1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کہیں مطلع نہیں ہوتا، کہیں مقطع نہیں ہوتا

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏1 فروری 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    کہیں مطلع نہیں ہوتا، کہیں مقطع نہیں ہوتا
    غزل کے نام پر صاحب یہاں کیا کیا نہیں ہوتا

    ہماری بے خودی ہے یہ، کہ تم آسیب ہو جاناں؟
    وہاں مِلتا ہے پیمانہ، جہاں رکھا نہیں ہوتا

    ہزاروں غم ہیں دنیا میں مگر شاعر کا غم اِتنا
    جو اچھا شعر سنتا ہوں، وہ شعر اپنا نہیں ہوتا

    بہت سچے تو ہیں بچے مگر ہیں عقل کے کچے
    خدایا عقل دے اِن کو، کہ سچ اچھا نہیں ہوتا

    سنی جب چاپ قدموں کی رفو چکر ہوئے دونوں
    کہ عشق اندھا تو ہوتا ہے، مگر بہرا نہیں ہوتا

    تلفظ "وَزْن" ہے اِس کا، مجھے معلوم ہے لیکن
    یہاں میں "وَزْن" باندھوں تو "وَزَن" پورا نہیں ہوتا

    مُنیبؔ ایسا بھی کیا غم ہے کہ سب کچھ چھوڑ بیٹھے ہو
    سُخن کو ہمنوا کر لو، سفر تنہا نہیں ہوتا

    - اِبنِ مُنیبؔ​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں