، ایک جامعہ، ایک سا جسم گوشت پوست سے بنا، پھر کیسے اُس کو اتنی اذیت دی، اتنا ظلم کردیا؟

    دو روز عبد الولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کا بہیمانہ قتل دیکھ کر دل تڑپ گیا، آنکھیں چھلک پڑیں، ذہن میں ابھی تک یہی تصور گردش کررہا ہے کہ ایک نہتے پر اتنی اُفتاد، اتنا تشدد اور پھر اُس پر بھی ہجوم کا دل نہ بھرا تو گولی مار دی گئی۔ کیا یہ کسی جنگل میں ہورہا تھا؟ کسی ویرانے میں؟ شہر سے دور کہیں؟ نہیں یہ مردان ہے، صوبائی دارلحکومت پشاور سے قریب تر، یہاں قانون اور قانون کے رکھوالے سب دسترس میں ہیں، لیکن پھر بھی ایک نوجوان پر توہینِ رسالت ﷺ کا الزام لگا اور ثابت ہوئے بغیر، حقائق جانے بناء، جاہل معاشرے نے سزا کے طور پر اُس کی زندگی اُس سے چھین لی۔

    ہم اُس نبی ﷺ کے اُمتی ہیں جو رحمت العالمین ہیں، جن کا لطف و کرم انسانوں، جانوروں پر یکساں ہیں، ایسے رسول ﷺ کے نام پر قانون ہاتھ میں لے کر کسی انسان کی جان لے لینا یہ کون سی محبت ہے؟ یہ محبت اور عقیدت کے کون سے انداز ہیں؟ ایک مشتعل ہجوم نے بس سنا کہ توہین کا مرتکب ہے اور بناء تحقیق کے شروع ہوگئے؟ پتھر، لاٹھی، ڈنڈے، گھونسے، ارے کسی نے تو سُنا ہوتا، معاملہ دریافت کیا ہوتا، سچ جھوٹ پہچاننے کی کوشش کی ہوتی تو آج مشال خان کی ماں کو اپنے جوان بیٹے کی کٹی پھٹی، چُور چُور لاش نہ دیکھنی پڑتی۔ یہ کیسی اندھی محبت ہے؟ معاف کیجئے گا یہ محبت نہیں دشمنی ہے۔ لوگ نبی ﷺ کے نام پر قتل و غارت گری مچا رہے ہیں اور پھر حب داری کا دعویٰ بھی۔ یہ تو نری شدت پسندی ہے، جہالت ہے۔ اِس ملک میں قانون بھی موجود ہے اور عدالتیں بھی، پھر بھی آپ منصف بنے بیٹھے ہیں اور جلاد کا کردار بھی ادا کررہے ہیں۔ اگر آپ کو کسی سے اختلاف ہے یا کسی پر شبہ ہے تو قانون کی مدد کیجئے، قانون ہاتھ میں نہیں لیجئے۔ آپ ثبوت پیش کریں اور پھر عدالتوں کو فیصلہ کرنے دیجئے۔ یہ ایسا ظلم ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔


    آپ پڑوسی ملک بھارت کے ظلم و ستم کا پرچار کرتے ہیں، اُن پر واویلا مچاتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا بھارت کا وہ اخلاق احمد جس پر گائے کا گوشت کھانے کا الزام لگا کر گھر سے نکال کر مذہبی شدت پسندوں نے لاٹھیاں، اینٹیں برسا کر مار ڈالا تھا، اُس پر دنیا بھر سے ملامت ہوئی، آپ نے بھی انسانیت کے ناطے یقیناً اُس عمل پر اور اُن ظالموں پر ضرور لعنت بھیجی ہو گی جنہوں نے ایک ایسے الزام پر ایک جیتے جاگتے بے گناہ کو اذیت ناک طریقے سے مار ڈالا تھا جو تحقیق کے بعد غلط بھی ثابت ہو گیا تھا۔ تو اب آپ کیسے بھول گئے کہ مشال بھی اُس نبی ﷺ کا امتی تھا جس پر بوڑھی خاتون کچرا پھینک کر توہین کرتی تھی تو آپ مسکرا کر خندہ پیشانی سے در گزر کرتے تھے، یہاں تو ایسا ابھی کچھ ثابت بھی نہیں ہوا، بس کسی نے کہا، کسی نے سنا اور عمل کرنے سب پہنچ گئے۔


    اِس عمل کے بعد سوال تو ہمارے تعلیمی نظام پر بھی اٹھتا ہے کہ آخر یہ نظام کس طرح کی ذہن سازی کر رہا ہے کہ ایک جامعہ میں پڑھنے والا طالب علم بجائے تہذیب، عقل اور شعور کے مطابق زندگی گزارنے کے بدتمیزی، بدعقلی اور عدم برداشت کا شکار ہو رہا ہے۔ مکالمے کے بجائے تشدد اور گولی پر یقین رکھتا ہے، یہ علم نہیں ہے، بس اَن پڑھ کے حلقے سے نکلنے کا جھوٹا دلاسہ ہے، باقی تو سب ویسا ہی ہے۔


    دوسری ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ موثر قانون سازی کی جانب توجہ دے، مشال خان کے قاتلوں کو جلد از جلد سزا دے، اور ایسا قانون ہو جس کے تحت نبی آخر الزمان ﷺ کا نام استعمال کر کے اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے تاکہ کل کو اگر کسی کی کاروبار میں چپقلش، ہمسائیوں سے عداوت اور محبت میں رقابت ہو تو وہ توہین کا سہارا لے کر کسی بے گناہ کو موت سے ہمکنار نہ کر سکے۔


    لیکن اِن ساری باتوں کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ کسی کو بھی نبی کریم ﷺ کی توہین کی اجازت دی جا سکتی ہے، نہیں، آپ ﷺ سے محبت تو ہماری ایمان کی بنیاد ہے، اِس سے بڑھ کر یقیناً ہمارے لئے کچھ بھی نہیں ہے لیکن محض الزام کی بنیاد پر کسی کی جان لے لینا انصاف نہیں، انصاف تو یہ ہے کہ ایسے کسی بھی معاملے میں عدالت سے رجوع کیا جائے، پھر ثبوتوں کی بنیاد پر عدالت کو فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے، وہ جو بھی فیصلہ کرے سب کو قبول و منظور کرنا چاہیئے۔

    تحریر: خوشنود زہرا
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    یہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہیں ہے جہالیت اور سفاکی کا مظاہرہ ہے۔سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے دل نرم ہوتے ہیں۔سخت نہیں ہوتے۔کسی کو حق حاصل نہیں کہ قانون کو ہاتھ میں لے اور اس قدر سفاکی کے ساتھ ایک انسان کو ڈنڈے مار مار کر جان سے مار دے۔سزا جرم ثابت ہونے کے بعد دی جاتی ہے اور سزا دینے کے لئے ایک ادارہ موجود ہے ۔ ہم کسی جنگل میں نہیں رہتے ۔
     
    ھارون رشید اور کنعان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    مشال خان قتل کیس، مرکزی ملزم وجاہت نے اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا
    17 اپریل 2017

    لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن ) مشال خان قتل کیس میں انتہائی اہم ترین پیش رفت ہوئی ہے، نجی ٹی وی جیونیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ واقعے کے مرکزی ملزم وجاہت نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔


    نجی ٹی وی جیونیوز نے کے مطابق ملزم وجاہت نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنا اعترافی بیان ریکارڈ کروا دیا ہے، وجاہت نے تمام واقعے کی ذمہ داری یونیورسٹی انتظامیہ پر ڈالتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ کام کرنے کیلئے یونیورسٹی انتظامیہ نے کہا تھا ، مجھے 13 اپریل کو چیئرمین نے آفس میں بلایا ، آفس میں 15 سے 20 لوگ موجود تھے جبکہ چیئرمین آفس میں انتظامیہ کے علاوہ لیکچرار ضیا اللہ اور اسفند یار بھی موجود تھے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے مجھے کہا کہ مشال خان نے مبینہ طور پر توہین مذہب کی ہے اور میں انتظامیہ کے کہنے پر ہی مشال اور اس کے ساتھیوں کیخلاف تقریر کی۔ ملزم وجاہت کا کہنا تھا کہ اگر مجھے اس سازش کا پتا ہوتا میں یونیورسٹی میں نہ آتا۔ ملزم کا کہنا تھا کہ میں نے لوگوں کو بتایا کہ میں نے خود مشال، عبداللہ اور زبیر کو مبینہ طور پر توہین کرتے ہوئے سنا ہے جبکہ فہیم عالم نے میرے بیان کی لوگو ں کے سامنے فوری گواہی دیدی۔

    ملزم وجاہت نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا اس وقت اکھٹے ہوئے تمام لوگ خاموش تھے اور اسی دوران سیکیورٹی انچارج بلال آیا اور اس نے کہا کہ جس نے مشال کی طرف داری کی ان سے بھی سختی سے نمٹا جائے گا اور وہ خود مشال کو مارے گا۔ وجاہت کا کہنا تھا کہ میرے بیان کے بعد طلبہ مشتعل ہو گئے اگر میں بیان نہ دیتا تو اکھٹے ہوئے افراد واپس چلے جاتے۔ وجاہت کا کہنا تھا کہ میں مشال سے غلط بیانی کرنے پر شرمند ہو، یہ اجلاس بلانا ایڈمنسٹریشن کا مینڈیٹ نہیں تھا ۔

    ح
     
    پاکستانی55 اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں